(فرائضِ دینی) فریضہ ٔ اقامت ِدین :اَسلاف کی نظر میں - مولانا خان بہادر

10 /

فریضہ ٔ اقامت ِدین: اَسلاف کی نظر میںمولانا خان بہادر

زیر ِنظر علمی و تحقیقی مقالہ معاونِ شعبہ تربیت مولانا خان بہادر نے تنظیم اسلامی کے سالانہ اجتماع منعقدہ۱۷ تا ۱۹ نومبر۲۰۲۳ء (بمقام مرکزی اجتماع گاہ بہاول پور) میں پیش کیا۔ رفقاء واحباب کی دلچسپی اور افادئہ عام کے لیے اس مقالہ کوترتیب و تسوید کے بعد پیش کیا جارہا ہے۔ (ادارہ)

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{شَرَعَ لَـکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖٓ اِبْرٰہِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰٓی اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ ط} (الشوریٰ:۱۳)
’’(اے مسلمانو!) اللہ نے تمہارے لیے دین میں وہی کچھ مقرر کیا ہے جس کی وصیت اُس نے نوح(علیہ السلام) کو کی تھی اور جس کی وحی ہم نے (اے محمدﷺ) آپ کی طرف کی ہے‘اور جس کی وصیت ہم نے کی تھی ابراہیم کواور موسیٰ کو اور عیسیٰ (علیہم السلام)کو کہ قائم کرو دین کو‘ اور اس میں تفرقہ نہ ڈالو۔ ‘‘

محترم رفقاء!مَیں اور آپ جس قافلے کا حصّہ ہیں ‘وہ جب تشکیل پارہا تھا تو اسی وقت یہ طے کر دیا گیا تھاکہ : ’’آج ہم اللہ کا نام لے کر ایک ایسی اسلامی تنظیم کے قیام کا فیصلہ کرتے ہیں جو دین کی جانب سے عائد کردہ جملہ انفرادی و اجتماعی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہونے میں ہماری ممدو معاون ہو۔‘‘ آگے بتایا گیا :’’ پیش نظر اجتماعیت اصلا ًاسی لیے مطلوب ہے کہ وہ فرد کو اس کے نصب العین یعنی رضائے الٰہی کے حصول میں مدد دے۔‘‘
رضا ئے الٰہی کے حصول اور اُخروی نجات کے لیے جو فرائض متعین کیے گئے ہیں‘ان میں سے پہلا فرض ہے خود اللہ کا بندہ بننا۔ پھر دوسروں کو اللہ کی بندگی کی دعوت دینااور تیسرا فرض ہے اللہ کی بندگی پر مبنی نظام کو قائم کرنے کی کوشش کرنا۔
اس تیسرے فرض یعنی’’ فریضہ ٔاقامت ِدین‘‘ کے بارے میں دورِ حاضر کے کچھ متجددین اور بعض اہل علم درج ذیل غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
غلط فہمیاں
(۱) سب سے بڑی لیکن بہت ہی سطحی قسم کی غلط فہمی یہ پھیلاتے ہیں کہ دین محض ایمانیات‘ چند عبادات اور رسومات کا نام ہے ‘یا زیادہ سے زیادہ عائلی نظام اور اخلاقیات کوبھی شامل کرلیں‘ اور بس۔
(۲) اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات تو ہے لیکن ہر ایک کے لیے اس پر محض انفرادی طور پر عمل کرنا ضروری ہے‘ جبکہ جہاں اجتماعیت اجازت نہ دے ‘وہاں جتنا ممکن ہو سکتا ہے اتنا ہی لازم ہے۔ اس سے زیادہ ہماری کوئی ذمہ داری نہیں۔
(۳) اقامت ِدین کی جدّوجُہد صرف رسول اللہﷺ اور آپؐ کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین پر فرض تھی‘ ہم پر نہیں۔
(۴) کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ صرف حکمرانوں پر فرض ہے۔
(۵) یہ صرف علماء کے کرنے کا کام ہے ‘اور وہ بھی لازم نہیں بلکہ نفلی حیثیت سے ۔ اگر عوام بھی کریں تو زیادہ سے زیادہ اس کی حیثیت نفل ہی کی ہوگی۔
(۶) اسلاف بالخصوص فقہائے کرام میں اقامت دین کی فرضیت کے حوالے سے کوئی آرا ء نہیں ملتیں اور یہ دور ِحاضرکے بعض مفکرین کی بدعت اور اختراع ہے۔
مذکورہ بالا غلط فہمیاں پیدا کرنا کسی ایک فرد یا گروہ کا کام نہیں بلکہ مختلف افراد‘ جماعتیں اور گروہ یہ کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
غلط فہمیوں کے اسباب
(۱) کم علمی اور کم فہمی
(۲) تعصب‘ ہٹ دھرمی‘ حسد اور ضد
(۳) حُبّ ِ دنیا کی وجہ سے جہاد و قتال سے گریز
(۴) بہت سی NGO’s غیر ملکی فنڈسے بھی یہ کام کرنے پر مامور ہیں۔
(۵) مغرب کا ایجنڈا بھی یہی ہے کہ مسلمانوں کو دین قائم کرنے سے روکا جائے۔ بہت سے مسلمان ان کا آلۂ کار بن کر یہ کام کرتے ہیں۔
اظہارِ دین حق کے حوالے سے مفسرین کی آراء
{ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ لا وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ(۳۳) } (التوبۃ:۳۳‘ الصف:۹)
{ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ} کی تشریح :اَسلاف کی نظر میں
(۱) علامہ ابن جریر رحمہ اللہ ‘جو تیسری صدی ہجری کے مفسر ہیں’’تفسیر طبری‘‘ میں لکھتے ہیں:
لِیُعْلِیَ الْاِسْلَامَ عَلی الْمِلَلِ کُلِّھَا ’’تاکہ وہ اسلام کو تمام مذاہب پر غالب کر دے۔‘‘
(۲) علامہ جار اللہ زمخشری ؒ ‘ جو پانچویں صدی ہجری کے مفسر ہیں ‘ اپنی تفسیر’’ کشاف‘‘ میں لکھتے ہیں: لِیُظْہِرَ الدِّیْنَ الْحَقَّ عَلٰی کُلِّ دِیْنٍ’ ’تاکہ وہ دین حق کو ہر دین پر غالب کر دے۔‘‘
(۳) ساتویں صدی ہجری کے مفسر امام قرطبی ؒ اپنی ’’تفسیر قرطبی‘‘ میں لکھتے ہیں:
لِیُعْلِیَہُ عَلٰی کِلِّ الْاَدْیَانِ’’تاکہ وہ اس کو تمام ادیان پر غالب کردے۔‘‘
مزید فرماتے ہیں :اس کا مکمل غلبہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں ہوگا۔ کوئی شخص باقی نہیں رہے گا سوائے اس کے کہ یا تو اسلام میں داخل ہوگا یا جزیہ دے گا۔
(۴) بارہویں صدی ہجری کے مفسر شیخ اسماعیل حقّی ؒ اپنی تفسیر ’’روح البیان‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’وَغَلَبَۃُ الدِّیْنِ الْحَقِّ عَلٰی سَائِرِ الْاَدْیَانِ تَکُوْنَ وَعَلٰی تَزَایَدَ اَبَدًا وَتَتِمَّ عِنْدَ نَزُوْلِ عِیْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ‘‘
’’دین حق کا غلبہ تمام ادیان پر ہوگا اور یہ ہمیشہ بڑھتا رہے گا یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے وقت مکمل ہوگا۔‘‘
(۵) بارہویں صدی ہجری ہی کے ایک اور مفسر قاضی ثنا اللہ پانی پتی ؒاپنی تفسیر’’ مظہری‘‘میں لکھتے ہیں:
لِيُظهِرَهُ بِالسَّیْفِ وَالْـحُجَّۃِ’’تاکہ وہ اس کو غالب کر دے تلوار اور دلیل کے ساتھ۔‘‘
مذکورہ بالا مفسرین کی آراء سے ثابت ہوا کہ دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور یہ اپنا سیاسی غلبہ چاہتا ہے ۔ یہی رسول اللہﷺ کا مقصد ِبعثت تھا‘ لیکن یہ ذمہ داری صرف حضور اکرمﷺ اور صحابہ کرام ؓہی کی نہیں تھی بلکہ یہ ہر بندئہ مومن پر فرض ہے۔
سورۃ الصف کی آیت ۹ سے متصلاً بعد آیت۱۰ اور ۱۱ میں فرمایا:
{یٰٓــاَیـُّـھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ھَلْ اَدُلُّــکُمْ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ(۱۰) تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُجَاہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ ط ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّــکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۱۱)}
’’ اے ایمان والو! کیا مَیں تمہیں ایک تجارت بتاؤں جو تمہیں دردناک عذاب سے نجات دے گی ( وہ تجارت یہ ہے) کہ تم اللہ اور اُس کے رسول ؐ پر ایمان لاؤاور اللہ کی راہ میں اپنی جان اور مال کے ساتھ جہاد کرو۔ اگر تم سمجھو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔‘‘
(۱) ساتویں صدی ہجری کے مفسر امام قرطبی ؒ فرماتے ہیں کہ یہ خطاب تمام مؤمنوں سے ہے۔ اگر تم ایمان و جہاد کے ساتھ تجارت کرتے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہیں بخش دے گا۔
(۲) شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی ؒاپنی تفسیرمیں لکھتے ہیں:’’ اس دین کو تمام ادیان پر غالب کرنا تو اللہ تعالیٰ کا کام ہے لیکن تمہارا فرض یہ ہے کہ ایمان پر پوری طرح مستقیم رہ کر اس کے راستے میں جان و مال کے ساتھ جہاد کرو۔‘‘
(۳) مولانا عبدالرحمٰن کیلانی ؒ ’’تیسیر القرآن‘‘ میں لکھتے ہیں:’’ دین اسلام کو تمام ادیانِ باطلہ پر غالب کرنے والی اللہ کی ذات ہے ‘تاہم اللہ تعالیٰ نے اس کا ذریعہ اہل ِایمان کو بنایا ہے ۔‘‘
مذکورہ آیات اور انہی کی قبیل کی دوسری آیات ‘جیسے:
{یٰٓـــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْٓا اَنْصَارَ اللہِ}(الصف:۱۴)
’’ اے ایمان والو! اللہ کے مددگار بن جاؤ۔‘‘
{یٰٓــایُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَآءَ لِلہِ} (النساء:۱۳۵)
’’ اے ایمان والو!عدل و قسط کے لیے کھڑے ہوجاؤ اور اللہ کے مددگار بن جاؤ۔‘‘
{یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ(۷)} (محمد)
’’ اے ایما ن والو ! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا۔‘‘
{وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰـکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّـتَـکُوْنُوْا شُہَدَآئَ عَلَی النَّاسِ} (البقرۃ:۱۴۳)
’’اس طرح ہم نے تمہیں درمیانی امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بن جاؤ۔‘‘
{كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ} (آل عمران:۱۱۰)
’’ تم بہترین اُمت ہو جو لوگوں کے لیے نکالے گئے ہو۔‘‘
اورمذکورہ بالا مفسرین کی آرا ءسے ثابت ہوا کہ اقامت ِدین کی جدّوجُہد صرف حکمرانوں اور علماء پر ہی فرض نہیں بلکہ ہر بندئہ مؤمن پر فرض ہے۔
{شَرَعَ لَـکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖٓ اِبْرٰہِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰٓی اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ ط} (الشوریٰ:۱۳)
’’اللہ تعالیٰ نے مقرر کیا تمہارے لیے دین جس کا حکم دیا اُس نے نوح (علیہ السلام)کو اور آپ کی طرف وحی کی اسی کی اور اسی کا حکم دیا ہم نے ابراہیم‘ موسیٰ اور عیسیٰ(علیہم السلام) کو کہ دین کو قائم کرو اور اس میں تفرقہ نہ کرو۔‘‘
(۱) امام ابن جریر ؒ اپنی ’’تفسیر طبری‘‘ میں اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
اَلَّذِیْ اَوْحٰی بِہٖ جَمِیْعَ ھٰؤُلَآءِ الْاَنْبِیَاءِ وَصِیَّۃً وَّاحِدَۃً وَھِیَ اِقَامَۃُ الدِّیْنِ
’’اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کرام (علیہم السلام) کو ایک ہی حکم دیا اور وہ اقامت الدین ہے۔‘‘
اِعْمَلُوْا بِہٖ عَلٰی مَا شَرَعَ لَکُمْ وَفَرَضَ وَلَا تَخْتَلِفُوْا فِیْہِ الدُّنْیَا الَّذِیْ اُمِرْتُمْ بِالْقِیَامِ بِہٖ کَمَـا الْاَحْزَابُ مِنْ قَبْلِکُمْ
’’ اس پر عمل کرو جس کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے مشروع کیا اور تم پر فرض کیا اور اپنے سے پہلے لوگوں کی طرح تم بھی دین میں اختلاف نہ کرو جس کو قائم کرنے کا تمہیں حکم دیاگیا۔‘‘
(۲) پانچویں صدی ہجری کے مفسر ابوالحسن ماوردی ؒ اپنی تفسیر ’’النُّکَتُ وَالْعُیُون‘‘ المعروف بہ ’’تفسیر ماوردی‘‘ میں اس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں:
اِعْمَلُوْا بِہٖ‘ اُدْعُوْا اِلَیْہِ وَجَاھِدُوْا عَلَیْہِ مَنْ عَانَدَہُ
’’اس دین پر عمل کرو‘ اسی کی طرف بلاؤ اور اسی پر اس کے مخالفین سے جہاد کرو۔‘‘
(۳) مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ ’’معارف القرآن‘‘ میں اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’اقامت دین فرض ہے اور اس میں تفرق حرام ہے۔‘‘
(۴) پیر کرم شاہ صاحب الازہری ؒ اپنی تفسیر’’ ضیا ءالقرآن‘‘ میں اس آیت کے ضمن میں لکھتے ہیں:
’’ صرف زبانی دعوت دینا اور اس دعوت کے محاسن بیان کرتے رہنا ہی انبیاء علیہم السلام کا فریضہ نہ تھا بلکہ ان کی ذمہ داری یہ بھی تھی کہ جہاں یہ نظام ِحیات رائج نہیں وہاں اسے رائج کیا جائے اور جہاں یہ رائج ہے وہاں یہ اہتمام کیا جائے کہ رواج پذیر رہے۔‘‘
یہ نصب العین جو انبیاء کا تھا ‘یہی آج امت محمد ﷺ کے لیے من جانب ِاللہ مقرر کیا گیا ہے۔مذکورہ آیت اور مفسرین کی آراء سے یہ ثابت ہوا کہ’’ اقامت دین’’ کی جدّوجُہد ایک فریضہ ہے جو ہر مسلمان پر فرض ہے۔
ہمارے قدیم و جدید دینی لٹریچر میں متقدمین و متاخرین مفسرین‘ متکلمین اور فقہاء کرام اقامت ِدین کی اصطلاح کے ساتھ ’’نصب ِامامت‘‘ کی اصطلاح بڑی شدّومد کے ساتھ استعمال کرتے ہیں‘ جس کا مطلب ہے: ’’امام اور خلیفہ کا تقرر۔‘‘
نصب ِامامت کے متعلق مفسرین و محدثین کی آراء
(۱) امام قرطبیؒ ’’ احکام القرآن‘‘ میں {وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةً} کی تفسیر میں نصب ِامامت کی فرضیت کے بارے میں لکھتے ہیں: وَلَا خِلَافَ فِیْ وَجُوْبِ ذٰلِکَ بَیْنَ الْاُمَّۃِ وَلَا بَیْنَ الْاَئِمَّۃِ  ’’ نصب ِامامت کی فرضیت کے متعلق نہ اُمّت کے درمیان کوئی اختلاف ہے اور نہ ائمہ کے درمیان۔‘‘
(۲) دسویں صدی ہجری کی عظیم شخصیت امام ابن تیمیہ ؒ ’’ السیاسۃ الشرعیۃ‘‘میں لکھتے ہیں: یَجِبُ اَنْ یَّعْرِفَ اِنَّ وِلَایَۃَ اَمْر النَّاسِ مِنْ اَعْظَمِ وَاجِبَاتِ الدِّیْنِ‘ لَا قِیَامَ لِلدِّیْن اِلَّا بِھَا ’’یہ جاننا ضروری ہے کہ ریاست و حکومت کا قیام دین کے اہم ترین فرائض میں سے ہے۔ اقامت دین اس کے بغیر ممکن نہیں۔‘‘پھر فرماتے ہیں: ہمارے اسلاف کی بھی یہی رائے ہے‘ جیسے امام احمد بن حنبلؒ وغیرہ۔
(۳) آٹھویں صدی ہجری کے مشہور مؤرخ ‘ فقیہہ اور فلسفی علامہ ابن خلدون’’ مقدمہ ابن خلدون‘‘ میں رقم طراز ہیں: اِنَّ نَصْبَ الْاِمَامِ وَاجِبٌ قَدْ عُرِفَ وُجُوْبُہُ فِی الشَّرْعِ بِاِجْمَاعِ الصَّحَابَۃِ وَالتَّابِعِیْنَ ’’ شریعت میں خلیفہ کا تقرر فرض ہے ۔اس پر صحابہ کرامؓ اور تابعین کا اجماع ہے۔‘‘ آگے چل کے فرماتے ہیں:’’ اس پر اُمت کا اجماع ہے۔‘‘
(۴) بارہویں صدی ہجری کے مجدد شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ اپنی معرکۃ الآراء کتاب ’’ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء‘‘ میں بہت سے دینی فرائض کا ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ’’یہ فرائض اس وقت تک ادا نہیں ہو سکتے جب تک امام کا تقرر نہ ہو‘‘۔ پھر فرماتے ہیں: ’’قاعدہ اور اصول یہ ہے کہ فرض کا حصول جس چیز پر موقوف ہواس کا حصول بھی فرض ہے۔‘‘
(۵) ساتویں صدی ہجری کے مشہور محدث امام نووی رحمہ اللہ مسلم شریف کی شرح میں لکھتے ہیں کہ: ’’علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مسلمانوں پر خلیفہ کا تقرر فرض ہے۔‘‘
متکلمین کی آراء
علم کلام کے ماہرین کو متکلمین کہا جاتا ہے جو عقلی دلائل سے اسلامی عقائد کی حقانیت ثابت کرتے ہیں۔
(۱) پانچویں صدی ہجری کے معروف متکلم علّامہ ابن حزم’’ الملل والنحل’’ میں فرماتے ہیں:
اِتَّفَقَ جَمِیْعُ اَھْلِ السُّنَّۃِ وَاَنَّ الْاُمَّۃَ وَاجِبٌ عَلَیْھَا الْاِنْقِیَادُ لِاِمَامٍ عَادِلٍ‘ یُقِیْمُ فِیْھِمْ اَحْکَامَ اللّٰہِ وَیَسُوْسُھُمْ بِاِحْکَامِ الشَّرِیْعَۃِ
’’ تمام اہل سنت اس بات پر متفق ہیں کہ ایک امام عادل کا تقرر امت پر فرض ہے جو ان میں اللہ کے احکام نافذ کرے اور ان کے مسائل شریعت کے احکام کے مطابق حل کرے۔‘‘
(۲) پانچویں صدی ہجری کے معروف متکلم امام نسفی’’ عقائد نسفیہ’’ میں لکھتے ہیں:
وَالْمُسْلِمِیْنَ لَابُدَّلَھُمْ مِنْ اِمَامٍ یَقُوْمُ بِتَنْفِیْذِ اَحْکَامِھِمْ وَاِقَامَۃِ حُدُوْدِھِمْ وَسَدِّ ثَغُوْرِھِمْ وَتَجْھِیْزِ جُیُوْشِھِمْ وَاَخْذِ صَدَقَاتِھمْ
’’مسلمانوں کے لیے ایک ایسے خلیفہ کا تقرر لازم ہے جو ان میں اللہ کے احکام نافذ کرے ‘ حدود قائم کرے‘ اسلامی سلطنت کی حفاظت کرے‘ لشکروں کو تیار کرے‘ اور لوگوں سے صدقات وصول کرے۔‘‘
(۳) آٹھویں صدی ہجری کے مشہور متکلم علامہ تفتازانی رحمہ اللہ ’’ شرح عقائد‘‘ میں فرماتے ہیں:
وَخِلَافَتُھُمْ اَیْ نِیَابَتُھُمْ عَنِ الرَّسُوْلِ ﷺ فِیْ اِقَامَۃِ الدِّیْنِ بِحَیْثُ یَجِبُ عَلٰی کَافَّۃِ الْاُمَمِ اْلِاتِّبَاعُ عَلٰی ھٰذَا التَّرْتِیْبِ اَیْضًا
’’خلفاءِ راشدین کی خلافت اِقامت ِدین کے سلسلہ میں اس طرح ہے کہ پوری امت پر ان کی اتباع واجب ہے‘ ان کا نائب ِرسول ہونا بھی اسی ترتیب سے ہے۔ ‘‘
آگے چل کر فرمایا:
اَلْاِجْمَاعُ عَلٰی اَنَّ نَصْبَ الْاِمَامِ وَاجِبٌ ...... اَنَّہٗ یَجِبُ عَلَی الْخَلْقِ
’’ اس بات پر اجماع ہے کہ خلیفہ کا تقرر فرض ہے مخلوق پر( یعنی مسلمانوں پر)‘‘
نوٹ:مذکورہ کتاب درسِ نظامی کے نصاب میں شامل ہے۔
(۴) پانچویں صدی ہجری کے مشہور متکلم ِاسلام امام غزالی اپنی کتاب’’اَلۡاِقۡتِصَادُ فيِ الۡاِعۡتِقَادِ‘‘  میں فرماتے ہیں:
فَبَانَ اَنَّ السُّلۡطَانَ ضَرُوۡرِيٌّ فِيۡ نِظَامِ الدُّنۡيَا، وَنِظَامَ الدُّنۡيَا ضَرُوۡرِيٌّ فِيۡ نِظَامِ الدِّیۡنِ، وَنِظَامَ الدِّيۡنِ ضَرُوۡرِيٌّ فِي الۡفَوۡزِ بِسَعَادَۃِ الۡآخِرَۃِ وَهُوَ مَقۡصُوۡدُ الۡاَنۡبِيَاءِ قَطۡعًا، فَكَانَ وُجُوۡبُ نَصۡبِ الۡاِمَامِ مِنۡ ضَرُوۡرِيَّاتِ الشَّرۡعِ الَّذِيۡ لَا سَبِيۡلَ اِلیٰ تَرْکِہٖ
’’ تو واضح ہوا کہ بے شک خلیفہ کا تقرر دنیا کا نظام چلانے کے لیے ضروری ہے‘ اور دنیا کا نظام چلانا ضروری ہے دین کے نظام کے لیے‘ اور دین کا نظام ضروری ہے آخرت کی کامیابی اور سعادت کے لیے ‘اور یقیناًیہی انبیاء کرام علیہم السلام کا مقصود تھا۔ امام کا تقرر ضروریات ِشرع میں سے ہے جس کو ترک کرنے کی کوئی راہ نہیں۔‘‘
نوٹ: مذکورہ بالا متکلمینِ اسلام نے’’ نصب ِامامت کی فرضیت‘‘ کو علم کلام کی بحث میں ذکر کر کے اس کی اہمیت کی طرف توجّہ دلائی ہے۔
اقامت ِدین کی فرضیت کے حوالے سے فقہائے کرام کی آراء
(۱) تیسری صدی ہجری کے فقیہہ احمد بن محمد ’’صاحب قدوری‘‘
(۲) چھٹی صدی ہجری کےفقیہہ علی بن ابی بکر ’’صاحب ِہدایہ:
(۳) ساتویں صدی ہجری کےفقیہہ عبداللہ بن احمد بن محمود نسفی ’’صاحب کنز الدقائق و بحر الغرائب‘‘
(۴) ساتویں صدی ہجری کے فقیہہ محمد بن صدر الشریعہ ’’صاحب شرح وقایہ‘‘
(۵) گیارہویں صدی ہجری کے فقیہہ امام علاؤالدین حصکفی ’’صاحب دُرِمختار ‘‘
(۶) تیرہویں صدی ہجری کے فقیہہ ابن عابدین شامی صاحب ردّ المحتار
مذکورہ تمام فقہاء کرام اور ان کے علاوہ دیگر فقہا ء نے بھی اپنی اپنی کتابوں میں شخصی قوانین کے علاوہ جو اجتماعی مسائل بیان کیے(جن کا تعلق ریاست و حکومت کے ساتھ ہے) ان کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے:
(i) الاحکام الجنائیۃ ( فوجداری قوانین )جیسے حدود و تعزیرات وغیرہ۔
(ii) الاحوال المدنیۃ ( دیوانی قانون) جیسے خرید و فروخت وغیرہ۔
(iii) الاحکام المرافقات ( قانون ضابطہ‘ عدالتی کارروائیوں کے احکام)
(iv) الاحکام الدستوریۃ (دستوری قوانین )
(v) الاحکام الدولیۃ ( بین الاقوامی تعلقات کے احکام ( مثلاً امن‘ جنگ‘ معاہدات‘ جہاد اور جزیہ وغیرہ کے احکام۔ اسی طرح فقہاء نے دارالکفر اور دارالاسلام کے حوالے سے طویل بحثیں کی ہیں۔
مذکورہ بالا تمام احکام اور قوانین پر عمل ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ دین غالب نہ ہو۔
چاروں مسالک کے تمام فقہاء کا سلسلہ ائمہ اربعہ ( امام ابو حنیفہ‘ امام مالک‘ امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ)سے جاکر جڑتاہے۔
(۷) چودھوی صدی ہجری کے معروف فقیہہ امام عبدالرحمٰن بن محمد عوض جزیری اپنی مایۂ ناز کتاب ’’الفقہ علی المذاھب الاربعۃ‘‘میں فرماتے ہیں کہ ائمہ اربعہ اس بات پر متفق ہیں کہ خلافت ایک فرض ہے اور مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ ایک امام مقرر کریں جو دین کے احکام نافذ کرےاور مظلوموں کو ظالموں سے انصاف دلائے۔ ان کے الفاظ یہ ہیں:
اِتَّفَقَ الۡاَئِمَّۃُ رَحِمَهُمُ اللّٰهُ تَعَالىٰ عَلىٰ: اَنَّ الۡاِمَامَۃَ فَرۡضٌ، وَاَنَّهٗ لَا بُدَّ لِلۡمُسۡلِمِيۡنَ مِنۡ اِمَامٍ يُقِيۡمُ شَعَائِرَ الدِّيۡنِ وَ يُنۡصِفُ الۡمَظۡلُوۡمِيۡنَ مِنَ الظَّالِمِيۡنَ
اقامت دین کے لیے اسلاف کا تعامل
ہمارے اسلاف نے جس طرح اقامت دین کے لیے علمی خدمات سر انجام دیں ‘ بالکل اسی طرح غلبہ دین کے لیے عملی جدّوجُہد بھی کی ‘اور یہ جدّوجُہد محض نفل سمجھ کر نہیں بلکہ فرض سمجھ کر کی۔ حضور اکرمﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے دین کو بالفعل قائم کر کے دکھایا اور اس کے بعد مسلسل ۱۳۰۰سال تک دین کسی نہ کسی جگہ قائم رہا ‘تا آنکہ ۱۹۲۴ء میں خلافت کی عظیم الشان عمارت زمین بوس ہو گئی۔
خلافت راشدہ کے بعد جب بھی نظامِ خلافت میں یا حکمرانوں کے عملی رویے میں کہیں بگاڑ آیا تو ہر دَور میں اَسلاف نے اس کی اصلاح کے لیے بڑی بڑی قربانیاں دیں۔ اگرچہ ’’مُلْكًا عَاضًّا‘‘ (کاٹ کھانے والی ملوکیت) کا جبر اپنی جگہ تھا لیکن اس کے باوجود اسلاف نے ہر ممکن حد تک اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ ان کی تفصیل میں جانے کا موقع نہیں‘ لیکن ایک طائرانہ نگاہ ڈالیں تو تاریخ کے جھروکوں میں ہمارے اسلاف کی تلواریں فتنہ وفساد کے خلاف بے نیام چمکتی نظر آتی ہیں۔ مثلاً حضرت حسین بن علی ‘ عبد اللہ بن زبیر رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی تحریک ‘ حضرت نفس زکیہؒ کی کوششیں جن کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ۔ اسی طرح تحریک ِشہیدین‘ تحریک ِریشمی رومال‘ ابو الکلام کی حزبُ اللہ جن کے شانہ بشانہ نظر آتے ہیں حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ۔تحریک ِخلافت‘ تحریک ِالاخوان المسلمون ‘ سنوسی تحریک‘ جماعت اسلامی‘ تحریک طالبانِ افغانستان اور اب اسی کا عَلَم تھامے ہوئے ہے تنظیم اسلامی اپنی سی محنت‘ کوشش اور جدّوجُہد کر رہی ہے۔
الغرض ہمارے اسلاف کی علمی و فکری آراء ہوں یا ان کا تعامل‘ یہ سب پکار پکار کر ہمیں ہمارا فرض یاد دلارہے ہیں‘ جو کسی خاص گروہ یا خاص طبقے ہی کا نہیں بلکہ ہر مسلمان کا فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں فریضۂ اقامت دین کے لیے اپنا تن من دھن لگانے کی توفیق مرحمت فرمائے ۔آمین یا رب العالمین !
فَصَلَّی اللّٰهُ عَلَى النَّبِيِّ الْكَرِيْم
نوٹ:اس موضوع کو مزید تفصیل سے سمجھنے کے لیے مکتبہ تنظیم اسلامی سے شائع کردہ کتاب ’’فریضہ ٔاقامت ِدین:اسلاف کی آراء وتعامل‘‘کا مطالعہ کیجیے۔