بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
تاخلافت کی بِنا دنیا میں ہو پھر اُستوار
۲۰۲۴ءکا آغاز ہو چکا ہے۔ خلافت کے ادارے کو ختم ہوئے شمسی لحاظ سے سوسال بیتنے کو ہیں کہ یہ سانحہ جاں کاہ۳ مارچ۱۹۲۴ء کو پیش آیا تھا ۔ زیاں کا احساس رکھنے والوں کے زخم آج تک ہرے ہیں ۔ اس سے پہلے کہ ہم اس حوالے سے اپنے دردِ دل کو قرطاس پر منتقل کریں‘ ہمیں اپنے ہاں کے ان سیکولرز اور مغرب سے مرعوب ’’دانشوروں‘‘ کو جواب دینے کی ضرورت ہے جو بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ تاریخ میں مسلمانوں کی کارکردگی اور حیثیت آخر ہےکیا! جب ہم مسلمانوں کی عظمت ِرفتہ کے الفاظ لکھتے یا بولتے ہیں تو وہ اعتراض اُٹھاتے ہیں اور طنزیہ انداز میں کہتے ہیں کہ کون سی عظمت تھی جس کے چلے جانے پر یہ لوگ اظہارِ افسوس کر رہے ہیں! وہ کب تھی‘ کیسی تھی؟ یوں وہ ہمارے زخموں پر نمک چھڑکتے بلکہ انہیں کریدتے ہیں۔ لہٰذا سقوطِ خلافت پر اپنے دل کےپھپھولے پھوڑنے سے پہلے ان کا منہ بند کرنا انتہائی ضروری ہے۔
ہمارا یہ دعویٰ ہے ‘اور بلا خوفِ تردید ہے ‘کہ انسانی تاریخ میں جتنے طویل عرصہ تک مسلمان عالمی قوت رہے ہیں‘ کوئی دوسری قوم نہیں رہی ۔ کبھی سپریم پاور آف دی ورلڈ کی حیثیت سے اور کبھی محض سپر پاور بن کر۔ مختصر ترین الفاظ میں اس کی روداد یہ ہے کہ خلافت راشدہ کا آغاز۶۳۲ ء میں ہوا اور حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں اسلامی ریاست تین براعظموں تک پھیل چکی تھی۔ خلافت راشدہ کے بعد بنو اُمیہ اور بنو عباس کے ادوار میں بھی اسلامی سلطنت وسیع ہوتی چلی گئی ۔ آخر میں سلطنت عثمانیہ قائم ہوئی۔اس دوران مسلمانوں کا معاملہ یہ رہا کہ سپین میں انھوں نے تقریباً ۸۰۰سال راج کیا۔ پھر کبھی ایوبی سلطنت قائم ہوئی اور کبھی سلجوقی حکمران بنے۔ ہندوستان میں ۹۰۰سال تک غزنوی‘ غوری اور مغل حکمران رہے۔ گویا ایک عرصہ تک مسلمانوں کا معاملہ یہ رہا کہ ؎
جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے‘ اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے!مذکورہ نام نہاد دانشوروں سے سوال ہے کہ کیا کارکردگی اور حیثیت نہ رکھنے والی کوئی قوم سپریم پاور آف دی ورلڈ بن سکتی ہے؟ بات طویل ہو جائے گی وگرنہ فلسفہ‘ طب اور جراحی میں مسلمانوں کے عظیم کارناموں پر ضخیم کتابیں تحریر کی جا سکتی ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ غرناطہ کی لائبریریوں سے علم یورپ منتقل ہوا۔ آج وہاں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی میں اسی علم کا وافر حصّہ ہے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم ’’پدرم سلطان بود‘‘کے قائل ہیں۔ ہم بآوازِ بلند اعتراف کرتے ہیں کہ گزشتہ دو یا اڑھائی صدیوں سے مسلمان زوال پزیر ہیں اور بری طرح ذلت ورسوائی کا سامنا کر رہے ہیں۔البتہ ماضی میں اُمّت ِمسلمہ کی عظمت پر اگر کوئی سوال اٹھاتا ہے تو وہ یا تو تاریخ سے نابلد ہے یا کاذب ہے جو ایک بدیہی حقیقت کا منکر ہے۔
سلطنت عثمانیہ۱۲۹۹ ء میں قائم ہوئی اور۱۹۲۴ ء تک قائم رہی۔ گویا یہ عظیم سلطنت سوا چھ سو سال قائم رہی۔آخری نصف صدی یا پون صدی بیچ میں سے نکال دی جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ ساڑھے پانچ سوسال یہ عظیم الشان سلطنت شان وشوکت بھی رکھتی تھی اور حکمرانوں کی رٹ پر بھی کوئی سوالیہ نشان نہیں تھا۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ خلافت راشدہ کا نظام مثالی اور آئیڈیل تھا‘ لیکن بعد ازاں اس میں آہستہ آہستہ ملوکیت در آئی جو بنو عباس کے دور میں خالص ملوکیت بن گئی۔ البتہ شرعی نظام قائم رہا‘ قانونی سطح پر قرآن اور سُنّت کو بالا دستی حاصل رہی اور عوام اس نظام کی برکت سے کافی حد تک مستفید ہوتے رہے۔اس کے علاوہ خلافت کا نظام مسلمانوں کو ایک مرکزیت `‘ طاقت اور اتحاد کا جواز فراہم کرتا تھا ۔ تاریخ کے صفحات پر یہ حقائق موجود ہیں کہ۱۸۹۷ ء میں جب عالمی صہیونی کانفرنس میں یہ فیصلہ ہوا کہ سلطنت عثمانیہ سے فلسطین میں یہودیوں کی آبادکاری کی اجازت لی جائے گی‘اور پھر صہیونی تنظیم کا بانی تھیوڈر ہرزل دو دفعہ خلیفۂ وقت عبدالحمید دوم کے پاس یہ پیشکش لے کر آیا کہ آپ ہمیں فلسطین میں یہودیوں کو بسانے کی اجازت دے دیں تو ہم نہ صرف سلطنت ِعثمانیہ کے سارے قرضے اُتار دیں گے بلکہ ترقیاتی پروگراموں کے لیے مزید رقم بھی دیں گے تو خلیفہ نے اس کے جوا ب میں یہ تاریخی الفاظ کہے تھے کہ: میں اپنے جسم کا کوئی حصّہ کاٹ کر تو دے سکتا ہوں لیکن یہ ہر گزبرداشت نہیں کر سکتا کہ اُمّت کی امانت میں سے کوئی حصّہ آپ کو دے دوں ۔ اُس وقت خلافت ِعثمانیہ حالت ِ نزع میں تھی‘ لیکن پھر بھی اس کی اتنی طاقت تھی کہ یہودیوں کو فلسطین کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی بھی جرأت نہ ہوئی اور نہ وہ اسرائیل کے قیام کی جانب کوئی قدم اٹھا سکے ۔ گویا اپنے آخری دور میں بھی خلافت ِعثمانیہ نے حرمت ِرسول ﷺ اور ارضِ فلسطین پر چاق و چوبند رہ کر پہرہ دیا۔ لہٰذا ہم یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ اگر آج مسلمانوں کی کوئی اجتماعیت ہوتی تو کیا اسرائیل اور اُس کے سہولت کاروں کو فلسطینی مسلمانوں کے قتلِ عام کی جرأت ہوسکتی تھی؟
اسرائیل کی بنیاد اس وقت پڑی جب خلافت عثمانیہ ختم ہو گئی ۔ خلافت کی اہمیت اور طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایاجا سکتا ہے کہ شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ جب مالٹا میں اسیر تھے توانہوں نے ایک انگریز افسر سےپوچھا:’’ آپ لوگ اس کمزور سی خلافت کے اتنے مخالف کیوں ہیں ؟‘‘ اس نے جواب دیا : ’’مولانا! آپ اتنے بھی بھولے نہ بنیں ۔ کیا ہمیں نہیں معلوم کہ جب خلیفہ جہاد کا حکم دے گا تو ساری دنیا سے مسلمان اکٹھے ہو جائیں گے ۔‘‘ یہ بھی خلافت کی برکت تھی کہ البانیہ `‘ کوسوو‘ ` مقدونیہ ‘ یونان `‘ ہنگری‘ ` بوسنیا‘ ` رومانیہ‘ ` بلغاریہ‘ ` سلواکیہ‘ ` پولینڈ‘ ` آسٹریا سمیت بیشتر یورپی علاقوں کے شہری اسلام کے فطری قوانین اور نظامِ عدل سے متاثر ہو کر ہی مسلمان ہوئے تھے ۔
اب اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ مسلمان کیوں زوال پزیر ہوئے اور آج دشمنانِ اسلام اُمّت ِمسلمہ کے جسد کو کیوں نوچ رہے ہیں۔ علّامہ اقبال کہتے ہیں ؎
چاک کردی ترکِ ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی مسلم کی دیکھ‘ اوروں کی عیاری بھی دیکھ!چشم تصوّر سے دیکھیں تو یوں لگتا ہے کہ علّامہ نے یہ شعر کہہ کر غم اور اندوہ سے اپنا گریبان چاک کرلیا ہوگا۔ درحقیقت خلافت کے ادارہ کے خاتمے کے بعد اُمّت ایک بے گوروکفن لاشہ ہے اور یہود وہنود اورنصاریٰ اس لاشے کی بے حرمتی سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ سقوطِ خلافت کی وجہ انیسویں صدی کے ترکوں کی نااہلی اور عاقبت نا اندیشی ہے‘ محنت ومشقت اور جفاکشی کو ترک کرکے عیش وعشرت میں پڑ جانا ہے۔ دولت اور اقتدار کی ہوس نے ان کی آنکھوں کو نہیں دلوں کو اندھا کر دیا تھا۔ وہ بھول گئے تھے کہ دولت و اقتدار سایہ کی مانند ہوتے ہیں جو جگہ بدلتا رہتا ہے۔ مسلمان طویل عرصے تک مقتدر رہنے کی وجہ سے اقتدار وغلبہ کو اپنا استحقاق سمجھنے لگے۔ انہوں نے اپنی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کی صلاحیت کھو دی۔ وہ دوست و دشمن میں تمیز کرنے کے قابل بھی نہ رہے۔وہ اب اسلام کے فطری قوانین اور نظام عدل کوخیرباد کہہ کر مغربی جمہوریت کے زیراثر سیکولر قانون اور نظریاتی کی بجائے نسلی ریاست کی بات کرنے لگے۔ اس کا ردّعمل علاقائی تعصب کی صورت میں ظاہر ہوا اور مصر ` ‘حجاز `‘ شام کے علاوہ یورپ کے علاقوں میں بھی نسلی اور علاقائی بنیادوں پر تحریکیں اُٹھائی گئیں۔ نادان مسلمان اس حقیقت کا ادراک نہ کر سکے کہ ان کا زوال خلافت کے نظام کی وجہ سے نہیںبلکہ دین سے دُوری اور اپنے کردار کی وجہ سے ہے ۔ حضور اکرمﷺ کےقول مبارک کے مطابق وہ وہن کی بیماری میں مبتلا ہو گئے‘ جو دنیا سے محبت اور موت سے کراہت کا نتیجہ ہے۔
انتہائی افسوس ناک امر یہ ہے کہ ترکوں کے باپ یعنی اتاترک نے خلافت کے اس ادارے کو خود اپنے ہاتھوں سے دفنایا۔ سلطنت ِعثمانیہ کے آخری دور میں تقریباً تمام اعلیٰ سول اور فوجی عہدوں پر ایسے لوگ تھے جو دشمنوںکے مفادات پورے کر رہے تھے ۔ جنگ عظیم اوّل میں ان غداروں نے سلطنت ِعثمانیہ کو توڑنے اور ختم کرنے میں بنیادی کردارادا کیا۔ مغرب کے کئی محاذوں پر ایسے جرنیلوں نے محض دشمن کو فتح دلوانے کے لیے ہتھیار ڈال دیے ۔کئی علاقوں میں دشمنوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے خوا مخواہ جنگ چھیڑی گئی جس کا نقصان عثمانی سلطنت کو ہوا ۔ اس حوالے سے شریف ِمکہ(اردن کے موجودہ شاہ عبد اللہ کا جدّا امجد حسین بن علی) اور آلِ سعود کا ذکر خاص طور پر کیا جاتاہے جو صرف علاقائی تعصب کی بنیاد پر سلطنت ِعثمانیہ سے بغاوت کر رہے تھے ‘جس کے پیچھے بھی دشمن کا ہاتھ لارنس آف عریبیہ اور ہمفرے کی صورت میں موجود تھا۔
خلافت کو ختم کرنے کے لیے دشمنوں نے جتنی کوششیں کیں ان کا اصل مقصد دنیا میں جمہوریت کا قیام یا انسانیت کو عدل وانصاف مہیا کرنا نہیں تھا بلکہ پوری دنیا پر اپنی بالا دستی قائم کرنا تھا ۔ اس کے لیے ان کو ایک ایسے نظام کی ضرورت تھی جو بظاہر بڑا دل فریب ہو‘ لیکن مقاصد اس گروہ کے پورے کر رہا ہو جس کے پنجے میں اب پوری دنیا ہے۔ درحقیقت پوری دنیا پر سرمایہ دارانہ نظام کا غلبہ مقصود تھا۔ بظاہر انہوں نے کہیں جمہوریت قائم کی اور کہیں بادشاہتیں‘ لیکن اس وقت دنیا پر اصل غلبہ سرمایہ دارانہ نظام کا ہے جو ایک مخصوص گروہ کی عالمی حکومت کے قیام کا راستہ ہموار کر رہا ہے۔ انسانیت سرمایہ دارانہ نظام کے استحصالی شکنجے میں جکڑی جا چکی ہے۔ اس سے نجات دلانے کی اصل ذمہ داری اب اس بہترین اُمّت کے کندھوں پر ہے جسے انسانیت کی خاطر برپا کیا گیا‘ خصوصاً اُس واحد اسلامی ایٹمی طاقت پر جس کے بانی نے بسترِمرگ پر فرمایا تھا: ’’اب یہ پاکستانیوں کا فرض ہے کہ اس ملک خداداد کو خلافت ِ راشدہ کا نمونہ بنائیں تاکہ اللہ اپنا وعدہ پورا کرے اور مسلمانوں کو دنیا کی خلافت عطا کرے‘‘۔بقول مصورِ پاکستان ؎
تا خلافت کی بِنا دنیا میں ہو پھر اُستوار
لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر!
tanzeemdigitallibrary.com © 2024