(رفتارِکار) ڈاکٹر اسرار احمد ؒ کا پہلا دورئہ امریکہ - ڈاکٹر سید ساجد حسین

14 /

ڈاکٹر اسرار احمدؒ کاپہلا دورئہ امریکہ
اور
اسلامک سوسائٹی آف بالٹی مور
ڈاکٹر سیدساجد حسینڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ پہلی مرتبہ اگست ۱۹۷۹ء میں امریکہ تشریف لائے۔ اپنے اس سفر کی روداد ’’امریکہ میں ڈیڑھ ماہ‘‘ کے عنوان سے رسالہ ’’میثاق‘‘ کے جنوری‘ فروری ۱۹۸۰ء کے شمارہ میں تفصیل سے لکھی ہے۔
ڈاکٹر شوکت یوسف خان (تمغۂ امتیاز) کی ملاقات ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے ساتھ ۱۹۷۸ء میں لاہور میں ہوئی تھی۔ اس ملاقات میں ڈاکٹر شوکت خان نے ڈاکٹر صاحبؒ کو امریکہ آنے کی دعوت دی اور امریکہ واپس آ کر’’ اسلامک سوسائٹی آف بالٹی مور‘‘ (Islamic Society of Baltimore) کی طرف سے بحیثیت صدر اور ڈاکٹر جاوید شفیع‘ سیکرٹری کے دستخطوں سے باضابطہ دعوت نامہ ارسال کر دیا۔بعد ازاں عظیم الرحمٰن خان صاحب صدر منتخب ہوئے تو انہوں نے بھی گزشتہ دعوت نامہ کی تجدید کی اور سوسائٹی کی طرف سے پی آئی اے کا دو طرفہ ٹکٹ ارسال کر دیا۔۱۸ /اگست ۱۹۷۹ء کو ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ کی لاہور سے روانگی ہوئی اور ۲۱ /اگست ۱۹۷۹ء کو بالٹی مور‘ امریکہ آمد ہوئی۔ یہ رمضان کا آخری عشرہ تھا۔
بالٹی مور میں ڈاکٹر صاحب کا قیام زیادہ تر میرے غریب خانہ پر رہا جو کہ میرے لیے باعث عز و افتخار ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس بارےتذکرہ بایں الفاظ کیا ہے:
’’بالٹی مور اور واشنگٹن کے مابین اگرچہ ساٹھ ستر میل کا فاصلہ ہے‘ لیکن امریکہ کے حساب سے انہیں جڑواںشہر قرار دینا غلط نہ ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں کا انٹرنیشنل ایئرپورٹ مشترکہ ہے جو دونوں کے تقریباً درمیان میں واقع ہے۔ اس علاقے میں مَیں پورے دس دن گھومتا رہا‘ یعنی ۲۲ اگست تا یکم ستمبر ۔ اس دوران میرا قیام زیادہ تر سید ساجد حسین صاحب کے مکان پر رہا۔ یہ یوپی کے ضلع فتح پور سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے دادا گورنمنٹ کنٹریکٹر تھے اور انہوں نے ذاتی محنت سے بہت اونچا مقام حاصل کرلیا تھا‘ یہاں تک کہ ان کے نجی مراسم مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ابوالکلام آزاد ایسے اعاظم رجال سے تھے .... ان دنوں ان کے ساتھ ہی عبدالقیوم صاحب بھی مقیم تھے‘ جن کا تعلق حیدر آباد دکن سے ہے اور جو بالٹی مور کی میونسپل کمیٹی میں کسی اچھے عہدے پر فائز ہیں۔ اتفاق سے ان دونوں حضرات کے بچے ان دنوں پاکستان آئے ہوئے تھے۔ نتیجتاً ان کا ’’خانہ خالی‘‘ ’’غریب الدیار‘‘ لوگوں کی قیام گاہ بن رہا تھا۔ ان کے یہاں جو بستر مجھے ملا‘ معلوم ہوا کہ اسی پر مجھ سے کچھ ہی دن پہلے جناب نعیم صدیقی اور ان سے چند روز قبل برادرم خرم جاہ مراد سوتے رہے ہیں۔ سید ساجد حسین اور جناب عبدالقیوم دونوں ہی نہایت مخلص مسلمان ہیں۔ ان کی محبت بھری مہمان نوازی عرصہ دراز تک یاد رہے گی۔
۲۲ اور۲۳ دو دن آرام کرتے ہوئے گزرے۔ ۲۲ کی افطاری ہم سب نے عظیم الرحمٰن خان کے مکان پر کی۔۲۴ اگست کو جمعہ بھی تھا اور عید الفطر بھی۔ عید الفطر کی نماز میں نے بالٹی مور کے وسط شہر سے بہت قریب واقع اس کھلے پلاٹ میں پڑھائی جو وہاں کی اسلامی سوسائٹی نے اسلامی مرکز کی تعمیر کے لیے خرید لیا ہے۔‘‘
(ماہنامہ میثاق: جنوری‘ فروری۱۹۸۰ء)
اسلامک سوسائٹی آف بالٹی مور ۱۹۶۹ء میں قائم ہوئی‘ لیکن اس کی اپنی کوئی جگہ یا عمارت نہیں تھی۔ مختلف مسلم ممالک سے ہجرت کر کے آنے والوں کی تعداد شہر اور اس کے گرد و نواح میں مختصر تھی۔ دینی تعلق قائم کرنے کے خواہاں کچھ افراد ہر اتوار کو باجماعت نماز ظہر اور تفسیر قرآن کے لیے Johns Hopkins University(جان ہاپکنز یونیورسٹی) کے Shaffer Hall(شیفر ہال) میں جمع ہوتے تھے۔ یہ سلسلہ کئی سالوں تک جاری رہا۔۱۹۶۹ء میں چند افراد نے جو کہ پابندی سے نماز ظہر اور تفسیر قرآن کے لیے شیفر ہال میں فعال تھے‘ اسلامک سوسائٹی آف بالٹی مور کا باضابطہ اجراء کیا۔دینی سرگرمیاں البتہ شیفر ہال تک محدود تھیں۔ گاہےگاہے کچھ اجتماعات لوگوں کے گھروں میں منعقد ہوتے تھے۔
اس بات کی ضرورت شدت سے محسوس ہوئی کہ مسلمانوں کی اپنی کوئی معقول جگہ یا عمارت ہو جو مسجد ‘ دینی فرائض اور سوشل مقاصد کے لیے استعمال ہو سکے۔۱۹۷۶ء میں باوجود محدود مالی وسائل کے ‘ایک قطعہ اراضی اسلامک سوسائٹی آف بالٹی مور کے لیے خریدا گیا۔ زمین کے حصول اور فنڈ ریزنگ میں ڈاکٹر مشتاق احمد خان کا انہماک اور خلوص فقید المثال تھا۔
ڈاکٹر اسرار احمدؒرمضان کے آخری عشرہ میں بالٹی مور آئے۔ کمیونٹی میں کچھ لوگوں نے خواہش ظاہر کی کہ کیوں نہ ہم لوگ عید الفطر کی نماز مسجد کے لیے خریدی گئی زمین پر ادا کریں جہاں ڈاکٹر اسرار احمد عید کا خطبہ دیں اور امامت کریں۔چنانچہ اس قطعہ زمین کے مختصر سے حصے کی جھاڑیاں اور خودرَو درخت صاف کر کے پلاسٹک کی شیٹ اور چادریں بچھا کر نمازِ عید کے لیے جگہ تیار کی گئی۔
ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے عید الفطر کی نماز پڑھائی اور خطبہ دیا۔ یوں اسلامک سوسائٹی آف بالٹی مور کی مسجد کی زمین پر پہلی باجماعت نماز اور دینی اجتماع سے خطاب کا اعزاز قدرت نے ڈاکٹر اسرار احمدؒ کو عطا کیا۔آج اگر ڈاکٹر صاحب حیات ہوتے تو اس زمین پر جہاں انہوں نے کھلے آسمان کے نیچے پہلی باجماعت نماز اد اکی تھی وہاں منبر و محراب اور گنبد و مینار کے ساتھ مسجد کی شان و شوکت دیکھ کر انتہائی مسرور ہوتے۔ مجھے یقین ہے کہ ان کی روح شادمان ہو گی۔ ؎
ایں سعادت بزور بازو نیست تا نہ بخشد خدائے بخشندہ’’مسجد الرحمہ‘‘ ۱۹۸۲ء میں ابتدائی شکل میں مکمل ہوئی۔ ’’الرحمہ اسکول‘‘ ۱۹۸۷ء اور قرآن اکیڈمی ۱۹۹۹ء میں قائم ہوئی۔ اس وقت ہزاروں مسلمان اس مسجد سے وابستہ اور سینکڑوں بچے دینی اور دنیاوی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔قرآن اکیڈمی سے قاری محمد زاہد اور قاری محمد عابد کی سربراہی میں تقریباً دو سو سے زائد حفاظ فارغ التحصیل ہو چکے ہیں۔
ایک وقت تھا کہ یہاں ماہِ رمضان میں تراویح کے لیے مصر اور پاکستان سے کسی حافظ قرآن کو مدعو کیا جاتا تھا ۔ الحمد للہ‘ اب مقامی حفاظ کی اتنی بڑی تعداد ہے کہ نہ صرف مسجد الرحمہ بلکہ بالٹی مور کے مضافات میں بہت سی دوسری مساجد ‘ مصلیٰ اور گھروں میں قرآن اکیڈمی سے حفظ کرنے والے بچے تراویح پڑھاتے ہیں۔
شیخ سعد بیگ کی قیادت میں الرحمہ اسکول بچوں کی دینی اور دنیاوی تعلیم و تربیت میں  حتی المقدور کوشاں ہے۔شیخ یٰسین شیخ لیڈ ریذیڈنٹ اسکالر (Lead Resident Scholar) ہیں۔ وہ اسلامیات‘ سیرت النبی‘ تعلیم بالغاں‘ کونسلنگ اور اشاعت دین کے لیے بین المذاہب مذاکرات وغیرہ کی ذمہ داری بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں۔ شیخ عصمت (Ismet Akcin) نمازوں کی امامت اور دیگر شرعی مسائل سے متعلق ذمہ داری بخوبی انجام دے رہے ہیں ۔ان کا تعلق ترکی سے ہے۔ وہ ایک مستند قاری ہیں۔ ان کی قراءت کی رِقت سے سامعین مسحور ہوجاتے ہیں۔
شیخ محمد احمد ایک نوعمر عالم دین ہیں ‘جو نوجوان بچوں کے لیے مختلف دینی پروگرام نہایت ولولہ اور جوش خروش سے انجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر رائد عوض اللہ ریذیڈنٹ اسکالر اور مفسر قرآن ہیں۔ ان کا تعلق فلسطین سے ہے۔ عربی زبان کے اسرار و رموز سے بخوبی واقف ہیں۔ ان کے تفسیر قرآن کے حلقے میں لوگ باقاعدگی سے شامل ہوتے ہیں۔عالمہ مریم اسماعیل خواتین کی اسلامی تعلیمات‘ دینی مسائل اور کونسلنگ کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔
الغرض قرآن اور سُنّت کی روشنی میں دینی تعلیم و تربیت کے فرائض مستند عالم دین اساتذہ بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں۔
دینی تعلیم و تربیت اور احکامِ شریعت کی پیروی کے علاوہ اسلامک سوسائٹی آف بالٹی مور میڈیکل کلینک بھی چلا رہی ہے جہاں بلاتخصیص مذہب ضرورت مند لوگوں کا مفت علاج ہوتا ہے۔ ڈاکٹر انورکھوکھر اس کے روحِ رواں ہیں۔ ان کے علاوہ کئی اور مسلم ڈاکٹر بھی فلاحی جذبہ اور انسانی ہمدردی کے تحت خدمات انجام دے رہے ہیں۔
گزشتہ نصف صدی میں بے شمار لوگوں نے نہایت خلوص اور دینی جذبہ کے ساتھ اسلامک سوسائٹی آف بالٹی مور کے کو نسل اور بورڈ میں رضاکارانہ خدمات انجام دیں۔ جن لوگوں نے کلیدی خدمات انجام دیں ان میں ڈاکٹر مقبول پٹیل اور ڈاکٹر سید حبیب اشرف سر فہرست ہیں۔
ڈاکٹر احمد توری (Dr.Edmund Ahmed Tori)ایک نومسلم ہیں۔ یہ ISB کا حسن اعجاز ہے کہ عیسائیت سے اسلام قبول کرنے والا یہ مردِ مؤمن نہ صرف یہ کہ خود باعمل مسلمان ہے بلکہ کئی بیٹیاں اور بیٹا حافظ قرآن ہیں۔ ڈاکٹر احمد توری نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے ISB کی صدارت کے فرائض بھی احسن طریقے سے انجام دیے۔ عجیب حسن اتفاق ہے کہ ڈاکٹر احمد توری کی زوجہ ڈاکٹراَسماء شیخ میرے دیرینہ رفیق اور عزیز دوست حافظ منظور شیخ کی صاحب زادی ہیں۔
اسلامک سوسائٹی آف بالٹی مور کا امریکہ میں ایک منفرد اور تاریخی مقام ہے۔ فروری ۲۰۱۶ء میں امریکہ کے سابق صدر باراک اوباما بحیثیت مہمان خصوصی ISB تشریف لائے اور مسلم کمیونٹی و حاضرین مسجد کو خطاب کیا۔امریکہ کی دو سو سالہ تاریخ میں صرف تین مرتبہ امریکی صدر نے کسی مسجد میں آ کر امریکی مسلمانوں کو خطاب کیا۔۱۹۵۷ءمیں صدر آئزن ہاور اور ۲۰۰۱ء میں صدر جارج ڈبلیو بش نے اسلامک سنٹر واشنگٹن میں بہ نفس نفیس آ کر امریکی مسلمانوں کو خطاب کیا تھا۔
ڈاکٹر اسرار احمد ؒاپنے اس سفر امریکہ کے دوران مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے ملاقات کے شدید خواہش مند تھے‘ جو اُن دنوں بغرضِ علاج امریکہ ہی میں مقیم تھے۔ تاہم مولانا مودودیؒ کی شدید علالت کے باعث ملاقات ممکن نہ ہو سکی۔ ۲۲ ستمبر ۱۹۷۹ء کو بفلو میں مولانا مودودیؒ کا انتقال ہو گیا۔ ’’تحریک جماعت اسلامی:ایک تحقیقی مطالعہ‘‘ کے تتمہ ’’مولانا مودودی مرحوم اور مَیں‘‘ میں ڈاکٹر صاحب رقم طراز ہیں:
’’بہرحال بفلو ایئرپورٹ سے باہر آئے تو معلوم ہوا کہ راستہ وغیرہ کسی کو معلوم نہیں۔ فون پر ڈاکٹر احمد فاروق سے رابطہ قائم کیا تو معلوم ہوا کہ ہمیں پہلے ہی دیر ہو گئی ہے۔ نماز جنازہ ہو چکی ہے اور ’’فیونرل ہوم‘‘ (Funeral Home) والے مولانا کی میت کو لینے کے لیے بس آنے ہی والے ہیں۔ اس اطلاع سے سب پر سراسیمگی سی طاری ہو گئی۔ کیا بفلو پہنچنے کے باوجود نہ مولانا کی نماز جنازہ ادا کرنے کی سعادت حاصل ہو گی‘ نہ ان کا منہ دیکھنا ہی نصیب ہو گا؟ ------- لیکن ڈاکٹر احمد فاروق صاحب کے گھر پہنچنے پر معلوم ہوا کہ الحمدللہ ابھی مولانا کی میت وہیں موجود ہے‘ حالانکہ ہمیں گھر کی تلاش میں اِدھر اُدھر بھٹکنے میں خاصی تاخیر بھی ہو گئی تھی۔
میرے دل کی اُس وقت جو کیفیت تھی وہ بیان سے باہر ہے۔ ایک جانب شدید رنج و صدمہ اور خاص طور پر یہ حسرت کہ مولانا سے ان کی زندگی میں ملاقات نہ ہو سکی اور جو خواہش اس قدر اچانک اور اتنی شدّت سے پیدا ہوئی تھی وہ تشنۂ تکمیل رہ گئی اور وہ بھی اس شان سے کہ( بقول قائم چاند پوری) ؎
قسمت کی خوبی دیکھیے ٹوٹی کہاں کمند
دو چار ہاتھ جب کہ لبِ بام رہ گیا!
دوسری جانب خود مولانا کے بارے میں یہ حسرت آمیز احساس کہ ’’مارادیارِ غیر میں مجھ کو وطن سے دُور!‘‘ یہاں امریکہ میں کتنے لوگوں کو احساس ہو گا کہ آج کون دنیا سے اُٹھ گیا! یہ حادثہ اگر لاہور میں پیش آیا ہوتا تو جو کہرام پورے شہر میں مچا ہوتا اسے چشمِ تصوّر کے سامنے رکھتے ہوئے جب میں نے ڈاکٹر احمد فاروق کے مکان پر جمع گنتی کے چند اشخاص کو دیکھا تو دل میں درد کی ایک شدید ٹیس محسوس ہوئی۔ تیسری جانب خود اپنے بارے میں ایک انجانا سا خوف تھا کہ نا معلوم یہاں میرا استقبال کس طرح ہو۔ ذہناً میں اس کے لیے بھی پوری طرح تیار ہو کر گیا تھا کہ ڈاکٹر احمد فاروق نہایت درشتی کے ساتھ کہہ دیں کہ ’’آپ اب یہاں کیا لینے آئے ہیں؟ گھر میں داخل ہونے کی کوشش نہ کریں!‘‘ اور یوں مَیں باہر ہی سے بصد حسرت و یاس لوٹا دیا جائوں!
لیکن میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب ڈاکٹر احمد فاروق نے میرا استقبال نہایت شریفانہ و مہذبانہ انداز ہی میں نہیں بلکہ حد درجہ ادب و احترام کے ساتھ کیا اور چھوٹتے ہی یہ الفاظ کہے:
’’مَیں نے آپ کا سلام ابّا جان کو پہنچا دیا تھا ------- اور یہ بھی کہ آپ ملاقات کے خواہش مند ہیں۔ ادھر ابّا جان بھی آپ سے ملاقات کے بہت خواہاں تھے لیکن ڈاکٹروں نے شدید پابندی لگائی ہوئی تھی کہ نہایت قریبی اعزّہ کے سوا اور کوئی ملاقات نہ کرے!‘‘
میرے حواس نیم گم سم تو پہلے ہی سے تھے‘ ڈاکٹر احمد فاروق کی زبان سے یہ الفاظ سن کر میں بالکل ہی گم سم ہو کر رہ گیا‘ جس پر خود انہوں نے مجھے مکان کے اندر آنے کی دعوت دی۔ ان کے ڈرائنگ روم میں ایک بنچ پر مولانا کا جسد ِخاکی سفید براق کفن میں لپٹا رکھا تھا۔ بصد حسرت و یاس اُن کا دیدار کیا اور پھر نمازِ جنازہ کے لیے صف درست کی۔ سب لوگوں نے با صرار مجھے ہی امامت کے لیے آگے بڑھایا۔ جو لوگ اس سے قبل نماز ادا کرچکے تھے وہ بھی دوبارہ شریک ہو گئے لیکن اس پر بھی کل تعداد پندرہ بیس کی ہوگی۔ (اُس وقت جو کچھ معلوم ہوا وہ یہ تھا کہ اس سے قبل صرف ایک بار نمازِ جنازہ ہوئی ہے۔ بعد میں روز نامہ جسارت‘ کراچی میں شائع شدہ رپورٹ سے معلوم ہوا کہ اس سے قبل دوبار نماز جنازہ ادا کی جا چکی تھی اور میری امامت میں جو نماز ہوئی وہ تیسری تھی۔ واللہ اعلم!) ------- نماز سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ شور مچ گیا کہ فیونرل ہوم والے آگئے ہیں اور جلدی کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ امریکی قانون کے مطابق میت گھر پر لانے کی اجازت ہی نہیں ہوتی‘ ہسپتال سے لاش سیدھی فیونرل ہوم یعنی ’’جنازہ گاہ‘‘ جاتی ہے اور وہیں غسل اور تجہیز و تکفین ہوتی ہے اور جملہ رسومات ادا کی جاتی ہیں۔ یہ تو چونکہ احمد فاروق خود ڈاکٹر تھے اور ایک عرصے سے بفلو میں مقیم ہونے کے باعث کافی بااثر بھی تھے ‘لہٰذا مولانا کی میت گھر پر آسکی اور تجہیز و تکفین کے مراحل مولانا کی اہلیہ صاحبہ کی نگرانی میں پورے سکون اور اطمینان کے ساتھ طے پا سکے۔ یہ بات پہلے ہی عرض کی جا چکی ہے کہ ’’فیونرل ہوم‘‘ والوں کو کسی سبب سے دیر ہو گئی تھی‘ تب ہی ہم مولانا کی زیارت بھی کر سکے اور نماز جنازہ بھی ادا کر سکے‘ و گرنہ اگر وہ اپنے متعین وقت پر آجاتے تو ہم ان سعادتوں سے بھی محروم ہی رہتے(جیسے کہ ڈاکٹر انیس احمد برادر خرد پروفیسر خورشید احمد محروم رہے‘ اس لیے کہ وہ اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ اس وقت پہنچے جب مولانا کی میت روانہ ہو چکی تھی) ------- بہرحال ڈرائنگ روم سے باہر فیونرل ہوم کی گاڑی تک لانے میں جو مختصر فاصلہ طے ہوا اس میں مولانا کی میت کو کندھا دینے کی سعادت بھی حاصل ہو گئی۔ ‘‘
اس کے بعد ۱۹۸۰ء اور ۱۹۸۱ء کے دورئہ امریکہ و کینیڈا کے دوران بھی ڈاکٹر صاحبؒ نے ڈاکٹر احمد فاروق مودودی سے ملاقاتیں کیں۔
۱۹۸۳ء میں مَیں بفلو (نیویارک) منتقل ہو گیا اور زندگی کے ۳۲ سال وہاں گزر گئے۔ اس دوران ڈاکٹر اسرار احمد صاحب بھی مع اپنے صاحب زادے بفلو تشریف لائے اور کچھ دن غریب خانہ پر قیام رہا‘ جس کی خوش گوار یادیں آج بھی تروتازہ ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کے معتقدین اور چاہنے والوں کا ایک طویل سلسلہ امریکہ اور کینیڈا میں پہلے ہی سے موجود تھا ۔ بفلو سے ٹورنٹو قریب ہونے کی وجہ سے لوگ جوق در جوق ملنے آ رہے تھے۔ ایک دن ڈاکٹر صاحب کو خیال آیا کہ خاتونِ خانہ پر ملاقات کے لیے آنے والوں کی خاطر تواضع کا بار ہو گا۔ چنانچہ مجھے مخاطب ہو کر کہا: ’’ساجد صاحب! جب ہاتھی کو دعوت دیتے ہیں تو دروازہ اونچا کرانا پڑتا ہے۔‘‘
جماعت اسلامی سے علیحدگی نظریاتی اختلاف کی بنا پر ہوئی‘ لیکن شخصی مخاصمت بالکل نہیں تھی۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کا ذکر اور نام احترام سے لیتے تھے۔ بفلو میں قیام کے دوران ڈاکٹر احمد فاروق سید سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ چنانچہ میں نے ڈاکٹر احمد فاروق اور ان کی اہلیہ ثمینہ فاروق کو اپنے گھر پر مدعو کیا۔ ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نہایت گرم جوشی سے ملے اور بہت دیر تک پرانی یادیں تازہ کرتے رہے۔
۱۹۹۲ء میں اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن آف نارتھ امریکہ کی میڈیکل کانفرنس استنبول‘ ترکی میں منعقد ہوئی۔ اس میں امریکہ اور دیگر ممالک سے بڑی تعداد میں ڈاکٹر حضرات نے شرکت کی۔ میں بھی اس کانفرنس میں شریک تھا۔ڈاکٹر اسرار احمد مہمان خصوصی تھے۔ استنبول کی یونیورسٹی کی طرف سے کانفرنس کے شرکاء اور مندوبین کے اعزاز میں ایک عشائیہ کا اہتمام تھا۔ ڈاکٹر اسرار احمد نے اس موقع پر خلافت اور اسلامی نظام کے نفاذ کے موضوع پر تقریر کی۔ یہ بڑی جرأت مندی تھی ‘کیونکہ یہ وہ وقت تھا کہ ترکی میں سیکولرازم کا زور تھا اور بڑی حد تک فوج کی حکمرانی تھی۔ اسلامی نظام اور خلافت کا موضوع ایک شجر ممنوعہ تھا۔
ڈاکٹر صاحب سے اکثر مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی تھی۔ میں نے ایک دن استفسار کیا کہ صدر جنرل ضیاء الحق کے نظام مصطفیٰ اور اسلامی شوریٰ کونسل وغیرہ کے بارے میں ایک عام تاثر یہ تھا کہ وہ اسلام کو سیاسی مصلحت کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ آپ نے اس وقت جنرل ضیاء الحق کی تشکیل کی گئی شوریٰ کونسل میں شرکت کیوں کی؟ ڈاکٹر صاحب کا برجستہ جواب تھا کہ میں  خلوصِ نیت سے شامل ہوا تھا‘ مگر جوں ہی مجھے احساس ہوا کہ اقامت دین سے زیادہ سیاسی مصلحت کارفرما تھی تو میں فوراً ہی الگ ہو گیا۔

ڈاکٹر سید ساجد حسین کو اپنے اس مضمون کی اشاعت کا شدت سے انتظار تھا اور انہوں نے اس شمارے کے ۱۰۰ عدد نسخوں کا پیشگی آرڈر بھی دے رکھا تھا۔ تاہم ‘ کیا کِیا جائے کہ بندہ عاجز ہے۔ جریدہ اشاعت کے آخری مراحل میں تھا کہ جناب سید ساجد حسین کے انتقال کی اطلاع موصول ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُوْن! ان کی نمازِ جنازہ اسی اسلامک سنٹر میں ادا کی گئی جس کا اس رپورٹ میں ذکر کیا گیا ہے۔
ادارہ موصوف کے اہل خانہ سے دلی تعزیت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہے کہ مرحوم کی نیکیوں کو قبول فرمائے‘ ان کی لغزشوں سے درگزر فرمائے اور ان کو اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین!