سُوْرَۃُ الْـبَــیِّنَۃِ
تمہیدی کلمات
سورۃ البیِّنَۃ کو قرآن مجید کے اکثر نسخوں میں ’’مَدَنِیَّۃ‘‘ لکھا گیا ہے ۔مفسرین کے نزدیک اس کے مکّی یا مدنی ہونے میں اختلاف ہے۔ البتہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا قول ہے کہ یہ مکّی سورت ہے۔ قرآن مجید کی ترتیب ِمصحف میں اس کو سورۃ العلق اور سورۃ القدر کے بعد رکھنا نظم ِقرآن کے اعتبار سے بہت اہم اور معنی خیز ہے۔ سورۃ العلق میں پہلی وحی درج کی گئی ہے۔ سورۃ القدر میں بتایا گیا ہے کہ اس قرآن کا نزول کب ہوا اور اس سورت میں واضح کیا گیا ہے کہ اس قرآن کے ساتھ ایک رسول بھیجنا کیوں ضروری تھا۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ وَالْمُشْرِکِیْنَ مُنْفَکِّیْنَ حَتّٰی تَاْتِیَھُمُ الْبَیِّنَۃُ (۱) رَسُوْلٌ مِّنَ اللہِ یَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَھَّرَۃً (۲) فِیْھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ (۳) وَمَا تَفَرَّقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَتْھُمُ الْبَیِّنَۃُ (۴) وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُو اللہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ ڏ حُنَفَاۗءَ وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوا الزَّکٰوۃَ وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ (۵) اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ وَالْمُشْرِکِیْنَ فِیْ نَارِ جَھَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا ۭ اُولٰۗئِکَ ھُمْ شَرُّ الْبَرِیَّۃِ (۶) اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۙ اُولٰۗئِکَ ھُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّۃِ (۷) جَزَاۗؤُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَبَدًا ۭ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ ۭ ذٰلِکَ لِمَنْ خَشِیَ رَبَّہٗ(۸)
آیت ۱{لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ وَالْمُشْرِکِیْنَ مُنْفَکِّیْنَ حَتّٰی تَاْتِیَہُمُ الْبَیِّنَۃُ(۱)} ’’نہیں تھے وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا تھا اہل ِکتاب میں سے اور مشرکین میں سے الگ ہونے والے (یا باز آنے والے)جب تک کہ ان کے پاس البیّنہ نہ آ جاتی۔‘‘
ظاہر ہے وہ لوگ سیدھے راستے سے بھٹک کر گمراہی میں مبتلا ہو چکے تھے۔ اب جب تک ان کے سامنے کوئی بین (واضح) دلیل نہ آ جاتی جس سے انہیں معلوم ہو جاتا کہ وہ گمراہ ہیں یا انہیں بہت واضح انداز میں بتا نہ دیا جاتا کہ وہ جس راہ پر چل رہے ہیں وہ راہِ ہدایت نہیں ‘ اُس وقت تک انہیں رشد و ہدایت کی راہ پر چلنے والوں سے علیحدہ نہیں کیاجا سکتا تھا۔ اس کا مفہوم یوں بھی ہو سکتا ہے کہ جب تک ان لوگوں کے پاس البیّنہ نہ آجاتی وہ اپنے کفر سے باز آنے والے نہیں تھے------- مُنْفَکِّیْنَ : اِنْفِکاک (فَکَّ سے باب اِنْفعال) سے ہے‘ جس کا مفہوم ہے کسی چیز کا کسی چیز سے الگ ہو جانا‘ جدا ہو جانا۔
وہ البیِّنہ کیا ہے؟ اس کی وضاحت اگلی آیات میں کی جا رہی ہے:
آیت۲{رَسُوْلٌ مِّنَ اللہِ یَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَہَّرَۃً(۲)}’’ایک رسول (ﷺ) اللہ کی جانب سے جو تلاوت کرتے ہیں پاکیزہ اوراق کی ۔‘‘
ان اوراق میں کیا ہے؟
آیت ۳{فِیْہَا کُتُبٌ قَـیِّمَۃٌ(۳)} ’’ان میں بڑے مضبوط احکام (تحریر) ہیں۔‘‘
لفظ ’’کتاب‘‘ کے بارے میں قبل ازیں بھی متعدد بار واضح کیا جا چکا ہے کہ قرآن مجید میں یہ لفظ عام طور پر احکامِ شریعت کے لیے آتا ہے۔ تو پتا چلا کہ اللہ کے رسول ﷺاور اللہ کی کتاب کا اکٹھا نام البیِّنہ ہے۔یہ وہی بات ہے جو قبل ازیں ہم لفظ ’’ذِکْرًا‘‘ کے حوالے سے سورۃ الطلاق میں بھی پڑھ چکے ہیں۔ وہاں اہل ِایمان کو مخاطب کر کے فرمایا گیا ہے : {قَدْ اَنْزَلَ اللہُ اِلَـیْکُمْ ذِکْرًا(۱۰) رَّسُوْلًا یَّـتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِ اللہِ مُـبَـیِّنٰتٍ…}’’اللہ نے تمہاری طرف ذکر نازل کر دیا ہے۔ایک رسولؐ جو اللہ کی آیاتِ بینات تم لوگوں کو پڑھ کر سنا رہا ہے…‘‘ گویا تعبیر اور تعریف (definition) کے اعتبار سے اَلْبَـیِّنَہ اور ذِکْرًا ہم معنی اصطلاحات ہیں۔یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے واضح احکام کتاب کی صورت میں نازل کیے اور اس کتاب کی تفہیم و تعلیم کے لیے رسولﷺ کو بھی مبعوث فرمایا۔ اللہ کے رسولﷺ نے وہ تمام احکام اس انداز میں کھول کر بیان فرما دیے کہ اب اس کے بعد ان مخاطبین کے پاس کفر و شرک کے ساتھ چمٹے رہنے اور ضلالت و گمراہی سے باز نہ آنے کا کوئی جوازباقی نہیں رہا۔
آیت۴{وَمَا تَفَرَّقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ اِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَآئَ تْہُمُ الْبَـیِّنَۃُ(۴)}’’اور جن لوگوں کو کتاب دی گئی تھی انہوں نے تفرقہ نہیں کیا تھا مگر اس کے بعد جبکہ ان کے پاس البیِّنہ آ چکی تھی۔‘‘
یعنی اسی طرح اس سے پہلے بنی اسرائیل کے پاس بھی البیِّنہ (اللہ کا رسول ؑا ور اُس کی کتاب) آئی تھی‘ مگر وہ لوگ اس کے بعد بھی راہِ راست پر آنے کے بجائے تفرقہ بازی میں پڑگئے۔ ان میں سے کچھ لوگ یہودی بن گئے اور کچھ نصاریٰ ۔ بعد میں نصاریٰ مزید کئی فرقوں میں بٹتے چلے گئے۔ چنانچہ البَیِّنہ کے آ جانے کے بعد بھی راہِ راست پر نہ آنے کے جرم کی پاداش میں وہ لوگ شدید ترین سزا کے مستحق ہو چکے ہیں۔
آیت ۵{وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوا اللہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ ۵ حُنَفَآئَ} ’’اور انہیں حکم نہیں ہوا تھا مگر یہ کہ وہ بندگی کریںاللہ کی ‘اپنی اطاعت کو اُس کے لیے خالص کرتے ہوئے‘ بالکل یکسو ہو کر‘‘
یہ حکم گویا پورے دین کا خلاصہ ہے جو اس سے پہلے سورۃ الزمر (آیات ۲‘۳‘۱۱اور ۱۴) میں بہت تاکید اور شدّومدّ کے ساتھ بیان ہو چکا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت اُس کی پوری اطاعت کے ساتھ کریں۔ یہ نہیں کہ نماز بھی پڑھے جا رہے ہیں اور حرام خوریوں سے بھی باز نہیں آتے۔ گویا اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ساتھ ساتھ اپنے نفس کی اطاعت بھی جاری ہے۔ ایسی آیات دراصل ہمیں خبردار کرتی ہیں کہ جزوی بندگی اور ساجھے کی اطاعت اللہ تعالیٰ کو ہرگز قابلِ قبول نہیں۔ اور یہ کہ اگر ہم اس جرم کا ارتکاب کریں گے تو ہم بھی اسی وعید کے مستحق ہوں گے جو اس حوالے سے بنی اسرائیل کو سنائی گئی تھی۔ ملاحظہ ہوں اس وعید کے یہ الفاظ :{اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَتَـکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ ج فَمَا جَزَآئُ مَنْ یَّـفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ اِلَّا خِزْیٌ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاج وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرَدُّوْنَ اِلٰٓی اَشَدِّ الْعَذَابِ ط} (البقرۃ:۸۵)’’تو کیا تم کتاب کے ایک حصّے کو مانتے ہو اور ایک کو نہیں مانتے؟ تو نہیں ہے کوئی سزا اُس کی جو یہ حرکت کرے تم میںسے سوائے ذِلّت و رسوائی کے دنیا کی زندگی میں ‘اور قیامت کے روز وہ لوٹا دیے جائیں گے شدید ترین عذاب کی طرف‘‘۔ بلکہ اس حوالے سے اصل حقیقت تو یہ ہے کہ اس آیت میں دنیا کے جس عذاب کا ذکر ہے {خِزْیٌ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاج} وہ اِس وقت بحیثیت اُمّت ہم پر مسلط ہو بھی چکا ہے ۔ مقامِ عبرت ہے! آج مسلمانوں کی آبادی دو ارب سے بھی زیادہ ہے‘ دنیا کے بہترین خطے اور بہترین وسائل ان کے قبضے میں ہیں‘ مگر اس کے باوجود عزّت نام کی کوئی چیز ان کے پاس نہیں۔ بین الاقوامی معاملات کے حوالے سے مسلمان حکمرانوں کی حالت یہ ہے کہ ’’کس نمی پرسد کہ بھیّا کیستی؟‘‘یعنی عالمی معاملات میں کوئی ان کی رائے لینا بھی گوارا نہیں کرتا۔ بلکہ مسلمان ملکوں کی اپنی پالیسیوں کا اختیار بھی ان کے پاس نہیں۔ ان کے سالانہ بجٹ بھی کہیں اور سے بن کر آتے ہیں۔
بہرحال اس آیت کے حکم کا مدّعا یہی ہے کہ جسے اللہ کا ’’بندہ‘‘ بننا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی اس کے قانون کے تابع کر کے اس کے حضور پیش ہو۔’’قیصر کا حصّہ قیصر کو دو اور خدا کا حصّہ خدا کو دو‘‘ والا قانون اللہ تعالیٰ کو قابل ِقبول نہیں۔چنانچہ ایمان کے دعوے داروں کو چاہیے کہ وہ اللہ کی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے پوری یکسوئی کے ساتھ اُس کی عبادت کریں۔
{وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوا الزَّکٰوۃَ وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ(۵)} ’’اور (یہ کہ)نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں ‘اور یہی ہے سیدھا (اور سچا)دین۔‘‘
گویا ان الفاظ سے یہ بھی واضح ہو گیا کہ ’’بندگی‘‘ اور شے ہے ‘جبکہ نماز اور زکوٰۃ اس کے علاوہ ہے۔ اس نکتے کو یوں سمجھیں کہ بندگی تو پوری زندگی اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں دے دینے کا نام ہے۔ بقول شیخ سعدیؔ :
زندگی آمد برائے بندگی
زندگی بے بندگی شرمندگی!جبکہ نماز ‘ زکوٰۃ (عبادات) وغیرہ اس بندگی کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لوازمات ہیں‘ تاکہ ان کے ذریعے سے بندہ اپنے رب کو مسلسل یاد کرتا رہے اور اس کا تعلق اپنے رب کے ساتھ ہردم‘ ہر گھڑی تازہ رہے۔ حفیظ جالندھری کے اس خوبصورت شعر میں یہی فلسفہ بیان ہوا ہے :
سرکشی نے کر دیے دھندلے نقوشِ بندگی
آئو سجدے میں گریں لوحِ جبیں تازہ کریں!گویا ہمارے ’’نقوشِ بندگی‘‘ نفس پرستی کی کثافتوں اور کدورتوں کے گرد و غبار سے اکثر دھندلا جاتے ہیں۔ چنانچہ انہیں تازہ رکھنے کے لیے نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ اور دیگر مراسم ِعبودیت کے ذریعے ہمیں اللہ تعالیٰ کے حضور مسلسل حاضری دینے کی ضرورت رہتی ہے۔ جیسے ایک بندئہ مسلمان اپنی نمازِ پنجگانہ کی ہر رکعت میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا یہ عہد تازہ کرتا ہے : {اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ} کہ اے اللہ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں (اور کرتے رہیں گے) اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں (اور مانگتے رہیںگے)۔تصوّر کیجیے اگر ایک بندہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہوکر یہ عہد پورے ارادے اور شعور کے ساتھ روزانہ بار بار دہرائے گا تو اس سے اس کے تعلق مع اللہ کے چمن میں تروتازگی کی کیسی کیسی بہاروں کا سماں بندھا رہے گا۔
آیت۶{اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ وَالْمُشْرِکِیْنَ}’’بے شک وہ لوگ جنہوں نے کفر کی روش اختیار کی‘ خواہ وہ اہل ِکتاب میں سے تھے ‘خواہ مشرکین میں سے‘‘
{فِیْ نَارِ جَہَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْہَاط}’’وہ ہوں گے جہنّم کی آگ میں‘ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘
{اُولٰٓئِکَ ہُمْ شَرُّ الْبَرِیَّۃِ (۶)}’’یہی لوگ بدترین خلائق ہیں۔‘‘
آیت ۷{اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لا} ’’(اس کے برعکس) وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے‘‘
{اُولٰٓئِکَ ہُمْ خَیْرُالْبَرِیَّۃِ (۷)} ’’یہی بہترین خلائق ہیں۔‘‘
اَللّٰھُمَّ رَبَّـنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ! اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان لوگوں میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
آیت۸{جَزَآؤُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَآ اَبَدًاط} ’’ان کا بدلہ ہو گا ان کے رب کے پاس دائمی قیام کے باغات کی صورت میں جن کے دامن میں ندیاں بہتی ہوں گی ‘ان میں وہ رہیں گے ہمیشہ ہمیش۔‘‘
یہاں پر ضمنی طور پر یہ علمی نکتہ بھی نوٹ کر لیجیے کہ قرآن مجید میں دو مقامات ایسے ہیں جہاں اہل ِجنّت اور اہل جہنّم کے فوری تقابل (simultaneous contrast)میں اہل جنّت کے لیے {خٰلِدِیْنَ فِیْہَآ اَبَدًا} جبکہ اہل ِجہنّم کے لیے صرف {خٰلِدِیْنَ فِیْہَا} کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں ایک مقام تو یہی ہے۔ یعنی اس سورت کی زیر مطالعہ آیت میں اہل جنّت کے لیے {خٰلِدِیْنَ فِیْہَـآ اَبَدًا} کے الفاظ آئے ہیں‘ جبکہ اس سے پہلے آیت ۶ میں اہل ِجہنّم کا ذکر کرتے ہوئے {خٰلِدِیْنَ فِیْہَا} کے الفاظ تک اکتفاء فرمایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سورۃ التغابن کی آیت۹ اور آیت ۱۰ میں بھی اہل جنّت اور اہل جہنّم کے تقابل کے حوالے سے یہی فرق دیکھنے میں آتا ہے۔ ان دونوں مقامات میں مذکورہ فرق کی بنیاد پر اُمّت ِمسلمہ کی دو بہت بڑی علمی شخصیات نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ جنّت اور اس کی نعمتیں تو ابدی ہیں ‘لیکن جہنّم ابدی نہیں ہے اور یہ کہ کبھی ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب اہل جہنّم میں سے خیر کے حامل آخری عناصر کو نکال کر باقی لوگوں کومدّتِ مدید تک مبتلائے عذاب رکھنے کے بعد بالآخر اس میں جلا کر معدوم کردیا جائے گا اور اس کے بعد جہنّم کو بھی ختم کر دیا جائے گا۔ اس موقف کی حامل دو شخصیات میں ایک تو شیخ اکبر محی الدین ابن عربیؒ ہیں جن کا شمار چوٹی کے صوفیاء میں ہوتاہے اور دوسری شخصیت امام ابن تیمیہ ؒ کی ہے جو سلفی حضرات کے نزدیک اسلامی دنیا کے سب سے بڑے امام اور عالم ہیں۔ امام ابن تیمیہؒ کا اس نکتے پر محی الدین ابن عربی ؒسے متفق ہو جانا یقیناً ایک اہم بات اور ’’ متفق گردید رائے بوعلی بارائے من‘‘والا معاملہ ہے ‘کیونکہ مجموعی طور پر وہ محی الدین ابن عربیؒ کے خیالات ونظریات سے شدید اختلاف رکھتے ہیں۔ واضح رہے کہ جہنّم کے ابدی نہ ہونے سے متعلق مَیں نے یہاں مذکورہ دو شخصیات کی آراء کا ذکر محض ایک علمی نکتے کے طور پر کیا ہے ‘ عام اہل ِسُنّت کا عقیدہ بہرحال یہ نہیں ہے۔ اہل ِسُنّت علماء کے نزدیک جہنّم بھی جنّت کی طرح ابدی ہی ہے۔
{رَضِیَ اللہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ ط}’’اللہ ان سے راضی ہو ا اور وہ اس سے راضی ہوئے ۔‘‘
یعنی آخرت میں اللہ تعالیٰ انہیں اتنا کچھ عطا فرمائے گا کہ وہ اللہ سے خوش ہوجائیں گے۔
{ذٰلِکَ لِمَنْ خَشِیَ رَبَّہٗ (۸)}’’یہ (صلہ)اُس کے لیے ہے جو اپنے رب سے ڈرتا ہے۔‘‘
اَللّٰھُمَّ رَبَّـنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ! اَللّٰھُمَّ رَبَّـنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ! آمین‘ ثم آمین!
سُوْرَۃُ الزِّلْزَالِ
تمہیدی کلمات
سورۃ الزلزال کے مکّی یا مدنی ہونے کے بارے میں بھی مفسرین کے درمیان اختلاف پایاجاتا ہے۔ لیکن اس کے اسلوب اور مضامین پر غور کیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ یہ مکّی سورت ہے۔ فضیلت کے اعتبار سے رسول اللہﷺ نے اسے ایک ہزار آیات کے برابر قرار دیا ہے۔ یہ سورت اور اس کے بعد کی تین سورتیں (سورۃ العادیات ‘ سورۃ القارعہ اور سورۃ التکاثر)انذارِ آخرت کے حوالے سے خصوصی اہمیت کی حامل ہیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَھَا (۱) وَاَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَھَا (۲) وَقَالَ الْاِنْسَانُ مَالَھَا (۳) یَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَھَا (۴) بِاَنَّ رَبَّکَ اَوْحٰی لَھَا (۵) یَوْمَئِذٍ یَّصْدُرُ النَّاسُ اَشْتَاتًا ڏ لِّیُرَوْا اَعْمَالَھُمْ (۶) فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ (۷) وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ (۸)
آیت ۱{اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَہَا(۱)} ’’جب زمین ہلائی جائے گی جیسے کہ ہلائی جائے گی۔‘‘
یعنی تم انسان یہ تصوّر بھی نہیں کر سکتے کہ اس زلزلے کی کیفیت کیسی ہو گی ۔سورۃ الحج کے آغاز میں اس کیفیت کی شدّت کا نقشہ بایں الفاظ کھینچا گیا ہے :
{یٰٓــاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّـکُمْ ج اِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیْ ئٌ عَظِیْمٌ(۱) یَوْمَ تَرَوْنَہَا تَذْہَلُ کُلُّ مُرْضِعَۃٍ عَمَّآ اَرْضَعَتْ وَتَضَعُ کُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَہَا وَتَرَی النَّاسَ سُکٰرٰی وَمَا ہُمْ بِسُکٰرٰی وَلٰکِنَّ عَذَابَ اللہِ شَدِیْدٌ(۲)}
’’اے لوگو! تقویٰ اختیار کروا پنے رب کا ‘ یقیناً قیامت کا زلزلہ بہت بڑی چیز ہو گا۔جس دن تم اُس کو دیکھو گے‘ اس دن (حال یہ ہوگا کہ) بھول جائے گی ہر دودھ پلانے والی جسے وہ دودھ پلاتی تھی اور (دہشت کا عالم یہ ہوگاکہ) ہر حاملہ کا حمل گر جائے گااور تم دیکھو گے لوگوں کو جیسے وہ نشے میں ہوں‘حالانکہ وہ نشے میں نہیں ہوں گے‘ بلکہ اللہ کا عذاب ہی بہت سخت ہے۔‘‘
آیت۲{وَاَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَہَا(۲)}’’اور زمین اپنے سارے بوجھ نکال کر باہرپھینک دے گی۔‘‘
یعنی اُس دن زمین اپنے اندر مدفون تمام انسانوں کو‘ وہ جس حالت میں بھی ہوں گے‘ نکال کر باہر ڈال دے گی۔ اگر ان کے ذرّات منتشر ہو کر زمین کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہوںگے تو ان کو بھی یکجا کر دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ جو انسان اصطلاحی مفہوم میں زمین کے اندر باقاعدہ دفن نہیں بھی ہوتے ‘مثلاً سمندر میں غرق ہو جاتے ہیں یا جلا دیے جاتے ہیں‘ان کے اجسام کے اجزائی ذرّات بھی کسی نہ کسی شکل میں بالآخر زمین میں ہی جذب ہوتے ہیں اور وہ قیامت کے دن زمین سے ہی برآمد ہوں گے۔ سورئہ طٰہٰ کی یہ آیت اس لحاظ سے بہت واضح ہے : {مِنْہَا خَلَقْنٰـکُمْ وَفِیْہَا نُعِیْدُکُمْ وَمِنْہَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً اُخْرٰی(۵۵)} ’’اسی (زمین) سے ہم نے تمہیں پیدا کیا ہے اور اسی میںہم تمہیں لوٹائیں گے‘ اور اسی میں سے ہم تمہیں ایک مرتبہ پھر نکالیں گے ۔‘‘
آیت ۳{وَقَالَ الْاِنْسَانُ مَا لَہَا(۳)} ’’اور انسان کہے گا کہ اسے کیا ہو گیا ہے؟‘‘
آیت۴{یَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَہَا(۴)}’’اُس دن یہ اپنی خبریں کہہ سنائے گی۔‘‘
اُس دن اللہ تعالیٰ زمین کو بھی بولنے کی صلاحیت عطا فرمائے گا اور وہ ہر انسان کے بارے میں ایک ایک خبر دے گی کہ وہ اس کی پشت پر بیٹھ کر کیا کیا حرکتیں کرتا رہا ہے۔ یعنی جس طرح انسان کے ہاتھ پائوں اور دوسرے اعضاء اُس دن اس کے خلاف گواہی دیں گے اسی طرح زمین کا متعلقہ حصّہ اور ٹکڑا بھی اس کے خلاف بطور گواہ کھڑا ہو گا۔ سورئہ حٰمٓ السجدۃ (آیت۲۱) میں ان گواہیوں کے حوالے سے بہت عبرتناک مکالمات کا ذکر ہے۔ جب انسانوں کی جلدوں سمیت ان کے تمام اعضاء ان کے خلاف گواہیاں دے رہے ہوں گے تو وہ جھنجھلا کر اپنی جلدوں سے کہیں گے : {لِمَ شَہِدْتُّمْ عَلَیْنَاط} کہ تم کیوں ہمارے خلاف بول رہے ہو؟ اس پر وہ ترکی بہ ترکی جواب دیں گی: {اَنْطَقَنَا اللہُ الَّذِیْٓ اَنْطَقَ کُلَّ شَیْ ئٍ} کہ آج ہمیں بھی اُس اللہ نے بولنے کی صلاحیت عطا کردی ہے جس نے باقی ہرچیز کو بولنا سکھایا ہے۔ بہرحال اس دن اللہ تعالیٰ زمین کو بھی زبان عطا کرے گا اور وہ انسانوں سے متعلق تمام احوال کی ایک ایک تفصیل بیان کرے گی۔
آیت ۵{بِاَنَّ رَبَّکَ اَوْحٰی لَہَا(۵)} ’’ اس لیے کہ اُسے اُس کے رب نے حکم دیا ہو گا۔‘‘
آیت۶{یَوْمَئِذٍ یَّصْدُرُ النَّاسُ اَشْتَاتًاج}’’اُس دن لوگ علیحدہ علیحدہ ہو کر نکل پڑیں گے‘‘
اَشْتَاتًا جمع ہے شَتٌّ کی‘ یعنی منتشر و متفرق۔ نصب حالیت کی وجہ سے ہے۔ اسی معنی میں یہ لفظ سورۃ اللیل کی اس آیت میں بھی آیا ہے :{اِنَّ سَعْیَکُمْ لَشَتّٰی(۴)} کہ تم انسان بظاہر ایک جیسے نظر آتے ہو لیکن تمہاری سعی و جُہد کے رخ بالکل مختلف ہیں۔
{ لِّیُرَوْا اَعْمَالَہُمْ(۶)}’’تاکہ انہیں ان کے اعمال دکھا دیے جائیں۔‘‘
اس منظر کی ایک جھلک سورۃ الکہف کی اس آیت میں بھی دکھائی گئی ہے:
{وَوُضِعَ الْکِتٰبُ فَتَرَی الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا فِیْہِ وَیَقُوْلُوْنَ یٰوَیْلَتَنَا مَالِ ہٰذَا الْکِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَۃً وَّلَا کَبِیْرَۃً اِلَّآ اَحْصٰىہَاج وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًاط وَلَا یَظْلِمُ رَبُّکَ اَحَدًا(۴۹)}
’’اور رکھ دیا جائے گا اعمال نامہ ‘چنانچہ تم دیکھو گے مجرموں کوکہ ڈر رہے ہوں گے اس سے جو کچھ اس میں ہوگا اور کہیں گے: ہائے ہماری شامت! یہ کیسا اعمال نامہ ہے؟ اس نے تو نہ کسی چھوٹی چیز کو چھوڑا ہے اور نہ کسی بڑی کو‘ مگر اس کو محفوظ کر رکھا ہے۔اور وہ پائیں گے جو عمل بھی انہوں نے کیا ہو گا اُسے موجود۔ اور آپ کا رب ظلم نہیں کرے گا کسی پر بھی۔‘‘
آج کے ماحول کو مدّ ِنظر رکھتے ہوئے اس آیت کا مفہوم یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ اُس دن ایک بہت بڑا کمپیوٹر سر ِمحشر نصب کر دیا جائے گا جس میں پوری نوعِ انسانی کے ایک ایک فرد کے اعمال سے متعلق تفصیلی ڈیٹا موجود ہوگا۔ جونہی کسی فرد کو حساب کے لیے پیش کیا جائے گا اس کی پوری زندگی کی آڈیو ویڈیو فلم فوراً سکرین پر چلنا شروع ہوجائے گی۔
آیت ۷{فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ(۷)} ’’توجس کسی نے ذرّہ کے ہم وزن بھی کوئی نیکی کی ہو گی وہ اُسے دیکھ لے گا ۔‘‘
آیت۸{وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ(۸)}’’اور جس کسی نے ذرّہ کے ہم وزن کوئی بدی کی ہو گی وہ بھی اُسے دیکھ لے گا۔‘‘
عربی لغت کے مطابق چیونٹی کے انڈے سے نکلنے والے بچے کو ’’ذرّہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یعنی بہت چھوٹی اور حقیر چیز۔ اسی مفہوم میں لفظ ’’ذرّہ‘‘ اردو میں بھی مستعمل ہے۔
یہ آیت انسان کو اس اہم حقیقت پر متنبہ کرتی ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی نیکی بھی بہرحال اپنا ایک وزن اوراپنی ایک قدر رکھتی ہے‘ اور چھوٹی سے چھوٹی بدی بھی حساب میں آنے والی چیز ہے۔ بسا اوقات انسان نیکی کے چھوٹے سے کام کو حقیر سمجھ کر نظر انداز کر دیتا ہے‘ اور بعض اوقات صغیرہ گناہوں کی پروا نہیں کرتا۔ یہ درست طرزِعمل نہیں ہے۔ کسی نیکی کو چھوٹا سمجھ کر اسے چھوڑنا نہیں چاہیے اور کسی گناہ کو چھوٹا سمجھ کر اس پر جری نہیں ہونا چاہیے۔
سُوْرَۃُ الْعٰدِیٰتِ
تمہیدی کلمات
سورۃ العادیات قرآن مجید کی ان پانچ سورتوں میں پانچویں اور آخری سورت ہے جن کا آغاز ایک جیسے انداز میں پے در پے قسموں سے ہوتا ہے۔ اس فہرست میں اس سورت کے علاوہ سورۃ الصافات‘ سورۃ الذاریات‘ سورۃ المرسلات اور سورۃ النازعات شامل ہیں۔ اس سورت کے بھی مکّی یا مدنی ہونے کے بارے میں مفسرین کا اختلاف ہے‘ لیکن سورت کے مضمون اور اندازِ بیان سے صاف ظاہر ہے کہ یہ ابتدائی دور کی مکّی سورت ہے۔ اس سورت کے آغاز کی قسموں کے بارے میں تمام مفسرین کا اجماع ہے کہ ان میں گھوڑوں کا ذکر ہے۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَالْعٰدِیٰتِ ضَبْحًا (۱) فَالْمُوْرِیٰتِ قَدْحًا (۲) فَالْمُغِیْرٰتِ صُبْحًا (۳) فَاَثَرْنَ بِہٖ نَقْعًا (۴) فَوَسَطْنَ بِہٖ جَمْعًا (۵) اِنَّ الْاِنْسَانَ لِرَبِّہٖ لَکَنُوْدٌ (۶) وَاِنَّہٗ عَلٰی ذٰلِکَ لَشَہِیْدٌ (۷) وَاِنَّہٗ لِحُبِّ الْخَیْرِ لَشَدِیْدٌ (۸) اَفَلَا یَعْلَمُ اِذَا بُعْثِرَ مَا فِی الْقُبُوْرِ (۹) وَحُصِّلَ مَا فِی الصُّدُوْرِ (۱۰) اِنَّ رَبَّھُمْ بِھِمْ یَوْمَئِذٍ لَّخَبِیْرٌ (۱۱)
آیت ۱{وَالْعٰدِیٰتِ ضَبْحًا(۱)} ’’قسم ہے اُن گھوڑوں کی جو دوڑتے ہیں ہانپتے ہوئے۔‘‘
آیت۲{فَالْمُوْرِیٰتِ قَدْحًا(۲)}’’پھر وہ سم مار کر چنگاریاں نکالتے ہیں۔‘‘
جب سرپٹ دوڑتے ہوئے گھوڑوں کے سم کسی پتھر وغیرہ سے ٹکراتے ہیں تو ان سے چنگاریاں نکلتی دکھائی دیتی ہیں۔
آیت ۳{فَالْمُغِیْرٰتِ صُبْحًا(۳)} ’’پھر وہ علی الصبح غارت گری کرتے ہیں۔‘‘
اس آیت میں گھوڑوں کی خصوصی صفات کے ساتھ ساتھ زمانہ جاہلیت کے عرب تمدن کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے۔اہل ِعرب جب لوٹ مار یا قتل و غارت کے لیے کسی قبیلے پر حملے کی منصوبہ بندی کرتے تو اس کے لیے علی الصبح منہ اندھیرے کے اوقات (small hours of the morning) کا انتخاب کرتے تھے۔ اس قسم کی غارت گری کے لیے رات کا پچھلا پہر اس لیے موزوں سمجھا جاتا تھا کہ اُ س وقت ہر کوئی بڑی سکون کی نیند سو رہا ہوتاہے۔ حتیٰ کہ اگر کوئی مریض تکلیف کی وجہ سے ساری رات سو نہ سکے تو رات کے پچھلے پہر اسے بھی نیند آجاتی ہے۔
آیت۴{فَاَثَرْنَ بِہٖ نَقْعًا(۴)}’’پھر وہ اس سے گرد اُڑاتے ہوئے جاتے ہیں۔‘‘
آیت ۵{فَوَسَطْنَ بِہٖ جَمْعًا(۵)}’’پھر اس کے ساتھ وہ (دشمن کی) جمعیت کے اندر گھس جاتے ہیں۔‘‘
پرانے زمانے کی جنگوں میں گھوڑے بہت مؤثر اور کارآمد ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔ حملے کے وقت گھوڑے اپنے سواروں کے حکم پر مخالف فوج کی طرف سے تیروں کی بوچھاڑ اور نیزوں کی یلغار کی پروا نہ کرتے ہوئے ان کی صفوں میں گھس جاتے تھے ۔ گھوڑے کا اپنے مالک کی فرمانبرداری میں اپنا خون پسینہ ایک کردینے کا جذبہ اور اس کی وفاداری میں اپنی جان کی بازی تک لگادینے کا وصف! یہ ہے دراصل ان قسموں کے مضمون کا مرکزی نکتہ جس کی طرف یہاں توجّہ دلانا مقصود ہے۔ چنانچہ گھوڑوں کے ان اوصاف کے ذکر کے بعد تقابل کے طور پر انسان کے کردارکا ذکر یوں کیا گیا ہے:
آیت۶{اِنَّ الْاِنْسَانَ لِرَبِّہٖ لَکَنُوْدٌ(۶)}’’یقیناًانسان اپنے ربّ کا بہت ہی ناشکرا ہے۔‘‘
مطلب یہ کہ ایک طرف وہ جانور ہے جو اپنے مالک کے ایک اشارے پر اپنی جان تک قربان کر دیتا ہے ‘ جو اُس کا خالق نہیں ہے‘ بلکہ صرف اُس کے دانے پانی کا انتظام کرتا ہے‘ اور دوسری طرف یہ باشعور‘ صاحب ِعقل و دانش اشرف المخلوقات انسان ہے جو اپنے خالق اور مالک کا شکر ادا نہیں کرتا۔
آیت ۷{وَاِنَّہٗ عَلٰی ذٰلِکَ لَشَہِیْدٌ(۷)} ’’اور وہ خود اس پر گواہ ہے۔‘‘
وہ اپنے اس طرزِعمل سے خوب واقف ہے۔ جیسا کہ سورۃ القیامہ میں فرمایا گیا:{بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِہٖ بَصِیْرَۃٌ(۱۴)} کہ انسان اپنے خیالات‘ جذبات اور کردار کے بارے میں خود سب کچھ جانتا ہے۔ چنانچہ انسان خوب جانتا ہے کہ وہ قدم قدم پر اپنے رب کی ناشکری کا مرتکب ہو رہا ہے۔
آیت۸{وَاِنَّہٗ لِحُبِّ الْخَیْرِ لَشَدِیْدٌ(۸)}’’اور وہ مال و دولت کی محبّت میں بہت شدید ہے۔‘‘
مال و دولت کی محبّت میں انسان اکثر اوقات حلال و حرام کی تمیز تک بھلا دیتا ہے ۔ حتیٰ کہ حرام کھاتے ہوئے وہ اپنے نفس ِلوامہ (بحوالہ سورۃ القیامہ ‘آیت ۲) اور ضمیر کی ملامت کی بھی پروا نہیں کرتا۔
آیت۹{اَفَلَا یَعْلَمُ اِذَا بُعْثِرَ مَا فِی الْقُبُوْرِ(۹)} ’’تو کیا وہ اُس وقت کو نہیں جانتا جب نکال لیا جائے گا وہ سب کچھ جو قبروں میں ہے۔‘‘
آیت۱۰{وَحُصِّلَ مَا فِی الصُّدُوْرِ(۱۰)}’’اور ظاہر کر دیا جائے گا جو کچھ سینوں میں ہے۔‘‘
آیت۱ ۱{اِنَّ رَبَّہُمْ بِہِمْ یَوْمَئِذٍ لَّخَبِیْرٌ(۱۱)}’’یقیناً ان کا رب اس دن ان سے پوری طرح باخبر ہوگا۔‘‘
اللہ تعالیٰ کو ان کے تمام اعمال و افعال کا علم ہے اور اس دن وہ ان سے ایک ایک چیز کا حساب لے لے گا ۔ اَللّٰھُمَّ حَاسِبْنَا حِسَابًا یَّسِیْرًا ۔ آمین! انذارِ آخرت کے مضمون کی حامل ان سورتوں میں سے ہر سورت کی تلاوت کے بعد یہ دعا ضرور کرنی چاہیے کہ اے اللہ !تُو ہم سے آسان حساب لینا اور اپنی خصوصی رحمت سے ہمارے گناہوں کو معاف کر دینا۔
سُوْرَۃُ الْقَارِعَۃِ
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْقَارِعَۃُ (۱۱) مَا الْقَارِعَۃُ (۲) وَمَا اَدْرٰىکَ مَا الْقَارِعَۃُ (۳) یَوْمَ یَکُوْنُ النَّاسُ کَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوْثِ (۴) وَتَکُوْنُ الْجِبَالُ کَالْعِھْنِ الْمَنْفُوْشِ (۵) فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہٗ (۶) فَھُوَ فِیْ عِیْشَۃٍ رَّاضِیَۃٍ (۷) وَاَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہٗ (۸) فَاُمُّہٗ ھَاوِیَۃٌ (۹) وَمَآ اَدْرٰىکَ مَاھِیَہْ (۱۰) نَارٌ حَامِیَۃٌ (۱۱)
آیت ۱{اَلْقَارِعَۃُ(۱)} ’’وہ کھٹکھٹانے والی ۔‘‘
آیت۲{مَا الْقَارِعَۃُ(۲)}’’کیا ہے وہ کھٹکھٹانے والی !‘‘
قَرَعَ یَقْرَعُ قَرْعًا کے معنی ٰایک چیز کو کسی دوسری چیز پر زور سے دے مارنے کے ہیں۔ جیسے دروازے کو زور زور سے کھٹکھٹانا۔ اس لغوی معنی کی مناسبت سے قَارِعَۃ کا لفظ ہولناک حادثے اورعظیم مصیبت کے لیے بولا جاتا ہے۔ چنانچہ جب کوئی قوم کسی حادثہ فاجعہ یا عظیم آفت کا شکار ہو تو عرب کہتے ہیں: قَرَعَتْھُمُ الْقَارِعَۃُ کہ ان کو ایک بڑی آفت نے پیٹ ڈالا ---- وہ قیامت جب آئے گی تو پوری کائنات کو کھٹکھٹاڈالے گی اور دنیا کی ہر چیز کو تہ و بالا کر دے گی۔ تمام اجرامِ فلکی آپس میں ٹکرائیں گے جس سے خوفناک دھماکے ہوں گے ا ور دل دہلادینے والی آوازیں پیدا ہوںگی۔
آیت ۳{وَمَآ اَدْرٰىکَ مَا الْقَارِعَۃُ(۳)} ’’اور تم کیا سمجھے کہ کیا ہے وہ کھٹکھٹانے والی!‘‘
آیت۴{یَوْمَ یَکُوْنُ النَّاسُ کَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوْثِ(۴)}’’جس دن لوگ بکھرے ہوئے پتنگوں کی مانند ہوں گے۔‘‘
آیت ۵{وَتَـکُوْنُ الْجِبَالُ کَالْعِہْنِ الْمَنْفُوْشِ(۵)}’’اور پہاڑ دُھنی ہوئی اون کی مانند ہو جائیں گے۔‘‘
العِھْن : رنگ دار اُون کو کہتے ہیں اور مَنْفُوْش کے معنی ہیں دُھنی ہوئی۔ یعنی پہاڑ اپنی جگہ پر قائم نہیں رہیں گے بلکہ ریزہ ریزہ ہو کر رنگ دار اون کی طرح ہوا میں اُڑ رہے ہوں گے۔
آیت۶{فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہٗ(۶)}’’تو جن لوگوں کے (نیکیوں کے) پلڑے بھاری ہوں گے۔‘‘
یہاں یہ نکتہ خصوصی طور پر لائق ِتوجّہ ہے کہ ان آیات میں ایک ہی قسم کے وزن یا میزان کے ایک ہی پلڑے کا ذکر آیا ہے۔اس بارے میں عام رائے یہ ہے کہ ’’مَوَازین‘‘ سے مراد یہاں نیکیوں کا وزن ہے۔ یعنی حساب کے وقت ہر شخص کی نیکیوں کا وزن کر کے دیکھا جائے گا کہ یہ وزن ’’مطلوبہ معیار‘‘ کے مطابق ہے یا نہیں۔ اور یہ ’’مطلوبہ معیار‘‘ بھی ہرشخص کا الگ الگ اس کے ’’شاکلہ‘‘ کے مطابق ہو گا۔ظاہر ہے ہر شخص کی استطاعت (پیدائشی صلاحیتوں اور ماحول کے منفی و مثبت اثرات کے مطابق) دوسرے شخص کی استطاعت سے مختلف ہو گی اور ہر شخص اپنی استطاعت کی حد تک ہی اللہ تعالیٰ کے ہاں مکلّف ہو گا : {لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَاط} (البقرۃ:۲۸۶) ’’اللہ تعالیٰ نہیں ذمہ دار ٹھہرائے گا کسی جان کو مگر اُس کی وسعت کے مطابق‘‘۔ چنانچہ ہر شخص کے شاکلہ یعنی اس کے جینز(genes)کی طرف سے اسے حاصل ہونے والی صلاحیتوں اور ماحول کے اثرات کو مدّ ِنظر رکھتے ہوئے اس کے لیے نیکیوں کے وزن کا ایک خاص معیار مقرر کیا جائے گا۔ اگر تو اس کی نیکیوں کے وزن (مَوَازِیْنُـہٗ)کو اس معیار کے مطابق پایا گیا تو اسے کامیابی کا پروانہ مل جائے گا۔
آیت ۷{فَہُوَ فِیْ عِیْشَۃٍ رَّاضِیَۃٍ (۷)} ’’تو وہ ہو گا عیش وعشرت کی زندگی میں۔‘‘
آیت۸{وَاَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہٗ(۸)}’’اور جس (کی نیکیوں) کے پلڑے ہلکے ہوئے۔‘‘
آیت۹{فَاُمُّہٗ ہَاوِیَۃٌ(۹)} ’’تو اُس کا ٹھکانہ ایک گہراگڑھاہوگا۔‘‘
’’ھَاوِیَۃ‘‘ (گہرا گڑھا) جہنّم کا نام ہے۔ اس کو’’ہاویہ‘‘ اس لیے کہا جاتا ہے کہ جہنمی اس کی گہرائی میں گرے گا۔ اور اس کو اُمّ (ماں) سے اس لیے تعبیر کیا گیاکہ جس طرح انسان کے لیے ماں جائے پناہ ہوتی ہے اسی طرح اہل ِجہنّم کا ٹھکانہ جہنّم ہوگا۔
آیت۱۰{وَمَآ اَدْرٰىکَ مَاہِیَہْ(۱۰)}’’اور تم کیا جانتے ہو کہ وہ کیا ہے؟‘‘
آیت۱ ۱{ نَارٌ حَامِیَۃٌ(۱۱)} ’’آگ ہے دہکتی ہوئی!‘‘
اَللّٰھُمَّ اَجِرْنَا مِنَ النَّارِ یَا مُجِیْرُ یَامُجِیْرُ یَا مُجِیْرُ!!
سُوْرَۃُ التَّکاثُرِ
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْھٰىکُمُ التَّکَاثُرُ (۱) حَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ (۲) کَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ (۳) ثُمَّ کَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ (۴) کَلَّا لَوْ تَعْلَمُوْنَ عِلْمَ الْیَقِیْنِ (۵) لَتَرَوُنَّ الْجَحِیْمَ (۶) ثُمَّ لَتَرَوُنَّھَا عَیْنَ الْیَقِیْنِ(۷) ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ (۸)
آیت ۱{اَلْہٰىکُمُ التَّکَاثُرُ(۱)} ’’تمہیں غافل کیے رکھا ہے بہتات کی طلب نے!‘‘
التَّکَاثُر کے معنی مال جمع کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے بھی ہیں اور مال و دولت کی کثرت پر فخر کرنے کے بھی------دولت انسان کے پاس چاہے جتنی بھی ہو اس کی طبیعت اس سے بھرتی نہیں اور وہ بدستور مزید حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگا رہتا ہے۔
آیت ۲{حَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ(۲)}’’یہاں تک کہ تم قبروںکوپہنچ جاتے ہو۔‘‘
یعنی انسان اپنی ساری عمر اسی تگ و دو میں کھپا دیتا ہے اور مرتے دم تک یہ فکر اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ انسان کی حرص و ہوس کے پیمانے کو صرف قبر کی مٹّی ہی بھر سکتی ہے۔(۱)
۱۔ حضرات عبداللہ بن عباس‘ ابوموسیٰ الاشعری اور انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے (الفاظ کی معمولی کمی بیشی کے ساتھ) مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
((لَـوْ کَانَ لِابْنِ آدَمَ وَادِیَانِ مِنْ مَالٍ لَابْتَغٰی وَادِیًا ثَالِثًا ‘ وَلَا یَمْلَأُ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ اِلَّا التُّرَابُ))(صحیح البخاری‘ ح:۶۴۳۶‘ صحیح مسلم‘ح:۱۰۵۰ و ۱۰۴۸)
’’اگر آدم کے بیٹے کے پاس مال سے بھری دو وادیاں ہوں تو وہ لازماً تیسری وادی کی خواہش کرے گا‘ اور ابن آدم کے پیٹ کو سوائے مٹّی کے اور کوئی چیز نہیں بھر سکتی۔‘‘ (حاشیہ از مرتّب)
سورۃ الحدید کی آیت ۲۰ میں انسانی زندگی کے جن مراحل کا ذکر ہوا ہے ان میں آخری مرحلہ تکاثر فی الاموال والاولاد کا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آخری عمر میں انسان کی یہ حرص مزید بڑھ جاتی ہے۔
آیت ۳{کَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ(۳)} ’’کوئی بات نہیں! بہت جلد تمہیں معلوم ہو جائے گا۔‘‘
آیت ۴{ثُمَّ کَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ(۴)}’’پھر کوئی بات نہیں !بہت جلد تمہیں معلوم ہوجائے گا۔‘‘
اپنے اسلوب کے اعتبار سے یہ آیات سورۃ النبا کی ان آیات سے مشابہ ہیں: {کَلَّا سَیَعْلَمُوْنَ(۴) ثُمَّ کَلَّا سَیَعْلَمُوْنَ(۵)}۔یعنی ابھی تم لوگ ’’تَـکَاثُر‘‘ کے نشے میں مست ہونے کی وجہ سے موت کا تصوّر بھی ذہن میں لانے کے لیے تیار نہیں ہو ‘مگر وہ وقت دُور نہیں جب موت خود آ کر تم سے ملاقات کرے گی : {قُلْ اِنَّ الْمَوْتَ الَّذِیْ تَفِرُّوْنَ مِنْہُ فَاِنَّــہٗ مُلٰقِیْکُمْ ثُمَّ تُرَدُّوْنَ اِلٰی عٰلِمِ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ فَیُنَــبِّئُـکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(۸)} (الجمعۃ)’’(اے نبیﷺ!) آپ کہہ دیجیے کہ وہ موت جس سے تم بھاگتے ہو وہ تم سے ملاقات کر کے رہے گی‘ پھر تمہیں لوٹا دیا جائے گا اُس ہستی کی طرف جو غیب اور ظاہر سب کا جاننے والا ہے‘پھر وہ تمہیں جتلا دے گا جو کچھ تم کرتے رہے تھے‘‘۔بہرحال جونہی تمہاری آنکھیں بند ہوں گی‘ وہ تمام حقائق تم پر روشن ہو جائیں گے جن سے تم اس وقت نظریںچرانے کی کوشش کررہے ہو۔
آیت ۵{کَلَّا لَوْ تَعْلَمُوْنَ عِلْمَ الْیَقِیْنِ(۵)}’’کوئی بات نہیں! کاش کہ تم علم ِیقین کے ساتھ جان جاتے!‘‘
یعنی موت یا قیامت کا علم دراصل یقینی علم ہے‘ کاش کہ تمہیں اس کا شعور ہوتا۔ حکماء کے ہاں ہمیں یقین کے تین درجوں کا ذکر ملتا ہے: علم الیقین‘ عین الیقین اور حق الیقین۔ علم الیقین وہ یقین ہے جو انسان کو علم‘ معلومات یا استدلال کی بنیاد پر حاصل ہو۔ مثلاً آپ نے دور سے دھواں اٹھتا دیکھا تو آپ نے کہا کہ وہاں آگ لگی ہوئی ہے ‘حالانکہ آگ آپ نے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھی۔ پھر جب آپ نے وہاں جا کر خود اپنی آنکھوں سے آگ کو دیکھ لیا تو آپ کو عین الیقین حاصل ہو گیا۔ لیکن حق الیقین کا درجہ اس سے بھی آگے ہے ۔ یقین کا یہ درجہ باقاعدہ تجربے سے حاصل ہوتا ہے‘اس لیے کہ آنکھ سے دیکھنے میں بھی دھوکے کا امکان ہے۔ ضروری نہیں کہ کوئی چیز جیسی نظر آ رہی ہے حقیقت میں بھی ویسی ہو۔ جیسے آج کل بعض الیکٹرک ہیٹرز میں انگارے دہکتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں‘ لیکن جب آپ غور سے دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ تو محض دکھاوے کا منظر ہے اور حرارت کا اصل منبع کہیں اور ہے۔ چنانچہ آگ کے بارے میں آپ کو ’’علم الیقین‘‘ تو محض دھواں دیکھنے سے ہی حاصل ہو گیا۔ پھر جب آپ نے آگ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تو آپ کا یقین ’’عین الیقین‘‘ میں بدل گیا۔ اس کے بعد جب آپ نے آگ کو چھو کر یا اس کے قریب ہو کر اس کی حرارت کو عملی طور پر محسوس کیا تو آگ کی موجودگی کے بارے میں آپ کا یقین’’ حق الیقین‘‘ کے درجے میں آگیا۔
آیت ۶ {لَـتَرَوُنَّ الْجَحِیْمَ(۶)}’’تم جہنّم کو دیکھ کر رہو گے۔‘‘
آیت ۷{ثُمَّ لَـتَرَوُنَّـہَا عَیْنَ الْیَقِیْنِ(۷)} ’’پھر تم اس کو عین الیقین کے ساتھ دیکھو گے۔‘‘
آیت۸{ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ(۸)}’’پھر اُس دن تم سے ضرور پوچھا جائے گا نعمتوں کے بارے میں۔‘‘
اُس دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ایک ایک نعمت کے بارے میں تم سے جواب طلبی ہو گی کہ دنیا میں تم نے اُس کی کون کون سی نعمتوں سے استفادہ کیا اور ان کے حقوق کہاں تک ادا کیے۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024