(انوار ھدایت) انفاق فی سبیل اللہ - پروفیسر محمد یونس جنجوعہ

10 /

انفاق فی سبیل اللہ کی اہمیت اور فضیلتپروفیسر محمد یونس جنجوعہ

اللہ تعالیٰ کائنات کانہ صرف خالق ہےبلکہ مخلوق کے ہر فرد کا رازق بھی ہے۔ کائنات میں مخلوق کی لاتعداد انواع ہیں۔ انسان ایک باشعور مخلوق ہے۔ہم اگرچہ خود محنت کر کے خود روزی کماتے ہیں تاہم اس سلسلہ میں یہ پابندی عائدکی گئی ہے کہ ہم جائز طریقے اور ذریعے استعمال میں لائیں۔ روزی رساں اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ وہ جس کو چاہتا ہے روزی وافر دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے تھوڑی مقدار میں دیتا ہے۔
دوسرے حیوانات کے برعکس‘ انسان مرنے کے بعد غیر مسئول نہیں۔ اس سے پوچھا جائے گا کہ اُس نے خالق کی ہدایات کے مطابق محنت کر کے روزی کمائی یااس مقصد کے لیے ناجائز ذرائع استعمال کیے۔یہ بھی پوچھا جائے گا کہ جو روزی اس نے کمائی‘ اسے جائز کاموں  میں خرچ کیا یا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے کاموں میں ضائع کیا۔اللہ تعالیٰ نے ہر مسلمان پر لازم کیا ہے کہ وہ اپنی کمائی میں سے غریب‘ محتاج اور فقیر لوگوں کی مدد کرے۔ اس سلسلہ میں زکوٰۃ کا ادا کرنا تو فرض کیا گیا ہے ‘ تاہم اس کے علاوہ بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ مسلمانوں کو مال جمع کرنے سے روکا گیا ہے تاکہ دولت صرف اہل ثروت کے درمیان ہی گردش میں نہ رہے۔فرمانِ الٰہی ہے : {وَفِیْٓ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ(۱۹)} (الذّٰریٰت) یعنی مال داروں کے اموال میں غریبوں کا حق ہے خواہ وہ مانگتے ہیں یا نہیں مانگتے۔ اس طرح سے خرچ کیے گئے مال کواللہ تعالیٰ اپنے ذمہ قرض گردانتا ہے جس کے بدلے میں آخرت میں  اجر عظیم ملے گا ۔
نماز کی طرح زکوٰۃبھی ارکانِ اسلام میں سے ہے‘ جو ہر صاحب ِنصاب پر ہر سال ادا کرنا فرض ہے۔ سال بھر میں کل جمع شدہ مال پرزکوٰۃکی شرح اڑھائی فیصدہے۔ قرآن مجید میں بار بار اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے کہ روزی زیادہ دینا یا کم دینااللہ تعالیٰ کا اختیار اور اس کی مرضی ہے ‘جس کسی کو جومال ملا ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی کا عطا کردہ ہے۔ اس مال میں سے ایک سال کے بعدچالیسواں حصہ غریب اور محتاج لوگوں میں تقسیم کر دینا کوئی مشکل نہیں۔جو کوئی اس کو بھی مشکل سمجھتاہواور ادا نہ کرتا ہواس کو سخت عذاب کی وعید ہے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
{وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلَا یُنْفِقُوْنَہَا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ لا فَبَشِّرْہُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ(۳۴) یَّوْمَ یُحْمٰی عَلَیْھَا فِیْ نَارِ جَھَنَّمَ فَتُکْوٰی بِھَا جِبَاھُہُمْ وَجُنُوْبُھُمْ وَظُھُوْرُھُمْ ۭ ھٰذَا مَا کَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ فَذُوْقُوْا مَا کُنْتُمْ تَکْنِزُوْنَ(۳۵) } (التوبۃ)
’’جو لوگ سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور اس کو اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے ان کو اُس دن کے عذابِ الیم کی خبر سنا دو۔ جس دن وہ مال دوزخ کی آگ میں خوب گرم کیاجائے گا‘پھر اس سے ان کی پیشانیاں اور پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی(اور کہا جائے گا) یہ وہی ہے جو تم نے اپنے لیے جمع کیاتھا‘سو جو تم جمع کرتے تھے (اب) اس کامزا چکھو۔‘‘
یہ تو حکم ہے زکوٰۃ کی ادائیگی کا۔ اس عذاب کا مستحق وہ شخص ہے جس نے اپنے مال کی زکوٰۃ بھی ادا نہیں کی۔ یہی مال آخرت میں اس کے لیے عذاب بن جائے گا۔اپنی وفات کے وقت وہ شخص پچھتائے گا اور کہے گا کہ کاش مجھے کچھ مہلت مل جائے تو میں اپنا مال صدقہ کر دوں ۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
{وَاَنْفِقُوْا مِنْ مَّا رَزَقْنٰــکُمْ مِّنْ قَـبْلِ اَنْ یَّــاْتِیَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ فَـیَـقُوْلَ رَبِّ لَــوْلَآ اَخَّرْتَنِیْ اِلٰٓی اَجَلٍ قَرِیْبٍ لا فَاَصَّدَّقَ وَاَکُنْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(۱۰) وَلَنْ یُّؤَخِّرَ اللہُ نَفْسًا اِذَا جَآئَ اَجَلُہَاط وَاللہُ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ(۱۱)} (المنفقون)
’’اور جو(مال)ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے اُس وقت سے پہلے خرچ کر لو کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے تو (اس وقت) وہکہنے لگے: اے میرے پروردگار! تو نے مجھے تھوڑی سی اور مہلت کیوں نہ دی تاکہ میں خیرات کر لیتا اور نیک لوگوں میں داخل ہو جاتا۔ اور جب کسی کی موت آ جاتی ہے تو اللہ اس کوہر گز مہلت نہیں دیتا ۔اور جوکچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے با خبر ہے۔‘‘
ظاہر ہے کہ جب مہلت ِ عمر ختم ہو جائے گی تو اس کو ایک لمحہ کی بھیextensionنہیں ملے گی اور اس وقت کا پچھتاوا کسی کام نہ آئے گا۔زکوٰۃ کے علاوہ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے ضرورت مندوں اورمسکینوں پر خرچ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔رسول اللہﷺ نے فرمایا: ((اِنَّ فِی الْمَالِ لَحَـقًّا سِوَی الزَّکَاۃِ)) (سنن الترمذی:۶۵۹)’’یقیناً مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی (اللہ کا)حق ہے ۔‘‘پھر آپﷺ نے سورۃ البقرۃ کی آیت۱۷۷تلاوت فرمائی‘جس میں(زکوٰۃکے علاوہ)قریبی رشتہ داروں‘ یتیموں‘ مسکینوں‘ مسافروں‘ سوالیوںاور گردن چھڑانے میں مال خرچ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔قرآن مجید میں کئی مقامات پر فرض زکوٰۃ کے علاوہ انفاقِ مال کی ترغیب ملتی ہے۔
{یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ ط قُلْ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ      ۭ وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللہَ بِہٖ عَلِیْمٌ (۲۱۵)}(البقرۃ)
’’(اے نبیﷺ!) یہ آپ سے پوچھتے ہیں کیاچیز خرچ کریں؟ کہہ دو کہ جو کچھ تم مال خرچ کروسو ماں باپ کے لیے‘ قرابت داروں‘ یتیموں‘ مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے۔‘‘
یہ خرچ کرنا زکوٰۃ کے علاوہ ہے ‘اس لیے کہ اس میں والدین پر خرچ کرنے کا ذکر ہے اور والدین کو تو زکوٰۃ دی ہی نہیں جا سکتی ۔ قرآن مجید میں یہ بھی ارشاد ہے: {وَیَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ ط قُلِ الْعَفْوَط}(البقرہ:۲۱۹) ’’ آپ ؐ سے پوچھتے ہیں کیا خرچ کریں؟ کہہ دیجیے جو بھی زائد از ضرورت ہو۔‘‘اسی لیے ہر امیر غریب کواپنی حیثیت کے مطابق صدقہ کرنا چاہیے ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپؐنے فرمایا: ’’جب آدمی اپنے گھر والوں پر ثواب اور اجر کی امید رکھ کر خرچ کرتا ہے تو یہ اس کے لیے صدقہ شمار ہوتاہے۔‘‘(متفق علیہ)
صدقہ کی ترغیب دیتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ((أَنْفِقْ یَا ابْنَ آدَمَ اُنْفِقْ عَلَیْکَ))(صحیح البخاری:۵۳۵۲)’’اے آدمؑ کے فرزند!تُو (میرے ضرورت مند بندوں پر اپنی کمائی میں سے)خرچ کر‘ مَیں (اپنے خزانہ غیب سے)تجھ کو دیتا رہوں گا۔
حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ان سے فرمایا: ’’تم اللہ کے بھروسے پر اُس کی راہ میں کشادہ دستی سے خرچ کرتی رہو اور گنو مت۔ اگر تم اُس کی راہ میں اس طرح حساب کر کے دوگی تو وہ بھی تمہیں حساب ہی سے دے گا۔ اور دولت جوڑ جوڑ کر اور بند کر کے نہ رکھو ‘ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تمہارے ساتھ یہی معاملہ کرے گا۔لہٰذاتھوڑا بہت جو ہو سکے اور جس کی توفیق ملے ‘راہ خدا میں کشادہ دستی سے دیتی رہو۔‘‘ (بخاری ومسلم)
انسان کے اندر لالچ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے ‘جس کی مذمت قرآن حکیم میں کئی مقامات پر مذکور ہے۔انسان غفلت میں اس قدر آگے نکل جاتا ہے کہ اسے اپنی موت یاد نہیں رہتی جو ایک اٹل حقیقت ہے ۔ وہ آخرت کی زندگی بھی بھول جاتا ہے‘جس پر یقین تو مسلمان کا بنیادی عقیدہ ہے ۔
{اَلْہٰىکُمُ التَّکَاثُرُ(۱) حَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ(۲) کَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ(۳) ثُمَّ کَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ(۴) کَلَّا لَوْ تَعْلَمُوْنَ عِلْمَ الْیَقِیْنِ(۵) لَـتَرَوُنَّ الْجَحِیْمَ(۶) ثُمَّ لَـتَرَوُنَّـہَا عَیْنَ الْیَقِیْنِ(۷) ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ(۸)} (التکاثر)
’’لوگو! تم کو مال کی بہت سی طلب نے غافل کردیا‘ یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں۔ دیکھو عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا۔ پھر دیکھو عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا۔ دیکھو اگر تم جانتے یعنی علم الیقین رکھتے (توغفلت نہ کرتے) ۔ تم ضرور دوزخ دیکھو گے۔ پھر اس کو ایسا دیکھو گے کہ عین الیقین آجائے گا۔ پھر اس روز تم سے (شکر) نعمت کے بارے میں پرسش ہو گی۔‘‘
رضائے الٰہی کے لیے جو رقم خرچ کی جائے گی‘ اللہ تعالیٰ اسے اپنے ذمہ قرض شمار کرتا ہے۔وہ اس کو بڑھا چڑھا کر واپس دے گا اور گناہوں کو بخش دے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{اِنْ تُقْرِضُوا اللہَ قَرْضًا حَسَنًا یُّضٰعِفْہُ لَـکُمْ وَیَغْفِرْ لَـکُمْ ط وَاللہُ شَکُوْرٌ حَلِیْمٌ(۱۷)} (التغابن)
’’اگر تم اللہ کو قرضِ حسنہ دو گے تو و ہ اس کو دوچند کر دے گا اور تمہارے گناہ بھی معاف کردے گا۔ اللہ تعالیٰ قدر شناس اور بردبار ہے۔‘‘
مال و دولت بچا بچا کے رکھنے کے نقصان کو واضح کر دیا گیا اور فی سبیل اللہ خرچ کرنے کا نفع بھی بتا دیا گیا۔یہ فائدہ اس وقت ملے گا جب نیکیاں کمانے کا موقع ختم ہو چکا ہو گا اور انسان انتہائی بے بس ہو گا۔ اسی لیے یہ ہدایت دی گئی ہے کہ ہر شخص فکر مند رہے۔دنیاوی زندگی کے جائز فوائد حاصل کرنے کی اجازت ہے مگر اس میں خدافراموشی کی حد تک مشغول ہو جانا برے انجام تک پہنچا دیتا ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا:
{یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَلْـتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍج وَاتَّقُوا اللہَ ط اِنَّ اللہَ خَبِیْـرٌ  بِمَا تَعْمَلُوْنَ(۱۸)} (الحشر)
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص دیکھے کہ اس نے کل (یعنی قیامت) کے لیے کیا سامان آگے بھیجا ہے! (ہم پھر کہتے ہیں کہ) اللہ سے ڈرتے رہو‘ بے شک اللہ تمہارے سب اعمال سے باخبر ہے۔‘‘
قرآن مجید میں متعددمقامات پر اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ سورۃالبقرۃ میں ارشاد ہوا:
{مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْـبُـلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍط وَاللہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآئُ ط وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ (۲۶۱)}
’’مثال اُن کی جو اپنے مال اللہ کی راہ میں (اللہ کے دین کے لیے) خرچ کرتے ہیں ایسے ہے جیسے ایک دانہ کہ اُس سے سات بالیاں (خوشے) پیدا ہوں اور ہر بالی میں سودانے ہوں۔ اللہ جس کو چاہتا ہے افزونی عطا فرماتا ہے۔ اور اللہ بڑی وسعت والا اور سب کچھ جاننے والا ہے ۔‘‘
جو شخص پُرخلوص ہو کر اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے اس کی معمولی سی رقم کو کئی گنا شمار کیا جائے گا۔
ریاکاری کسی بڑی سے بڑی نیکی کو بھی ضائع کر دیتی ہے۔ اسی طرح اگر فی سبیل اللہ خرچ کرتے وقت دکھاوا پیش نظر ہو یا شہرت مطلوب ہو تو ایسا صدقہ نامقبول ہے۔ ایسے لوگوں کو کہا جائے گا کہ تم نے جن کو خوش کرنے کے لیے خرچ کیا تھا اب انہی سے اجر طلب کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ تو صرف اسی صدقہ یا خیرات کو قبول کرتا ہے جس کا مقصد رضائے الٰہی کا حصول ہو۔
{وَمَآ اَمْوَالُکُمْ وَلَآاَوْلَادُکُمْ بِالَّتِیْ تُقَرِّبُکُمْ عِنْدَنَا زُلْفٰٓی اِلَّا مَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًاز فَاُولٰٓئِکَ لَہُمْ جَزَآئُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوْا وَہُمْ فِی الْغُرُفٰتِ اٰمِنُوْنَ(۳۷)}(سبا)
’’اور (دیکھو!) تمہارے اموال اور تمہاری اولاد ایسی چیزیں نہیں کہ وہ تمہیں مرتبے میں ہمارا مقرب بنا دیں سوائے اُس شخص کے جو ایمان لایا اور اُس نے نیک اعمال کیے۔ تو ایسے لوگوں کے لیے ان کے اعمال کا دو گنا اجر ہے اور وہ بالا خانوں میں امن سے رہیں گے۔‘‘
اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے متعدد مواقع ہیں۔ انہی میں سے ایک یہ ہے کہ اسلام کی سربلندی کے لیے خرچ کیا جائے تاکہ دُنیا میں عدل کا نظام قائم ہو۔ باطل نظام میں سودی معاملات کا دور دورہ ہوتا ہے اور ناداروں کی مدد کا کوئی قانون نہیں۔یہ فکر عام ہوتی ہے کہ اگر اللہ چاہتا تو وہ خود غریبوں کی مدد کرتا۔ اس کے برعکس‘ عدل کا نظام دنیا میں صحت مند معاشرہ قائم کرتا ہے۔ اسلام سلامتی کا دین ہے۔ جب اسلام کے احیاء کی کوشش کی جائے گی تو امن قائم ہو گا اور مخلوقِ خدا کو آسودگی حاصل ہوگی۔ یہ ایک طرح سے جہاد ہے‘ جسے اختیار کرنا بھی فضیلت کا باعث ہے۔مالی جہاد کا موقع ہر وقت موجود ہوتا ہے اور یہ مال خرچ کرنے کی بہترین صورت بھی ہے۔
دُنیا کے مال کی محبت خسارے کا سودا ہے جبکہ انفاق فی سبیل اللہ میں حقیقی کامیابی ہے۔ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اللہ کی راہ میں زیادہ سے زیادہ خرچ کرے۔ سود سے بظاہرتو مال میں اضافہ ہوتا ہے لیکن آخر کار یہ معاشی نظام کو برباد کر دیتا ہے ۔ارشاد ہوتا ہے:
{یَمْحَقُ اللہُ الرِّبٰوا وَیُرْبِی الصَّدَقٰتِ ط} (البقرۃ:۲۷۶)
’’اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔ ‘‘
تاریخ کے صفحات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ کوئی سخی جب انفاق کرتا ہے تو وہ کبھی نادار نہیں ہوتا ۔ اگر اس بات پر پختہ یقین ہو کہ روزی اللہ ہی دیتا ہے تو اُسی کے دیے ہوئے مال میں سے فی سبیل اللہ خرچ کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔