(بیان القرآن) سور ۃ عبس - ڈاکٹر اسرار احمد

10 /

دورۂ ترجمۂ قرآن

سُوْرَۃُ عَبَسَ

ڈاکٹر اسرار احمد

تمہیدی کلمات

سورئہ عبس کی ابتدائی آیات میں ایک خاص واقعہ کا ذکر ہے ۔ سیرت کی کتابوں میں یہ واقعہ یوں بیان ہوا ہے کہ ایک موقع پر حضورﷺ کے پاس قریش کے چند بڑے سردار (عتبہ‘ شیبہ‘ابوجہل‘اُمیہ بن خلف‘ ولید بن مغیرہ اور عباس بن عبدالمطلب وغیرہ) بیٹھے تھے اور آپؐ ان کو اسلام قبول کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش فرما رہے تھے۔ عین اُس وقت جب آپؐ ان سے محو ِگفتگو تھے ایک نابینا صحابی عبداللہ بن اُمّ مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں آئے اور آدابِ مجلس کی رعایت کیے بغیر آپؐ کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی۔ وہ عرض کر رہے تھے : یَارَسُوْلَ اللّٰہِ‘ اَرْشِدْنِیْ ’’یارسول اللہ! مجھے سیدھا راستہ بتایئے‘‘۔یَارَسُوْلَ اللہِ عَلِّمْنِیْ مِمَّا عَلَّمَکَ اللّٰہُ ’’یارسول اللہ! اللہ تعالیٰ نے جو علم آپ کو سکھایا ہے اس میں سے مجھے بھی سکھایئے‘‘۔چاہیے تو یہ تھا کہ وہ صورتِ حال کو سمجھتے اور آپؐ کی گفتگو ختم ہونے کا انتظار کرتے۔ ظاہر ہے وہ دیکھ تو نہیں سکتے تھے لیکن سن تو سکتے تھے کہ حضورﷺ گفتگو میں مصروف ہیں۔ بہرحال انؓ کی بار بار خلل اندازی کی وجہ سے آپﷺ کے چہرئہ انور پر کچھ ناگواری کے آثار نمایاں ہوئے۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ بعض لوگوں نے محض یہ سمجھتے ہوئے ان آیات کی تاویلات تلاش کرنے کی کوشش کی ہے کہ حضورﷺ کے مقامِ رفیع کی مناسبت سے ایسا ممکن ہی نہیں۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیںہے کہ یہ واقعہ بالکل اسی طرح سے پیش آیا تھا جس طرح یہاں ان آیات میں مذکور ہے۔
اس معاملے کی اصل حقیقت اور منطق کو سمجھنے کے لیے بنیادی طور پر یہ نکتہ مدّ ِنظر رکھنا ضروری ہے کہ حضورﷺاپنے فرائض ِ رسالت کی ادائیگی کے لیے منصوبہ بندی کرتے ہوئے ہر وہ طریقہ اور راستہ اختیار فرمانے کی کوشش میں رہتے تھے جو انسانی دائرئہ اختیار کی حد تک بہتر سے بہتر ہوتا۔اب ظاہر ہے عرب کے قبائلی معاشرے میں دعوت و تبلیغ کے کام کو آگے بڑھانے کا مؤثر ترین طریقہ اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتا تھا کہ اہم قبائل کی سرکردہ شخصیات کو اسلام کی طرف راغب کیا جائے۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے حضورﷺ مسلسل کوشش بھی کرتے‘ سردارانِ قریش کو مختلف انداز سے باربار دعوت بھی دیتے اور دعا بھی فرماتے۔ آپؐ کے نزدیک یہ معاملہ اس حد تک اہم تھا کہ ایک مرتبہ آپؐ نے جھولی پھیلا کر بہت ہی غیر معمولی انداز میں دعا کی تھی کہ اے اللہ!عمربن خطاب اور عمرو بن ہشام (ابوجہل) میں سے کسی ایک کے ذریعے اسلام کو تقویت عطا فرما! ظاہر ہے معاشرے کے سرکردہ لوگوں میں سے اگر کوئی شخص ایمان لے آتا تو وہ اکیلا عوام الناس کے سینکڑوں افراد سے زیادہ اہم ہوتا۔ ایسی کسی شخصیت کی وجہ سے مجموعی طور پر اسلامی تحریک کو بھی تقویت ملتی اور مکّہ کے ان نادار اور بے سہارا اہل ِایمان کے مصائب میں بھی ضرور کچھ کمی واقع ہوتی جنہیں اس دور میں دن رات تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ چنانچہ اسی بنیاد پر حضورﷺ مکّہ کے صاحب ِحیثیت لوگوں سے اپنی دعوتی ملاقاتوں کو خصوصی اہمیت دیتے تھے اور مذکورہ واقعہ کے وقت بھی آپؐ نے اسی وجہ سے سردارانِ قریش کے ساتھ اپنی گفتگو کو اہم خیال فرمایا۔ اس کے علاوہ اس معاملے کا ایک منطقی اور فطری پہلو یہ بھی ہے کہ ایسے مواقع پر بعض اوقات اپنوں کے مقابلے میں باہر کے لوگوں کو اس لیے بھی ترجیح دے دی جاتی ہے کہ وہ تو اپنے ہیں‘ وہ ساری صورتِ حال کو سمجھتے ہیں اور اس وجہ سے وہ اپنے آپ کو نظر انداز کیے جانے پر بُرا نہیں منائیں گے۔
بہرحال نبی بھی آخر انسان ہوتا ہے اور اگر انسانی نفسیات و جذبات کے اعتبار سے دیکھا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ مذکورہ واقعہ پر حضورﷺ کا ردّ ِعمل بالکل فطری تھا اور یہ بھی کہ آپ کا یہ ردعمل اعلیٰ تر مقصد کے لیے تھا۔پھر اس معاملے کو حَسَنَاتُ الْاَبْرَارِ سَیِّئَاتُ الْمُقَرَّبِین کے تناظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں جتنا بلند کسی کا مقام ہوتا ہے اس کے لیے کردار و عمل کا معیار بھی اسی نسبت سے اعلیٰ رکھا جاتا ہے۔
ان آیات کے بارے میں حضورﷺ نے خود بھی ’’عتاب‘‘ کا لفظ استعمال فرمایاہے۔ روایات میں آتا ہے کہ ان آیات کے نزول کے بعد جب بھی حضرت عبداللہ بن اُمّ مکتومؓ آپؐ کے پاس حاضر ہوتے تو آپؐ انہیں مخاطب کر کے فرماتے : ((مَرْحَبًا بِمَنْ عَاتَبَنِیْ فِیْہِ رَبِّیْ))(علوم القرآن‘ اسباب النزول‘ ابوالحسن علی بن احمد بن محمد بن علی الواحدی)
’’مرحبا اس شخص کے لیے جس کے معاملے میں میرے رب نے مجھ پر عتاب فرمایا‘‘۔ بہرحال اس واقعہ سے متعلق اگر مذکورہ تمام پہلوئوں کو مدّ ِنظر رکھا جائے تو سارا معاملہ آسانی سے سمجھ میں آجاتا ہے اور متعلقہ آیات کی تاویل ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں رہتی۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
عَبَسَ وَتَوَلّیٰٓ (۱) اَنْ جَاۗءَہُ الْاَعْمٰی (۲) وَمَا یُدْرِیْکَ لَعَلَّہٗ یَزَّکّیٰٓ (۳) اَوْ یَذَّکَّرُ فَتَنْفَعَہُ الذِّکْرٰی (۴) اَمَّا مَنِ اسْتَغْنٰی (۵) فَاَنْتَ لَہٗ تَصَدّٰی (۶) وَمَا عَلَیْکَ اَلَّا یَزَّکّٰی (۷) وَاَمَّا مَنْ جَاۗءَکَ یَسْعٰی (۸) وَھُوَ یَخْشٰی (۹) فَاَنْتَ عَنْہُ تَلَھّٰی (۱۰) کَلَّآ اِنَّھَا تَذْکِرَۃٌ (۱۱) فَمَنْ شَاۗءَ ذَکَرَہٗ (۱۲) فِیْ صُحُفٍ مُّکَرَّمَۃٍ (۱۳) مَّرْفُوْعَۃٍ مُّطَھَّرَۃٍۢ (۱۴) بِاَیْدِیْ سَفَرَۃٍ (۱۵) کِرَامٍۢ بَرَرَۃٍ (۱۶) قُتِلَ الْاِنْسَانُ مَآ اَکْفَرَہٗ (۱۷) مِنْ اَیِّ شَیْءٍ خَلَقَہٗ (۱۸) مِنْ نُّطْفَۃٍ ۭ خَلَقَہٗ فَقَدَّرَہٗ (۱۹) ثُمَّ السَّبِیْلَ یَسَّرَہٗ (۲۰) ثُمَّ اَمَاتَہٗ فَاَقْبَرَہٗ (۲۱) ثُمَّ اِذَا شَاۗءَ اَنْشَرَہٗ (۲۲) کَلَّا لَمَّا یَقْضِ مَآ اَمَرَہٗ (۲۳) فَلْیَنْظُرِ الْاِنْسَانُ اِلٰی طَعَامِہٖ (۲۴) اَنَّا صَبَبْنَا الْمَاۗءَ صَبًّا (۲۵) ثُمَّ شَقَقْنَا الْاَرْضَ شَقًّا (۲۶) فَاَنْۢبَتْنَا فِیْھَا حَبًّا (۲۷) وَّعِنَبًا وَّقَضْبًا (۲۸) وَّ زَیْتُوْنًا وَّنَخْلًا (۲۹) وَّحَدَاۗئِقَ غُلْبًا (۳۰) وَّفَاکِھَۃً وَّاَبًّا (۳۱) مَّتَاعًا لَّکُمْ وَ لِاَنْعَامِکُمْ (۳۲) فَاِذَا جَاۗءَتِ الصَّاۗخَّۃُ (۳۳) یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِیْہِ (۳۴) وَاُمِّہٖ وَاَبِیْہِ (۳۵) وَصَاحِبَتِہٖ وَبَنِیْہِ (۳۶) لِکُلِّ امْرِیٍٔ مِّنْھُمْ یَوْمَئِذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْہِ (۳۷) وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ مُّسْفِرَۃٌ (۳۸) ضَاحِکَۃٌ مُّسْتَبْشِرَۃٌ (۳۹) وَ وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ عَلَیْھَا غَبَرَۃٌ (۴۰) تَرْھَقُہَا قَتَرَۃٌ (۴۱) اُولٰۗئِکَ ھُمُ الْکَفَرَۃُ الْفَجَرَۃُ (۴۲)


آیت ۱{عَبَسَ وَتَوَلّٰیٓ (۱)} ’’تیوری چڑھائی اور منہ پھیر لیا۔‘‘
یعنی حضرت عبداللہ ؓکی بار بار خلل اندازی پر حضورﷺکے چہرئہ انور پر ناگواری کے آثار نمایاں ہوئے اور آپؐ نے چہرئہ مبارک دوسری طرف کر لیا۔
آیت۲{اَنْ جَآئَ ہُ الْاَعْمٰی (۲)}’’اس بات پر کہ آیا اُنؐ کے پاس وہ نابینا ۔‘‘
آیت ۳{وَمَا یُدْرِیْکَ لَعَلَّہٗ یَزَّکّٰیٓ(۳)}’’اور (اے نبیﷺ) آپ کو کیا معلوم شاید کہ وہ تزکیہ حاصل کرتا۔‘‘
ممکن ہے آپؐ کی گفتگو سے استفادہ کر کے وہ بلند درجات تک پہنچ جاتا۔
آیت۴{اَوْ یَذَّکَّرُ فَتَنْفَعَہُ الذِّکْرٰی(۴)}’’یا وہ نصیحت حاصل کرتا اور وہ نصیحت اُس کے لیے مفید ہوتی۔‘‘
آیت ۵{ اَمَّا مَنِ اسْتَغْنٰی(۵)} ’’لیکن وہ جو بے نیازی دکھاتا ہے۔‘‘
ایک ایسا شخص جو آپؐ کی بات سننے کو تیار نہیںہے۔
آیت ۶{فَاَنْتَ لَہٗ تَصَدّٰی(۶)} ’’ آپؐ اُس کی تو فکر میں رہتے ہیں۔‘‘
آیت ۷{وَمَا عَلَیْکَ اَلَّا یَزَّکّٰی(۷)} ’’حالانکہ اگر وہ پاکی اختیار نہیں کرتا تو آپ ؐپر کوئی الزام نہیں۔‘‘
آیت ۸{وَاَمَّا مَنْ جَآئَ کَ یَسْعٰی(۸)} ’’اور وہ جوآپؐ کے پاس دوڑتا ہوا آیا ہے۔‘‘
آیت ۹{ وَہُوَ یَخْشٰی(۹)} ’’اور اُس کے دل میں خشیت بھی ہے۔‘‘
آیت ۱۰{فَاَنْتَ عَنْہُ تَلَہّٰی(۱۰)} ’’تواُس سے آپؐ استغناء برت رہے ہیں۔‘‘
آیت۱ ۱{کَلَّآ اِنَّہَا تَذْکِرَۃٌ(۱۱)}’’ایسا ہرگز نہ کیجیے ‘یہ تو ایک یاد دہانی ہے۔‘‘
آیت ۱۲{فَمَنْ شَآئَ ذَکَرَہٗ(۱۲)}’’تو جو چاہے اس سے نصیحت اخذ کر لے۔‘‘
آپؐ ان لوگوں کے پیچھے خود کو ہلکان نہ کریں ‘اگر ابوجہل اور ابولہب اس ہدایت سے مستفید نہیں ہونا چاہتے تو نہ ہوں‘آپؐ بھی ان کی پروا نہ کریں۔ یہ مضمون قرآن مجید میں بہت تکرار کے ساتھ آیا ہے۔ جیسے سورۃ الکہف میں فرمایا گیا:
{وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَہٗ وَلَا تَعْدُ عَیْنٰکَ عَنْہُمْ ج تُرِیْدُ زِیْنَۃَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاج وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ہَوٰىہُ وَکَانَ اَمْرُہٗ فُرُطًا(۲۸)}
’’اور اپنے آپ کو روکے رکھیے اُن لوگوں کے ساتھ جو اپنے رب کو پکارتے ہیں صبح وشام‘ وہ اللہ کی رضا کے طالب ہیں اور آپؐ کی نگاہیں ان سے ہٹنے نہ پائیں ‘(جس سے لوگوں کو یہ گمان ہونے لگے کہ) آپؐ دُنیوی زندگی کی آرائش و زیبائش چاہتے ہیں!اور مت کہنا مانیے ایسے شخص کا جس کا دل ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جواپنی خواہشات کے پیچھے پڑا ہے اور اس کا معاملہ حدسے متجاوز ہو چکا ہے۔‘‘
ظاہر بات ہے کہ رسول اللہﷺ کا سردارانِ قریش کی طرف التفات (معاذ اللہ ‘ ثم معاذاللہ!) کسی ذاتی غرض کی وجہ سے تو نہیں تھا‘بلکہ آپؐ اسلام کی تقویت کے لیے ان کے قبولِ اسلام کے آرزومند تھے --- لیکن ان کی موجودگی میں اپنے کسی ساتھی سے بے اعتنائی لوگوں کو اس غلط فہمی میں مبتلا کر سکتی تھی کہ آپؐ ان لوگوں کی دولت و ثروت کی وجہ سے ان کی طرف ملتفت ہیں اور اپنے نادار ساتھیوں سے مغائرت بَرت رہے ہیں۔
اگلی آیات عظمت ِقرآن کے ذکر کے حوالے سے پورے قرآن میں منفرد اور ممتاز حیثیت کی حامل ہیں۔ سیاق و سباق کے حوالے سے دیکھا جائے تو ان آیات کے بین السطور میں یہ پیغام بھی ہے کہ اے نبیﷺ! آپ فریضہ ٔرسالت کی ادائیگی کے لیے ان ’’بڑے لوگوں‘‘ کے پیچھے اپنے آپؐ کو جس انداز میں ہلکان کر رہے ہیں اور یہ لوگ جس ’’بے نیازی‘‘ سے قرآن کو نظر انداز کر رہے ہیں اس سے قرآن کے استخفاف کا پہلو بھی نکلتا ہے۔ لہٰذا آپؐ ان لوگوں کے پیچھے پڑ کر انہیں دعوت مت دیں۔ ظاہر ہے یہ پیغام قیامت تک کے داعیانِ حق کے لیے بھی ہے ۔ اس ضمن میں سمجھنے کا اصل نکتہ یہ ہے کہ گو معاشرے کے صاحب ِحیثیت لوگوں کا کسی جماعت میں شامل ہونا اس جماعت کے مشن کی ترویج و ترقی کے لیے بہت مفید ہے ‘لیکن ایسے لوگوں کو خصوصی اہتمام سے دعوت دینے اور پھر خصوصی اہتمام سے اپنی جماعت میں خوش آمدید کہنے کا انداز ایسا نہیں ہونا چاہیے جس سے اپنے ’’نظریے‘‘ کی بے توقیری کا تأثر ملے یا پرانے کارکنوں کے دلوں میں مغائرت کا احساس پیدا ہو۔ لہٰذا کسی بھی جماعت کے امیر کے لیے اصولوں پر سمجھوتہ کیے بغیر صاحب ِحیثیت لوگوں کو اپنی جماعت کی طرف راغب کرنے کی کوشش دراصل اس پُل صراط پر چلنے کے مترادف ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بال سے باریک اور تلوار کی دھار سے زیادہ تیز ہے۔یہ ایسے ہی ہے جیسے خود داری اور تکبّر کے درمیان یا خوش اخلاقی اور خوشامد کے مابین بہت باریک سا فرق ہے ‘لیکن اگر کوئی انسان اس باریک سے فرق کو ملحوظ نہ رکھے تو اس کی ایک بہت اعلیٰ صفت کو لوگ اس کی بہت بڑی خامی پر بھی محمول کر سکتے ہیں۔ لہٰذا حکمت ِتبلیغ کا تقاضا یہی ہے کہ ایسے حساس فرض کی ادائیگی دو انتہائوں کے درمیان رہتے ہوئے بہت محتاط انداز میں سرانجام دی جائے۔
آیت ۱۳{فِیْ صُحُفٍ مُّکَرَّمَۃٍ (۱۳)} ’’(یہ قرآن) ایسے صحیفوں میں (درج ہے) جو باعزّت ہیں۔‘‘
یہ مضمون مختلف انداز اور مختلف الفاظ میں قرآن حکیم کے متعدد مقامات پر آیا ہے۔ سورۃ الزخرف میں فرمایا گیا: {وَاِنَّہٗ فِیْٓ اُمِّ الْـکِتٰبِ لَدَیْنَا لَـعَلِیٌّ حَکِیْمٌ(۴)} ’’اوریہ اُمّ الکتاب میں ہے ہمارے پاس بہت بلند و بالا‘ بہت حکمت والی!‘‘سورۃ الواقعہ میں ارشاد ہوا کہ یہ قرآن ایک مخفی کتاب میں درج ہے : {اِنَّہٗ لَقُرْاٰنٌ کَرِیْمٌ(۷۷) فِیْ کِتٰبٍ مَّکْنُوْنٍ(۷۸)}’’یقیناً یہ بہت عزّت والا قرآن ہے۔ایک چھپی ہوئی کتاب میں ہے‘‘۔ پھر سورۃ البروج میں فرمایا گیا: {بَلْ ہُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِیْدٌ(۲۱) فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ (۲۲)} ’’بلکہ یہ تو قرآن ہے بہت عزّت والا‘ لوحِ محفوظ میں‘‘۔ بہرحال اس مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ اصل قرآن مجید اللہ تعالیٰ کے ہاںایک خاص مقام پر محفوظ ہے۔ صحف ِمکرمہ‘ اُمّ الکتاب‘ کتابِ مکنون اور لوحِ محفوظ اسی مقامِ خاص کے مختلف نام ہیں۔
آیت ۱۴{مَّرْفُوْعَۃٍ مُّطَہَّرَۃٍ(۱۴)}’’بلند و بالا ‘نہایت پاک۔‘‘
آیت ۱۵{بِاَیْدِیْ سَفَرَۃٍ(۱۵)}’’ ان لکھنے والوں کے ہاتھوں میں۔‘‘
آیت ۱۶{کِرَامٍ  بَرَرَۃٍ (۱۶)} ’’جو بڑے معزز اور نیک ہیں۔‘‘
اس سے ملتی جلتی بات ہم سورۃ الواقعہ کی اس آیت میں بھی پڑھ آئے ہیں: {لَا یَمَسُّہٗٓ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ(۷۹)}’’اسے چھو نہیں سکتے مگر وہی جو بالکل پاک ہیں‘‘۔ مراد یہ ہے کہ قرآن مجید کا مقام بہت بلند ہے۔ تو اے نبی(ﷺ) آپ قرآن مجید کے مقام اور مرتبے کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان لوگوں سے معاملہ کیجیے اور جو شخص قرآن مجید سے اعراض کرتا ہے‘آپ ؐبھی اس کو منہ نہ لگایئے۔ ان کے مقابلے میں آپؐ زیادہ توجّہ ان لوگوں پر دیجیے جو ہدایت کی تلاش میں آپ ؐکے پاس چل کر خود آتے ہیں۔
آیت ۱۷{قُتِلَ الْاِنْسَانُ مَآ اَکْفَرَہٗ (۱۷)}’’ہلاک ہو جائے انسان ‘یہ کس قدر ناشکرا ہے!‘‘
آیت ۱۸{مِنْ اَیِّ شَیْ ئٍ خَلَقَہٗ (۱۸)} ’’(ذرا سوچیے کہ) کس چیز سے اللہ نے اسے پیدا کیا ہے؟‘‘
آیت ۱۹{مِنْ نُّطْفَۃٍط} ’’ایک بوند سے۔‘‘
{خَلَقَہٗ فَقَدَّرَہٗ (۱۹)} ’’اُس نے اسے پیدا کیا اور اس کا ایک اندازہ مقرر کر دیا۔‘‘
’’اندازے ‘‘ سے مراد یہاں ہر انسان کا ’’شاکلہ‘‘ ہے ‘جس کا ذکر سورئہ بنی اسرائیل کی آیت ۸۴ میں آیا ہے۔ انسان کا شاکلہ دراصل اس کی فطری یا جبلی خصوصیات اور اس کے ماحول کے اس کی شخصیت پر مرتّب ہونے والے اثرات کے مجموعے سے تشکیل پاتا ہے۔ یعنی ہر انسان کی وہ شخصیت جو اسے پیدائشی طور پر جینز (genes) کی صورت میں اپنے والدین کی طرف سے ملتی ہے‘ عملی زندگی میں آکر اپنے ماحول کے مخصوص اثرات کی وجہ سے ایک خاص ’’قالب‘‘ میں ڈھل جاتی ہے۔ انسانی شخصیت کے اسی قالب کو اس انسان کا شاکلہ کہا جائے گا۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تشریح آیت ۸۴ ‘سورئہ بنی اسرائیل)
آیت ۲۰{ثُمَّ السَّبِیْلَ یَسَّرَہٗ (۲۰)} ’’پھر آسان کر دیا اس پر راستہ۔‘‘
یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں ایسا ماحول فراہم کیا ہے اور اسے ایسی سہولیات سے نوازا ہے جس کی وجہ سے دنیا میں زندگی بسر کرنا اس کے لیے بہت آسان ہو گیاہے۔ اس آیت کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ ماں کے پیٹ سے انسان کے دنیا میں آنے کا راستہ اللہ تعالیٰ نے آسان کردیاہے۔ یعنی وضع حمل کا بظاہر انتہائی پیچیدہ اور مشکل مرحلہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے آسان ہوگیاہے۔
آیت ۲۱{ ثُمَّ اَمَاتَہٗ فَاَقْبَرَہٗ (۲۱)} ’’پھر اس پر موت وارد کی اور اسے قبر میں داخل کردیا۔‘‘
آیت۲۲{ثُمَّ اِذَا شَآئَ اَنْشَرَہٗ (۲۲)} ’’پھر جب وہ چاہے گا اسے اٹھا کھڑا کرے گا۔‘‘
دراصل یہاں بتانا یہ مقصود ہے کہ جس ہستی نے انسان کی تخلیق اور اس کی زندگی سے متعلق یہ سب کچھ کیا ہے اس کے لیے انسان کو دوبارہ اٹھانا کیا مشکل ہے۔ چنانچہ اگر انسان خود اپنی تخلیق کے پورے عمل پر غور کرلے تو اس کے پاس بعث بعد الموت سے انکار کا کوئی جواز نہیں رہ جاتا۔
آیت۲۳{کَلَّا لَمَّا یَـقْضِ مَآ اَمَرَہٗ(۲۳)}’’ نہیں! اس نے تاحال وہ بات پوری نہیں کی جس کا اللہ نے اسے حکم دیا تھا۔‘‘
آیت ۲۴{فَلْیَنْظُرِ الْاِنْسَانُ اِلٰی طَعَامِہٖٓ(۲۴)} ’’تو انسان ذرا اپنے کھانے ہی کو دیکھ لے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کی قدرت کے بارے میں اگر پھر بھی کسی کو شک ہو تو وہ اپنی غذا پر ہی غور کرلے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے پیدا کرنے کے بعد کس کس انداز میں اس کی غذا کا انتظام کیا ہے ۔
آیت ۲۵{اَنَّا صَبَبْنَا الْمَآئَ صَبًّا(۲۵)} ’’کہ ہم نے آسمان سے پانی برسایا جیسے کہ برسایا جاتا ہے۔‘‘
آیت۲۶{ثُمَّ شَقَقْنَا الْاَرْضَ شَقًّا(۲۶)} ’’پھر ہم نے زمین کو پھاڑا جیسے کہ وہ پھٹتی ہے۔‘‘
زمین پھٹتی ہے اور اس میں سے کونپلیں برآمد ہوتی ہیں‘ جو رفتہ رفتہ پورے پودے بلکہ تناور درخت کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔
آیت ۲۷{فَاَنْبَتْنَا فِیْہَا حَبًّا(۲۷)} ’’پھر ہم نے اُگا دیے اس میں اناج۔‘‘
آیت ۲۸{ وَّعِنَبًا وَّقَضْبًا(۲۸)} ’’اور انگور اور مختلف ترکاریاں ۔‘‘
آیت۲۹{وَّزَیْتُوْنًا وَّنَخْلًا(۲۹)} ’’اور زیتون اور کھجوریں۔‘‘
آیت ۳۰{وَّحَدَآئِقَ غُلْبًا(۳۰)} ’’اور بڑے گھنے باغات۔‘‘
آیت۳۱{وَّفَاکِہَۃً وَّاَ بًّا(۳۱)} ’’اور میوے اور چارہ۔‘‘
آیت ۳۲{مَّتَاعًا لَّکُمْ وَلِاَنْعَامِکُمْ (۳۲)} ’’ضرورت کا سامان تمہارے لیے بھی اور تمہارے مویشیوں کے لیے بھی۔‘‘
یہ آیت ہوبہو سورۃ النازعات میں (آیت ۳۳ کے طور پر) بھی آ چکی ہے۔ جوڑا ہونے کے اعتبار سے ان دونوں سورتوں کے مضمون اور اسلوب میں بہت مشابہت پائی جاتی ہے۔
آیت ۳۳{فَاِذَا جَآئَ تِ الصَّآخَّۃُ (۳۳)} ’’توجب وہ آجائے گی کان پھوڑنے والی (آواز)۔‘‘
یعنی جب قیامت برپا کرنے کے لیے صور میں پھونکا جائے گا تو اس کی آواز سے کان پھٹ جائیں گے۔ اس آیت کی مشابہت سورۃ النازعات کی اس آیت سے ہے : {فَاِذَا جَآئَ تِ الطَّآمَّۃُ الْکُبْرٰی} ’’پھر جب وہ آ جائے گا بڑا ہنگامہ۔‘‘
آیت ۳۴{یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْئُ مِنْ اَخِیْہِ(۳۴)} ’’اُس دن بھاگے گا انسان اپنے بھائی سے۔‘‘
آیت ۳۵{وَاُمِّہٖ وَاَبِیْہِ(۳۵)} ’’اور اپنی ماں سے اور اپنے باپ سے۔‘‘
آیت ۳۶{وَصَاحِبَتِہٖ وَبَنِیْہِ(۳۶)} ’’اور اپنی بیوی سے اور اپنے بیٹوں سے۔‘‘
آیت ۳۷{لِکُلِّ امْرِیٍٔ مِّنْہُمْ یَوْمَئِذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْہِ(۳۷)} ’’اُس دن ان میں سے ہر شخص کو ایسی فکر لاحق ہو گی جو اسے (ہر ایک سے) بے پروا کر دے گی۔‘‘
اُس دن ہر انسان نفسا نفسی کی کیفیت میں ہو گا۔ ہر انسان کو اپنی پریشانی کی وجہ سے اپنے عزیز ترین رشتوں سمیت کسی دوسرے کی کوئی پروا نہیں ہوگی۔
آیت۳۸{وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ مُّسْفِرَۃٌ (۳۸)} ’’کچھ چہرے اُس دن روشن ہوں گے۔‘‘
یہ مضمون اس سے پہلے سورۃ القیامہ کی ان آیات میں بھی آ چکا ہے : {وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ(۲۲) اِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ(۲۳) وَوُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ م بَاسِرَۃٌ(۲۴) تَظُنُّ اَنْ یُّفْعَلَ بِہَا فَاقِرَۃٌ(۲۵)} ’’بہت سے چہرے اُس دن تروتازہ ہوں گے‘وہ اپنے رب کی طرف دیکھتے ہوں گے۔اوربہت سے چہرے اُس روز اُترے ہوئے ہوں گے۔ان کو یقین ہوگا کہ اب ان کے ساتھ کمرتوڑ سلوک ہو گا۔‘‘
آیت ۳۹{ضَاحِکَۃٌ مُّسْتَـبْشِرَۃٌ (۳۹)} ’’مسکراتے ہوئے خوش و خرم۔‘‘
آیت ۴۰{وَوُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ عَلَیْہَا غَبَرَۃٌ(۴۰)} ’’اور کچھ چہرے اُس دن غبار آلود ہوں گے۔‘‘
آیت ۴۱{تَرْہَقُہَا قَتَرَۃٌ(۴۱)} ’’ان پر سیاہی چھائی ہوئی ہو گی۔‘‘
آیت ۴۲{اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْکَفَرَۃُ الْفَجَرَۃُ(۴۲)} ’’یہی ہوں گے وہ کافر اور فاجر لوگ۔‘‘
یہ وہ لوگ ہوں گے جو دنیا میں اپنے نفس کے تقاضے پورے کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حدود کو لائق ِاعتناء نہیں سمجھتے تھے۔