تنظیم اسلامی کے سولہویں سالانہ اجتماع (۱۹۹۱ء) کا اختتامی اجلاسرفقائے تنظیم کے لیے
امیرتنظیم کا الوداعی تحفہڈاکٹر اسرار احمدؒخطبۂ مسنونہ کے بعد تلاوتِ آیات:
اعوذ باللّٰہ من الشَّیطٰن الرَّجیم ۔ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
{وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ لَا نُکَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَآز اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِج ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ(۴۲) وَنَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِہِمْ مِّنْ غِلٍّ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہِمُ الْاَنْہٰرُج وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ ھَدٰىنَا لِھٰذَاقف وَمَا کُنَّا لِنَھْتَدِیَ لَـوْ لَآ اَنْ ھَدٰىنَا اللہُ ج لَقَدْ جَآئَ تْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ ط وَنُوْدُوْٓا اَنْ تِلْکُمُ الْجَنَّۃُ اُوْرِثْتُمُوْہَا بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(۴۳)} (الاعراف)
’’اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے ---- ہم کسی جان کو ذمہ دار نہیں ٹھہرائیں گے مگر اُس کی وسعت کے مطابق ---- وہی ہوں گے جنّت والے ‘اس میں رہیں گے ہمیشہ ہمیش۔ اور ہم نکال دیں گے جو کچھ ان کے سینوں میں ہو گا (ایک دوسرے کی طرف سے ) کوئی میل اور اُن (کے بالا خانوں) کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ اور وہ کہیںگے: کل شکر اور کل تعریف اُس اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں یہاں تک پہنچادیا‘ اور ہم یہاں تک نہیں پہنچ سکتے تھے اگر اللہ ہی نے ہمیں نہ پہنچا دیا ہوتا۔ یقیناً ہمارے ربّ کے رسول حق کے ساتھ آئے تھے۔اور (تب )انہیں پکارا جائے گاکہ یہ ہے وہ جنّت جس کے تم وارث بنا دیے گئے ہو اپنے اعمال کی وجہ سے۔‘‘
اجتماع کے اختتام پر میں آپ حضرات کو سورۃ الاعراف کی اِن دو آیات کا خصوصی تحفہ پیش کر رہا ہوں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص رہنمائی ہے کہ اُس نے مجھے اس موقع پر ان دو آیات کا انتخاب سجھا دیا جو مَیں سمجھا ہوں کہ اِس وقت ہمارے لیے بہت مناسب ِ حال ہیں۔
اِن دونوں آیات میں یہ اسلوب ملے گا کہ آیت کے اصل مضمون کے درمیان میں ایک ضمنی بات بیان کی گئی ہے۔ چنانچہ پہلی آیت میں Principal Clauseتو یہ ہوگی:
{وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ....... اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِج ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ(۴۲)}
’’اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے ....... وہ جنّت والے ہیں۔ اس میں وہ ہمیشہ رہنے والے ہوں گے!‘‘
جبکہ {لَا نُکَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَآ } کی حیثیت ایک جملہ ٔ معترضہ یا ضمنی بات کی ہے‘ جو اپنی جگہ انتہائی اہم ہے۔
قرآن مجید کے متعدد مقامات کی طرح یہاں بھی ’’اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا‘‘ کےساتھ ’’وَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ‘‘ کا ذکر موجود ہے۔ توجہ طلب بات یہ ہے کہ یہاں ’’اعمالِ صالحہ‘‘ سے مراد کیا ہے! ہمارے ذہنوں میں عمل ِ صالح کا کچھ اور نقشہ جم گیا ہے۔ اس آیت پر غور کرتے ہوئے سوچیے کہ اِس کے نزول کے وقت ’’عَمِلُواالصّٰلِحٰتِ‘‘ کا مطلب کیا تھا۔ سورۃ الاعراف مکی ہے اور اس کے نزول کے وقت تک شریعت کے تفصیلی احکام ابھی نازل ہی نہیں ہوئے تھے۔ نہ شراب حرام تھی‘ نہ سُود حرام تھا۔ اگر اس کا زمانۂ نزول ۱۱ نبوی سے قبل کا ہے تو اُس وقت تک ابھی نماز بھی فرض نہیں تھی اور روزے کا تو وجود ہی نہیں تھا۔ تو ایسے میں عمل ِ صالح سے کیا مراد تھی؟ اُس وقت اہل ِایمان کے لیے عمل ِ صالح کا مفہوم دین کی دعوت و اشاعت‘ اس پر استقامت اختیار کرنا اور رات کو قرآن کے ساتھ جاگنا تھا۔ اس کے علاوہ بنیادی انسانی اخلاقیات مثلاً سچ بولنا‘ ایفائے عہد‘ پاسِ امانت‘ غریبوں کے ساتھ شفقت و محبت کا برتائو اور بھوکوں کو کھانا کھلانا وغیرہ اعمالِ صالحہ کے دائرے میں شامل تھے۔ ان بنیادی انسانی اخلاقیات کو تو اُس معاشرے میں پہلے ہی سے نیکی کے کام سمجھا جاتا تھا‘ لیکن ایمان لانے والوں کو ان کے ساتھ جو اصل کام کرنا پڑتا تھا اس کے تین نمایاں پہلو حسب ذیل ہیں:
(۱) صبر و استقامت ‘یعنی اپنے دعوائے ایمان پر اس طرح مضبوطی سے جم جانا اور ڈٹ جانا کہ شدید ترین تکالیف ‘ بدترین تشدد اورpersecutionسے بھی پائوں متزلزل نہ ہو سکیں۔
(۲) جس دین ِ حق کو خود قبول کیا ہے اس کی طرف دوسروں کو دعوت۔
(۳) اپنی روحانی قوت میں اضافے کے لیے راتوں کو کھڑے ہو کر {وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا(۴) }(المزّمل) کے حکم پر عمل پیرا ہونا۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس مقام پر ’’عمل ِ صالح‘‘ کا یہ مفہوم معین کرتے ہوئے مَیں احکامِ شریعت پر عمل کی نفی نہیں کر رہا۔ اب واقعۃً ہماری تربیت کا سب سے بڑا ذریعہ شریعت پر عمل کرنا ہے‘ لیکن اِس وقت میں آپ کو اس آیۂ مبارکہ کا پس منظر سمجھا رہا ہوں تاکہ ہمارے سامنے نسبت و تناسب واضح ہو جائے۔
اب ہم اس آیت کے درمیان میں آنے والی ’’ضمنی بات‘‘ پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ میں یہ بارہا بیان کر چکا ہوں کہ قرآن حکیم میں اہم ترین حکیمانہ باتیں ضمنی طور پر آئی ہیں۔ یہاں فرمایا گیا:
{ لَا نُکَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَآ} (الاعراف)
’’ہم کسی جان کو ذمہ دار نہیں ٹھہرائیں گے‘ مگر اُس کی وسعت کے مطابق!‘‘
یعنی عمل ِ صالح کے ضمن میں یہ خوش خبری حاصل کر لو کہ ہم کسی کو اُس کی استطاعت اور استعداد سے بڑھ کر ذمہ دارنہیں ٹھہرائیں گے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے یہاں اس بات کی ضمانت دی ہے کہ ہر شخص سے اُس کی اپنی مقدرت‘ وسعت اور استعداد کے مطابق ہی حساب ہو گا۔ البتہ اس میں یہ خطرہ موجود ہے کہ ہم اپنی وسعت کا صحیح اندازہ نہ کر پائیں اور یہ سمجھ بیٹھیں کہ ہم میں دین کا کام کرنے کی صلاحیت و استعداد ہی موجود نہیں ہے‘ جبکہ دنیا کے لیے ہم خوب بھاگ دوڑ اور محنت و کوشش کر رہے ہوں۔ یہ طرزِ عمل سراسر خود فریبی پر مبنی ہے۔
اگلی آیت میں فرمایا:
{وَنَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِہِمْ مِّنْ غِلٍّ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہِمُ الْاَنْہٰرُج } (الاعراف)
’’اور کھینچ نکالیں گے ہم ان کے دلوں میں سے جو کچھ بھی(باہمی) کدورت ہوگی‘ ان کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔‘‘
معلوم ہوا کہ دلوں میں رنجش اور کدورت کا پیدا ہو جانا ایک بالکل طبعی اور فطری امر ہے۔ چنانچہ ایک وقت میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے مابین بھی یہ معاملہ اتنا شدید ہوا کہ باہم قتال کی نوبت آگئی۔ البتہ جنّت میں داخلے سے پہلے اللہ تعالیٰ اہل ِ ایمان کے دلوں کو ہر قسم کی باہمی کدورت سے پاک فرما دیں گے۔ یہی مضمون سورۃ الحجر میں ان الفاظ میں آیا ہے: {وَنَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِہِمْ مِّنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰی سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیْنَ(۴۷)} جس کے بارے میں حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایاکہ’’مجھے امید ہے کہ میں‘ عثمان‘ طلحہ اور زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہم ان ہی لوگوں میں سے ہوں گے۔‘‘جب ہم جنّت میں داخل ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں موجود باہمی غِل کو نکال دے گا۔
رفقائے تنظیم کے مابین بھی غِل کا پیدا ہو جانا کوئی غیر طبعی اور غیر فطری بات نہیں ہے‘البتہ یہ بات بہت ضروری ہے کہ کسی قسم کی کدورت اور خلش کو برقرار نہ رہنے دیا جائے۔ ہر رفیق ِ تنظیم کو شعوری طور پر اس کا مراقبہ کرتے رہنا چاہیے۔ سالانہ اجتماع کے اس موقع پر خاص طور سے ہمیں اپنے دلوں کو صاف کر کے جانا چاہیے۔ یہاں تمام رفقاء تین چار روز تک ایک ساتھ رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اس دوران زبان یا عمل سے آپس میں کوئی اونچ نیچ‘ کمی بیشی یا زیادتی ہو گئی ہو۔ چنانچہ خاص طور پر ان چار دنوں میں کوئی غِل اگر کسی درجے میں پیدا ہو گیا ہو تو ہم سب کو اسے شعوری طور پر صاف کر کے یہاں سے رخصت ہونا چاہیے۔
آیت کا اگلا ٹکڑا ملاحظہ کیجیے:
{وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ ھَدٰىنَا لِھٰذَاقف وَمَا کُنَّا لِنَھْتَدِیَ لَـوْ لَآ اَنْ ھَدٰىنَا اللہُ ج }
’’اور وہ کہیں گے : کُل شکر اُس اللہ کا ہے جس نے ہمیں اس کی ہدایت بخشی‘ اور ہم (از خود) ہدایت پانے والے نہ ہوتے اگر اللہ نے ہمیں ہدایت نہ بخشی ہوتی۔‘‘
اہل ِ جنّت جب جنّت میں داخل ہوں گے تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی حمد وثنا اور اُس کا شکر وسپاس کرتے ہوئے کہیں گے کہ ہمارا یہاں تک پہنچ جانا کوئی ہماری اپنی کوشش و محنت کا نتیجہ نہیں ہے‘ بلکہ درحقیقت ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہاں پہنچایا ہے۔ اُسی نے راہِ حق کی طرف ہماری رہنمائی فرمائی‘ اُسی نے ہمیں اُس راہِ ہدایت پر گامزن رکھا اور اُسی نے گویا انگلی پکڑ کر ہمیں اِس مقام تک پہنچا دیا۔ ہمارے اپنے اعمال تو ایسے نہ تھے جن کی بدولت ہم جنّت کے مستحق بن سکتے۔
یہ قول اصلاً تو اُس مرحلے سے متعلق ہے جب اہل ِ جنّت جنّت میں داخل ہوں گے‘ لیکن یہ اس دنیا میں بھی قدم قدم پر ہمارے پیش نظر رہنا چاہیے۔ چنانچہ جب بھی کوئی خیر میسر آئے‘ کوئی علمی نکتہ ہاتھ لگے‘ بھلائی کے لیے کسی درجے میں بھی شرحِ صدر نصیب ہو‘ الغرض قولاً‘ عملاً یا علما ً نیکی و بھلائی کی کوئی بھی توفیق ملے توہمیشہ زبان پر یہ کلمات آجانے چاہئیں: {الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ ھَدٰىنَا لِھٰذَاقف وَمَا کُنَّا لِنَھْتَدِیَ لَـوْ لَآ اَنْ ھَدٰىنَا اللہُ ج} کہ یہ علم ہماری دسترس میں کہاں تھا‘ اس معرفت اور حکمت تک رسائی ہم کہاں حاصل کر سکتے تھے‘ یہ نیکی وبھلائی اور یہ ایثار و قربانی ہم سے کہاں بن آسکتی تھی! یہ تو سراسر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور اُس کی عطا اور دین ہے۔
اسی حوالے سے مجھے اپنے اسلامی جمعیت طلبہ کے دور کا ایک واقعہ یاد آیا ہے۔ جمعیت کے ۱۹۵۱ء یا۱۹۵۲ء کے سالانہ اجتماع کے موقع پر خرم جاہ مراد صاحب نے (جو اب جماعت اسلامی کے نائب امیر ہیں اور جن سے میرا عزیز داری کا تعلق بھی ہے) اپنی آٹو گراف بُک میرے سامنے کر دی۔ میں اگرچہ ان چیزوں کا عادی نہیں تھا‘ لیکن اُس وقت میں نے اُن کی آٹو گراف بک میں جو الفاظ لکھے تھے وہ خود میرے اپنے دل پر اُسی وقت نقش ہو گئے تھے۔ وہ الفاظ یہ تھے:
’’کبھی کبھی میرا دل ایسے لوگوں کے تصوّر سے کانپ اٹھتا ہے جو کبھی تحریک اسلامی کی اوّلین صفوں میں تھے اور آج اسی نسبت سے اس سے دور جا چکے ہیں۔ میں خود{الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ ھَدٰىنَا لِھٰذَاقف وَمَا کُنَّا لِنَھْتَدِیَ لَـوْ لَآ اَنْ ھَدٰىنَا اللہُ ج } کے بعد اب{رَبَّـنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ہَدَیْتَنَا وَہَبْ لَـنَا مِنْ لَّـدُنْکَ رَحْمَۃًج اِنَّکَ اَنْتَ الْوَہَّابُ(۸)} کا سہارا لیاکرتا ہوں اور اسی کا مشورہ میں اپنے عزیز ترین دوستوں کو دیتا ہوں۔‘‘
مَیں چاہتا ہوں کہ یہی الفاظ آپ بھی اپنے دل پر نقش کر کے اٹھیں۔ آپ کو تنظیم میں آنے کی جو توفیق ملی‘ ایک جذبہ پیدا ہوا‘ ایک فکر ذہن کے سامنے آیا‘ جس پر دل نے گواہی دی‘ اور آپ اس قافلۂ تنظیم میں شامل ہو گئے‘ اس کے بعد آپ کے قدم کچھ آگے بڑھے‘ اس سب پر اللہ کا شکر ادا کیجیے اور ڈرئیے اس سے کہ مبادا معنوی ارتداد یا پسپائی کی کوئی صورت پیدا ہو جائے۔ تاہم خلوصِ نیت کے ساتھ اختلاف کا پیدا ہونا اور علیحدگی تک کی نوبت آ جانا بالکل دوسری بات ہے۔ اسے پسپائی سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ یہ بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ جو شخص خلوص و اخلاص کے ساتھ اختلاف کی وجہ سے کسی جماعت سے علیحدہ ہوتا ہے وہ وہاں سے جا کر اُس وقت تک بے چین و بے قرار رہتا ہے جب تک وہ کسی دوسرے متحرک قافلے میں شریک نہیں ہو جاتا یا از خود کوئی قافلہ تشکیل نہیں دے لیتا۔ اس کے برعکس اگر وہ معاشرے میں گم ہو کر رہ جائے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ کمی کہیں خود اسی میں تھی‘ ورنہ وہ دین کی اس جدّوجُہد سے دست کش نہ ہوتا‘ اور اس راہ میں اور کچھ نہ کر سکتا تو ع ’’بازی اگرچہ پا نہ سکا‘ سر تو دے سکا‘‘ کے مصداق اپنا سر توپٹخ سکتا تھا۔ مجھے غالب کے اِس خیال سے ہر گز اتفاق نہیں ہے جو اُس نے اپنے اس شعر میں پیش کیا ہے کہ ؎
وفا کیسی‘ کہاں کا عشق‘ جب سر پھوڑنا ٹھہرا
تو پھر اے سنگدل تیرا ہی سنگ آستاں کیوں ہو؟میرا نظریہ اس کے برعکس ہے۔ میں کہتا ہوں کہ جب سر ہی پھوڑنا ہے تو پھر کہیں اور جا کر کیوں پھوڑیں؟اسی ’’سنگ ِآستاں‘‘ پر ہی کیوں نہ پھوڑیں؟ زندگی میں ہر کسی کو سر ہی تو پھوڑنا ہوتا ہے۔ اگر کسی کاروبار‘ ملازمت یا کسی اور دھندے میں سر پھوڑنا ہے تو کیوں نہ دین کے لیے سر پھوڑا جائے! کاروبار اور تجارت میں کتنے لوگ کامیاب ہوتے ہیں؟ سرتوڑ محنت اور کوشش تو سبھی کرتے ہیں‘ لیکن ان میں کوئی ایک ہی کروڑ پتی بنتا ہے‘ جبکہ کتنے ہی لوگ تجارت میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ آپ بھی دین کی جدّوجُہد میں اگر بظاہرناکام ہو جائیں اور آپ کی جُہد وکوشش کا کوئی نتیجہ نکلتا نظر نہ آئے تو کوئی پروا نہیں۔ لوگ دنیا کی خاطر سر پھوڑتے ہیں‘ آپ دین کی خاطر پھوڑیں۔ اس راہ کو چھوڑ کر اور کہاں جانا ہے!
بہرحال اس جدّوجُہد میں ایک تو یہ احساس مدّ ِنظر رہنا ضروری ہے کہ اللہ ہی نے ہمیں اس کی توفیق دی‘ ہم اس قابل نہ تھے۔ اُس نے غیب سے ہمارے لیے اسباب فراہم کر دیے اور راہِ حق کی طرف ہماری رہنمائی فرما دی۔ دوسرے یہ کہ اب ہمارا تکیہ اور سہارا اپنی صلاحیت‘ لیاقت‘ استقامت اور بہادری پر نہ ہو‘ بلکہ اس راہ پر مستقیم رہنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی جائے: {رَبَّـنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ہَدَیْتَنَا وَہَبْ لَـنَا مِنْ لَّـدُنْکَ رَحْمَۃًج اِنَّکَ اَنْتَ الْوَہَّابُ(۸)}(آل عمران) یعنی اے پروردگار! جب تو نے ہی ہمیں ہدایت عطا کی ہے تو اس کے بعد اب ہمارے دلوں کو کج نہ کر دیجیو اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا کیجیو۔ بے شک تو بڑا عطا فرمانے والا ہے! رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تمام انسانوں کے دل رحمٰن کی دو انگلیوں کے مابین ہیں۔ چنانچہ ہمیں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہنا چاہیے: ’’یَا مُثَبِّتَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ عَلٰی قُلُوْبِنَا عَلٰی دِیْنِکَ، یَا مُصَرِّفَ الْقُلُوْبِ صَرِّفْ قُلُوْبَنَا اِلٰی طَاعَتِکَ‘‘۔
زیر نظر آیت کا اگلا ٹکڑا پیش کر رہا ہوں:
{لَقَدْ جَآئَ تْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ ط }
’’یقیناً ہمارے رب کے رسول حق لے کر ہی آئے تھے۔‘‘
کاش کہ ہم میں سے ہر ایک کا دل اس پر صد فیصد یقین کے ساتھ گواہی دے سکے کہ ہاں محمد ﷺ حق ہیں! اور قرآن حق ہے! آنحضور ﷺ کی تہجد کی دعائوں میں سے یہ دعا میں آپ کو کئی مرتبہ سنا چکا ہوں کہ آپؐ کہا کرتے تھے: ((اَنْتَ الْحَقُّ، وَوَعْدُکَ الْحَقُّ، وَقَوْلُکَ حَقٌّ، وَلِقَائُکَ حَقٌّ، وَالْجَنَّۃُ حَقٌّ، وَالنَّارُ حَقٌّ، وَالسَّاعَۃُ حَقٌّ، وَمُحَمَّدٌ حَقٌّ، وَالْقُرْآنُ حَقٌّ)) اگر دل یہ گواہی دے رہا ہے تو کیا کہنے! ایسا دل مبارک باد اور تہنیت کے لائق ہے!
اہلِ جنّت کو اب اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے جو جواب ملے گا وہ آیت کے آخری ٹکڑے میں بیان کر دیا گیا ہے:
{ وَنُوْدُوْٓا اَنْ تِلْکُمُ الْجَنَّۃُ اُوْرِثْتُمُوْہَا بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(۴۳)}
’’اور وہ ندا دیے جائیں گے کہ یہ ہے وہ جنّت جس کے تم وارث بنائے گئے ہو اُن اعمال کی بدولت جو تم(دنیا میں) کرتے تھے۔‘‘
یہ جواب اللہ تعالیٰ کی شانِ شکوری کا مظہر ہے کہ جنّت کو اہلِ جنّت کے اعمال کا نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے۔ اگرچہ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم اپنے عمل کو حقیر سمجھیں اور راہِ حق میں جو کچھ بھی جُہد وکوشش ہم سے بن آئے اسے اللہ تعالیٰ ہی کا فضل وکرم اور اس کی توفیق و تیسیر قرار دیں‘تاہم اللہ تعالیٰ کی قدردانی اور قدر افزائی کا مظہر ہے کہ وہ اپنے بندے کے اعمال کا حوالہ ہی دے گا کہ محنت اور جدّوجُہد تم نے کی تھی‘ میرے راستے میں ایثار و قربانی تم نے کی تھی‘ ہماری توفیق و تیسیر ضرور تمہارے شامل حال رہی اور ہم نے تمہاری کوتاہیوں کی تلافی بھی کی‘ لیکن تمہیں جس انعام و اکرام سے نوازا جا رہا ہے یہ تمہارے اپنے اعمال ہی کا نتیجہ ہے۔
دعا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان لوگوں میں سے بنائے جن کا ذکر ان آیات میں کیا گیا ہے۔ آمین ! وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن
(میثاق: مارچ ۱۹۹۱ء)
tanzeemdigitallibrary.com © 2024