(دعوتِ فکر) کیا ابتدائی دور کا انسان جنگلی تھا؟ - رضی الدین سیّد

10 /

کیا ابتدائی دور کا انسان جنگلی تھا؟رضی الدین سیّد

لادینی دانشوروں نے یہ بات زور شور سے پھیلائی ہے کہ ابتدائی انسان اپنے جسم ڈھانپنے کے لیے پتےاستعمال کرتےتھےاور جنگلوں میں ٹھکانا بناتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اولین انسان حضرت آدم علیہ السلام زمین پر آنے سے پہلے جنت کی نعمتوں بھری دنیا میں رہاکرتے تھے۔ انہیں حریرو ریشم کے لباس اور سونے کے تاج پہنائے گئے ہوں گے اور کھانے کے لیے ہمہ قسم کے پھل اور پرندوں کے گوشت دیےجاتے رہے ہوں گے۔ قرآن حکیم میں جنت کی بعض نعمتوں کا ذکر بایں الفاظ ہوا ہے:
{وَفَاکِہَۃٍ مِّمَّا یَتَخَیَّرُوْنَ(۲۰) وَلَحْمِ طَیْرٍ مِّمَّا یَشْتَہُوْنَ(۲۱)} (الواقعۃ)
’’اور پھل جو وہ پسند کریں‘اور پرندوں کے گوشت جو انہیں مرغوب ہوں ۔‘‘
انہیں اگر اللہ تعالیٰ اپناخلیفہ بناکر زمین پربھیجے گا تو کیا کھانے کو کچا گوشت ‘ تن ڈھانپنےکو پتے اور رہنے کو جنگل فراہم کرےگا؟ اتنی بڑی ذمہ داری ان حالات کے ساتھ عطا کرے گا؟ کیا اس حوالے سے اللہ تعالیٰ بے فکر تھا ؟پھر تو وہ بہت ناانصاف ہوا کہ اپنے ہی مسجودِ ملائک بندے کے ساتھ ایسا ظلم ِعظیم کیا! حضرت آدمؑ اور اماں حواؑ دونوں بے چارے بارش ‘ سردی اور گرمی میں جنگلوں ‘ غاروں‘ درختوں پر رہتے تھے۔موسمی حالات سے بچائو کے لیے موٹی کھال استعمال کرتے تھے ‘ اور کچا گوشت کھاتے تھے۔ عام عقل میں یہ بات بھلا کہاں سماتی ہے؟ کیا کوئی انسان کبھی کچا گوشت بھی کھا سکتاہے؟یہ نہ تو اس کی فطرت میںہے اور نہ اس کا جسم ہی اس انداز کا تشکیل دیاگیاہے‘خواہ وہ دنیا کا سب سے پہلا انسان ہی کیوں نہ ہو۔بس ایک سبق ہے جوآج تک مسلسل رٹایا جارہا ہے۔
حضرت نوح علیہ السلام ‘جنہیں آدم ثانی کہا جاتا ہے‘ قرآن بتاتا ہے کہ ان کا گھر اتنا بڑا تھا کہ تمام پیرو کار‘ تیس یا چالیس جو کچھ بھی ہوں‘ اسی گھر میں پناہ لیے ہوئے تھے۔{وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًا وَّلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ط}(نوح:۲۸)۔ حضرت نوح علیہ السلام کا دور آج سے لگ بھگ ۶۰۰۰ سال قبل کاتو ضرور ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اُس وقت تک انسان نے کافی ترقی کر لی تھی۔ یہ سب محض افسانے ہیں جو دہریوں اور خدا بیزار لوگوں نے ہم سب کے ذہن میں پیوستہ کردیے ہیں۔اللہ تعالیٰ کی صفت تویہ ہے کہ نیک و صالح بندوں کو وہ اپنی خاص الخاص حفاظت اور نعمتوں میں رکھتا ہے۔ آدم علیہ السلام تو بڑے مرتبے والے پیغمبر تھے ۔ایک اجنبی دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے اللہ تعالیٰ انہیں اپنی وحی ٔ متواتر کے ذریعے بہت کچھ ہدایات بھی دیتاہوگا‘جو ان تک حضرت جبریل علیہ السلام ہی لاتے ہوں گے ۔ جب اللہ تعالیٰ انہیں درخت کاپھل چکھنےکے بعد کا گناہ معاف کروانےکے لیے کلمات سکھا سکتا ہے تو اس نے انہیں کھانے پینے اور مکان بنانے کی تراکیب کیوں نہیں القا کی ہوں گی؟ یہ بات خلافِ عقل ہے کہ اس لق ودق دُنیامیں اللہ تعالیٰ اپنے خلیفہ ٔخاص کو اتارے اور پھر ہدایت کے لیے فرشتے کو ایک بار بھی ان کے پاس نہ بھیجے!
لادین مفکرین یہ حقیقت جان بوجھ کر بھلا دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جب آسمان سےسب سے پہلے انسان کو اتاراتھا تو وہ محض مٹی کی ایک بےجان مورت نہیں تھابلکہ ایک متحرک جسم و جان رکھتاتھا۔اس کےہاتھ اور پیر بھی مضبوط تھے اور وہ مشقت بھی خوب کرسکتا تھا۔ اسی کے ساتھ وہ عقل سلیم کا بھی مالک تھا۔ بے شک اُس دور کا انسان آج کے دور کی مانند سائنسی دماغ نہ رکھتاہو گالیکن ہر طرح کا فرق ملحوظ خاطر رکھنے کے باوجود وہ عقل سے بالکل عاری ہرگز نہ تھا۔ اسی باعث اسے جانورنہیں بلکہ انسان کہاگیا تھا۔ اب ظاہر ہے کہ اگر انسان کے پاس عقل ہوگی تو وہ اسے استعمال بھی کرےگا‘ کیوں کہ عقل کی فطرت ہی یہ ہے کہ وہ اپنے اظہار کے لیے بے چین رہتی ہے۔ سو اگر اس پہلے انسان کے پاس عقل ہو گی تو اپنے رہن سہن کی خاطر وہ سوچ بچار بھی کرے گا‘نت نئے راستے بھی کھولے گا‘ او رکوئی نیا راستہ بھی دریافت کرے گا۔
کسی چٹیل میدان میں ایک کچا سا مکان بنانے کے لیے آخر کون سی انجینئرنگ کی ڈگری درکار ہوتی ہے ؟ گارے ‘روڑےاور پتھر کی چاردیواری‘ اوپر گھاس پھوس اور کھچیوں کی ایک چھت ہی تو ڈالنی ہوتی ہے۔ یوںایک گھر تیار ہوجاتا ہے۔ تھر کے علاقے میں چٹائیوں‘ سرکنڈوں‘ لکڑیوں‘ اور گھاس پھونس سے بنی ہوئی مخصوص جھگیاں آج بھی بے شمار ملتی ہیں جہاں کے دیہاتی صدیوں سے آرام و سکون کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ بھلا کوئی سوچے کہ عقل رکھنے کے باوجود قدیم دور کا انسان آخر کیوں غاروں‘ بھٹوں اور جنگلوں میں جانوروں کی مانند رہائش رکھتا ہوگا! اللہ تعالیٰ نے آسمان سے کیا ‘عقل و خرد سے بالکل آزاد ‘جنگلی‘ وحشی اور احمق انسان بھیجے تھے؟ معاذ اللہ! چلانی تو اسے تھی وسیع و عریض دنیا‘کام اس نے انسان کودیاتھا کٹھن ترین مگر مال اتارا تھااس نے حد درجہ تھرڈ کلاس؟ کون سی عقل بھلا اس مفروضے کوتسلیم کرسکتی ہے؟ دنیا میں کوئی ادارہ اگر کسی دوسرے شہر میں اپنی نمائندگی کے لیے کسی کو روانہ کرے گا تو وہ ایک قابل ترین فرد ہی کو بھیجے گا۔ یہ ایک بالکل فطری و عقلی بات ہے۔ عجیب بات ہے کہ دنیا چلانے کے لیے اللہ تعالیٰ جب کسی کو یہاں بھیجے گاتو ڈھونڈ ڈھونڈ کے ردی و بے کارمال ہی اتارے گا ! کیا وہ علیم و خبیر نہیں ہے؟
ایک اور صفت جس سے اللہ تعالیٰ نے انسان کوبالکل اس کی ابتدا ہی میں نوازاتھا‘وہ اس کے زبانی اظہار کی صلاحیت تھی۔ انسان اپنے آغاز سے آج تک بولتا ہی رہا ہے ‘اسی لیے اسے حیوانِ ناطق بھی کہا جاتا ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے سورۃ الرحمٰن کے آغاز ہی میں بتایا ہے کہ {خَلَقَ الْاِنْسَانَ (۳) عَلَّمَہُ الْبَیَانَ(۴) }  یعنی خدائے رحمٰن نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بیان کرنے کی صلاحیت دی ۔ یہ آیت خاص نبی آخر الزمان ﷺ کے لیے نہیں اُتری بلکہ اس میں لفظ ’’انسان‘‘ انفرادی طور پر استعمال ہواہے ۔لہٰذا صرف اسی ایک خصوصیت کے ساتھ ہی انسان اپنی بہت ساری مشکلات حل کرنے کے قابل ہوتاہے۔
انسان پر اللہ تعالیٰ نے ابتدا ہی سے لباس کا احساس بھی نازل کیاتھا:
{یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِکُمْ وَرِیْشًاط} (الاعراف:۲۶)
’’اے آدم کی اولاد! ہم نے تم پر لباس اتارا جو تمہاری شرم گاہوں کو ڈھانپتا ہے اور آرائش و زیبائش کا سبب بھی ہے۔‘‘
اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کےاند ر لباس پہننے کے فطری احساس کو الہام کیا ہے۔ا س کے جسم کوچونکہ گھنے بال نہیں دیے گئے‘ اس لیے متبادل کے طور پر اسے لباس کی ضرورت ودیعت کی گئی ہے ۔ا س کی وجہ سے اول تو وہ شرم و حیا کے تقاضے پورے کرے گا اور دوم موسم کی شدت سے بھی خودکو محفوظ رکھے گا۔اللہ تعالیٰ نے لباس اور لوہا بالکل ابتداہی میں اُتاردیاتھا جو ظاہر ہے کہ انسانوں کے استعمال ہی کے لیے تھا۔
یہ سوال تحقیق طلب ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ نے حضرات آدم و حوا کوجنت سے زمین پر بالکل برہنہ اتاراتھا ؟ کیا یہ اس کی شانِ شہنشاہی سے مطابقت رکھتا ہے؟سو اس کے بعد یہ سوال کہاں سے پیداہوتاہے کہ اسے لباس کے بارے میں کچھ بھی پتہ نہ تھا۔ حد تو یہ ہے کہ خود تورات میں بھی انہیں زمین پر عریاں حالت میں اتارنے کا ذکر نہیں ہے۔ کتاب تورات پیدائش کے مطابق : ’’خداوند خدا نے حیوان کےچمڑے سے پوشاک بناکر آدم کو اور اس کی بیوی کو پہنایا ۔‘‘ (پیدائش۔۳:۲۱)
ایک نہ بھولنے والی حقیقت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو ایک خصوصی صفت الگ سے بھی عطا کی تھی‘ اور وہ تھی علم کی۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں پر واضح کردیا تھا کہ آدم ؑ کو ہم نے ہر قسم کے علم سے مزین کیا ہے۔ یہ ایک ایسی صفت ہے جو دنیا کے پہلے انسان کو ہر قسم کے معاملات و حالات کے سلجھائو میں یقیناً مدد دیتی ہوگی۔
ایک صحت مند جسم‘ متحرک ہاتھ پائوں ‘ عقل سلیم‘ علم ِاشیاء‘ علم اسماء‘ اورایک صاف سیدھی راہ! اس پر مزید یہ کہ الہامی ہدایات بھی‘یعنی غلط اور صحیح کے فرق کی درست شناخت کی حس ۔اس کے بعد پہلا انسان بھلا کہاں سے ٹھوکر کھائے گا؟ کیوں درختوں کے پتے چبائے گا؟ کیوں جانور کی کھالوں سے تن ڈھانکے گا؟ کیسےوقت گزاری کرے گا؟کس لیے غاروں میں جاکر سویا کرےگا؟ پھر دو تین نسلوں بعد تو عقل و ذہن از خودمزید ترقی کرتے ہیں۔ اگر بالفرض وہ کھا ل بھی پہنے گاتو اس مقصد کی خاطر اسےکوئی جانور ذبح کرنا پڑےگا جس کے لیے چھرے اور بغدے کی ضرورت پڑے گی۔چنانچہ نت نئے مسائل اُبھرتے ہیں تو نت نئے حل بھی دریافت ہوتے ہیں۔ چند عشروں کے بعد کا انسان ‘ اپنے پہلے والے انسان سے کہیں زیادہ معتبر‘ کہیں زیادہ عاقل اورکہیں زیادہ مہذب بنتا جاتا ہے۔ ہر اگلے دور میں‘انسان سہولتوں اور تعمیرات و ترقیات کے حوالے سے نت نئی جدتیں پیدا کرکے سہولتوں پر سہولتیں حاصل کرتا چلاگیا ہوگا۔
ایک اور حقیقت یہ بھی ہے کہ زمین پر اتارے جانے سے قبل اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو ایک پاکیزہ بیوی بھی عطا کی تھی ‘جو نسل انسانی کی افزائش کے ساتھ آپؑ کی مشکلات میں بھی دم ساز و ہم رازبنی رہی تھیں۔ان کا ایک مکمل خاندان تھا ‘ اور وہ باہمی گفتگو کی خاطر کوئی زبان بھی استعمال کرتے ہوں گے!
دنیا کی پہلی کشتی حضرت نوح علیہ السلام سے منسوب ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ کشتی { ذَاتِ اَلْوَاحٍ وَّدُسُرٍ(۱۳)} (القمر) ’’ تختوں اور کیلوں والی ‘‘ تھی۔ سوال پیداہوتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کو اس کشتی کا ڈیزائین کس نے سمجھایا تھا جو نہ صرف پانی میں نہیں ڈوبے بلکہ سینکڑوں انسانوں اور جانوروں کو بھی لے کر بحفاظت طویل سفرکرے؟ یہ سارے مراحل اللہ تعالیٰ کی وحی کی روشنی ہی میں تکمیل تک پہنچ رہے تھے‘حالانکہ اس کی تفصیل کہیں موجود بھی نہیں ہے۔ اس سے ثابت ہوتاہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے پُرسکون اور محفوظ زندگی گزارنےکے تمام طریقے وحی کے ذریعے ہی سمجھائے ہوں گے اگرچہ اس کی بھی کوئی تفصیل کتابوں میں نہیں ملتی ۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نے جب ملکہ بلقیس کو اپنے محل میں دعوت دی تھی تو محل کا فرش اس قدر شفاف و شیشے کی مانند تیارکروایا تھا کہ خود ملکہ بھی اس سےدھوکا کھا گئی تھی۔ پھرلوہا تھا جس کا استعمال بھی ازمنۂ قدیم میں حضرت دائود علیہ السلام کے دورسے شروع ہوچکا تھا۔ سیسے کی دھات حضرت ذوالقرنین کے دورسےبھی قبل زیر استعمال تھی ۔ سیسے کی بے حد پختہ و اونچی دیوارجو حضرت ذوالقرنین نے کسی قوم کے لیے تعمیر کی تھی ‘ وہ بھی تین چار ہزار سال پہلے کی ذہانت‘ عقل‘ اورآرٹ کا لاجواب نمونہ تھی ۔ وہ دیوار (سَد) تو تاحال موجود ہے۔ مطلب یہ ہے کہ انسان ان دھاتوں اور ان سے متعلق ہنر کا استعمال ماقبل ِتاریخ بھی اپنی انتہا تک سیکھ چکا تھا ۔ پھر کیسے کوئی جاہل و متعصب دانش ور اس صدی میں بیٹھ کر یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ ابتدائی دور کا انسان بد تہذیب اور زندگی گزارنے کے احسن طریقے سے قطعی طورپرلاعلم تھا؟ عقل ان مفکرین کےجعلی مفروضوں کی تائید کرنے سے قاصر ہے ؟ہمارے پاس تو الحمد للہ ‘قدیم ترین دورِ تہذیب و تمدن تک کے باقاعدہ ثبوت اور حوالے موجودہیں۔
حضرت آدم و حضرت شیث علیہما السلام کی دنیا کے بالکل ابتدائی دورکے لوگ آخرسروں کےبال بھی توکٹواتے ہوں گے۔ پیروں تک پہنچے ہوئے بال بھلا کوئی کہاں تک سہارسکتا ہے؟ایسے میں زندگی مشکل ہو جاتی اورنقل و حرکت ممکن نہیں رہتی۔ تو وہ کون سا آلہ یا اوزار‘یا ہتھیار تھا جس کی مدد سے وہ اپنے لمبے لمبے بال چھوٹے کروایا کرتے تھے؟ صاف ظاہر ہے کہ اپنے دور تک کی ضرورت کے تمام آلات و اوزار ’’ غاروں میں رہتے اور جانور کی کھالوں سے جسم ڈھانکنے والوں‘‘ نے دریافت کرہی لیے تھے ۔ اسی سے اس دور کےانسان میں عقل وذہن کی موجودگی کا واضح پتہ ملتاہے۔
یہ فلسفہ بھی زور شور کے ساتھ بیان کیا جاتاہے اور ساتھ میں فرضی تصویریں بھی دکھائی جاتی ہیں کہ شروع شروع میں انسان اپنے چاروں ہاتھوں کے ساتھ چلتا تھا اور اس کے جسم پر جانوروں کی مانند گھنے بال بھی تھے۔ پھر ماحول سے مطابقت رکھنے کی خاطر ہر سو ‘دوسو سال بعد وہ کھڑا ہونے کے قابل ہوا۔ پہلے و ہ کچھ جھک کر چلا اور بعدازاں مزید سیدھا ہوا ۔تا آنکہ چھ سات سو سال بعد وہ بالکل سیدھا کھڑاہوگیا اور اس کے گھنے بال بھی ختم ہوگئے۔ ہم بتانا چاہتےہیں کہ کوئی بھی انسان سو ‘دوسوسال تک مسلسل جھک کر نہیں چل سکتا۔یہ ناممکن ہے۔فرضی تصویروں کا مطلب ہی یہ ہے کہ ان سے اپنے لیے دلیلیں حاصل کی گئی ہیں۔یہ سب کی سب کہانیاں ہیں۔
سوالات پر سو الات ہیں جن کے معقول جوابات کے لیے لادین دانشور ‘ ہونٹوں کو سیے بیٹھے ہیں۔ ایک شغل چھیڑ دیتے ہیں اور دنیا کو اس کی بھول بھلیوں میں گم کردیتے ہیں۔ پھر جب ان کے آگے عقل و دانش کے سوالات رکھے جائیں تو منہ میں گھنگنیاں ڈال کر بیٹھ جاتے ہیں۔
مغربی فاضلین حضرت آدم علیہ السلام کو بے شک جو چاہے کہتے رہیں‘ انہیں اللہ کا پیغمبر تسلیم نہ کریں‘ بلکہ انسان ہی تسلیم نہ کریں‘مگر ہم انہیں دنیا کے شریف ترین ‘ مہذب ترین‘ صاحب ِعلم‘ مسجود ِملائک‘ اشرفُ المخلوقات‘ خالق کے پیغام کے داعی‘ اور اپنی اہلیہ کے ساتھ دنیا کو آباد کرنے والے کامیاب معمار کے طور پر تسلیم کرتے ہیں جن کے بعد دنیا نے ایک لاکھ سے زائد افضل ترین انبیاء اور کروڑوں صالح ترین شخصیات کو پایا ہے ۔
کس قدر عجیب بات ہے کہ عقل کی باتوں کو بنیاد بنانے والے سائنس دان ‘ فخر سے خود ہی غیر سائنسی دعوے کرتے ہیں اور ذرا نہیں شرماتے!