(حسن معاشرت) تربیت اولاد: باپ کا کردار - راحیل گوہر صدیقی

10 /

تربیت ِاولاد :باپ کا کردارراحیل گوہر صدیقی
معاون مسئول‘شعبۂ تصنیف و تالیف‘قرآن اکیڈمی‘ یٰسین آباد‘کراچی


اس کائنات میں کوئی بھی انسان تمام فرائض اور افعال تنِ تنہا ادا نہیں کرسکتا‘بلکہ ان کی تکمیل کے لیے معاشرے کی ضرورت پڑتی ہے۔ معاشرہ انسان کی طبعی ضرورت ہے‘اس لیے ایک ذی عقل انسان معاشرے سے منقطع ہوکر زندگی بسر نہیں کرسکتا۔ جو لوگ غاروں‘ سنسان میدانوں یا جنگلوں میں زندگی بسر کرتے ہیں انہیں کوئی انسانی فضیلت حاصل نہیں ہوسکتی۔اس حالت میں انسان کی تمام اخلاقی قوتیں مُردہ ہوجاتی ہیں۔ان سے بھلائی یا برا ئی کچھ بھی سر زد نہیں ہوتی۔ انسان کی تخلیق کی غرض و غایت میں سے ایک نسل ِ انسانی کو جاری رکھنابھی ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
{ یٰٓــاَیـُّــہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّـکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّـفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَّنِسَآئً ج } ( النساء:۱)
’’لوگو! اپنے ربّ کا تقویٰ اختیار کرو جس نے تم کو ایک جان (آدمؑ) سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا‘پھر ان دونوں سے کثرت سے مَرد و عورت (پیدا کرکے روئے زمین پر) پھیلا دیے۔‘‘
انسان میں دو قوتیں ہیں ۔ قوتِ عاقلہ کے ذریعے سے انسان علم و حکمت حاصل کرتا ہے‘ جبکہ قوتِ فاعلہ کو کام میں لا کر اپنے تمام معاملات میں تنظیم پیدا کرتا ہے۔انسان کی سعادت ان دونوں قوتوں کی تکمیل کا نا م ہے۔پہلی کے ذریعے سے انسان صحیح فکر اور صحیح عقائد حاصل کرتا ہے اور اس پر تمام اسرارِ الٰہی منکشف ہوجاتے ہیں ۔دوسری قوت اسے اخلاقی کمال کے حصول میں مدد فراہم کرتی ہے۔تمام قویٰ و ملکات اور افعال کی ترتیب سے اخلاقی کمال حاصل ہوتا ہے۔ یہ ترتیب اس طرح سے دی جاتی ہے کہ ایک قوت دوسری قوت پر غالب آجائے۔
فطری طبائع کے لحاظ سے لوگوں میں بہت فرق پایا جاتا ہے ۔قلیل تعداد ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جو فطری طور پر نیک ہوتے ہیں‘ کبھی بد نہیں ہوسکتے ‘کیونکہ فطری چیز میں تغیر واقع نہیں ہوتا۔دوسری طرف بہت سے لوگ ایسے ہیں جو طبعاً بد ہیں اور کبھی نیک نہیں ہوسکتے۔انسانوں کی ایک تیسری قسم ایسی ہے جو فطری طور پر نہ نیک ہوتے ہیں اور نہ بد‘ بلکہ تعلیم و تربیت اور صحبت کے اثرات سے نیکی یا بدی اختیار کر لیتے ہیں۔ انسان اگر فطری طور پر نیک اور صالح ہو تو اس کا وجود ایک سایہ دار گھنے درخت کی طرح ہوتا ہے جو مسافروں کو تپتی دھوپ میں اپنے ٹھنڈے اور فرحت بخش سائے کے ذریعے بدنی و قلبی راحت عطا کرتا ہے۔ایسا ہی شخص ایک مشفق باپ‘ وفا شعار خاوند اور حساس دل رکھنے والا بھائی اور بیٹا ثابت ہوتا ہے۔ اس کی نیکیاں برگ و بار لاتی ہیں اور اس کا وجود کئی نسلوں کو اعلیٰ اخلاق و کردار کے رنگ میں رنگ دیتا ہے۔
یہ دنیا حقوق وفرائض کے بندھن میں بندھی ہوئی ہے‘ جہاں کسی کے کچھ حقوق ہیں تو وہاں اس پر کچھ فرائض بھی عائد کیے گئے ہیں۔ یہ اسلام کے اخلاقی تقاضوں میں ایک اہم تقاضا ہے۔اگر انسان کچھ فرائض ادا کرتا ہے تو وہ دوسروں سے امیدیں بھی وابستہ کر لیتا ہے۔ حقوق و فرائض کے کچھ پہلو تو ایسے ہیں کہ اگر ان میں توازن قائم نہ رکھا جائے تو معاشرہ کا حسن گہنا جاتاہے۔اسلام بدلے کے طرزِ عمل کو پسند نہیں کرتا۔ ’’کچھ لو‘ کچھ دو‘‘ (Give and take) دنیا کا اپنا وضع کردہ اصول ہے‘جبکہ ایثار و قربانی کا اپنا ایک حسن ہے۔ اسلام کی اخلاقی تعلیم یہ ہے کہ اگر کوئی شخص تمہارے ساتھ برا اور ناروا سلوک کرے تو اس کے جواب میں تم اس سے بہتر سلوک کرو۔ یہی ایک صالح انسان کی شناخت ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
{وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُط اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ (۳۴) } (حٰم السجدہ)
’’ اور بھلائی اور برائی برابر نہیں ہوسکتی‘ تو(سخت کلامی کا) ایسے طریق سے جواب دو جو بہت اچھا ہو‘ (ایسا کرنے سے تم دیکھوگے ) کہ جس میں اور تم میں دشمنی تھی وہ گویا تمہارا گرم جوش دوست ہے۔‘‘
اسلام کی اخلاقی تعلیمات میں والدین اور اولاد کے مابین حقوق و فرائض کا رشتہ بہت حساس نوعیت کا ہے۔یہ جذبات و احساس کے وہ آبگینے ہیں جو ذرا سی ٹھیس لگنے سے ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں۔ان میں کسی قسم کی بھی غفلت اور کمی کوتاہی سے اللہ کی سخت ناراضگی کا احتمال ہوتا ہے۔والدین کے حقوق پر تو اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں بہت زور دیا ہے۔قرآن حکیم میں پانچ مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اپنے حق (شرک سے اجتناب) کے فوراً بعد والدین کے حقوق کا تذکرہ فرمایا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:
{وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ ج حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ وَہْنًا عَلٰی وَہْنٍ وَّفِصٰلُہٗ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْکُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْکَ ط اِلَیَّ الْمَصِیْرُ(۱۴) } (لقمٰن)
’’ ہم نے انسان کو اپنے والدین سے (حسنِ سلوک کا) تاکیدی حکم دیا ہے۔ اس کی ماں نے کمزوری سہتے ہوئے اسے ا ٹھائے رکھا اور دو سال اس کے دودھ چھڑانے میں لگے۔چنانچہ میرا شکر ادا کرو اور اپنے والدین کا بھی‘ میرے پاس ہی لوٹ کر آنا ہے۔‘‘
ایک اور مقام پرارشاد ہوتا ہے:
{وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاط اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اَحَدُہُمَآ اَوْکِلٰہُمَا فَلَا تَقُلْ لَّہُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْہَرْہُمَا وَقُلْ لَّہُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا(۲۳) وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا(۲۴) } (الاسراء)
’’ آپ کے ربّ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اُس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرو۔ اگر ان میں سے کوئی ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں توا نہیں اُف تک نہ کہو نہ ہی انہیں جھڑکو ‘اور ان سے ادب سے بات کرو۔اورانکساری اور نیاز مندی سے ان کے آگے جھکے رہو اور دعا کرتے رہو :اے میرے ربّ! ان پر رحم فرما جیسے انہوں نے بچپنے میں مجھے پالا تھا۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے والدین کو بھی اولاد کے حقوق اور ان کی تربیت کرنے کا پابند کیا ہے۔ انسانی معاملات اور ان کے باہمی تعلقات کے اسی حسن توازن نے اسلام کودین فطرت بنا دیا ہے۔
والدین پر اولاد کا سب سے پہلا حق یہ ہے کہ ان کی زندگی شروع ہونے سے پہلے ہی اس کو ختم کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ یہ نہ سوچا جائےکہ ان کا بوجھ ہم کیسے اٹھائیں گے اورانہیں پروا ن چڑھانے کے لیے مالی وسائل کہاں سے آئیں گے۔ ایک اور خباثت ابلیس دل میں ڈالتا ہے کہ اولاد کا وجود ہماری آسائشیں اور پُرکشش زندگی کے لیے وبالِ جان بن جائے گا ۔اس سلسلے میں اللہ تعا لیٰ خبر دار کرتا ہے:
{وَمَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللہِ رِزْقُہَا وَیَعْلَمُ مُسْتَقَرَّہَا وَمُسْتَوْدَعَہَاط کُلٌّ فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ (۶)} (ھود)
’’زمین پر چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو ‘اور وہ اس کی قرار گاہ کو بھی جانتا ہے اور اس کے دفن ہونے کی جگہ کو بھی۔یہ سب کچھ کتابِ واضح (لوحِ محفوظ) میں لکھا ہوا ہے۔‘‘
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسولِ مکرم ﷺنے ارشاد فرمایا:
((افْتَحُوا عَلٰى صِبْيَانِكُمْ أوَّلَ كَلِمةٍ بِلا إلٰهَ إلَّا اللّٰهُ .......))(السلسلة الضعيفة: ۶۱۴۶)
’’ اپنے بچوں کو زبان کھولنے کے بعد سب سے پہلے کلمہ لَا اِلٰهَ اِلَّا الله سکھلائو.......‘‘
ایک اور مقام پر محسن انسانیت ﷺ نے ارشاد فرمایا:
((مَا نَحِلَ وَالِدٌ وَلَدًا مِنْ نُحْلٍ أفْضَلَ مِنْ أَدَبٍ حَسَنٍ))(سنن الترمذی: ۱۹۵۲)
’’ کسی باپ نے اپنی اولاد کوکوئی عطیہ اور تحفہ حسنِ ادب سے بہتر نہیں دیا۔‘‘
یعنی ایک باپ کا اپنی اولاد کے لیے سب سے اعلیٰ اور بیش بہا تحفہ یہ ہے کہ وہ اس کی تربیت اسلام کے بتا ئے ہوئے خطوط پر کرے۔اسلام امن و سلامتی کا دین ہے۔ یہ عالم انسانیت کے لیے محبت‘ اخوت‘ رحمت‘ ایثار‘ قربانی اور عدلِ اجتماعی کا پیامبر بن کرآیا ہے۔قرآن حکیم میں ارشادِ ربانی ہے:
{یٰٓــاَیـُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ عَلَیْھَا مَلٰٓئِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ} (التحریم:۶)
’’اے لوگوجو ایمان لائے ہو! بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے‘ جس پر تند خو اور سخت مزاج فرشتے (مقرر) ہیں۔‘‘
اس آیہ مبارکہ میں اہلِ ایمان کو متنبہ کیاجارہا ہے کہ وہ خود بھی اوراپنے گھر والوں کی بھی اصلاح کا خاص اہتمام کریں تاکہ وہ سب جہنم کا ایندھن بننے سے بچ جائیں۔امام زمخشری رحمہ اللہ ’’ تفسیر کشاف ‘‘میں لکھتے ہیں:
’’ قُـوْٓا اَنْفُسَكُمْ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ معاصی ترک کرکے اور طاعات بجا لاکر اپنے آپ کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ اور اپنے گھر والوں کو بھی اسی طرح آگ سے بچاؤ ۔اور جیسے تم اپنا مؤاخذہ اور محاسبہ کرتے ہو‘ اسی طرح ان کا مؤاخذہ کیاکرو۔‘‘
بچوں کی اصلاح و تربیت کی ذمہ داری اٹھانا والدین پر فرض ہے۔ ان کو اچھے کاموں کا عادی بنانا انتہائی ضروری ہے۔ یہی انبیاء و مرسلین علیہم السلام کا راستہ ہے۔سیدنا نوح علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو ایمان لا نے کی دعوت دی اور امام الناس سیدنا ا براہیم علیہ السلام نے بھی اپنی اولاد کو صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت اور بندگی کرنے کی وصیت کی۔ اس سلسلے میں سیدنا لقمان علیہ الرحمۃ کے طرزِ عمل کو قرآن حکیم میں سراہتے ہوئے تفصیلاً بیان کیا گیا ہے‘ جب وہ اپنے بیٹے کو نصیحت کر رہے تھے:
{وَاِذْ قَالَ لُقْمٰنُ لِابْنِہٖ وَہُوَ یَعِظُہٗ یٰبُنَیَّ لَا تُشْرِکْ بِاللہِ ط اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ(۱۳) ........ یٰـبُنَیَّ اِنَّہَآ اِنْ تَکُ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَکُنْ فِیْ صَخْرَۃٍ اَوْ فِی السَّمٰوٰتِ اَوْ فِی الْاَرْضِ یَاْتِ بِہَا اللہُ ط اِنَّ اللہَ لَطِیْفٌ خَبِیْرٌ(۱۶) یٰبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ وَاْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاصْبِرْ عَلٰی مَـآ اَصَابَکَ ط اِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ(۱۷) وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًاط اِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ(۱۸) وَاقْصِدْ فِیْ مَشْیِکَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِکَ ط  اِنَّ اَنْکَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیْرِ(۱۹)} (لقمٰن)
’’ْذرا یاد کرو جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا:پیارے بیٹے ! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنانا‘ کیونکہ شرک بہت بڑا ظلم ہے......اے میرے بیٹے!اگر (تیرا عمل) رائی کے دانے کے برابر بھی ہو‘وہ خواہ کسی چٹان میں ہو یا آسمانوں میں ہو یا زمین میں‘ اللہ اسے نکال لائے گا۔ اللہ یقیناً باریک بین اور باخبر ہے۔پیارے بیٹے ! نماز قائم کر‘نیکی کا حکم کر اور برے کام سے منع کر‘ اور اگر تجھے کوئی تکلیف پہنچے تو اس پر صبر کر۔ بلاشبہ یہ سب باتیں بڑی ہمت کے کام ہیں۔اور (ازراہِ تکبر)لوگوں سے اپنے گال نہ پھلا اور نہ زمین پر اکڑ کے چل(کیونکہ) اللہ کسی خود پسند اور شیخی خورے کو پسند نہیں کرتا۔اور اپنی چال میں اعتدال کو ملحوظ رکھو‘اور اپنی آواز پست کرو‘بلا شبہ سب آوازوں سے بری آواز گدھے کی آواز ہے۔‘‘
یہ ایک باپ کا اپنے بیٹے کے لیے وعظ و نصیحت اور علم و حکمت کو وہ خزانہ ہے جس پر عمل پیرا ہو کر نہ صرف اولاد دنیا اور آخرت کی تمام بھلائیوں سے فیض یاب ہوسکتی ہے بلکہ اللہ کی رضا اور اس کی خوشنودی بھی حاصل کر سکتی ہے ۔ ایسی نیک اور صالح اولاد اپنے ماں باپ کے لیے اس دنیا میں آنکھوں کی ٹھنڈک اور آخرت میں ان کی مغفرت اور نجات کا ذ ریعہ بن سکتی ہے۔قرآن حکیم میں اسی حوالے سے دعا بتائی گئی ہے: ارشاد ہوا:
{وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا(۷۴)} (الفرقان)
’’اور جو (اللہ سے) دعا مانگتے ہیں کہ: اے ہمارے رب! ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے (دل کا چین) اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا امام بنا۔‘‘
رسولِ مکرم ﷺ نے تربیت ِاولاد کے بنیادی اصول بتائے کہ:
((مُرُوا أوْلادَكُمْ بِالصَّلاةِ وَهُمْ أبْناءُ سَبْعِ سِنِينَ، وَاضْرِبُوهُم عَليها وَهُمْ أبْناءُ عَشْرٍ ، وَفَرِّقُوا بَينهُم فِی المَضاجِعِ)) (سنن أبي داود: ۴۹۵)
’’ جب تمہارے بچے سات سال کی عمر کو پہنچ جائیں تو انہیں نماز کی تلقین کرو ‘اور دس سال کی عمر کے بچوں میں اس حوالے سے سستی دیکھو تو انہیں سرزنش کرو‘ اور ان کے بستر الگ کر دو۔‘‘
اسلام دین فطرت ہے۔ جب وہ کسی برائی کو روکنا چاہتا ہے تو اس طرف جانے والے راستوں پر قدغنیں لگا دیتا ہے۔ زنا جیسے کبیرہ گناہ سے بچنے کے لیے پردے کا حکم ‘ مخلوط محفلوں میں شرکت پر پابندی‘فحاشی اور عریانی کی مذمت کی گئی۔اسی طرح بچے کے رحم ِمادر میںآنے سے پہلے ہی اس کی شخصیت کو ایک صالح انسان بننے کا سبب بھی پیدا فرمادیا گیا۔رسول مکرمﷺ نے فرمایا:
((إذا أتَى أحَدُكُم أهْلَهُ فَلْيَقُلْ: اَللّٰهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطانَ وَجَنِّبِ الشَّيْطانَ ما رَزَقْتَنا (متفق علیہ)
’’ جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی کے پاس جانے کا ارادہ کرے تو یہ دعا کرے کہ : اے اللہ! ہم دونوں کوشیطان (کے شر) سے محفوظ رکھنا اور ہماری اس اولاد سے بھی شیطان کو دور رکھنا جو تو ہمیں عطا فرمائے۔‘‘
امام غزالی رحمہ اللہ اپنے رسالے ’’ أیُّھَا الوَلَد‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’تربیت کا مفہوم ا س کاشت کار کے کام سے مشابہت رکھتا ہے جو زمین سے کانٹے نکالتاہے اور کھیت میں سے ناموزوں گھاس وغیرہ اکھاڑڈالتا ہے تاکہ اس کی پیداوار اچھی ہو اور مکمل طور پر ہو۔‘‘
ایک بار سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرب کے مشہور سردار احنف بن قیس کو اپنے پاس بلوایا اور ان سے دریافت کیا:’’ابو بحر! اولاد کے ساتھ سلوک کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ احنف بن قیس نے کہا: ’’ اولاد ہماری دلی آرزؤں کا ثمرہ اور کمر کی ٹیک ہے۔ہم اِس کے لیے اس زمین کی طرح ہیں جو نہایت ہی نرم اور با لکل بے ضرر ہے۔ ہمارا وجود اولاد کے لیے اُس آسمان کی طرح ہے جو اس پر سایہ کیے ہوئے ہے ۔ ہم اسی کے سہارے بڑے بڑے کارنامے انجام دینے کی ہمت کرتے ہیں۔لہٰذا اولاد اگر آپ سے کوئی مطالبہ کرے تو خوش دلی کے ساتھ اسے پورا کیجیے۔اگر وہ غمزدہ ہو تو اس کے دل کا غم دور کیجیے۔آپ دیکھیں گے کہ وہ آپ سے محبت کرے گی ‘آپ کی پدرانہ کوشش کو پسند کرے گی۔آپ کبھی اس کے لیے ناگوار اور ناقابل برداشت بوجھ نہ بنیے کہ وہ آپ کی زندگی سے اکتا جائے‘آپ کی موت چاہنے لگے اور آپ کے قریب آنے سے نفرت کرنے لگے۔‘‘
اپنی اولاد کو پاکیزہ خیا لات‘ تعمیری عادات و اطوار‘ مثبت عقائد و افکار اور صالح سیرت سے آراستہ کرنا ایک مسلمان باپ کی ذمہ داری ہے۔اگرچہ ماں کی گود کو اولاد کے لیے پہلا مدرسہ قرار دیا گیا ہے‘ مگر بعض معاملات میں ماں مجبور و بے بس ہوجاتی ہے۔زندگی کے اکثر معاملات میں حتمی اور آخری فیصلہ مَردوں ہی کا ہوتا ہے۔بعض گھرانوں میں ماں بچے کو کسی رنگ میں ڈھالنا چاہتی ہے جبکہ باپ اسے کسی اور ہی روپ میں دیکھنا چاہتا ہے۔اس طرزِ عمل کا ایک تشویش ناک نتیجہ یہ بھی نکلتاہے کہ بچے احساسِ کمتری میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔شک‘ تذبذب اور تردّد ان کے مزاج کا حصّہ بن جاتا ہے۔وہ لوگوں کے ہجوم میں رہ کر بھی خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں۔
بچہ ماں باپ کے پاس ایک امانت ہے۔ اس کا سادہ و صاف دل ہر نقش کو قبول کرتا ہے۔ اگر اسے نیکی کی عادت ڈالی جائے تو اس کی نشوو نما اس پر ہوگی جبکہ اگر اسے برا ئی کی عادت ڈال دی جائے تو وہ اسی میں بڑھتا چلا جائے گا۔ایک سمجھ دار باپ کا یہ اہم فریضہ ہے کہ وہ اپنی اولاد کو بری گفتگو‘ بری لو گوں کی مجلس سے دور رکھے‘کیونکہ صحبت اپنا اثر ضرور دکھاتی ہے۔ اچھی صحبت‘ پاکیزہ ماحول اور دین داری کا راستہ بچے کی ذہنی نشوو نما کا ضامن ہوتا ہےجبکہ برے صحبت اس کے کردار و عمل اور آئندہ زندگی کو گمراہی کی دلدل میں پھنسا دیتی ہے۔حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے باپ کی ذمہ داری کو بڑے پُر زور اور تاکیدی انداز میں بیان فرمایا ہے:
’’اہل علم کہتے ہیں کہ قیامت کے روز والد سے اس کی اولاد کے متعلق باز پرس ہوگی‘ کیونکہ جس طرح باپ کا اپنے بیٹے پر حق ہے اسی طرح بیٹے کا باپ پر حق ہے۔‘‘
نبی رحمت ﷺ کا ارشاد ہے:
((ما مِن مَوْلُودٍ إلَّا يُولَدُ علَى الفِطْرَةِ، فأبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ، أوْ يُنَصِّرَانِهِ، أوْ يُمَجِّسَانِهِ)) (متفق علیہ)
’’ ہر بچہ فطرتِ سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے‘پھر اس کے والدین اسے یہودی‘ نصرانی اور مجوسی بنا دیتے ہیں۔‘‘
گویا ہر بچہ پیدائشی طور پر مسلمان ہوتا ہے ۔پھر اس کے والدین اس کی شخصیت کی تشکیل و تعمیر کرتے ہیں اور وہ جس رنگ میں چاہیں اسے ڈھال دیتے ہیں ۔
ہماری قوم کا المیہ یہ ہے کہ والدین کا بچوں کی عصری تعلیم پر جتنا زور ہوتا ہے اور اس معاملے میں وہ جتنی حساسیت کا مظاہرہ کرتے ہیں‘ اس کا چوتھائی حصہ بھی بچوں کی بہتر تربیت پر نہیں ہوتا۔اعلیٰ تعلیم دلانے کے پیچھے یہ مقصد کار فرما ہوتاہے کہ اولاد کو بہترین ملازمت ملے اور اس کا معیار ِ زندگی جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوجائے۔ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانا کوئی معیوب بات نہیں‘ لیکن مقصد محض دنیا اور اس کی لذتوں کا حصول نہ ہو۔یہ دنیا اور اس کے تمام وسائل زندگی گزارنے کے ذرائع ہیں جو قدرت نے ہمیں عطا کیے ہیں‘ لیکن ان ہی میں دل لگا کر بیٹھ جانا کسی طرح مناسب نہیں ہے۔ بقول اکبر الٰہ آبادی:؎
دُنیا میں ہوں‘ دُنیا کا طلب گار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوں‘ خریدار نہیں ہوں!
تربیت ِاولاد میں باپ کاکردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ جب تک وہ اپنی اولاد کی قرآن و سُنّت کی تعلیمات کے مطابق تربیت نہیں کرے گا‘ اس کا بچہ نہ اچھا باپ بن سکتا ہے‘ نہ اچھا بھائی‘ نہ اچھا بیٹا اور نہ اچھا شوہر۔اسی طرح کوئی عورت کسی بھی روپ میں ہو‘ وہ نیکی کے راستے پر نہیں چل سکتی جب تک ہدایت کی روشنی اس کی زندگی میں نہ آجائے۔دولت‘ تعلیم‘ طاقت‘ ذہانت‘ علمی اور فنی صلاحیت کچھ بھی نعمت نہیں کہلا سکتی جب تک اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ہدایت تامہ اسے حاصل نہ ہو۔خالق کائنات کی ہدایت اور رہنمائی انسان کے ساتھ نہ ہو تو بسا اوقات بڑے سے بڑا علم اس کی بدبختی اور خسارے کا موجب بن جاتا ہے۔ جب محض دنیا ہی پیش نظر ہو اور اللہ کا دین نظروںسے اوجھل رہے تو انسان کی دنیوی کامیابی بھی اس کے لیے آخرت میں وبالِ جان بن جائے گی۔
ہمارے معاشرے میں اکثریت ایسے والدین کی ہے جو سوچتے ہیں کہ دنیا میں وہ خود جن آسائشوں‘ مادی لذتوں اور اکل و شرب کی حلاوتوں سے محروم رہے‘ ان کا بچہ ان چیزوں سے تہی دست نہ رہ جائے۔اس دیرینہ خواہش کی تکمیل میں بعض اوقات ان سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں بھی سر زد ہوتی ہیں۔ شیطان دنیا کی لذتوں کو انسان کی نظروں میں مزین کر کے دکھا تا ہے۔یوں انسان اس فانی دنیا کی بھول بھلیوں ہی میں بھٹکتا رہتا ہے۔ والدین کی سعادت اور نیک بختی یہ ہے کہ وہ اولاد کی مثالی تربیت کریں۔نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے :
((أَكْرِمُوا أَوْلَادَكُمْ وَ أَحْسِنُوا أَدَبَهُمْ)) (سنن ابن ماجہ:۳۶۴۱)
’’ اپنی اولاد کو عزت دو اور ان کی اچھی تربیت کرو۔‘‘
مولانا حفظ الرحمٰن سیو ہاروی اپنی تصنیف ’’ اخلاق اور فلسفہ اخلاق‘‘ میں رقم طراز ہیں:
’’ وہ باپ یقینا ًخطا کار ہے جو پہلے ہی یہ طے کر لے کہ میرا بیٹا عنقریب طبیب یا مہندس یا قاضی بنے گااور پھر اس کو مقرر کردہ محدود راہ پر چلنے کے لیے مجبور کرے۔اس لیے کہ بسااوقات اُس میں طب‘ ہندسہ یا قانون کی استعداد نہیں ہوتی۔مگر وہ باپ صواب پر ہے جو اپنے بیٹے کے لیے یہ طے کر لے کہ وہ اس کو امین‘ شجاع اور صاحبِ فضل بنائے گا۔اس لیے کہ وہ ابھی لڑکا ہے اور اس میں کسی نہ کسی حد تک ان اخلاقِ فاضلہ کی استعداد موجود ہے۔ صحیح تربیت کے ذریعے سے نفسیات مبادیات اور ان کے قوانین کی معرفت و تعلیم پر انسان کی قدرت ہوسکتی ہے۔‘‘
اسلام اوائل عمری ہی سے بچوں کو اسلامی امور سکھانے کی تاکید کرتا ہے تاکہ جب وہ باشعور ہوجائیں تو ان کے دل میں خوفِ خدا پیدا ہو چکا ہو ۔ اپنے معبودِ حقیقی کی عبادت‘ اپنے رسول ﷺ کی اطاعت کا ذوق وشوق اپنے دل میں رکھتے ہوں۔باپ اگر اپنے بچے کی تربیت اسلامی خطوط پر کرتا ہے تو بچے کے اندر اللہ کی خشیت اور اطاعت کا جذبہ پید ا ہوجاتا ہے اور وہ صالح زندگی سے ہمکنار ہوجاتا ہے ۔ باپ کی یہ نیکی اجر و ثواب کے لحاظ سے دائمی نیکی بن جاتی ہے۔رسول مکرم ﷺ نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:
((إِذَا مَاتَ الإنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ: إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ))(صحیح مسلم: ۱۶۳۱)
’’ جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے‘ مگر اس کے تین عمل باقی رہتے ہیں:ایک صدقۂ جاریہ‘ دوم وہ علم جس سے استفادہ کیا جارہا ہو اور سوم وہ نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی ہو۔‘‘
مذکورہ قرآنی آیات اور فرموداتِ رسول ﷺ کی روشنی میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ بچے کی بہترین تربیت کرنےکی تمام تر ذمہ داری والدین پر ہے ‘ خاص طور پر اس فکری اور عملی جدوجہد میں باپ کا کردا رانتہائی اہمیت کا حامل ہے۔باپ خاندان کاسربراہ ہے۔ انسانی معاملات میں اس کا فیصلہ حتمی مانا جاتا ہے‘ کہیں زور زبردستی سے‘ کہیں رضا مندی سے تو کبھی مصلحتاً ! اس لیے دیکھا جائے گا کہ اس نے اپنی اولاد کو دنیا سمیٹنے کے داؤ پیچ سکھائے یا اس کے اندر دین داری اورخشیت الٰہی کے لیے بھی کوئی سعی و جہد کی۔
ارشاد ربّ العزت ہے:
{فَاِذَا جَآءَتِ الصَّآخَّۃُ (۳۳) یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْئُ مِنْ اَخِیْہِ(۳۴) وَاُمِّہٖ وَاَبِیْہِ(۳۵)وَصَاحِبَتِہٖ وَبَنِیْہِ(۳۶) لِکُلِّ امْرِیٍٔ مِّنْہُمْ یَوْمَئِذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْہِ(۳۷) } (عبس)
’’ تو جب کان بہرے کر دینے والی(قیامت ) آجائے گی‘ اس دن آدمی اپنے بھائی سے دور بھاگے گا اور اپنی ماں اور اپنے باپ سے‘اور اپنی بیوی اور بیٹے سے۔ان میں سے ہر شخص کو اُس روز ایک ہی فکر لاحق ہو گی جو اُسے (ہر ایک سے) بے پروا کر دے گی۔‘‘
فاعتبروا یا أولی الأبصار!