(ظروف و احوال) مسئلہ فلسطین: ایک طائرانہ نظر - ڈاکٹرظفر الاسلام خان

10 /

مسئلہ فلسطین : ایک طائرانہ نظرڈاکٹر ظفرالاسلام خانتاریخی پس منظر
فلسطین مغرب میں صحرائے سینا و بحیرئہ روم اورمشرق میں نہر اردن کے درمیان میں ایک چھوٹا سا خطہ ہے جہاں قدیم ترین زمانے سے کنعانی یا اموری قوم رہتی آئی ہے۔ یہ تاجر اور کسان لوگ تھے۔ مصر سے آنے والے یہودیوں کی انہی سے لڑائی ہوئی تھی ۔ یہودیوں نے ان کو ’’فلستینی ‘‘ کہا اور اس کے معنی ’’شرابی، کبابی‘‘ کے رکھ دیے۔ اس علاقے کے قدیم باشندوں کی غلطی یہودیوں کے نزدیک صرف یہ تھی کہ انہوں نے یہودیوں کے مصر سے نکلنے کے بعد ان کا استقبال ’’پانی اور روٹی سے نہیں کیا‘‘ (تورات‘ تثنیہ ۲۳)۔ اس لیے وہ گردن زدنی کے مستحق ہوئے۔
یہودی تقریباً ۱۲۲۰ ق م میں حضرت یوشع (Jushua) کی قیادت میں صحرائے سینا سے نکلنے کے بعد فلسطین میں داخل ہوئے۔ تورات (سفر یشوع) کے مطابق انہوں نے انتہائی وحشت کے ساتھ فلسطینیوں کو ختم کرنے کی کوشش کی۔
کنعانی یبوسی قبیلہ Jebusites بیت المقدس کے ارد گرد رہتا تھا۔ یہ لوگ ۱۴۰ سال تک یہودیوں کا مقابلہ کرتے رہے اور ۱۰۴۹ ق م میںصرف حضرت داؤد علیہ السلام اس علاقے پر قبضہ کرپائے۔ شاؤل ۱۰۲۰ ق م میں پہلا حاکم ہوا جس نے سب یہودیوں کو ایک جھنڈے تلےجمع کیا۔ اس کے بعد حضرت داؤد ؑ آئے جن کا زمانہ ۱۰۰۰سے۹۶۱ ق م تک کا ہے۔ انہوں نے ۹۹۰ ق م میں فلسطینی قبائل پر قابو پایا اور دمشق کو خراج دینے پر مجبور کیا۔ صرف حضرت داؤد اور حضرت سلیمان ( علیہما السلام ) کے زمانے میں یہودیوں نے فلسطین کے ایک بڑےخطے پر حکومت کی۔
حضرت داؤدؑ کے بعد حضرت سلیمانؑ آئے جن کا زمانہ ۹۶۱–تا۹۲۲ ق م کا ہے۔ انہوں نے بیت المقدس میں ایک یہودی معبد بنایا جو ’’ہیکل‘‘ (Temple)کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مشہور ہے کہ اس کی ایک دیوار آج بھی موجود ہے۔ مسلمان اسے مسجد اقصیٰ کی ’’مغربی دیوار‘‘ (الحائط الغربی) کہتے ہیں جبکہ یہودی اس کو ’’دیوارِ گریہ‘‘ (Wailing Wall) کا نام دیتے ہیں۔ اس سلطنت کے تعلقات یمن تک سے تھے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے ۹۲۲ ق م میں وفات پاتے ہی ان کی سلطنت دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوگئی۔ جنوب میں ’’یہودا‘‘ اور شمال میں ’’اسرائیل‘‘ نامی دو ملک وجود میں آئے جو آپس میں دوسو سال تک لڑتے رہے۔
حضرات داؤد اور سلیمان ( علیہما السلام ) نے تقریباً چالیس چالیس سال حکومت کی‘ اس کے بعد سب ختم ہوگیا۔ لڑائیوں وغیرہ کو چھوڑ دیا جائے تو فلسطین پر صرف ۷۰ سال پورے طور پر یہودی حکومت رہی۔ بہترین حالات میں بھی یہودیوں نے پورے فلسطین پر کبھی قبضہ نہیں کیا۔ مؤرخ بیلوک کے مطابق ‘ان کے دورِ عروج میں بھی اس مملکت کی لمبائی ۱۲۰ میل اور چوڑائی ۶۰ میل تھی (یعنی موجودہ غزہ سے ملتی جلتی)۔ انہوں نے زیادہ تر پہاڑی علاقوں پر قبضہ کیا جبکہ وادی کے علاقے فلسطینیوں کے پاس رہے۔
آشوریوں نے ۷۲۱ ق م میں پہلی بارـ ’’اسرائیل‘‘ کو ختم کرکے یہودیوں کو مشرق کی طرف دھکیل دیا اور دوسرے لوگ ان کی آبادیوں میں بسا دیے۔ یوں ان کا تاریخ سے نام ونشان مٹ گیا۔ البتہ دوسری یہودی حکومت ’’یہودا‘‘ بچ گئی تھی‘ جس کا صدر مقام اورشلیم تھا۔ ۵۹۷ ق م میں بخت نصر (Nebuchadnezzar) نے اس حکومت کا بھی خاتمہ کردیا اور اس کے بادشاہ یواقیم (Joacqim) سمیت دس ہزار یہودیوں کو یرغمال بناکر بابل لے گیا۔ ان میں نبی حضرت حزقیال بھی شامل تھے۔ جلد ہی باقی ماندہ یہودیوں نے بغاوت کی‘ جس کی وجہ سے بخت نصر ۵۸۷ق م میں دوبارہ فلسطین آیا‘ اورشلیم کی اینٹ سے اینٹ بجادی‘ مزید بہت سے یہودیوں کو غلام بناکر بابل لے گیا اور باقی ماندہ یہودیوں کو اس علاقےسے نکال دیا۔ یوں سلطنت ’’اسرائیل‘‘ کے ختم ہونے کے ۱۳۰ سال بعد سلطنت ’’یہودا‘‘ کا بھی مکمل طور پر خاتمہ ہوگیا۔
۵۳۹ ق م میں یہودیوں کی بابل کی غلامی ختم ہونے پر واپسی ہوئی۔ ایران کے بادشاہ کورش دوم نے فلسطین کے علاقے پر قبضہ کرنے کے بعد یہودیوں کو فلسطین میں دوبارہ بسنے کی اجازت دی۔ یوں ۵۱۵ ق م میں ہیکل سلیمانی (Second Temple) دوبارہ بنا۔
۶۳ ق م سے ۷۰ء تک فلسطین پر رومن قبضہ رہا۔یہودیوں کی بغاوت کی وجہ سے ۷۰ ء میں رومن جنرل ٹائٹس (Titus) فلسطین آیا اور پوری طرح اورشلیم اور ہیکل کو تباہ کر کے اس کی جگہ ایک رومن شہر بنام ’’ایلیا کاپیتولینا‘‘ بنا کر واپس گیا ۔ یہودیوں کو وہاں سے پوری طرح سے جلا وطن کر دیاگیا۔
۲۷۳ءمیں انباط (عربوں) نے اس علاقےپرقبضہ کرلیا۔
۶۳۹ء( ۱۵ھ) میں بیت المقدس حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھوں فتح ہوا جب کہ وہاں عیسائیوں کی حکومت تھی۔ مسجداقصیٰ کی جگہ اُس وقت کوڑا پڑا ہوا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس جگہ کو اپنے ساتھیوں کی مدد سے صاف کیا اور وہاں نماز پڑھی۔ بعد میں اس جگہ پرایک مسجد بنی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھوں ’’العہد العمری‘‘ نامی وثیقہ لکھا گیا جس میں یہودیوں کا بیت المقدس میں داخل ہونا منع کیا گیا‘ اور یہ وہاں کے عیسائیوں کی درخواست پر ہوا۔
۱۰۹۹ء سے ۱۳۶۹ء تک صلیبی جنگیں جاری رہیں جو فلسطین پر یورپی عیسائی قوموں کے قبضے کی کوشش تھی‘ کیونکہ ان کے خیال میں حضرت مسیح علیہ السلام کی جائے پیدائش کو غیر عیسائیوں کے قبضے میں نہیں رہنا چاہیے۔ کل ۹ صلیبی جنگیں ہوئیں۔ بالآخر اکتوبر ۱۱۸۷ء میں صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو صلیبیوں کے ۹۹ سالہ قبضے کے بعدواپس لیا اور یہودیوں کو دوبارہ بیت المقدس آنے کی اجازت دی۔ انہوں نے بیت المقدس کی حفاظت کے لیے مراکش سے جفاکش مسلمانوں کو بلا کر مسجد اقصیٰ کے پاس بسایا۔ ان کا محلہ ’’حیّ المغاربۃ‘‘ ۱۹۶۷ء تک باقی تھا۔ جون ۱۹۶۷ء میں اسرائیل نے بیت المقدس پر قبضے کے بعد چھ گھنٹے کے نوٹس پر ان کو باہر کر دیا اور ان کے گھر مسمار کرکے ’’دیوارِ گریہ‘‘ کے سامنے ایک بڑا میدان بنا دیا جہاں یہودی اب عبادت کرتے ہیں۔
یورپ میں مستقل برے سلوک اور ابھرتی ہوئی نئی قومیتوں کی وجہ سے وہاں کے یہودیوں میں ’’یہودی وطن‘‘ کی بات شروع ہوئی‘ حالانکہ نہ ان کا اپنا کوئی ملک تھا اور نہ ہی کسی علاقے میں ان کی اکثریت تھی ۔ آسٹرین صحافی ہرتزل) Herzl (نے صہیونی تحریک شروع کی۔ ۱۸۶۰ء میں یہودیوں نے فلسطین میں دوبارہ بسنا شروع کیا۔ اُس وقت فلسطین میں یہودیوں کی کل آبادی پانچ ہزار تھی۔ فرانس کے بارون ہرش(Baron Hirsh) نے اس کام کے لیے پیسے دیے۔ بعد میں برطانیہ کے لارڈ روتھ چائلڈ(Lord Rothchild) نے بھی اس مقصد کے لیے کافی پیسے دیے تاکہ یہودی فلسطین میں زمینیں خرید کر وہاں بسنا شروع کریں۔
اعلانِ بالفور
پہلی جنگ عظیم کے دوران برطانیہ نے ’’اعلانِ بالفور‘‘ جاری کرکے فلسطین میں ’’یہودی وطن‘‘ بنانے کا وعدہ کیا‘ جبکہ اسی وقت سائکس پیکو (Sykes Picot) معاہدے کے ذریعے فرانس کے ساتھ اس علاقے کو آپس میں بانٹنے اور شریف مکہ سے معاہدہ کرکے اس پورے علاقے میں ’’عرب حکومت‘‘ قائم کرنے کا جھوٹا وعدہ کیا۔ جس وقت یہ وعدے کیے گئے‘ برطانیہ یا فرانس کا اس پورے علاقے کے کسی حصے پر قبضہ نہیں تھا۔
اکتوبر۱۹۱۸ء میں فلسطین پر برطانوی قبضہ ہوگیا جس کے بعد اعلانِ بالفور پر عمل کرتے ہوئے فلسطین کو یہودی ہجرت کے لیے کھول دیا گیا۔ ساٹھ سال سے مسلسل ہجرت کے باوجود اُس وقت تک فلسطین میں یہودیوں کی تعداد صرف ۵۶۰۰۰ تھی۔
برطانیہ نےفلسطین میں یہودیوں کوہر سہولت کے ساتھ نیم فوجی دہشت گرد مسلح تنظیم ہاگاناہ (Haganah) بنانے کی اجازت دی۔اس کی وجہ سے عملاً فلسطین میں ایک مسلح یہودی فوج تیار ہوئی‘ جبکہ عربوں کے اسلحے چھینےگئے اوریہودیوں کے برعکس عربوں کے اسلحہ رکھنے پر جیل اور جلاوطنی کی سزا مقرر ہوئی۔ اس کے علاوہ متعدد یہودی دہشت گرد تنظیموں کا قیا م عمل میں آیا‘ مثلاً ارگون ‘ شترن‘ لیہی اور اتزیل جنھوں نے ۱۹۴۸ء میں عربوں کو اپنے وطن سے بندوق کے ذریعے کھدیڑنے کا کام کیا۔ ان تنظیموں کو بعد میں اسرائیلی فوج میں ضم کر دیا گیا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ بہت کمزور ہو گیا تھا۔ اسے فلسطین سے بھاگنے پر مجبور کرنے کے لیے اب یہودی دہشت گردوں نے انگریز فوج اور انتظامیہ پر حملہ کرنا شروع کردیا۔ فلسطین میں یہودی دہشت گردی کا سامنا کرنا کمزور برطانیہ کے بس میں نہیں تھا‘ اس لیے اس نے فلسطین کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے سامنے پیش کر دیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ۲۹؍ نومبر ۱۹۴۷ ءکو فلسطین کو یہودی اور عرب ریاستوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا۔ عرب اکثریت کو ۴۴ فیصد اور یہودی اقلیت کو ۵۶ فیصد دیا گیا۔ عربوں نے اس ظالمانہ فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا۔ یہودیوں نے مارچ ۱۹۴۸ء سے ’’آپریشن دالیت‘‘ کے تحت فلسطین میں اسرائیل بنانے کے لیے عربوں پر حملے اور قتل عام شروع کر دیے تاکہ وہ یہودی سلطنت سے بھاگ جائیں۔ اس کے ردّ عمل کے طور پر عرب ممالک (مصر‘ اردن اور عراق وغیرہ) نے فلسطین میں اپنی فوجیں بھیجیں جن کو واضح حکم تھا کہ تقسیم پلان کے تحت یہودیوں کو دیے گئے حصے پر قبضہ نہ کریں۔ یوں عرب فوجیں آگے نہیں بڑھیں‘ جبکہ یہودی دہشت گرد تنظیمیں حملے کرکے عربوں کو قتل اور مختلف علاقوں سے نکالتی رہیں۔ فلسطین کے ۷۰ فیصد عرب اپنے علاقوں سے بھاگ کر قریبی علاقوں اور ملکوں میں پناہ گزیں ہوگئے‘ اور پھر اقوام متحدہ کی بیسیوں قراردادوں کے باوجود آج تک اپنے گھروں کو واپس نہ جاسکے۔
اسرائیل کا قیام
۱۵ مئی ۱۹۴۸ء کو یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا اورفلسطین میںخانہ جنگی چھڑ گئی۔ امریکا اور روس نے چند گھنٹوں کے اندر اسرائیل کو تسلیم کر لیا۔ ۱۹۴۹ء میں جنگ بندی تک فلسطین میں ۷۸فیصد زمینوں پر یہودی قابض ہو گئے‘ یعنی فلسطینی عربوں کے لیے ان کے ملک کا صرف ۲۲ فیصد حصّہ بچا۔ اس باقی ماندہ فلسطین کے ایک حصے (مغربی کنارہ بشمول بیت المقدس) پر اُردن نے اور دوسرے حصے (غزہ) پر مصر نے قبضہ کر لیا۔
۵ جون ۱۹۶۷ء کو اسرائیل نےحملہ کرکے باقی ماندہ ۲۲ فیصد فلسطین کے ساتھ مصر کے صحرائے سینا اورشام کی جولان پہاڑیوں(Golan Heights) پر بھی قبضہ کرلیا۔
’’کیمپ ڈیوڈ‘‘ اور ’’اوسلو‘‘ معاہدے
اکتوبر ۱۹۷۳ء میں مصر اور شام نےا پنے علاقے آزاد کرانے کے لیے جنگ کی۔ مصر نے صحرائے سینا کا ایک تہائی علاقہ واپس لے لیا جبکہ شام ناکام رہا۔ اس کے بعد ۱۹۷۹ء میں مصری صدر سادات نے اسرائیل کے ساتھ ’’کیمپ ڈیوڈ معاہدہ‘‘کر کے صلح کرلی ‘جس کی وجہ سے اسرائیل پر دباؤ بہت کم ہوگیا اور دوسرے عرب و غیرعرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے شروع کردیے۔ اس سے پہلے دنیا کے اکثر ممالک (بشمول بھارت) اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔
باقی ماندہ فلسطین پر مسلسل اسرائیلی قبضے کے خلاف فلسطینیوں کا پہلا انتفاضہ دسمبر ۱۹۸۷ء سے ۱۹۹۱ء کی میڈرڈکانفرنس تک چلا ۔ تھک ہار کر بالآخر فلسطینی قیادت نے ۱۹۹۲ء میںاسرائیل کے ساتھ ’’اوسلو معاہدہ‘‘ کیا جس کی رو سے پانچ سال میں خود مختار فلسطینی ریاست قائم ہونا قرار پایا‘ جبکہ فلسطین کے بنیادی مسائل (بیت المقدس /پناہ گزین/ سرحد/ داخلی وسائل) کو بعد کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ پانچ سال کے اندر فلسطینی ریاست وجود میں آنی تھی لیکن تیس سال کے بعد بھی آج تک وجود میں نہیں آئی ہے۔ فلسطینی اتھارٹی (فلسطینی مقتدرہ) کے نام پر جو علاقہ موجود ہے اس کی حیثیت صرف ایک میونسپلٹی کی ہے۔ وہ اسرائیل کے مخبر کے طور پر کام کرتی ہے‘ یعنی اس کے خلاف مزاحمت کرنے والے فلسطینیوں کے بارے میں اسرائیل کو باخبر کرتی ہے اور اسی وجہ سے وہ فلسطینی عوام میں مقبول نہیں ہے۔
اوسلو معاہدہ کرنے والے اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابین کو یہودی شدّت پسندوں نے ۴؍ نومبر ۱۹۹۵ء کو قتل کر دیا۔ اسرائیل میں فلسطینیوں سے کسی بھی سمجھوتے کی مخالف لیکوڈ پارٹی نےامریکی نیوکون کی مدد سے کلین بریک (Clean Break) نامی پلان بنوایا تاکہ اوسلو معاہدے کو عملاً کالعدم کیا جا سکے۔ ۱۹۹۷ء میں لیکوڈ کے برسر اقتدار آتے ہی اس پلان پر عمل شروع ہوگیا اور دھیرے دھیرے فلسطینی مقتدرہ کو بے اختیار بنانےکے عمل کا آغازہوگیا‘ جبکہ فلسطینی حکومت کو دیے جانے والے علاقوں میں یہودی نوآباد بستیاں بنانےکا کام تیزی سے شروع ہوگیا۔ سارا الزام عربوں پر رکھا گیا جبکہ درحقیقت معاہدے کو ناکام اسرائیل نے بنایا۔ اس کےنتیجے میں ۲۰۰۰ء میں دوسرا انتفاضہ شروع ہوا جو پانچ سال چلا۔
مئی۲۰۱۲ء میں یوسی بیلین(Yossi Beilin) نے‘ جو اسرائیل کی جانب سے اوسلو معاہدہ کا آرکٹیکٹ تھا‘ فلسطین اتھارٹی کو مشورہ دیا کہ اتھارٹی کو تحلیل کر دو تاکہ دنیا کے سامنے اسرائیل کا اصل چہرہ سامنےآجائے۔یہودی نوآبادیا ں فلسطینی عربوں کی ان زمینوں پر مستقل قائم ہو رہی ہیں جنہیں اسرائیل بھی مانتا ہے کہ انہیں فلسطینیوں کو واپس کرنا ہے۔
حماس کی مزاحمت
اگست-ستمبر ۲۰۰۵ء میں حماس کی مزاحمت کی وجہ سے اسرائیل غزہ سے نکل گیا لیکن علاقے پر بری‘ بحری اور فضائی کنٹرول قائم رکھا ۔جنوری ۲۰۰۶ء میں حماس کی منتخب حکومت کو اسرائیل ‘ امریکہ اور یورپ وغیرہ نے مل کر چند مہینوں کے اندر توڑدیا اور ۲۰۰۷ء سے اسرائیل نے غزہ کا مکمل محاصرہ شروع کر دیا جو اب تک جاری ہے۔
غزہ پر اسرائیلی حملے ۲۰۰۶ء‘ ۲۰۰۸ء‘ ۲۰۰۹ء‘۲۰۱۰ء‘ ۲۰۱۱ء‘ ۲۰۱۲ء میں ہوئے۔ ۲۰۱۴ء میں رمضان المبارک کے دوران اسرائیل نے حملہ کر کے غزہ کو شدید نقصان پہنچایا لیکن مزاحمت کو شکست نہ دے سکا۔ حماس نے اس جنگ کا ۵۱ دن تک مقابلہ کیا اور دنیا کی پانچویں طاقتور فوج کو جنگ بندی پر مجبور کر کے بڑی حدتک اپنے مطالبات منوا لیے۔ اسرائیل اپنے مطالبات (راکٹ حملے بند کرانا ‘ غزہ کو اسلحے سے خالی کرانا اور سرنگوں کا خاتمہ) قبول کرانے میں ناکام رہا۔
۲۰۱۸ء میں غزہ کے لوگوں نےمحاصرے کے خلاف سرحد پر احتجاج شروع کیا۔ اسرائیل نے فائرنگ کر کےسات فلسطینیوں کو قتل کر دیا۔
مارچ۲۰۱۹ءمیں اسرائیل نے غزہ پر پھر حملہ کیا۔اس کے بعد مئی۲۰۱۹ء‘نومبر۲۰۱۹ء‘ ۲۰۲۱ء‘ ۲۰۲۲ء اور مئی ۲۰۲۳ء میں بھی غزہ پر اسرائیلی حملے ہوئے۔ مئی۲۰۲۱ء میں اسرائیلی حملہ پہلے کی طرح نہ صرف ناکام رہا بلکہ یہ بھی ثابت ہو گیا کہ حماس اور الجہاد الاسلامی اسرائیل کے ساتھ فوجی برابریdeterrence کی حد تک پہنچ چکے ہیں۔ اس جنگ میں پہلی دفعہ اسرائیل کا بہت جانی و مالی نقصان ہوا۔ فلسطینیوں نے اسرائیل کے اندر انتقامی کارروائی کی اور اسے یک طرفہ جنگ بندی پر مجبور کر دیا۔ اس جنگ کے دوران ۲۴۲ فلسطینی شہید ہوئے‘ غزہ کے ۸۰,۰۰۰ لوگ بے گھر ہوئے اور ۱۷,۰۰۰ رہائشی اور تجارتی یونٹس تباہ ہوئے۔
غزہ کی حالیہ جنگ
۷؍اکتوبر۲۰۲۳ءکو حماس نےاسرائیل پر اچانک بڑا حملہ کیا جواس کے لیے بالکل غیرمتوقع تھا۔ یہ حملہ ۱۹۶۷ء کے اسرائیلی قبضے اور ۲۰۰۶ء سے جاری اسرائیلی محاصرے کے خلاف تھا۔ یہ حملہ ہرطرح سے بین الاقوامی قانون کےتحت مقبوضہ علاقوں کے باشندوں کے حق مزاحمت کا استعمال تھا۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ کو پوری طرح تباہ کرنا شروع کردیا۔ جنگ اب اپنے دوسرے سال میں داخل ہو رہی ہے۔انسانی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی کہ ایک مختصر اور نہتی آبادی دنیاکی پانچویں بڑی فوجی طاقت کے خلاف اتنے لمبے عرصے تک اتنی بہادری سے لڑتی رہے۔ اس سے پہلے عرب فوجوں کی اسرائیل سے لڑائی صرف چند دن چلتی تھی۔ اس جنگ میں اسرائیل نے بےدریغ بمباری کی ہے۔ غزہ کے تقریباً ۹۰ فیصد گھر اور بلڈنگیں ا س اندھا دھند بمباری سے منہدم ہوچکے ہیں۔ پانی‘ بجلی‘ سیور لائن اور ٹیلیفون و انٹرنیٹ کی لائنیں پوری طرح تباہ ہو چکی ہیں۔ یہ بمباری دنیا بھر میں پچھلے ایک سو سال کے دوران کی گئی شدید ترین بمباری ہے ۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں بھی کسی علاقے پر اتنی شدید بمباری نہیں ہوئی تھی۔
اسرائیل اور امریکہ کا پلان تھا کہ شدید بمباری اور کھانے پینے کی اشیاء کو بالکل روکنے سے غزہ کے لوگ مصر کے صحرائے سینا کی طرف بھاگ جائیں گےاور یوں غزہ کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہوجائے گا‘ لیکن غزہ کے لوگوں نے اس سازش کو ناکام بنا دیا۔
غزہ میں مکمل سرائیلی محاصرے کی وجہ سے کھانے پینے کی چیزوں اور دواؤں کی شدید قلت ہے جس کی وجہ سےوہاں سینکڑوں لوگ خاص طور سے بچے بھوک پیاس سے ہلاک ہوچکے ہیں۔ تمام اسپتال تقریباً تباہ ہو چکے ہیں۔ اسرائیل نے غزہ کے لوگوں کو اپنے اپنے علاقوں سے نکل کر صحرائے سینا سے ملے ہوئے غزہ کے جنوب مغربی شہر رفح میں پناہ لینے پر مجبور کردیا ہے لیکن وہ وہاں بھی اسرائیلی حملوں سے محفوظ نہیں ہیں۔ موجودہ جنگ سے پہلے غزہ میں روزانہ ۵۰۰ٹرک کھانے اور ادویات وغیرہ کے داخل ہوتے تھے‘ اب وہاں صورت حال نہایت ابتر ہے۔ اسرائیلی حملوں میں سینکڑوں صحافی قتل ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر فلسطینی ہیں۔
عالمی ردّ ِعمل
جنوبی افریقہ نے ہیگ میں واقع بین الاقوامی عدالت میں اسرائیل کے خلاف مقدمہ دائر کیا کہ وہ غزہ میں نسل کشی کا ارتکاب کررہا ہے۔ بین الاقوامی عدالت نے اسرائیل کی سرزنش کی اور اس کو نسل کشی روکنے کو کہا لیکن اس کا اسرائیل پر کوئی اثر نہیں ہو رہا ہے‘ کیونکہ اس کو امریکہ اور مغربی ممالک خصوصاً جرمنی اور برطانیہ کی پوری پشت پناہی حاصل ہے۔ اسی جنگ کے دوران اسرائیل کو بچانے کے لیے امریکہ متعد د بار اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں جنگ بندی کی قرار داد کے خلاف ویٹو استعمال کرچکا ہے۔ نیز جنگ کے دوران اسرائیل کی بھرپور جنگی اور مالی مدد کررہا ہے۔ جنگ کے شروع ہوتے ہی امریکہ نے اپنے دو بحری بیڑے علاقے میں بھیج دیے تاکہ کوئی ملک اسرائیل کے خلاف جنگ میں شامل نہ ہو سکے۔
نسل کشی کے مقدّمے کے علاوہ ‘دنیا کے ۵۲ ممالک نےبین الاقوامی عدالت میں اسرائیل کے خلاف ایک اور مقدمہ دائر کیا کہ غزہ ‘ مغربی پٹی اور بیت المقدس پر ۱۹۶۷ءسے جاری اسرائیلی قبضہ ہٹایا جائے۔ افسوس ہے کہ مقدمہ زیادہ تر غیرعرب اور غیر مسلم ملکوں نے دائر کیا۔ غزہ کی جارحیت کی وجہ سےمتعدد غیر مسلم ملکوں نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات توڑ لیے ہیں لیکن کسی عرب یا مسلم ملک کو یہ توفیق نہیں ہوئی‘ بلکہ کچھ تو در پردہ اسرائیل کی مدد کررہے ہیں۔
اس جنگ کے دوران حزب اللہ اور لبنان کی الجماعۃ الاسلامیۃ نے شمالی اسرائیل پر حملے کیے ہیں۔ عراق کی کچھ ملیشیا نے بھی اسرائیلی اور امریکی ٹھکانوں پر حملے کیے ہیں۔ یمن کی انصار اللہ حکومت نے باب المندب اور بحر احمر سے اسرائیلی بحری جہازوں یا اسرائیل سامان لے جانے والے بحری جہازوں پر پابندی لگا دی ہے اور اس طرح کے کچھ بحری جہازوں پر حملہ بھی کیا ہے۔ اسی وجہ سے یمن پر امریکہ اور برطانیہ مستقل حملے کر رہے ہیں۔
سارے نقصانات کے با وجود موجودہ جنگ نے اسرائیل کے خلاف پاسا الٹ دیا ہے۔ اسرائیل کے فوجی تفوق کا دعویٰ اور اس کی بنیاد پر عربوں کا بلیک میل اب قصہ ٔ پارینہ بن چکا ہے۔ سفارتی طور پر اسرائیل کو ہر جگہ منہ کی کھانی پڑ رہی ہے۔ عرب ممالک سے اسرائیل کے تعلقات کی گاڑی رک چکی ہے۔ فلسطین کا مسئلہ اب دو بارہ عرب اور مشرق وسطیٰ کی سیاست کا اولین مسئلہ بن چکا ہے۔ حماس اور فلسطینی مزاحمت کو اب کوئی نظر انداز نہیں کر سکتا ۔ غزہ اور حماس نے اسلامی تاریخ میں ایک سنہری باب کا اضافہ کیا ہے‘ جو عین جالوت اور حطین کی طرح صدیوں یاد رکھا جائے گا۔
قرآن کریم میں سور ۃ الاسراء کی آیات ۴تا۸ میں بتایا گیاہے کہ بیت المقدس میں یہودی تین بار سرکشی کریں گے اور تینوں بار اللہ پاک ان کو سخت سزا دیں گے۔ اب تک دوبار ہو چکا ہے (۵۸۷قبل مسیح اور ۷۰عیسوی) جبکہ ایک سرکشی ابھی باقی ہے۔ اس سرکشی پر بھی ان کی پہلے کی طرح سرکوبی کی جائے گی۔ شاید اس کا وقت آگیا ہے۔ آج پہلی باردنیا بالخصوص ایشیا ‘ افریقہ اور جنوبی امریکہ کے اکثر ممالک اسرائیل کے خلاف ہیں۔ مغربی ممالک کے بہت سے باشندے اسرائیل کے خلاف کھڑے ہیں اور اپنی حکومتوں کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔ اپنی تاریخ میں آج پہلی دفعہ اسرائیل اکیلا کھڑاہے۔ اس کے جھوٹوں کا گھڑا پھوٹ چکا ہے۔
(تشکّر: ماہنامہ معارف‘ اعظم گڑھ‘ انڈیا۔ اپریل ۲۰۲۴ء)