سیرتِ رحمۃ للعالمین ﷺ بزبانِ ربّ العالمینڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی
قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا وہ عظیم الشان کلام ہے جو انسانوں کی ہدایت کے لیے آخری رسول محمد عربی ﷺ پر نازل فرمایاگیا۔یہ وہ عظیم کتاب ہے جس کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے خود اپنے ذمہ لی ہے‘ جیساکہ فرمانِ الٰہی ہے: {اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ(۹)} (الحجر) ’’ یہ ذکر (یعنی قرآن) ہم نے ہی اُتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ ‘‘
قرآن کریم کی سب سے پہلی آیات جو حضور اکرمﷺ پر غار حرا میں نازل ہوئیں وہ سورۃ العلق کی ابتدائی آیات ہیں:
{اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ(۱) خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ(۲) اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ (۳)}
’’پڑھو اپنے اُس پروردگار کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ جس نے انسان کو اُس جونک کی طرح کی چیز سے پیدا کیاجو رحم ِمادر میں چمٹ گئی تھی۔ پڑھو‘ اور تمہارا پروردگار سب سے زیادہ کریم ہے۔‘‘
اس پہلی وحی کے نزول کے بعد تقریباً تین سال تک وحی کے نزول کا سلسلہ بند رہا۔ تین سال کے بعد وہی فرشتہ (جبریل ِامین علیہ السلام )جو غارِ حرا میں آیا تھا ‘آپ ﷺ کے پاس آیا اور سورۃ المدثر کی ابتدائی آیات نازل فرمائی گئیں:
{یٰٓـــاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ(۱) قُمْ فَاَنْذِرْ(۲) وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ(۳) وَثِیَابَکَ فَطَہِّرْ(۴) وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ(۵)}
’’ اے کپڑے میں لپٹنے والے! اٹھو اور لوگوں کو خبردار کرو۔ اور اپنے پروردگار کی تکبیر کہو۔ اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھو۔ اور ہر قسم کی گندگی سے کنارہ کش رہو۔‘‘
اس کے بعد حضور اکرم ﷺ کی وفات تک وحی کے نزول کا سلسلہ تدریجی طور پر جاری رہا۔
خالق ِکائنات نے اپنے حبیب رسولِ مکرم ﷺ کو قرآن کریم میں عمومی طور پر یٰٓــاَیُّہَا النَّبِیُّ‘ یٰٓــاَیُّہَا الرَّسُوْلُ‘ یٰٓــاَیُّہَا الْمُدِّثِرُّ اور یٰٓــاَیُّہَا الْمُزَّمِّلُّ جیسی صفات سے خطاب فرمایا ہے‘ حالانکہ دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کو ان کے نام سے بھی مخاطب کیا ہے۔ قرآن کریم میں صرف چار جگہوں پر اسم مبارک ’’محمد ‘‘اور ایک جگہ اسم مبارک ’’احمد‘‘ آیا ہے۔
قرآن کریم میں اسم مبارک محمد(ﷺ) کا ذکر
(۱) {وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ ج قَدْ خَلَتْ مِنْ قَـبْلِہِ الرُّسُلُ ط} (آل عمران: ۱۴۴)
’’اور محمد (ﷺ)ایک رسول ہی تو ہیں‘ ان سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں۔ ‘‘
(۲) {مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ط }( الاحزاب: ۴۰)
’’(مسلمانو!) محمد (ﷺ)تم مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں‘ لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور تمام نبیوں میں سب سے آخری نبی ہیں۔ ‘‘
(۳) {وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاٰمَنُوْا بِمَا نُزِّلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّہُوَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّہِمْ لا کَفَّرَ عَنْہُمْ سَیِّاٰتِہِمْ وَاَصْلَحَ بَالَہُمْ(۲)} (محمد)
’’اور جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور انہوں نے نیک عمل کیے ہیں اور ہر اُس بات کو دل سے مانا ہے جو محمد(ﷺ) پر نازل کی گئی ہے‘اور وہی حق ہے جو ان کے پروردگار کی طرف سے آیا ہے‘ اللہ نے ان کی برائیوں کو معاف کردیا ہے اور ان کی حالت سنوار دی ہے۔‘‘
(۴) {مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ ط وَالَّذِیْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَہُمْ } (الفتح: ۲۹)
’’محمد(ﷺ) اللہ کے رسول ہیں‘ اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے مقابلہ میں سخت ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کے لیے رحم دل ہیں۔ ‘‘
قرآن کریم میں اسم مبارک احمد(ﷺ) کا ذکر
{وَاِذْ قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ یٰــبَنِیْٓ اِسْرَآئِ‘یْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَـیْکُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىۃِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْ بَعْدِی اسْمُہٗٓ اَحْمَدُط }(الصف:۶)
’’اور وہ وقت یاد کروجب عیسیٰ بن مریم نے کہا تھا کہ: اے بنی اسرائیل! مَیں تمہارے پاس اللہ کا ایسا پیغمبر بن کر آیا ہوں کہ مجھ سے پہلے جو تورات (نازل ہوئی) تھی ‘ میں اس کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اُس رسول کی خوشخبری دینے والا ہوں جو میرے بعد آئے گا‘ جس کا نام احمد ہے۔ ‘‘
معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے زمانہ ہی میں حضور اکرم ﷺ کے نبی ہونے کی تصدیق فرمادی تھی۔
حضور اکرم ﷺ کا عالی مقام ومرتبہ
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی مکرمﷺ کو ایسا عظیم الشان مقام عطا فرمایا ہے کہ کوئی بشر حتیٰ کہ نبی یا رسول بھی اس مقام تک نہیں پہنچ سکتا۔ چنانچہ کلام پاک میں ارشاد فرمایا گیا:
{اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ(۱) وَوَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَ(۲) الَّذِیْٓ اَنْقَضَ ظَہْرَکَ(۳) وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ(۴) } (الم نشرح)
’’(اے پیغمبرﷺ! ) کیا ہم نے تمہاری خاطر تمہارا سینہ کھول نہیں دیا؟ اور ہم نے تم سے تمہارا وہ بوجھ اتاردیا ہے‘ جس نے تمہاری کمر توڑ رکھی تھی۔ اور ہم نے تمہاری خاطر تمہارے تذکرے کو اونچا مقام عطا کردیا ہے۔ ‘‘
دنیا میں کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا جس میں لاکھوں مساجد کے میناروں سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی شہادت کے ساتھ حضور اکرم ﷺ کے نبی ہونے کی شہادت نہ دی جاتی ہو اور کروڑوں مسلمان نبی اکرم ﷺ پر درود نہ بھیجتے ہوں۔ غرضیکہ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کے بعد سب سے زیادہ محمد رسول اللہﷺ کا نام نامی لکھا‘ بولا‘ پڑھا اور سنا جاتا ہے۔
صاحب ِ حوضِ کوثرﷺ
خالق ِکائنات نے صرف دنیا ہی میں نہیں بلکہ حوضِ کوثر عطا فرماکر قیامت کے روز بھی ایسے بلند و اعلیٰ مقام سے سرفراز فرمایا ہے جو صرف اور صرف نبی اکرمﷺ کو حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
{اِنَّآ اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ(۱) فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ(۲) اِنَّ شَانِئَکَ ہُوَ الْاَبْـتَرُ(۳)}(الکوثر)
’’(اے پیغمبرﷺ!) یقین جانو ہم نے تمہیں کوثر عطا کردی ہے۔ لہٰذا تم اپنے پروردگار کے لیے نمازپڑھو اور قربانی کرو۔ یقین جانو تمہارا دشمن ہی وہ ہے جس کی جڑ کٹی ہوئی ہے (یعنی جس کی نسل آگے نہ چلے گی )۔ ‘‘
’’کوثر‘‘ جنت کے اُس حوض کانام ہے جو نبی اکرمﷺ کے تصرف میں دیا جائے گا اور آپﷺ کی اُمت کے لوگ اس سے سیراب ہوں گے۔ حوض پر رکھے ہوئے برتن آسمان کے ستاروں کی مانند کثیر تعداد میں ہوں گے۔
درود وسلام
اللہ تعالیٰ نے نہ صرف زمین میں بلکہ آسمانوں پر بھی اپنے نبی کو بلند مقام سے نوازا ہے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{ اِنَّ اللہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ ط یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶)} (الاحزاب)
’’بے شک اللہ تعالیٰ نبی پر رحمتیں نازل فرماتا ہے اور فرشتے نبی کے لیے دعائے رحمت کرتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی نبی پر درود وسلام بھیجا کرو۔ ‘‘
اس آیت میں نبی اکرمﷺ کے اس مقام کا بیان ہے جو آسمانوں میں آپﷺ کو حاصل ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرشتوں میں آپ ﷺ کا ذکرفرماتا ہے اوربے حد و حساب رحمتیں بھیجتا ہے جبکہ فرشتے بھی آپﷺ کی بلندی ٔدرجات کے لیے دعائیں کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے زمین والوں کو حکم دیا کہ وہ بھی آپ ﷺ پر درود وسلام بھیجا کریں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجا‘ اللہ تعالیٰ اس پر ۱۰ مرتبہ رحمتیں نازل فرمائے گا۔‘‘ (مسلم)
فرمانِ رسولؐ: حکم ربی
کیسا عالی شان مقام حضور اکرمﷺ کو ملا کہ آپؐ کا کلام اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہی ہوتا تھا۔قرآن مجید کی رو سے:
{وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی(۳) اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی(۴) } (النجم)
’’اور یہ اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتے‘ یہ تو خالص وحی ہے جو ان کے پاس بھیجی
جاتی ہے۔‘‘
لوگوں کے لیے فکر ِہدایت
حضور اکرمﷺ لوگوں کی ہدایت کی نہایت فکر فرماتے ‘جیسا کہ ارشاد ہوا:
{لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ(۳) } (الشعراء)
’’(اے پیغمبرﷺ!) شاید تم اس غم میں اپنی جان ہلاک کیے جارہے ہو کہ یہ لوگ ایمان (کیوں) نہیں لاتے! ‘‘
ہمارے نبی ﷺکافروں اور مشرکوں کو ایمان میں داخل کرنے کی دن رات فکر فرماتے اور اس کے لیے ہر ممکن کوشش فرماتے‘ لیکن آج بعض مسلمان اپنے ہی بھائیوں کو ان کی بعض غلطیوں کی وجہ سے کافر اور مشرک قرار دینے میں بڑی عجلت سے کام لیتے ہیں۔
نبی ٔرحمت ﷺ
ربّ العالمین نے اپنے آخری نبی کو ’’رحمۃٌ لِلمُسلمِین‘‘ یا’’ رحمۃٌ لِلعَرب ‘‘نہیں بنایا بلکہ ’’رحمۃٌ لِلعالَمِین‘‘بنایا ہے‘ جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے:
{وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷)} (الانبیاء)
’’اور (اے پیغمبرﷺ!) ہم نے تمہیں سارے جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے۔ ‘‘
جس نبی مکرمﷺ کو سارے جہان کے لیے رحمت ہی رحمت بناکر بھیجا گیا ہو‘ اُس نبی کی تعلیمات میں دہشت گردی کیسے مل سکتی ہے؟ آپ ﷺ نے ہمیشہ امن وامان کو قائم کرنے کی تعلیمات ہی دی ہیں۔
خاتم النّبیین ﷺ
حضورِ اکرمﷺ نبی ہونے کے ساتھ خاتم النّبیین بھی ہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام سے جاری نبوت کا سلسلہ آپﷺ پر ختم ہوگیا‘ یعنی اب کوئی نئی شریعت نہیں آئے گی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ط }
(الاحزاب:۴۰)
’’(مسلمانو!) محمد (ﷺ)تم مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں‘ لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور تمام نبیوں میں سب سے آخری نبی ہیں۔‘‘
نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ((اَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ، لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ))’’میں آخری نبی ہوں‘ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔‘‘ (صحیح بخاری وصحیح مسلم)
آپ ﷺ کو عالمی رسالت سے نوازا گیا
جیساکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں بیان کیا گیا ‘ حضور اکرمﷺ آخری نبی ہیں‘ یعنی آپؐ کو قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لیے نبی بنایا گیا ہے۔ غرضیکہ آپﷺ کو عالمی رسالت سے نوازا گیا۔ متعددقرآنی آیا ت میں اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے‘ یہاں صرف دو آیات پیش ہیں:
{قُلْ یٰٓــاَیُّہَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَـیْکُمْ جَمِیْعَا نِ الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج}( الاعراف: ۱۵۸)
’’(اے رسولﷺ! ان سے) کہو کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اُس اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں جس کے قبضے میں تمام آسمانوں اور زمین کی سلطنت ہے۔‘‘
اور:
{ وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا }(سبا: ۲۸)
’’اور (اے پیغمبرﷺ!) ہم نے تمہیں سارے ہی انسانوں کے لیے ایسا رسول بناکر بھیجا ہے جو خوشخبری بھی سنائے اور خبردار بھی کرے۔ ‘‘
اُسوۂ حسنہ :تمام بنی نوعِ انسان کے لیے
چونکہ آپﷺ کو عالمی رسالت سے نوازا گیا ہے‘ اس لیے آپؐ کی زندگی قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لیے نمونہ بنائی گئی۔
{لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَ اللہَ کَثِیْرًا(۲۱) } (الاحزاب)
’’حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے رسول اللہ (ﷺ)کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ سے اور یوم آخرت سے اُمید رکھتا ہو اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتاہو۔‘‘
حضور اکرم ﷺ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے نمونہ ہے‘ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم آپ ﷺ کی سنتوں پر عمل کریں۔ آج ہم سنتوں پر یہ کہہ کر عمل نہیں کرتے کہ وہ فرض نہیں ہیں۔ سُنّت کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ہم اسے ہلکا جان کر اس پر عمل نہ کریں بلکہ ہمیں تو اپنے نبی ﷺکی سنتوں پر قربان ہوجانا چاہیے۔ افسوس وفکر کی بات ہے کہ آج سُنّت کا مذاق بھی اڑایا جاتا ہے۔ یاد رکھیں کہ حضور اکرم ﷺ کی سُنّت کے متعلق مذاق کرنا انسان کی ہلاکت وبربادی کا سبب ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے حبیب محمد مصطفی ﷺ کی تمام سنتوں کو آج بھی زندہ کررکھا ہے‘ اگر ان پر اجتماعی طور پر نہیں تو انفرادی طور پر ضرور عمل ہورہا ہے۔ داڑھی رکھنا نہ صرف ہمارے نبی ﷺ کی سُنّت ہے بلکہ آپؐ کے اقوال وافعال کی روشنی میں پوری اُمت ِمسلمہ کا اتفاق ہے کہ داڑھی رکھنا ضروری ہے مگر آج ہمارے بعض بھائی داڑھی کا مذاق اڑاکر اپنی ہلاکت وبربادی کا سامان مہیا کرتے ہیں۔
حضور اکرم ﷺ کا اتباع
اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرمﷺ کے اسوہ میں دونوں جہاںکی کامیابی وکامرانی مضمر رکھی ہے‘ لہٰذا آپﷺ کے اتباع کو لازم قرار دیاگیا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
{قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللہُ وَیَغْفِرْ لَـکُمْ ذُنُـوْبَکُمْ ط وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱)}(آل عمران)
’’(اے پیغمبرﷺ! لوگوں سے) کہہ دوکہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میرا اتباع کرو‘ اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خاطر تمہارے گناہ معاف کردے گا۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی متعدد آیات میں اپنی اطاعت کے ساتھ اپنے رسولﷺ کی اطاعت کا بھی حکم دیا ہے۔ کہیں فرمایا: {اَطِیْعُوا اللہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ}‘ کہیں فرمایا: {اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ}‘ کسی جگہ ارشاد ہے: {اَطِیْعُوا اللّٰہَ والرَّسُوْلَ}اور کسی آیت میں ارشاد ہے: {اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ}۔ ان سب مقامات پر بندوں سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ فرمانِ الٰہی کی تعمیل کرو اور ارشادِ نبوی ﷺکی اطاعت کرو۔ غرضیکہ یہ بات واضح طور پر بیان فرما دی گئی کہ اللہ کی اطاعت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت بھی ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت رسول اکرمﷺ کی اطاعت کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ سورۃ النساء میں ارشاد فرمایا :
{مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ ج}
’’جس نے رسول کی اطاعت کی اُسی نے اللہ کی فرماں برداری کی۔‘‘
قرآن کے مفسر اوّل
اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں فرماتا ہے:
{وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ وَلَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ(۴۴)}(النحل)
’’یہ کتاب ہم نے آپ کی طرف اتاری ہے کہ لوگوں کی جانب جو حکم نازل فرمایا گیا ہے‘ آپ اسے کھول کھول کر بیان کردیں‘ شاید کہ وہ غوروفکر کریں۔‘‘
اسی طرح فرمانِ الٰہی ہے:
{وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ اِلَّا لِتُبَیِّنَ لَہُمُ الَّذِی اخْتَلَفُوْا فِیْہِ }(النحل:۶۴)
’’یہ کتاب ہم نے آپؐ پر اس لیے اُتاری ہے تاکہ آپؐ ان کے لیے ہر اُس چیز کو واضح کردیں جس میں وہ اختلاف کررہے ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے ان دونوں آیات میں واضح طور پر بیان فرمادیا کہ قرآن کریم کے مفسر اول نبی اکرمﷺ ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی کہ اُمّت ِ مسلمہ کے سامنے قرآن کریم کے احکام ومسائل کھول کھول کر بیان کریں۔ ہمارا یہ ایمان ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے اپنے اقوال وافعال کے ذریعہ قرآن کریم کے احکام ومسائل بیان کرنے کی ذمہ داری بحسن وخوبی انجام دی۔ صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ‘ تابعین اور تبع تابعین رحمہم اللہ کے ذریعہ حضور اکرمﷺ کے اقوال وافعال یعنی حدیث نبوی کے ذخیرہ سے قرآن کریم کی پہلی اہم اور بنیادی تفسیر انتہائی قابلِ اعتماد ذرائع سے اُمّت ِمسلمہ کوپہنچی ہے‘ لہٰذا قرآن فہمی حدیث کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔
تاریخ کا طویل ترین سفر
تاریخ انسانی کے سب سے لمبے سفر ( اسراء ومعراج) کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں بیان فرمایا ہے جس میں آپﷺ کو آسمانوں کی سیر کرائی گئی۔ مسجد حرام (مکہ مکرمہ) سے مسجد اقصیٰ کے سفرکو ’’اسراء‘‘ کہتے ہیں:
{سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا}(بنی اسرائیل:۱)
’’پاک ہے وہ ذات جو لے گئی راتوں رات اپنے بندے (ﷺ) کو مسجد ِحرام سے مسجد اَقصیٰ (دُور کی مسجد) تک ۔‘‘
اور یہاں سے جو سفر آسمانوں کی طرف ہوا اُس کا نام’’ معراج‘‘ ہے۔اس واقعہ کا ذکر سورۃ النجم کی آیات میں بھی ہے:
{ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی(۸) فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی(۹) فَاَوْحٰٓی اِلٰی عَبْدِہٖ مَآ اَوْحٰی(۱۰)}
’’پھر وہ قریب آیا اور جھک پڑا۔بس دو کمانوں کے برابر (فاصلہ رہ گیا) یا اس سے بھی قریب۔ پھر اُس نے وحی کی اللہ کے بندے کی طرف جو وحی کی ۔‘‘
سورۃ النجم کی آیات ۱۳ تا۱۸ میں وضاحت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے اس موقع پر اللہ تعالیٰ کی بڑی بڑی نشانیاں ملاحظہ فرمائیں:
{وَلَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃً اُخْرٰی(۱۳) عِنْدَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَہٰی(۱۴) عِنْدَہَا جَنَّۃُ الْمَاْوٰی (۱۵) اِذْ یَغْشَی السِّدْرَۃَ مَا یَغْشٰی(۱۶) مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی (۱۷) لَقَدْ رَاٰی مِنْ اٰیٰتِ رَبِّہِ الْکُبْرٰی(۱۸)}
’’اور انہوں نے تواس کو ایک مرتبہ اور بھی اُترتے دیکھا ہے۔سدرۃ المنتہیٰ کے پاس۔ جنّت الماویٰ بھی اس کے پاس ہی ہے ۔جبکہ چھائے ہوئے تھا سدرہ پر جو چھائے ہوئے تھا۔ (اُس وقت محمدﷺ کی) آنکھ نہ تو کج ہوئی اور نہ ہی حد سے بڑھی۔ انہوںنے اپنے رب کی عظیم ترین آیات کو دیکھا۔‘‘
حضور اکرم ﷺ کی نماز
اللہ تعالیٰ کا پیار بھرا خطاب حضور اکرم ﷺسے ہے کہ آپ رات کے بڑے حصہ میں نماز تہجد پڑھا کریں:
{یٰٓــاَیُّہَا الْمُزَّمِّلُ(۱) قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًا(۲) نِّصْفَہٗٓ اَوِ انْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلًا(۳) اَوْ زِدْ عَلَیْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا(۴)}(المزمل)
’’اے چادر میں لپٹنے والے! رات کا تھوڑا حصہ چھوڑکر باقی رات میں (عبادت کے لیے) کھڑے ہوجایا کرو۔ رات کا آدھا حصہ یا آدھے سے کچھ کم ‘یا اُس سے کچھ زیادہ۔ اور قرآن کی تلاوت اطمینان سے صاف صاف کیا کرو۔‘‘
اسی طرح سورۃ المزمل کی کی آخری آیت میں اللہ رب العزت فرماتا ہے:
{اِنَّ رَبَّکَ یَعْلَمُ اَنَّکَ تَقُوْمُ اَدْنٰی مِنْ ثُلُثَیِ الَّیْلِ وَنِصْفَہٗ وَثُلُثَہٗ وَطَآئِفَۃٌ مِّنَ الَّذِیْنَ مَعَکَ ط }
’’ (اے پیغمبرﷺ!) تمہارا پروردگار جانتا ہے کہ تم دو تہائی رات کے قریب اور کبھی آدھی رات اور کبھی ایک تہائی رات (تہجد کی نماز کے لیے) کھڑے ہوتے ہو اور تمہارے ساتھیوں (صحابۂ کرامؓ) میں سے بھی ایک جماعت (ایسا ہی کرتی ہے)۔‘‘
اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم ﷺرات کو طویل قیام فرماتے یعنی نماز تہجد ادا کرتے ‘یہاں تک کہ آپؐ کے پاؤں مبارک اور پنڈلیوں میں ورم آجاتا۔ (بخاری) صرف ایک دو گھنٹے نماز پڑھنے سے پیروں میں ورم نہیں آتا بلکہ رات کے ایک بڑے حصہ میں اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہونے‘ طویل رکوع اور سجدہ کرنے کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے۔ سورۃ البقرہ اور سورۃ آل عمران جیسی لمبی لمبی سورتیں آپ ﷺایک رکعت میں پڑھا کرتے تھے اور وہ بھی بہت اطمینان وسکون کے ساتھ۔
نماز تہجد کے علاوہ آپﷺ پانچ فرض نمازیں بھی خشوع وخضوع کے ساتھ ادا کرتے تھے۔سنن ونوافل‘ نماز اشراق‘ نماز چاشت‘ تحیۃ الوضوء اور تحیۃ المسجد کا بھی اہتمام فرماتے اور پھر خاص خاص مواقع پر نماز ہی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے رجوع فرماتے۔ سورج گرہن یا چاند گرہن ہوتا تو مسجد تشریف لے جاکر نماز میں مشغول ہوجاتے۔ کوئی پریشانی یا تکلیف پہنچتی تو مسجد کا رخ کرتے۔ سفر سے واپسی ہوتی تو پہلے مسجد تشریف لے جاکر نماز ادا کرتے۔ آپﷺ ہمیشہ اطمینان وسکون کے ساتھ نماز پڑھا کرتے تھے۔
نبی اکرم ﷺ کے اخلاق
اللہ تعالیٰ اپنے نبی مکرمﷺ کے اخلاق کے متعلق فرماتا ہے: {وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ (۴) } (القلم) ’’اور یقیناً تم اخلاق کے اعلیٰ درجہ پر ہو۔‘‘ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے جب نبی اکرم ﷺ کے اخلاق کے متعلق سوال ہواتو جواب دیا گیا: کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآنُ یعنی آپ ﷺ کا اخلاق قرآنی تعلیمات کے عین مطابق تھا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ((اِنَّمَا بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الاَخْلَاقِ))(مسند احمد) ’’مجھے بہترین اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے‘‘۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :’’ میں نے دس برس حضور اکرم ﷺ کی خدمت کی‘آپؐ نے مجھے کبھی کسی بات پر اُف تک بھی نہیں فرمایا‘ نہ کسی کام کے کرنے پر یہ فرمایا کہ کیوں کیا‘ اور اسی طرح نہ کبھی کسی کام کے نہ کرنے پر یہ فرمایا کہ کیوں نہیں کیا! حضور اکرم ﷺ اخلاق میں تمام دنیا سے بہتر تھے‘ نیز خلقت کے اعتبار سے بھی آپ بہت خوبصورت تھے۔ میں نے کبھی کوئی ریشمی کپڑا یا خالص ریشم اور نرم چیز ایسی نہیں چھوئی جو حضور ا کرم ﷺ کی بابرکت ہتھیلی سے زیادہ نرم ہو۔ او رمیں نے کبھی کسی قسم کا مشک یا کوئی عطر حضور اکرم ﷺ کے پسینہ کی خوشبو سے زیادہ خوشبودار نہیں سونگھا۔‘‘ (ترمذی)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں :’’ حضور اکرم ﷺ نے اپنے دست مبارک سے اللہ کے راستہ میں جہاد کے علاوہ کبھی کسی کو نہیں مارا‘ نہ کبھی کسی خادم کو نہ کسی عورت (بیوی باندی وغیرہ) کو۔‘‘ (ترمذی) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں:’’ حضور اکرم ﷺ نہ تو طبعاً فحش گو تھے نہ بتکلّف فحش بات فرماتے تھے‘ نہ بازاروں میں خلافِ وقار باتیں کرتے تھے۔ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے تھے بلکہ معاف فرمادیتے تھے اور اس کا تذکرہ بھی نہیں فرماتے تھے۔‘‘ (ترمذی)
حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں :’’رسول اللہﷺ نے تین باتوں سے اپنے آپ کو بالکل علیحدہ فرما رکھا تھا: جھگڑے سے‘ تکبر سے اور بے کار باتوں سے۔ اور تین باتوں سے لوگوں کو بچا رکھا تھا: نہ کسی کی مذمت کرتے‘ نہ کسی کو عیب لگاتے اور نہ ہی کسی کے عیوب تلاش کرتے تھے۔‘‘ (ترمذی) ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے نبی اکرم ﷺ کے اخلاقِ حمیدہ سے آگاہی حاصل کریں اور اپنی زندگی میں ان کو اپنانے کی ہر ممکن کوشش کریں۔
آپ ﷺ کی گھریلو زندگی
قرآن کریم روز قیامت تک کے لیے لوگوں سے مخاطب ہے: {وَلَآ اَنْ تَنْکِحُوْٓا اَزْوَاجَہٗ مِنْ بَعْدِہٖٓ اَبَدًاط }(الاحزاب:۵۳) ’’اے ایمان والو! تمہارے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ رسول اکرم (ﷺ )کے بعد ان کی ازواج مطہرات میں سے کسی سے نکاح کرو۔‘‘ یعنی نبی اکرم ﷺ کی بیویاں تمام ایمان والوں کے لیے مائوں (امہات المؤمنین) کا درجہ رکھتی ہیں۔
نبی اکرم ﷺ نے چند نکاح فرمائے۔ ان میں سے صرف حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کنواری تھیں‘ باقی سب بیوہ یا مطلقہ تھیں۔ نبی اکرم ﷺ نے سب سے پہلا نکاح ۲۵ سال کی عمرمیں حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کیا۔ حضرت خدیجہ کی عمر نکاح کے وقت ۴۰ سال تھی‘ یعنی آپ ﷺ سے عمر میں ۱۵ سال بڑی تھیں۔ نیز وہ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ نکاح کرنے سے پہلے دو شادیاں کرچکی تھیں اور ان کے پہلے شوہروں سے بچے بھی تھے۔
جب نبی اکرم ﷺ کی عمرمبارک ۵۰ سال کی ہوئی تو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا انتقال ہوگیا۔ اس طرح نبی اکرم ﷺ نے اپنی پوری جوانی (۲۵ سے ۵۰ سال کی عمر) صرف ایک بیوہ خاتون حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ گزاردی۔
حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو اپنے شوہر کے سا تھ مسلمان ہوئی تھیں‘ ان کی ماں بھی مسلمان ہوگئی تھیں۔ وہ ماں اور شوہر کے ساتھ ہجرت کرکے حبشہ چلی گئی تھیں۔ وہاں ان کے شوہر کا انتقال ہوگیا۔ جب اُن کا بظاہر کوئی دنیاوی سہارا نہ رہا تو نبی اکرم ﷺ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وفات کے بعد نبوت کے دسویں سال ان سے نکاح کرلیا ۔ اُس وقت آپ ﷺ کی عمر ۵۰سال اور حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عمر ۵۵ سال تھی۔ یہ اسلام میں سب سے پہلی بیوہ عورت تھیں۔ حضرت خدیجہ کے انتقال کے بعد تقریباً تین چار سال تک صرف حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہی آپ ﷺ کے ساتھ رہیں ‘کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی رخصتی نکاح کے تین یا چار سال بعد مدینہ منورہ میں ہوئی۔ غرض تقریباً ۵۵ سال کی عمر تک آپ ﷺکے ساتھ صرف ایک ہی عورت رہی اور وہ بھی بیوہ ۔
اس کے بعد آپ ﷺ نے چندنکاح کیے۔ یہ تمام نکاح آپﷺ نے چند سیاسی و دینی و اجتماعی اسباب کو سامنے رکھ کر کیے۔ نیز حدیث میں آتا ہے کہ آپ ﷺ نے کسی عورت سے شادی نہیں کی اور نہ کسی بیٹی کا نکاح کرایا مگر اللہ کی طرف سے حضرت جبرائیل علیہ السلام اس بارے میں وحی لے کر آئے۔
خلاصۂ کلام
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جگہ جگہ اپنے حبیب محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰﷺ کے اوصافِ حمیدہ بیان فرمائے ہیں۔ آپﷺ نہ صرف اپنے زمانہ کے لوگوں کے لیے بلکہ قیامت تک آنے والے تما م انسانوں کے لیے نبی و رسول بناکر بھیجے گئے ہیں۔ نبوت کا سلسلہ آپﷺ پر ختم کردیا گیاہے‘ یعنی اب قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا۔ یہی شریعت محمدیہ (یعنی علوم قرآن وحدیث) قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لیے مشعل راہ ہے ۔ غرضیکہ آپﷺ کو عالمی رسالت سے نوازا گیا ہے۔ اتنے عظیم وبلند مقام پر فائز ہونے کے باوجود آپ ؐ کی حیاتِ طیبہ تکلیفوں اور آزمائشوں میں گزری۔ آپﷺ کو مختلف طریقوں سے ستایا گیا‘ مگر کبھی صبر کا دامن نہیں چھوڑا۔ آپ ﷺ رسالت کی اہم ذمہ داری استقامت کے ساتھ بحسن وخوبی انجام دیتے رہے۔ آپﷺ کی عبادات‘ معاملات‘ اخلاق اور معاشرت سارے انسانوں کے لیے نمونہ ہے۔ ہمیں حضور اکرمﷺ کے اسوہ سے یہ سبق لینا چاہیے کہ گھریلو یا ملکی یا عالمی سطح پر جیسے بھی حالات ہمارے اوپر آئیں‘ ان پر صبر کریں اور اپنے نبی مکرم ﷺکے نقش قدم پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط کریں۔ ہم اپنے نبی مکرمﷺ کے طریقہ پر اسی وقت زندگی گزار سکتے ہیں جب ہمیں اپنے نبی کی سیرت معلوم ہو‘ لہٰذا ہم خود بھی سیرت کی کتابوں کا مطالعہ کریں اور اپنے بچوں کو بھی سیرتِ نبوی پڑھانے کا اہتمام کریں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے حبیب محمد مصطفیٰ ﷺ کے نقش قدم پر زندگی گزارنے والا بنائے۔ آمین!
tanzeemdigitallibrary.com © 2024