(عرض احوال) جنگ کے سائے میں تنظیم اسلامی کا مسلسل دوسرا سالانہ اجتماع - خورشید انجم

14 /

بسم اللہ الرحمن الرحیم
جنگ کے سائے میں
تنظیم اسلامی کا مسلسل دوسرا سالانہ اجتماع
تنظیم اسلامی کا سالانہ اجتماع مسلسل دوسری مرتبہ اِن حالات میں منعقد ہو رہا ہے کہ فلسطینی مسلمانوں پر قیامت ٹوٹ چکی ہے۔ کہنا تو ہمیں یہ چاہیے تھا کہ اُمّت ِمسلمہ پر قیامت ٹوٹ پڑی ہے لیکن وہ کہیں دکھائی دے رہی ہوتی تو ہم اُس کا ذکر کرتے۔ دُنیا بھر کے مسلمان تو بعد کی بات ہے‘ ہمیں تو عرب متحد نظر نہیں آتے۔ یو اے ای کا رخ کچھ اور ہی نظر آ رہا ہے۔ اُس کی ایک خاتون وزیر نے حماس پر کھلم کھلاتنقید کی ہے۔ جذباتیت سے ہٹ کر اگر منطق کو اِس رویے کی بنیاد بنا کر غور و فکر کریں تو مسلمانوں کی یہ ٹوٹ پھوٹ دو اور دو چار کی طرح واضح نظر آتی ہے۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ وہ ہستی جسے مسلمان نظریاتی طور پر اور زبانی طور پر کائنات کی عظیم ترین ہستی قرار دیتے ہیں اور جن کے بارے میں ہمارا دعویٰ ہے کہ آپ ﷺ کی نبوت و رسالت اختتامی ہی نہیں تکمیلی اور دائمی بھی ہے یعنی حضرت محمد ﷺ‘ اُنہوں نے تو مسلمانوں کو ایک لڑی میں پرو کر ایک ہی جسد قرار دیا تھا۔اس سے وہ اُمّت وجود میں آئی جو اُمّت ِمسلمہ کہلائی جس کے ایک حصے کی تکلیف اور درد دوسرے حصہ کو خود پہنچ جاتا۔البتہ جب مسلمانوں نے اُمّت کے بانی اور حقیقی رہنما سے اپنے تعلق کوکمزور کر لیا‘پھر علاقائی اور ذاتی مفادات اور اقتدار کی ہوس نے انہیں بُری طرح بکھیر دیا تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اُمّت ِمسلمہ کی اصطلاح تقریروں اور تحریروں تک محدود ہو کر رہ گئی جبکہ اُس کا وجود عملاً ختم ہوگیا۔
یہی وجہ ہے کہ آج یہودی جنہیں اللہ تبارک و تعالیٰ مسلمانوں کا بدترین دشمن قرار دیتا ہے‘ مسلمان مرد اور عورتوں کے ہی نہیں چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کے اجسام کے پرزے پرزے کر کے ہوا میںاچھال رہے ہیں۔ مسلمان بھانت بھانت کی بولیاں بول رہے ہیں یا زیادہ سے زیادہ اسرائیل کی زبانی مذمت کر رہے ہیں ‘ فلسطینیوں کو محض جھوٹی سچی تسلیاں دے رہے ہیں ۔وہ کسی صورت اس بات پر آمادہ نہیں کہ اسرائیل کے خلاف براہِ راست کوئی اقدام کریں۔ انہیں خوف ہے کہ امریکہ اور یورپ اُن کے اقتدار کو یا مغربی ممالک میں رکھی ہوئی اُن کی دولت کو کسی قسم کا کوئی نقصان نہ پہنچائیں۔ اسرائیل کی نگاہِ بد اِس وقت مسجد اقصیٰ پر مرکوز ہے جسے وہ زمین بوس کر کے تھرڈ ٹمپل قائم کرنا چاہتا ہے۔ پھر یہ کہ جن عرب علاقوں پر قبضہ کرکے وہ اُنہیں گریٹر اسرائیل کا حصہ بنانا چاہتا ہے وہاں کے عربوں کو صلح صفائی اور امن و امان کا چکمہ دے کر اپنے جال میں پھنسا رہا ہے ۔ عرب حکمرانوں کے قلب و ذہن کو اقتدار اور دولت کے نشہ نے اس بری طرح جکڑا ہوا ہے کہ وہ حقیقت کا ادراک نہیں کر پا رہے اور دشمن کے اصل وار کو سمجھ نہیں رہے۔ وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ مسلمان اگر امریکہ اور اسرائیل کے سامنے اچھے بچے بن کر رہیں گے تو اُن کا اقتدار بھی قائم رہے گا اور امن و امان بھی ۔ایسے میں ایک بڑا اہم سوال پیدا ہوتا ہے جس کا جواب فیصلہ کن ہو سکتا ہے کہ کیا اسرائیل عرب حکمرانوں کے اقتدار اور عرب عوام کے امن و امان کی خاطر گریٹر اسرائیل کا منصوبہ تج کر دے گا جو اُن کے مذہبی عقیدے کا جزو لاینفک ہے؟ کوئی نادان ہی اس کا جواب اثبات میں دے سکتا ہے۔ بہرحال ہم اُمّت ِمسلمہ کی موجودہ روش اور فلسطینیوں کی انتہائی مخدوش حالت پر اپنے غم کا اظہار ہی کر سکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں پر رحم فرمائے!
اب ہم تنظیم اسلامی کے سالانہ اجتماع کے حوالے سے رفقاء کے سامنے چند گزارشات رکھیں گے۔ اُمّت ِمسلمہ کے لیے اللہ اور اُس کے آخری رسول ﷺ نے سال میں دو دن بطور عید مقرر کیے۔ یکم شوال کو عید الفطر سے موسوم کیا گیا اور دس ذوالحجہ کو عیدالاضحی کا نام دیا گیا۔ ان دو دنوں کے سوا کسی تیسرے دن کو عید قرار دینا یقیناً بدعت اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کی منشا کے خلاف ہے۔ تاہم اسے محض لغوی معنی کے حوالہ سے دیکھا جائے تو عید کا مطلب ہے: لوٹ کر آنے والا دن۔ اس میں خوشی اور اظہارِ مسرت کا عنصر بھی مضمر ہے۔ اُس ماہ مبارک کو پا لینا جسے اللہ ربّ العزت نے اپنا مہینہ کہا ہے ‘ اُس کی ایک رات کو ہزار مہینوں سے افضل قرار دیا اور ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عظیم سُنّت کو ادا کر لینا‘ اس سے بڑی خوش نصیبی کیا ہوگی کہ ایک مسلمان کی زندگی میں یہ خوشیوں بھرے دو تہوار لوٹ لوٹ کر آئیں۔ چنانچہ اردو زبان میں لفظ ’’عید‘ ‘کو خوشی اور جشن کا مترادف قرار دیا گیا۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ’’فلاں کی تو عید ہوگئی۔‘‘ یہ عید ہر انسان کی اپنی سوچ‘ فکر‘ خواہشات اور ترجیحات کے مطابق ہوتی ہے۔ مثلاً اپنے کاروبار اور تجارت کو ترجیح اوّل دینے والے تاجر کا مال دُگنی اور چوگنی قیمت پر فروخت ہو جائے تو اُس کی عید ہو جاتی ہے۔ ایک سماجی کارکن جب رضا کارانہ طور پر کسی کی مدد کرتا ہے تو اُس کا دل خوشی سے معمور ہو جاتا ہے۔ ایک سیاسی کارکن جب اپنے لیڈر کا جلسہ کامیابی سے منعقد کراتا ہے یا اپنے حلقہ سے اسمبلی کا ممبر بنواتا ہے تو خوشی سے پھولے نہیں سماتا‘ اس لیے کہ سیاست سے دلچسپی کے علاوہ اُس کے ذاتی مفادات بھی اس کامیابی سے وابستہ ہیں۔ گویا لغوی معنی قدرے مختلف ہونے کے باوجود اُردو زبان میں عید کوخوشی اور مسرت کا مترادف سمجھا جاتا ہے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو کسی تحریک کا سالانہ اجتماع بھی کارکنوں کے لیے عید کی سی حیثیت ہی رکھتا ہے۔ اگرچہ اس وقت افسردگی اور رنج و غم کا جوماحول اور فضا ہے‘ اس میں کسی خوشی کا تصور تو سرے سےممکن نہیں‘ لیکن ہمارا ایمان ہے کہ اُمّت ِمسلمہ کے زوال کے خاتمے اور اس کے عروج کا تصوّر بھی اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک اسلامی نظام مسلم ممالک میں رائج نہیں ہو جاتا اور صحیح معنوں میں اُمّت ِمسلمہ وجود میں نہیں آ جاتی۔ لہٰذا اس ہدف کو اپنا نصب العین بنا کر کسی تحریک کے کارکنوں کا مل کر بیٹھنا آج پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہے۔ تنظیم اسلامی کے رفقاء چونکہ رضائے الٰہی کے لیے اقامت ِدین کی جدّوجُہد میں ہم سفر اور ہم رکاب ہیں‘ لہٰذا ساتھیوں کی ایک بڑی تعداد دیکھ کر اُن کے ایمان کو جلا ملتی ہے۔ ملک کے کونے کونے اور بیرونِ ملک سے آئے ہوئے رفقاء کو اپنے فکری اور تحریکی بھائیوں سے مل بیٹھنے کا موقع میسّر آتا ہے۔ اس باہمی رابطہ سے اخوت و محبت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ تبادلۂ خیال سے فکر میں پختگی پیدا ہوتی ہے۔ دنیوی اُمور اور معمول کے کاموں سے بالکل الگ تھلگ ہو کر ایک پاکیزہ ماحول میں کارکن کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ ماضی میں ہونے والی اپنی کوتاہیوں پر نگاہ ڈالے‘ اللہ اور اُس کے محبوب رسول ﷺ جن چیزوں کو ناپسند کرتے ہیں‘ اُن سے ہجرت کا عہد کرے اور باقی ماندہ زندگی میں اللہ تعالیٰ کی غیر مشروط بندگی اور رسولِ کریم ﷺ کی پیروی کا عزم کرے۔
رفیق محترم! دنیا کے جھنجھٹ میں ان چیزوں پر غور کرنے کا موقع کم ہی میسّر آتا ہے۔ انسان صرف اتنی بات پر غور کر لے کہ کم و بیش۶۰ تا ۷۰ سالہ زندگی کو آسودہ اور خوش نما بنانے کے لیے اسے کولہو کا بیل بننا پڑتا ہے تو ابدی اور لامحدود زندگی کو خوش گوار بنانے کے لیے کس قدر محنت درکار ہوگی! کیا ہم مطلوبہ محنت کر رہے ہیں؟ جواب کیا ہوگا‘ اس کے تصوّر سے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
رفیق محترم! یہ دینی ذمہ داریاں ایک مسلمان کو عام حالات میں ادا کرنا ہوتی ہیں۔ آج مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حالات عام نہیں‘ خاص ہیں۔ ملک میں بدترین سیاسی عدم استحکام ہے۔ سودی معیشت‘ کرپشن اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدوں نے ملک کی اقتصادی حالت کو تباہ وبرباد کر دیا ہے۔ عوام کو مہنگائی اور بے روزگاری کے سوا کچھ نہیں دیا‘ جس سے ماحول میں سخت بے چینی اور اضطراب پایا جاتا ہے۔ پھر یہ کہ مقتدر قوتیں بھی اپنا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔ گویا داخلی سطح پر ملک افتراق اور انتشار کی لپیٹ میں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانانِ پاکستان ایمان کے فقدان کی وجہ سے دنیوی دولت‘ اقتدار اور قوت کے سامنے سجدہ ریز ہیں۔ اس پس منظر میں ایک رفیق کی ذمہ داریاں دو چند ہو جاتی ہیں‘ کیونکہ آج ہم ایک ایسی کشتی کے سوار ہیں جو خوف ناک طوفانی لہروں کی زد میں ہچکولے کھا رہی ہے۔ امریکہ‘ بھارت اور اسرائیل کا ابلیسی اتحاد اسے ہر صورت غرق کرنے کے درپے ہے۔
رفقاء ِگرامی! اس کشتی کو حفاظت اور سلامتی سے کنارے لگانا ہماری دینی ذمہ داری بھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانانِ پاکستان اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ ارضِ وطن کو خوش حال اور مستحکم کرنے کی جدّوجُہد اور اُخروی نجات کے لیے دینی ذمہ داریاں ادا کرنا درحقیقت ایک ہی سمت میں محنت اور جان فشانی کا تقاضا کرتی ہیں۔ یعنی اگر پاکستان میں اسلامی نظام نافذ ہو جائے تویہ ملک نہ صرف ناقابلِ تسخیر ہو سکتا ہے بلکہ سپر پاور آف دی ورلڈ بن کر بھی اُبھر سکتا ہے۔ ایسے میں جو لوگ اسے اسلامی فلاحی ریاست بنانے میں کردار ادا کریں گے‘ وہ اللہ کی رضا پا کر امر ہو جائیں گے۔ دنیا میں سرفراز ہوں گے جبکہ آخرت میں جنت اُن کی منتظر ہوگی۔
رفقاء کو یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ گریٹر اسرائیل اور فلسطین میں جاری موجودہ جنگ سے پاکستان کا کیا تعلق جڑتا ہے۔ گریٹر اسرائیل قائم کرنے کے آخری مرحلے میں جب اسرائیل فیصلہ کن جنگ شروع کرے گا تو وہ کسی صورت یہ رسک نہیں لے گا کہ کسی اسلامی ملک کے پاس ایٹمی ہتھیار ہوں۔ لہٰذا پاکستان کو خواہی نحواہی جنگ کا حصہ بننا پڑے گا ‘کیونکہ اگر وہ اپنے ایٹمی ہتھیار سرنڈر کرتا ہے تو بھارت ہم پر چڑھ دوڑنے کے لیے کوئی وقت ضائع نہیں کرے گا۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ امریکہ‘ بھارت اور اسرائیل ایک ابلیسی اتحاد میں بندھے ہوئے ہیں جس کا اصل ہدف مسلمانوں کو دنیا سے نیست و نابود کرنا ہے۔
لہٰذا اپنی دنیا سنوارنے‘ پاکستان کو ناقابلِ تسخیر بنانے اور مستحکم کرنے کے ساتھ آخرت میں کامیاب ہونے کا صرف اور صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ اقامت ِدین کی جدّوجُہد میں ہم عملاً اپنا تن من دھن لگا دیں‘ باتوں سے کام نہیں چلے گا۔ پانی سر سے گزرنے کو ہے ‘فیصلہ کیجیے دل یا شکم! اس سالانہ اجتماع میں صف بستہ ہو کر دیگر رفقاء کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر اس عہد کو تازہ کریں کہ میرے رب نے اقامت ِدین کی جدّوجُہد کا جو فریضہ مجھ پر عائد کیا ہے‘ اُسے اپنے دنیوی اُمور پر ترجیح دوں گا۔ دین کی دعوت جس قدر ہو سکا‘ خاص و عام تک پہنچاؤں گا اور ایسے مثالی نظم کا مظاہرہ کروں گا کہ حکم ملنے پر قدم بڑھاؤں گا اور حکم ملنے پر رک جاؤں گا۔ اقامت ِدین کی جدّوجُہد میں اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھانے والے لوگ یقیناً دنیا کے خوش قسمت ترین لوگ ہیں۔ اے اللہ ربّ العزت! ہم سب کو اپنا عہد نبھانے کی توفیق عطا فرما اور عہد شکنی کی لعنت سے محفوظ فرما۔ آمین یا ربّ العالمین!
سالانہ اجتماع کے حوالے سے ’’میثاق‘‘ کا پیش نظر شمارہ خصوصی اشاعت کا حامل ہے۔ اس میں بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ اور امیر ثانی محترم حافظ عاکف سعید حفظہ اللہ کے اپنے اپنے دورِ امارت میں سالانہ اجتماعات کے موقع پر خصوصی خطابات شامل اشاعت کیے گئے ہیں۔ نیز مسئلۂ خلافت کی فرضیت اور نظامِ خلافت کے قیام کے نبوی طریق کار کے موضوع پر دواہل علم حضرات مولانا ڈاکٹر شیر علی اور مفتی عبدالرحمٰن ستی کے مضامین بھی شائع کیے جا رہے ہیں۔
قارئین کرام نوٹ فرما لیں کہ ’’میثاق‘‘ کی اس خصوصی اشاعت کی حیثیت نومبر‘دسمبر۲۰۲۴ء کی مشترکہ اشاعت کی ہے۔