(تذکرہ و تبصرہ) فتنہ قادیانیت:زوال کاآغاز - ڈاکٹر اسرار احمد

10 /

فتنہ قادیانیت : زوال کا آغازڈاکٹراسراراحمدؒ

[ستمبر ۱۹۷۴ء میں قادیانیوں کے غیر مسلم اقلیت قرار دیے جانے کے بعد ’’میثاق‘‘ اکتوبر/نومبر۱۹۷۴ ءکا اداریہ]

جس وقت’’میثاق‘‘ کا یہ شمارہ طبع ہو کر قارئین کے ہاتھوں میں پہنچے گا‘ اُس وقت تک قادیانیوں کے غیر مسلم اقلیت قرار دیے جانے کا فیصلہ خاصا پرانا ہو چکا ہو گا۔ تاہم جی نہیں مانتا کہ ’’میثاق‘‘ کے صفحات اللہ تعالیٰ کے اُس احسانِ عظیم پر اُس کی جناب میں ہدیۂ تشکر و امتنان پیش کرنے کی سعادت سے بالکل محروم رہ جائیں جو اس فیصلے کی صورت میں پوری ملّت ِاسلامیہ پر ہوا ہے۔اگرچہ عالم اسباب میں اس تاریخی فیصلہ کے بہت سے عوامل ہیں‘ تاہم واقعہ یہ ہے کہ فی الحقیقت یہ سب کچھ ایک خالص خدائی تدبیر کے نتیجے میں ہوا‘جس نے جملہ اسباب و عوامل کو طوعاً وکرہاً اس طرح ایک ہی رخ میں پھیر دیا کہ اس فیصلے سے فرار کی کوئی راہ کسی کے لیے کھلی ہی نہ رہی اور بالکل معجزانہ طور پر وہ کٹھن مرحلہ طے ہو گیا جس کے طے ہونے کا کوئی امکان آج سے چھ ماہ قبل کسی بڑے سے بڑے سیاسی پنڈت کو بھی نظر نہ آسکتا تھا۔
اگرچہ آنحضورﷺ کے فرمانِ مبارک کے مطابق کہ ((مَنْ لَـمْ یَشْکُرِ النَّاسَ لَا یَشْکُرُ اللّٰہَ)) ’’جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا شکر بھی ادا نہیں کر سکتا‘‘ پوری ملّت ِاسلامی کی جانب سے مبارک باد اور شکریے کے مستحق ہیں وہ عوام بھی جنہوں نے دینی غیرت اور حمیت کا بھرپور ثبوت بھی دیا اور صبر و تحمل اور نظم و ضبط کا دامن بھی ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ پھرعلماء کرام اور دینی و سیاسی جماعتوں کے رہنما اور کارکن بھی جنہوں نے نہایت منظم طریقے پر عوام کے جذبات کی ترجمانی کا فرض سرانجام دیا ۔ اس سلسلے میں سخت محنت اور مشقت بھی برداشت کی اور ہر طرح کے خطرات بھی مول لیے‘ یہاں تک کہ قید و بند کی صعوبتیں بھی جھیلیں۔ خصوصاً مولانا محمد یوسف بنوری جنہوں نے علالت و پیرانہ سالی اور ضعف و نقاہت کے باوجود ایسی شدید مشقت برداشت کی جس کا تحمل صحت مند نوجوانوں کےلیے بھی مشکل ہو۔ مبارک باد اور شکریے کے مستحق ہیں ارکانِ پارلیمنٹ بھی جنہوںنے عوام کے جذبات کا بھی پورا لحاظ کیا اور خود بھی دیانت دارانہ اور حقیقت پسندانہ روش اختیار کی ۔حکومت ِ وقت بھی جس نے نہ اسے اپنے وقار کا مسئلہ بنایا‘ نہ نوشتہ دیوار کو پڑھنے سے انکار کیا‘ خصوصاًمسٹر بھٹو جو سیاسی تدبر اور فہم و فراست کے اس کڑے امتحان سے کامیابی کے پھریرے اڑاتے ہوئے نکلے۔لیکن ہمارے شکر و سپاس کا اصل حق دار اور ہمارے تشکر و امتنان کا سزاوار ِ حقیقی ہے اللہ ربّ العالمین جو ’’فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ‘‘ بھی ہے اور ’’غَالِبٌ عَلٰی اَمْرِہٖ‘‘ بھی اور جس کے قبضہ ٔ قدرت میں ہیں تمام اسباب و علل اور جملہ وسائل و عوامل۔ فلہ الحمد فی السموت والارض ولہ الحمد فی الدنیاوالآخرۃ۔
-------------------------------------------------
راقم الحروف ۲۴مئی سے ۳۰ جون تک لاہور سے تقریباًمسلسل باہررہا۔ پہلے کچھ بحالی ٔصحت اور کچھ بعض معاملات ومسائل پر گوشہ تنہائی میں غور و فکر کے پیش نظر ایک سفر ایبٹ آباد اور وادیٔ کاغان کا ہوا۔ پھر ایک طویل دورہ کراچی اور سندھ کے بعض دوسرے شہروں کا رہا۔ اسی دوران میں جب ’’حادثہ ربوہ‘‘ کی خبرپڑھی تو فوراً یہ خیال دل میں پیدا ہوا کہ غالباً تقدیر الٰہی میں فتنہ قادیانیت کی جس قدر مہلت طے تھی وہ پوری ہو چکی اور یہ رسّی جتنی دراز ہونی مقدرتھی وہ ہو چکی۔ آج سے اس کے زوال کا آغاز ہو گیا۔گویا ایک انگریزی محاورے کے مطابق: ’’This is the beginning of their end!‘‘ تبھی تو ان کی عقل ماری گئی اور ایسے ہوشیار ‘ کیّاد‘شاطر گروہ کے ہاتھوں اتنی بڑی حماقت کا ارتکاب ہو گیا۔ چنانچہ اثنائے سفر میں نجی گفتگوئوں میں راقم اپنے اس تاثر کا اظہار کرتا رہا۔ جب ۲۸ جون کو سکھر کی نئی تعمیر شدہ لیکن قدیم بادشاہی طرز کی عظیم جامع مسجد میں اجتماعِ جمعہ سے خطاب کا موقع ملا تو وہاں بھی اپنےاس یقین کا اظہار کیا کہ یہ ایک خالص خدائی تدبیر ہے اور اس بار یہ مسئلہ‘ ان شاء اللہ العزیز‘ ضرور تسلی بخش طریقے پر طے ہوجائے گا۔پھرتقریباً ڈیڑھ ماہ کی غیر حاضری کے بعد راقم نے ۵ جولائی کو جامع مسجد خضراء‘ سمن آباد میں جمعہ پڑھایا تو ایک مفصل تقریر میںپھر اسی توقع کا اظہار کیا۔ یہ تقریر ریکارڈ کر لی گئی تھی‘اور محترم شیخ جمیل الرحمٰن صاحب نے اسے صفحہ قرطاس پر بھی منتقل کرلیا۔ ان کی شدید خواہش تھی کہ اسے’ ’میثاق‘‘ میں شائع کر دیا جائے لیکن اُس وقت سنسر کی پابندی کے باعث ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ ذیل میں اس کا ابتدائی حصّہ درج کیا جا رہا ہے تاکہ ایک تو ان کی خواہش پوری ہو جائے اور دوسرے یہ نہ کہاجا سکے کہ ہمارے یہ خیالات وقوعہ کے پیش آ چکنے کے بعد کی خیال آرائیوں کے قبیل سے ہیں۔
(تقریر کا بقیہ حصّہ جو ’’عقیدئہ ختم نبوت اور قرآنِ حکیم‘‘ کے موضوع پر اظہارِ خیال پر مشتمل ہے‘ ان شاء اللہ آئندہ اشاعت میں شائع کر دیا جائے گا!)

’’حمد و ثنا اور تلاوتِ آیات کے بعد :
’’حضرات! ۲۴ مئی کے بعد آج ۵ جولائی کو ملاقات ہو رہی ہے۔ عجیب اتفاق یہ ہے کہ اِدھر تو جمعہ کے ان اجتماعات میں میرے خطابات کا سلسلہ عارضی طور پر لاہور سے باہر جانے کے سبب سے معطل ہوا اور اُدھر ملک میں ایک نہایت ہیجان انگیز واقعہ پیش آ گیا‘یعنی حادثہ ربوہ ۔ اس کے بعد پوری شدّت کے ساتھ اس مسئلے نے سراٹھا لیا جو اگرچہ موجود تو تقریباً ایک صدی سے ہے لیکن جس کا شدت کے ساتھ احساس ۱۹۵۳ء میں ہوا تھا۔۱۹۵۳ء کے حوادث کے بعد یہ مسئلہ دوبارہ بالکل دب گیا تھا۔ بجز اس کے کہ بعض افراد جیسے جناب شورش کاشمیری اور ہمارے بزرگ حکیم عبدالرحیم اشرف اس کی فتنہ سامانی کی طرف توجّہ دلاتے رہتے تھے یا بعض ادارے وقتاً فوقتاً کچھ کتابچےاور پمفلٹ اس کے بارے میں شائع کرتے رہتے تھے ‘کوئی عوامی تحریک موجود نہ تھی۔ اب ربوہ کے حادثہ نے اس کو ازسرنو زندہ کر دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پہلی مرتبہ اس کی حقیقی فتنہ انگیزی‘ سازشی فطرت اور مکاری کا ملک گیر احساس اجاگر ہوا اور ایوانِ حکومت سے خواص و عوام تک سب کی توجہ ادھر مبذول ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس مرتبہ جو یہ مسئلہ اٹھا تووہ کسی سیاسی پارٹی کی کوشش اور محنت سے نہیں اٹھا ۔ حالات کا تجزیہ کرنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ خالص ایک خدائی تدبیر ہے کہ اس طائفے کی عقل ماری گئی اور اس نے خود ہی اپنے ایک انتہائی غلط اقدام سے اس مسئلے کو زندہ کر دیا!
یہ فتنہ اپنے سازشی کردار اور انتہائی مہارت کے ساتھ خاموشی سے جسد ِملّت میں سرطان کے پھوڑے کی طرح جڑیں جمانے کے اعتبار سے پوری ملّت ِ اِسلامیہ کی تاریخ میں منفرد مقام رکھتا ہے ۔عام طور پر لوگوں کو اس کی ہلاکت خیزی کا اندازہ نہ تھا‘بلکہ تعلیم یافتہ حضرات میں سے بھی اکثر ا س سے بالکل ناواقف تھے‘ یا اس کے بارے میں گوناگوں غلط فہمیوں میں مبتلا تھے۔ اس مرتبہ جو یہ مسئلہ اٹھا ہے تو اگرچہ قادیانیوں نے تو اس کا کریڈٹ بھٹو صاحب کو دینے کی کوشش کی ہے تاہم اسے بھی ان کی سابقہ مکاریوں کا ایک تتمہ یا ضمیمہ ہی سمجھنا چاہیے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس دفعہ اس مسئلہ کے اُبھرنے اور اُٹھنے میں نہ حکومت کا کوئی عمل دخل ہے نہ کسی اپوزیشن پارٹی کا ہاتھ‘ بلکہ علماء کی کسی تنظیم یا جماعت کا بھی اس میں کوئی دخل نہیں ہے! حقیقت یہ ہے کہ اس بار کوئی شخص اور سیاسی پارٹی یہ کریڈٹ لینے کا دعویٰ نہیں کرسکتی۔ اس مرتبہ یہ مسئلہ ایک خالص خدائی تدبیر کے تحت اٹھا ہے۔
میرے اس یقین کی بنیاد یہ حقیقت ہے کہ اس مرتبہ قادیانیوں کی طرف سے ربوہ سٹیشن پر جو اقدام ہوا وہ ان کے اپنے اساسی فلسفے‘ بنیادی طریق کار اور سابق طرزِعمل سے بالکل مختلف ہے۔ ان کا رویہ اور طریقہ ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ حکومت ِوقت کو سلام کرو اور اس کی کاسہ لیسی ‘ مدح سرائی اور ثنا خوانی کر کے اس سے مراعات حاصل کرو ۔پھر ان مراعات کے تحت غیر محسوس طور پر اندر ہی اندر اپنی جڑیں پھیلائو۔ اُمّت ِمسلمہ کے ساتھ براہِ راست تصادم سے ہمیشہ کنّی کترانا ان کا وطیرہ رہا ہے۔ یہی ان کا ابتدا سے فلسفہ ہے‘ یہی ان کا طریق کار ہے۔ انہوں نےنہ کبھی سیاسی میدان میں خود کو نمایاں کرنےکی کوشش کی اور نہ ہی کسی موقع پر جارحیت کا کوئی انداز اختیار کیا۔ اس لیے کہ سیاست کا مبتدی طالب علم بھی یہ بات جانتا ہے کہ چھوٹی چھوٹی جمعیتیں اور جماعتیں یا فرقے اور گروہ کسی ملک میں بھی جارح ہو کر نہیں جی سکتے۔ مظلوم و مجروح ہو کر رہنے میں تو پھر بھی ان کے زندہ رہنے کا امکان رہتا ہے۔ جارحیت کی صورت میں تو سوائے خاتمے کے اور کوئی صورت ہی نہیں۔ یہی فلسفہ تھا جس کے سہارے یہ آج تک پنپتے رہے ہیں۔ اسی فلسفے پر وہ انگریزی دور میں پوری طرح کاربند رہے۔ حکومت برطانیہ کی قصیدہ گوئی‘ اس کی خوشامد‘ اس کو رحمت ِخداوندی قرار دے کر ‘اس کو بقا و ترقی کی دعائیں دےکر‘ اس کے مقاصد و مفادات میں ممدومعاون ہو کر‘ اس کے زیرسایہ اور زیرعاطفت رہ کر اور اس سے مراعات حاصل کر کے جسد ِملّت میں یہ سرطان کے مانند اپنی جڑیں پھیلاتےرہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد بھی یہ اسی طریق کار پر عمل پیرا رہے ہیں کہ خواہ کوئی بھی حکومت ہو اور کوئی بھی شخص یا جماعت برسراقتدار ہو‘ خود کو اس کا وفادار ثابت کریں اور خوشامد کے ذریعے مراعات پر مراعات حاصل کرتے چلے جائیں۔ یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ نہ صرف ان کی طرف سے جارحیت کا ارتکاب ہوا بلکہ انہوں نے اس جارحیت کو وقت کی حکمران سیاسی پارٹی سے منسوب کرنے کی حماقت کر کے حکومت ِوقت کو اپنے مدّ ِمقابل لا کھڑا کیا۔ گویا ان کی حماقت کے نتیجے میں حکومت اور عوام دونوں ایک صف میں کھڑے ہو گئے ۔یوںحکمران جماعت اور اپوزیشن کے مابین کسی قسم کی سیاسی غلط فہمی کے پیدا ہونے کا امکان ختم ہو گیا۔ لہٰذا ہمیں خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ایک طرف تو یہ مسئلہ اُٹھ کھڑا ہوا اوردوسری طرف خود بخود حالات ایسے پیدا ہوگئے کہ سیاسی پارٹیوں کی باہمی کشاکش کی نوبت آئے بغیر یہ اُمید پیدا ہو چلی ہے کہ اس مرتبہ‘ اِن شاء اللہ‘ اس مسئلہ کا ایسا حل ضرور نکل آئے گا جو اُمّت کےلیے قابلِ قبول ہو۔ اس سے پہلے کبھی ایسی صورتِ حال رونمانہیں ہوئی۔ بحمد اللہ ‘اس حد تک تو معاملہ آ گیا ہے کہ ایک طرف اعلیٰ سطحی تحقیقاتی عدالت کا تقرر ہوا ہے جس کےTerms of Reference کافی وسیع کر دیے گئے ہیں۔ تمام معاملات اس عدالت کے سامنے لا ئے جا رہے ہیں۔یوں اس گروہ کا گھنائونا کردار تحقیقاتی عدالت کے سامنے آ جائےگا اور یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہو جائے گی کہ اس گروہ کا مقام دائرہ ملّت کے اندر نہیں بلکہ باہر ہے۔ دوسری طرف اس ملک کے سب سے بااختیار ادارے یعنی پارلیمنٹ میں بھی اس مسئلے پر باقاعدہ غور و فکر شروع ہو گیا ہے۔ یہ دونوں صورتیں اس مسئلہ کے صحیح حل کے لیے نہایت مناسب ہیں۔اس بات سے بالکل قطع نظر کر لیجیے کہ اس مسئلہ کے حل سے کس کا کیا مفاد وابستہ ہے۔ حکمران پارٹی کیا چاہتی ہے اور اپوزیشن پارٹیاں کیا چاہتی ہیں! ان سب سے صرفِ نظر کرتے ہوئے میں عرض کرتا ہوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے شکر کا مقام ہے کہ اس مسئلہ کے حل کے لیے قانونی اور دستوری طور پر ممکنہ صحیح اقدامات کر لیے گئے ہیں اور یہ اُمید پیدا ہو چلی ہے کہ اس مرتبہ یہ مسئلہ‘ان شاء اللہ‘ ضرور حل ہو جائے گا۔
البتہ اس موقع پر تین احتیاطوں کی ضرورت ہے :
1- ایک احتیاط تو عوام کو کرنی چاہیے کہ معاملہ کسی صورت میں بھی ہنگامہ‘ ایجی ٹیشن اور دنگے فساد کی شکل اختیار نہ کرنے پائے‘ اس لیے کہ یہ قادیانیوں کے جال میں پھنسنے کے مترادف ہو گا۔ بعض معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ۱۹۵۳ ء میں بھی قادیانیوں نے پاکستان سے نقل مکانی کا فیصلہ کر لیا تھا لیکن اس کے ساتھ ہی ان کی یہ کوشش بھی تھی کہ کسی طرح ہنگامہ کی صورت پیدا ہو اور حکومت اور عوام کے مابین شدید نوعیت کا تصادم پیدا ہو جائے۔ جب وہ اس میں کامیاب ہو گئےاور مارشل لاء لگ گیا تو وہ جو چاہتے تھے وہ ہوگیا ‘یوں ان کے قدم جم گئے۔ اب بھی ان کی طرف سے اشتعال انگیزی کی جا رہی ہے ۔ جہاں بھی فساد اور لوٹ مار کا معاملہ ہوا یا فائرنگ تک نوبت پہنچی وہاں ابتدا ان ہی کی طرف سے ہوئی ہے۔ انہوں نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ ایک ہنگامہ خیز اور دھماکا خیز صورت بناکر حالات کا رُخ اس طرف پھیر دیا جائے کہ ملک میں امن و امان کاگمبھیر مسئلہ اُٹھ کھڑا ہو‘تاکہ حکومت اور عوام میں خوف ناک تصادم ہو جائے ۔ نتیجۃً موجودہ دستوری اور آئینی نظام درہم برہم ہو جائے اور اختیارات فوج کے ہاتھوں میں  منتقل ہو جائیں۔ فوج کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ اس کو کسی سیاسی یا دینی مسئلہ کی تائید یا مخالفت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ وہ خالص انتظامی معاملہ سمجھ کرامن و امان قائم کرنے کے لیے ہر قسم کی بدامنی اور ہنگامے کو فرو کر دینا اپنا فرضِ منصبی سمجھتی ہے۔ لہٰذا قادیانیوں کو اسی میں اپنی عافیت نظر آتی ہے کہ ملک میں بڑے پیمانہ پر لاءاینڈ آرڈر کا مسئلہ کھڑا کر دیا جائے۔ ربوہ میں کسی جگہ نمایاں طو رپر یہ عبارت لکھی گئی تھی کہ ’’خدا اپنی فوجوں کے ساتھ آ رہا ہے۔‘‘ گویا انہوں نے اپنی طرف سے اس بات کا پورااہتمام کر لیا تھا کہ کسی طرح ملک میں سول ایڈمنسٹریشن فیل ہوجائے اور فوج انتظامیہ کے اختیارات اپنے ہاتھ میں سنبھال لے تاکہ ایک طرف دستور معطل ہو جائے اور دوسری طرف وہ اپنے سازشی طور طریقوں سے فوج کو متاثر کر کے فائدہ اٹھا سکیں۔ لہٰذا اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ عوام ہر قسم کی اشتعال انگیزی پر ضبط و تحمل اور صبر سے کام لیں اور کسی وقت بھی کوئی ایسی صورت حال پیدا نہ ہونے دیں جس سے لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ کھڑا ہو جائے۔ اگر اس قسم کا کوئی بھی معاملہ ہو گیا تو درحقیقت یہ قادیانیوں کی تدبیر کی کامیابی ہو گی اور گویا ہم خود ان کے جال میں پھنس جائیں گے۔
2- دوسری احتیاط تمام سیاسی اور دینی پارٹیوں کو یہ کرنی چاہیے کہ اس مسئلہ کے اُٹھانے اور اس کے حل کا کریڈٹ لینے کی کوشش سے بھرپور اجتناب کیا جائے۔ اس مسئلے سے سیاسی مفاد حاصل کرنے کی ادنیٰ سی کوشش بھی پورے معاملہ کو خراب کر سکتی ہے ‘لہٰذا اس سے دامن بچانا ازحد ضروری ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس موقع پر کسی پارٹی کی جانب سے اس رجحان کا اظہار کہ یہ معاملہ اس کی کوششوں سےاٹھا ہے اور اس کی کامیابی کا سہرا اس کے سر بندھنا چاہیے ‘ انتہائی تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔
3- تیسری احتیاط یہ ہونی چاہیے کہ کسی موقع پر بھی اس معاملہ کو حکومت اور حزبِ اختلاف کے مابین طاقت آزمائی کا رنگ نہ دیا جائے۔ ماضی میں ایسا ہو چکا ہے کہ اس مسئلے سے بعض گروہوں اور سیاسی پارٹیوں نے سیاسی مفادات حاصل کرنے کی کوشش کی اور اس کو حکومت versus حزبِ اختلاف کا مسئلہ بنا دیا‘ جس کے نتیجہ میں مسئلہ حل ہونے کے بجائے لاینحل بن گیا۔ اس سلسلے میں یہ بات نہایت اُمید افزا اور اطمینان بخش ہے اور گویا ایک نہایت نیک شگون کا درجہ رکھتی ہے کہ اس بار متحدہ مجلس عمل کی قیادت مولانا سید محمد یوسف بنوری مدظلہ کو سونپی گئی ہے ‘جو ایک خالص غیر سیاسی شخصیت ہیں ۔چاہے ملک کے ہر شہری کی طرح ان کے بھی کچھ مخصوص سیاسی نظریات ہوں‘ بہرحال وہ عملی سیاست کے میدان سے بالکل علیحدہ رہتے ہوئے صرف علمی اور تدریسی مشاغل میں ہمہ تن مصروف ہیں۔ مجھے قوی اُمید ہے کہ مولانا کی قیادت میں یہ تحریک سیاست کی نذر ہونے سے بچ جائے گی اور معاملہ حکومت بمقابلہ احزاب اختلاف کا نہیں بنے گا ‘بلکہ مَیں تو یہاں تک کہتاہوں کہ اگر مسئلے کے حل کا کریڈٹ حکمران پارٹی لینا چاہتی ہو تو وہ بے شک لے لے۔ ہمیں ساری دلچسپی اس سے ہونی چاہیے کہ اس مرتبہ کسی طرح یہ مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کے مطالبے کے مطابق حل ہو جائے۔ میں اسی بات کو سکھر کے ایک اجتماع میں بھی بیان کرچکا ہوں‘مختلف ذرائع سے اپنی یہ گزارشات علماء کرام اور سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں تک بھی پہنچا چکا ہوں اور آج پھر اس کا اظہار کر رہا ہوں کہ اس مرتبہ یہ مسئلہ قادیانیوں کی حماقت سے اور پورے زور شور سے اٹھا ہے۔ اس میں کسی سیاسی پارٹی کا کوئی دخل نہیں ہے۔ یہ خالص خدائی تدبیر ہے۔اللہ نے ہمیں موقع عطا فرمایا ہے کہ اس صورت حال سے صحیح فائدہ اٹھالیں۔ اگر ہم نے کفرانِ نعمت کیا تو نہیں کہا جا سکتا کہ یہ مسئلہ کتنے طویل عرصے کے لیے دوبارہ سردخانے میں چلا جائے۔ اس مسئلہ کو نئے سرے سے اٹھانا آسان نہیں ہو گا۔ ۱۹۵۳ء کے بعد سے یہ مسئلہ جس طرح دب گیا تھا وہ آپ کو معلوم ہے۔لہٰذا اس موقع پر ہمیں پورے دینی اور سیاسی فہم کا ثبوت دینا چاہیے اور ہر قسم کی اشتعال انگیزی پر ضبط و تحمل کا ثبوت دیتے ہوئے پُرامن ذرائع سے اپنا مطالبہ جاری رکھناچاہیے۔ دلائل سے اپنی بات منوانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہنگامہ آرائی سے دامن بچانا چاہیے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ حکومت کی سطح پر اس فتنہ پر تشویش کا اظہار ہوا ہے اور بڑی اعلیٰ سطح پر یہ احساس اُجاگر ہوا ہے کہ اس مسئلہ پر سنجیدگی سے غور کرنے اور اس کا صحیح حل تلاش کرنے کی واقعتاً ضرورت ہے۔ یہ صورت ِحال بڑی اطمینان بخش ہے ۔لہٰذا ہمیں موقع دینا چاہیے کہ ایوانِ نمائندگان پُرامن فضا میں اس مسئلہ کو اس صحیح حل تک پہنچا سکے جو پوری اُمّت ِمسلمہ کے لیے قابلِ قبول ہو۔
جہاں تک اس مطالبہ کا تعلق ہے کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ مولانا امین احسن اصلاحی کے بقول اس سے زیادہ نرم کوئی اور مطالبہ نہیں ہو سکتا‘ اس لیے کہ کسی کمیونٹی کو باقاعدہ اقلیت (minority) تسلیم کرنے کے معنی یہ ہیں کہ اسے بہت سے قانونی حقوق اور تحفظات دے دیے جائیں! یہ گویا ایک اعتبار سے اس کی قانونی حیثیت کا تعین اور بین الاقوامی سطح پر اس کے حقوق کا اعتراف ہے۔ اگر کوئی ملک کسی کمیونٹی کو اپنے ہاں اقلیت کی حیثیت سے تسلیم کر لے تو گویا اقوام متحدہ کے تمام ادارے اس کے پشت پناہ ہوگئے۔یو این او اس کی کسٹوڈین بن گئی۔ بین الاقوامی عدالت اس کے معاملات میں مداخلت کی مجاز ہو گئی۔ بحیثیت اقلیت ان کے حقوق آپ کو باقاعدہ طے کرنے ہوں گے اور ان کو اپنی کتابِ دستور میں مندرج کرنا ہو گا۔ ان حقوق کی ادائیگی کی آپ کو ضمانت دینی ہو گی اور آپ کے ملک کی عدالتیں ان حقوق کی نگہداشت کریں گی۔ قادیانیوں کے لیے اس سے زیادہ فیاضانہ سلوک کا تصوّر تک نہیں کیا جاسکتا۔ ختم نبوت اُمّت ِمسلمہ کا ایک ایسا اجماعی عقیدہ ہے کہ اس میں کسی اعتبار سے رخنہ ڈالنا یا دراڑ پیدا کرنا ہمیشہ سے ارتداد کی ایک پختہ اور متفق علیہ بنیاد رہی ہے۔ دوسری طرف قتل ِمرتداور خصوصاً منظم مرتدین کے ساتھ قتال کے مسئلے پر بھی ہمیشہ سے اُمّت کا اجماع ہے۔ یہ تو اِس دور کی ’’برکات‘‘ ہیں‘ بقول اکبر الٰہ آبادی :
گورنمنٹ کی خیر یارو منائو
گلے میں جو آئیں وہ تانیں اڑائو
کہاں ایسی آزادیاں تھیں میسر
’’انا الحق‘‘ کہو اور پھانسی نہ پائو!
کہ جس نے جو چاہا کہہ دیا اور جو جی میں آیا دعویٰ کر دیا اور اسے کوئی فکر نہیں کہ میرا حشر کیا ہو گااورمیرے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا !مرزا صاحب کے تمام دعاوی برٹش راج میں ہوئے۔ یہ دعوے برطانوی سامراج کے اپنے مفاد میں تھے۔ پھر مسلمانوں میں انتشارِ فکر و نظر اس کو عین مطلوب تھا‘لہٰذا وہ کیوں ان کا نوٹس لیتا! اس نے تو ان کی سرپرستی کی اور خوب سرپرستی کی۔ اس کی سرپرستی اور نگہداشت میں یہ پودا نہیں‘ جھاڑ جھنکار نشوونما پاتا رہا۔اگر کہیں خلافت ِراشدہ کا دَور ہوتا یا کوئی بھی اسلامی حکومت ہوتی تو آٹے دال کا بھائو معلوم ہوجاتا۔ ایسا دعویٰ کرنے والے کا مقام دارورسن ہوتا یا پھر اس دعویٰ کو ماننے والوں کے ساتھ باقاعدہ قتال ہوتا۔ ان کی جان اور ان کا مال مسلمانوں کے لیے مباح قرار پاتا اور ان کے ساتھ معاملہ وہی کیا جاتا جو متحارب کفار اور مشرکین کے ساتھ کیا جاتا رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اُمّت ِمسلمہ کا سینہ بڑا کشادہ رہا ہے ۔ ہمارے ہاں تکفیر کا مسئلہ بہت ہی نازک مسئلہ سمجھا گیا ہے ۔ عام طو رپر جو یہ بات مشہور ہے کہ تکفیر ایک آسان سا معاملہ ہے تو یہ بہت بڑا مغالطہ ہے۔ ہمارےہاں تکفیر کا معاملہ بہت کم ہوا ہے ۔عام طو رپر ہمارے ہاں کفر کا فتویٰ مختلف عقائد اور اعمال پر لگتا رہا ہے ۔ متعین افراد یا گروہوں کی باقاعدہ تکفیر شاذ ہی کبھی ہوئی ہے۔ گنتی کی مثالیں ہی ملیں گی کہ کسی اسلامی حکومت نے متعین طور پر کسی خاص شخص یا جماعت کی تکفیر کر کے اس کو جسد ملّت سے کاٹ پھینکا ہو۔ ارتداد یا تکفیر کا معاملہ انہی افراد کے ساتھ کیا گیا ہے کہ جن کے قول اور عقیدہ کی کوئی تاویل اور توجیہہ ممکن ہی نہ رہی ہو اور صریح ارتداد یا کفر کا ایسا ثبوت فراہم ہو گیا ہو جس کی تردید ممکن نہ ہو۔ پھر ایسے افراد کے ساتھ بھی انتہائی سزا یعنی قتل سے قبل پوری طرح افہام و تفہیم کا طریقہ اختیار کیاگیا۔اس کے مقابلے میں عیسائیت کی تاریخ سے ظاہر ہوتا ہے کہ معمولی‘ چھوٹی اور بالکل فروعی باتوں پر کیسی کیسی بہیمانہ اور وحشیانہ سزائیں دی جاتی تھیں اور کس طرح بے دریغ ان کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا تھا۔ ہمارا اجتماعی مزاج اس کے بالکل برعکس رہا ہے۔البتہ قادیانیوں کا معاملہ یہ ہے کہ انہوں نے وہ رخنہ پیدا کیا ہے کہ اگر اس سے صرفِ نظر کیا گیا تو ملّت کی شیرازہ بندی ممکن ہی نہیں رہے گی۔
دعوائے نبوت درحقیقت ایسا فتنہ ہے کہ جس سے وہ بنیاد ہی منہدم ہو جاتی ہے جس پر اسلام کا قصر کھڑا ہے۔ نبوت سے کم تردرجہ کے بہت سے فتنے ہمارے ہاں اُٹھتے رہے اور اُمّت نے انہیں برداشت کیا ہے لیکن نبوت کے دروازے کو اگر ایک ہی بار کھول دیا گیا تو اُمّت میں تفریق کا ایک مسلسل عمل شروع ہو جائے گا جس کی پھرکوئی حد مقرر نہیں ہو سکتی۔ ظاہر ہے کہ اگر کوئی دعوائے نبوت کرے گاتو لازماً اس کے دو نتائج مترتب ہوں گے۔ اس کو ماننے والا مؤمن اور اس کا انکار کرنےوالا کافر قرار پائے گا۔ نبی ایک میزان اور فرقان بن کر آتا ہے۔ وہ کفر و ایمان کا معیار بن کر آتا ہے۔ جو اس کو نہ مانے چاہے وہ دیگر تمام باتوں کو مانتا ہو یہاں تک کہ وہ خدا کو خالص توحید کے ساتھ مانتا ہو ‘ آخرت کو مانتا ہو اور ان تمام تفاصیل کے ساتھ مانتا ہو جن کی خبر انبیاء و رسل دیتے چلے آئے ہیں‘ حضرت آدمؑ سے لے کر اس نبی سے پہلے آنے والے تمام نبیوں اور رسولوں کو مانتا ہو‘تمام صحیفوں اور کتابوں کو مانتا ہو‘ ملائکہ کو مانتا ہو‘ بڑا ہی متقی ہو لیکن مجرد اس بات سے کہ اس نے ایک نبی کا انکار کر دیا‘ اس پر کفر کا ٹھپہ لگ جائے گا اور وہ مؤمن نہیں بلکہ کافر قرار پائے گا۔ گویا نبوت کا لازمی اورمنطقی نتیجہ تفریق ہے۔ غور کیجیے کہ یہود اور نصاریٰ کے مابین آخر کیا چیز مابہ الاختلاف ہے؟عیسائی اب بھی جس کتاب کو لیے پھرتے ہیں‘ اس میں انجیل (New Testament) کے ساتھ عہد نامہ عتیق (Old Testament) کے نام سے بنی اسرائیل کے انبیاء پر نازل ہونے والے تمام صحیفے شامل ہیں۔گویا عیسائی تورات‘ زبور اور تمام صحیفوں کو بھی مانتے ہیں اور حضرت آدم سے حضرت عیسیٰ علیٰ نبینا وعلیہما الصلوٰۃ والسلام تک تمام نبیوں اوررسولوں کو بھی مانتے ہیں لیکن پھر بھی یہ دو علیحدہ علیحدہ اُمتیں ہیں۔ یہ فرق کیوں واقع ہوا؟صرف اس لیے کہ یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کا انکار کیا اور عیسائیوں نے ان کو مانا تو بنی اسرائیل میں تفریق ہو گئی۔ اب یہ دو بالکل جدا اُمّتیں ہو گئیں۔یہود کے نزدیک حضرت عیسیٰ ؑ کو نبی اور رسول ماننے والے دائرہ ایمان سے خارج ہو کر کافر ہو گئے اور عیسائیوں کے نزدیک حضرت عیسیٰ ؑکے انکار کی وجہ سے یہود کافر قرار پائے۔ مزید غور کیجیے کہ ہمارے اور عیسائیوں کےمابین فرق کیا ہے!یہاں میری مراد ان لوگوں سے ہے جو حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا کا نبی اور رسول مانتے ہوں اورجو حقیقتاً حضرت مسیح ؑ کے متبع ہوں۔ ہم حضرت عیسیٰؑ کو مانتے ہیں لیکن یہ متبعین حضرت مسیح ؑ‘ ہمارےنبی سید المرسلین خاتم النبیینﷺ کو نہیں مانتے۔ لہٰذا ہمارے نزدیک وہ کافر اور ان کے نزدیک ہم کافر۔گویا یہ وہ منطقی نتیجہ ہے جس تک خود قادیانیوں نے اس مسئلے کو پہنچایا ہے۔ جب وہ ایک نئی نبوت پر ایمان کے مدعی ہیں تو ان کے نزدیک اس نبوت کاانکار کرنے والے کافر اور ہمارے نزدیک اس نبوت کو ماننےوالے کافر۔
اس حقیقت کو بھی اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ آخر کیا وجہ تھی کہ نئی نبوت کا کھڑاک مول لیا گیا!دراصل نبوت کی بنیاد پر جو تنظیم قائم ہوتی ہے اس سے زیادہ مضبوط تنظیم کا آپ تصوّر ہی نہیں کر سکتے۔ جس کسی نے کسی کو نبی مان لیا ‘اس نے گویا ہر اعتبار سے اپنے آپ کو اس نبی کی کامل فرماں برداری میں دے دیا اور خود کو بالکلیہ سرنڈرکر دیا۔ اب اس نبی کے مقابلے میں اس کا فکر‘ اس کی عقل اور اس کی رائے سب معطل ہوجائیں گے۔ کوئی شخص جب ظلی طور پر‘ بروزی طور پر یا کسی اور اعتبار سے خود کو ایک مرتبہ نبی منوالے تو اب وہ ماننے والے کے لیے امام معصوم بھی ہو گیا‘ واجب الاطاعت بھی ہو گیا۔ اس کی رائے سے اختلاف اور اس کے حکم سے انحراف کفر ہو جائے گا‘ حتیٰ کہ اس کے خلاف دل میں کدورت کے جذبات رکھنا بھی کفرکے زمرے میں آئے گا ۔ پس ایسے شخص کے گرد جو تنظیم بنے گی اس سے زیادہ مضبوط تنظیم کا تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ ایسی تنظیم کے علاوہ جو دوسری تنظیمیں ہوں گی ان کے صدر سے‘ امیر سے‘ سربراہ سے آپ اختلاف کر سکتے ہیں‘ ان کے خلاف سوء ظن میں بھی مبتلا ہو سکتے ہیں‘ ان کی رائے کے مقابلہ میں اپنی رائے پیش بھی کر سکتے ہیں اور اس پر عمل بھی کر سکتے ہیں‘کیونکہ یہاں معاملہ ایمان و کفر کا نہیں ہوتا ‘لیکن اس کے برعکس جہاں کسی کو نبی مان لیا گیا ہو وہاں ان تمام امکانات کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ چنانچہ یہ امر واقعہ ہے کہ اس برصغیر میں قادیانیوں کی تنظیم سے بہتر اور مضبوط کوئی تنظیم نہیں ہے اور اس کا سبب یہی ’’نبوت‘‘ کا تصوّر ہے۔ یہ فائدہ نبوت کے دعویٰ کے بغیر حاصل ہونا ممکن ہی نہیں تھا۔
پھر انہوں نے نبوت کے لازمی اور منطقی نتیجہ کو خود ہی لوگوں کے سامنے واضح کر کے پیش کر دیا۔ عامۃ المسلمین سے ان کی مساجد علیحدہ‘ نمازیں علیحدہ‘ یہاں تک کہ وہ ہمارے جنازے میں شرکت نہیں کریں گے۔(مشہور ہے کہ چودھری سر ظفراللہ خاں نے جو وزیراعظم لیاقت علی خاں کی کابینہ میں وزیر امور خارجہ تھے ‘اپنے محسن‘مربی اور بانی ٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی نمازِ جنازہ میں شرکت نہیں کی تھی۔) حد یہ ہے کہ وہ ہمارے بچوں کے جنازے میں بھی شریک نہیں ہوں گے۔ یہ بات باقاعدہ سوال و جواب کی صورت میں ان کے لٹریچر میں موجود ہے۔ مرزا بشیر الدین محمود سے پوچھا گیا :بچے تو معصوم ہوتے ہیں ‘اگر غیر احمدی بچوں کے جنازہ کی نماز میں شرکت کر لی جائے تو کیا ہرج ہے؟جواب دیا گیا: کیاآپ عیسائیوں کے بچوں کے نماز جنازہ میں شرکت کر سکتے ہیں؟ اسی طرح انہوں نے کسی غیر احمدی لڑکے سے احمدی لڑکی کا نکاح ناجائز اور غیر احمدی کی لڑکی سے احمدی کا نکاح جائز قرار دیا۔دلیل یہ دی گئی کہ اہل کتاب کی لڑکیوں سے نکاح جائز لیکن ان کو لڑکی دینا ناجائز ہے۔کتنی عجیب بات ہے کہ اس معاملہ کو منطقی انتہا تک تو قادیانی خود پہنچائیں‘ اس کے جملہ مضمرات کو کھول کر وہ خود واضح کریں اور پھر اس کا جو عملی نتیجہ نکلنا چاہیے‘ یعنی یہ کہ ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے تو یہ اس پر واویلا کریں۔ اس میں آخر کیا معقولیت ہے؟ خوب اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ اعتقادی طور پر وہ اپنے آپ کو خود ہی ایک علیحدہ اُمّت قرار دے چکے ہیں لیکن اس کے مقدرات کو اس لیے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ اس طرح ان کے توسیع پسندانہ عزائم میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ اُمّت ِمسلمہ میں شامل رہ کر وہ جس طرح ہر قسم کے مادی فوائد سے متمتع ہو رہے ہیں‘ اس میں خلل واقع ہوتا ہے ۔ غیر مسلم اقلیت ہونے کے باعث وہ حکومت کے تمام کلیدی مناصب سے محروم کر دیے جائیں گے۔ حکومت کے دفاتر اور محکمہ جات کی ملازمتوں میں عددی تناسب کے لحاظ سے ان کا کوٹا مقررہو جائے گا۔ تبلیغ اسلام کے نام سے جو زرمبادلہ کثیر مقدارمیں وہ ہر سال حاصل کرتے ہیں ‘اس پر قدغن لگ جائے گی۔ مسلمانوں میں شامل رہنے کے سبب سے فوج‘ سفارت خانوں اور دیگر محکموں کے اعلیٰ عہدوں تک ان کو جو پہنچ اور دسترس حاصل ہے اس پر پابندی عائد ہو جائےگی۔ یہ نقصانات وہ ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کر سکتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ آکاس بیل کی طرح شجر ملّت سے لپٹے رہیں تاکہ اسی سے غذا حاصل کرتے رہیں اور اسی کی بربادی کا باعث ہوں۔ اسی لیے وہ واویلا مچا رہے ہیں اور خود کو ’’مسلمان‘‘ ثابت کرنے کےلیے اپنے روایتی دجل و فریب سے کام لے رہے ہیں۔ درحقیقت انہوں نے خود اپنے اختیار کردہ موقف کے اعتبار سے اپنے علاوہ بقیہ تمام مسلمانوں کو کافر قرار دے کر بحیثیت ایک جداگانہ اُمّت اپنا تشخص تین چوتھائی صدی قبل ہی طے کرلیا تھا۔ ان حالات کی بنا پر ہر معقول اور انصاف پسند شخص اس نتیجہ پر بہ ادنیٰ تامل پہنچ جاتا ہے کہ قادیانیوں کو ایک جداگانہ غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا جائے۔ یہ انتہائی نرم‘ معقول اور ہلکا نیز ان کے حق میں مفید فیصلہ ہے۔اگر یہاں فی الواقع دینی نظام نافذ ہوتا تو ان کو نئی نبوت کے اجراء اور اس کو ماننے کے جو نتائج بھگتنے پڑتے وہ ان کے لیے کہیں زیادہ سخت ہوتے۔ یہ تو لادینیت کادور ہے اور ملک میں ابھی تک بالفعل انگریزی دور کا نظام معمولی حک و اضافہ کے ساتھ نافذ ہے ‘اسی لیے ان کے ساتھ انتہائی نرم سلوک کا مطالبہ ہے‘ورنہ ان کے ساتھ معاملہ وہ ہوتا جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانےمیں ہوا۔ ان کو ارتداد کی ایسی سزائوں سے واسطہ پڑتا جو خلافت ِراشدہ کے بعد بھی اسلامی سلطنت میں دی جاتی رہیں ۔ یہ تو اکبر الٰہ آبادی کے بقول اس دور کی برکت ہے کہ ’’انا الحق کہو اور پھانسی نہ پائو!‘‘ کتنے ہی لغو اور مضحکہ خیز دعاوی کیے گئے‘ حتیٰ کہ نبوت کے قلعے میں بھی رخنہ ڈال دیا گیا اور نئی نبوت کے ٹھاٹھ بالفعل جما دیے گئے۔ اپنے علاوہ عالم اسلام کے تمام مسلمانوں کو کافر قرار دے دیا‘ ان کے بچوں کی بھی تکفیر کر ڈالی لیکن نہ صرف یہ کہ ان کا کچھ نہ بگڑ سکا بلکہ وہ مسلمانوں میں شامل رہ کر تمام حقوق سے استفادہ بھی کرتے رہے ۔اپنے خالص سازشی کردار اور ’’انجمن امدادِ باہمی‘‘ کے طرز پر کام کرتے ہوئے اپنے جائز حقوق سے کہیں بڑھ کر سہولتیں اور مراعات حاصل کیں۔ بہرحال یہ نرم ترین اور انتہائی وسعت قلبی کا سلوک ہے جواُمّت مسلمہ ان کے ساتھ روا رکھنا چاہتی ہے‘ یعنی یہ کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے کر ان کے حقوق و فرائض متعین کر دیے جائیں اور ان کو ہمیشہ کے لیے جسد ِملّت اسلامی سے علیحدہ کر دیا جائے۔‘‘
ہمارے نزدیک قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دیے جانے کا یہ فیصلہ ان ’’معجزات‘‘ کے سلسلے کی تازہ ترین اور اہم ترین کڑی ہے جن کی بنا پر ہمیں یہ یقین حاصل ہے کہ پاکستان کا قیام اسلام کے احیاء اور دین حق کےاس عالمی غلبے کی خدائی سکیم کا ایک اہم جزو ہے جس کی خبر مخبر صادقﷺ نے دی تھی۔