(بیان القرآن) التِّین+ العَلق + القَدْر - ڈاکٹر اسرار احمد

10 /

سُوْرَۃُ التِّیْنِ
تمہیدی کلمات

سورۃ التین میں انسانی زندگی کے نفسیاتی اور فلسفیانہ پہلو سے متعلق اہم حقائق بیان ہوئے ہیں۔ بنیادی طور پر اس سورت کا مضمون چونکہ انسان کی تخلیق سے متعلق ہے اس لیے اسے سمجھنے کے لیے نفسِ انسانی کی تخلیق کے بارے میں سورۃ الشمس کی آیت {فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰىہَا(۸)}کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسانی نفس کے بارے میں یہ حقیقت واضح فرما دی ہے کہ اس میں نیکی اور بدی کی تمیز الہام کر دی گئی ہے۔ اب اس حقیقت کو مدّ ِنظر رکھتے ہوئے آپ ایک ایسے انسان کا تصوّر کریں جس کی اخلاقی حس پوری طرح فعال و بیدار ہے۔ ایسا انسان جب ایک بگڑے ہوئے معاشرے کو دیکھتا ہے(بدقسمتی سے آج ہمارا معاشرہ اجتماعی بگاڑ کا مثالی نقشہ پیش کرتا ہے) تو وہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ شاید انسان بنیادی طور پر بہت گھٹیا اور گندی مخلوق ہے‘ اور یہ کہ شاید اس میں خیر نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں۔ اسی وجہ سے دورِ جدید کے تقریباً تمام ماہرین ِنفسیات اس نکتے پر متفق ہیں کہ انسان کے اندر حیوانی داعیات یعنی پیٹ اور شہوت کے تقاضوں اور حب ِتفوق(urge to dominate) کے علاوہ اور کوئی حس یا داعیہ سرے سے ہے ہی نہیں۔ یہ صورتِ حال ایک حساس انسان کے لیے یقیناً بہت مایوس کن ہے۔ لیکن اس کے برعکس یہ سورت ہمیں اس حقیقت سے آگاہ کرتی ہے کہ انسان صرف شر کا پتلا اور گناہ کی پوٹلی ہی نہیں ہے بلکہ اس میں بہت اعلیٰ بلندیوں کو چھونے کی صلاحیت بھی ہے۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُوْنِ (۱) وَطُوْرِ سِیْنِیْنَ (۲) وَھٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِیْنِ (۳) لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ (۴) ثُمَّ رَدَدْنٰہُ اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ (۵) اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَھُمْ اَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنٍ (۶)فَمَا یُکَذِّبُکَ بَعْدُ بِالدِّیْنِ (۷) اَلَیْسَ اللہُ بِاَحْکَمِ الْحٰکِمِیْنَ (۸)

آیت ۱{وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُوْنِ (۱)} ’’گواہ ہے انجیر اور گواہ ہے زیتون۔‘‘
آیت۲{وَطُوْرِ سِیْنِیْنَ (۲)}’’اور گواہ ہے طورِ سینا ۔‘‘
آیت ۳{وَہٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِیْنِ(۳)} ’’اور گواہ ہے یہ امن والا شہر۔‘‘
التِّین کے معنی انجیر کے ہیں اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قومِ نوحؑ کے علاقے میں ایک بڑے پہاڑ کا نام بھی جبل التِّین تھا اور یہ کہ حضرت نوح علیہ السلام نے اسی پہاڑ کے دامن میں ساڑھے نو سو سال تک دعوت و تبلیغ کے فرائض سرانجام دیے۔اسی طرح الزَّیْتُون سے مراد زیتون کا پھل اور درخت بھی ہے اور وہ پہاڑی بھی جس پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اکثر تبلیغی خطبات دیا کرتے تھے۔ ان خطبات میں سے آپؑ کا ایک خطبہ’’پہاڑی کے وعظ‘‘ (Sermon of the Mount) کے نام سے خاص طور پر مشہور ہے۔تیسری قسم (وَطُوْرِ سِیْنِیْنَ)کا تعلق حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ذات سے ہے۔ کوہِ طور پرآپؑ کو اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی کا شرف حاصل ہوا۔ اور امن والے شہر سے مکّہ مکرمہ مراد ہے جہاں محمد رسول اللہﷺ اس سورت کے نزول کے وقت دعوت و تبلیغ کا فریضہ سرانجام دے رہے تھے۔
گویاان آیات میں جن مقامات کی قسمیں کھائی گئی ہیں ان میں سے ہر مقام کا تعلق ایک جلیل القدر شخصیت سے ہے۔ گویا ان شخصیات کو گواہ بنا کر یہاں اس حقیقت کی طرف توجّہ دلانا مقصود ہے کہ بنیادی طو رپر انسان بہت بلند مرتبت اور صاحب ِعزّت و عظمت مخلوق ہے۔ اگر کسی کو اس حقیقت کے بارے میں کوئی شک ہو تو وہ اللہ تعالیٰ کے بندے نوح علیہ السلام کی زندگی کے شب و روز کا تصوّر کرے۔ اُس کے بندے عیسیٰ علیہ السلام کے کردار کا نقشہ ذہن میں لائے‘ موسیٰ علیہ السلام کی عظیم المرتبت شخصیت کو یاد کرے اور پھر سب سے بڑھ کر اُس کے بندے محمدﷺ کی بے مثال سیرت کا نمونہ دیکھے۔ یہ شخصیات‘ ان کے کردار اور ان کی سیر تیں اس حقیقت پر گواہ ہیں کہ:
آیت۴{ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ(۴)}’’ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا۔‘‘
ہم نے تو انسان کو اشرف المخلوقات کے اعلیٰ مرتبے پر فائز کیا تھا : {وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰہُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰہُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰہُمْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا(۷۰)}(بنی اسراء یل) ’’اورہم نے بڑی عزّت بخشی ہے اولادِ آدمؑ کواور ہم اٹھائے پھرتے ہیں انہیں خشکی اور سمندر میںاور ہم نے انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا کیا اور انہیں فضیلت دی اپنی بہت سی مخلوق پر‘بہت بڑی فضیلت‘‘۔نسل ِانسانی کی عزّت و تکریم کی انتہا یہ ہے کہ ان کے جدّ ِامجد کو ہم نے اپنے دونوں ہاتھوں سے تخلیق کیا (صٓ:۷۵) اور مسجود ِملائک بنایا۔
اگرتمہیں یہ دنیا ظالموں‘ بدکاروں اور گھٹیا انسانوں سے بھری نظر آتی ہے تو اللہ نے بھی تمہارے سامنے اپنے ایسے چار بندوں کی مثالیں پیش کر دی ہیں جو عظمت ِانسانی کے زندہ و جاوید ثبوت ہیں۔ کیا ان مثالوں کو دیکھنے کے بعد بھی کوئی عقل کا اندھا یہ دعویٰ کرے گا کہ انسان کے اندر خیر اور عظمت کا کوئی پہلو سرے سے موجود ہی نہیں؟ بہرحال اگر کوئی شخص عظمت کے ان میناروں کو دیکھ لینے کے بعد بھی انسانی عظمت کا قائل نہ ہو اور اس عظمت و اکرام کو پانے کے لیے اپنا رخ تبدیل کرنے کی ضرورت محسوس نہ کرے تو یقیناً اس کا شمار نسل ِانسانی کے ان افراد میں ہو گا جو شرفِ انسانیت سے نیچے گر کر حیوانوں سے بھی بدتر ہو چکے ہیں:{اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ ط} (الاعراف:۱۷۹)
آیت ۵{ثُمَّ رَدَدْنٰــہُ اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ(۵)} ’’پھر ہم نے لوٹا دیا اس کو پست ترین حالت کی طرف۔‘‘
پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی اس عظیم المرتبت مخلوق (کی روح) کو اس کے جسد ِخاکی میں بٹھا کر نیچے دنیا میں بھیج دیا۔ لیکن واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین پر جہالت کی تاریکی میں نہیں بلکہ ہدایت کے اُجالے میں بھیجا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اسے کامیابی اور ناکامی کے راستوں کا شعور بھی عطا کیا‘ اس کی فطرت میں نیکی و بدی کی تمیز بھی ودیعت کی اور وقتاًفوقتاً وہ براہِ راست ہدایات بھی بھیجتا رہا: {وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللہَ فَاَنْسٰىہُمْ اَنْفُسَھُمْ ط} (الحشر:۱۹) کہ تم اُن لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے اللہ کو فراموش کر دیا اور اس کی پاداش میں اللہ نے انہیں اپنے آپ سے ہی غافل کر دیا۔بہرحال اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ اب اگر وہ اپنے شرفِ انسانی کو بھلا کر محض حیوانی سطح پر زندگی بسر کرتا رہے اور خود کو حیوان ہی سمجھتا رہے تو یہ اس کی مرضی ہے۔
اس فلسفے کا خلاصہ یہ ہے کہ اپنی سرشت (حیوانی وجود کے تقاضوں) کے اعتبار سے انسان میں کچھ کمزوریاں اور خامیاں پائی جاتی ہیں ‘لیکن اپنی فطرت (روح) کے لحاظ سے یہ بہت اعلیٰ اور عظیم المرتبت مخلوق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی روح کو اس کے حیوانی جسم میں متمکن فرما کر اسے دنیا میں بھیجاتو اس کا ارفع و اعلیٰ روحانی وجود اس کے حیوانی جسم میں قید ہو کر گویا اسفل (نچلی ) مخلوق کی سطح پر آگیا۔ چنانچہ دنیوی زندگی میں اس کے سامنے اصل ہدف یہ ہے کہ وہ اپنے شعور اور اللہ تعالیٰ کی فراہم کردہ ہدایت کے مطابق راستہ اختیار کرے‘ اس راستے کے تقاضے پورے کرنے کے لیے محنت کرے اور اسفل سطح سے اوپر اٹھ کر اپنی اصل عظمت اور حقیقی منزل کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کرے۔
اب اگلی آیت میں اس راستے کی نشاندہی اور مطلوبہ محنت کے طریقے کی وضاحت کی گئی ہے:
آیت۶{اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ}’’سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے‘‘
اب مذکورہ پستی سے صرف وہی لوگ نکل پائیں گے جو اپنے شعور وحواس سے کام لیتے ہوئے اپنے خالق اور معبود کو پہچانیں گے یعنی اُس پر ایمان لائیں گے اور پھر محنت کر کے اپنے کردار و عمل کو اُس کی منشاء و مرضی کے مطابق ڈھالیں گے ‘یعنی اعمالِ صالحہ کا اہتمام کریں گے۔
{ فَلَہُمْ اَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنٍ(۶)}’’تو اُن کے لیے ایسا اجر ہو گا جس کا سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہو گا۔‘‘
آیت ۷{فَمَا یُکَذِّبُکَ بَعْدُ بِالدِّیْنِ (۷)} ’’تواس کے بعد کیا چیز تجھے آمادہ کرتی ہے جزا و سزاکے انکار پر؟‘‘
تواے جزا و سزا کے منکر انسان! جب تُو خود دیکھ رہا ہے کہ دنیا میں تمام انسان ایک جیسے نہیں ہیں‘ ان میں کچھ بہت اعلیٰ سیرت و کردار کے مالک ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جو انسانیت کے ماتھے پر بدنما داغ کی حیثیت رکھتے ہیں‘ تو اس صورت حال میں کیا عقل اور انصاف کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ اچھوں کو اُن کی اچھائی اور محنت کا پھل ملے اور بُروں کو اُن کی بُرائی اور نافرمانی کی سزا دی جائے؟ یہ ایسی سیدھی سادی بات ہے جو عام ذہنی سطح کا ایک انسان بھی سمجھ سکتا ہے۔ تویہ سب کچھ دیکھنے‘سننے اور سمجھنے کے بعد بھی آخر وہ کون سی منطق ہے جس کے تحت تم جزا و سزا کے انکار پر جمے ہوئے ہو؟
آیت۸{اَلَیْسَ اللہُ بِاَحْکَمِ الْحٰکِمِیْنَ(۸)}’’کیا اللہ تمام حاکموں سے بڑا حاکم نہیں ہے؟‘‘
دنیا میں تم لوگ چھوٹے چھوٹے حاکموں کو دیکھتے ہو کہ وہ اپنے غداروں اور باغیوں کو عبرتناک سزا دیتے ہیں اور اپنے وفاداروں کو انعام و اکرام سے نوازتے ہیں۔ کیادنیا میں تم نے کوئی ایسا حاکم بھی دیکھا ہے جو اپنے باغیوں اور وفاداروں کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دے؟ اگر دنیا میں محدود اختیار کا مالک کوئی حاکم ایسا نہیں کرتا تو وہ اللہ عزّوجل اپنے فرمان بردار بندوں اور نافرمانوں کو کیسے برابر کردے گا جو سب حاکموں سے بڑا حاکم ہے؟ کیا تم اللہ تعالیٰ کو احکم الحاکمین نہیں مانتے ہو؟
مسند احمد‘ سنن الترمذی‘ سنن ابی دائود اور دیگر کتب ِحدیث میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی سورۃ التین پڑھے اور اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَحْکَمِ الْحٰکِمِیْنَ پر پہنچے تو کہے : بلٰی وانا علٰی ذٰلک من الشاھدین ’’کیوں نہیں! اور مَیں اس پر شہادت دینے والوں میں سے ہوں‘‘۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ حضورﷺ جب یہ آیت پڑھتے تو فرماتے: سُبْحَانَکَ فَبَلٰی!
سُوْرَۃُ الْعَلَقِ
تمہیدی کلماتسورۃ العلق کی ابتدائی پانچ آیات کے بارے میں تمام مفسرین متفق ہیں کہ غارِ حرا میں حضورﷺ پر جو پہلی وحی آئی تھی وہ ان آیات پر مشتمل تھی۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضورﷺ پر وحی کی ابتدا سچّے خوابوں سے ہوئی۔ رات کو آپ ؐ جو خواب دیکھتے‘دن کو اس کی تعبیر ہوبہو وہی سامنے آجاتی۔ پھر آپؐ خلوت گزینی کی طرف مائل ہو گئے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب آپؐ کئی کئی راتوں تک غارِ حرا میں قیام فرمایا کرتے تھے۔ آپؓ فرماتی ہیں: فَیَتَحَنَّثُ فِیْہِ یعنی غارِ حرامیں آپؐ عبادت کیا کرتے تھے۔غارِ حرا کی خلوت میں آپﷺ کی عبادت کی نوعیت کیا تھی‘اس بارے میں تمام شارحین حدیث کا اجماع ہے کہ وہاں پر آپؐ اپنا وقت غور و فکر اور سوچ بچار (التفکر والاعتبار)میں گزارتے تھے۔ اسی زمانے میں ایک دن آپﷺ غارِ حرا میں مصروفِ ذکر وفکر تھے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور آپؐ سے کہا: اِقْرَاْ کہ پڑھئے۔ آپؐ نے فرمایا: مَا اَنَا بِقَارِیٍٔ کہ مَیں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ اس پر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپﷺ کو سینے سے لگاکر بھینچا اور پھر پڑھنے کو کہا۔ آپؐ نے پھر فرمایا : مَا اَنَا بِقَارِیٍٔ ۔حضرت جبرائیل ؑنے پھر وہی عمل دہرایا اور آپ ﷺنے پھر وہی جواب دیا۔ حتیٰ کہ جب حضرت جبرائیل ؑ نے تیسری مرتبہ آپؐ کو بھینچنے کے بعد فرمایا:{اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ(۱)…الخ} تو مذکورہ آیات آپﷺ کی زبانِ مبارک پر جاری ہو گئیں۔ اس حوالے سے مجھے اس روایت سے اتفاق ہے کہ اس وحی کے نزول کے وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام آپؐ کے پاس سونے کی ایک تختی لے کر آئے تھے جس پر یہ آیات لکھی ہوئی تھیں۔ ظاہر ہے اگر حضرت جبرائیل ؑ نے آپؐ کو زبانی پڑھانا ہوتا تو آپؐ یقیناً مذکورہ جواب نہ دیتے۔ یعنی ضرور آپؐ کے سامنے کوئی ایسی چیز آئی تھی جسے دیکھ کر پڑھنا تھا۔ تبھی آپﷺ نے فرمایا:مَا اَنَا بِقَارِیٍٔ۔
اس وحی کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ اس موقع پر حضرت جبرائیل علیہ السلام آپﷺ کے پاس اپنی اصلی مَلَکی شکل میں آئے تھے۔ اُس وقت اگرچہ آپ ﷺنیم بیداری اور نیم خوابیدگی کی کیفیت میں تھے‘لیکن آپؐ نے حضرت جبرائیل کو ان کی اصلی شکل میں دیکھا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب ایک طویل وقفے (فترتِ وحی) کے بعد چوتھی وحی کے نزول کے موقع پر حضرت جبرائیل ؑ آپؐ کو اُفق پر نظر آئے (اس واقعہ کی تفصیل سورۃ المدثر کے تمہیدی کلمات میں بیان ہو چکی ہے) تو آپ ﷺنے انہیں دیکھتے ہی پہچان لیا کہ یہ وہی فرشتہ ہے جو قبل ازیں میرے پاس غارِ حرا میں آیا تھا۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ (۱) خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ (۲) اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ (۳) الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ (۴) عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ (۵) کَلَّآ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَیَطْغٰٓی(۶) اَنْ رَّاٰہُ اسْتَغْنٰی (۷) اِنَّ اِلٰی رَبِّکَ الرُّجْعٰی (۸) اَرَءَیْتَ الَّذِیْ یَنْھٰی (۹) عَبْدًا اِذَا صَلّٰی (۱۰) اَرَءَیْتَ اِنْ کَانَ عَلَی الْھُدٰٓی (۱۱) اَوْ اَمَرَ بِالتَّقْوٰی (۱۲) اَرَءَیْتَ اِنْ کَذَّبَ وَتَوَلّٰی(۱۳) اَلَمْ یَعْلَمْ بِاَنَّ اللہَ یَرٰی (۱۴) کَلَّا لَئِنْ لَّمْ یَنْتَہِ ڏ لَنَسْفَعًۢا بِالنَّاصِیَۃِ (۱۵) نَاصِیَۃٍ کَاذِبَۃٍ خَاطِئَۃٍ (۱۶) فَلْیَدْعُ نَادِیَہٗ (۱۷)سَنَدْعُ الزَّبَانِیَۃَ (۱۸) کَلَّا ۭ لَا تُطِعْہُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ(۱۹)

آیت ۱{اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ(۱)} ’’پڑھیے اپنے اُس رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔‘‘
آیت۲{خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ(۲)}’’انسان کو پیدا کیا ہے اُس جونک کی طرح کی چیز سے جو رحم مادر میں چمٹ گئی تھی۔‘‘
آیت ۳{ اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ (۳)} ’’پڑھیے اور آپؐ کا ربّ بہت کریم ہے۔‘‘
آیت۴{الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ(۴)}’’جس نے تعلیم دی ہے قلم کے ساتھ۔‘‘
گویا عام انسانی تعلیم کا ذریعہ قلم ہے ‘جبکہ حضورﷺ کی تعلیم کے لیے فرشتہ مقرر ہوا۔
آیت ۵{عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ(۵)} ’’اور انسان کو وہ کچھ سکھایا ہے جو وہ نہیں جانتا تھا۔‘‘
پہلی وحی ان پانچ آیات پر مشتمل تھی۔ اس وحی میں حضورﷺ کو تبلیغ و انذار سے متعلق کوئی حکم نہیں دیا گیا۔ البتہ اس وحی کی خاص اہمیت یہ ہے کہ اس سے آپؐ کی نبوت کا ظہور ہوا (ہر نبی اگرچہ پیدائشی طور پر ہی نبی ہوتا ہے لیکن اس کی نبوت کاباقاعدہ ظہور پہلی وحی کے وقت ہوتا ہے)۔ تبلیغ کا باقاعدہ حکم آپؐ کو سورۃ المدثر کی ان آیات میں دیا گیا : {یٰٓــاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ(۱) قُمْ فَاَنْذِرْ(۲) وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ(۳)} کہ اے لحاف میں لپٹ کرلیٹنے والے (ﷺ) کھڑے ہو جائو اور اپنے رب کی کبریائی کا اعلان کرو۔ یعنی اے نبی (ﷺ) اب آپ اللہ تعالیٰ کی کبریائی کو عملی طور پر نافذ کرنے کے لیے جدّوجُہدشروع کر دیجیے ۔سورۃ العلق اور سورۃ المدثر کے مابین اس لحاظ سے گہری مشابہت پائی جاتی ہے کہ سورۃ المدثر کی طرح یہ سورت بھی تین حصوں پر مشتمل ہے۔ پھر جس طرح سورۃ المدثر کی پہلی سات آیات میں حضورﷺ سے خطاب کے بعد تین آیات میں قیامت کا ذکر آیا ہے‘ بالکل اسی طرح اس سورت میں بھی پہلی پانچ آیات میں حضورﷺ سے خطاب ہے اور اس کے بعد درج ذیل تین آیات میں آخرت کا فلسفہ بیان ہوا ہے۔
آیت۶{کَلَّآ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَیَطْغٰٓی(۶)}’’کوئی نہیں! انسان سرکشی پر آمادہ ہو ہی جاتا ہے۔‘‘
انسان سرکشی اور ظلم و زیادتی پر کیوں اُتر آتا ہے ؟ اس کی وجہ اگلی آیت میں بتائی گئی :
آیت ۷{اَنْ رَّاٰہُ اسْتَغْنٰی(۷)} ’’اس بنا پر کہ وہ اپنے آپ کو مستغنی دیکھتا ہے۔‘‘
وہ دیکھتا ہے کہ اس پر کوئی پکڑ نہیں۔ دنیا میں نہ تو ظالم کو اُس کے ظلم کی قرار واقعی سزا ملتی ہے اور نہ ہی مظلوم کی کماحقہ داد رسی ہوتی ہے ۔چنانچہ وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اس دنیاکا نظام محض طبعی قوانین و ضوابط (physical laws) کے مطابق چل رہا ہے اور یہ کہ یہاں اخلاقی قوانین (moral laws) کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ انسان کی روز مرہ زندگی کا تجربہ بھی اُسے یہی بتاتا ہے کہ زہر کھانے سے تو آدمی ہلاک ہو جاتا ہے لیکن حرام کھانے سے اُسے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ چنانچہ جب معاشرے کے عام آدمی کو نیکی ‘ انصاف‘ دیانت داری جیسے الفاظ عملی طور پر بے معنی اور بے وقعت نظرآتے ہیں تو وہ سرکشی اور مَن مرضی کے راستے پر چل نکلتا ہے ------ اب اگلی آیت میں انسان کی اس سرکشی اور بغاوت کا علاج بتایا جا رہا ہے ۔ اس کا علاج اس یاد دہانی میں ہے کہ:
آیت۸{اِنَّ اِلٰی رَبِّکَ الرُّجْعٰی(۸)}’’یقیناً تجھے اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔‘‘
گویا انسان کو راہِ راست پر رکھنے کا جو مؤثر ترین علاج ہے وہ ہے عقیدئہ آخرت پر پختہ یقین ۔یعنی یہ یقین کہ ایک دن اُسے اللہ تعالیٰ کی عدالت میں پیش ہو کر اپنے ایک ایک عمل کا حساب دینا ہے اور وہ عدالت بھی ایسی ہے جہاں ذرّہ برابر بھی کوئی چیز چھپائی نہیں جا سکے گی: {فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ(۷) وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ(۸)} (الزلزال) ’’جس کسی نے ذرّے کے ہم وزن نیکی کمائی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا ۔اور جس کسی نے ذرّ ے کے ہم وزن برائی کی ہو گی وہ بھی اسے دیکھ لے گا‘‘۔گویا یہ عقیدئہ آخرت پر پختہ یقین اور قیامت کے دن کی پیشی کا خوف ہی ہے جو انسان کے اندر خود احتسابی کا احساس اُجاگر کرتا ہے۔ یہی یقین اور خوف اسے خلوت و جلوت میں‘ اندھیرے اُجالے میں اور ہر جگہ ‘ہر حال میں غلط روی اور ظلم و تعدی کے ارتکاب سے باز رکھتا ہے۔ ورنہ انسان کی سرشت ایسی ہے کہ جس مفاد تک اس کا ہاتھ پہنچتا ہو اسے سمیٹنے کے لیے وہ حلال و حرام اور جائز و ناجائز کی حدود کی پروا نہیں کرتا۔
اب اگلی آیت سے اس سورت کا تیسرا حصّہ شروع ہو رہا ہے ۔ سورۃ المدثرکے ساتھ اس سورت کے مضامین کی مشابہت کا انداز ملاحظہ ہو کہ سورۃ المدثر کے تیسرے حصّے میں ولید بن مغیرہ کے کردار کی جھلک دکھائی گئی ہے ‘جبکہ یہاں اس کے مقابل ابوجہل کے طرزِعمل کا نقشہ پیش کیا گیا ہے۔
آیت۹{اَرَئَ یْتَ الَّذِیْ یَنْہٰی(۹)} ’’کیا تم نے دیکھا اُس شخص کو جو روکتا ہے۔‘‘
آیت۱۰{عَبْدًا اِذَا صَلّٰی(۱۰)}’’(ہمارے) ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھتا ہے۔‘‘
یہ اشارہ ہے ابوجہل کی ان جسارت آمیز حرکات کی طرف جو وہ حضورﷺ کو نماز سے روکنے کے لیے کیا کرتا تھا۔ مثلاً ایک مرتبہ نبی کریمﷺ خانہ کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے۔ ابوجہل نے آپؐ کو دیکھا تو اونٹ کی اوجھڑی منگوا کر عین سجدے کی حالت میں آپؐ کی پشت مبارک پر رکھوا دی۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ابھی بچی تھیں‘ ان کو پتا چلا تو آپؓگھر سے بھاگم بھاگ حرم میں پہنچیں اور اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے اس غلاظت کو آپؐ کے اوپر سے ہٹایا۔ اسی طرح ایک اور موقع پر ابوجہل نے آپﷺ کو نماز پڑھتے دیکھ کر آپؐ کی گردن مبارک میں چادر ڈال کر اس قدر زور سے مروڑا کہ آپؐ کی آنکھیں اُبل پڑیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ حضورﷺ کے سفر ِطائف سے واپسی کے زمانے میں بھی پیش آیا۔ اس واقعہ کی تفصیل روایات میں یوں آتی ہے کہ ابوجہل نے لات اور عزیٰ کی قسم کھا کر کہا تھا کہ اگر اس نے پھر محمد (ﷺ) کو اس طرح نماز پڑھتے دیکھا تو اُن کی گردن روند ڈالوں گا اور اُن کا منہ خاک آلود کر دوں گا۔ ایک دن اُس نے آپﷺ کو حرم میں نماز پڑھتے دیکھا تو غصے میں آپؐ کو ڈانٹتے ہوئے آپؐ کی طرف بڑھا تاکہ اپنی قسم پوری کرے‘مگر پھر یکدم دہشت زدہ ہو کر پیچھے ہٹ گیا۔ لوگوں نے پوچھا کیا ہوا؟ کیوں پیچھے ہٹ آئے؟ کہنے لگا کہ آگے بڑھنے پر مجھے اپنے اور محمد (ﷺ) کے درمیان حائل آگ سے بھری ہوئی ایک خندق اور ایک پروں والی کوئی مخلوق دکھائی دی جو میری تکہ بوٹی کرنے کو تیّار تھی۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اگر وہ میرے قریب پھٹکتا تو فرشتے اس کے چیتھڑے اڑادیتے۔ یہاں یہ نکتہ لائق ِتوجّہ ہے کہ پہلے دونوں واقعات کے حوالے سے ابوجہل کو ایسے کسی غیر معمولی یا غیر مرئی ردّ ِعمل کا تجربہ نہیں ہوا تھا۔ میرے نزدیک اس کی توجیہہ یہ ہے کہ پہلے دونوں واقعات کے زمانے میں حضورﷺ کی پشت پناہی کے لیے دنیوی اسباب کے طور پر جناب ابوطالب موجود تھے‘ جبکہ تیسرا واقعہ اس زمانے میں پیش آیا جب یہ دنیوی سہارا بھی موجود نہ رہا اور اب حضورﷺ کی حفاظت براہِ راست اللہ تعالیٰ خود فرما رہا تھا۔ اس لیے اس وقت غیبی مدد کے ذریعے حضورﷺ کی حفاظت کو یقینی بنایا گیا۔آیات زیر مطالعہ میں خاص طور پر اسی واقعہ کا تذکرہ ہے۔
آیت۱ ۱{اَرَئَ یْتَ اِنْ کَانَ عَلَی الْہُدٰٓی(۱۱)} ’’کیا تم نے غور کیااگر وہ شخص ہدایت پر ہوتا؟‘‘
آیت۱۲{اَوْ اَمَرَ بِالتَّقْوٰی(۱۲)}’’یا وہ تقویٰ کی تعلیم دیتا!‘‘
جیسا کہ سورۃ اللیل کی آیت ۱۰کے ضمن میں بھی ذکر ہو چکا ہے کہ ابوجہل کے کردار میں بہت سی مثبت خصوصیات بھی پائی جاتی تھیں۔ مثلاً وہ مال خرچ کرنے میں ہمیشہ پیش پیش رہتا تھا۔ اس کے علاوہ وہ صاف گو بھی تھا۔ اپنے ایمان نہ لانے کی وجہ بتاتے ہوئے اس نے بالکل کھری اور سچی بات کہی تھی کہ میں محمد(ﷺ) کو جھوٹا نہیں سمجھتا‘ لیکن ہمارے خاندان نے چونکہ غرباء کو کھانے کھلانے اور حاجیوں کی خدمت کرنے میں ہمیشہ بنوہاشم کا مقابلہ کیا ہے‘ اس لیے اب میں محمد(ﷺ) کی نبوت کی شہادت دے کر اپنے حریف خاندان کی بڑائی تسلیم نہیں کر سکتا۔ وہ جری اور بہادر ایسا تھا کہ نزع کے وقت بھی اُس نے ہار نہیں مانی اور میدانِ بدر میں اپنا سرقلم کرنے والے شخص کو مخاطب کر کے یہ کہنا ضروری سمجھا کہ اس کی گردن کو ذرا نیچے سے کاٹا جائے تاکہ سر نیزے پر چڑھے تو اونچا نظر آئے۔ بہرحال شخصی اعتبار سے وہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرح بہادر‘ نڈر‘ بے باک اور صاف گو انسان تھا۔ اگر وہ ایمان لے آتا تو یقیناً حضرت عمرؓ ہی کی طرح اعلیٰ پائے کا مسلمان ہوتا ۔لیکن جب وہ {صَدَّقَ بِالْحُسْنٰی(۶)}(الیل) یعنی تصدیق ِحق کی گھاٹی عبور کرنے میں ناکام رہا تو اُس کے کردار کی بہت سی مثبت خصوصیات بھی اس کے کسی کام نہ آسکیں۔
آیت ۱۳{اَرَئَ یْتَ اِنْ کَذَّبَ وَتَوَلّٰی(۱۳)}’’کیا تم نے سوچا کہ اس نے جو جھٹلایا ہے اور منہ موڑ لیا ہے۔‘‘
آیت۱۴{اَلَمْ یَعْلَمْ بِاَنَّ اللہَ یَرٰی(۱۴)}’’کیا یہ جانتا نہیں کہ اللہ دیکھ رہا ہے!‘‘
آیت ۱۵{کَلَّا لَئِنْ لَّمْ یَنْتَہِ ۵} ’’ہرگز نہیں! اگر یہ باز نہ آیا‘‘
{لَنَسْفَعًا  بِالنَّاصِیَۃِ(۱۵)} ’’توہم گھسیٹیں گے اس کی پیشانی کے بال پکڑ کر۔‘‘
آیت۱۶{نَاصِیَۃٍ کَاذِبَۃٍ خَاطِئَۃٍ(۱۶)}’’وہ پیشانی کہ جو خطاکار ہے‘ جھوٹی ہے۔‘‘
آیت ۱۷{فَلْیَدْعُ نَادِیَہٗ(۱۷)} ’’تو وہ بلا لے اپنی مجلس کے لوگوں کو۔‘‘
آیت۱۸{سَنَدْعُ الزَّبَانِیَۃَ (۱۸)}’’ہم بھی بلا لیں گے جہنّم کے فرشتوں کو۔‘‘
آیت ۱۹{کَلَّاط لَا تُطِعْہُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ(۱۹)} ’’کوئی بات نہیں!(اے نبیﷺ) آپ اس کی بات نہ مانیے‘ آپ سجدہ کیجیے اور (اللہ سے اور)قریب ہو جایئے!‘‘
آپ ﷺاس جھوٹے‘ غلط کار شخص کی ایک نہ سنیے۔ یہ اگر آپؐ کو نماز پڑھنے سے منع کرتا ہے تو اس کی پروا نہ کیجیے۔ آپؐ اپنے پروردگار کی جناب میں سجدے کرتے رہیے اور کثرتِ سجود سے اُس کا قرب حاصل کرتے رہیے۔

سُوْرَۃُ الْقَدْرِ

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اِنَّآاَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ (۱) وَمَآ اَدْرٰىکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ(۲) لَیْلَۃُ الْقَدْرِ ڏ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَھْرٍ (۳) تَنَزَّلُ الْمَلٰئِۗکَۃُ وَالرُّوْحُ فِیْھَا بِاِذْنِ رَبِّھِمْ ۚ مِنْ کُلِّ اَمْرٍ (۴) سَلٰمٌ ڕ ھِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ(۵)

آیت۱{اِنَّــآ اَنْزَلْنٰـہُ فِیْ لَـیْلَۃِ الْقَدْرِ(۱)} ’’یقیناً ہم نے اتارا ہے اس (قرآن) کو لیلۃ القدر میں۔‘‘
’’اَنْزَلْنٰـہُ‘‘ کی ضمیر مفعولی کا مرجع بالاتفاق قرآن مجید ہی ہے۔ نوٹ کیجیے! ان سورتوں کے مضامین کے اندر ایک ربط پایا جاتا ہے ‘یعنی پہلی وحی (سورۃ العلق) کے فوراً بعد بتایا جا رہا ہے کہ ہم نے اس کلام کو لیلۃ القدر میں نازل فرمایا ہے۔ قدر کا معنی تقدیر اور قسمت بھی ہے اور عزّت و منزلت بھی۔ یہاں دونوں معنی مراد لیے جاسکتے ہیں۔ یعنی ہم نے اس قرآن کو اس رات میں اتارا ہے جو قدر و منزلت کے اعتبار سے بے مثل رات ہے‘ یا اس رات میں اتارا ہے جو تقدیر ساز ہے۔ سورۃ الدخان میں اس رات کا ذکر لَیْلَۃ مُبَارَکَۃ کے نام سے آیا ہے: {اِنَّــآ اَنْزَلْنٰـہُ فِیْ لَـیْلَۃٍ مُّبٰـرَکَۃٍ}(آیت ۳) ’’یقیناً ہم نے نازل کیا ہے اس (قرآن) کو ایک مبارک رات میں‘‘۔یہ کونسی رات ہے؟اُمّ المو ٔمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ((تَحَرَّوْا لَیْلَۃَ الْقَدْرِ فِی الْوِتْرِ مِنَ الْعَشْرِ الْاَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ))(صحیح البخاری‘ کتاب صلاۃ التراویح‘ باب تحری لیلۃ القدر فی الوتر من العشر الاواخر۔ وصحیح مسلم‘ کتاب الصیام‘ باب فضل لیلۃ القدر …) ’’لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو‘‘۔ زیادہ تر لوگوں کاخیال ہے کہ ستائیسویں رمضان کی شب ہی لیلۃ القدر ہے۔ لیکن جیسا کہ سورۃ الفجر کی آیت ۳کے ضمن میں بھی وضاحت کی جا چکی ہے‘ قمری کیلنڈر کی طاق اور جفت راتوں کی گنتی دنیا کے مختلف خطوں میں مختلف ہوتی ہے۔ مثلا آج ہمارے ہاںجو طاق رات ہے سعودی عرب میں ممکن ہے وہ جفت رات ہو۔ اس لیے لیلۃ القدر کو تلاش کرنے کا محتاط طریقہ یہی ہے کہ اسے رمضان کے آخری عشرے کی تمام راتوں (جفت اور طا ق دونوں)میں تلاش کیا جائے۔ اور اگر واقعی ستائیسویں رمضان کی شب ہی لیلۃ القدر ہے تو اس بارے میں میرا اپنا خیال یہ ہے کہ پھر یہ مکّہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی ستائیسویں شب ہے ۔ واللہ اعلم!
اس رات میں قرآن نازل کرنے کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اس رات کو پورا قرآن مجید لوحِ محفوظ سے حاملین ِوحی فرشتوں کے سپرد کر دیا گیا اور پھر اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ۲۳ سال کے دوران میں حضرت جبرائیل علیہ السلام اس کی آیات اور سورتیں رسول اللہﷺ پر نازل کرتے رہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے نزول کی ابتدا اس رات سے ہوئی ۔
آیت۲{وَمَـآ اَدْرٰىکَ مَا لَـیْلَۃُ الْقَدْرِ(۲)}’’اور تم کیا جانتے ہوکہ لیلۃ القدر کیا ہے!‘‘
اس استفہام سے اس رات کی عظمت و اہمیت واضح ہوتی ہے۔ گویا مخلوق اس کی تہ تک پوری طرح نہیں پہنچ سکتی‘ صرف اللہ جل جلالہٗ ہی اس کی قدر و منزلت کو پوری طرح جانتا ہے۔
آیت ۳{لَـیْلَۃُ الْقَدْرِلا خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَہْرٍ(۳)} ’’لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے بہترہے۔‘‘
یہ بہتری اور افضلیت کس اعتبار سے ہے؟ اکثر مفسرین نے کہا ہے کہ اس رات کا عمل ِخیر ہزار مہینوں کے عمل ِخیر سے بہتر ہے جس میں لیلۃ القدر نہ ہو۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ((مَنْ قَامَ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ اِیْمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ))(صحیح البخاری‘ کتاب الصوم‘ باب من صام رمضان ایمانا واحتسابا ونیۃ۔وصحیح مسلم‘ کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا‘ باب الترغیب فی قیام رمضان وھو التراویح) ’’جو شخص لیلۃ القدر میں ایمان کے ساتھ اور اللہ سے اجر کی امید میں کھڑارہا اُس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے گئے‘‘۔ اس رات کی افضلیت کے ضمن میں ایک رائے یہ ہے کہ اس ایک رات میں اتنی خیر تقسیم کی جاتی ہے جتنی ایک ہزار مہینہ میں بھی تقسیم نہیں کی جاتی۔ اس رات کی افضلیت کا یہ مفہوم بھی ہو سکتا ہے کہ انسان کی اصلاح اور فلاح کے لیے جو کام (نزولِ قرآن) اس ایک رات میں ہوا‘ خیر اور بھلائی کا اتنا بڑا کام کبھی انسانی تاریخ کے کسی طویل زمانے میں بھی نہ ہوا تھا۔ واضح رہے کہ اہل ِعرب بڑی کثیر تعداد کا تصوّر دلانے کے لیے اَلْف (ہزار)کا لفظ بولتے تھے۔
آیت۴{تَنَزَّلُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَالرُّوْحُ فِیْہَا بِاِذْنِ رَبِّہِمْ مِّنْ کُلِّ اَمْرٍ(۴)}’’(اس رات میں) اُترتے ہیں فرشتے اور روح اپنے رب کے حکم سے ہر کام کے لیے۔‘‘
روح سے مراد یہاں روح الامین یعنی حضرت جبرائیل علیہ السلام ہیں۔ حضرت جبرائیل ؑفرشتوں کے سردار ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ہاں انہیں خصوصی مقام و مرتبہ حاصل ہے ۔جیسا کہ سورۃ التکویر میں فرمایا گیا : {ذِیْ قُوَّۃٍ عِنْدَ ذِی الْعَرْشِ مَکِیْنٍ(۲۰) مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِیْنٍ(۲۱)} ’’وہ (جبرائیل ؑ) بہت قوت والا ہے‘ صاحب ِعرش کے قرب میں اس کا ٹھکانہ ہے۔ اس کی اطاعت کی جاتی ہے اور وہاں وہ امانت دار بھی ہے‘‘۔یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں جہاں کہیں حضرت جبرائیل علیہ السلام اور فرشتوں کا ذکر آتا ہے تو ان ؑ(حضرت جبرائیلؑ) کا ذکر عام طور پر علیحدہ کیا جاتا ہے۔
لیلۃ القدر میں حضرت جبرائیل علیہ السلام اور فرشتوں کا خصوصی نزول دراصل اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل و تنفیذ کے حوالے سے ہوتا ہے۔ سورۃ الدخان میں لیلۃ القدر یا لیلۃ مبارکہ کے بارے میں ایک خصوصی بات یہ بتائی گئی ہے :{فِیْہَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ(۴)} کہ اس رات میں تمام پُرحکمت امور کے فیصلے صادر کیے جاتے ہیں۔ (اسی لیے اسے ’’لَیْلَۃُ الْحُکْمِ‘‘ بھی کہتے ہیں) سورۃ الدخان کے مطالعے کے دوران اس آیت کے تحت اس موضوع پر تفصیلی گفتگو ہو چکی ہے۔ مختصراً یہ کہ لیلۃ القدر اللہ تعالیٰ کی تکوینی سلطنت سے متعلق فیصلوں کے لیے سالانہ بجٹ سیشن کا درجہ رکھتی ہے۔ اس رات میں اگلے سال کے لیے تمام اہم امور کے فیصلے کر کے تعمیل و تنفیذ کی غرض سے فرشتوں کے حوالے کر دیے جاتے ہیں۔ چنانچہ فرشتے حضرت جبرائیل ؑکی قیادت میں ان احکامات پر عمل درآمد کے لیے پوری زمین میں پھیل جاتے ہیں۔ نظامِ کائنات سے متعلق اللہ تعالیٰ کی اس ’’تدبیر ِامر‘‘ کا ذکر سورۃ السجدۃ کی اس آیت میں بھی آیا ہے: {یُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَآئِ اِلَی الْاَرْضِ ثُمَّ یَعْرُجُ اِلَـیْہِ} (آیت۵) ’’وہ تدبیر کرتا ہے اپنے امر کی آسمان سے زمین کی طرف ‘پھر وہ (امر)چڑھتا ہے اُس کی طرف‘‘ ۔گویا اللہ تعالیٰ کے احکامات کی تعمیل کے بعد متعلقہ فرشتے تکمیلی رپورٹیں بھی بھیجتے ہیں ۔
آیت ۵{سَلٰــمٌ قف} ’’سراسرسلامتی ہے۔‘‘
اس سلامتی کے بہت سے پہلو ہیں ۔مثلاً اس رات میں لوگوں کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور عبادت کا ثواب کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔
{ہِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ(۵)} ’’یہ (رات) رہتی ہے طلوعِ فجر تک۔‘‘