(تذکیر و موعظت) چند مہلک منکرات - حافظ محمد اسد

10 /

چند مہلک منکراتحافظ محمد اسد
استاذ قرآن اکیڈمی یٰسین آباد‘ کراچی

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بناکر اس دنیا میں بطور آزمائش بھیجا ہے۔قدم قدم پر انسان کی جانچ ہوتی ہے کہ یہ اس میں پورا اترتا ہے یا نہیں۔کبھی انسان کو بہت کچھ دیا جاتا ہے جبکہ کبھی سب کچھ لےکر آزمایا جاتاہے۔ہر انسان کو در پیش مسائل مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں اور وہ اپنے اعمال کا حساب بھی اپنے شاکلہ (مزاج و طبیعت)کے لحاظ ہی سے دے گا۔موجودہ دور کا انسان احکاماتِ الٰہی کو جس طرح پس پشت ڈال رہا ہے اس کی مثال ملنا بہت مشکل ہے۔ ستم یہ کہ اسےیہ شعور و ادراک بھی نہیں کہ مجھ سے کتنے سنگین گناہ سر زد ہو رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ توبہ و استغفار کرنا بھی اب رسماً ہی باقی رہ گیا ہے‘جو خاص مواقع پرہی کیا جاتا ہے۔ اس دور کے حوالے سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((بَادِرُوا بِالْأَعْمَالِ فِتَنًا كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ، يُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَيُمْسِي كَافِرًا، أَوْ يُمْسِي مُؤْمِنًا وَيُصْبِحُ كَافِرًا، يَبِيعُ دِينَهُ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْيَا(( (صحیح مسلم :۳۱۳)
’’ ان فتنوں سے پہلے پہلے جو تاریک رات کے حصوں کی طرح ( چھا جانے والے ) ہوں گے ‘ ( نیک ) اعمال کرنے میں جلدی کرو۔ ( ان فتنوں میں ) صبح کو آدمی مومن ہو گا اور شام کو کافر‘ یا شام کو مومن ہو گا توصبح کو کافر۔ اپنا دین ( ایمان ) دنیوی سامان کے عوض بیچتا ہو گا۔‘‘
شیخ محمد بن صالح عثیمین ؒ (متوفی: جنوری ۲۰۰۱ء )اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
’’اہم بات یہ ہے کہ رسول الله ﷺ نے ہمیں اندھیری رات کے فتنوں سے خبردار فرمایا‘ جس میں انسان صبح مومن ہو گا تو شام کو کافر ہو جائے گا۔ الله تعالیٰ اپنی حفاظت میں رکھے- ایک دن میں ہی انسان اسلام سے پھر جائے گا‘ دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے گا ۔اس کی وجہ کیا ہو گی؟ دنیا کے بدلے میں اپنے دین کا سودا کر لے گا۔ یہ مت سمجھیں کہ دنیا سے مراد صرف مال ہے بلکہ اس میں دنیا کی ہر چیز شامل ہے‘ چاہے وہ مال کی صورت میں ہو یا عزت و جاہ کی شکل میں‘ یا دنیاوی منصب یا عورت سمیت کسی بھی صورت میں ہو۔ دنیا کی ہر چیز دنیاوی متاع میں داخل ہو گی اور اسی کو الله تعالیٰ نے سازو سامان سے تعبیر کیا ہے۔‘‘ [ شرح ریاض الصالحین ]
اس روایت میں آنے والے دورِ فتن سے خبر دار کیا گیاہے۔ چنانچہ اعمالِ صالحہ میں جلدی کرنی چاہیے‘ کیونکہ یہی نجات کی وہ کنجی ہے جس کے سائے میں انسان اپنے آپ کو بچا سکتا ہے۔ دُنیا وی زندگی کی چمک دمک اوردولت کی ہوس انسان کو اپنے ایمان کا سودا کرنے پر آمادہ کر دیتی ہےاور وہ اپنے ضمیر کاسودا کر بیٹھتاہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ نیکو کار لوگوں کی صحبت اختیار کی جائے اور اُن گناہوں سے بچا جائے جو جہنم میں لے جانے والے ہوں۔ جب اُمّت کا کثیر طبقہ اِن مہلک منکرات سے ناواقف ہو اور گناہ کو گناہ ہی نہ سمجھا جائے تو اصلاح نا ممکن ہے۔ لہٰذا ضرورت ہے کہ ایسے منکرات کا صحیح فہم حاصل کیاجائے اور اُن سے بچنے کی حتی المقدور کوشش کی جائے۔
مرد وزن کااختلاط
سب سے زیادہ عام اورمہلک گناہ جو معاشرے میں پھیل چکا ہےبلکہ اُسے گناہوں کی فہرست ہی سے نکال دیا گیا ہے وہ بد نظری ‘بد نگاہی ہے۔ اس کی اصل وجہ معاشرے میں پھیلا ہوا بے پردگی کا ماحول ہے جس کے باعث شرم وحیا اُٹھ چکی ہے۔ جس قوم سے شرم وحیا رخصت ہو جائے وہ اللہ کے عذاب کی مستحق ہو جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہم مختلف قسم کے عذابوں میں گھرے ہوئے ہیں۔
مرد و زن کااختلاط ایک زہریلا نشہ ہے جو اب ہمارے کلچر کا حصّہ بن چکا ہے ‘جبکہ اسلام نےاس پر سختی کے ساتھ پابندی عائد کی ہے۔ اس کی وجہ سے معاشرےپر بہت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور انسان آہستہ آہستہ شرم وحیا کادامن چھوڑتا چلا جاتاہے۔نتیجتاً وہ وقت آجاتاہے کہ جب برائی بری نہیں لگتی بلکہ اسے قبول کرلیا جاتا ہے۔ پھر جو اصلاح کی کوشش کررہے ہوتے ہیں اُن کو دقیانوس اور تنگ نظر کہہ کر اپنے غبار آلود نظریات پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ماہرین نفسیات اس کی وجہ ہمارے معاشرے میں رائج مخلوط تعلیمی نظام کو قرار دیتے ہیں۔ بقول اکبر الٰہ آبادی :
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی!
اس تعلیمی نظام کے تحت پنپنے والے ہمارے معصوم بچے مادر پدر آزادی کے خواہاں ہوتے جا تے ہیں۔پرنٹ میڈیا ِ‘الیکٹرانک میڈیا‘ سوشل میڈیا نے توگویا اُن کی غیرت کاجنازہ نکال دیاہے۔ ڈراموں میں عشق کی کہانیاں دکھائی جا رہی ہیں اور رحمی رشتوں کو پیروں تلے روندا جارہاہے۔ اِن نحوستوں نےبے حیائی کا وہ طوفان برپا کیاہے کہ مردتو کیا عورتوں کی نگاہوں میں بھی وہ شرم وحیا خام ہی نظر آتی ہے جو کبھی مشرقی عورت کے مزاج کاخاصہ ہوا کرتی تھی۔یہی وجہ ہے کے زنااور ہم جنس پرستی جیسےسنگین جرائم کا ارتکاب ہو رہا ہے۔پھر اس دور میں جبکہ غیر شرعی رسموں کی وجہ سے نکاح اور شادی کرنا مشکل بن گیا ہے ‘زنا عام ہو رہا ہے۔نوجوان لڑکے لڑکیاں مادر پدر آزادی کے قائل ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ اس سیلاب بلا خیز اور بے راہ روی کے نتیجے میں اب صورت اس حد تک بگڑ چکی ہے کہ اچھے اچھے خاندانوں میں بھی کوئی شرم و حیا باقی نہیں رہی۔اس کا اندازہ اُن کی بچیوں کے لباس کو دیکھ کر بخوبی لگایا جا سکتاہے۔نیم عریاں لباس کو اب کوئی عیب نہیں سمجھا جاتا۔
سوال یہ ہے کہ آخر ہم اپنے بچوں کو کیا بنانا چاہتےہیں جو ان پر کوئی روک ٹوک نہیں کرتے؟ اس تعلیمی نظام نے ماں باپ کا تقدّس پامال کر دیا ہے۔بچے توجب سدھرتے جب بڑوں کو کچھ احساس ہوتا‘ مگر افسوس کہ بڑوں نے بھی ان کے آزادی کے سفر میں ان کاساتھ دینا شروع کر دیاہے۔دُنیا کی چند روزہ زندگی کے مزے کی خاطر اپنے بچوں کو دین سے دور رکھا۔ جب دنیاوی عیش وعشرت ہی مطمح نظر بن گیا تو آخرت کا تذکرہ کہیں بھول بھلیوں میں کھو کر رہ گیا۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہﷺ سے روایت کرتے ہیں:
((مَا ظَھَرَ فِیْ قَوْمٍ الزِّنَا وَالرِّبَا اِلَّا أحَلُّوا بِأَنْفِسِھِمْ عَذَابَ اللّٰہِ))
(مسند احمد:۳۸۰۹)

’’جس قوم میں زنا اور سود پھیل گیا انھوں نے یقیناً اللہ کا عذاب اپنے اوپر اتارلیا۔‘‘
سودی نظام معیشت
نہ صرف ہمارے بینک اکاؤٹنس سیونگ ہیں بلکہ کاروبار کے لیے قرضے اور گاڑی اور مکان کے لیے بینک سے بڑے بڑے ادھار پر سودی لین دین ہم بڑے ذوق شوق سے کرتے ہیں۔ ہمیں ذرّہ برابر بھی کوئی خوف نہیں کہ یہ معاملہ اللہ اور اس کے رسولﷺ سے اعلانِ جنگ ہے۔ قرآن کریم میں اس کی شدید مذمت کی گئی ہے‘ اورکثیر تعداد میں احادیث مبارکہ اس عمل کے قبیح تر ہونے پر شاہد ہیں ۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے سود کھانے والے‘ کھلانے والے‘ اس کی گواہی دینے والے اور اس کامعاملہ لکھنے والے سب پر لعنت فرمائی۔ (ابن ماجہ:۲۲۷۷)
افسوس کہ آج اس حوالے سے کوئی جانتا ہی نہیں۔اس سودی نظام کے اندر ہم بری طرح جکڑے جاچکے ہیں۔ یہ وہی زمانہ ہے جس کی خبر جناب رسول کریم ﷺ نے بایں الفاظ دی ہے:
((لَیَأْتِیَنَّ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَا یبقیٰ مِنْھُمْ أحَدٌ اِلَّا آکِلُ الرِّبَا، فَمَنْ لَمْ یَأکُلْ أصَابَہُ مِنْ غُبَارِہِ)) (ابن ماجہ:۲۲۷۸)
’’ ایک زمانہ ضرور ایسا آئے گا کہ کوئی بھی سود سے نہ بچ سکے گا اور کوئی شخص سودخوری سے بچ بھی گیا تو بھی سود کے دھویں اور غبار سے نہیں بچ سکے گا۔‘‘
بچنا تو درکنار ہمارا المیہ تو یہ ہے کہ جو دینی جماعتیں سود کے خاتمے کے لیے آواز بلند کرتی ہیں ان کامذاق اڑایا جاتا ہے ۔ مادہ پرست ذہنیت کے افراد کاکہنا ہے کہ اب سود کے بغیر کام نہیں چلتا۔ گویا ہم اللہ اور اُس کے رسولﷺ کے خلاف اعلانِ جنگ جاری رکھیں گے۔ جب تک یہ سودی معاملات چلتے رہیں گے‘معیشت مستحکم نہیں ہو سکے گی۔ غریب آدمی دن بدن بد ترین صورت حال سے دوچار ہوتا رہے گا۔ مہنگائی اور بے روز گاری بڑھتی چلی جائے گی۔ خودکشی اوراپنے بچوں کو ہلاک کر دینے جیسے دل سوز واقعات میں اضافہ ہو گا۔ اربابِ اختیار کو چاہیے کہ ہوش کے ناخن لیں اور وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر دیانت داری سے عمل کر کے اس سودی نظام کو ختم کرنے کا عزم کریں۔اگر ایسا نہ کیا گیا تو طرح طرح کے عذابات ہم پر مسلط ہوتے چلے جائیں گے۔
غیبت سننا اور کرنا
یہ مہلک مرض آج تقریباً ہر خاص و عام کی مجلس کاحصّہ بن چکا ہے۔ یہ برائی ہمارے معاشرے میں اس طرح رائج ہو چکی ہے کہ جہاں دو افراد جمع ہوئے‘ تیسرے فرد کا ذکر لازمی طور پر کریں گے۔ہم یہ کام بطور مشغلہ کرتے ہیں جبکہ قرآن کریم میں جن معاشرتی برائیوں کاذکر کیا گیا ہے اُن میں غیبت کے حوالے سے بڑے سخت الفاظ آئے ہیں:
{یٰٓاَ یُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ ز اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًاط اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِہْتُمُوْہُ ط وَاتَّقُوا اللہَ ط  اِنَّ اللہَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ (۱۲)} (الحجرات)
’’اے ایمان والو ! بہت سے گمانوں سے بچو‘ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں‘ اور کسی کی ٹوہ میں نہ لگو اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو۔ کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرے گا کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے ؟ اس سے تو خود تم نفرت کرتے ہو۔ اور اللہ سے ڈرو‘ بے شک اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا‘ بہت مہربان ہے۔‘‘
مفتی محمد تقی عثمانی صاحب حفظہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں چند نکات تحریر کیے ہیں:
(۱) کسی کے خلاف تحقیق کے بغیر بدگمانی دل میں جما لینا گناہ ہے۔
(۲) کسی دوسرے کے عیب تلاش کرنے کے لیے اس کی ٹوہ اور جستجو میں لگنا بھی اس آیت کی رُو سے گناہ ہے۔ البتہ کوئی حاکم مجرموں کا پتہ لگانے کے لیے تفتیش کرے تو وہ اس میں داخل نہیں ہے۔
(۳) غیبت کی تعریف ایک حدیث میں خود حضور اقدس ﷺ نے یہ فرمائی ہے کہ : تم اپنے بھائی کا تذکرہ اس طرح کرو جو اسے ناگوار ہو۔ ایک صحابی نے پوچھا : اگر اس میں واقعی وہ عیب ہو تو (کیا اس کا بیان کرنا بھی غیبت ہے) ؟آپ ﷺنے فرمایا : اگر اس میں واقعی وہ عیب ہو تب تو وہ غیبت ہے اور اگر نہ ہو تو بہتان ہے‘ یعنی وہ دوہرا گناہ ہے۔
اس تناظر میں ہم اپنا جائزہ لیں کہ کیا ہماری مجالس غیبت اور بد گمانیوں سے خالی ہوتی ہیں۔ ایک صاحب ِعلم نے کہا کہ آج اگر ہم اپنی مجالس سے بد گمانی اور غیبت کو نکال دیں تو بخدا خاموش ہی رہا کریں گے۔
امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ اس آیت مبارکہ کے ذیل میں فرماتے ہیں :
’’گمان کرنے سے بچنے کا حکم دیا گیا( کیونکہ گمان ایک دوسرے کو عیب لگانے کا سبب ہے )‘اس پر قبیح افعال صادر ہونے کا مدار ہے اور اسی سے خفیہ دشمن ظاہر ہوتا ہے ۔ کہنے والا جب ان اُمور سے یقینی طور پر واقف ہو گا تو وہ ا س بات پر بہت کم یقین کرے گا کہ کسی میں عیب ہے تاکہ اسے عیب لگائے‘ کیونکہ کبھی فعل بظاہر قبیح ہوتا ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا ‘اس لیے کہ ممکن ہے کرنے والا اسے بھول کر کر رہا ہو یا دیکھنے والا غلطی پر ہو۔‘‘( تفسیرکبیر‘ الحجرات : ۱۲)
مذکورہ بالا مہلک منکرات سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم گناہ کو گناہ سمجھیں اور اپنے موجودہ معاشی اور تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ یہ کام اگرچہ اہل ِاقتدار یا حکام کا ہے لیکن ہم بھی بری ٔالذمہ نہیں ہیں۔ہمیں اپنے حصّے کا کام کرنا ہے ۔ اپنے دائرہ میں رہتے ہوئے ان منکرات سے خود بھی بچنا ہے اور اپنے اہل و عیال کو بھی بچانا ہے۔زنا اور عریانیت میں مبتلا سماج پر احادیث کے مطابق عذابِ الٰہی اور امراض وآفات کا نزول ہوکر رہتا ہے۔ ان سے حفاظت کی تدبیر صرف یہ ہے کہ ملت کا ہر فرد پہلے خود عفت مآب بنے اور پھر اپنے گھر‘ خاندان اور سماج کو بے حیائی اور بے حجابی کی لعنت سے پاک کرنے کی مہم میں لگ جائے۔ اگر ہم صدق دل سے تائب ہو کر اس کے خاتمے کی جدّوجُہد میں لگ جائیں گے تو بروز قیامت اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے سامنے عرض کر سکیں گے:’’ اے اللہ ! ہم نے تو کوشش کی جو ہمارے اختیار میں تھی‘معاشرے کو مکمل طور پر بدلنا ہمارے اختیار میں نہیں تھا‘‘۔ دنیا وی زندگی چند روزہ ہے ‘جس کے بعد اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے سامنےحاضری لازمی ہے۔ہماری عملی جدّوجُہد اگر خلوص پر مبنی ہو گی تب ہی اُخروی نجات ملے گی۔ربّ العزت سے دعا ہے کہ ان منکرات سے مجھے اور آپ کو بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا ربّ العالمین!