(حقوق و فرائض) اسلام میں حقوق العباد: ایک مختصر جائزہ - ممتاز ہاشمی

14 /

اسلام میں حقوق العباد : ایک مختصر جائزہممتاز ہاشمی

ایک مسلمان پر حقوق اللہ کے بعد سب سے اہم ذمہ داری حقوق العباد کی ادائیگی ہے۔ یہ وہ حقوق ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک انسان کے لیے دوسرے انسان پر عاید کیے گئے ہیں۔ ان کو دین اسلام کا ایک اہم حصہ بنایا گیا ہے۔
صرف وہی معاملات حقوق العباد تصور کیے جائیں گے جس کا حکم اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسول محمد ﷺ نے دیا ہے۔ اس کے برعکس ایسے معاملات جو کسی معاشرے میں حکمرانوں نے اپنی مرضی یا سہولت کے لیے نافذ کیے ہوں اور شریعت ِمحمدی ﷺ سے متصادم ہوں‘ ان کو حقوق العباد کے زمرے میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمام اہلِ ایمان کے ذمہ امانتیں ہیں اور ان میں کسی قسم کی خیانت کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس سلسلے میں قرآن مجید کی یہ آیت نہایت اہم ہے:
{یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللہَ وَالرَّسُوْلَ وَتَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِکُمْ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۲۷)} (الانفال)
’’اے ایمان والو! تم اللہ اور رسول (ﷺ ) سے ( ان کے حقوق کی ادائیگی میں ) خیانت نہ کیا کرو اور نہ آپس کی امانتوں میں خیانت کیا کرو حالانکہ تم (سب حقیقت ) جانتے ہو۔‘‘
حقوق العباد کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی اللہ کے نزدیک نہایت ناپسندیدہ عمل ہے جس کی تلافی نہ کرنے کی صورت میں روزِ قیامت سخت گرفت ہوگی۔
حقوق العباد میں سب سے بڑا حق والدین کے لیے مختص کیا گیا ہے۔قرآن حکیم میں پانچ مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اپنے حق (یعنی اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے) کے بعد والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان کے تمام حقوق کی ادائیگی ہر صاحب ِایمان کے لیے اوّلین ترجیحات میں شامل ہونی چاہیے۔ اس کے بعد ترجیح انسانی جان کی حرمت ہے۔ سوائے مخصوص حالات کے‘کسی کو قتل کرنے کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{مِنْ اَجْلِ ذٰلِکَ ج کَتَـبْنَا عَلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ‘ اَنَّـہٗ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَـکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا ط وَمَنْ اَحْیَاہَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا ط وَلَقَدْ جَآءَتْہُمْ رُسُلُـنَا بِالْبَـیِّنٰتِ ز ثُمَّ اِنَّ کَثِیْرًا مِّنْہُمْ بَعْدَ ذٰلِکَ فِی الْاَرْضِ لَمُسْرِفُوْنَ(۳۲)} (المائدۃ)

’’اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ لکھ دیا کہ جو شخص کسی کو بغیر اس کے کہ وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد مچانے والا ہو‘ قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کر دیا۔ اور جو شخص کسی ایک کی جان بچالے اس نے گویا تمام لوگوں کو زندہ کر دیا ۔اور ان کے پاس ہمارے بہت سے رسول ظاہر دلیلیں لے کر آئے لیکن پھر اس کے بعد بھی ان میں اکثر لوگ زمین میں ظلم و زیادتی اور زبردستی کرنے والے ہی رہے۔ ‘‘
اگرچہ شریعت میں قتل کی سزا قصاص اور دیت کی بنیاد پر نافذ کرنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن یہ سزائیں دراصل معاشرے میں جرائم کو روکتی اور ورثاء کے نقصان کا ایک حد تک ازالہ کرتی ہیں۔ یہ جرم اس قدر شدید ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک انسان کے قتل کو تمام انسانوں کا قتل قرار دیا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ایک انسان سے وابستہ صرف اُس کے خاندان کے لوگ ہی نہیں بلکہ معاشرے کے تمام افراد ہوتے ہیں ۔ اس ایک انسان کے ضیاع سے پورا معاشرہ اس کی صلاحیتوں اور قابلیت سے استفادہ کرنے سے محروم ہو جاتا ہے۔ ہر انسان کی جان اللہ کی تعالیٰ امانت ہے اور اس میں خیانت کا اختیار اُس شخص یا کسی اور کو نہیں دیا گیا ہے۔
انسانی جان کے بعد ایک اہم حق معاشرے میں عدل اور انصاف کی فراہمی کا ہے۔ اس میں خیانت کی شکلیں رشوت‘ بدعنوانی‘ دھوکہ دہی‘ اقربا پروری اور لالچ کی صورتوں میں نمایاں ہیں۔ یہ معاشرے میں ہر قسم کے بگاڑ کی بنیاد ہیں ۔ اللہ نے اس بارے میں ارشاد فرمایا ہے:
{ وَلَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوْا بِھَآ اِلَی الْحُکَّامِ لِتَاْکُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (۱۸۸)}(البقرہ)
’’اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھایا کرو‘ نہ حاکموں کو رشوت پہنچا کر کسی کا کچھ مال ظلم و ستم سے اپنا کر لیا کرو‘ حالانکہ تم جانتے ہو۔‘‘
اللہ تعالیٰ ہمیں دوسروں کے مال واسباب ناجائز طور پر اور ناحق کھانے سے منع کرتا ہے۔ پھر حکمرانوں (جس میں تمام اربابِ اختیار شامل ہیں ) کو رشوت دینے کی ممانعت ہے۔جب رشوت خوری عمل میں آتی ہے تو دوسرے کا حق لازمی طور پر متاثر ہوتا ہے۔رشوت معاشرے میں تباہی پھیلانے والے بڑے جرائم اور برائیوں میں سے ایک ہے۔ اس لیے رشوت لینا اور دینا گناہِ عظیم ہے ۔اس غیر قانونی عمل میں کسی طرح کی اعانت‘ سہولت کاری اور مددگار بننے والے بھی اس گناہ میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ کسی صاحب ایمان کی جانب سے رشوت کے نظام کا حصہ بننا دراصل اللہ کی امانتوں میں خیانت کے مترادف ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے ذیل میں دی گئی احادیث سے رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ:
لَعَنَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ الرَّاشِیْ وَالْمُرْتَشِی (رواه ابو داود وابن ماجة والترمذی)
’’رسول اللہ ﷺنے رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے پر لعنت کی ہے۔‘‘
اسی طرح حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ:
لَعَنَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ الرَّاشِیْ وَالْمُرْتَشِی وَالرَّائِشِ، یعنی: الذی یمشی بینہما (مسند احمد:۶۴۰۷)
’’ رسول اللہ ﷺنے رشوت دینے والے‘ رشوت لینے والے اور ان دونوں کے درمیان دلالی کرنے والے‘ تینوں پر لعنت کی ہے۔‘‘
اس قسم کے جرائم کی وجہ سے لوگوں کے درمیان معاشی ناہمواری پیدا ہوتی ہے اور وہ تہذیبی پستی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اسلام میں حاکم وقت کی ذمہ داریوں میں یہ بات انتہائی اہم ہے کہ وہ انسانوں کے درمیان عدل قائم کرے اور ان تمام ذرائع کو ختم کرنے کا اہتمام کرے جو انسانوں کے حقوق کی پامالی کا سبب بنتے ہیں۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ خلفائے راشدین اور ہمارے اسلاف اس ذمہ داری کو نبھانے کے لیے انتہائی فکر مند رہتے تھے‘ کیونکہ ان کو اس بات کا ادراک تھا کہ ان انسانی حقوق کی عمل داری کو یقینی بنانا ان کے فرائض میں شامل ہے۔ حاکم وقت کے بعد سب سے زیادہ ذمہ داری قاضی پر عائد ہوتی ہے‘ جس کی اولین ترجیح بروقت اور فوری انصاف کی فراہمی ہے۔ اس کی وجہ سے معاشرے میں انسانی حقوق کی تمام خلاف ورزیوں کو روکا جا سکتا ہے۔
دین اسلام مسلمانوں کے درمیان تحائف کے تبادلے کا حامی ہے‘لیکن تحائف کو رشوت کے ساتھ گڈمڈ نہیں کرنا چاہیے۔ دونوں بالکل مختلف ہیں۔ اسلام میں تحائف کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ‘تاہم تحائف کی وہ شکل جس میں کسی قسم کی بھی رعایت اور سفارش کا عنصر شامل ہو اس کو اسلام میں رشوت کے معنی میں ہی لیا جائے گا ۔
حقوق العباد میں ایک اہم چیز دوسروں کا اِکرام واحترام ہے۔ اسلام کسی کی توہین وتذلیل اور عزّتِ نفس مجروح کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ بدزبانی اور گالم گلوچ کو نفاق کی نشانیوں میں سے گنا گیا ہے اور اسے فسق ونافرمانی قراد دیا گیا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں:
((سِبَابُ المُسْلِمِ فُسُوقٌ وقِتَالُهُ كُفْرٌ)) (متفق علیہ)
’’کسی مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے لڑنا کفر ہے۔‘‘
جب ہم آج کی دنیا کا جائزہ لیتے ہیں تو انتہائی شرم ناک صورت حال سامنے آتی ہے۔ مسلمان ممالک اور معاشروں میں عمومی طور پر حقوق العباد کی ادائیگی کا فقدان ہے ۔ اس کے برعکس غیر مسلم معاشروں میں انسانی حقوق کی پاسداری کی جاتی ہے۔ اگرچہ وہاں پر انسانی حقوق کا تصوّر اللہ تعالیٰ کے احکامات کے تابع نہیں ہے مگر ان میں عدل کو کافی حد تک فوقیت دی گئی ہے۔ اسی لیے دنیاوی زندگی میں یہ معاشرے نہ صرف ترقی یافتہ ہیں بلکہ دنیا میں حکمرانی کر رہے ہیں۔ اس بات کی وضاحت تاریخ سے ہو جاتی ہے کہ جب تک مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی کی اور دین اسلام کے نفاذ کو یقینی بنایا ‘انہیں دنیا کی نہ صرف حکمرانی عطا کی گئی بلکہ وہ انتہائی خوش حال اور ترقی یافتہ معاشرے تھے مگر جیسے جیسے دین اسلام سے روگردانی ہوتی گئی‘ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا عذاب معاشرتی برائیوں اور پستی کی شکل میں سامنے آیا۔
حقیقت یہ ہے کہ آج دنیا میں مسلمان معاشروں کی کوئی اہمیت اور عزت نہیں ہے۔ چنانچہ ایمان کے دعوے داروںکے لیے لازم ہے کہ وہ حقوق العباد کی ادائیگی کو یقینی بنائیں تاکہ نہ صرف دنیاوی زندگی بلکہ آخرت میں بھی کامیابی حاصل کر سکیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حقوق العباد کو بجا لانے اور اس کی خلاف ورزیوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین !