(منہجِ انقلابِ نبویؐ) فرضیت ِ خلافت اور اس کے قیام کا نبویؐ طریقہ کار - مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ

14 /

خلافت کی فرضیت
اور
اس کے قیام کا نبوی طریقہ کار
مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ

فریضہ ٔ اقامت ِدین یا فرضیت ِخلافت کے حوالے سے بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ پر یہ اعتراض وارد کیا جاتا ہے کہ یہ ان کا خود ساختہ تصوّر ہے‘ سلف سے اس کی کوئی دلیل نہیں ملتی۔ اس اعتراض کا ہماری طرف سے اس سے قبل بھی ان صفحات میں تفصیل سے جواب دیا جا چکا ہے جو اب کتابی شکل میں بھی’’فریضہ اقامت دین: اسلاف کی آراء و تعامل‘‘ کے عنوان سے دستیاب ہے۔ اس کتاب میں پہلی صدی ہجری سے دورِ حاضر تک کے تمام اسلافِ اُمّت کے فریضہ ٔ اقامت ِدین کی فرضیت کے قائل ہونے کے دلائل‘ ان کی تفاسیر‘ فقہ اور اُصولِ فقہ کی کتابوں سے دیے گئے ہیں۔ حال ہی میں اس حوالے سے دور حاضر کی ایک بہت بڑی علمی شخصیت محترم مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہؒ (سابق شیخ الحدیث جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک و امیر تحریک نفاذِ اسلام) کا ایک مضمون بعنوان ’’فرضیت خلافت اور اس کے قیام کا نبویؐ طریقہ کار‘‘ سامنے آیا جوماہنامہ’’ نوائے افغان جہاد‘‘ میں بالاقساط (ستمبر۲۰۱۱ء تا جنوری ۲۰۱۲ء) شائع ہوا تھا۔ اس مضمون میں مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہؒ نے نہ صرف اقامت ِخلافت کو فرضِ عین قرار دیا ہے بلکہ یہ بھی لکھا ہے کہ اس کے قیام کے لیے جو جماعت بنائی جائے وہ بھی مروّجہ جمہوری طریقہ پر نہیں بلکہ سمع وطاعت کے ٹھیٹھ نبویؐ طریقہ کار پر قائم ہو‘ اور امام مالکؒ کے قول ’’لَا یَصْلُحُ آخِرُ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ اِلَّا بِمَا صَلَحَ بِہٖ اَوَّلُھَا‘‘ کی روشنی میں انقلابِ نبویؐ پر مبنی وہی منہج اختیار کرےجو نبی اکرمﷺ کا منہج تھا۔
منہج کے حوالے سےبانیٔ تنظیم کے بیان کردہ طریقہ سے مختلف انداز اختیار کرتے ہوئےڈاکٹر شیر علی شاہ صاحب نے منہج ِانقلابِ نبویؐ کے دوبڑے مراحل ’’دعوت اور جہاد‘‘ کی شکل میں بیان کیے ہیں۔ مرحلہ دعوت کے ساتھ مختصراً انہوں نے تربیت ‘ تنظیم اور صبر محض کا بھی ذکر فرما دیا ہے جبکہ مرحلہ جہادمیں اقدام اور مسلح تصادم کے مراحل کا سیرتِ مطہرہ کی روشنی میں بیان تو واضح انداز میں فرمایا ہے لیکن پاکستان کے معروضی حالات کے تناظر میں مسلح تصادم کے بجائے عدم تشدد پر مبنی پُر امن طریق کار جو تنظیم اسلامی کے پیشِ نظر ہے‘ وہ بیان نہیں کیا ۔ البتہ اپریل ۲۰۱۰ء میں جامعہ اشرفیہ‘ لاہور میں علمائے دیوبند کا ایک اہم اجتماع منعقد ہوا جس میں تقریباً ۱۵۰ جید علماء نے شرکت کی اور تین دن کی مسلسل مشاورت اور غور و فکر کے بعد ان کی طرف سے ایک مشترکہ موقف اعلامیہ کی صورت میں جاری کیا گیا ۔ اس میں بہت سے دیگر امور کے علاوہ بانی تنظیم ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے عدم تشدد پر مبنی تبدیلی کے پُر امن طریق کار سے مکمل اتفاق کاا ظہار ان الفاظ میں کیا گیا:’’تمام سیاسی اور دینی جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے دوسرے مقاصد پر نفاذِ شریعت کے مطالبہ کو اوّلیت دے کر حکومت پر دباؤڈالیں اور اس غرض کے لیےمؤثرمگر پُر امن جدّوجُہدکا اہتمام کریں اور عوام کا فرض ہے کہ جو جماعتیں اور ادارے اس مقصد کے لیے جدّوجُہد کر رہے ہیں‘ ان کے ساتھ مکمل تعاون کریں۔‘‘
یہ مضمون اس اعتبار سے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ ہمارے قدیم روایتی مدارسِ دینیہ سے تعلق رکھنے والی ایک معروف علمی شخصیت کا بھی فریضہ اقامت دین کے حوالے سے تھوڑے سے فرق کے ساتھ وہی موقف ہے جو بانیٔ تنظیم اسلامی محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ کا ہے۔ تنظیم اسلامی اسی طریق کار کے مطابق آج بھی اقامت ِدین کی جدّوجُہد کر رہی ہے۔ لہٰذا تنظیم اسلامی غلبہ واقامت دین کےجس مشن پر گامزن ہے وہ کوئی نئی بدعت یا اختراع نہیں ہے بلکہ ہمارے اسلاف کا بھی یہی مشن رہا ہے۔
اب مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ کا متذکرہ بالا مضمون ملاحظہ ہو:
فرضیت ِخلافت
جیسے مسلمانوں کی دنیوی واُخروی سعادت اور کامرانی’’ اسلامی نظامِ خلافت‘‘ کے ساتھ وابستہ ہے‘ اسی طرح اسلام کی دعوت‘ غلبہ و اقتدار کا انحصار’’ خلافت‘‘ پر ہے۔ امام الرسل ﷺ کے مقصد ِرسالت یعنی اظہارِ دین کا حصول بھی’’ خلافت‘‘ ہی کے ذریعے ممکن ہے۔اس لیے اللہ تعالیٰ نے قیامت تک آنے والے تمام مسلمانوں پر اقامت ِخلافت اور خلیفہ کے تقرر کو فرض قرار دیا ہے تاکہ ہر دور میں خلافت کے ذریعے مقصد ِرسالت’’ اظہار ِدین‘‘ حاصل کیا جاتا رہے۔
فرضیت ِخلافت قرآن و سُنّت اور اجماع سے ثابت ہے اور خیر القرون سے آج تک تمام فقہائے مذاہب‘ مجتہدین علماء کرام خلافت کے قیام کی فرضیت پر متفق ہیں۔
فرضیت ِخلافت: قرآن کی روشنی میں
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً ط} (البقرہ:۳۰)
’’یقیناًمَیں زمین میں ایک نائب (خلیفہ) بنانے والا ہوں۔‘‘
امام قرطبی ؒاس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’یہ آیت امام و خلیفہ کے تقرر کے بارے میں قاعدہ کلیہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ایسا امام جس کی بات سنی جائے اور اس کی اطاعت کی جائے تاکہ (اسلام کی شیرازہ بندی) اس سے مجتمع رہے اور خلیفہ کے احکام نافذ ہوں۔ اُمّت اور ائمہ میں خلیفہ کے تقرر کے واجب ہونے میں کوئی اختلاف نہیں۔‘‘ (الجامع لاحکام القرآن)
سورۃ النور میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
{وَعَدَ اللہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ ص وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَہُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمْ مِّنْ  بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًاط } (النور:۵۵)
’’جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کو ملک کا حاکم بنا دے گا جیسا کہ ان سے پہلے لوگوں کو حاکم بنایا تھا‘ اور ان کے دین کو جسے اُس نے ان کے لیے پسند کیا ہے مستحکم و پائیدار کرے گا‘ اور خوف کے بعد ان کو امن بخشے گا۔‘‘
اس آیت میں ایمان اور نیک عمل کا انعام اس دنیا میں خلافت کے قیام کو قرار دیا گیا ہے جس کے لازمی نتیجے کے طور پر دین کا استحکام اور امن و امان کا قائم ہو جانا ہے۔ اگر خلافت قائم ہو تو لازما ًایک خلیفہ ہوگا جس کی اطاعت کی جائے گی اور اگر خلافت قائم نہیں ہے تو اس کے قیام کے لیے ایک جماعت ہوگی اور پھر اس کا ایک امیر ہوگا جس کی اطاعت کی جائے گی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ ج}
(النساء:۵۹)

’’اے ایمان والو! تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسولؐ کی اطاعت کرو اوران کی بھی جو تم میں صاحب ِامر ہوں۔‘‘
اس آیت میں’’ اولی الامر‘‘ کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اور اولی الامر کے وجود کے بغیر اطاعت اولی الامر کا تصور ناممکن ہے۔ جس شخص کا وجود ہی نہیں اس کی اطاعت کیسے ہو سکتی ہے؟ لہٰذااطاعت اولی الامر کی فرضیت سے اولی الامر کے تقرر کی فرضیت نص سے ثابت ہو تی ہے۔ پھر یہی نظامِ خلافت دراصل قیامِ عدل وقسط کی عملی شکل ہے جس کے لیے تمام انبیاء کرام علیہم السلام کو مبعوث کیا گیا:
{لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ج }(الحدید:۲۵)
’’تحقیق ہم نے اپنے پیغمبروں کو کھلی نشانیاں دے کر بھیجا اور ان پر کتابیں نازل کیں اور ترازو (یعنی قواعد ِعدل) تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں۔‘‘
اور واضح طور پر حضرت داؤد علیہ السلام کو اس کا حکم دیا:
{یٰـدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰکَ خَلِیْفَۃً فِی الْاَرْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ} (صٓ:۲۶)
’’اے داؤد! ہم نے تم کو زمین میں بادشاہ بنایا ہے تو لوگوں میں انصاف کے ساتھ فیصلے کیا کرو۔‘‘
پھر یہی خلافت کا قیام رسول اللہﷺ کے مقصد ِرسالت یعنی اظہار دین کی بھی تکمیل کرتا ہے:
{ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَــوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ(۹)}(الصف)
’’وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اسے اور سب ادیان پر غالب کرے خواہ مشرکوں کو برا ہی لگے۔‘‘
اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر دین اسلام قیامت تک کے لیے ہے تو اس کا غلبہ بھی قیامت تک ہر دور میں مقصود رسالت ہے اور یہ غلبہ بغیر خلافت و حکومت کے حاصل نہیں ہوسکتا۔ لہٰذاغلبہ اسلام کے حصول کے لیے اقامت خلافت لازم ہے۔
فرضیت ِخلافت :احادیث ِمبارکہ کی روشنی میں
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((مَنْ مَاتَ وَلَيْسَ فِيْ عُنُقِهٖ بَيْعَةٌ مَاتَ مِيْتَةً جَاهِلِيَّةً)) (صحیح مسلم‘ کتاب الامارۃ)
’’جو شخص اس حالت میں مرا کہ اس کی گردن میں (کسی خلیفہ کی) کی بیعت نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔‘‘
اس حدیث میں رسول اللہﷺ نے خلیفہ کی بیعت کو فرض قرار دیا ہے اور خلیفہ کی بیعت اس کے تقرر کے بغیر نہیں ہو سکتی‘ لہٰذاخلیفہ کا تقرر فرض ہوا۔ چونکہ خلافت کا قیام فرض ہے اور یہ خلیفہ کے بغیر ادا نہیں ہو سکتا اس لیے خلیفہ کی عدم موجودگی میں واقع ہونے والی موت کو جاہلیت کی موت کے مشابہ قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں یہ الفاظ وارد ہوئے:
((مَنْ مَاتَ وَلَيْسَ عَلَیْہِ اِمَامٌ مَاتَ مِيْتَةً جَاهِلِيَّةً)) (کتاب السُّنّۃ)
’’جو شخص اس حال میں مرا کہ اس پر کوئی امام (خلیفہ کی حکومت) نہیں تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔‘‘
اسی طرح آنحضرتﷺ نے خلیفہ کی اطاعت کو بھی فرض قرار دیا ہے:
((اِسْمَعُوْا وَاَطِيْعُوْا، وَاِنِ اسْتُعْمِلَ عَلَيْكُمْ عَبْدٌ حَبْشِيٌّ))(صحیح البخاری)
’’سنو اور اطاعت کرو اگرچہ تم پر ایک حبشی غلام ہی کو عامل (امیر) بنا دیا جائے۔‘‘
ایک اور حدیث میں رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((اَلسَّمْعُ وَالطَّاعَةُ عَلَى الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ فِيْمَا أَحَبَّ وَكَرِهَ)) (صحیح البخاری)
’’مسلمان پر سننا اور اطاعت کرنا لازم ہے‘ پسندیدگی اور ناپسندیدگی میں۔‘‘
خلیفہ کی اطاعت تب ہو سکتی ہے جب خلیفہ موجود ہو۔ جو چیز موجود نہیں اس کی اطاعت کا حکم کیسے دیا جا سکتا ہے؟ لہٰذاخلیفہ کی اطاعت کی فرضیت سے خلیفہ کے تقررکی فرضیت ثابت ہوتی ہے۔
فرضیت ِخلافت: صحابہ کرام ؓاور اسلاف کی نظر میں
رسول اللہﷺ کے رفیق اعلیٰ کی طرف انتقال فرمانے کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو خطبہ دیا‘ اس میں فرمایا:
’’سنو! محمدﷺ وفات پا چکے ہیں اور اس دین کے لیے ایسا شخص( خلیفہ) ہونا ضروری ہے جو اسے قائم کرے۔‘‘ ( مواقف۔۔۔ الرابع بحوالہ اسلام کا سیاسی نظام)
یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے رسول اللہﷺ کی تدفین سے پہلے خلیفہ کا انتخاب فرمایا۔ اسی چیز کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ لکھتے ہیں:
’’صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی توجہ آنحضرتﷺ کے دفن سے پہلے خلیفہ کے تعین و تقرر کی طرف مائل ہوئی۔ اگر صحابہ کرامؓ کو شریعت کی طرف سے خلیفہ مقرر ہونے کی فرضیت معلوم نہ ہوتی تو وہ حضرات ہرگز خلیفہ کے تقرر کو آنحضرتﷺ کے دفن پر مقدم نہیں کرتے۔‘‘(ازالۃ الخفاء )
اسی طرح امام احمد بن حجر الہیثمیؒ لکھتے ہیں:
’’جان لیجیے کہ صحابہ کرام ؓنے زمانہ نبوت کے بعد امام کے تقررکے وجوب پر اجماع کیا ہے بلکہ اسے فرائض میں سب سے اہم فریضہ قرار دیا ہے‘ اس طرح کہ انہوں نے (خلیفہ کے تقرر کے معاملے کو حل کرنے کی وجہ سے) رسول اللہﷺ کی تدفین کو مؤخر کر دیا۔‘‘ (الصواعق المحرقۃ)
اسی حوالے سے علامہ طبری ؒحضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول نقل کرتے ہیں:
’’ جب مَیں فوت ہو جاؤں تو تین دن تک مشورہ کرو اور چوتھا دن نہ آنے پائے کہ تمہارا ایک خلیفہ مقرر ہو۔‘‘(المفردات للراغب الاصفہانی)
امام نسفیؒ مسلمانوں کے لیے قرآن و سُنّت کے مطابق حکمرانی کرنے والے امام و خلیفہ کی ضرورت کو اس طرح بیان کرتے ہیں:
’’مسلمانوں کے لیے ایسے امام کا ہونا ضروری ہے جو احکامات نافذ کرے‘ حدود کو قائم کرے‘ سرحدوں کی حفاظت کرے‘ صدقات وصول کرے‘ سرکشوں‘ چوروں اور ڈاکوؤں پر قابو پائے اور جمعہ وعیدین کو قائم کرے‘ وغیرہ۔‘‘ (شرح العقائد النسفیہ)
امام ابن تیمیہ ؒاقامت ِخلافت کو فرائض ِدینیہ میں سب سے بڑا فریضہ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’یہ جان لینا ضروری ہے کہ لوگوں کے (اجتماعی و ریاستی) معاملات کے لیے ولایت (خلافت و حکومت) دین اسلام کے فرائض میں سے ایک بڑا فریضہ ہے بلکہ دین و دنیا کا قیام اس کے بغیر ممکن نہیں ہے۔‘‘ (السیاسۃ الشرعیہ)
وہ مزید فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو واجب کیا ہے اور یہ طاقت و امارت کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔ اسی طرح تمام وہ احکامات جن کو اللہ تعالیٰ نے واجب کیا ہے یعنی جہاد‘ عدل کا قیام‘ حج‘ جمعہ و عیدین کی اقامت‘ مظلوم کی مدد اور اقامت ِحدود (یہ سب معاملات) طاقت و امارت کے بغیر پورے نہیں ہوتے۔‘‘ (مجموعہ فتاویٰ لا بن تیمیہ)
امام علاؤ الدین الکاسانی الحنفی ؒلکھتے ہیں:
’’ امام اعظم( خلیفہ) کا تقرر فرض ہے‘ اہل حق کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں۔‘‘(بدائع الصنائع)
فرضیت خلافت: فرضِ عین یا فرضِ کفایہ؟
ایک سوال یہ اُٹھتا ہے کہ فرضیت خلافت سے کون سا فرض مراد ہے: فرضِ عین یا فرضِ کفایہ؟ اگر بالفرض اسے فرضِ کفایہ بھی لیا جائے تو فقہاء کے نزدیک اور علماءِ اصول کا یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ فرضِ کفایہ مقررہ مدت کے اندر ادا نہ کیا جائے تو وہ فرضِ عین ہو جاتا ہے۔ خلافت کا قیام ابتداء ً فرضِ کفایہ ہے لیکن اگر مقررہ مدت یعنی تین دن کے اندر کچھ لوگ اسے ادا نہ کریں گے تو فرضِ عین ہو جائے گا۔
جیسے جہاد ابتداء ً فرضِ کفایہ ہے لیکن مقررہ مدت میں کچھ لوگ اسے ادا نہ کریں تو فرضِ عین ہو جاتا ہے‘ اور جب تک اسے ادا نہ کیا جائے گا توسب لوگ گنہگار ہوتے ہیں۔ جیسے نماز ِجنازہ فرضِ کفایہ ہے‘ لیکن مقررہ مدت میں کچھ لوگ اسے ادا نہ کریں تو فرض عین ہو جاتا ہے اور تمام لوگ عدمِ ادائیگی کی وجہ سے گنہگار ہوتے ہیں۔
بیسویں صدی کے پہلے ربع میں خلافت ِعثمانیہ کے سقوط کے بعد سے آج تک نظامِ خلافت معطل ہے اور خلیفہ کا تقرر نہیں ہو سکا ہے۔ مذکورہ دلائل کی روشنی میں نظامِ خلافت کا احیا اور خلیفہ کا تقر راس وقت سے آج تک فرضِ عین ہےجیسے نماز اور روزہ فرضِ عین ہے۔ اس کا جلد از جلد ادا کرنا تمام مسلمانوں کے ذمے باقی ہے۔
سقوط ِخلافت کے نقصانات
نظامِ خلافت کے سقوط کے بعد سےآج تک مسلمانوں کی جو حالت ہے وہ دنیا کے سامنے ہے۔ آج اُمت ِمسلمہ کا وجود بے معنی ہو کر رہ گیا ہے۔ خلافت ِاسلامیہ کے انہدام کے بعد پوری دنیا میں اسلامی قوانین معطل‘ نظامِ جہاد درہم برہم‘ مرکز کا فقدان‘ اسلامی دنیا چھوٹے چھوٹے ممالک میں منقسم‘ کافر قوتوں کا فکری‘ سیاسی‘ عسکری و اقتصادی غلبہ اور بے بس و مجبور مسلمان دنیا کے ہر کونے میں مغلوب ہو کر رہ گئے ہیں۔آج پوری ملت ِاسلامیہ ((عَلَیْکُمْ بِالْجَمَاعَۃِ)) ’’تم پر جماعت کے ساتھ وابستہ رہنا لازم ہے‘‘ کے حکم پر عمل پیرا نہ ہونے کے باعث نہ صرف یہ کہ ملک اور گروہوں میں تقسیم ہو گئی ہے بلکہ ((یَدُ اللّٰہِ عَلَی الْجَمَاعَۃِ)) ’’جماعت پر اللہ کا ہاتھ ہے‘‘ کی بشارت اور اللہ کی نصرت سے بھی محروم ہو گئی ہے۔ جب تنزل کے یہ سارے مراحل طے ہوچکے ہیں تو فورا ًشیطان اور اس کے ایجنٹ یہودیوں نے ملت اسلامیہ کو اپنی سازشوں کی دلدل میں گھسیٹ لیا۔ پھر اُمّت ِمسلمہ کا رہا سہا اسلام بھی جاتا رہا۔ اب وہ نام کے تو مسلمان ہیں مگر انہوں نے اپنی زندگی میں غیر اللہ کے قانون کو اپنایا ہوا ہے۔ اگر ہم حقیقت ِحال کا جائزہ لیں تو یہ زبوں حالی اصل میں عذاب ِالٰہی ہے جس میں ہم مبتلا ہیں۔ آج ہم اللہ کے دین کی صحیح نمائندگی نہیں کر رہے۔ہم زمین پر اللہ کے دین کےنمائندے بنائے گئے تھے لیکن آج ہم پوری دنیا میں کوئی ایک ملک بھی بطور ماڈل نہیں دکھا سکتے جس کے بارے میں ہم یہ کہہ سکیں کہ لوگو! آؤ یہ ہے نظامِ خلافت‘ یہ ہے نظامِ مصطفیٰﷺ‘ یہ ہیں اللہ کے دین حق کے قیام کی برکات! لہٰذاآج ہم اللہ کے عذاب کی گرفت میں ہیں۔
اس عذاب سے نکلنے کی ایک ہی صورت اور صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے خاتم الانبیاءﷺ کا اُسوئہ حسنہ جو ہمارے لیے مینارۂ نور ہے۔ وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ مسلمان رجوع الی اللہ کرتے ہوئے اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی اسلامی نظامِ حیات کے مطابق ڈھالیں اور خلافت کے قیام کے لیے انتہائی جدّوجُہد کریں۔دنیا کے کم از کم کسی ایک ملک میں صحیح اسلامی نظام قائم کر کے دکھا دیں اور پھر دنیا کو دعوت دیں کہ آؤ دیکھو !یہ ہے’’ اسلام‘‘ اور یہ ہے ’’ خلافت!‘‘
رائج الوقت نظام( سیکولرازم) بمقابلہ دین اسلام( نظام ِخلافت)
اگر ہم انسانی زندگی کو دیکھیں تو اس کے دو حصے ہیں۔ ان میں سے ایک حصہ انفرادی زندگی سے متعلق ہے۔ موجودہ زمانے میں فرد کو آزاد تسلیم کیا جاتا ہے۔ چنانچہ’’ سیکولرازم‘‘ میں ہر شخص کو آزادی حاصل ہے کہ وہ جس طرح چاہے عقائد اپنا لے۔ چاہے وہ ایک خدا کو مانے‘ چاہے سو کو مانے‘ یا ہزار کو مانے‘ چاہے کسی کو بھی نہ مانے۔ اسی طرح چاہے بتوں کے آگے سجدہ کرے یا ایک نادیدہ خدا کی عبادت کرے۔ چاہے روزے رکھے‘ نماز پڑھے‘ چاہے مندر میں جائے یا چرچ میں‘ اس کو اجازت ہے۔ اسی طرح شادی کے موقع پر چاہے نکاح پڑھوائے‘ چاہے پھیرے ڈلوائے۔ فوت شدہ شخص کی میت کو چاہے دفن کیا جائے‘ چاہے اسے جلا دیا جائے۔
زندگی کا دوسرا حصہ اجتماعی نظام یعنی تہذیب و تمدن‘ ریاست اور سیاست‘ معیشت اور معاشرت سے متعلق ہے۔ سیکولر نظام میں اس کے اصول و ضوابط خالصتاً انسانی عقل کے تحت پر رائے شماری( جمہوریت) کی بنیاد پر بنیں گے۔
اگر ہم دین اسلام کو دیکھیں تو یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ وہ زندگی کے انفرادی گوشوں کے متعلق بھی ہدایت دیتا ہے اور اجتماعی معاملات میں بھی مکمل رہنمائی کرتا ہے۔ جہاں تک اسلام کے انفرادی گوشوں کا تعلق ہے تو یہ مغرب کو کسی حد تک قابل قبول ہے ۔ وہ اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ مسلمانوں نے امریکہ میں آکر یہودیوں اور عیسائیوں کی عبادت گاہیں خریدیں اور انہیں مسجد بنا لیا‘ ہم نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ مسلمانوں نے امریکہ اور یورپ میں ا ٓکر بڑی تعداد میں لوگوں کو مسلمان کر دیا‘ ہم نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ اس لیے کہ انفرادی زندگی میں ان کی اسلام سے کوئی خاص جنگ نہیں ہے۔ ان کا تو یہاں تک معاملہ ہے کہ وہ رمضان المبارک میں مسلمانوں کو وائٹ ہاؤس میں بلا کر’’ افطار پارٹی‘‘ بھی دے دیتے ہیں اور عید سے پہلے مسلمانوں کے ڈاک ٹکٹ ایشو کر دیتے ہیں۔ انہیں اس میں بھی کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔البتہ ایک ’’نظام‘‘ کی حیثیت سے اسلام انہیں قطعاً گوارا نہیں ہے۔ اسلام کے اسی تصور کو وہ ’’ بنیاد پرستی‘‘ (Fundamentalism)کا نام دیتے ہیں۔ اس وقت جس نے بھی اسلام کو ایک اجتماعی نظام کی حیثیت سے نافذ کرنے کی بات کی ہے‘ اس پر چڑھ دوڑے ہیں۔ چنانچہ کبھی وہ’’ دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کا نعرہ لگاتے ہیں تو کبھی’’ بنیاد پرستی‘‘ کے خلاف جنگ کا۔ حقیقت میں یہ جنگ’’ اسلام کے نظامِ حیات‘‘ یعنی’’ اسلامی نظام خلافت‘‘ کے خلاف ہے۔
مستقبل قریب میں نظام خلافت قائم ہو کر رہے گا!
اس وقت امریکہ اور اس کے حواری اس بات پر تل گئے ہیں کہ دنیا میں کہیں اسلامی نظام خلافت کا ظہور نہ ہو۔ آج پوری مغربی دنیا پر بالفعل یہ خوف طاری ہے کہ کہیں دنیا کے کسی کونے میں شرعِ پیغمبری ﷺ کاعملی ظہور نہ ہو جائے۔ یہ وہی بات ہے جو علامہ اقبال نے ابلیس کی زبان سے کہلوائی تھی:؎
عصر حاضر کے تقاضاؤں سے ہے لیکن یہ خوف
ہو نہ جائے آشکارا شرعِ پیغمبرؐ کہیں!
یہ وہی چیز ہے جس کی خوشخبری الصادق والمصدوق رسول اللہﷺ نے دی ہے اور آپﷺ نے جو کہا سچ کہا اور وحی کے مطابق کہا ۔جو ذرّہ برابر بھی ان کی بتائی ہوئی باتوں پر شک کرے اس کا ایمان کسی قابل نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا:
’’ کل روئے زمین پر نہ کوئی اینٹ گارے کا بنا ہوا گھر باقی رہے گا‘ نہ اونٹ کے بالوں کے کمبلوں سے بنا ہوا خیمہ جس میں اللہ تعالیٰ کلمہ اسلام کو داخل نہ کر دے‘ خواہ کسی عزّت دار کو عزّت دے کر اورخواہ کسی ذلت والے کو ذلیل کر کے۔ یعنی یا تو اللہ تعالیٰ انہیں عزّت دے گا اور اہل اسلام میں داخل کرے گا یا انہیں مغلوب کر دے گا‘ چنانچہ وہ (جزیہ دے کر) اسلام کی بالادستی قبول کر لیں گے!‘‘ پھر راوی کہتے ہیں کہ میں نے کہا: پھر تو دین ( نظام) کل کا کل اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہو جائے گا۔‘‘( مسند احمد بن حنبلؒ)
اور اس خطے کے لیے جس میں ہم موجود ہیں‘ مزید یہ خوشخبری بیان کی:
’’خراسان سے سیاہ جھنڈے نکلیں گے اور انہیں کوئی طاقت واپس نہیں پھیر سکے گی یہاں تک کہ وہ ایلیا (یعنی بیت المقدس) میں نصب کر دیے جائیں گے۔‘‘ (جامع ترمذی)
اسی طرح امام احمد بن حنبل ؒ نے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے کہ حضور اکرمﷺ نے اپنے صحابہ کرامؓ سے مخاطب ہو کر فرمایا:
’’ تمہارے مابین نبوت موجود رہے گی‘( آپﷺ کا اشارہ خود اپنی ذات کی جانب تھا) جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا‘ پھر جب اللہ تعالیٰ چاہے گا اسے اٹھا لے گا۔ اس کے بعد نبوت کے طریقے پر خلافت قائم ہوگی اور یہ بھی رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا کہ قائم رہے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ چاہے گا اسے بھی اٹھا لے گا۔ پھر کاٹ کھانے والی (یعنی ظالم) ملوکیت آئے گی اور وہ بھی رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ چاہے گا اسے بھی اٹھا لے گا۔ پھر مجبوری کی ملوکیت( غالباً مراد ہیں مغربی استعمار کی غلامی) کا دورآئے گا اور وہ بھی رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ چاہے گا اسے بھی اٹھا لے گا اور پھر دوبارہ نبوت کے طریقے پر خلافت قائم ہو گی!‘‘ راوی کے قول کے مطابق اس کے بعد آپ ﷺ نےخاموشی اختیار فرما لی۔‘‘ (مسند احمد)
لہٰذاآج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم علیٰ منہاج النبوہ(نبوی طریقے پر) کی طرز پر اسلامی نظامِ خلافت کے قیام کی کوشش کریں اور ان تمام طریقوں کو چھوڑ دیں جو باطل سے مستعار لیے گئے ہوں۔ فرض کا طریقہ ہمیشہ سُنّت ہی سے ملتا ہے‘ چنانچہ حدیث میں ہے: ((عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ)) ’’تم پر میری سُنّت( طریقہ) پر عمل کرنا واجب ہے۔‘‘مکمل حدیث یہ ہے:
’’( صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم بیان کرتے ہیں کہ) ہمیں نصیحت فرمائی اللہ کے رسولﷺ نے ایسی نصیحت جس کو سن کر( ہمارے) دل دہل گئے اور( ہماری) آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ پھر ہم نے عرض کیا : اے اللہ کے رسولﷺ !یہ نصیحت تو گویا رخصت ہونے والے کی وصیت لگتی ہے تو آپﷺ ہمیں وصیت فرمائیے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’میں تمہیں وصیت کرتا ہوں اللہ کی نافرمانی سے بچنے کی اور اپنے امیر کے احکام سننے اور قبول کرنے کی‘ خواہ وہ حاکم ایک حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو‘ کیونکہ میرے بعد جو زندہ رہے گا وہ بہت اختلاف دیکھے گا۔ تم میری سُنّت( طریقہ) کو اپنے اوپر لازم کر لو اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سُنّت( طریقہ) کو۔اور اس کو دانتوں سے مضبوط تھام لو اور نئی نئی باتوں سے بچتے رہو‘ کیونکہ ہر نئی جاری کی ہوئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘( ابو داؤد‘ ترمذی)
ان تمام باتوں سے یہ رہنمائی ملتی ہے کہ نئےطریقے ڈھونڈنا جہاں آپﷺ پر الزام ہے کہ آپﷺ نے اس فرض کا طریقہ واضح نہیں کیا ‘ وہاں آپﷺ کا طریقہ ہوتے ہوئے اس کو ناقابل عمل سمجھتے ہوئے عمل نہ کرناآپﷺ کی تکذیب ہے اور اسے بدعت وضلالت کہا گیا ہے‘ جس کا انجام دوزخ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام مالکؒ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ قول نقل کیا ہے:
لَا یَصْلُحُ آخِرُ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ اِلَّا بِمَا صَلَحَ بِہٖ اَوَّلُھَا
’’اس اُمّت کے آخری حصے کی اصلاح نہیں ہو سکے گی مگر اسی طریقے پر جس پر کہ پہلے حصے کی اصلاح ہوئی تھی۔‘‘
اگر ہماری منزل اسلامی نظام خلافت ہے تو طریقہ محمدیؐ ہی سے اس منزل پر پہنچا جا سکتا ہے:
{لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ }(الاحزاب:۲۱)
’’درحقیقت تمہارے لیے رسول اللہ(ﷺ) کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔‘‘
آج ہمیں نظامِ خلافت کے احیا کے لیے جمہوریت‘ انتخابات اور دیگر نئے نئے طریقوں کو چھوڑ کر منہج نبویﷺ کا طریقہ اختیار کرنا پڑے گا۔ بقول علامہ اقبال:
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ
منہج ِنبوی ؐپر چلنے والی حزب اللہ کی’’ جماعت سازی‘‘ کا واحد طریقہ
اگر آج ہم اسلامی نظام( نظام خلافت) قائم کرنا چاہتے ہیں تو اب ہمارے سامنے رسول اللہﷺ کی سیرتِ طیبہ ہی صرف ایک منبع وسرچشمہ ہے۔ محمدﷺ پر جو لوگ ایمان لے آئے‘ انہیں آپﷺ نے منظم کیا اور ان کی تربیت کی۔ لہٰذامحمدﷺ کی سچی نبوت کی بنیاد پر جو جماعت بنی وہ دنیا کی مضبوط ترین جماعت ہے۔ اس کے بارے میں قرآن حکیم میں فرمایا گیا:
{مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ ط وَالَّذِیْنَ مَعَہٗٓ......}(الفتح:۲۹)
’’محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں‘ اور وہ لوگ جو اُن کے ساتھ ہیں......‘‘
اس جماعت میں کسی نے جمہوری طریقے پر رسول اللہﷺ کو اپنا صدر منتخب نہیں کیا تھا بلکہ آپﷺ نبی اور داعی ہونے کی حیثیت سےخود بخود امیر تھے۔ آپﷺ کے ساتھ وہ آمَنَّا وَصَدَّقْنَا ’’ ہم ایمان لائے اور ہم نے تصدیق کی‘‘کے اصول پر عمل پیرا تھے اور اس کی رو سے آپﷺ کا ہر حکم ماننا واجب الاطاعت اور ایمان کا لازمی تقاضا تھا۔
اس کے باوجود آپ ﷺ نےاپنے صحابہ کرام ؓسے مختلف مواقع پر’’ بیعت سمع و طاعت‘‘ اور’’ بیعت جہاد‘‘ لے کر’’ اسوہ‘‘ (نمونہ) قائم کیا تاکہ مستقبل میں اسلامی جماعت سازی کا طریقہ معین ہو سکے۔ آئندہ اس فرض کی ادائیگی کے لیے اٹھنے والی جماعت انگریزوں سے‘ روسیوں سے‘ جرمنوں سے‘ کوئی طریقہ مستعار نہ لیتی پھرے بلکہ اس کے لیے آپﷺ کی سُنّت (طریقہ) موجود ہو۔چنانچہ آپﷺ کے بعد جو بھی جماعت اٹھے گی وہ جماعت حد درجہ منظّم اور سمع و طاعت کے اصول پر عمل پیرا ہوگی‘ جس میں صرف ایک استثنا ہو گا کہ شریعت کے خلاف کوئی حکم دیا جائے گا تو نہیں مانیں گے۔ جیسے کہ ایک حدیث میں ہے:
((إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوْفِ)) (صحیح البخاری)
’’اطاعت صرف معروف میں لازم ہے۔‘‘
باقی شریعت کے دائرے کے اندر جو بھی نظم ِجماعت کے تحت فیصلہ ہوگا وہ ہمیں قبول کرنا ہوگا اور اس پر عمل کرنا ہوگا۔ اس’’ سمع وطاعت‘‘ کا نام ہی ’’ بیعت‘‘ ہے۔
بیعت: قرآن حکیم کی روشنی میں
جماعت سازی کے لیے بیعت منصوص بھی ہے چونکہ اس کا ذکر قرآن میں موجود ہے:
{لَقَدْ رَضِیَ اللہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ}(الفتح:۱۸)
’’اللہ تعالیٰ مومنوں سے خوش ہو گیا جب وہ درخت کے نیچے تم سے بیعت کر رہے تھے۔‘‘
{اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللہَ ط یَدُ اللہِ فَوْقَ اَیْدِیْہِمْ ج فَمَنْ نَّـکَثَ فَاِنَّمَا یَنْکُثُ عَلٰی نَفْسِہٖ ج وَمَنْ اَوْفٰی بِمَا عٰہَدَ عَلَیْہُ اللہَ فَسَیُؤْتِیْہِ اَجْرًا عَظِیْمًا(۱۰)}(الفتح)
’’(اے نبیﷺ!) جو لوگ تم سے بیعت کرتے ہیں وہ اللہ سے بیعت کرتے ہیں۔ اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے۔ پھر جو عہد کو توڑے تو عہد توڑنے کا نقصان اسی کو ہے۔ اور جو اس بات کو جس کا اس نے اللہ سے عہد کیا ہے‘ پورا کرے تو وہ اسے عنقریب اجر عظیم دے گا۔‘‘
بیعت: سُنّت ِنبوی ؐکی روشنی میں
رسول اللہﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے جو بیعت لی اس کے الفاظ احادیث میں نقل ہوئے ہیں۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے جو بخاری اور مسلم دونوں میں آئی ہے۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
بَایَعْنَا رَسُولَ اللّٰہِ ﷺ عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ، فِی الْعُسْرِ والْیُسْرِ، وَالْمَنْشَطِ وَالْمَکْرَہِ، وَعَلٰی اَثَرَۃٍ عَلَیْنَا، وَعَلٰی اَنْ لَا نُـنَازِعَ الْاَمْرَ اَھْلَہٗ، اِلَّا أَنْ تَرَوْا كُفْرًا بوَاحًا عِنْدَكُمْ مِن اللّٰهِ تَعَالٰى فِيْهِ بُرْهَانٌ، وَعَلٰی اَنْ نَقُولَ بِالْحَقِّ اَیْنَمَا کُنَّا، لَا نَخَافُ فِی اللّٰہِ لَوْمَۃَ لَائِمٍ (متفق علیہ)
’’ہم نے بیعت کی تھی اللہ کے رسولﷺ سے اس پر کہ آپﷺ کا ہر حکم سنیں گے اور اطاعت کریں گے‘ مشکل میں بھی اور آسانی میں بھی‘ چاہے طبیعت آمادہ ہو چاہے طبیعت پر جبر کرنا پڑے‘ چاہے ہم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے‘ اور جن کو بھی آپﷺ امیر بنائیں ہم ان سے جھگڑیں گےنہیں‘ اور یہ کہ جہاں کہیں بھی ہوں گے حق بات کہیں گے‘ اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والی کی ملامت کے خوف سے زبان پر تالا نہیں ڈالیں گے۔‘‘
پانچ ہجری میں غزوئہ احزاب کے موقع پر خندق کی کھدائی کے دوران صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم آواز میں آواز ملا کر یہ اشعار پڑھ رہے تھے:
نَحْنُ الَّذِیْنَ بَایَعُوْا مُحَمَّدًا
عَلَی الْجِھَادِ مَا بَقِیْنَا اَبَدًا

’’ہم وہ ہیں جنہوں نے محمدﷺ کے ہاتھ پر رہتے دم تک جہاد کے لیے بیعت کی ہے۔‘‘
بیعت: اسلاف کے عمل میں
یہ ماثور بھی ہے۔ چنانچہ حضورﷺ کے بعد سے بیسویں صدی کے آغاز تک مسلمانوں کی ہر اجتماعی جدّوجُہد اسی بیعت کی بنیاد پر ہوئی ہے۔
خلافت کا نظام قائم تھا تو اسی بیعت کی بنیاد پر۔ حضرات ابوبکر‘ عمر ‘ عثمان وعلی رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بیعت منعقد ہوئی تھی۔ یزید کے خلاف اگر حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوئے تھے تو وہ بھی بیعت لے کر۔عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی بیعت لے کے کھڑے ہوئے۔ حضرت نفس زکیہؒ اور امام زیدؒ بھی بیعت لے کر سامنے آئے۔ جب نو آبادیاتی نظام (Colonial Rules) آئے تو جس ملک میں بھی اس کے خلاف مزاحمت کی تحریک چلی اور جہاد کیا گیا تو وہ بھی بیعت کی بنیاد پر ہوا۔ سوڈان میں مہدی سوڈانی‘ لیبیا میں سنوسی‘ الجزائر میں عبدالقادر الجزائری اور روس میں امام شاملؒ نے بیعت کی بنیاد پر لوگوں کو جہاد کے لیے منظم کیا۔ اس ضمن میں سب سے بڑی جہادی جدّوجُہد’’ تحریک شہیدین‘‘ جو ہندوستان میں سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہیدؒ نے اٹھائی ‘وہ بھی بیعت کی بنیاد پر ہی تھی۔
منہج ِنبویؐ کے مراحل :اعلانیہ ہدف
آج جوبھی جماعت اس کام کے لیے کھڑی ہوگی اس کا اعلانیہ ہدف منکر اعظم ( باطل نظام) کو ختم کرنا ہوگا اور اس کی اعلانیہ دعوت پورے کے پورے دین کی ہوگی۔ بالفاظِ دیگر ‘ طاغوتی نظام یاغیر اللہ کی حاکمیت کا خاتمہ کرنا ہوگا جس کے نتیجے میں خلافت کا نظام تشکیل پاتا ہے۔ موجودہ حالات میں کرنے کے اور بھی بہت سے اچھے اچھے کام ہیںجیسا کہ علمی‘ تعلیمی‘ تبلیغی ‘ اصلاحی سلسلے اور خدمت خلق۔ یہ سب کام مبارک ہیں‘ ان میں سے ہر ایک کام کرنا بہت اچھا ہے لیکن یہ سارے کام اس ایک کام میں بالقوۃ موجود ہیں‘ جیسا کہ آپﷺ کی سیرت مطہرہ سے ثابت ہے ۔ آپﷺ نے مکہ کے اندر جہاں دورِ جاہلیت میں منکرات جو ہر شعبہ زندگی اور ہر سطح پر بدرجہ اتّم موجود تھے‘ صرف اس دور کےمنکر اعظم( بت پرستی) جو کہ باطل نظام کی اصل جڑ اور بنیاد تھی ‘ کو اپنا ہدف نکیر بناتے ہوئے’’ لا الہ الا اللہ‘‘ کا نعرہ لگایا۔ پھر اس کے خاتمے کے بعد وحی الٰہی کی روشنی میں توحید کی بنیاد پر ایک ریاست قائم کی جس کے تحت خلافت کا ایک عظیم الشان نظام معرضِ وجود میں آیا اور تمام منکرات کا خاتمہ ہوا۔
{ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلہِ ط }(یوسف:۴۰)
’’حاکمیت کا اختیار سوائے اللہ کے کسی کو نہیں۔‘‘
سروَری زیبا فقط اُس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اک وہی‘ باقی بُتانِ آزری!
یہ نظریۂ توحید ہی ہے جو انسانی حاکمیت کے ہر تصورکی نفی کرتا ہے۔ انسانی حاکمیت نہ تو فردِ واحد کی بادشاہت کی شکل میں قابل قبول ہے نہ کسی قوم کی دوسری قوم پر حاکمیت کی شکل میں‘ جیسے انگریز ہم پر حکمران ہو گیا تھا‘ اور نہ ہی عوام کی حاکمیت جائز ہے۔ حاکمیت (Sovereignty) کا حق صرف اللہ تعالیٰ کا ہے جبکہ انسان کے لیے خلافت ہے۔ حاکمیت کی دوسری تمام صورتیں شرک ہیں اور دورِ حاضر میں عوامی اقتدارِ اعلیٰ(Popular Sovereignty) کا تصور بد ترین شرک ہے۔ شارع( قانون ساز) صرف اللہ تعالیٰ ہے اور رسول اللہﷺ اس کے نمائندے ہیں۔ اب بتائیے اس نعرئہ توحید سے بڑا کوئی انقلابی نعرئہ کیا ہوگا کہ: لا الٰہ الا اللہ( اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں) یعنی لا حاکم الا اللہ۔
منہج نبویؐ کا پہلا مرحلہ :دعوت
اس مرحلے میں جماعت کے ہر شخص کو نظام کے خلاف نظریۂ توحید کا پرچار کرنا ہوگا اور باطل کی طرف سے دیے جانے والے کسی بھی قسم کے طنز و تشدد کا خوف یا کسی بھی قسم کی دی جانے والی پیشکش کی لالچ میں ا ٓکر نرمی یا معاونت (compromise) کا اظہار نہیں کرنا بلکہ صبر و استقامت کا پہاڑ بنتے ہوئے اس نظریے پر علی الاعلان لوگوں کو بلانا ہوگا۔
{فَلِذٰلِکَ فَادْعُ ج وَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ ج وَلَا تَتَّبِعْ اَہْوَآئَ ہُمْ ج } (الشوریٰ:۱۵)
’’(اے نبیﷺ! )اسی کی دعوت دیجیے‘ اور ڈٹے رہیے جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے‘ اور ان کی خواہشات کی پیروی مت کیجیے۔‘‘
{وَدُّوْا لَوْ تُدْہِنُ فَیُدْہِنُوْنَ(۹)وَلَا تُطِعْ کُلَّ حَلَّافٍ مَّہِیْنٍ(۱۰) }(القلم)
’’وہ( باطل پرست) تو چاہتے ہیں کہ ذرا آپؐ نرم پڑیں تو وہ بھی نرم پڑ جائیں۔ ہرگز نہ دباؤ میں آئیے کسی ایسے شخص کے جو بہت زیادہ قسمیں کھانے والا ‘بے وقعت آدمی ہے۔‘‘
اس نظریے کے خلاف باطل کی طرف سے کیے جانے والے کسی پروپیگنڈا یا طعن و تشنیع سے اعراض کرنا ہوگا تاکہ تحریک کو اپنا نظر یہ عام کرنے کے لیے کچھ وقت مل سکے۔
{فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَاَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِیْنَ(۹۴) اِنَّا کَفَیْنٰکَ الْمُسْتَہْزِئِ یْنَ(۹۵) الَّذِیْنَ یَجْعَلُوْنَ مَعَ اللہِ اِلٰہًا اٰخَرَج فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ (۹۶) وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّکَ یَضِیْقُ صَدْرُکَ بِمَا یَقُوْلُوْنَ(۹۷)}(الحجر)
’’(اے نبیﷺ!) اب آپ علی الاعلان سنائیے وہ کہ جس کا آپ کو حکم دیا جا رہا ہے اور مشرکوں سے اعراض کیجیے۔ یقیناً ہم آپ کی طرف سے مذاق اڑانے والوں کے خلاف کافی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا اور دوسرے معبود اختیار کرلیے ہیں‘ پس عنقریب وہ جان لیں گے۔(اے نبیﷺ!) ہم جانتے ہیں کہ بےشک آپ کا سینہ تنگ ہوتا ہے ان باتوں کی وجہ سے جو وہ کہہ رہے ہیں۔‘‘
اسی طرح پوری جماعت کے ساتھیوں کو رُحَمَاءُ بَیْنَہُمْ کی بنیاد پر آپس میں منظم کرنا ہوگا اور دعوتِ حق کی راہ میں آنے والے مصائب اور مشکلات کے موقع پر صبر و مصابرت کی اعلیٰ مثال قائم کرتے ہوئے ایک دوسرے کے دکھ درد کا خیال رکھنے کا خوگر بنانا ہوگا۔
دعوت:سیرت ِنبویؐ کی روشنی میں
جب اللہ کے رسولﷺ نے نظریہ توحید پیش کیا تو پہلے پہل آپؐ کا مذاق اڑایا گیا‘ آپﷺ کی کردار کشی کی گئی‘ آپﷺ کو ساحر اور مجنون کہا گیا لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپﷺ کو کہا گیا کہ یہی دعوت دیتے رہیں۔
{مَـآ اَنْتَ بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ بِمَجْنُوْنٍ(۲)}(القلم)
’’(اے نبیﷺ!) آپ اپنے رب کی نعمت سے مجنون نہیں ہیں۔‘‘
لہٰذاآپﷺ کوہ صفا پر گئے اور قریش کی ان زبانی ایذا رسانیوں کے جواب میں یہی دعوتِ توحید پیش کی۔ پھر جب قریش کے کہنے پر ابو طالب نے آپﷺ کے دعوت توحید دینے پر شکوہ کیا تو آپﷺ نے یہی کہا کہ اگر یہ صرف ایک فقرہ کہہ دیں تو پورا عرب ان کا غلام ہوجائے اور وہ فقرہ ہے’’ لا الٰہ الا اللہ۔‘‘ اس کے بعد دعوت توحید کے مقابلے میں جب قریش نے تشدد کا راستہ اختیار کیا تو ابو طالب نے انتہائی پریشانی کی حالت میں آپﷺ کو اس دعوت توحید سے باز رہنے کا کہا تو آپﷺ نے فرمایا:’’چچا! خدا کی قسم! اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ میں سورج رکھ دیں اور بائیں ہاتھ پر چاند‘ اور کہیں کہ میں یہ کام چھوڑ دوں تو یہ ناممکن ہے۔ یا تو یہ کام پورا ہوگا یا میری جان بھی اسی راہ میں کام آئے گی۔‘‘
پھر جب تشدد سے کام نہ چلا تو قریش مکہ نے آپﷺ کو لالچ کی پیشکش کی اور اس دعوتِ توحید سے باز رہنے پر اپنا بادشاہ اور سردار بنانے پر آمادگی ظاہرکی ۔اس کے جواب میں آپﷺ نے سورۃ السجدہ کی تلاوت کر کے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا۔
اس کے بعد قریش مکہ نے آخری حربہ استعمال کرتے ہوئے آپﷺ کو ایک سال اللہ کی عبادت کرنے اور ایک سال اپنے بتوں کی عبادت کرنے کو کہا تو یہ آیات نازل ہوئیں:
{قُلْ یٰٓــاَیُّہَا الْکٰفِرُوْنَ(۱) لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ(۲) وَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ(۳) وَلَآ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدْتُّمْ(۴) وَلَآ اَنْـتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ(۵) لَـکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ(۶)}(الکافرون)
’’(اے نبیﷺ!) کہیےکہ اے کافرو! میں عبادت کرنے والا نہیں ہوں ان کی جن کی تم عبادت کرتے ہو ‘اور تم عبادت کرنے والے نہیں ہو اس کی جس کی میں عبادت کرتا ہوں۔ اور میں عبادت کرنے والا نہیں ہوں جن کی تم نے عبادت کی‘ اور نہ تم عبادت کرنے والے ہو اس کی جس کی میں عبادت کرتا ہوں۔تمہارے لیے تمہارا دین اور میرے لیے میرا دین۔‘‘
اگر ہم بغور جائزہ لیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ ہر موقع پر باطل پینترے بدلتا رہا۔ کبھی استہزا‘ کبھی تشدد‘ کبھی معاشی لالچ اور کبھی مصالحت کی کوشش۔ مگر اس کے جواب میں آپﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم استقامت کے ساتھ اپنے کام پر ڈٹے رہے۔جب ایک مشرک سردار نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو چلچلاتی دھوپ میں تپتی ہوئی ریت پر گھسیٹتے ہوئے اپنے پرانے دین پر پلٹنے کو کہا تو اس وقت بھی حضرت بلالؓ کی زبان پر یہی الفاظ تھے: اَحَدٌ اَحَدٌ یعنی وہ اکیلا ہے‘ وہ اکیلا ہے۔ یہی اس دعوت کا تقاضا بھی ہے کہ جب تک اس کی بنیاد پر نظام قائم نہیں ہو جاتا اس وقت تک ڈنکے کی چوٹ پر اس کو بیان کیا جاتا رہے۔ یہی وہ کام ہے جو اللہ کے رسولﷺ اور صحابہ کرام ؓ برابر انجام دیتے رہے۔ بالآخر دارالندوہ میں باطل نےآپ ﷺ کے قتل کا ناپاک منصوبہ بنایا۔ یہی وہ فیصلہ کن گھڑی تھی جب جماعت دعوت کے مرحلے سے نکل کر اقدام کی طرف جاتی ہے۔ لہٰذاجو بھی دعوت اس مرحلے تک پہنچ جائے اور وہ حق پر مبنی بھی ہو‘ اگرچہ معاشرے میں اکثریت نے اسے قبول نہ کیا ہو‘ اس کے باوجود وہ اس علاقے تک محدود نہیں رہتی بلکہ اس کی باز گشت دوسرے علاقوں تک پھیل جاتی ہے ۔ اسی کشمکش کے دوران یا تو باطل‘ قیادت کے قتل کا فیصلہ کر کے فیصلہ کن مرحلہ کا آغاز کر دے گا جس سے مسلح تصادم( قتال) شروع ہو جائے گا یا اس کے برعکس کسی علاقے میں اس نظریہ کے لیے زمین ہموار ہو جائے اور وہاں کے لوگ ان کی حمایت اور نصرت کے لیے تیار ہو جائیں توتحریک کےقائد اور کارکنوں کو اپنی جان کی حفاظت اور اس نظریے کو معاشرے میں بالفعل قائم کرنے کے لیے اس مقام کی طرف ہجرت کرنا ہوگی۔
لہٰذاجب اللہ کے رسولﷺ کی سیرت کو دیکھتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ آپﷺ کی پکار کو اگرچہ اکثریت نے قبول نہیں کیا بلکہ آپﷺ کی جان کے در پے ہو گئے تو پھر وہ نظریہ مکہ تک محدود نہیں رہا بلکہ مدینہ کےانصار کو یہ شرف حاصل ہوا کہ انہوں نے اس پکار پر لبیک کہتے ہوئے آپﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی نصرت کی۔ بالآخر آپﷺ نے مدینہ میں اسلامی نظامِ حیات کی بنیاد رکھ دی۔
منہج ِ نبویؐ کا دوسرا مرحلہ: جہاد
اگر پچھلے مرحلے میں گزری ہوئی دعوت کا مقصداعلاء کلمۃ اللّٰہ ہوگا تو دعوت کے دوران جو کشمکش ہوئی ہوگی وہ بھی جہاد فی سبیل اللہ کے زمرے میں آئے گی‘ لیکن اب یہ جہاد اپنی بالا ترین منزل‘یعنی قتال فی سبیل اللہ تک چلا جائے گا۔ اس مرحلے میں بھی اگرچہ دعوت دین انفرادی طور پر جاری رہے گی البتہ اس سے بڑھ کر یہ اجتماعی طور پر مختلف قبائل اور جماعتوں سے وفد کی صورت میں ملاقاتیں کرنے اور ان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے بھی ہوگی۔مزید برآں‘ جماعت کے ساتھیوں کی روحانی تربیت کے ساتھ اب جسمانی تربیت بھی کی جائے گی (عسکری ٹریننگ) اور انہیں باقاعدہ ایک نظم کی شکل میں پرو دیا جائے گا۔
{یٰٓـاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْاقف }(آل عمران:۲۰۰)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! صبر کرو( ڈٹے رہو) اور صبر میں بڑھے رہو( کافروں کے مقابلے میں) اور( آپس میں) مضبوط رہو۔‘‘
{اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہٖ صَفًّا کَاَنَّہُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ(۴)}(الصف)
’’بے شک اللہ کو تو اپنے وہ بندے پسند ہیں جواُس کی راہ میں جنگ کرتے ہیں صفیں بنا کر گویا کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہوں۔‘‘
اس کے ساتھ انہیں طاقت کے حصول اور جہاد کے لیے ابھارا جائے گا:
{یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلَی الْقِتَالِ ط}(الانفال:۶۵)
’’اے نبی(ﷺ!) آپ جنگ کے حوالے سے مومنوں کو شوق دلاتے رہیں (ترغیب دلاتے رہیں)۔‘‘
{ وَاَعِدُّوْا لَہُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْہِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللہِ وَعَدُوَّکُمْ وَاٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِہِمْ ج لَا تَعْلَمُوْنَہُمْ ج اَللہُ یَعْلَمُہُمْ ط }(الانفال:۶۰)
’’(اے مسلمانو! )تم تیاری کرو ان سے لڑنے کے لیے اپنی استطاعت کی حد تک قوت کی فراہمی کے ذریعے سے اور پلے ہوئے گھوڑوں کی فراہمی کے ذریعے سے اور اس کے ذریعے سے ڈراتے رہو تم اللہ کے دشمن کو ‘اور اپنے دشمن کو اور کچھ اور بھی ہیں ان کو بھی ڈراتے رہو ‘جن کو تم نہیں جانتے ‘اللہ ان کو جانتا ہے۔‘‘
{اِنَّ اللہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَہُمْ وَاَمْوَالَہُمْ بِاَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃَط یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ فَیَقْتُلُوْنَ وَیُقْتَلُوْنَ قف وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا فِی التَّوْرٰىۃِ وَالْاِنْجِیْلِ وَالْقُرْاٰنِ ط وَمَنْ اَوْفٰی بِعَہْدِہٖ مِنَ اللہِ فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِکُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِہٖ ط وَذٰلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(۱۱۱) }(التوبۃ)
’’یقیناً اللہ نے مؤمنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال خرید لیے ہیں( اور اس کے) عوض میں ان کے لیے بہشت( تیار کی) ہے۔ یہ لوگ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں تو مارتے بھی ہیں اورمارے جاتے بھی ہیں۔ یہ تورات اور انجیل اور قرآن میں سچا وعدہ ہے جس کا پورا کرنا اسے ضرور ہے ۔ اور اللہ سے زیادہ وعدہ پورا کرنے والا کون ہے؟ تو جو سودا تم نے اس سے کیا ہے اس سے خوش رہو ۔اور یہی بڑی کامیابی ہے۔‘‘
لہٰذاجب باطل نظام پر ضرب پڑے گی اور اس کو جڑ سے اکھاڑنے کی کوشش کی جائے گی تو اس کے محافظ اپنے نظام کا دفاع کرنے کے لیے پوری قوت کے ساتھ حملہ آور ہوں گے۔ جس سے بالفعل تصادم( قتال فی سبیل اللہ) شروع ہو جائے گا:
{اَلَّــذِیْنَ اٰمَنُوْا یُـقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ ج وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُـقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ الطَّاغُوْتِ فَقَاتِلُوْٓا اَوْلِـیَــآءَ الشَّیْطٰنِ ج  اِنَّ کَیْدَ الشَّیْطٰنِ کَانَ ضَعِیْفًا(۷۶)}(النساء)
’’اور وہ لوگ جو ایمان لائے وہ تو جنگ کرتے ہیں اللہ کی راہ میں۔ اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا وہ جنگ کرتے ہیں طاغوت کی راہ میں ‘تو (اے مسلمانو!) تم جنگ کرو ان شیطان کے دوستوں سے ۔یقیناًشیطان کی چال( ضعیف) کمزور ہے۔‘‘
یہ مرحلہ اس وقت تک چلے گا جب تک نظام کل کا کل اللہ کے لیےنہ ہو جائے:
{وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی لَا تَـکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلہِ ج }(الانفال:۳۹)
’’اور (اے مسلمانو!) ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ نہ رہے اور دین کل کا کل اللہ تعالیٰ کے لیے ہو جائے۔‘‘
جہاد: سیرتِ نبویؐ کی روشنی میں
یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب اللہ کے رسولﷺ کے قتل کا’’ دارُالندوہ‘‘ میں فیصلہ ہو گیا تو آپﷺ نے مدینہ کی طرف جہاں سے نصرت کا وعدہ کیا گیا تھا‘ ہجرت فرما لی تو اسی دوران یہ آیات نازل ہوئیں:
{اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّہُمْ ظُلِمُوْاط وَاِنَّ اللہَ عَلٰی نَصْرِہِمْ لَقَدِیْرُ نِ (۳۹) الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلَّآ اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللہُ ط } (الحج:۳۹۔۴۰)
’’اجازت دے دی گئی (جنگ کی) ان لوگوں کو جن کے ساتھ لڑائی کی جاتی تھی اس لیے کہ ان کے اوپر ظلم کیا گیا تھا ۔اور یقیناًاللہ تبارک و تعالیٰ ان کی مدد پر قادر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کہ نکال دیے گئے اپنے گھروں سے ناحق محض یہ کہنے کی وجہ سے کہ ہمارا رب اللہ ہے۔‘‘
لہٰذاآپﷺ نے مدینہ پہنچتے ہی یہود اور مختلف قبائل سے معاہدے کیے جس کے نتیجے میں کچھ تو حمایت کے لیے آمادہ ہو گئےاور کچھ نے غیر جانبدار رہنے کا وعدہ کیا۔ پھر آپﷺ نے قریش کے خلاف چھاپہ مار کارروائیاں کر کے باطل نظام کی شہ رگ کو چھیڑا جس کی وجہ سے قتال فی سبیل اللہ کا آغاز ہوا اور بدر کا معرکہ پیش آیا۔
{وَاِذْ یَعِدُکُمُ اللہُ اِحْدَی الطَّآئِفَتَیْنِ اَنَّہَا لَــکُمْ وَتَوَدُّوْنَ اَنَّ غَیْرَ ذَاتِ الشَّوْکَۃِ تَـکُوْنُ لَـکُمْ وَیُرِیْدُ اللہُ اَنْ یُّحِقَّ الْحَقَّ بِکَلِمٰتِہٖ وَیَقْطَعَ دَابِرَ الْکٰفِرِیْنَ(۷)} (الانفال)
’’اور جب کہ (اے مسلمانو!) اللہ تعالیٰ تم سے وعدہ فرما رہا تھا کہ دونوں جماعتوں میں سے ایک جماعت تمہارے لیے ہے‘ اور تم یہ چاہتے تھے کہ تمہیں ایک کانٹا تک بھی اُس کی راہ کے اندر نہ لگے‘ اللہ تعالیٰ تو چاہ رہا تھا کہ اپنے فیصلوں کے ذریعے سے حق کا حق ہونا ثابت کر دے اور اللہ تعالیٰ کافروں کی جڑ کاٹ دے۔‘‘
اسی دوران میں اللہ کے رسولﷺ نے صحابہ کو تیر اندازی‘ نیزہ بازی‘ گھڑ سواری اور تیراکی کی مشقیں کرنے کی ترغیب دی اور ان کو سمع وطاعت کے نظام کا پابند بنایا۔
{وَاَطِیْعُوا اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْہَبَ رِیْحُکُمْ وَاصْبِرُوْاط اِنَّ اللہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ(۴۶)}(الانفال)
’’اور اطاعت کرو اللہ کی اور اس کے رسول(ﷺ) کی اور آپس میں جھگڑنا مت ورنہ تم ڈھیلے پڑ جاؤ گے اور تمہاری ہوا اُکھڑ جائے گی‘اور ڈٹے رہو۔ بے شک اللہ (کی نصرت) صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘
یہ مرحلہ چلتا رہا تاآنکہ وہ وقت آگیا:
{بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَی الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُہٗ فَاِذَا ہُوَ زَاہِقٌ ط }(الانبیاء:۱۸)
’’بلکہ ہم حق کو اٹھا کر باطل پر دے مارتے ہیں‘ تو وہ اس کا بھیجا نکال دیتا ہے اور پھر باطل جو مٹ جانے والا ہوتا ہے مٹ جاتا ہے۔‘‘
پھر یہ آیت نازل ہوئی:
{وَقُلْ جَآئَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ ط اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَہُوْقًا(۸۱) }(بنی اسرائیل)
’’اور( اے نبیﷺ!) آپ کہیےکہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا۔ بے شک باطل ہے ہی مٹنے والا۔‘‘
چنانچہ جزیرہ نما عرب میں اس نظریۂ توحید کی بنیاد پر اٹھنے والی دعوت اب جہاد فی سبیل اللہ کے ذریعے اللہ کے نظام کے قیام کی صورت میں پوری ہوئی۔
اگر کسی تحریک یا جماعت کی زندگی میں یہ کامیابی دیکھنے کو مل جائے تو پھر یہ دعوتِ توحید ایک جامع شکل میں اب دوسری قوموں کے سامنے بھی پیش کی جائے گی۔ جیسے خلافت راشدہ میں بالفعل یہ معاملہ ہوا ۔ اس سلسلے میں ایک صحابی حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے الفاظ قابلِ غور ہیں جو انہوں نے اس دور کی سپر پاور کسریٰ کے دربار میں کہے تھے:
اِنَّ اللّٰہ ابتعثنا لنخرج الناس من عبادۃ العباد الی عبادۃ اللّٰہ وحدہ‘ ومن ضیق الدُّنیا الی سِعَتہا ومن جور الادیان الی عدل الاسلام(البدایۃ والنھایۃ ۳۹/۷)
’’بے شک اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھیجا ہے تاکہ ہم نکالیں انسانوں کو بندوں کی عبادت سے اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کی طرف اور دنیا کی تنگی سے اس کی وسعت کی طرف اور (باطل) ادیان کے ظلم و ستم سے اسلام کے عدل کی طرف۔‘‘
اس کے بعد تین صورتیں ہیں جو ان قوموں کے سامنے رکھی جاتی ہیں۔ ان سے کہا جاتا ہے کہ دیکھو یہ ہے اسلامی نظام‘ اب یا تو:
(۱) اسلام قبول کر لو اور ہمارے بھائی بن جاؤ۔
(۲) اپنے مذہب پر قائم رہو تو جزیہ دو اور ذمی بن کر رہو۔
(۳) اگر یہ بھی منظور نہیں تو پھر اب تلوار فیصلہ کرے گی۔
چنانچہ یہی وہ مرحلہ ہے جہاں سے اقدامی جہاد شروع ہوتا ہے جس کا آغاز اللہ کے رسولﷺ نے حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روم کی طرف لشکر کشی کرتے ہوئے فرما دیا تھا۔
ایک غلط فہمی اور اس کا ازالہ
ان مراحل کے دوران میں یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ ضروری نہیں کہ جو بھی دعوت اٹھے وہ یہ سب مراحل دیکھے گی۔ ہو سکتا ہے کہ کسی تحریک کو اپنے ابتدائی مرحلے میں ہی کچل دیا جائے‘ یہ بھی عین ممکن ہے کہ آخری مرحلے میں آ کر اکثریت اللہ کی راہ میں اپنی جان دے دے اور غلبہ حاصل نہ ہو سکے۔ البتہ اللہ کے رسولﷺ کی جماعت کبھی مغلوب نہیں ہو سکتی تھی‘ لہٰذااسے تو ہر حال میں غالب ہونا تھا:
{کَتَبَ اللہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ ط }(المجادلۃ:۲۱)
’’اللہ نے لکھ دیا ہے کہ بے شک غالب مَیں آؤں گا اور میرے رسول۔‘‘
ان کے بعد اٹھنے والی کسی بھی تحریک کو کچلا تو جا سکتا ہے لیکن اگر وہ تحریک صحیح بنیادوں پر اٹھی ہوگی تو پھر کچھ عرصے بعد ہی ایک اور زندہ تحریک اللہ تعالیٰ ضرور اٹھاتا ہے جبکہ جو لوگ اس سے پہلے شہید ہو چکے ہوتے ہیں‘ اللہ کے ہاں ان کا اجر محفوظ ہوتا ہے۔
اس کے ساتھ یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ ضروری نہیں کہ یہ حالات ہر تحریک میں یکساں آئیں ۔ ہو سکتا ہے کہ کسی تحریک یا جماعت کو شروع ہی میں کسی بھی علاقے سے اللہ کی نصرت مل جائے اور وہ غلبہ حاصل کر لے‘ جیسا کہ طالبان تحریک میں ہوا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ تحریک ابھی ابتدائی مرحلہ میں ہی ہو‘ اسی عرصہ میں کوئی اور دوسری تحریک قوت پکڑ جائے‘ پھر اس تحریک کا سارا وزن اس قوت پکڑنے والی تحریک کی جھولی میں ڈال دیا جائے اور مجتمع ہو کر باطل نظام کا مقابلہ کیا جائے۔ یہ بات جاننا ضروری ہے کہ ہم منہج نبوی ؐ پر چلنے کے پابند ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ اپنے کام پر غالب ہے:
{وَاللہُ غَالِبٌ عَلٰٓی اَمْرِہٖ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ(۲۱)}(یوسف)
’’اور اللہ تعالیٰ اپنے معاملے پر پوری طرح سے غالب ہے لیکن لوگوں کی اکثریت جانتی نہیں ہے۔‘‘
وہ جس طرح چاہے فیصلے کرے‘اسے اختیار ہے۔ وہ ان تمام معروضی حالات سے بالکل بے نیاز ہے۔
آخری بات
اللہ تعالیٰ نے جہاں ہمیں یہ مکمل و اکمل دین اور ضابطہ حیات عطا فرمایا ہے وہاں اس نظام کے نفاذ کا عملی نمونہ بھی پیش کر دیا ہے۔ زندگی کے ہر شعبے کی طرح احیائے خلافت کے لیے اللہ تعالیٰ کے رسولﷺ کا اسوہ حسنہ ہی ہمارے لیے کافی ہے۔ آج اور قیامت تک آنے والے ہر زمانے میں اس نظام کے نفاذ کے لیے نئے طریقوں یا مغرب کے دیے ہوئے جمہوری طریقوں کو چھوڑ کر منہج نبوی ؐ کو اختیار کرنا لازم ہے۔ اسی طرح آج  قَالَ اللّٰہُ وَقَالَ الرَّسُوْلُ پڑھانے والے علماء کرام اور ائمہ کرام پر منہج نبوی ﷺ پر عمل کرتے ہوئے اپنی مساجد اور خانقاہوں سے نکل کر آگے بڑھنا لازم ہے۔
آج پوری دنیا میں مسلمان جس حالت میں ہیں وہ ہمارے سامنے ہے۔ ان کے مصائب‘ مسائل اور پریشانیوں سے ہم واقف ہیں۔ کس طرح اُمّت ِمسلمہ نظریاتی‘ سیاسی‘ اقتصادی اور معاشرتی غلام ہے‘ اس سے پہلے ایسا کبھی نہ ہوا تھا۔ آج ہم دنیا کے ہر خطے میں جس طرح عالم کفر کے ہاتھوں پٹ رہے ہیں‘ تاریخ نے ایسا کبھی نہ دیکھا تھا۔ کیا ہم اب مزید ذلت‘ خواری‘ محکومی‘ بے وقعتی‘ بے بسی اور بےچارگی دیکھنا چاہتے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر ہمیں آج ہی سے اپنے سابقہ گناہوں‘ کوتاہیوں‘ غفلتوں اوربے پرائیوں سے توبہ کر کے یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم آئندہ یہ ذلت و خواری برداشت نہیں کریں گے اور اُمّت ِمسلمہ کے دکھوں کے مداوے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔
یہ عزمِ مصمم کرنا ہوگا کہ ہم اغیار کی مادر پدر آزاد ‘ عریاں تہذیب و معاشرت اور فرسودہ نظامِ حیات کو اپنانے اور اس کی سیاسی‘ عسکری اور اقتصادی محکومی کو اپنائے رکھنے کے بجائے غلامی کے یہ طوق اپنی گردنوں سے اتار کر اسلامی تعلیمات اور تہذیب و معاشرت کو اپنائیں گے۔ اُمّت ِمسلمہ کے دینی اور دُنیاوی و اجتماعی مسائل کے واحد حل’’ نظامِ خلافت‘‘ کے احیاء کے لیے عملی جدّوجُہد کریں گے۔ اس کے لیے ہر قسم کے ایثار اور ہر محبوب چیز کی قربانی دینے کے لیے ہر وقت تیار ہوں گے۔
ہمیں اب بیدار ہونا ہوگا۔ اپنے اور لوگوں کے اندر’’اقامت ِخلافت‘‘ کی فرضیت اور اس کے لیے عملی جدّوجُہد کا شعور پیدا کرنا ہوگا۔ نظامِ خلافت کے احیا اور باطل نظاموں کے خلاف کام کرنا ہوگا۔ اگر آج ہم نے اس کے لیے اقدام نہ کیا تو نہ صرف اقامت ِ خلافت کے فریضے کو ترک کرنے والے قرار پائیں گے بلکہ اس کے نتیجے میں اُمّت ِمسلمہ پر جو مزید تباہی و بربادی اور دینی و دُنیاوی خسارہ آئے گا اس کے ذمہ دار بھی ہم ہی ہوں گے۔ لہٰذا ہمیں اس فریضہ کی انجام دہی کے لیے نہ صرف کھڑا ہونا ہوگا بلکہ دوسروں کو بھی اس کے لیے تیار کرنا ہوگا تاکہ ایک منظّم جماعت جامع منصوبہ بندی اور ٹھوس لائحۂ عمل کے ساتھ اس جدّوجُہد کو پایۂ تکمیل تک پہنچائے۔
اللہ ربّ العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس جہاد فی سبیل اللہ کے لیے کھڑے ہونے اور اس راہ میں اپنا مال اور جان قربان کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!