مسلمان: زیرعتاب کیوں؟پروفیسر محمد یونس جنجوعہ
رسول اللہﷺ کی حیاتِ طیبہ کو اہل ایمان کے لیے اُسوئہ حسنہ قراردیا گیا ہے۔ آپؐ کی زندگی چلتا پھرتا قرآن تھی۔ آپؐ قرآن کے ہر حکم پر کاربند تھے۔ اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بیان کے مطابق آپ ﷺ کی شخصیت سراپا قرآن تھی۔ امام مالک بن انسؒ مرسلاً روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ((تَرَکْتُ فِیْکُمْ اَمَرَیْن، لَنْ تضِلُّوا مَا تَمَسَّکْتُّمْ بِھِمَا: کِتَابَ اللّٰہِ وَسُنَّۃً رَسُوْلِہٖ))(موطا)’’میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں‘ اگر تم ان پر عمل پیرا رہے تو ہر گز گمراہ نہ ہو گے:اللہ کی کتاب اور اُس کے رسول کی سنت۔‘‘مسلمانوں نے جب تک قرآن و سنت کو اپنا راہ نما بنایا‘ دنیا میں معزز اور محترم رہےمگر جب خواہش نفس پر عمل کرنے لگے ‘ اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت کوچھوڑ بیٹھے تو عذابِ الٰہی کے مستحق ٹھہرے۔
اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ اگر آج بھی مسلمان ہر معاملے میں کتاب و سُنّت کو اپنا راہ نما بنالیں تو ذلت و نکبت سے نکل کر عزت وعظمت حاصل کر سکتے ہیں ۔ مسلمان معاشرہ نیک و بد میں تمیز چھوڑ بیٹھا ہے‘ جس کے نتیجے میں اس پر ذلت و خواری چھا گئی ہے۔ رسول اللہﷺ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے شکوہ کریں گے :{یٰـرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ مَہْجُوْرًا(۳۰)} (الفرقان) ’ ’اے ربّ !میری قوم نے اس قرآن کو پس پشت ڈال دیا تھا۔‘‘
آج کے مسلمانوں کی چند ایک نافرمانیاں ملاحظہ ہوں:
سودی معیشت
سودی لین دین سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
{یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْکُلُوا الرِّبٰٓوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَۃًص وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَـعَلَّـکُمْ تُفْلِحُوْنَ(۱۳۰)} (آل عمران)
’’اے اہل ِایمان! سود مت کھائو دگنا چوگنا بڑھتا ہوا اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو تاکہ تم فلاح پائو۔‘‘
مزید ارشاد ہوا:
{اَلَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا کَمَا یَـقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ ط ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ قَالُوْآ اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا وَاَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰواط} (البقرۃ:۲۷۵)
’’جو لوگ سود کھاتے ہیں ‘نہیں اٹھیں گے قیامت کو مگر جس طرح اٹھتا ہے وہ شخص جس کے حواس کھو دیے ہوں جِنّ نے لپٹ کر۔ یہ حالت ان کی اس واسطے ہو گی کہ انہوں نے کہا کہ سوداگری بھی تو ایسی ہی ہے جیسے سود لینا۔ حالانکہ اللہ نے حلال کیا ہے سوداگری کو اور حرام کیا ہے سود کو۔‘‘
سود نہ چھوڑنے کی وعید اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ کے ساتھ سنائی ہے:
{فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ج} (البقرۃ:۲۷۹)
’’اور اگر تم (سود) نہیں چھوڑتے تو تیار ہوجائو لڑنے کو اللہ سے اور اُس کے رسول سے۔‘‘
اس کے باوجود ہمارے ہاں سودی کاروبار علی الاعلان ہو رہا ہےاور اسے حکومتی سرپرستی بھی حاصل ہے۔ کیا یہ عمل اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف نہیں؟
قتل ِناحق
ناحق قتل کی برائی بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
{مَنْ قَـتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَــکَاَنَّـمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاط} (المائدۃ:۳۲)
’’جو کوئی قتل کرے ایک جان کو بلاعوض جان کے یا بغیر فساد کرنے کے ملک میں تو گویا قتل کر ڈالا اس نے سب لوگوں کو۔‘‘
آج معمولی معمولی باتوں پر ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو قتل کر رہا ہے ۔ حدیث کی پیشین گوئی کے مطابق ایسا بھی ہو رہا ہے کہ قاتل کو نہیں پتا کہ وہ کیوں قتل کر رہا ہے اور مقتول نہیں جانتا کہ اسے کیوں قتل کیاجا رہا ہے۔
رزقِ حرام
رزق حلال کی اہمیت جتاتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے:
{یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْکُلُوْآ اَمْوَالَــکُمْ بَیْنَـکُمْ بِالْبَاطِلِ} (النساء:۲۹)
’’اے ایمان والو! نہ کھائو مال ایک دوسرے کے آپس میں ناحق۔‘‘
مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ حلال روزی کمائے۔ لین دین میں دھوکا دہی اور جھوٹ نہ ہو۔ دوسروں کے ساتھ اس کا برتائو اعلیٰ اخلا ق کا آئینہ دار ہو۔اس کے برعکس ہمارے ہاں بااثر لوگ بے سہارا لوگوں کے مال پر ناجائز قبضہ کر رہے ہیں۔ یہ طرزِعمل یقینا ًفساد فی الارض کا باعث ہے اور اللہ کے غضب کو دعوت دینے والی بات ہے۔
جھوٹی گواہی
اللہ تعالیٰ نے جھوٹی گواہی سے منع کیا ہے ۔قرآن حکیم میں تو’’ عباد الرحمٰن‘‘ کی یہ صفت بتائی گئی ہے کہ:
{وَالَّذِیْنَ لَا یَشْہَدُوْنَ الزُّوْرَ} (الفرقان:۷۲)
’’اور وہ لوگ جو جھوٹ پر گواہ نہیں بنتے۔‘‘
جب گواہ جھوٹ بولے گا تو انصاف کیسے ہوگا ؟پھر یہ کہ ہمارا عدالتی نظام اسلامی قانون کے مطابق نہیں بلکہ غیروں کے قانون کے مطابق چل رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{ وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْکٰفِرُوْنَ(۴۴) … ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ (۴۵) … ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ (۴۷)}(المائدہ)
’’اور جو اللہ کی اُتاری ہوئی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہی تو کافر ہیں… وہی تو ظالم ہیں … وہی تو فاسق ہیں۔‘‘
ایک عدالت سال ہا سال کی کارروائی کے بعد قتل کے مقدمہ میں جرم ثابت ہونے پر ایک شخص کوسزائے موت کا حکم سناتی ہے۔مجرم صدر مملکت کے حضور رحم کی اپیل کرتا ہے اور وہ اُسے معاف کر دیتا ہے۔ شریعت میں صدر مملکت کو یہ اختیارحاصل نہیں ہے کہ وہ قاتل کو معاف کردے ۔یہ اقدام اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث اور اس کے عذاب کا موجب ہے۔
فرقہ بندی
مسلمان فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ہر فرقہ دوسرے فرقے کا دشمن ہے اوراس کے افراد کو قتل کرنا جائز سمجھتا ہے ‘حالانکہ وہ بھی کلمہ گو مسلمان ہیں ۔ اللہ کا حکم تو یہ ہے کہ:
{وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا} (آل عمران:۱۰۳)
’’اور مضبوط پکڑو اللہ کی رسّی کو سب مل کر اور پھوٹ نہ ڈالو۔‘‘
{وَلَا تَـکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَاخْتَلَفُوْا مِنْ بَعْدِ مَا جَآئَ‘ہُمُ الْـبَـیِّنٰتُ ط وَاُولٰٓئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ(۱۰۵)}(آل عمران)
’’اور مت ہو اُن کی طرح جو متفرق ہو گئے اور اختلاف کرنے لگے بعد اس کے کہ پہنچ چکے ان کو صاف حکم‘ اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔‘‘
صحیح طرز ِعمل تو یہ ہے کہ آپس کے اختلاف کو برداشت کرو۔ اگر تنازع ہو جائے تو قرآن و سُنّت کی روشنی میں اس کا حل تلاش کرو ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے:
{ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ……} (النساء:۵۹)
’’پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملے میں اختلافِ رائے ہو جائے تو اسے لوٹا دو اللہ اور رسول کی طرف……‘‘
جب مسلمانوں کے سارے فرتے قرآن کو کتاب اللہ تسلیم کرتے ہیں تو اس کے فیصلوں پر سر ِ تسلیم خم کیوں نہیں کرتے؟جب قرآن کا فیصلہ آ جائے تو سب کو اس فیصلے پر متفق ہو جانا چاہیے اور اپنی رائے فوراً چھوڑ دینی چاہیے۔ قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۶۵)} (النساء)
’’سو قسم ہے تیرے رب کی وہ مؤمن نہ ہوں گے‘ یہاں تک کہ تجھ ہی کو منصف مانیں اس جھگڑے میں جو ان میں اٹھے۔ پھرنہ پائیں اپنے جی میں تنگی تیرے فیصلے سے اور قبول کریں خوشی سے۔‘‘
جو مسلمان اللہ کے رسولﷺ کے فیصلے کو نہیں مانتاتو وہ کیسا مسلمان ہے!
عورتوں کا پردہ
قرآن مجید میں عورتوں کو پردے کا حکم دیا گیا ہے مگر یہاں مسلمان عورتیں سج دھج کر بے پردہ بازاروں میں گھوم پھر رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو نبی مکرم ﷺ کی بیویوں‘ بیٹیوں اور صحابیات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کو بھی پردے کا حکم دیا ہے‘تو پھر ایک عام عورت اس حکم سے کیسے مستثنیٰ رہ سکتی ہے؟ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{یٰٓــاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِکَ وَبَنٰتِکَ وَنِسَآئِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِہِنَّ ط}(الاحزاب:۵۹)
’’اے نبی! کہہ دے اپنی عورتوں کو اور اپنی بیٹیوں کو اور مسلمانوں کی عورتوں کو ‘نیچے لٹکائیں اپنے اوپر تھوڑی سی اپنی چادریں۔‘‘
فحاشی
فحاشی کاچرچا عام ہے اور روز افزوں ہے۔ اخبارات فحش تصاویر سے بھرے پڑے ہیں۔ بازاروں اور سڑکوں پر جابجا عورتوں کی تصویریں لگی ہوئی ہیں۔ ٹی وی چینلز اور انٹرنیٹ عریانی و فحاشی کی اشاعت میں پیش پیش ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ ج}(الانعام:۱۵۱)
’’اور پاس نہ جائو بے حیائی کے کام کے جو ظاہر ہو اس میں سے اور جو پوشیدہ ہو۔‘‘
فحاشی و بے حیائی کی تشہیر واشاعت پر قرآن حکیم میں دنیا و آخرت کے دردناک عذاب کی وعید آئی ہے۔ ارشاد ہوا:
{اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَـہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ لا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِط}(النور:۱۹)
’’جو لوگ چاہتے ہیں کہ چرچا ہو بدکاری کا ایمان والوں میں اُن کے لیے عذاب ہے دردناک دنیا میں اور آخرت میں۔‘‘
الغرض مسلمان بڑی ڈھٹائی کے ساتھ قرآن و سُنّت کے احکام کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ ان کا یہ طرزِعمل اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث ہے اور نتیجتاً مسلمان اللہ کے عذاب کی زد میں ہیں۔ ان پر غیر قومیں مسلط ہیں۔ اس طرح وہ ذلت و خواری کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
اس مختصرسے مضمون میں چند ایک باتوں کا اجمالاً ذکر کیا گیا ہے‘ ورنہ ہمارے معاشرے میں زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جہاں کتاب و سُنّت کی خلاف ورزی نہ ہو رہی ہو ۔ایسے میں ہم اللہ کے عذاب کی زد میں کیوں نہ ہوں گے!
tanzeemdigitallibrary.com © 2024