(عرض احوال) سب ہوش کے ناخن لیں - خورشید انجم

10 /

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سب ہوش کے ناخن لیں!پاکستان تحریک انصاف کے بانی رہنما اکبر ایس بابر نے اپنے بیان میں انکشاف کیا ہے کہ ایک بین الاقوامی ایجنڈے کے تحت ایسی تمام سیاسی اور بظاہر قوم پرست قوتوں کو اکٹھا کیا جارہا ہے جو پاکستان کی سالمیت اور قومی سلامتی کے اداروں کو کسی نہ کسی بہانے چیلنج کررہی ہیں۔ کچھ مغربی ممالک کے سفارت کاراس سلسلے میں پوری طرح متحرک ہیں اور نجی محفلوں میں خیبرپختون خوا اور بلوچستان سے تعلق رکھنےوالےتمام سیاست دانوں کوایسی قوتوں کا ساتھ دینے کی ترغیب دےرہے ہیں جن کا مقصد ایک مشترکہ پلیٹ فارم تشکیل دے کر پاکستان کے وفاق کے خلاف شیخ مجیب الرحمٰن کے چھ نکات کی طرز پر مطالبات کرنا ہے۔ا کتوبر کے مہینے میں اس سلسلے میں اہم پیش رفت متوقع ہے۔ اکبر ایس بابر نے جس صورت حال کی طرف اشارہ کیا ہے اب وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے اور ہر دیکھنے والی آنکھ دیکھ رہی ہے اور ہر قلب ِحساس مضطرب ہے کہ انجامِ گلستان کیا ہوگا‘ دستورِ بہاراں کیا ہوگا ! یہ سب ہماری اپنی ناہلی اور کوتاہی کا نتیجہ ہے۔ اغیار اور اعداءایسی صورت حال کی تاک میں ہوتے ہیں بالکل اس کہاوت کی مانند کہ جب تندور گرم ہو تو اڑوس پڑوس کے لوگ روٹیاں پکانے آجاتے ہیں ۔ چنانچہ کچھ عرصے سے وطن عزیز کے مختلف حصوں میں جو حالات اور واقعات رونما ہورہے ہیں‘ اس نے ہر حساس شخص کی تشویش میں اضافہ کردیا ہے ۔ اس وقت ہر پاکستانی مسلمان خواہ امیر ہو یا غریب‘پڑھا لکھا ہو یا اَن پڑھ‘ بڑا ہو یا چھوٹا ‘ملک و ملت کے بارے میں شدید اندیشہ محسوس کر رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں صوبائیت اور لسانیت کا بیج تواسی وقت ہی بو دیا گیا تھا جب ہمارا عزیز ملک معرضِ وجود میں آیا تھا۔ ابتدا ہی سے لسانی بنیادوں پر بنگالی عوام کی ناراضگی مول لےلی گئی۔انہوں نے ۱۹۵۶ ء کےآئین میں ‘جو پہلے ہی دیگر کئی وجوہات کی بنا پر التوا و تاخیر کا شکار تھا‘ اردو زبان کو قومی زبان تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ اگرچہ بعد میں ان کے مطالبہ کو تسلیم کرتے ہوئے اردو کے ساتھ بنگالی کو بھی قومی زبان کا درجہ دے دیا گیاتھا‘ لیکن آپس میں اختلافات کی خلیج بڑھتی ہی چلی گئی اوربالآخر پاکستان دولخت ہو گیا۔ پاکستان کو یوں دو ٹکڑے ہوتے دیکھ کر بھی ہمارے سیاست دانوں اور مقتدر حلقوں نے سبق نہ سیکھا اور ملک کے دوسرے صوبوں میں بھی وقتاً فوقتاً صوبائیت اور لسانیت کو ہوا دی جاتی رہی۔ کبھی سندھو دیش کے نعرے لگے تو کبھی عظیم تر بلوچستان کا واویلا مچایا گیا‘ کبھی پختونستان کا راگ الاپا گیا اور کبھی مہاجر قوم کے نام پر انتشار پھیلایا گیا۔ صوبائیت پرستی نے ملک کو بہت نقصان پہنچایا‘ جس سے اغیار نےبھرپور فائدہ اٹھایا۔بھارت نے علیحدگی پسندوں کو ہر طرح کا تعاون فراہم کیا اور انہیں مالی فوائد کا لالچ دے کر پاکستان کے خلاف اکسایا ۔امریکہ اور بھارت نے پاکستان کو توڑنے کی بھرپور کوششیں کی جو آج تک جاری ہیں۔’’را‘‘ کے جتنے بھی جاسوس پکڑے گئے ‘ وہ دور دراز اور سہولیات سے محروم علاقوں میں تخریب کاری میں ملوث پائے گئے‘ جس کا اعتراف انہوں نے خود کیا۔ کلبھوشن یادیواور اُس کا نیٹ ورک اس کی تازہ ترین مثال ہے۔
ابھی حال ہی میں بلوچستان میں رونما ہونے والے واقعات نے ہر شخص کو ایک مرتبہ پھر ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اگرچہ بلوچستان میں ماضی میں بھی متعدد بار ہمارے سیاست دانوں کی عاقبت نااندیشی اور ذاتی مفادات کی بنا پر بے چینی پیدا ہوئی‘یہاں تک کہ بغاوت کی سی صورت بھی ظاہر ہوئی جس کو فرو کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا گیا‘ لیکن حال ہی میں اکبر بگٹی کی برسی کے موقع پر جس طرح بسوں سے اتار کر اور شناختی کارڈ چیک کرکے پنجاب کے لوگوں کو قتل کیا گیا‘ اس سے پنجاب کے بارے میں نفرت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اسی موقع پر بلوچستان کا پاکستان سے زمینی راستہ بھی کاٹ دیا گیا۔ بموں کے دھماکے اور دوسری تخریبی سرگرمیاں اب معمول بن چکی ہیں۔ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے جلسے واقعتاً ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کا نقشہ پیش کررہے ہیں ۔علاوہ ازیں مسنگ پرسنز (لاپتہ افراد) کے حوالے سے بلوچستان کے دھرنے اب ایک تحریک کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔دوسری جانب خیبر پختونخوا کا صوبہ ہے‘ جس کی بدامنی پچاس برس سے جاری ہے۔ گویانصف صدی کا قصہ ہے ‘دو چار برس کی بات نہیں۔ صد افسوس کہ یہ نصف صدی بم دھماکوں اور تخریبی سرگرمیوں سے عبارت ہے‘ اگرچہ کچھ عرصہ گویاسانس لینے کے لیے کچھ کمی آجاتی ہے‘یعنی آگے بڑھیں گے دم لے کر۔ اب تو پولیس بھی ریاستی اداروں کے بالمقابل کھڑی ہوگئی ہےاور تقریباً چار اضلاع میں ہڑتال پر چلی گئی ہے ۔
سندھ بظاہر تو پُرسکون نظر آرہا ہے لیکن سندھی نیشنل ازم کا پودا بھی ایک تناور درخت بن چکا ہے جس کے خمیر میں دین بیزاری اور مذہب بیزاری کا عنصر بھی شامل ہے۔ بہر حال تین نسلوں پر الحاد و ارتداد کی محنت و کوشش کا نتیجہ یہ ہے کہ سندھ کا نوجوان اور خاص کر تعلیم یافتہ طبقہ کا ایک بہت بڑا حصہ دین و مذہب سے بیز ار ہو کر الحاد و دہریت کی گود میں چلا گیا ہے۔
پنجاب جو آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے‘کہنے کو تو یہ سب سے خوش حال صوبہ ہے جو دوسرے صوبوں کے نزدیک ان کے استحصال کا نتیجہ ہے ۔ پھر یہ کہ سول وملٹری بیوروکریسی کی اکثریت کا تعلق پنجاب سےہے اور یہ عدم توازن بھی دوسرے صوبوں کو پنجاب کے خلاف بھڑکانے کا ایک سبب ہے۔دوسری طرف خود پنجاب میں بھی امن و امان کی صورت حال انتہائی مخدوش ہے اور کچے کے ڈاکوؤں نے پنجاب کے سکیورٹی اداروں کی پیشہ وارانہ استعداد کی قلعی کھول دی ہے ۔کہا جارہا ہے کہ کچے کے ڈاکوؤں کا پکے کے ڈاکوؤں کے ساتھ جنٹلمین ایگریمنٹ (شریفانہ معاہدہ)ہے۔
اس پر مستزاد حکومت اور ریاستی اداروں کا اپوزیشن کے ساتھ جابرانہ طرزِ عمل ہے۔ پاکستان کی ہر سیاسی جماعت کو آئین اور قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے جلسوں کے انعقاد اور پُر امن احتجاج کا حق حاصل ہےلیکن پہلے جلسے کو روکنا ‘اجازت کے بعد اس میں رکاوٹیں ڈالنا اور پھر اراکینِ پارلیمنٹ کو ایوان سے گرفتار کرنا بھی انتہائی تشویش ناک ہے۔ یہ ایک ایسی غلط روایت ہے جس سے فسطائیت کی بُو آتی ہے۔
ملک کے تمام سیاست دانوں اور مقتدر حلقوں سے ہماری دست بستہ گزارش ہے کہ سب ہوش کے ناخن لیں اور ماضی کے تلخ تجربات سے سبق حاصل کریں۔ایسی تمام سرگرمیوں اور کارروائیوں سے گریز کریںجن سے عوام ملک کے دیگر صوبوں اور علاقوں کے خلاف بھڑک اٹھیں۔ اس نازک وقت میں تمام سیاست دان اور مقتدر طبقات ملک کی خاطر اپنے اختلافات بھلا کر اکٹھے بیٹھ کر ایک لائحۂ عمل طے کریں کہ ملکی سالمیت کو کس طرح محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔ وفاقی حکومت کا فرض ہے کہ وہ ملک کے دور دراز علاقوں کو احساس محرومی سے نکالنے کےلیے انہیں دیگر علاقوں کی طرح سہولیات فراہم کرے۔ ان علاقوں میں تعلیم‘ علاج اور روزگار کامناسب انتظام کیا جائے۔ قدرتی وسائل میں ان کوپورا پورا حق دیا جائے۔ ان علاقوں میں صنعتیں قائم کی جائیں تاکہ لوگوں کو روزگار ملے اور ان کا معیارِ زندگی بہتر ہو۔ یوں صوبائیت پرستی کا خاتمہ ممکن ہوگا اور ملک دشمن عناصر کو بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
یہاں جملہ معترضہ کے طور پر یہ بھی عرض کیے دیتے ہیں کہ اگر چھوٹے چھوٹے صوبے بنا دیے جائیںیا ہر ڈویژن کو ایک صوبہ کا درجہ دے دیا جائےتو نہ صرف یہ انتظامی لحاظ سے زیادہ بہتر ہو گا بلکہ اس سے قوم پرستی اور صوبائی عصبیت کا خاتمہ کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ دنیا بھر میں انتظامی بنیادوں پر صوبے بنتے اور ٹوٹتے رہتے ہیں۔ یعنی اگر حکومت یہ محسوس کرے کہ کوئی صوبہ آبادی یا رقبے کے لحاظ سے بہت بڑا ہے اور انتظامیہ کےلیے اس کی دیکھ بھال مشکل ہورہی ہے تو پھر کسی بھی صوبے کی تقسیم اور نئے صوبوں کی بنیاد رکھنے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیے۔ ضرورت کے مطابق ایسا کرنا فائدہ مند ہوتا ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی نے اپنے نظریات لوگوں پر مسلط کرنے کی کوششں کی تو مسائل نے جنم لیا اور کاروبارِ دنیا الجھتا گیا۔ خطۂ زمین پر بسنے والے نہ صرف گروہوں میں بٹے بلکہ رنگ ‘نسل اور زبان کی بنیاد پر تقسیم ہو کر رہ گئے۔ قرآن کا دعویٰ ہےکہ محمد رسول اللہﷺ پر نازل کیا گیااللہ تعالیٰ کا یہ آخری اور حتمی کلام غالب ہونے کے لیے ہی آیا ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ اس آئین پر ہی عمل کرتے ہوئے دنیا میں ایک ایسی حکومت قائم کی جا سکتی ہے جس میں رنگ و نسل اور لسانی بنیادوں پر انسانیت کی تقسیم نہ ہو بلکہ عدل ہو۔ وہ حکومت قائم ہو جس کا حاکم عوام کے سامنے جواب دہ ہو اوراُن کا مسیحا ہو‘ جس مملکت میں لوگ تعلیم سے محروم نہ ہوں۔ ایسا معاشرہ وجود میں آئے جہاں زکوٰۃ دینے والے تو ہوں مگر لینے والے نہ ہوں۔ ایسا معاشرہ قائم ہو جس میں طاقت ور کمزور پر ظلم نہ کر سکے۔ایسے نظامِ حکومت کو دنیا نے خلافت ِراشدہ کے دور میں اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھا اور پرائے بھی اس کی برکتوں کے معترف ہوئے۔ لہٰذا مملکت ِخدادادپاکستان جو اسلام کے نام پر وجود میں آئی تھی‘ اس کے جملہ مسائل کا حل صرف یہی ہے کہ ہم اپنی اصل کی طرف لوٹیں اور ملک کو صحیح معنوں میں ایک اسلامی فلاحی ریاست بنائیں ۔اس راستے کا انتخاب کیا جائے جس پر چل کر دنیا اور آخرت میں سرخرو ہوا جا سکے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ تمام صاحبانِ حل و عقد اور فیصلہ کی مسند پر بیٹھے تمام افراد کو ہدایت عطا فرمائے اور ملک و قوم کے حوالے سے صحیح فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!