(حسن معاشرت) گھر:ہماری دعوت کا اوّلین میدان - مرکزی شعبۂ تربیت تنظیم اسلامی

10 /

گھر:ہماری دعوت کا اوّلین میدانشعبہ تعلیم وتربیت

گھر انسانی معاشرہ کی بنیادی اکائی ہے۔ بہت سے گھر مل کر ایک محلہ بناتے ہیں۔ پھر بہت سے محلے مل کر گاؤں اور قصبہ کی بنیاد رکھتے ہیں۔ اسی طرح شہر ‘ملک اور خطے وجود میں آتے ہیں ۔چنانچہ اگر ہر گھر درست ہوجائے تو معاشرہ درست ہوسکتا ہے۔
دنیا میں انسان کے لیے سب سے زیادہ سکون کی جگہ گھر ہی ہوتا ہے۔یہاں ایک ساتھ رہنے والے لوگ ایک دوسرے کے لیے قرب اور محبت رکھتے ہیں۔ والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد کا مستقبل سنور جائے‘انہیں اپنی آئندہ زندگی میں کوئی تکلیف نہ ہو ۔ تقریباً تمام والدین ہی اپنی سمجھ اور ترجیحات کے مطابق اپنے گھر کی اصلاح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ کے نزدیک سماجی رویے بہت اہم ہوتے ہیں۔ جن لوگوں کے نزدیک مال و دولت کی اہمیت ہوتی ہے ‘ وہ اپنی اولاد کو مال کمانے کے گُر سکھا تے ہیں۔ مقتدر طبقات کے لوگ اپنی اولاد کو حکمرانی کے طور طریق اور سیاست سکھاتے ہیں۔ تاہم عام لوگوں کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ ان کی اولاد تعلیم حاصل کرے‘ پڑھ لکھ کر ایک اچھی نوکری یا اعلیٰ کاروبار کرے۔مادّی طور پر سبھی والدین اپنی اولاد کی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اپنی اولاد کو اچھا کھلائیں‘ اچھا پہنائیں اور اچھی جگہ ان کی شادی کریں۔
سربراہِ خاندان کی اس سے بڑھ کر بھی ایک بہت اہم ذمہ داری ہے جس کی طرف عموماً توجہ نہیں دی جاتی ۔ وہ ہے اپنے اہل و عیال کی آخرت کی کامیابی اور فوز وفلاح کی فکر کرنا تاکہ وہ جنت میں اعلیٰ مقام حاصل کر سکیں اور جہنم کے ابدی عذاب سے بچ جائیں۔ سورۃ التحریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
{یٰٓــاَیـُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ عَلَیْھَا مَلٰٓئِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللہَ مَآ اَمَرَھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ(۶)}
’’اے اہلِ ایمان! بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے جس کا ایندھن بنیں گے انسان اور پتھر‘ اس پر بڑے تند خو‘ بہت سخت دل فرشتے مامور ہیں‘اللہ ان کو جو حکم دے گا وہ (فرشتے) اس کی نافرمانی نہیں کریں گے اور وہ وہی کریں گے جس کا انہیں حکم دیا جائے گا۔‘‘
اس آیت کی تشریح میں بانیٔ محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ فرماتے ہیں:
’’آیت زیر مطالعہ میں اہلِ ایمان کوا ن کے اہل وعیال کے بارے میں خبردار کیا جارہا ہے کہ بحیثیت شوہر اپنی بیویوں کو اور بحیثیت باپ اپنی اولاد کو دین کے راستے پر ڈالنا تمہاری ذمہ داری ہے۔ یہ مت سمجھو کہ ان کے حوالہ سے تمہاری ذمہ داری صرف ضروریاتِ زندگی فراہم کرنے کی حد تک ہے‘ بلکہ ایک مومن کی حیثیت سے اپنے اہل و عیال کے حوالہ سے تمہارا پہلا فرض یہ ہے کہ تم انہیں جہنم کی آگ سے بچانے کی فکر کرو۔ اس کے لیے ہر وہ طریقہ اختیار کر نے کی کوشش کرو جس سے ان کے قلوب و اذہان میں دین کی سمجھ بوجھ‘ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اور آخرت کی فکر پیدا ہوجائے تاکہ تمہارے ساتھ ساتھ وہ بھی اس جہنم کی آ گ سے بچ جائیں۔ اور یہ بھی یاد رکھو کہ جہنم پر مامور فرشتے مجرموں کو جہنم میں جلتا دیکھ کر ان پر رحم نہیں کھائیں گے اور نہ ہی ان کے نالہ و شیون سے متاثر ہوں گے۔ تو کیا ہم ناز ونعم میں پلے اپنے لاڈلوں کو جہنم کا ایندھن بننے کے لیے ان سخت دل فرشتوں کے سپرد کرنا چاہتے ہیں؟ ہم میں سے ہر ایک کو اس زاویہ سے اپنی ترجیحات کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم اپنے اہل و عیال کو جنت کی طرف لے جا رہے ہیں یا جہنم کا راستہ دکھا رہے ہیں؟
اپنے بہترین وسائل خرچ کر کے اپنی اولاد کو جو تعلیم ہم دلوارہے ہیں ‘ کیا وہ ان کو دین کی طرف راغب کرنے والی ہے یا ان کے دلوں میں بغاوت کے بیج بونے والی ہے؟ اگر تو ہم اپنے اہل و عیال کو اچھے مسلمان بنانے کی کوشش نہیں کر رہے اور ان کے لیے ایسی تعلیم و تربیت کا اہتمام نہیں کر رہے جو انہیں دین کی طرف راغب کرنے اور فکر آخرت سے آشنا کرنے کا باعث بنے تو ہمیں جان لینا چاہیے کہ ہم محبت کے نام پر ان سے عداوت کر رہے ہیں۔‘‘ ( بیان القرآن‘ جلد چہارم ‘صفحہ۵۰۸)
آئیے احادیث نبویہ ﷺ کی روشنی میں جائزہ لیتے ہیں کہ بچوں کی تعلیم و تربیت کی کیا اہمیت ہے اور اس کے لیے کیا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’ اپنے بچوں کی زبان سے سب سے پہلے لَا إلٰهَ إلَّا اللّٰه کہلواؤ اور موت کے وقت ان کو اسی کلمہ لَا إلٰهَ إلَّا اللّٰه کی تلقین کرو۔‘‘ (شعب الایمان للبیہقی)
انسانی ذہن کے بارے میں جدید تجربات اور تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ پیدائش ہی کے وقت سےبچے کے ذہن میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ جو آوازیں وہ کان سےسنے اور آنکھوں سے جو کچھ دیکھے‘ اس سے اثرلے۔ یہی وجہ سے کہ حضور اکرم ﷺ نے بچے کی پیدائش کے فوراً بعد اس کے دائیں کان میں اذان کہنے کی تلقین فرمائی۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
((مُرُوا أولادَكُم بِالصَّلاةِ وهُم أبناءُ سَبْعِ سِنِينَ، وَاضْرِبُوهُم عَليهَا وَهُمْ أبْنَاءُ عَشْرٍ ، وَفَرِّقُوا بَينَهِم في المَضَاجِعِ)) (سنن أبي داود)
’’ تمہارے بچے جب سات سال کے ہوجائیں تو ان کو نماز کی تلقین کرو۔ اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو نماز میں کوتاہی پر ان کو سزا دو اور ان کے بستر بھی الگ کردو۔‘‘
بچے سات سال کی عمر میں سمجھ دار اور باشعور ہوجاتے ہیں۔ اس عمر میں ان کو خدا پرستی کے راستے پر ڈالناچاہیے اور اس کے لیے ان سے نماز کی پابندی کرانی چاہیے۔ دس سال کی عمر میں ان کا شعورکافی ترقی کرجاتا ہے اور ان کے بلوغ کا زمانہ بھی قریب آجاتا ہے۔ اس وقت نماز کے بارے میں ان پر سختی کرنی چاہیے اور اگر وہ کوتاہی کریں تو مناسب طور پر ان کی سرزنش بھی کرنی چاہیے۔
انبیاء کرام علیہم السلام نے بھی دعوت و تبلیغ کے لیے یہی طریقِ کار اختیار کیا ۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے سب سے پہلے اپنے والد آزر کو دین کی دعوت دی‘ جس کا تذکرہ سورۃ مریم میں موجود ہے۔
{اِذْ قَالَ لِاَبِیْہِ یٰٓاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ وَلَا یُبْصِرُ وَلَا یُغْنِیْ عَنْکَ شَیْئًا(۴۲) یٰٓــاَبَتِ اِنِّیْ قَدْ جَآئَ نِیْ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ یَاْتِکَ فَاتَّبِعْنِیْٓ اَہْدِکَ صِرَاطًا سَوِیًّا(۴۳) یٰٓــاَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّیْطٰنَ ط اِنَّ الشَّیْطٰنَ کَانَ لِلرَّحْمٰنِ عَصِیًّا(۴۴) یٰٓاَبَتِ اِنِّیْٓ اَخَافُ اَنْ یَّمَسَّکَ عَذَابٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ فَتَـکُوْنَ لِلشَّیْطٰنِ وَلِیًّا(۴۵)}
’’یاد کیجیے جب ابراہیم نے اپنے والد سے کہا: ابا جان! آپ کیوں بندگی کرتے ہیں ایسی چیزوں کی جو نہ سن سکتی ہیں اور نہ دیکھ سکتی ہیں اور نہ ہی آپ کے کچھ کام آ سکتی ہیں۔ ابا جان! یقیناً میرے پاس وہ علم آیا ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا‘ پس آپ میری پیروی کیجیے‘ مَیں آپ کو دکھائوں گا سیدھاراستہ۔ ابا جان! آپ شیطان کی بندگی نہ کیجیے‘ شیطان یقیناً رحمٰن کا نا فرمان تھا۔ اباجان! مجھے اندیشہ ہے کہ رحمٰن کی طرف سے کوئی عذاب آپ کو آ پکڑ ے اور پھر آپ شیطان ہی کے ساتھی بن کر رہ جائیں۔‘‘
’’ يٰٓاَبَتِ‘‘ کی تکرارسے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام انتہائی محبت اور دل سوزی کے ساتھ باپ کو سمجھا رہے ہیں کہ آپ شیطان کی بندگی مت کیجیے اور میری پیروی کیجیے‘ میں آپ کو سیدھا راستہ دکھاؤں گا۔ آخرت کے برے انجام سے بھی خبردار کرتے ہیں۔ اپنے والد اور اولاد کے لیے اللہ تعالیٰ سے نماز کا عادی بنانے‘ باالفاظ دیگر سیدھے راستہ پر چلانے کی دعا کرتے ہیں۔ اپنے والدین کے لیے استغفار کی دعا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ تمام باتیں ہماری رہنمائی کے لیے درج کی ہیں کہ اپنے اہل و عیال ‘ والدین سے محبت کا اولین تقاضا یہ ہے کہ انہیں سیدھے راستے پر چلانےکی کوشش کی جائے اور ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعا کی جائے۔
نبی اکرم ﷺ کی دعوت میں بھی ہمیں یہی انداز نظر آتا ہے ۔ سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں آپ ﷺ کی اہلیہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ‘ غلام حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ‘ چچازاد بھائی حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور جگری دوست حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ شامل ہیں۔
اہل ِخانہ کی تربیت بہت شفقت اور ہمدردی کے ساتھ کرنی چاہیے۔ کبھی کبھی تا دیب کے لیے سختی بھی ضروری ہوتی ہے‘ مگر اس سختی کا استعمال بھی حکمت کے ساتھ ہونا چاہیے ۔ حد سے زیادہ مارپیٹ کے نتائج الٹ نکلتے ہیں کہ بچے تعلیم ہی سے متنفر ہوجاتے ہیں۔ اس ضمن میں اردو کی یہ ضرب المثل ذہن میں رہنی چاہیے کہ:’’کھلائے سونے کا نوالہ‘ دیکھے شیر کی نظر۔‘‘
اہل و عیال کی محبت حدِّ اعتدال سے تجاوز نہ کرنے پائے۔ سورۃ التغابن میں ارشادِ ربانی ہے:
{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِكُمْ وَ اَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوْهُمْ ۚ وَ اِنْ تَعْفُوْا وَ تَصْفَحُوْا وَ تَغْفِرُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (۱۴)}
’’اے ایمان کے دعوے دارو! تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں ‘سو ان سے بچ کر رہو۔ اور اگر تم معاف کر دیا کرو اور چشم پوشی سے کام لو اور بخش دیا کرو تو اللہ بہت بخشنے والا ‘نہایت مہربان ہے۔‘‘
آج ہمارےمعاشرے کے روایتی مسلمانوں کو تو بیوی ‘ بچوں کی دشمنی والی بات سمجھ میں ہی نہیں آئے گی۔ البتہ اگر کوئی بندۂ مومن اللہ تعالیٰ کی توفیق سے کسی انقلابی تحریک کے کارکن کی حیثیت سے اقامت ِ دین کی جدّوجُہد میں مصروف ہو تو اس پر یہ حقیقت بہت جلد واضح ہوجاتی ہے کہ اس راستے میں بیوی بچوں کی محبت کس طرح پاؤں کی زنجیر بن جاتی ہے۔ بیوی کی بے جا فرمائشیں‘ بچوں کی حد سے بڑھی ہوئی ضروریات‘ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ان کی تعلیم کے اخراجات اگر حلال کی کمائی سے پورے نہیں ہوں گی تو انسان کیا کرے گا۔ یا تو حرام میں منہ مارے گا یا ڈالرکمانے ملک سے باہر جائے گا۔ دونوں صورتوں میں بچوں کی اسلامی خطوط پر تربیت نہ ہو سکے گی اور ان کی آخرت بر باد ہو کر رہ جائے گی۔
یہ معاملہ چونکہ بہت نازک اور حساس ہے‘ اس لیے اگلے جملے میں یہ تلقین کی جارہی ہے کہ اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے اپنے اہل و عیال کے معاملات کو نرمی اور حکمت سے نمٹاؤ۔ ایسا نہ ہو کہ صبح و شام تمہارا گھر میدانِ جنگ کا نقشہ پیش کرنے لگے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے‘ انہوں نے کہا کہ میں نے نبی اکرمﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
((كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْؤُوْلٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ)) (متفق علیہ)
’’تم میں سے ہر آدمی نگہبان ہے اور ہر آدمی اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے۔‘‘
اس حدیث مبارکہ کے مطابق ہم اپنے اہل خانہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے ہاں جواب دہ ہیں کہ ان کے ضمن میں ہم نے اپنی ذمہ داری نبھائی یا نہیں ۔اسی ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے تنظیم اسلامی کے ملتزم رفقاء کے لیے یہ لازم کیا گیا ہے کہ وہ اپنے اہل وعیال اور اپنے زیر ِ کفالت افراد کی تربیت کے لیے ایک ’’گھریلو اُسرہ‘‘ کا قیام عمل میں لائیں۔ مبتدی رفقاء اور احباب کوچاہیے کہ وہ بھی اپنے اہل خانہ کی تربیت کے لیے ’’گھریلواُسرہ‘‘ ضرور قائم کریں۔ سربراہِ خاندان خود اس اسرہ کا منتظم ہو اور خاتونِ خانہ اس کام میں شوہر کی معاونت کریں۔ بہتر ہوگا کہ یہ مجلس ہفتہ وار منعقد کی جائے اور اس کا دورانیہ کم از کم ایک گھنٹہ ہو۔
اسرہ کا نصاب ذیل میں تجویز کیا جارہا ہے ‘جس کی ذمہ داری گھرانہ کے مختلف افراد مل جل کر نبھائیں:
۱) تلاوت اور ترجمہ قرآن
۲) آداب زندگی ( محمد یوسف اصلاحی) سے بنیادی اخلاقیا ت کا مطالعہ
۳) سیرۃ النبی ﷺ ( ترجیحاً الرحیق المختوم) کا سلسلہ وار مطالعہ
۴) سیرتِ صحابہ / صحابیات رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا مطالعہ
۵) مشہور دینی شخصیات کے دل افروز واقعات
عمر کے مختلف ادوار میں تعلیم و تربیت کا انداز تبدیل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ دس سال کی عمر تک پیار محبت سے ‘ اس کے بعد ہلکی پھلکی سختی اور پھر جوانی کے دور میں صرف دلائل اور محبت کے ساتھ بات سمجھانی چاہیے۔
دورِ حاضرمیں سکول ‘ کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم نہ صرف سیکولر ہے بلکہ دین سے دور کرنے والی بھی ہے۔یہ ایمان میں شکوک پیدا کرتی ہے۔ اس کائنات کے علم کو ہی اصل علم قرار دیتی ہے۔ طبیعیات کے قوانین کو حتمی قرار دیتی ہے۔ تعلیم کا پورا زور جسم‘ کائنات اور حیات دنیوی کی طرف ہے۔ اللہ ‘ روح اور حیاتِ اُخروی کی طرف بالکل توجہ نہیں۔ ان حالات میں تو اب ہماری ذمہ داری اور زیادہ بڑھ گئی ہے کہ گھر پر بچوں کی دینی تعلیم کا بندوبست کریں اور مروّجہ تعلیمی اداروں کی پھیلائی ہوئی گمراہی اور مغالطوں کو دور کرنے کی فکر کریں۔ اس کے ساتھ خود بھی دین کو قائم کرنے کی جدّوجُہد میں حصہ لیں اور اس میں اپنے اہل و عیال کو بھی شریک کریں‘ تاکہ غلبہ ٔ دین کی راہ ہموار ہو سکے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے اہل و عیال کی تربیت کے ضمن میں ہماری مدد فرمائے۔ ہمارے والدین اورہمارے اہل و عیال سمیت تمام مومنین کی مغفرت فرمائے ۔ آمین یا ربّ العالمین!