(فرائضِ دینی) مسئلۂ خلافت کی فرضیت - مفتی عبد الرحمٰن ستی

14 /

مسئلہ خلافت کی فرضیتمفتی عبدالرحمٰن ستی

مسئلہ خلافت کی فرضیت کو سمجھنے سے پہلے کچھ بنیادی مقدمات کو سمجھنا ازحد ضروری ہے ۔ہم ذیل میں تین مقدمات ذکر کرتے ہیں:
پہلا مقدّمہ:قطعی ٔالثبوت اور قطعی ٔالدلالت
شریعت کا وہ حکم جو قطعی(یقینی ) طور پر ثابت ہواور اس کا مفہوم ‘مراد اور اطلاق بھی قطعاً ثابت ہو‘ اسے اصطلاح میں قطعی ٔالثبوت اور قطعی ٔالدلالت کہتے ہیں۔مثلاً آیات ِمحکمہ یا مفسّرہ اور احادیث متواترہ سے ثابت ہونے والاحکم قطعی ٔالثبوت بھی ہے اور قطعی ٔالدلالت بھی ۔
ہمارے نزدیک مسئلہ خلافت‘ آیات ِمفسرہ اورایسی احادیث سے ثابت ہے جن کو تواتر ِمعنوی اور تواتر تعامل کا درجہ حاصل ہےجو قطعیت کا فائدہ دیتا ہے۔امام غزالیؒ(المتوفیٰ : ۵۰۵ھ)لکھتے ہیں:
’’ولكنا نقيم البرهان القطعي الشرعي على وجوبه ولسنا نكتفي بما فيه من إجماع الأمة‘‘ (۱)
’’ہم دلیل قطعی شرعی قائم کرتے ہیں خلیفہ کے تقر ر کی فرضیت پر ‘صرف اجماعِ اُمّت پر اکتفاء نہیں کرتے۔‘‘

دوسرا مقدّمہ :امام ابوحنیفہ ؒ اور ائمہ ثلاثہ (امام مالکؒ‘امام شافعیؒ ‘امام احمد بن حنبلؒ) کے درمیان فرض اورواجب کی تقسیم میں فرق

احناف کے نزدیک فرض اس حکم ِشرعی کو کہتے ہیں شریعت نےجس کے کرنے کا لازمی مطالبہ ایسی دلیل قطعی سے کیا ہو جس میں کوئی شبہ نہ ہواور واجب اُس حکمِ شرعی کو کہتے ہیں:شریعت نے جس کے کرنے کا لازمی مطالبہ ایسی دلیل ظنی سے کیا ہوجس میں شبہ ہو۔
احناف کے نزدیک فرض اور واجب میں فرق
احناف کے نزدیک فرض اور واجب میں درج ذیل حیثیتوں سے فرق ہے:
(۱) فرض دلیل قطعی سے ثابت ہوتاہے اور واجب دلیل ظنی سے۔
(۲) فرض کا انکاری کافر ہے جبکہ واجب کا انکاری کافر نہیں ‘فاسق ہے۔
(۳) فرض پر اعتقاد اور عمل دونوں لازم ہے جبکہ واجب پر اعتقاد لازم نہیں ‘عمل لازم ہے۔
(۴) فرض عمدا ًاور سہواً دونوں صورتوں میں ساقط نہیں ہوتاجبکہ واجب سہواً ساقط ہوجاتا ہے ۔
مالکیہ‘شافعیہ اورحنابلہ کے نزدیک فرض او ر واجب کی کوئی علیحدہ تقسیم نہیں ہے بلکہ ان کے نزدیک جس عمل پر ثواب ہواور چھوڑنے پر عذاب تو وہ واجب(فرض) ہے۔یہ تعریف احناف کے فرض کو بھی شامل ہے اور واجب کو بھی کیونکہ احناف کے نزدیک بھی فرض اور واجب کے کرنے پرثواب ہے اور چھوڑنے پر عذاب ‘لہٰذ ااحناف اور باقی مذاہب کے درمیان فرق صرف اصطلاح کا ہے کہ احناف نے دو علیحدہ اصطلاحات قائم کر لیں فرض اور واجب جبکہ مالکیہ ‘شافعیہ اور حنابلہ فرض اور واجب میں کوئی فرق نہیں کرتے ۔
ہمیں یہ مقدمہ قائم کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ ہمارے ہاں فقہ حنفی پڑھی پڑھائی جاتی ہے۔ جس شخص کے سامنے’’واجب ‘‘کی اصطلاح استعمال کی جائے توفوراً اُس کے ذہن میں یہ تصور قائم ہوتا ہے کہ یہ حکم شرعی(واجب) فرض کے مقابلے میں ادنیٰ ہے اور اگر کوئی صاحب علم ہے تو وہ یہ سمجھتاہے کہ اس کا ثبوت دلیل ظنی سے ہے۔چونکہ اس مضمون میں آپ کومختلف مذاہب (حنفیہ ‘مالکیہ ‘شافعیہ‘حنابلہ)کےائمہ کے ایسے اقوال بار بار پڑھنے کو ملیں گے: ’’نصب الامام واجب‘‘ کہ خلیفہ کا تقرر واجب ہے۔اب جو شخص فقہاء کے درمیان اصطلاح کے فرق سے واقف نہیں وہ اس کا مفہوم غلط اخذ کرے گا۔لہٰذا جب واجب کی اصطلاح مالکی‘ شافعی‘حنبلی عالم ذکر کرےتو وہ بمعنی فرض کے ہی ہو گی۔فرق صرف اصطلاح کا ہے ‘حکم کے اعتبار سے چاروں مذاہب کے نزدیک اس کا تارک فاسق ہے اور عذاب کا مستحق ہے۔
احناف کی تعریف کے مطابق خلافت کا قیام فرض یا واجب؟
ہمارے نزدیک خلافت کا مسئلہ قطعی ٔالثبوت بھی ہے اور قطعی ٔالدلالت بھی‘ لہٰذا اس کا قیام اُمّت پر تین دن تک فرضِ کفایہ اور اس کے بعد فرضِ عین ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ فقہاء احناف میں امام بزدوی الحنفیؒ(المتوفیٰ:۴۹۳ھ)‘ علامہ ابن عابدین شامیؒ (المتوفیٰ:۱۲۵۲ھ)نے فرض کفایہ لکھا ہے اور علامہ کاسانی الحنفیؒ(المتوفیٰ:۵۸۷ھ) نے مطلق فرض لکھا ہے ۔بحث فرضیت کے تحت ہم نے یہ حوالہ جا ت ذکر کیے ہیں۔
لیکن بالفرض اگرکوئی شخص بضد ہے اور وہ کہتا ہےکہ خلافت کاثبوت دلیل قطعی سے نہیں ‘ دلیل ظنی سےثابت(واجب)ہے تو پھر میراا ُس سے سوال ہےکہ جناب احناف نے جو واجب کی تعریف کی ہے اس کے مطابق واجب پر عمل ضروری ہے اور اس کو چھوڑنے والا فاسق ہے۔ کہیں آپ نظامِ خلافت کی جدّوجُہد کو ترک کرکے فاسق تو نہیں ہیں؟چلو واجب ہی سمجھ کر عمل کرو ۔
تیسرا مقدمہ :خلافت کا مسئلہ اصولی یافروعی
شریعت کے احکام کی دو قسمیں ہیں: پہلی قسم اُن احکام کی ہے جن کا تعلق صرف ماننے اور اعتقاد رکھنے سے ہے‘ایسے احکام کو احکامِ اعتقادیہ ‘ احکامِ اصولیہ اور احکامِ کلامیہ کہتے ہیں ‘اِن کوعلمِ عقائد کی کتابوں میں بیان کیا جاتاہے ۔
دوسری قسم اُن احکام کی ہے جن کا تعلق عمل سے ہےجیسے نماز ‘روزہ ‘حج‘ زکوٰۃ وغیرہ ‘اِن احکام کو احکامِ عملیہ ‘ احکامِ فرعیہ اور احکامِ فقہیہ کہتے ہیں‘اِن کو فقہ کی کتابوں میں بیان کیا جاتا ہے۔ جہاں تک مسئلہ خلافت کا تعلق ہے تحقیقی بات یہ ہے کہ یہ مسئلہ اعتقادیہ ‘ اصولیہ نہیں بلکہ عملیہ‘ فرعیہ ‘ فقہیہ ہے۔یہ مسئلہ اصول کا نہیں فروع کا ہے ‘علمِ عقائد کا نہیں علمِ فقہ کا ہے کیونکہ اس کا تعلق عمل سے ہے۔درج ذیل ائمہ متکلمین نےخود اس بات کی صراحت کی ہے:امام غزالیؒ (المتوفیٰ:۵۰۵ھ)(۲) علامہ سیف الدین آمدی ؒ(المتوفیٰ:۶۲۳ھ)(۳) امام ابوالحسن سید الدین الثعلبی الآمدیؒ (المتوفى:۶۳۱ھ)(۴) علامہ تفتازانیؒ(المتوفیٰ:۷۹۳ھ)(۵) كمال الدین ابن ابی شریف شافعیؒ (المتوفیٰ:۹۰۶ھ) (۶)نے ۔
مولانا عبد العزیز فرہاروی لکھتے ہیں:
’’والتحقيق ان بحث الامامة من الفروع ‘‘ (۷)
’’تحقیقی بات یہ ہے کہ مسئلہ خلافت فروعی ہے۔‘‘
علامہ ابن عابدین شامیؒ (المتوفیٰ:۱۲۵۲ھ)لکھتے ہیں:
’’وَلَمَّا كَانَتِ الثَّانِيَةُ مِنَ الْمَبَاحِثِ الْفِقْهِيَّةِ حَقِيقَةً لِأَنَّ الْقِيَامَ بِهَا مِنْ فُرُوضِ الْكِفَايَةِ وَكَانَتِ الْأُولَى تَابِعَةً لَهَا وَمَبْنِيَّةً عَلَيْهَا تَعَرَّضَ لِشَيْءٍ مِنْ مَبَاحِثِهَا هُنَا، وَبُسِطَتْ فِي عِلْمِ الْكَلَامِ وَاِنْ لَمْ تَكُنْ مِنْهُ بَلْ مِنْ مُتَمِّمَاتِهِ لِظُهُورِ اعْتِقَادَاتٍ فَاسِدَةٍ فِيهَا مِنْ أَهْلِ الْبِدَعِ كَالطَّعْنِ فِي الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ وَنَحْوِ ذَلِكَ‘‘ (۸)
’’امامت ِکبری حقیقت میں مباحث ِفقہیہ میں سے ہےکیونکہ اس کا قیام فروضِ کفایہ میں سے ہےاور امامت ِصغری اس کے تابع ہےتو یہاں اس کی مباحث میں سے کچھ کا ذکر کیا اور علم الکلام میں اس کی تفصیل ہے۔اگرچہ یہ امامت ِکبری علمِ کلام میں سے نہیں ہےبلکہ یہ اس کے متممات میں سے ہےکیونکہ اس میں اہل بدعت کی طرف سے اعتقاداتِ فاسدہ کا ظہور ہوا جیسے خلفائے راشدین پر طعن۔‘‘
کیا مسئلہ خلافت عقیدے کے معیار پر پورا اُترتا ہے؟
اب یہ مسئلہ فروع کا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کی اہمیت کم ہےبلکہ دلائل کی قوت کے اعتبار سےقرآن وسُنّت (سُنّت ِقولیہ وفعلیہ )‘اجماعِ اُمّت اور مسلمانوں کے عملی تواتر سے ثابت ہے۔
علامہ جلال الدین عمر بن محمد الخبازی الحنفیؒ(المتوفیٰ:۶۹۱ھ) لکھتے ہیں:
’’الامامة والخلافة بعد رسول اللّٰه ﷺ حق بدليل: الكتاب، والسنة، والاجماع، والمعقول‘‘ (۹)
’’رسول اللہﷺ کے بعد امامت اور خلافت کتاب وسُنّت‘ اجماع اور دلیل عقلی سے ثابت ہے۔‘‘
عقائد کے معاملے میں جس درجے کے قطعی دلائل مطلوب ہوتے ہیں ‘مسئلہ خلافت اُس معیار پر پورا اُترتا ہے ۔ ویسے بھی یہ مسئلہ اپنی اہمیت اور حساسیت کے اعتبار سے اس لائق تھا کہ اسے کتب ِعقائد میں درج کیا جاتا کیونکہ شریعت کے بہت سارے فرائض ہیں جوخلیفہ کی تقرری اور نظامِ خلافت پر موقوف ہیں۔ اسی وجہ سے اہلِ علم نے اسے اُمّ الفرائض قرار دیا ہےاور اس کے منکر کو کافر لکھا ہے۔
قرآنی دلائل
نظامِ حکومت کے حوالے سے قرآن مجید کی آیات دوطرح کی ہیں ‘کچھ وہ ہیں جو صاف صریح الفاظ میں بلاواسطہ نظامِ حکومت کی حیثیت کو واضح اور اس کا درجہ متعین کرتی ہیں۔ جن میں غور کرنے سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ نماز‘روزہ کی طرح یہ بھی دین اسلام کے ارکان میں سے ایک بنیادی رکن ہے جس کوقائم کرنا فرض ہے۔دوسری کثیر التعداد ایسی آیات ہیں جو بالواسطہ اس مضمون کو بیان کرتی ہیں۔ذیل میں ہم اوّلا بلاواسطہ آیات پیش کرتے ہیں:
آیاتِ بلاواسطہ
(۱) اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
{وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓـئِکَۃِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً ط} (البقرۃ:۳۰)
’’اور یاد کرو جب کہ تیرے رب نے فرشتوں سے کہاکہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔‘‘
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور امام مجاہدؒ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’أنه خليفة عن اللّٰه تعالٰى في إقامة شرعه، ودلائل توحيده، والحكم في خلقه‘‘(۱۰)
’’انسان اللہ کی شریعت قائم کرنے ‘توحید کے دلائل قائم کرنے اور مخلوق میں حکومت کرنے میں اللہ کا خلیفہ ہے۔‘‘
ا مام طبریؒ(المتوفیٰ:۳۱۰ھ) لکھتے ہیں:
’’اِنِّي جَاعِلٌ فِي الْاَرْضِ خَلِيْفَةً مِنِّي يَخْلُفُنِي فِي الحكم بالعدل بَيْنَ خَلْقِي وَاِنَّ ذٰلِكَ الْخَلِيفَةَ هُوَ آدَمُ وَمَنْ قَامَ مَقَامَهُ فِي طَاعَةِ اللّٰهِ وَالْحُكْمِ بِالْعَدْلِ بَيْنَ خَلْقِهِ‘‘(۱۱)
’’بے شک میں اپنی طرف سے زمین میں اپنا ایک خلیفہ بنانے والاہوں‘‘ جو میری مخلوق کے درمیان میرے حکم کی نیابت کرے گااور وہ جو اللہ کی اطاعت میں آدم علیہ السلام کے قائم مقام ہوں اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں عدل سے فیصلہ کرتے ہوں۔‘‘
امام ابن کثیرؒ(المتوفیٰ:۷۷۴ھ) نے ابن جریر طبریؒ کی مذکورہ رائے کو اپنی تفسیر’’تفسير القرآن العظيم‘‘ میں نقل کیا ہے۔
امام بغویؒ (المتوفیٰ:۵۱۰ھ) لکھتے ہیں:
’’وَالصَّحِيحُ أَنَّهُ خَلِيفَةُ اللّٰهِ فِي أَرْضِهِ لِاِقَامَةِ أَحْكَامِهِ وَتَنْفِيذِ وَصَايَاهُ‘‘(۱۲)
’’صحیح بات یہ ہےکہ آدم اللہ کا خلیفہ ہے زمین میں اس کے احکام قائم کرنے اور اس کے فیصلوں کو نافذ کرنے کے لیے۔‘‘
امام خازنؒ(المتوفیٰ:۷۴۱ھ) نےاپنی تفسیر‘‘ لباب التأويل في معاني التنزيل‘‘ میں بغویؒ کی مذکورہ عبارت کو نقل کیا ہے۔
امام قرطبیؒ(المتوفىٰ:۶۷۱ھ) لکھتے ہیں:
’’هَذِهِ الْآيَةُ أَصْلٌ فِي نَصْبِ اِمَامٍ وَخَلِيفَةٍ يُسْمَعُ لَهُ وَيُطَاعُ، لِتَجْتَمِعَ بِهِ الْكَلِمَةُ، وَتَنْفُذُ بِهِ أَحْكَامُ الْخَلِيفَةِ‘‘ (۱۳)
’’یہ آیت امام اورخلیفہ کے تقرر کے بارے میں قاعدہ کلیہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔ایسا امام کہ جس کی بات سنی جائے اور اس کی اطاعت کی جائےتاکہ کلمہ اسلام اس سے مجتمع رہے اور خلیفہ کے احکام نافذ ہوں۔‘‘
مزید یہ کہ امام قرطبی نصب ِخلیفہ کو دین کے ارکان میں سے ایک رکن قرار دیتے ہیں:
’’وَأَنَّهَا رُكْنٌ مِنْ أَرْكَانِ الدِّينِ الَّذِي بِهِ قَوَامُ الْمُسْلِمِينَ‘‘ (۱۴)
’’اور نصب ِخلیفہ دین کے ارکان میں سے ایک رکن ہےجس پر مسلمانوں کی بقا موقوف ہے۔‘‘
قاضی بیضاویؒ (المتوفیٰ:۶۸۵ھ) فرماتے ہیں:
’’ومعنى كونه خَلِيفَةً أنه خليفة اللّه تعالى في أرضه، وكذا كل نبي استخلفهم في عمارة الأرض وسياسة الناس وتكميل نفوسهم وتنفيذ أمره فيهم‘‘ (۱۵)
’’اس کے خلیفہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ زمین میں اللہ کا خلیفہ ہے اور اسی طرح اللہ نے ہر نبی کو خلیفہ بنایا زمین کی آبادی میں ‘لوگوں کے سیاسی امور کی انجام دہی ‘ ان کے نفوس کی تکمیل اور ان کے اندر اپنے احکام کو نافذ کرنے کے لیے ۔‘‘
بیضاوی ؒ کی مذکورہ عبارت کو امام شمس الدین الشافعی ؒ(المتوفیٰ۹۷۷ھ نے اپنی تفسیر ’’السراج المنير في الإعانة على معرفة بعض معاني كلام ربنا الحكيم الخبير‘‘(۱ / ۴۵) اور علامہ آلوسیؒ (المتوفیٰ:۱۲۷۰ھ) نے‘‘روح المعاني‘‘ (۱ / ۲۲۲)میں نقل کیا ہے۔
مولانا محمدادریس کاندھلویؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’تحقیق مَیں زمین میں اپنا خلیفہ اور نائب بنانے والا ہوں جو میرا نائب ہوکرزمین پر حکومت کرے گااور زمین والوں پر میرا حکم جاری اور نافذ کرے گا۔‘‘ (۱۶)
دوسری آیت:آیت اطاعت ِاولی الامر
{یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ ج}(النساء:۵۹)
’’اے ایمان والو تم اللہ اور رسول (ﷺ)اور اولی الامر کی اطاعت کرو۔‘‘
ا مام طبریؒ(المتوفیٰ:۳۱۰ھ) نےا س آیت کی تفسیر میں اولی الامر سے متعلق مختلف اقوال نقل کرنےکے بعد فیصلہ کن بات لکھی ہے:
’’وأولى الأقوال في ذلك بالصواب، قول من قال: هم الأمراء والولاة لصحة الأخبار عن رسول اللّٰهﷺ بالأمر بطاعة الأئمة والولاة فيما كان لله طاعةً، وللمسلمين مصلحة‘‘
’’یہاں اس جگہ حق کے قریب اُن کا قول ہے جو فرماتے ہیں :اولی الامر سے مراد امراء اور حکام ہیں اس لیے کہ رسول اکرم ﷺ سے احادیث میں حکام کی اطاعت کے ساتھ یہ امر ثابت ہے کہ حکام کی اطاعت دو شرائط سے مشروط ہے: پہلی یہ کہ شریعت کے مطابق ہو اور دوسری یہ کہ اس میں مسلمانوں کی مصلحت ہو۔‘‘
شیخ جمال الدین احمد بن محمد الغزنوی الحنفیؒ(المتوفیٰ:۵۹۳ھ) لکھتے ہیں:
’’طاعة الائمة واجبة، وهي فرض عين من فروض الشرع‘‘ (۱۷)
’’خلفاء کی اطاعت واجب ہے اور وہ فرضِ عین ہے شریعت کےباقی فرائض کی طرح۔‘‘
علامہ کمال الدین بابرتی الحنفیؒ(المتوفیٰ:۷۸۶ھ) ‘علامہ علاؤ الدین بخاری الحنفیؒ (المتوفیٰ:۸۴۱ھ) نے بھی خلیفہ کی اطاعت کو فرض لکھا ہے یہ تب ہی ممکن ہے جب خلیفہ کاوجودہو۔
علامہ سیف الدین آمدی ؒ(المتوفیٰ:۶۲۳ھ)لکھتے ہیں:
’’مَذْهَب أهل الْحق من الإسلاميين أَن اِقَامَة الاِمَام واتباعه فرض على الْمُسلمين شرعًا لَا عقلًا‘‘(۱۸)
’’اہل حق کا مذہب یہ ہے کہ خلیفہ کا تقرر اورخلیفہ کی اتباع شرعاً مسلمانوں پر فرض ہے نہ کہ عقلاً۔‘‘
طرزِ استدلال:خلیفہ کی اطاعت کا تصوّر اُس وقت تک ناممکن ہےجب تک خلیفہ کا خود وجود نہ ہو‘ لہٰذا خلیفہ کی تقرری اور اسے وجود میں لانا یہ اقتضاء النص سے ثابت ہے‘اب اس کی فرضیت میں کلام کی کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے؟
آیات’’حکم بماانزل اللہ‘‘
قرآن مجید کی آیات’’حکم بِمَا اَنْزَلَ اللہ‘‘ کا مقصد بھی نظامِ خلافت کا قیام ہےکیونکہ شرعی احکام کی تطبیق اور شریعت کے موافق حکومت کرنا یہ نظامِ خلافت کے توسط سے ہی ممکن ہے۔ اللہ تعالی نے اپنے رسول ﷺ کے توسّط سے اُمّت کو قطعی حکم دیا ہے:
{فَاحْکُمْ بَیْنَہُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ} (المائدۃ:۴۸)
’’آپؐ فیصلہ کریں ان لوگوں کے درمیان اس (قانون) کے مطابق جو اللہ نے نازل کیا۔‘‘
{وَاَنِ احْکُمْ بَیْنَھُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ} (المائدۃ:۴۹)
’’اور فیصلے کیجیے ان کے مابین اس (شریعت) کے مطابق جو کہ اللہ نے اتاری ہے۔‘‘
{وَمَنْ لَّــمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْکٰفِرُوْنَ(۴۴)} (المائدۃ)
’’جو اللہ کی اتاری ہوئی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتےوہی توکافر ہیں۔‘‘
{وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰۗئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ (۴۵)} (المائدۃ)
’’جو اللہ کی اتاری ہوئی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتےوہی توظالم ہیں۔‘‘
{وَمَنْ لَّـمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ(۴۷)}(المائدۃ)
’’جو اللہ کی اتاری ہوئی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتےوہی توفاسق ہیں۔‘‘
ان مذکورہ بالاآیات میں حکم بما انزل اللہ کے ساتھ ساتھ کس قدر سخت تہدید‘تنبیہ اور دھمکی ہے ان لوگوں کے لیے جو کسی آسمانی شریعت پر ایمان کے دعویدار ہوں اور پھر اس کے بجائے کسی اور قانون کے مطابق اپنی زندگی گزار رہے ہوں۔قانونِ شریعت کی تنفیذ اور اس کی اہمیت کے لحاظ سے قرآن حکیم کا یہ مقام بقول ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے ذروئہ سنام ہے(۱۹) جو نفاذِ شریعت کی فرضیت پر دلالت کرتا ہے۔
آیات بالواسطہ
قرآن کی وہ تمام آیاتِ جہاد جو فرضیتِ جہاد کو بیان کرتی ہیں وہ درحقیقت حکومت کے قیام کو بھی فرض قرار دیتی ہیں کیونکہ جہاد کا مقصد اعلائے کلمۃ اللہ ہے اور اعلائے کلمۃ اللہ نظامِ ِخلافت کے بغیرممکن نہیں ‘لہٰذا جہاد کا مقصد بھی حکومت ِاسلامیہ کا قیام ہے۔
اسی طرح متکلمین نےآیاتِ حدودسے خلیفہ کے تقرر کی فرضیت پر استدلال کیا ہے کیونکہ اُمّت کا اجماع ہے کہ حدود کو نافذ کرنا رعایا کا کام نہیں بلکہ خلیفہ کی ذمہ داری ہے اور حدود کوقائم کرنافرض ہے اور اس فرضیت پر عمل تب ہی ممکن ہے جب خلیفہ کا وجود ہو۔ لہٰذا خلیفہ کا تقرر فرض ہے۔
امام رازیؒ(المتوفىٰ: ۶۰۶ھ) آیت : {وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْٓا اَیْدِیَہُمَا جَزَآئً  بِمَا کَسَبَا نَـکَالًا مِّنَ اللہِ ط وَاللہُ عَزِیْــزٌ حَکِیْمٌ (۳۸)} (المائدۃ)کے تحت لکھتے ہیں:
’’احْتَجَّ الْمُتَكَلِّمُونَ بِهَذِهِ الْآيَةِ فِي أَنَّهُ يَجِبُ عَلَى الْأُمَّةِ أَنْ يُنَصِّبُوا لِأَنْفُسِهِمْ اِمَامًا مُعَيَّنًا وَالدَّلِيلُ عَلَيْهِ أَنَّهُ تَعَالَى أَوْجَبَ بِهَذِهِ الْآيَةِ اِقَامَةَ الْحَدِّ عَلَى السُّرَّاقِ وَالزُّنَاةِ، فَلَا بُدَّ مِنْ شَخْصٍ يَكُونُ مُخَاطَبًا بِهَذَا الْخِطَابِ، وَأَجْمَعَتِ الْأُمَّةُ عَلَى أَنَّهُ لَيْسَ لِآحَادِ الرَّعِيَّةِ اِقَامَةُ الْحُدُودِ عَلَى الْجُنَاةِ، بَلْ أَجْمَعُوا عَلَى أَنَّهُ لَا يَجُوزُ اِقَامَةُ الْحُدُودِ عَلَى الْأَحْرَارِ الْجُنَاةِ اِلَّا لِلْاِمَامِ، فَلَمَّا كَانَ هَذَا التَّكْلِيفُ تَكْلِيفًا جَازِمًا وَلَا يُمْكِنُ الْخُرُوجُ عَنْ عُهْدَةِ هَذَا التَّكْلِيفِ اِلَّا عِنْدَ وُجُودِ الْاِمَامِ، وَمَا لَا يَتَأَتَّى الْوَاجِبُ اِلَّا بِهِ، وَكَانَ مَقْدُورًا لِلْمُكَلَّفِ، فَهُوَ وَاجِبٌ، فَلَزِمَ الْقَطْعُ بِوُجُوبِ نَصْبِ الْاِمَامِ حِينَئِذٍ‘‘ (۲۰)

دوسرے مقام پرآیت: {اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ ص وَّلَا تَاْخُذْکُمْ بِہِمَا رَاْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللہِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِج وَلْیَشْہَدْ عَذَابَہُمَا طَآئِفَۃٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ(۲) } (النور)کے تحت لکھتے ہیں:
’’أَجْمَعَتِ الْأُمَّةُ عَلَى أَنَّ الْمُخَاطَبَ بِذَلِكَ هُوَ الْاِمَامُ، ثُمَّ احْتَجُّوا بِهَذَا عَلَى وُجُوبِ نَصْبِ الْاِمَامِ، قَالُوا لِأَنَّهُ سُبْحَانَهُ أَمَرَ بِاِقَامَةِ الْحَدِّ، وَأَجْمَعُوا عَلَى أَنَّهُ لَا يَتَوَلَّى اِقَامَتَهُ اِلَّا الْاِمَامُ وَمَا لَا يَتِمُّ الْوَاجِبُ الْمُطْلَقُ اِلَّا بِهِ، وَكَانَ مَقْدُورًا لِلْمُكَلَّفِ فَهُوَ وَاجِبٌ فَكَانَ نَصْبُ الْاِمَامِ وَاجِبًا‘‘ (۲۱)
’’اس آیتِ حد پر اُمّت کا اجماع ہے کہ اس کامخاطب خلیفہ ہے اوراسی آیت حد سے اُمّت نے استدلال کیا کہ خلیفہ کا تقرر فرض ہے۔اس لیے کہ اللہ نےاس میں اقامت حد کا حکم دیا ہے۔ اس پر اجماع ہے کہ حدود کو نافذ کرنا صرف خلیفہ کی ذمہ داری ہے اور یہ فرض خلیفہ کے بغیر پورا نہیں ہو سکتا اس لیے خلیفہ کا تقرر فرض ہے۔‘‘
اسی طرح وہ آیات جن میں اللہ تعالیٰ نےحکومت کو مقام احسان میں ذکر کیا ہے اور اسے نعمتوں میں شمار کیا ہے اور احسان بھی عام لوگوں پر نہیں بلکہ انبیاء و مرسلین آل ابراہیم ‘حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہم السلام پر۔
{اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰی مَآاٰتٰىہُمُ اللہُ مِنْ فَضْلِہٖ ج فَقَدْ اٰتَـیْنَــآ اٰلَ اِبْرٰہِیْمَ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَاٰتَـیْنٰـہُمْ مُّلْکًا عَظِیْمًا(۵۴)} (النساء)
’’یا وہ حسد کرتے ہیں لوگوں سے اس چیز پر جو ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے عطا کی‘ پس تحقیق ہم نے عطافرمائی خاندانِ ابراہیم کو کتاب وحکمت اور ہم نے انہیں عطا کی بڑی سلطنت۔‘‘
سُنّت ِقولیہ
رسول اکرمﷺ کی وہ تمام احادیث جن میں اس بات کی صراحت موجود ہےکہ جس نے خلیفہ کی بیعت نہیں کی وہ جاہلیت کی موت مرا۔اسی طرح وہ احادیث جن میں یہ حکم دیا گیا کہ مسلمانوں کی طرف سے جو پہلا خلیفہ مقرر کیا گیا ہو اس سے بیعت میں وفاداری کی جائے۔اسی طرح وہ احادیث جن میں عادل حکام سے بغاوت کی ممانعت آئی ہے۔اسی طرح وہ احادیث جو حاکم کے جائز حکم کی اطاعت کو واجب قرار دیتی ہیں۔اس طرح وہ احادیث جن میں یہ تاکید آئی ہے کہ اس شخص کا سر قلم کر دیا جائےجو خلیفہ کے انتخاب کے بعد اس سے اختلاف کرےاور اس کی خلافت کو نقصان پہنچائے۔ان تمام احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ خلیفہ کا انتخاب کریں ۔
خلا فت کی احادیث کو تواتر معنوی بلکہ تواتر تعامل کا درجہ حاصل ہے۔اگرچہ یہ احادیث الگ الگ خبر واحد کے درجے کی ہیں لیکن مجموعی طور پر جو ایک یقینی بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ خلیفہ کا تقرر فرض ہے۔ اس کو تواتر معنوی یا تواتر قدر مشترک کہتے ہیں ‘جو علم قطعی(یقینی )کا فائدہ دیتا ہےبلکہ اس سے بھی بڑھ کر ان احادیث کو تواتر تعامل کا درجہ حاصل ہے ۔۳ مارچ ۱۹۲۴ء تک اُمّت کا ۱۳ سو سال اس پر عمل رہا کہ خلیفہ کی تدفین سے پہلے خلیفہ کا تقرر ہوتا تھا۔ تیرہویں صدی کے نامور حنفی عالم علامہ ابن عابدین شامیؒ (المتوفیٰ:۱۲۵۲ھ) لکھتے ہیں:
’’وَهَذِهِ السُّنَّةُ بَاقِيَةٌ إلَى الْآنَ لَمْ يُدْفَنْ خَلِيفَةٌ حَتَّى يُوَلَّى غَيْرُهُ‘‘ (۲۲)
’’اور یہ طریقہ ابھی تک باقی ہے کہ خلیفہ کی تدفین سے پہلے دوسرا خلیفہ مقرر کیا جائے گا۔‘‘
مسئلہ خلافت کو تواتر ِتعامل حاصل ہے
علامہ سیف الدین آمدی ؒ(المتوفیٰ:۶۲۳ھ)لکھتے ہیں:
’’قَالَ أهل الْحق الدَّلِيل الْقَاطِع على وجوب قيام الاِمَام واتبعاه شرعًا مَا ثَبت بالتواتر من اِجْمَاع الْمُسلمين فى الصَّدْر الأول بعد وَفَاة رَسُول اللّٰهﷺ علٰى امْتِنَاع خلو الْوَقْت عَن خَليفَة وَاِمَام حَتَّى قَالَ أَبُو بكر فى خطبَته الْمَشْهُورَة بعد رَسُول اللّٰه ﷺ أَلا اِن مُحَمَّدًا قد مَاتَ وَلَا بُد لهَذَا الدّين مِمَّن يقوم بِهِ‘‘ (۲۳)
’’اہل حق فرماتے ہیں:خلیفہ کے تقرر کی فرضیت اور اس کی اتباع پر دلیل قطعی شرعی قائم ہے جو مسلمانوں کے اجماعی تواتر سے ثابت ہے کہ نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعدامام اور خلیفہ کے بغیر رہنا ممتنع ہے۔ یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے مشہور خطبہ میں فرمایا کہ : خبردار رسول اللہ ﷺ دنیا سے تشریف لے گئے اور اِس دین کے لیے ایک ایسے شخص کا ہونا ضروری ہے جو اس دین کو قائم کرے ۔ ‘‘
علامہ عضد الدین الایجیؒ (المتوفیٰ:۷۵۶ھ)‘(۲۴)علامہ کمال الدین ابن ابی الشریفؒ (المتوفیٰ:۹۰۵ھ) (۲۵)نے بھی اجماعی تواتر کو نقل کیا ہے۔
تواتر کی اقسام اور ان کاحکم
علامہ انور شاہ صاحب کشمیریؒ فرماتے ہیں:
’’والتواتر عندي أيضاً على أربعة أقسام: أحدها: تواتر الإسناد، وهذا التواتر تواتر المحدثين، والثاني: تواتر الطبقة، وهذا تواتر الفقهاء، تواتر التعامل ------ وهذا التواتر قريب من التواتر الثاني، ومثال هذا التواتر العمل برفع اليدين عند الركوع وتركه فإنه عمل به غير واحد في القرون الثلاثة ------والرابع: تواتر القدر المشترك ------ وحكم الثلاثة الأول تكفير جاحده وأماالرابع: فإن كان ضرورياً فكذلك، وإن كان نظرياً فلا‘‘ (۲۶)
’’ اورمیرے نزدیک تواتر کی بھی چار قسمیں ہیں (۱)تواتر اسناد‘ اسے تواتر محدثین بھی کہتے ہیں(۲) تواتر طبقہ‘ اسے تواتر فقہاء کہتے ہیں (۳)تواتر تعامل ------ یہ دوسری قسم کے قریب ہے۔ اس کی مثال رکوع کے وقت رفع یدین تواترعمل سے ثابت ہے اور (۴)تواتر قدر مشترک ------ پہلے تین تواتر ایسے ہیں کہ ان کا منکر کافر ٹھہرتا ہے‘ جبکہ چوتھے تواتر کا موضوع اگرضروریات کے درجےمیں ہے تووہ بھی اسی حکم میں ہے اوراگر نظری درجے کا ہے تواس کے منکر کوکافر نہ کہا جائے گا۔‘‘
علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے پہلے تین تواتر (تواتر اسناد‘تواترطبقہ‘تواتر تعامل)کے منکر کو کافر لکھا ہےاور چوتھے تواتر (تواتر معنوی)کے متعلق فرمایا:اگر یہ ضروریات کے درجے میں ہے تو کافر ہے۔
مسئلہ خلافت کو تواتر تعامل کے ساتھ تواتر معنوی بھی حاصل ہےاور یہ مسئلہ ضروریات شرع میں سے ہے‘ لہٰذا اس کا منکر کافر ہے ۔
مسئلہ خلافت ضروریاتِ دین میں سے ہے!
امام غزالیؒ (المتوفیٰ:۵۰۵ھ) فرماتے ہیں:
’’فكان وجوب نصب الإمام من ضروريات الشرع الذي لا سبيل إلى تركه‘‘(۲۷)
’’خلیفہ کی تقرری ضروریاتِ شرع میں سے ہےجس کے چھوڑنے کے لیے نہ کوئی عقلی دلیل ہے نہ نقلی۔‘‘
ضروریاتِ دین سے وہ تمام دینی امور مراد ہوتے ہیں جو نبی کریم ﷺ سے قطعی طور پر تواتر کے ساتھ ثابت ہوں اور جن کا دین محمدی ہونا ہر خاص وعام کو بداہۃً معلوم ہو مثلاً: توحید‘ رسالت‘ قیامت‘ ملائکہ‘ جنت‘ دوزخ اور آسمانی کتابوں میں سے کسی ایک کا بھی انکار کر دے تو وہ دائرئہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ اسی طرح نماز‘روزہ ‘حج‘ زکوٰة کی فرضیت اور زنا‘ قتل‘ چوری‘ شراب خوری وغیرہ کی حرمت وممانعت ‘نبی کریم ﷺ کا خاتم الانبیاء ہونا‘ حشر و نشر‘ جزاء و سزا وغیرہ۔
مسئلہ خلافت نبی اکرم ﷺ سے قطعی طور پر تواتر سے ثابت ہے لہٰذا اس کے ضروریات دین میں سے ہونے میں کوئی شک نہیں۔
اصول: خبر واحد کو تلقی اُمّت بالقبول حاصل ہوجائے تووہ حدیث متواتر اور مشہور درجے کی ہے جوعلم قطعی کا فائدہ دیتی ہے۔
مسئلہ خلافت کی احادیث اگرچہ اخبارآحادہیں تاہم محدثین‘ فقہاء کا اصول ہے کہ خبر واحد کو اگر ’’ تلقی اُمّت بالقبول‘‘ حاصل ہوجائے تووہ حدیث متواتر اور مشہور درجے کی ہے جو قطعیت کا فائدہ دیتی ہے۔
ابن ابی العز الحنفیؒ(المتوفیٰ:۷۹۲ھ) لکھتے ہیں:
’’وخبر الواحد إذا تلقته الأمة بالقبول عملا به وتصديقا له: يفيد العلم [اليقيني] عند جماهير الأمة وهو أحد قسمي المتواتر ولم يكن بين سلف الأمة في ذلك نزاع‘‘ (۲۸)
’’اور خبر واحد کو جب اُمّت قبول کر لےاس کی تصدیق اور اس پر عمل کرتے ہوئےتو جمہور علماء اُمّت کے نزدیک علم یقینی کا فائدہ دیتی ہے اور یہ بھی متواتر کی ایک قسم ہے۔اسلافِ اُمّت میں اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں۔‘‘
علامہ بدر الدین الزرکشی الشافعی ؒ(المتوفیٰ:۷۹۴ھ) لکھتے ہیں:
’’أَن الحَدِيث الضَّعِيف اِذا تَلَقَّتْهُ الْأمة بِالْقبُولِ عمل بِهِ على الصَّحِيح حَتَّى اِنَّه ينزل منزلَة الْمُتَوَاتر‘‘ (۲۹)
’’اسی طرح جب اُمّت ضعیف حدیث کو قبول فرما لے تو اس پر اس طرح عمل کیا جائے گا جس طرح حدیث صحیح پر عمل کیا جاتاہےحتیٰ کے متواتر کے درجے میں ہوجائے گی۔‘‘
قولی احادیث
اب ذیل میں حضور ﷺ کی چندقولی احادیث ذکرکی جاتی ہیں جو مسئلہ خلافت کی فرضیت پر دلالت کرتی ہیں اور ان احادیث میں قیام ِخلافت کی طلب‘طلب جازم ہے ۔
اصول یہ ہے کہ شریعت کا کوئی مسئلہ جو قطعی ٔالثبوت ‘قطعی ٔالدلالہ نہ ہو بلکہ قطعی ٔالثبوت ‘ ظنی ٔالدلالہ ہو اور اس کی طلب‘طلب جازم ہو تو وہ فرض ہوتا ہےلیکن مسئلہ خلافت قطعی ٔالثبوت بھی ہے اور قطعی ٔالدلالہ بھی لہٰذا اس کی فرضیت میں کوئی شُبہ نہیں۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا:
((مَنْ خَرَجَ مِنَ السُّلْطَانِ شِبْرًا مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً)) (۳۰)
’’جو شخص خلیفہ کی اطاعت سے ایک بالشت بھی الگ ہو گیا وہ جاہلیت کی موت مرا۔‘‘
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسولِ اکرمﷺ نے فرمایا:
((مَنْ خَرَجَ مِنَ الطَّاعَةِ ، وَفَارَقَ الْجَمَاعَةَ فَمَاتَ ، مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً))(۳۱)
’’جو شخص امام کی اطاعت سے نکل گیا اور جماعت سے جدا ہوگیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔‘‘
رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا:
((مَنْ مَاتَ وَلَيْسَ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ، مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً))(۳۲)
’’جوشخص اس حال میں مرا کہ اس کی گردن میں (کسی خلیفہ کی) بیعت نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔‘‘
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
((مَنْ مَاتَ بِغَيْرِ اِمَامٍ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً))(۳۳)
’’جو شخص بغیر خلیفہ کے مر گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔‘‘
سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ‘رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
((مَنْ مَاتَ وَلَيْسَ عَلَيْهِ اِمَامٌ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً))(۳۴)
’’جو شخص اس حال میں مرا کہ اس پر کوئی امام (خلیفہ کی حکومت) نہیں تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔‘‘
آپ ذرا غور کریں کہ ان مذکورہ بالا احادیث میں رسول اکرمﷺ نے جاہلیت کی موت سے تشبیہہ دی ہے اور ایسے الفاظ مذمت کسی فعل حرام کے ارتکاب پر ہوتے ہیں یا کسی فرض کے چھوڑنے پر ۔یہاں دو فرض چھوٹ رہے ہیں :خلیفہ کا نہ ہونا اور بیعت کا نہ ہونا جو دونوں کبیرہ گناہ ہیں۔
خلافت کا قیام ضروری ہے‘رسول اکرمﷺ نے فرمایا:
((لاَ بُدَّ لِلنَّاسِ مِنْ اِمَارَةٍ))(۳۵)
’’لوگوں کے لیے خلافت ضروری ہے۔ ‘‘
خلیفہ ڈھال ہے
ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ‘رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
((اِنَّمَا الْاِمَامُ جُنَّةٌ، يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ، وَيُتَّقَى بِهِ))(۳۶)
’’خلیفہ ایک ڈھال کی حیثیت رکھتا ہےجس کی قیادت میں اور اس کے حکم سے جہاد ہوتا ہےاور اس کی وساطت سے دشمن سے بچا جا سکتا ہے۔‘‘
ڈھال جس کے ذریعے مجاہد دشمن سے اپنی حفاظت کرتا ہے اسی طرح خلیفہ داخلی اور خارجی دشمنوں سے مسلمانوں کی جان ‘مال‘ عزت وآبرو کی حفاظت کرتا ہے۔
رسول اکرم ﷺ کی ان قولی احادیث میں اس بات کی بڑی تاکید ہےکہ مسلمان ضرور خلیفہ مقرر کریں اور اسلامی حکومت قائم کریں۔آپ ﷺ نے خود اس پر عمل کرتےہوئے اسلامی ریاست قائم کی جو آپ کی سُنّت فعلیہ ہے۔
سُنّت ِفعلیہ
حضور اکرم ﷺ کی سیاسی سُنّت اسلامی نظامِ حکومت کے قیام کےوجوب پر دلالت کرتی ہے۔آپ ﷺ کے سیاسی کاموں میں سےعقبہ اولی اور عقبہ اخری کی بیعت اورمدینہ منورہ آمد کے بعد ایک سیاسی معاہدہ جسے میثاق مدینہ کہتے ہیں ‘یہ معاہدہ وہ پہلی دستاویز ہےجو اسلامی ریاست کے اندر رعیت کے حقوق اور واجبات کی نشاندہی کرتی ہے۔اور رسول اکرمﷺ نے بنفسِ نفیس مدینہ منورہ میں نبوت ورسالت کی صفت کے ساتھ ساتھ امام اور ریاست کی ذمہ داری کے عظیم منصب کو بھی اپنایا‘آپ اسی منصب اور ذمہ داری کی اساس پر والیوں اور قاضیوں کا تقرر کرتے ‘معاہدے کرتے‘قاصدین کو بھیجتےاور بادشاہوں کے پاس وفود روانہ کرتے ۔یہ تمام کام صرف حاکم کے مناسب اور موزوں ہیں۔
خلافت کی فرضیت پر اجماع ہے
اصولیین نے اجماع کی مختلف اقسام بیان کی ہیں اُن میں سے ایک اِجماع صریح اور دوسری اِجماعِ متواتر ہے۔
اجماعِ صریح کہتے ہیں:بالاتفاق سب کا کسی قول یا فعل کو اختیار کرنا ‘جیسے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت پر اجماع۔
اِجماعِ متواتر کہتے ہیں:وہ اِجماع جو عہدِ صحابہ سےکسی اختلاف کے بغیر تواتر کے ساتھ منقول چلا آرہا ہو۔یہ اجماع بمنزلہ نصِ قرآنی اور حدیث متواتر کے دلیل قطعی ہے‘اس پر یقین اورعمل دونوں ضروری ہیں‘ انکار کفرہے۔
مسئلہ خلافت کو اجماعی تواتر حاصل ہے یہ عہدِ صحابہ سے بغیر کسی اختلاف کے تواتر کے ساتھ منقول چلا آرہا ہے۔
علامہ ماوردیؒ(المتوفیٰ:۴۵۰ھ) لکھتے ہیں:
ََََ’’وَعَقْدُهَا لِمَنْ يَقُومُ بِهَا فِي الْأُمَّةِ وَاجِبٌ بِالْاِجْمَاعِ‘‘(۳۷)
’’اسلامی حکومت کا بنانا‘امیر کا تقرر اور امارت کے کاموں کوسنبھالنااجماع کی رو سے فرض ہے۔‘‘
علامہ ابن حزم الاندلسی‘الظاہریؒ(المتوفیٰ:۴۵۶ھ) لکھتے ہیں:
’’اتّفق جَمِيع أهل السّنة وَجَمِيع المرجئة وَجَمِيع الشِّيعَة وَجَمِيع الْخَوَارِج على وجوب الْاِمَامَة‘‘(۳۸)
’’تمام اہل سُنّت والجماعت اور تمام شیعہ اور تمام خوارج اس پر متفق ہیں کہ خلیفہ کی تقرری فرض ہے۔‘‘
ذیل میں ہم صرف ان ائمہ کے نام ذکر کر دیتے ہیں جنہوں نے مسئلہ خلافت کو اجماعی لکھا ہے‘تفصیلی حوالہ جات کے لیے ہماری کتا ب( مسئلہ خلافت کی شرعی حیثیت )کا مطالعہ فرمائیں ۔
امام الحرمین الجوینی ؒ(المتوفیٰ:۴۷۸ھ)(۳۹)‘امام ابومعین میمون بن محمدالنسفیؒ (المتوفیٰ:۵۰۸ھ)(۴۰) ‘ علامہ شہرستانی(المتوفیٰ:۵۴۸ھ)(۴۱) ‘ابو الحسین یحییٰ بن ابو الخیر یمنی شافعی (المتوفى:۵۵۸ھ)(۴۲) ‘علامہ نور الدین صابونی ؒ(المتوفیٰ:۵۸۰ھ)(۴۳) ‘شیخ جمال الدین احمد بن محمد الغزنوی الحنفیؒ(المتوفیٰ: (۵۹۳ھ)(۴۴) ‘ امام رازیؒ(المتوفى:۶۰۶ھ) ‘ علامہ جلال الدین عمر بن محمد الخبازی الحنفیؒ(المتوفیٰ:۶۹۱ھ)(۴۵) ‘علامہ عضد الدین الایجیؒ (المتوفیٰ: ۷۵۶ھ)(۴۶)‘علامہ تفتازانیؒ (المتوفیٰ:۷۹۲ھ)(۴۷)‘مؤرّخ ابن خلدونؒ (المتوفیٰ: ۸۰۸ھ)(۴۸) ‘ علامہ کمال الدین ابن ابی الشریف ؒ(المتوفیٰ:۹۰۵ھ) (۴۹)‘محدّث ابن حجر الہیثمی المکیؒ (المتوفیٰ:۹۷۴ھ) (۵۰)‘ملا علی قاری الحنفیؒ(المتوفیٰ:۱۰۱۴ھ) (۵۱)
خلیفہ کا تقرر فرض ہے
امام عبدالقاہر بغدادیؒ(المتوفیٰ:۴۲۹ھ) لکھتے ہیں:
’’قال جمهور اصحابنا من المتكلمين والفقهاء من الشيعة والخوارج وأكثر المعتزلة بوجوب الامامة وأنها فرض وواجب‘‘ (۵۲)
’’جمہور متکلمین فقہاء مع شیعہ خوارج اور اکثر معتزلہ خلافت کی فرضیت کے قائل ہیں اور یہی خلافت فرض کفایہ ہے۔‘‘
علامہ ماوردیؒ(المتوفیٰ:۴۵۰ھ) لکھتے ہیں:
’’فَاِذَا ثَبَتَ وُجُوبُ الْاِمَامَةِ فَفَرْضُهَا عَلَى الْكِفَايَةِ كَالْجِهَادِ وَطَلَبِ الْعِلْمِ، فَاِذَا قَامَ بِهَا مَنْ هُوَ مِنْ أَهْلِهَا سَقَطَ فَرْضُهَا عَلَى الْكِفَايَةِ‘‘ (۵۳)
’’جب اسلامی حکومت کی تشکیل اور امامت کی تقرری کا وجوب ثابت ہو چکا تو مذکورہ حکم جہاد اور طلب علم کی طرح فرضِ کفایہ ہےاور جب اہل لوگ یہ فرض ادا کریں تو باقی لوگ بریٔ الذمہ ہو جاتے ہیں۔‘‘
قاضی ابویعلیٰؒ (المتوفیٰ:۴۵۸ھ) لکھتے ہیں:
’’وهي فرض على الكفاية، مخاطب بها طائفتان من الناس: إحداهما: أهل الاجتهاد حتى يختاروا، والثانية: من يوجد فيه شرائط الإمامة حتى ينتصب أحدهم للإمامة‘‘ (۵۴)
’’خلافت فرضِ کفایہ ہے اور اس کے مخاطب لوگوں میں سے دو فریق ہیں :پہلے اہل رائے (شوریٰ) تاکہ کسی ایک آدمی کا انتخاب کریں ۔دوسرے وہ لوگ جن میں امامت کی شرائط موجود ہوں تاکہ کسی ایک کو امام بنا دیں۔‘‘
امام الحرمین الجوینی ؒ(المتوفیٰ:۴۷۸ھ) لکھتے ہیں:
’’فَاِذَا تَقَرَّرَ وُجُوبُ نَصْبِ الْاِمَامِ، فَالَّذِي صَارَ اِلَيْهِ جَمَاهِيرُ الْأَئِمَّةِ أَنَّ وُجُوبَ النَّصْبِ مُسْتَفَادٌ مِنَ الشَّرْعِ الْمَنْقُولِ، غَيْرُ مُتَلَقًّى مِنْ قَضَايَا الْعُقُولِ‘‘ (۵۵)
’’جب امام کے تقررکا فرض کفایہ ہونا ثابت ہو چکا تو جمہور ائمہ نے یہ مسلک اختیار کیا ہے کہ امام کے تقرر کا فرض کفایہ ہونا شرع سے منقول ہے ‘عقلی فیصلہ نہیں ہے۔‘‘
ذیل میں ہم اُن ائمہ کے نام ذکر کر دیتے ہیں جنہوں نے خلافت کی فرضیت کو بیان کیا‘ تفصیلی حوالہ جات کے لیے ہماری کتا ب( مسئلہ خلافت کی شرعی حیثیت )کا مطالعہ فرمائیں ۔
امام بزدوی الحنفیؒ(المتوفیٰ:۴۹۳ھ)(۵۶)‘امام غزالیؒ (المتوفیٰ:۵۰۵ھ)(۵۷)‘علامہ شہرستانی(المتوفیٰ:۵۴۸ھ) (۵۸)‘علامہ کاسانی الحنفیؒ(المتوفیٰ:۵۸۷ھ) (۵۹)‘امام جمال الدین احمد بن محمد الغزنوی الحنفیؒ(المتوفیٰ:۵۹۳ھ)‘ امام رازیؒ(المتوفى:۶۰۶ھ)(۶۰) ‘علامہ سیف الدین آمدی ؒ(المتوفیٰ:۶۳۱ھ)(۶۱) ‘امام نووی شافعیؒ(المتوفیٰ:۷۷۶) (۶۲)‘علامہ کمال الدین بابرتی الحنفیؒ(المتوفیٰ:۷۸۶ھ)‘امام قرافی المالکیؒ (المتوفیٰ:۶۸۴ھ) (۶۳)‘علامہ بدر الدین ابن جماعہ الحموی الشافعیؒ(المتوفیٰ:۷۳۳ھ)(۶۴) ‘علامہ عضد الدین الایجیؒ (المتوفیٰ:۷۵۶ھ)(۶۵)‘ امام ابن ہمام الحنفیؒ(المتوفیٰ:۸۱۳ھ)(۶۶) ‘علامہ کمال الدین ابن ابی الشریف ؒ(المتوفیٰ: ۹۰۵ھ)(۶۷) ‘علامہ قاسم ابن قطلوبغا الحنفیؒ(المتوفیٰ:۸۷۹ھ) (۶۸)‘علاء الدين ابو الحسن علی بن سليمان المرداوی الدمشقی الحنبلی(المتوفى:۸۸۵ھ)(۶۹)‘ علامہ مجیر الدین المقدسی الحنبلیؒ (المتوفیٰ:۹۲۷ھ)(۷۰) ‘علامہ حصکفی الحنفیؒ(المتوفیٰ:۱۰۸۸) ‘علامہ ابن عابدین الحنفی الشامیؒ (المتوفیٰ:۱۲۵۲ھ)(۷۱)‘ شاہ ولی الله محدث دهلویؒ (۷۲)۔
خلیفہ کا انتخاب فرضِ کفایہ کب اور فرضِ عین کب؟
تین دن تک خلیفہ کا انتخاب فرض کفایہ ہے ۔سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: تیسرے سے چوتھا دن نہ ہونے پائے۔ان تین دنوں میں اگر یہ فرضِ کفایہ ادا نہ کیا گیا تو پھر فرضِ عین ہو جائے گا‘جیسے نماز جنازہ فرضِ کفایہ ہے اگر چند لوگ ادا کر دیں تو باقیوں کے ذمے سے وہ فرضیت ساقط ہوجائے گی لیکن اگر کوئی بھی ادا نہ کرے گا تو اب ادائیگی فرضِ عین ہو جائے گی۔ذیل میں چند حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں:
مؤرّخ ا مام ابن جریرطبریؒ(المتوفیٰ:۳۱۰ھ) نے سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ قول نقل کیا ہے:
’’فَاِذَا مِتُّ فَتَشَاوَرُوا ثَلاثَةَ أَيَّامٍ، وَلِيُصَلِّ بِالنَّاسِ صُهَيْبٌ، وَلا يَأْتِيَنَّ الْيَوْمُ الرَّابِعُ اِلا وعليكم أميرا مِنْكُمْ‘‘ (۷۳)
’’جب میں فوت ہو جاؤں تو تین دن تک مشورہ کرو اور چوتھا دن نہ آنے پائے مگر ایک خلیفہ مقرر ہو جائے۔‘‘
علامہ ابن حزم الاندلسی‘الظاہریؒ(المتوفیٰ:۴۵۶ھ) لکھتے ہیں:
’’وَلَا يجوز التَّرَدُّد فِي الِاخْتِيَار أَكثر من ثَلَاث لَيَال‘‘ (۷۴)
’’خلیفہ کی وفات کے بعد تین دن سے زیادہ (تذبذب اور تاخیر) جائز نہیں۔‘‘
قاضی ابویعلی الفراءؒ(المتوفیٰ:۴۵۸ھ) لکھتے ہیں:
’’لا يحل لأحد يؤمن باللّٰه واليوم الآخر أن يبيت ولا يراه إماماً براً كان أو فاجراً‘‘ (۷۵)
’’جو اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے ‘اس کے لیے جائز نہیں کہ رات بغیر امام کے گزارے چاہے وہ نیک ہو یا بد۔‘‘
امام الحرمین الجوینیؒ(المتوفیٰ:۴۷۸ھ) لکھتے ہیں:
’’ثُمَّ مَا يُقْضَى عَلَيْهِ بِأَنَّهُ مِنْ فُرُوضِ الْكِفَايَاتِ، قَدْ يَتَعَيَّنُ عَلَى بَعْضِ النَّاسِ فِي بَعْضِ الْأَوْقَاتِ‘‘ (۷۶)
یعنی فرض کفایہ بعض اوقات بعض لوگوں پر فرض عین ہوجاتا ہے۔
فرضیت ِخلافت کے مکلّف لوگ کون ہیں؟
جب یہ دلائل سے معلوم ہو چکا کہ خلیفہ کاانتخاب تین دن تک فرضِ کفایہ اور تین دن بعد فرض عین ہے تواب سوال یہ ہے کہ اس فرضیت کےمکلّف لوگ کون ہیں؟کون اس فرض کو ادا کریں گے؟
ابتداء ًاس فرض کی ادائیگی کی ذمہ داری دو گروہوں پر ہے:
(۱) اہل اجتہاد(شوریٰ) جنہیں اہلِ حل وعقد بھی کہا جاتا ہے۔
(۲) اہل الخلافۃ(یعنی وہ لوگ جن میں خلیفہ بننے کی اہلیت ہو وہ اپنے میں سے کسی ایک کو خلیفہ منتخب کریں)
قاضی ابویعلی الفراءؒ(المتوفیٰ:۴۵۸ھ) لکھتے ہیں:
’’وهي فرض على الكفاية، مخاطب بها طائفتان من الناس، إحداهما: أهل الاجتهاد حتى يختاروا، والثانية: من يوجد فيه شرائط الإمامة حتى ينتصب أحدهم للإمامة‘‘ (۷۷)
’’خلافت فرضِ کفایہ ہے‘اس کے مخاطب دو لوگ ہیں:اہل الرائے(شوری)تاکہ کسی ایک آدمی کا انتخاب کریں۔دوم لوگ جن میں امامت کی شرائط موجود ہوں تاکہ کسی ایک کو امام بنادیں۔‘‘
اگر ان دونوں گروہوں میں سے کوئی بھی اس ذمہ داری کو ادا نہ کرے تو پھر تمام مسلمانوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ خلیفہ کا تقرر کریں اور نظامِ خلافت کو قائم کریں ‘نہیں تو حسب ِمراتب تمام لوگ گناہ گار ہوں گے ۔
امام الحرمین الجوینیؒ(المتوفیٰ:۴۷۸ھ) لکھتے ہیں:
’’وَلَوْ فُرِضَ تَعْطِيلُ فَرْضٍ مِنْ فُرُوضِ الْكِفَايَاتِ لَعَمَّ الْمَأْثَمُ عَلَى الْكَافَّةِ عَلَى اخْتِلَافِ الرُّتَبِ وَالدَّرَجَاتِ‘‘ (۷۸)
’’اگر بالفرض فروض کفایہ میں سے کوئی فرض کفایہ معطل ہو جائے تو تمام لوگ حسب ِ مراتب اور حسب ِدرجات گناہ گار ہوں گے۔‘‘
افسوس صد افسوس‘ آج خلافت ِعثمانیہ کے خاتمے کو ایک صدی مکمل ہو چکی ہے ۔اس وقت مسلمانوں پر فرض عین ہے کہ نظام خلافت کو قائم کرنے کی جدّوجُہد کریں اور یہ ذمہ داری حسب ِ مراتب معاشرے میں سب سے زیادہ علماء پر عائد ہوتی ہے۔
عصر حاضر میں خلافت قائم کرنے کی اوّلین ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟
مولانا عبدالباقی حقانی لکھتے ہیں:
’’دینی علماء کو چاہیےکہ اپنی مسئولیت کو محسوس کریں اور علمی میدان میں اسلامی خلافت کے متعلق عوام خصوصاً نوجوان نسل اور دینی طلبہ کے اذہان کو تیار کریں۔ ‘‘(۷۹)
دوسرے مقام پر مستقل عنوان’’موجودہ دور میں خلافت کا قیام‘‘ قائم کر کے لکھتے ہیں:
’’یہی وہ حقیقت ہے جس کے بارے میں علماء نے یہ ثابت کیا ہے کہ اس کو قائم کرنا فرض یا رکن ہے ......بلکہ حق تو یہ ہے کہ اس حقیقت کے بارے میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں اور اسلام کے لیے ریاست اور عام قیادت کا قیام مسلمانوں پر فرض ہےاور یہ دین کا اساسی رکن ہےاور اُمّت اس واجب کوقائم نہ کرکے بہت بڑی کوتاہی کر رہی ہےاور دینی اعتبار سے گناہ میں پڑی ہوئی ہے بلکہ اپنی ذات ‘اپنی مصلحت اور اپنے انجام میں بھی کوتاہی کر رہی ہے۔اس بنا پر اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اُمّت موجودہ زمانے میں جب سے ترکی کی خلافت ختم ہوئی اس واجب کی ادائیگی میں کوتاہی کر رہی ہےاور اسے اللہ کے سامنے جواب دہی کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑے گا۔اور سیاسی اراکین ‘ علماء‘ اولوالامر اور ذی رائے لوگ سب گناہ گار ہیں کیونکہ خلافت کے قیام کا اوّل فریضہ تو ان پر عائد ہوتا ہےاور سب سے اوّل مرتبہ میں ان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ یہ لوگ دین اور اُمّت کی حفاظت کریں۔ ‘‘(۸۰)
فرضیت ِخلافت کی شرعی علت
شریعت کے بہت سارے فرائض خلیفہ کی تقرری پر موقوف ہیں ۔انہیں خلیفہ کے بغیربتمام و کمال ادا نہیں کیا جاسکتا اور فقہ کا اصول ہے: مُقَدِّمَةُ الْوَاجِبِ وَاجِبٌ’’فرض کا مقدمہ بھی فرض ہوتا ہے‘‘۔جیسے نماز فرض ہے اور وضو اس کا مقدمہ ہے تو وہ بھی فرض ہے۔اسی طرح حدود اللہ کا نفاذ‘ بماانزل اللہ یعنی شریعت کے موافق حکومت کرنا ‘امر بالمعروف اور نہی عن المنکر وغیرہ فرض ہیں۔یہ تمام فرائض خلیفہ کی تقرری پر موقوف ہیں لہٰذا خلیفہ کا تقرر بھی فرض ہے۔
علامہ تفتازانیؒ(المتوفیٰ:۷۹۲ھ) لکھتے ہیں:
’’ولأن الامة قد جعلوا اهم المهمات بعد وفاة النبي ﷺ نصب الامام حتى قدموه على الدفن، وكذا بعد موت كل امام، ولأن كثيرا من الواجبات الشرعية يتوقف عليه‘‘
’’یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرامؓ نے رسولِ اکرم ﷺ کی وفات کے بعد خلیفہ کی تقرری کو سب سے اہم کام قرار دیا حتی کہ اس کام کو رسول اکرم ﷺ کی تدفین پر مقدّم کیا ۔اسی طرح ہرخلیفہ کی موت کے بعد (اس کی تدفین سے پہلے اگلے خلیفہ کا انتخاب )کیا گیاکیونکہ بہت سارے فرائض شرعیہ خلیفہ کی تقرری پر موقوف ہیں ۔‘‘
اس کے بعد علامہ تفتازانیؒ(المتوفیٰ:۷۹۲ھ) نے امام نجم الدین نسفیؒ (المتوفیٰ:۵۳۷ھ) ------- جن کا شمار ائمہ حنفیہ کے اساطین میں ہوتا ہےآپؒ کے عہد تک علمِ کلام کا کارواں پُر پیچ مرحلوں سے گزر کر منزل آشنا ہوچکا تھااور یہ فن اوج کمال تک پہنچ گیا تھا۔عقائد پر آپ کاقابلِ اعتماد متن جو درسِ نظامی میں پڑھایاجاتا ہے ------- ان کی مکمل عبارت نقل کی :
’’والمسلمون لا بد لهم من إمام يقوم بتنفيد أحكامهم، وإقامة حدودهم، وسد ثغورهم، وتجهيز جيوشهم، وأخذ صدقاتهم، وقهر المتغلبة، والمتلصصة وقطاع الطريق، وإقامة الجمع والأعياد، وقطع المنازعات الواقعة بين العباد، وقبول الشهادات القائمة على الحقوق، وتزويج الصغار، والصغائر الذين لا اولياء لهم، وقسمة الغنائم‘‘
’’اور مسلمانوں کے لیے کوئی خلیفہ ہونا ضروری ہےجو ان پر احکامِ شریعت نافذ کرےاور ان پر حدود قائم کرےاور ان کی سرحدوں کی حفاظت کرےاور ان کی فوج تیار کرےاور ان سے زکوٰۃ وصول کرےاور ظالموں ‘غاصبوں ‘ چوروں اور ڈاکوؤں کو مغلوب کرےاور جمعہ و عیدین کی نمازوں کا انتظام کرےاور لوگوں کے درمیان واقع ہونے والے جھگڑوں کا خاتمہ کرےاور حقوق پر قائم کی جانے والی شہادتوں کو قائم کرےاور ان نابالغ لڑکوں اورلڑکیوں کی شادی کرے (جب وہ بالغ ہو جائیں)جن کا کوئی ولی نہیں اور اموال ِ غنیمت کو تقسیم کرے۔ ‘‘ (۸۱)
یہی رائے ہے امام عبدالقاہر بغدادیؒ(المتوفیٰ:۴۲۹ھ) کی(۸۲) ۔ علامہ ابن حزم الاندلسی‘ الظاہریؒ(المتوفیٰ:۴۵۶ھ) کی(۸۳) ۔امام بزدوی الحنفیؒ(المتوفیٰ:۴۹۳ ھ) کی(۸۴) ۔ امام ابومعین میمون نسفیؒ (المتوفیٰ:۵۰۸ھ) کی(۸۵) ۔علامہ شہرستانی(المتوفیٰ:۵۴۸ھ) کی(۸۶)۔ علامہ نور الدین صابونی ؒ(المتوفیٰ:۵۸۰ھ)کی(۸۷) ‘شیخ جمال الدین احمد بن محمد الغزنوی الحنفیؒ (المتوفیٰ:۵۹۳ھ) کی(۸۸)۔ علامہ جلال الدین عمر بن محمد الخبازی الحنفیؒ (المتوفیٰ:۶۹۱ھ)کی (۸۹)‘ قاسم ابن قطلوبغا الحنفیؒ (المتوفیٰ:۸۷۹ھ) کی(۹۰) ۔ علامہ بدر الدین ابن جماعہ الحموی الشافعیؒ (المتوفیٰ:۷۳۳ھ)کی(۹۱) ۔ ملا علی القاریؒ(المتوفیٰ:۱۰۱۴ھ)کی (۹۲)۔ علامہ ابن عابدین الحنفی الشامیؒ (المتوفیٰ:۱۲۵۲ھ)کی(۹۳)۔
خلافت کا منکر کافر ہے
امام ابومعین میمون بن محمدالنسفیؒ (المتوفیٰ:۵۰۸ ھ) لکھتے ہیں:
’’فلا يجوز أن يمضي علينا يوم ولم نر على أنفسنا اماما وهو الخليفة، لأن كل من كان لا يرى الامام حقا فانه يكفر، لأن من الأحكام ما يتعلق جوازه بالامام، نحو الجمعة والعيدين، ونكاح الأيتام، وكل من انكر الامام فقد انكر الفرائض فانه کافر‘‘ (۹۴)
’’پس جائز نہیں ہے کہ ہم خلیفہ کے بغیر ایک دن بھی گزاریں ‘جو شخص خلیفہ کے تقرر کو حق نہ جانے اس نے کفر کیا ہے کیونکہ شریعت کے بہت سارے فرائض خلیفہ کے تقرر پر موقوف ہیں لہٰذا ہر وہ شخص جو خلیفہ کا انکار کرتا ہے گویا اس نے فرائض کا انکار کیااور جو فرائض کا انکار کرے وہ کافر ہے۔‘‘
تنبیہ
آج مسلمانوں پر نظام ِخلافت کو قائم کرنانماز کی طرح فرض عین ہے ۔جو مسلمان جدّوجُہد نہیں کر رہےوہ گناہ کبیرہ کےمرتکب ہیں ‘فسق میں مبتلا ہیں ۔خدارا‘ اپنے آپ کو اس گناہ سے نجات دلائیں ‘جو جان پیش کر سکتاہے وہ جان پیش کرےجومال پیش کر سکتا ہے وہ مال پیش کرے ‘جولکھ سکتا ہے وہ خوب لکھے ‘جو بول سکتا ہے وہ خوب بولے۔ہم اپنے آپ کو اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے کھپا دیں۔
یہ مضمون میری کتاب’’مسئلہ خلافت کی شرعی حیثیت ‘‘ کا اختصار ہے۔ اگر آ پ اصل حوالہ جات مع اردو ترجمہ تفصیل سے مطالعہ کرنا چاہتے ہیں تو میری کتاب کو حاصل کر کے ضرور مطالعہ فرمائیں جو ایک نظریاتی شخص کے لیے بہت مفید ہے (والله اعلم بالصواب)
حواشی

(۱) اقتصاد فی الاعتقاد: ج۱‘ص ۱۲۷‘ الباب الثالث فی الامامۃ۔
(۲) اقتصاد فی الاعتقاد: ج۱‘ص ۱۲۷‘ الباب الثالث فی الامامۃ۔
(۳) ابکار الافکار فی اصول الدین:ج۵‘ ص۱۱۹‘ الاصل الاول فی الامامۃ۔
(۴) غایۃ المرام فی علم الکلام:ج۱‘ص۳۶۳‘ القانون الثامن فی الامامۃ۔
(۵) شرح المقاصد:ج۳‘ ص ۴۶۹‘ الفصل الرابع فی الامامۃ
(۶) المسامرۃ بشرح المسایرۃ:ص۲۹۴‘ الاصل السابع فی الامامۃ
(۷) النبراس على شرح العقائد:ص۵۴۵۔
(۸) رد المحتار على الدر المختار: ج۱‘ص۵۴۷ ‘ بَابُ الْاِمَامَةِ.
(۹) الهادي في علم الكلام:ص۳۱۰‘ الكلام في الامامة.
(۱۰) زاد المسير في علم التفسير لابن الجوزي (المتوفى:۵۹۷ھ) ج۱‘ ص ۵۰
(۱۱) جامع البيان في تأويل القرآن: ج۱‘ ص ۴۵۲‘ تحت آیت: ۳۰
(۱۲) معالم التنزيل في تفسير القرآن:ج۱‘ ص ۷۹‘ تحت آیت:۳۰
(۱۳) الجامع لأحكام القرآن:ج۱‘ص۲۶۴‘ تحت آیت:۳۰
(۱۴) الجامع لأحكام القرآن: ج۱‘ ص ۲۶۵‘ تحت آیت:۳۰
(۱۵) أنوار التنزيل وأسرار التأويل:ج۱‘ ص ۶۸‘ تحت آیت:۳۰
(۱۶) معارف القرآن:ج۱‘ ص ۱۱۸۔
(۱۷) اصول الدين: ص۲۸۱‘ تحت: الامامة.
(۱۸) غاية المرام في علم الكلام:ص۳۶۴‘ القانون الثامن في الامامة.
(۱۹) بیان القرآن:ج۱‘ ص ۵۵۰
(۲۰) التفسير الكبير:ج۱۱‘ص۳۵۱
(۲۱) التفسير الكبير: ج۲۳‘ ص ۳۱۳
(۲۲) رد المحتار على الدر المختار:ج۱‘ ص ۵۴۸‘ بَابُ الْاِمَامَةِ.
(۲۳) غاية المرام في علم الكلام:ج۱‘ص۳۶۴‘ الطّرف الأول فى وجوب الإماكة وَمَا يتَعَلَّق بهَا.
(۲۴) كتاب المواقف:ج۳‘ ص۵۸۰‘ المرصد الرابع في الإمامة ومباحثها.
(۲۵) المسامرة بشرح المسايرة:ص۲۹۹‘ الاصل السابع في الامامة.
(۲۶) ترجمان السنۃ:ج۱‘ ص ۱۸۶
(۲۷) الاقتصاد في الاعتقاد:ج۱‘ ص ۱۲۸‘ الباب الثالث في الامامة.
(۲۸) شرح العقيدة الطحاوية لابن أبي العز الحنفي‘ج۱‘ص۳۵۱‘ تابع قوله: والإيمان: هو الإقرار باللسان.
(۲۹) النكت على مقدمة ابن الصلاح‘ج۱‘ص۳۹۰‘ النَّوْع الثَّالِث فِي معرفَة الضَّعِيف.
(۳۰) الصحيح للبخاري‘ ج۹‘ ص ۴۷‘حدیث:۷۰۵۳‘ بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ : ))سَتَرَوْنَ بَعْدِي أُمُورًا تُنْكِرُونَهَا((
(۳۱) الصحيح للامام مسلم ‘ ج۳‘ ص ۱۴۷۶‘رقم الحديث: ۱۸۴۸‘ بَابُ الْأَمْرِ بِلُزُومِ الْجَمَاعَةِ عِنْدَ ظُهُورِ الْفِتَنِ وتحذير الدعاة إلى الكفر.
(۳۲) الصحيح للامام مسلم: ج۳‘ ص ۱۴۷۸‘رقم الحديث: ۱۸۵۱‘ بَابُ الْأَمْرِ بِلُزُومِ الْجَمَاعَةِ عِنْدَ ظُهُورِ الْفِتَنِ وتحذير الدعاة إلى الكفر.
(۳۳) مسند أبي داود الطيالسي:ج۳‘ ص ۴۲۵‘ رقم الحديث:۲۰۲۵
(۳۴) مسند أبي يعلى:ج۱۳‘ ص ۳۶۶‘ رقم الحدیث:۷۳۷۵
(۳۵) المعجم الكبير للطبرانی :ج۱۰‘ص۱۶۲رقم الحدیث: ۱۰۲۱۰
(۳۶) الصحيح للامام مسلم:ج۳‘ ص ۱۴۷۱‘رقم الحديث: ۱۸۴۱‘ بَابٌ فِي الْاِمَامِ اِذَا أَمَرَ بِتَقْوَى اللہِ وَعَدَلَ كَانَ لَهُ أَجْرٌ.
(۳۷) الأحكام السلطانية:ج۱‘ ص ۱۵‘ البَابُ الأَوَّلُ: فِي عَقٍدِ الْاِمَامَةِ.
(۳۸) الفصل في الملل والأهواء والنحل:ج۴‘ ص۷۲‘ الْكَلَام فِي الْاِمَامَة والمفاضلة بِي الصَّحَابَة.
(۳۹) غياث الأمم في التياث الظلم:ج۱‘ ص ۲۴‘ حُكْمُ نَصْبِ الْاِمَامِ.
(۴۰) تبصرة الادلة في اصول الدين:ص۱۱۰۳‘ الكلام في الامامة.
(۴۱) نهاية الإقدام في علم الكلام:ج۱‘ ص ۲۷۳‘ القول في الإمامة.
(۴۲) البيان في مذهب الإمام الشافعي:ج۱۲‘ ص ۸
(۴۳) الكفاية في الهداية:ص۲۱۲‘ القول في الامامة.
(۴۴) اصول الدين:ص۲۸۳‘ تحت: الامامة.
(۴۵) حاشية على الخمسون في اصول الدين:ص۲۴۰‘ المسئلة في ان الخليفة في زماننا هو امير المؤمنين.
(۴۶) الهادي في علم الكلام:ص۳۱۰‘ الكلام في الامامة.
(۴۷) كتاب المواقف:ج۳‘ص۵۸۰‘ المرصد الرابع في الإمامة ومباحثها.
(۴۸) شرح العقائد:ص۳۵۳‘ نصب الامام وفرائضه.
(۴۹) ديوان المبتدأ والخبر في تاريخ العرب والبربر:ج۱‘ص۲۳۹‘ الفصل السادس والعشرون في اختلاف الأمة في حكم هذا المنصب وشروطه.
(۵۰) المسامرة بشرح المسايرة:ص۲۹۹‘ الاصل السابع في الامامة.
(۵۱) مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح:ج۶‘ ص۲۳۹۴‘ كتاب الإمارة والقضاء.
(۵۲) اصول الايمان:ج۱‘ص۲۱۶ المسألة الأولى من هذا الأصل في بيان وجوب الإمامة.
(۵۳) الأحكام السلطانية: ج۱‘ ص ۱۷‘ فَصْلٌ: فِي بَيَانِ حُكْمِ الخِلَافَةِ.
(۵۴) الأحكام السلطانية‘ج۱‘ ص۱۹‘ فصول في الإمامة.
(۵۵) غياث الأمم في التياث الظلم‘ج۱‘ ص۲۴‘ حُكْمُ نَصْبِ الْاِمَامِ.
(۵۶) اصول الدين‘ص۱۹۱‘ هل يجب تعيين احد للامامة.
(۵۷) الاقتصاد في الاعتقاد‘ج۱‘ ص ۱۲۸‘ الباب الثالث في الامامة.
(۵۸) نهاية الإقدام في علم الكلام‘ج۱‘ ص ۲۶۷‘ القول في الإمامة.
(۵۹) بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع‘ج۷‘ص۲‘ كِتَاب آدَاب الْقَاضِي.
(۶۰) التفسير الكبير‘ج۱۱‘ ص ۳۵۱۔
(۶۱)غاية المرام في علم الكلام‘ج۱‘ ص ۳۶۶‘ الطّرف الأول فى وجوب الإمامة وَمَا يتَعَلَّق بهَا.
(۶۲) روضة الطالبين وعمدة المفتين‘ج۷‘ص۲۶۳‘ الفصل الثاني : في وجوب الإمامة وبيان طرقها.
(۶۳) الذخيرة‘ج۱۳‘ ص ۲۳۴‘ الْجِنْسُ الْأَوَّلُ الْعَقِيدَةُ.
(۶۴) تحرير الأحكام في تدبير أهل الإسلام‘ج۱‘ ص ۴۸‘ فِي وجوب الْاِمَامَة وشروط الاِمَام وَأَحْكَامه.
(۶۵) كتاب المواقف‘ج۳‘ ص ۵۷۸‘ المرصد الرابع في الإمامة ومباحثها.
(۶۶) المسایرۃ‘ص۲۹۴‘ الاصل السابع في الامامة.
(۶۷) المسامرة بشرح المسايرة‘ص۲۹۶‘ الاصل السابع في الامامة.
(۶۸) حاشية المسامرة‘ص۲۹۶‘ الاصل السابع في الامامة.
(۶۹) الإنصاف في معرفة الراجح من الخلاف‘ج۱۰‘ص۳۱۰‘ بَابُ قِتَالِ أَهْلِ الْبَغْيِ.
(۷۰) فتح الرحـمٰن في تفسير القرآن:ج۶‘ص۳۶۶‘ تحت: وَاِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا.
(۷۱) رد المحتار على الدر المختار:ج۱‘ ص ۵۴۸‘ مَطْلَبٌ شُرُوطُ الْاِمَامَةِ الْكُبْرَى.
(۷۲) إزالة الخفاءعن خلافة الخلفاء:ج۱‘ص۹۔
(۷۳) تاريخ الرسل والملوك:ج۴‘ص۲۲۹‘ قِصَّةُ الشُّورَى.
(۷۴) الفصل في الملل والأهواء والنحل:ج۴‘ص۱۳۱‘ الْكَلَام فِي عقد الْاِمَامَة بِمَاذَا تصح.
(۷۵) الأحكام السلطانية:ج۱‘ ص۲۰‘ فصول في الإمامة.
(۷۶) الغياثي غياث الأمم في التياث الظلم:ج۱‘ص۳۵۹‘ مَنْزِلَةُ فُرُوضِ الْكِفَايَاتِ.
(۷۷) الأحكام السلطانية:ج۱‘ص۱۹‘ فصول في الإمامة.
(۷۸) الغياثي غياث الأمم في التياث الظلم:ج۱‘ص۳۵۹‘ مَنْزِلَةُ فُرُوضِ الْكِفَايَاتِ.
(۷۹) اسلام کا نظام سیاست و حکومت‘ج۱‘ص۲۰۸
(۸۰) اسلام کا نظام سیاست و حکومت:ج۱‘ص۳۱۲
(۸۱) شرح العقائد النسفیة:ص۳۵۴‘ نصب الامام وفرائضه.
(۸۲) اصول الايمان:ج۱‘ص۲۱۶‘ المسألة الأولى من هذا الأصل في بيان وجوب الإمامة
(۸۳) الفصل في الملل والأهواء والنحل:ج۴‘ص۷۲‘ الْكَلَام فِي الْاِمَامَة والمفاضلة بِي الصَّحَابَة
(۸۴) اصول الدين:ص۱۸۳‘ مسئلة الخليفة بعد النبي.
(۸۵) تبصرة الادلة في اصول الدين:ص۱۱۰۳‘ الكلام في الامامة.
(۸۶) نهاية الإقدام في علم الكلام:ج۱‘ص۲۶۷‘ القول في الإمامة.
(۸۷) الكفاية في الهداية:ص۲۱۱‘۲۱۲‘ القول في الامامة.
(۸۸) اصول الدین:ص۲۶۹‘ تحت: الامامة.
(۸۹) الهادي في علم الكلام:ص۳۱۰‘ الكلام في الامامة.
(۹۰) حاشیہ مسامرہ :ص۲۹۸‘ الاصل السابع في الامامة.
(۹۱) تحرير الأحكام في تدبير أهل الإسلام:ج۱‘ص۴۸‘ فِي وجوب الْاِمَامَة وشروط الاِمَام وَأَحْكَامه.
(۹۲) شرح الفقہ الاکبر:ص۱۴۶‘ منها مسئلة نصب الامام.
(۹۳) رد المحتار على الدر المختار:ج۱‘ص۵۴۸‘ مَطْلَبٌ شُرُوطُ الْاِمَامَةِ الْكُبْرَى.
(۹۴) بحر الكلام:ص۲۲۷‘ فصل في الامامة.