حزب اللہ کی تشکیل کیسے ہو؟امیر تنظیم اسلامی حافظ عاکف سعیدحفظہ اللہ
کا سالانہ اجتماع۲۰۱۷ء میں اختتامی خطاب
اﷲ تعالیٰ کا صدہزار شکر ہے کہ اُس نے ہمیں اشرف المخلوقات یعنی انسان بنایا‘ اور احسان در احسان یہ کہ مسلمانوں میں پیدا کیا‘ محمد رسول اﷲﷺ کے امتی بننے کا شرف عطا فرمایااور دین کے تقاضوں کا واضح اور جامع شعور عطا فرمایا۔ بانی ٔ محترم رحمہ اللہ جیسے بے لوث اور قرآن میں غوطہ زن دینی رہنما ہمیں عطا فرمائے۔بانی ٔ محترمؒ کے ذریعے دینی ذمہ داریوں اور تقاضوں کا واضح اور جامع تصور ہم پر منکشف اور واضح فرمایا۔بانی ٔ محترمؒ کے ذریعے قرآن حکیم جو کہ حبل اﷲ ہے اور جو اس زمین کے اوپر اور آسمان کے نیچے اﷲ کی سب سے بڑی نعمت ہے‘ اس عظیم نعمت کے ساتھ ایک علمی‘ قلبی اور جذباتی تعلق ہمارے اندر موجزن کر دیا۔بانی ٔ تنظیمؒ کی پکار ’’مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰہ‘‘ کے جواب میں بیعت کی منصوص اور مسنون اساس پر ایک دینی جماعت جس کا قرآنی نام یا عنوان ’’حزب اﷲ‘‘ ہے‘ کا رکن/ حصّہ بننے کی سعادت اور توفیق عطا فرمائی اور اس حزب اﷲ کے ذریعے اﷲ کے دین اور محمدرسول اﷲﷺ کے لائے ہوئے اعلیٰ ترین عادلانہ نظام کے غلبہ و قیام کی جدّوجُہد میں شمولیت کاشرف عطا فرمایا۔
اﷲ ربّ العزت کے ان تمام عظیم احسانات کا اہم ترین تقاضا یہ ہے کہ اپنے ہم اندر حزب اﷲ کے اوصاف پیدا کریں۔اس تناظر میں ’’اَنِ اشْکُرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیْکَ‘‘ کے قرآنی الفاظ کا سہارا لیتے ہوئے عرض کروں گا کہ بلاشبہ سب سے بڑھ کر شکر تو ہمیں ہر صورت اﷲ تعالیٰ ہی کا ادا کرنا ہے اور پھر دینی و فکری حوالے سے جس شخص نے ہمیں قرآن حکیم سے جوڑا اور دینی ذمہ داریوں اور تقاضوں سے آگہی میں ہمارے مربی اور عظیم محسن کا کردار ادا کیا‘ اس کا شکر ادا کرنا یعنی ان کی وفات کے بعد اب ان کے حق میں مسلسل دعائے خیر کو اپنا معمول بنانا ہم سب پر لازم ہے۔ اس لیے کہ میرے لیے تو وہ محض فکری و معنوی ہی نہیں‘ حقیقی والد کا درجہ رکھتے ہیں جبکہ دیگر تمام رفقاء ِ تنظیم کے حوالے سے انہیں فکری و معنوی والد کا مقام حاصل ہے جس سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔
اﷲ تعالیٰ نے ان کی خدمت ِدینی و قرآنی کو اتنی پزیرائی عطا فرمائی ہے کہ آج ان کی وفات کے سات برس بعد بھی ان کی زبان سے قرآن کا پیغام اور دینی افکار کی ترویج و اشاعت بھرپور طور پر جا ری ہے۔ یا یوں کہنا چاہیے کہ آج بھی اﷲ تعالیٰ نے بانی ٔ محترمؒ کی پُرتاثیر اور forceful زبان سے قرآن کے پیغام کو بہت وسیع پیمانے پر پھیلانے کا انتظام کر رکھا ہے‘ جس کی ایک نہایت اہم مثال Peace TV کے ذریعے بانی ٔمحترم ؒ کی زبان سے ’’بیان القرآن‘‘ کی نشر و اشاعت ہے۔بہرکیف آج بھی لاکھوں افراد براہ راست بانی ٔ محترمؒ کی زبان سے قرآن کا پیغام اہتمام سے سنتے ہیں ۔
بلاشبہ وہ ہم سب کے لیے ایک عظیم محسن کا درجہ رکھتے ہیں۔ غلبہ و اقامت ِدین کے عظیم مشن کے ساتھ ان کی کمٹمنٹ مثالی تھی۔ اﷲ تعالیٰ نے انہیں دینی بصیرت اور دینی شعور بھی بے پناہ عطا فرمایا تھااور زبان و بیان کی غیر معمولی صلاحیت سے بھی نوازا تھا۔ تاہم‘ وہ ایک انسان تھے‘ معصوم عن الخطا نہیں تھے۔ بعض خالص علمی نوعیت کے issues میں ان کی کسی رائے سے جزوی یا کلی اختلاف کیا جا سکتا ہے‘ اور اس امر کا واضح الفاظ میں اعلان وہ مختلف مواقع پر فرماتے بھی رہے‘ کہ بعض خالص علمی (academic) ایشوز میں ان کی آراء سے اتفاق کرنا رفقاء ِتنظیم کے لیے ضروری نہیں بلکہ اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ وفات سے چند روز قبل فیصل آباد کے تربیتی اجتماع میں تنظیمی ذمہ داران کی ایک بڑی تعداد کے سامنے انہوں نے برملا اس بات کا اظہار فرما دیا تھا‘ اور تین امور کاوضاحت سے ذکر بھی فرمایا تھا کہ ان میں بانی ٔ تنظیمؒ کی رائے سے اتفاق کرنا ضروری نہیں ہے: (i)مسئلہ وحدت الوجود (ii) مسئلہ ارتقا (iii) ملکی سیاست پر اگرچہ ان کی نگاہ بڑی گہری تھی ‘ تاہم وہ خود فرماتے تھے کہ سیاسی حوالوں سے ان کی آراء سے اتفاق رکھنا لازم نہیں ہے۔ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلَہُ وَارْحَمْہُ و اَدْخِلْہُ فِیْ رَحْمَتِکَ وَ حَاسِبْہُ حِسَابًا یَّسِیْرًا۔
رفقاء ِمحترم! بانی ٔمحترمؒ نے اقامت ِدین کی جدّوجُہد کے حوالے سے ہماری علمی و فکری رہنمائی کے لیے تفصیلی لٹریچر مرتب فرمایا ۔ اس میں ’’عزم تنظیم‘‘‘ ’’فرائض دینی کا جامع تصوّر‘‘ ‘’’اسلامی نظم جماعت میں بیعت کی اہمیت‘‘‘ ’’ تنظیم اسلامی کا تعارف‘‘‘ ’’قرارداد ِتاسیس اور اس کی توضیحات‘‘ اور ’’تنظیم اسلامی کا تاریخی پس منظر‘‘ وغیرہ بہت بنیادی اہمیت کی حامل کتب ہیں۔ تنظیم کے لٹریچر میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا گیا اور بانی ٔ محترم ؒکے خطابات اور تصانیف کی صورت میں نہایت قیمتی علمی و فکری ہی نہیں بلکہ اہم عملی و تحریکی رہنمائی پر مشتمل مضامین اور کتابیں تنظیم کے مستقل لٹریچر کا حصّہ بنیں۔ ان میں دو کتابیں نہایت اہم اور قابلِ قدر ہیں:
(۱) منہج انقلاب ِنبویﷺ
(۲) حزب اﷲ کے اوصاف اور امیر و مامور کا باہمی تعلق
پہلی کتاب ’’منہج انقلاب ِنبویؐ ‘‘ غلبہ و اقامت ِ دین کی جدّوجُہد کے مراحل کو سمجھنے کے حوالے سے کلیدی اہمیت کی حامل ہے۔ یہ جدّوجُہد جسے ’’رب کی دھرتی‘ رب کا نظام‘‘ بھی کہا جا سکتا ہے‘ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک انقلابی جدّوجُہد ہے۔ اس کتاب کا اصل فوکس مراحلِ انقلاب کی علمی وضاحت اور ہر مرحلے کے حوالے سے عملی رہنمائی دیناہے۔ انقلاب کے مراحل کون کون سے ہیں؟ ہر مرحلے کے حوالے سے strategy اور حکمت عملی کیا ہو گی؟ ہر مرحلے کے عملی تقاضوں کا واضح شعور؟ ان حوالوں سے یہ کتاب ایک کلیدی رول رکھتی ہے اور نہایت قیمتی علمی دستاویز ہے۔
دوسری کتاب کا عنوان ہے: ’’حزب اﷲ کے اوصاف اور امیر و مامور کا باہمی تعلق۔‘‘ اس کو منتخب نصاب ۲ بھی قرار دیا گیا۔ یہ گویا تنظیمی زندگی کے ہر گوشے سے متعلق تفصیلی رہنمائی پر مشتمل ہے۔ خصوصاً تنظیم کے ارکان کے ذاتی اوصاف کیسے ہونے چاہئیں؟ ان کے معمولات کیا ہونے چاہئیں؟ ذاتی کردار کیسا ہونا چاہیے؟ ذاتی تعلق مع اﷲ کی اس مرحلے پر کیا اہمیت ہے؟ تنظیم سازی کی بنیاد کیا ہو؟ رفقاء کے آپس کے تعلقات کیسے ہوں؟ دعوت کا ذریعہ کس کو بنایا جائے؟ دعوت کے کام میں کس کو مقدم رکھا جائے؟ مخالفت کی صورت میں رفقاء ِتنظیم کا طرزِعمل کیا ہو؟ قرآن حکیم کے ساتھ ہر رفیق کا قلبی تعلق کس درجے کا ہو؟ تعلق مع اﷲ کے لیے اسے کیسی اور کتنی کوشش کرنی چاہیے؟ امیر و مامور کے باہمی تعلقات کیسے ہوں؟ وغیرہ۔ یہ وہ رہنمائی ہے جو ہم سب کو ابتدائی مراحل میں درکار ہے۔ تنظیمی امور کے حوالے سے یہ سب سے زیادہ قیمتی رہنمائی ہے۔
رفقاء ِ محترم!انقلاب کے بنیادی مراحل گنتی میںچھ ہیں۔ ان چھ میں سے پہلے چار بیک وقت متوازی طور پر‘ side by side چلتے ہیں ۔ یعنی دعوت‘ تربیت و تزکیہ (جہاد بالنفس)‘ تنظیم سازی اور صبر محض۔یہ ابتدائی مرحلہ کب تک جاری رہے گا یا یہ مراحل کب تک جاری رہیں گے؟ آنحضورﷺ کی حیاتِ طیبہ میں نبوت کے ابتدائی ۱۵برس تک جب کہ حضرت نوح علیہ السلام کی حیات میں یہ ۹۵۰ برس تک جاری رہے‘ بلکہ وہاں تو اگلا مرحلہ آیا ہی نہیں! قوم کے اس طرزعمل پر آخر کارپوری قوم کو طوفان میں غرق کر دیا گیا اور عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔ وہ چند لوگ جو ایمان لائے تھے‘ انہیں بچا لیا گیا اور انہی سے آگے نسل انسانی کا تسلسل قائم ہوا۔ہماری تحریک کے حوالے سے اگلا مرحلہ کب آئے گا ؟ واضح رہے کہ وحی کی رہنمائی ہمیں حاصل نہیں ہے ۔ اب یہ ہمارا اپنا اجتہاد ہوگا ۔ پاکستان کے طول وعرض اورمجموعی آبادی کو دیکھتے ہوئے بانی ٔ محترمؒ نے اگلے مراحل میں قدم رکھنے کے حوالے سے دولاکھ committedافراد یعنی حقیقی معنوں میں ملتزم رفقاء کا ہونا لازمی قرار دیا تھا ۔دیکھیے ہمیں realistic ہونا چاہیے۔موجودہ تعداد کیا ہے؟ committed افراد کتنے ہیں ؟سب بخوبی جانتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ اللہ کی رحمت سے نااُمید نہیں ہونا چاہیے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ ابھی ہمیں ایک طویل سفر طے کرنا ہے اور مستقل مزاجی کے ساتھ اس جدّو جُہد کو اللہ کی نصرت کی اُمیدپر جاری رکھنا ہے ۔
حاصل کلام یہ ہے کہ ہمارا اصل کام‘ ہمارا اصل فوکس‘ ہماری priority اس پر ہو کہ ہمارے اندر حزب اﷲ والے اوصاف پیدا ہوں۔اگر ہم یہ کام نہیں کرتے تو ہم بزعم ِخویش ایک انقلابی پارٹی تو ہو سکتے ہیں‘ لیکن ’’حزب اﷲ‘‘ نہیں بن سکتے۔اس بات کو ذہن نشین کر لیجیے کہ اگر ہم اپنے اندر’’ حزب اﷲ‘‘ کے مطلوبہ اوصاف پیدا نہ کر سکے یعنی ذاتی تربیت و تزکیہ کی کم از کم شرائط کو پورا نہ کر سکے اور دعوت بذریعہ قرآن کے کام کو مؤثر طور پر انجام نہ دے سکے ‘ مزید برآں تنظیم کے نظم سے وابستگی کے تقاضوں کو پورا نہ کر سکے تو ہمارا شمار عام معنوں میں انقلابی پارٹی میں تو ہو سکتا ہے ‘’’حزب اﷲ‘‘ میں نہیں ہو گا‘ قطع نظر اس کے کہ ہمیں دنیا میں کامیابی نصیب ہو یا نہ ہو!
لہٰذا میری آپ سب سے تہ دل کے ساتھ گزارش ہے کہ ’’حزب اللہ‘‘ کا حصہ بننے کے اس ٹارگٹ کے حصول کو اپنی اولین ترجیح بنا لیں اور اس کے تقاضوں کی ادائیگی میں سرگرم عمل ہو جائیں ۔بانی ٔ محترمؒ اسی مرحلے کو فرائض دینی کی سہ منزلہ عمارت کی تشریح میں پہلی اور اہم ترین منزل قرار دیتے تھے۔اس کے لیے دینی اصطلاح ’’عبادتِ رب‘‘ یعنی رب کی مکمل غلامی اختیار کرنا ہے ۔اسی کا دوسرا نام جہاد مع النفس ہے‘یعنی اپنے وجود پر اللہ کے دین کو قائم کرنے کی خاطر نفس سے مسلسل کشمکش۔یاد رکھیے کہ اگر اس سطح پر ہم نے کوتاہی کا معاملہ کیا تو ہماری یہ تحریک بے جان جسد کی صورت میں رہے گی ۔لہٰذا نظم کے ذمہ داروں سے بھی میری گزارش ہو گی کہ تنظیمی اجتماعات بالخصوص مقامی تنظیموں کے ماہانہ تربیتی پروگراموں میں حزب اﷲ کے اوصاف کے مذاکرے کو ترجیح دیں اور اس کی تکرار کو جاری رکھیں۔ تنظیم کا ہر رفیق بھی اپنی جگہ اپنے اندر حزب اللہ والے اوصاف پیدا کرنے کی شعوری جدّوجُہد کرے ۔ مَیں اللہ کی رحمت سے امید رکھتا ہوں کہ اگر ہم اسی انداز میں اقامت ِدین کی جدّوجُہد کو آگے بڑھائیں گے تو اگر آج بھی موت آگئی تو ان شاء اللہ ‘ اللہ کے ہاں ہمارا شمار مجاہدین اور شہداء میں ہوگا ۔ اصلاً یہی ہمارا حاصل زندگی ہے ۔اَللّٰھُمَّ وَفِّقْنا لھٰذا!
رفقاء محترم! ہمارے اس سالانہ اجتماع میں عنوانات کا‘ مضامین کا اور خطابات کا ایک تنوع تھا اور کوشش یہ کی گئی کہ تنظیم و تحریک سے متعلق تمام اہم گوشوں کا احاطہ کر لیا جائے تاکہ ہمارے تنظیمی سفر کی ایک یاددہانی ہو جائے۔ یعنی اس اڑھائی روزہ اجتماع میں تمام ہی اہم مضامین دوبارہ ہمارے سامنے آ جائیں۔ الحمد للہ ‘اللہ تعالیٰ نے اس میں ہماری مدد کی اور بہت حد تک کام پورا ہوا ہے۔ البتہ ایک گوشہ کسی قدر تشنہ رہ گیا تھا اور وہ ہے تحریک کا آخری مرحلہ۔ آخری مرحلہ آنحضورﷺ کی سیرت میں بڑا واضح ہے۔ وہ تو جہاد و قتال کا مرحلہ تھا ۔ آنحضورﷺ کی جدّوجُہد میں یقینی طور پر قتال کا مرحلہ بھی شامل تھا۔آپ دیکھتے ہیں کہ لفظ جہادکے ساتھ بھی بالعموم تلوار کا نشان بنا ہوتا ہے‘ گویا جہاد اور تلوار لازم وملزوم ہیں۔ لیکن یاد رکھیے کہ جہاد تلوار کے بغیر بھی ہوتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ مکی دور میں ہاتھوں کو بندھے رکھنے کا حکم تھا‘ تلوار کے استعمال کی اجازت نہیں تھی۔ سارا زور قرآن کے ذریعے رب کا پیغام قریش ِمکہ تک پہنچانے پر تھا۔ سورۃ الفرقان میں اسی جدّوجُہد کو’’جہادِ کبیر‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ یہاں پاکستان میں ہمارا منہج بانی محترمؒ نے واضح کیا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف ہم تلوار نہیں اُٹھا سکتے‘ اس لیے کہ اس کی شرائط اتنی کڑی ہیں کہ وہ آج پوری نہیں ہوسکتیں۔ لہٰذا جہاد و قتال اس معنی میں کہ قوت کا استعمال ہتھیار کے ذریعے سے کیا جائے گا‘ یہ اس وقت ہمارا منہج نہیں ہے۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارا منہج کیا ہے؟ اس سوال کا جواب دینے سے قبل میں یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ نبی اکرم ﷺ نے غلبہ واقامت ِدین کے لیے جو لائحۂ عمل اختیار فرمایا اس کے آخری مراحل میں ’’جہاد بالسیف‘‘یعنی قتال فی سبیل اللہ کے ذریعے باطل نظام کو شکست دے کر جزیرہ نمائے عرب میں اللہ کے دین کو غالب و قائم فرمایا۔
پاکستان میں اس وقت جو دینی جماعتیں غلبہ و اقامت ِدین کے جدّوجُہد میں سرگرم عمل ہیں‘ وہ تقریباً سب کی سب جماعت اسلامی کی پیروی میں انتخابی سیاست کی راہ سے نفاذِ اسلام کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ البتہ گزشتہ۷۰ سال کے تجربات بتاتے ہیں کہ یہ راستہ نفاذِ اسلام اور غلبہ دین کے لیے قطعی طور پر مؤثر نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اغیار کے اس پراپیگنڈا سے کہ ع ’’بوئے خوں آتی ہے اس قوم کے افسانوں سے ‘‘ متاثر ہو کر آج ہمارے بہت سے مذہبی دانشور یہ کہنے لگے ہیں کہ تلوار صرف مدافعت میں اٹھائی گئی تھی‘ اور یہ کہ ہجرت کے نتیجے میں ہی دین اسلام غالب ہو گیا تھا۔ بانی محترم ؒ نے اپنی تصانیف میں اس نکتے کو نہایت وضاحت سے بیان فرمایا ہے اور قرآن کے واضح اشارات بھی اسی کی تائید کرتے ہیں کہ ہجرت ِ مدینہ کے نتیجے میں مسلمانوں کو ایک پناہ گاہ میسر آئی اور ایک ایسا مرکز فراہم ہو گیا تھا کہ وہاں رہ کر اپنے اصل مشن غلبہ دین کے لیے بہترطور پر جدّوجُہد کر سکتے تھے ۔اسی کے نتیجے میں بالآخربیت اللہ کو ۳۶۰ بتوں کی نجاست سے پاک کرنے کے بہتر مواقع حاصل ہوئے تھے۔ جزیرہ نمائے عرب میں اسلام کے غلبہ وقیام کا آغاز فتح مکہ سے ہوا تھا‘ نہ کہ ہجرتِ مدینہ سے۔
چنانچہ ہمارا موقف یہ ہے کہ حضور ﷺ کی ۲۳سالہ جدّوجُہد کے پہلے دور یعنی دورِ مکی میں ہاتھ اٹھانے اور قوت کے استعمال کی اجازت نہیں تھی لیکن ہجرت مدینہ کے بعد مسلمانوں کے ہاتھ کھول دیے گئے اور۲ ہجری میں مسلمانوں پر قتال فرض کر دیا گیا:
{کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ وَہُوَ کُرْہٌ لَّــکُمْ ج} (البقرہ:۲۱۶)
’’(مسلمانو!) اب تم پر جنگ فرض کر دی گئی ہے اور وہ تمہیں گراں گزر رہی ہے۔‘‘
یہ سب چیزیں بالکل واضح ہیںجن کا کسی صورت میں انکار کیا جا سکتا ہی نہیں ۔ ہمارا معاملہ اس لیے مختلف ہے کہ یہاں پاکستان میں ہمارا مقابلہ کفارسے نہیں ہے ‘ یہاں عظیم اکثریت مسلمانوں کی ہے اور بدقسمتی سے دین حق کے نفاذ کی رکاوٹ بننے والے بھی کلمہ گو ہیں۔ مسلمانوں پر ہتھیار اُٹھا نا بلاشبہ نہایت سنگین معاملہ ہے اور اس کی بڑی کڑی شرائط ہیں۔ لہٰذا ہم یہاں ہتھیار نہیں اُٹھائیں گے ۔ اس کے متبادل آج کے دورمیں تبدیلی کا ایک مؤثر راستہ یعنی تحریک کی آپشن موجود ہے۔ چند ماہ قبل ملی یکجہتی کونسل کے سربراہی اجلاس میں میرا خطاب اسی موضوع پر ہو اتھا‘ جس میں وضاحت کے ساتھ مجھے اپنا موقف بیان کرنے کا موقع میسر آیا۔ میرا وہ مقالہ ’’میثاق‘‘ اور ’’ندائے خلافت‘‘ میں شائع ہو چکا ہے۔ دور حاضر میں اس کی مثالیں بھی ہمارے سامنے موجود ہیں۔ ایک نہایت اہم مثال انقلابِ ایران کی ہے۔
اُس دور میں ایران کے بادشاہ رضاشاہ پہلوی کوایشیا میں امریکہ کے نمائندے کی حیثیت حاصل تھی۔ ایشیا میں سب سے بڑا اسلحہ خانہ اسی کا تھا اور اس کی آرمی بھی سفاکیت میں ایک مثال تھی۔ اس کے باوجود عوام شہنشاہی نظام کے خلاف قربانی دینے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ نفاذِ اسلام کے لیے سڑکوں پر آگئے۔ انہوں نے ہر طرح کا جبر برداشت کیا‘ لیکن خود مشتعل نہیں ہوئے بلکہ ہزاروں نے اپنی جانیں قربان کیں۔ بالآخر رضا شاہ کو ذلت کے ساتھ فرار ہونا پڑا اور وہاں ایک بہت بڑا انقلاب ظہور پزیر ہوا۔ یہ موجود ہ دور کی بہت بڑی مثال ہے۔
پاکستان میں بھی جزوی طور پر اس کی کئی مثالیں موجود ہیں ۔۱۹۷۴ء میں جب قادیانیوں کے خلاف تحریک چلی تھی تو بالآخر حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور ایک ناممکن کام بھی ممکن ہو گیا تھا ۔ آج بھی پوری دنیا زور لگا رہی ہے کہ پاکستان کے دستور میں جو طے کردیا گیا ہے کہ قادیانی غیر مسلم ہیں تو اس شق کو ختم کیا جائے ۔پاکستان پر اس حوالے سے بڑا شدید پریشر ہے ۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ حال ہی میں چوری چھپے انتہائی مجرمانہ انداز میں کچھ شقوں میں تبدیلیاں کی گئی ہیں۔اس حوالے سے اب بھی ہماری حکومت پر باہر کا دبائو شدید ہے‘ لیکن عوامی تحریک کے نتیجہ میں یہ حکام کے گلے کی ہڈی بن گیا ہے۔اسی طرح آج سے پانچ سال پہلے تحفظ ناموس رسالت کی تحریک چلی جس میں تنظیم اسلامی نے بھی بحمد ِاللہ بھرپور حصہ لیا تھا‘ اور وہ تحریک بھی کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔
ہماری اس رائے کے حوالے سے ایک اہم ثبوت یہ بھی ہے کہ۲۰۱۰ء میں جامعہ اشرفیہ میں علماء دیوبند کا ایک بہت بڑا اجلاس ہوا تھاجس میں انہوں نے سرجوڑ کر غور کیا تو وہ بھی اسی نتیجے پر پہنچے کہ پاکستان میں اللہ کا دین صرف ایک بھرپور عوامی تحریک سے ہی قائم کیا جا سکتا ہے ۔یہ فیصلہ بھی تاریخی اہمیت رکھتا ہے ۔اسی طرح تازہ ترین صورتِ حال بھی آپ کے سامنے ہے کہ ختم نبوت کے حوالے سے حکومتی بدنیتی کے خلاف جو مظاہرے ہوئے ہیں تو حکومت گھٹنے ٹیک دینے پر مجبور ہوگئی ہے ۔ حاصل کلام یہ کہ جہاد وقتال بھی مسلمہ حقیقتیں ہیں جن کا ہم انکار نہیں کر سکتے لیکن ان کا موقع محل اور ہے‘جبکہ پاکستان میں اقامت ِدین کا ہمارے نزدیک مناسب ترین اور مؤثر ترین راستہ تحریک کا ہے‘ جو ہم بحمد ِاللہ اختیارکیے ہوئے ہیں۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024