اتباعِ نبی ﷺ اور معاشرے کی ترقّیمولانا عبد المتین
مدیر‘ مدرسہ دارِ ارقم‘ لیاری‘ کراچیارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ فِیْکُمْ رَسُوْلَ اللہِ ط لَوْ یُطِیْعُکُمْ فِیْ کَثِیْرٍ مِّنَ الْاَمْرِ لَعَنِتُّمْ………} (الحجرات۷)
’’اور جان لو کہ تمہارے مابین اللہ کا رسول موجود ہے ۔اگر وہ تمہارا کہنا مانا کریں اکثر معاملات میں تو تم لوگ مشکل میں پڑ جائو…‘‘
مذکورہ بالا آیت کا عنوان’’رسول اللہ ﷺ کا کامل اتباع‘‘ ہے۔یہاں آپ ﷺ کے سامنے اپنی رائے کا اظہار کرنے والوں کو یہ تلقین کی جارہی ہے کہ رسول اللہﷺ کو تم اگرچہ بہت سے معاملات میں مشورہ دیتے ہو اور بعض اوقات نبی محترم ﷺ خود بھی مشاورت کرتے رہتے ہیں‘ لیکن یہ سلسلہ مشاورت تک محدود رہے ۔اس سے آگے اس بات کی اجازت نہیں کہ آپﷺ سے اپنی رائے پر اصرار کیا جائے۔
رسول اللہ ﷺ کا اللہ تعالیٰ سے براہِ راست تعلق
اس اصرار نہ کرنے کی وجہ آیت میں ہی ذکر فرمادی کہ’’ اَنَّ فِیْکُمْ رَسُوْلَ اللہِ ‘‘ یعنی تمہارے بیچ اللہ کے رسول موجود ہیں ۔آپﷺ کا مقام و منصب’’ اللہ کا رسول‘‘ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپؐ کا تعلق براہِ راست ربّ العالمین اور آسمانی دنیا سے رہتا ہے ۔وہاں سے مسلسل آپؐ پر وحی کا نازل ہونا اس بات کی علامت ہے کہ رہنمائی کا مرکز نہایت مستند اور شفاف ہے جس میں کسی غلطی اور خطا کا امکان نہیں ہے۔
تمہاری رائے اپنی جگہ نیک نیتی کے جذبات سے کتنی ہی معمور کیوں نہ ہو لیکن اس میں خطا کا امکان بہرحال ہوتا ہے اور اگر ایسی کسی رائے پر عمل کیا بھی جائے تو اس کے نتائج کا خمیازہ تمہیں خودبھگتنا پڑے گا۔لہٰذا بہتر یہ ہے کہ تمہارے بیچ جو رسول اللہ ﷺ کی مبارک شخصیت موجود ہے تو تم ان پر مکمل اعتماد کرو اور ان کے ہر حکم پر سرِ تسلیم خم کرو۔ اس رویے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ تم کسی بھی غلط فیصلے اور غلط نتیجے سے محفوظ رہو گے ۔ وحی کی راہنمائی ایک چراغ کی مانند تمہارے راستے روشن کرتی جائے گی۔
سیرت النبی ﷺاور فہم ِدین
یہاں ایک اہم اصول یہ معلوم ہوا کہ آپ ﷺ کا کامل اتباع ہمیں فہم دین کے حوالے سے بہت سے غلط فیصلوں سے بچا سکتاہے۔ موجودہ زمانے میں ایسی بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً کوئی شخص دین کو فقط قرآن کے متن سے سمجھنا شروع کردیتا ہے اور کوئی حدیث کی صحت و سند پر سارا دارومدار رکھتا ہے ‘وغیرہ۔ فہم دین کا اصل دارومدار ذاتِ رسالت ہے اور اسی بات کو سورۃ الحشر میں اللہ ربّ العزت دوٹوک انداز میں یوں بیان فرماتے ہیں:
{وَمَآ اٰتٰىکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُج وَمَا نَھٰىکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْاج } (آیت۷)
’’اللہ کے رسول(ﷺ) تمہیں جو کچھ دے دیں اسے لے لو اور جس سے روکیں اس سے رک جائو۔‘‘
سیرت النبی ﷺ وہ واحد منہج ہے جو بیک وقت قرآن‘ حدیث اور ذاتِ نبی ﷺ جیسی جملہ خصوصیات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ سورۃ الاحزاب میں فرمایا گیا:
{لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ} (آیت۲۱)
’’ یقیناً اللہ کے رسول (ﷺ) کی شخصیت تمہارے لیے بہترین نمونے کی حیثیت رکھتی ہے۔‘‘
قرآن کریم میں اطاعت رسولﷺ کی اہمیت کو مختلف پیرایوں میں بیان کیا گیا ہے :
{وَاَطِیْعُوا اللہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ ج } (التغابن:۱۲)
’’اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی ۔‘‘
{مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ ج } (النساء:۸۰)
’’جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی ۔‘‘
{قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللہُ} (آل عمران:۳۱)
’’کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو میرا اتباع کرو‘اللہ تم کو اپنا محبوب بنالے گا۔‘‘
دین جذبات نہیں ‘اتباع کا نام ہے
مذکورہ آیات سے ایک اہم راہ نمائی یہ بھی ملتی ہے کہ دین اصل میں ہے کیا ! اپنی مرضی چلانا؟ یا کسی ایک کی مرضی میں راضی ہوجانا ؟ دین درحقیقت حال کے امر کو جاننے کا نام ہے۔ دین اپنی ذاتی خواہش‘ ارادے یا جذبے کو پورا کرنے کا نام نہیں‘ بلکہ یہ سراسر اتباع کا نام ہے ۔ اس طرح کہ اس وقت آپ سے کس رویے اور عمل کا مطالبہ کیا جارہا ہے‘ قطع نظر اس سے کہ آپ کا دل کیا چاہ رہا ہے یا آپ کے جذبات ‘عزائم اور ارادے کیا ہیں۔
مشہور حدیث ہے کہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں ایک صحابی جہاد میں شرکت کے جذبات سے معمور ہوکر آتا ہے اور آپ والدین کی خبر گیری کے بعد فرماتے ہیں : ((فَفِیْھِمَا فَجَاھِدْ))(ابودائود) ’’ تم اپنے والدین کی خدمت میں لگے رہو ‘وہی تمہارا جہاد ہے۔‘‘
سیدنا اویس قرنیؒ آپ ﷺ کی زیارت کے لیےتڑپ اٹھے لیکن اجازت نہ پاسکے‘ فقط والدہ کی خدمت کی وجہ سے ۔
اتباعِ نبیﷺ کی بہترین مثال
عام طور پر ایک مذہبی مزاج کے حامل شخص کے اندر جو تشدد اور تعمق پیدا ہو جاتا ہے‘ حدیث ِنبویؐ میں اس کی بہترین مثال موجود ہے۔ بخاری اور مسلم میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ تین اشخاص نبی اکرمﷺ کی ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے گھروں میں آئے اور آپﷺ کی نفلی عبادت کے بارے میں سوال کیا۔ جب انہیں اس کی خبر دی گئی تو انہوں نے اس کو کم تصور کیا۔ (ظاہر بات ہے کہ نہ حضورﷺ کی زندگی میں کوئی تکلف و تصنع تھااور نہ ازواجِ مطہراتؓ کی طرف سے اس معاملے میں‘ معاذ اللہ‘ کوئی مبالغہ آرائی ہو سکتی تھی۔ جو صحیح صحیح صورت حال تھی انہوں نے بیان کر دی۔ لیکن ان تین صحابہ ؓکے اندازے سے یہ بات بہت کم نکلی۔) اب انہوں نے (اپنے آپ کو تسلی دینے کے لیے) کہا کہ ہمارا حضورﷺ سے کیا مقابلہ (ہم اپنے معاملے کو حضورﷺ کے معاملے پرکہاں قیاس کر سکتے ہیں !) جب کہ ان کے تمام اگلے پچھلے گناہ اللہ نے پہلے ہی معاف کر دیے ہیں۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ میں تو اب ہمیشہ رات بھر نماز پڑھا کروں گا (قطعاً نہیں سوئوں گا)۔ دوسرے نے کہا :مَیں تو ہمیشہ روزہ رکھا کروں گا‘کبھی افطار نہیں کروں گا (ناغہ نہیں کروں گا)۔ تیسرے نے کہا کہ مَیں تو عورتوں سے بالکل علیحدہ رہوں گا اور کبھی بھی شادی نہیں کروں گا۔
حضورﷺ کو جوں ہی یہ بات معلوم ہوئی تو آپؐ خود اُن کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا: ’’کیا آپ ہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے یہ یہ باتیں کہی ہیں؟اللہ کی قسم!میرے دل میں تم سب سے بڑھ کر اللہ کی خشیت ہے اور مَیں تم میں سب سے بڑھ کر متقی ہوں۔‘‘یہ حضورﷺ کا بہت ہی غیر معمولی انداز ہے۔ پھر آپؐ نے فرمایا: ’’لیکن(میرا معمول تو یہ ہے کہ)مَیں روزہ رکھتا بھی ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں (یعنی ناغہ بھی کرتا ہوں)۔ ا ورمَیں رات کو نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں۔ اورمَیں نے تو (متعدد) عورتوں سے نکاح بھی کر رکھے ہیں۔ تو (کان کھول کر سن لو!) جومیری سُنّت سے اِعراض کرے گا (جسے میری سنّت پسند نہیں ہے) اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘
رسول اللہﷺ کے اس بلیغ جواب سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوگیا کہ اصل دارومدار شریعت کا حکم ہے۔ آپ سب کے جذبات بہت قابل قدر ہیں لیکن شریعت کا حکم بہرحال اعتدال کی دعوت دیتا ہے جس پر مَیں سید الانبیاء ‘ خاتم النبیّین اور رحمت للعالمین ہونے کے باوجود عمل پیرا ہوں ۔
فقہائے اُمّت فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص مغرب کی تین کی بجائے چار رکعات پڑھ لے یہ سوچ کر کہ قیام و قراء ت ‘تکبیر و تسبیح اور سجدوں میں اضافے کی وجہ سے مجھے زیادہ ثواب ملے گا توشریعت اپنا فیصلہ نماز کے فاسد ہونے کی صورت میں سنائے گی اور نماز کا لوٹانا ضروری ہوجائے گا ۔اسی طرح کوئی شخص سفر میں ظہر کی قصر کے بجائے مکمل چار رکعت پڑھے گا تو اس کی نماز نہیں ہوگی۔
معاشرے کی ترقی :اُسوئہ صحابہؓ کی روشنی میں
مذکورہ بالا آیت میں آگے ارشاد ہوا:
{……… وَلٰـکِنَّ اللٰہَ حَبَّبَ اِلَیْکُمُ الْاِیْمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَکَرَّہَ اِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ ط اُولٰٓئِکَ ہُمُ الرّٰشِدُوْنَ(۷) فَضْلًا مِّنَ اللہِ وَنِعْمَۃًط وَاللہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ(۸)} (الحجرات)
’’… لیکن (اے نبیﷺ کے ساتھیو!) اللہ نے ایمان کو تمہارے لیے محبوب بنادیا اور اس کو تمہارے دلوں کے اندر سجا دیا اور کفر‘ چھوٹے بڑے گناہوں اور نافرمانی کو تمہارے لیے ناپسند بنا دیا۔ یہی وہ لوگ ہیں جو ہدایت یافتہ ہیں ۔یہ اللہ کا فضل اور نعمت ہے۔ اور اللہ سب کچھ جاننے والا حکمت والا ہے۔ ‘‘
اس آیت مبارکہ میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں ایمانی شان‘ ان کا مقام اور ان پر اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل و انعام کا ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے تم پر یہ فضل فرمایا کہ تمہیں اپنے رسولﷺ کی مبارک صحبت نصیب فرمادی۔ اس صحبت کے نتیجے میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو جو گراں قدر فوائدنصیب ہوئے ان کا اندازہ ان حضرات کے ماضی کے حالات سے بخوبی ہوتا ہے کہ وہ کس طور سے عقیدہ و عمل کی جہالت میں گھرے ہوئے تھے۔آپ ﷺ کی مبارک صحبت کی برکت سے ان میں ایمانی صفات بھرپور طور پر منتقل ہوئیں ۔ ایمان اپنی تمام تر خوبیوں کے ساتھ ان کے سینوں میں اس طرح رچ بس گیا کہ ان کے لیے سب سے محبوب متاع ہی ایمان ٹھہرا اور اس کے مقابلے میں دنیا کی تمام آسائشیں ہیچ ثابت ہوئیں۔
{وَزَیَّنَهٗ فِیْ قُلُوْبِكُمْ} ’’اور اسے اللہ نے تمہارے دلوں میں مزین کر دیا‘‘۔ یعنی ایسا نہیں کہ فقط زبانی کلامی ایمان بلکہ اقرار باللسان‘ تصدیق بالقلب اور عمل بالارکان کے تمام مراحل سے گزر کر یہ ایک زیور کی شکل میں ان کے دلوں میں سجادیا گیا ۔
{وَكَرَّهَ اِلَیْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ ط}’’اور اُس نے تمہارے لیے ناپسندیدہ بنا دیا کفر‘ فسق و فجور اور نافرمانی کو۔‘‘کوئی خوبی اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتی جب تک اس کی حفاظت کا انتظام نہ ہوجائے ۔لہٰذا صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو ایمان تو نصیب ہوا لیکن ساتھ ہی اس ایمان کے تمام اَضداد کی نفرت بھی اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں بٹھادی۔ گویا کہ مال و دولت سے بھی نوازا اور چور ڈاکوئوں سے اس کی حفاظت کا بھی انتظام فرمادیا ۔لہٰذا اس آیت میں ایمانی دولت کے لیے چور ڈاکو کی حیثیت رکھنے والے اعمال (یعنی کفر جو کہ ایمان کی ضد ہے ‘فسوق جو کہ کبیرہ گناہ ہیں‘عصیان جو کہ صغیرہ گناہ ہیں)سے بھرپور حفاظت کا انتظام اس طرح فرمایا کہ ان برائیوں کی نفرت ان کے دل میں بیٹھ گئی۔اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ شریعت ان کی طبیعت بن گئی۔ شیطان مؤمن کی ایمانی دولت پر یکبارگی کفر کا ڈاکا نہیں ڈال سکتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ایمان اتنی معمولی دولت نہیں کہ اسے فوری طور پرکفر کے ذریعے مٹایا جاسکے ۔چنانچہ وہ فسق (کبیرہ) اور عصیان (صغیرہ) کے چھوٹے بڑے لٹیروں کے ذریعے مخبری اور سرنگ بنانے کی کوشش کرتا ہے۔
گویا صغیرہ‘ کبیرہ اور کفر جیسے بڑے گناہوں کی نفرت بھی اللہ ربّ العزت نے ان کے دلوں میں بٹھا دی۔ اس کے سبب وہ ایمان کی ترقیوں میں مصروف رہے اور پوری دنیا کو ان کا ایمانی مقام نظر آیا جس کی بہت بڑی مثال قیصر و کسریٰ کی فتوحات ہیں۔
معاشرے کا قیمتی فرد بننے کا طریقہ
{ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الرّٰشِدُوْنَ(۷) } (الحجرات)
’’یہی وہ لوگ ہیں جو راہِ ہدایت پر ہیں۔‘‘
آیت مبارکہ میں ہدایت یافتہ ہونے کی وجہ یہی ذکر فرمائی کہ معاشرہ ایسے لوگوں سے آباد رہے جو اپنے ایمان کو بنانے اور خود کو چھوٹے بڑے گناہوں سے بچانے کی کوشش کریں۔لہٰذا معاشرے میں ہدایت کا نور چمکانے کا فارمولا یہ دو نکات ہوئے :
(۱) ایمان کی محبّت اور ترقی
(۲) کفر اور گناہوں کی نفرت
جب تک مادّی اشیاء پر محنت ہو گی تو انہی کی ترقی ہو گی‘ معاشرے کے افراد ترقی نہیں کریں گے۔افراداس وقت تک ترقی نہیں کر سکتے جب تک وہ اس دو نکاتی فارمولے پر عمل نہ کریں جن پر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم عمل پیرا تھے!
tanzeemdigitallibrary.com © 2024