مقامِ قرآن: علامہ اقبال کی نظر میںپروفیسر محمد منور مرزا
سب سے پہلی بات اور سب سے پکی بات یہ ہے کہ علّامہ اقبال کی نظر میں قرآن کریم وہ کتاب ہے جو اللہ کے احکام اور اللہ کی حکمتوں پر مشتمل ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی اپنی مخلوق کو ٹھیک سے جانتا ہے ۔ کوئی مخلوق ہستی کسی دوسری مخلوق ہستی کو کاملاً جان نہیں سکتی۔وہی جاننے والا ہے جس نے پیدا کیا ہے۔ وہی ’’خلاق‘‘ ہے‘ لہٰذا وہی ’’علّام‘‘ ہے۔چنانچہ اُسی کے فیصلے‘ اُسی کے احکام اور اُسی کے نواہی کاملاً درست ہیں اور وہی ہر شک اور ہر شبہے سے بالا ہیں۔ پھر علّامہ اقبال کا پختہ یقین یہ بھی ہے کہ یہ کتاب اللہ کی آخری کتاب ہے ‘اور نہ کوئی رسول آئے گا نہ کتاب لائے گا۔ اس اعتبار سے یہ کتاب کامل ترین آئین زندگی اور روشن ترین راہِ حیات ہے۔ یہ کتاب آنے والے ہر دور کی رہبری کرے گی اور آنے والا ہر دور ترقی کی جو منازل طے کرے گا وہ قرآن ہی کی حقیقت واضح کرے گا۔
وقت کے ساتھ ساتھ قرآن کی سچائیاں واضح ہوں گی‘ لہٰذا موجودہ کسی علمی‘ فکری‘ سائنسی اور معدنی انکشاف و اکتشاف کو دیکھ کر اور جلد بازی میں کوئی نتیجہ یا نتائج اخذ کر کے قرآن سے متعلق پریشان خیال نہ ہو جانا چاہیے۔ ہمیں یہ نہیں کرنا چاہیے کہ ’’دریافتوں‘‘ کی روشنی میں قرآن کے صریح مفہوم کو بدل ڈالیں۔ کیا پتہ اس دریافت کے بعد اور کون سی دریافت مزید کیا کچھ سامنے لائے‘ اس لیے کہ انسانی علم حتمی نہیں۔ ہاں نئے علوم سے قرآن کے پوشیدہ معانی ضرور کھلیں گے اور اس کی لازوال صداقت واضح ہو گی۔ مطلب یہ ہے کہ سچ اور حق جو بھی اور جس طرح بھی ظہور میںآئے‘ اس کے لیے قرآن کسوٹی ہے ۔ قرآن کی روشنی میں نئے حقائق کی چھان پھٹک ہو گی اور ان نئے حقائق کی بنا پر استوار ہونےو الے اصولوں کو سمجھا جائے گا۔ قرآن سے نئی روشنی کے بارے میں یہ فیصلہ بھی لیا جائے گا کہ کشف ِحقائق کا سفر ٹھیک راہ پر جاری ہے یا نہیں! مطلب یہ ہے کہ نئے معانی اور نئے جہان قرآن کے معانی کو روشن ضرور کریں گے مگر وہ قرآن کو بدل نہیں سکتے۔ یہ قرآن ‘اللہ کی رحمت ہے اور ہر دور اور ہر جہان کے لیے ہے۔ یہ ہے قرآن کے بارے میں علّامہ اقبال کا اساسی اور بنیادی عقیدہ ۔ ؎
آں کتابِ زندہ قرآنِ حکیم
حکمت او لایزال است و قدیم
نسخۂ اَسرارِ تکوین حیات
بے ثبات از قوتش گیرد ثبات
حرفِ اُو را ریب نے تبدیل نے
آیہ اش شرمندئہ تاویل نے
نوعِ انسان را پیامِ آخریں
حامل او رحمۃ للعالمینؐ
اگر قرآن اللہ کی کتاب ہے اور اللہ ہی کے کلام پر مشتمل ہے تو ظاہر ہے کہ ہر فردِ مؤمن جو کچھ سوچے گا‘ قرآن ہی کی روشنی میں سوچے گا ‘اس لیے کہ دانائی اور حکمت کا اس سے بڑا اور اس سے زیادہ روشن اور اس سے زیادہ قابل اعتماد دوسرا کوئی سرچشمہ نہیں۔ یہی حال علّامہ اقبال کا ہے کہ جب انہوں نے فکری زندگی میں بلوغت حاصل کی یا انہیں احساس ہوا کہ اب وہ زندگی کے اسرار کو سمجھنے کے کسی حد تک اہل ہیں تو خود ان کا دل بول اٹھا کہ ہر وہ دانش جو قرآن کے سراجِ منیرسے فیض حاصل نہیں کرتی‘ ناقص ہے اور اس لیے کہ ناقص ہے کہ وہ محدود ذہن او ر فانی فکر رکھنے والے فانی وجود کی سوچ ہے۔ اولادِ آدم کی ہمہ جہتی فلاح فقط قرآنی ہدایت ہی کی مدد سے ممکن ہے۔ اسی کامل یقین کی بنا پر انہوں نے’’ اسرارِ خودی‘‘ میں بحضور رسالت مابﷺ التجا پیش کی کہ میں جو کچھ لکھ رہا ہوں اور اُمت محمدیہ ﷺ کی خدمت میں پیش کررہا ہوں بلکہ جو کچھ پوری انسانی آبادی کی نذر کر رہا ہوں وہ قرآن ہی کی روشنی میں پیش کر رہا ہوں۔ اگر میں کوئی ایسی حکمت‘ ایسی دانش‘ ایسی فکر اور ایسا اصول پیش کروں جو قرآن کے مخالف ہو تو پھر میں ایک ایسے ایسا مجرم ہوں جسے قیامت کے روز بڑی سے بڑی سزا دی جانی چاہیے‘ اور میرے لیے اس سے بڑی سزا اور کیا ہو سکتی ہے کہ مجھے اُس دن حضورﷺ اپنی زیارت اور بوسۂ پاکی سعادت سے محروم کر دیں۔ یہ التجا اور یہ اعلان ۱۹۱۵ء کا ہے‘ گویا وہاں سے علّامہ اقبال کی شاعری اور فکر کو خالصتاً قرآنی حکمت اور قرآنی نور کے حوالے سے دیکھنا شروع کرنا چاہیے۔ ہو سکتا ہے اس سے قبل علّامہ اقبال نے کبھی کبھار اِدھر اُدھر بھی دیکھ لیا ہو مگر ’’اسرارِ خودی‘‘ کے دور سے علّامہ اقبال کچھ اور ہی ہو گئے۔ چنانچہ فرماتے ہیں: ؎
گر دلم آئینہ بے جوہر است
ور بحر فم غیر قرآں مضمر است
اے فروغت صبح اعصار و دہور
چشم تو بینندئہ ما فی الصدور
پردئہ ناموسِ فکرم چاک کن
ایں خیاباں را ز خارم پاک کن!
خشک گرداں بادہ در انگورِ من
زہر ریز اندر مئے کافورِ من!
روزِ محشر خوار و رسوا کن مرا
بے نصیب از بوسۂ پا کن مرا!
وہ اپنی اس روش کی بدلی ہوئی تائید وتاکید’ ’زبورِ عجم‘‘ میں بھی کرتے ہیں۔’’ زبور عجم‘‘ ۱۹۲۷ء میں چھپی تھی ۔ گویا قرآنی راہ پر اور فقط قرآنی راہ پر گامزن ہوئے انہیں اس وقت تک بارہ برس ہو گئے تھے۔ چنانچہ انہوں نے فرمایا کہ میں عام قسم کا شاعر نہیں جو جھوٹ موٹ بولتا چلا جاتا ہے اور خیال کی وادیوں میں بے مقصد ٹامک ٹوئیاں مارتاہے۔ میرے بارے میں اس طرح کی بات سوچنے والے ناکارہ لوگ ہیں‘ ان لوگوں سے کچھ بھی بن نہ پڑے گا۔ میں تو وہ داستان سناتا ہوں جو حضرت جبریل علیہ السلام نے سنائی تھی۔ محض عالم خیال کی اڑان گھاٹیاں میرے یہاں کہاں ہیں کہ اب میں قاصد کا انتظار کروں‘ اب کوچہ محبوب کی طرف جائوں۔ کبھی رقیب کی رقابت کے مضمون باندھوں اور کبھی درِ محبوب پر پاسبانی کرنے والوں کے ’’حسن سلوک‘‘ کی داد دوں۔ یہ اور اس طرح کے فرضی قصے میں نہیں کہتا۔ ؎
نہ پنداری کہ من بے بادہ مستم
مثالِ شاعراں افسانہ بستم
نہ بینی خیر ازاں مردِ فرو دست
کہ بر من تہمت شعر و سخن بست
بہ جبریل امیں ہم داستانم
رقیب و قاصد و درباں ندانم
ظاہر ہے کہ وہ داستان جو حضرت جبریل علیہ السلام نے سنائی تھی وہ وحی تھی‘ وہ قرآن کریم تھا۔
ایک سوال اہل فلسفہ و کلام کو خواہ وہ مسلمان تھے خواہ غیر مسلم‘ ہر دور میں پریشان کرتا رہا کہ وہ وحی جو آسمانی کتب میں مرقوم ہے آیا از رُوئے مفہوم ومعنی وحی ہے یا لفظاً بھی وحی ہے۔ آیا مضمون ہی کسی پیغمبر کے دل میں ڈالا جاتا تھا یا مضمون کے ساتھ الفاظ بھی اُدھر ہی سے آتے تھے۔ اب یہ تو ظاہر ہے کہ کوئی معنی ذہن میں الفاظ کے بغیر نہیں اُبھرتا ۔ اگر کوئی خیال سوجھتا ہے تو وہ الفاظ ہی کے سہارے سوجھتا ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ وہ خیال ذہن میں جن الفاظ کے ساتھ آیا ہو وہ اور ہوں اور جب معرضِ بیان میں پہنچے تو وہ خیال ہو بہوان الفاظ میں ادا نہ ہو جن الفاظ میں سمجھ لیا گیا تھا۔ قرآن کے مسئلے میں علّامہ اقبال کا موقف یہ تھا کہ نبی اکرم ﷺ کے قلب پر قرآن کے معانی ہی نہیں اُترے تھے‘ الفاظ بھی اُترے تھے اور یہ وہی الفاظ ہیں جو ہمیں قرآن میں نظر آرہے ہیں اور وہ الفاظ فرشتہ ٔامین لائے تھے۔ یہ ممکن نہیں کہ قاصد نے بے الفاظ خیال لیا اور آگے بے الفاظ ہی پیش کر دیا ہو۔ خالی بندے اور خدا کا مسئلہ ہوتا تو اور بات تھی‘ یہاں تو تیسرا وجود بھی ہے جو واسطہ ہے۔
اس باب میں ذکر کیا جاتا ہے کہ ایک بار ایف سی کالج کے پرنسپل مسٹر یوئنگ(بڑے مسٹر یوئنگ) نے کسی دعوت و ضیافت کے موقع پر علّامہ اقبال سے پوچھا کہ آپ کے خیال میں قرآن کا صرف مفہوم آسمان سے اترا تھا یا الفاظ بھی؟ تو علّامہ اقبال نے جواب دیا کہ قرآن الفاظ سمیت اُترا تھا۔ یوئنگ بولے: حیرت کی بات ہے کہ آپ جیسا پڑھا لکھا آدمی بھی یہ کہتا ہے۔ اس پر علّامہ اقبال نے جواب دیا کہ میں ایک ادنیٰ سا شاعر ہوں۔ مقامِ رسالت سے شاعری کو کیا نسبت‘ اس کے باوصف مجھ پر بارہا شعر بنے بنائے نازل ہوتے ہیں۔اگر لفظوں سمیت مجھ پر شعروں کا الہام ہونے لگتا ہے تو اللہ کے رسول ﷺ پر قرآن کا الفاظ سمیت نازل ہونا کو ن سا ایسا بعید از قیاس امرہے!
علّامہ اقبال کا یہ یقین کہ قرآن کے الفاظ بھی اللہ ہی نے بھیجے اور وہ اللہ ہی کے کلمات ہیں‘ انہیں اس اعتقاد سے مالا مال کرتا ہے کہ قرآن کے الفاظ خود اپنی ذات میں بھی نور اور شفا ہیں۔
{وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا ہُوَشِفَآئٌ وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ }(بنی اسرائیل:۸۲)
’’ہم قرآن میں ایسی چیزیں نازل کرتے ہیں جو ایمان والوں کے حق میں شفا اور رحمت ہیں۔‘‘
{یٰٓــاَیـُّــہَا النَّاسُ قَدْ جَآءَکُمْ بُـرْہَانٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَاَنْزَلْـنَــآ اِلَــیْکُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا(۱۷۴)}(النساء)
’’اے لوگو! تمہارے پاس ایک دلیل تمہارے پروردگار کے پاس سے آ چکی ہے اور ہم تمہارے اوپر ایک کھلا ہوا نور اُتار چکے ہیں۔‘‘
{اَللہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط }(النور:۳۵)
’’آسمانوں اور زمین کا نور اللہ ہے۔‘‘
مطلب یہ کہ قرآ ن کے فقط مطالب ہی شفا‘ نور اور رحمت نہیں ہیں جو دلوں کے میل اور تاریکی دور کر دیتے ہیں‘ جو راہِ ہدایت دکھاتے اور گمراہی کی ذلتوں اور اذیتوں سے بچاتے ہیں بلکہ خود الفاظ میں ایسی نوری تاثیر ہے کہ وہ مفہوم سے بالا بالا بھی اپنا اثر اور فیض عطا کر جاتے ہیں۔ چنانچہ ’’ارمغانِ حجاز‘‘ میں انہوں نے ’’دخترانِ ملت‘‘ کو خطاب کرتے ہوئے اس حقیقت پر حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واقعہ قبولِ اسلام کے حوالے سے روشنی ڈالی ہے۔ تاریخ گواہ ہے اور کتب ِحدیث و رجال شاہد ہیں کہ عمر بن الخطاب کفر کے عالم میں اس نیت کے ساتھ حضور نبی اکرمﷺ کی طر ف جا رہے تھے کہ جا کے آپؐ کا کام تمام کر دیں‘ مگر راستے میں انہیں بتایا گیا کہ وہ محمد (ﷺ) کے درپے ہونے سے قبل اپنے گھر کی خبر لیں‘ اس لیے کہ ان کی حقیقی ہمشیرہ اسلام قبول کر چکی ہیں ۔ وہ ہمشیرہ سے نپٹنے کے لیے گھر گئے مگر وہاں ان کی زبان سے قرآن کے کلمات سن کر موم ہو گئے۔ا بھی کلمہ تو پڑھا نہ تھا‘ قرآن کی حقانیت پر ایمان تو نہ لائے تھے ‘ اس عقیدے کے ابھی مالک نہ ہوئے تھے کہ یہ کتاب کتابِ ہدایت ہے اور اس کے مطالب میں بے قیاس گیرائی اور گہرائی ہے۔ وہ تو الفاظ کے سوز اور اسلوبِ بیان ہی پر مر مٹے اور پھر بے تابی کے ساتھ حضور نبی اکرمﷺ کے قدموں میں جا گرے۔ عمرؓ جیسی مضبوط شخصیت مگر دلِ زندہ سے سرمایہ دار شخصیت قرآن کے الفاظ ہی سن کر مان گئی کہ یہ کوئی عام قسم کی کتاب نہیں‘ یہ کوئی اور ہی شے ہے۔ بہرحال علّامہ اقبال دخترانِ ملت سے کہتے ہیں: ؎
ز شامِ ما بروں آور سحر را
بہ قرآں باز خواں اہل نظر را
تو می دانی کہ سوزِ قرأتِ تو
دگرگوں کرد تقدیر عمرؓ را!
’’(اے بیٹی!) تو ہماری شام سے صبح برآمد کر دے۔اہل بصیرت کو پھر قرآن کی طرف بلا۔تو جانتی ہے کہ تیری قراءت کے سوز و گداز نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تقدیر بدل ڈالی تھی۔‘‘
ظاہر ہے کہ تقدیر ِعمرؓ قرآن کے الفاظ کے سوزِ قراء ت سے کچھ کی کچھ ہو گئی۔ حضورﷺ کے قتل کا ارادہ رکھنے والا شخص حضورﷺ کے جلیل ترین صحابہؓ میں شمار کیے جانے والے کا فخرحاصل کرے‘خلیفہ رسولؐ بنے‘ امیر المومنین کہلائے۔ دنیا کے لیے نظام حکومت اور عدل گستری کی روشن ترین مثال چھوڑ جائے اور اجتماعی اخوت اور اجتماعی کفالت کا وہ معیار قائم کرجائے کہ آج تک اس انداز سے پھر کوئی بھی حکومت قائم نہ کر سکی ہو۔ ع بہ بیں تفاوتِ رہ از کجاست تا بکجا!
علّامہ اقبال کے اس عقیدے کی ایک تشریح تو بڑی ہی دلچسپ ہے جو الفاظِ ذیل میں مرقوم ہے۔ یہ الفاظ پروفیسر رشید احمد صدیقی کے مضمون ’’سراقبال مرحوم مشمولہ گنج ہائے گراںمایہ ‘‘ سے لیے گئے ہیں:
’’مرحوم کو سید راس مرحوم سے بڑی شیفتگی تھی‘ اسی طرح سر راس کو بھی اقبال سے بڑا شغف تھا ۔ لیڈی مسعود کو اقبال مرحوم سے جو عقیدت تھی او رجس طور پر ڈاکٹر صاحب کی صحت و آرام کا موصوفہ خیال رکھتی تھیں اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب مرحوم نے بھوپال میں بڑے اصرار کے ساتھ ایک خوش الحان قاری مقرر کرا دیا جو ہر صبح آدھ گھنٹہ لیڈی مسعود کو کلام پاک سناتے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب لیڈی مسعود کی دوسری بچی نادرہ پیدا ہونے والی تھی۔ مرحوم فرماتے تھے کہ ایام حمل میں کسی خوش لہجہ قاری سے اگر ماں کلام پاک سن لیا کرے تو بچے پر اس کا اثر بہت اچھا پڑے گا۔‘‘
اس واقعے سے جہاں علّامہ اقبال کے محولہ بالا عقیدے پر روشنی پڑتی ہے وہاں یہ امر بھی واضح ہو جاتا ہے کہ وہ لوگ بھی جو قرآن کے مفہوم و معنی پر قادر نہیں‘ اس کے ناظرہ مطالعہ سے اور اس کے الفاظ کی سماعت سے فیض یاب ہوتے رہتے ہیں۔ ہمیں دکھائی نہ دے یہ الگ بات ہے مگر ان نوری الفاظ سے آنکھوں کو‘ ذہن کو‘ قلب اور ضمیر کو بہت کچھ جلا ملتی ہے۔ قرآن کتابِ ہدایت ہے‘ لہٰذا عمل کا تقاضا کرتی ہے مگر وہ نور و شفا بھی تو ہے اور نور و شفا معانی ہی میں نہیں‘ الفاظ میں بھی کارفرما ہے۔ لہٰذا حسب مقدور بے علم بھی فائدہ حاصل کرتے رہتے ہیں۔ کسی بزرگ سے یہی سوال کیا گیا کہ مطالعہ قرآن ناظرہ فہم مطالب کے بغیر بھی کوئی فائدہ دیتا ہے یا نہیں‘ تو ان بزرگ نے جواب دیا تھا کہ اگر آپ کوئی دوائی کھائیں جس کے اجزااور ان کے خواص کا علم آپ کو حاصل نہ ہو تو کیا وہ اثر نہیں کرتی!
دخترانِ ملت کو جو علّامہ اقبال نے یہ کہا کہ ’’بہ قرآں باز خواں اہل نظر را‘‘ تو غلط نہیں کہا۔ اہل نظر کی شرط محض شاعرانہ ضرورت یا مجبوری نہیں۔ اللہ کی نشانیوں کو اہل نظر ہی پہچانتے ہیں اور ان تک جب شمع ہدایت پہنچتی ہے تو پھر وہ آنکھیں بند نہیں کرلیتے۔ جن کا دل روشن ہو‘ ان کی آنکھوں کی بصارت بڑی بابصیرت ہوتی ہے۔ بعض اوقات ایسے افراد اَن پڑھ ہونے کے باوصف وہ کچھ جانتے اور دیکھتے ہیں کہ ظاہری روشن آنکھوں کے مالک دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ یہاں حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ کے ملفوظات میں سے چند کلمات کا اندراج بے محل نہ ہو گا۔یہ کلمات ’’فوائد الفواد‘‘ سے لیے گئے ہیں۔ حضرت خواجہ نظام الدینؒ ایک روز حسن افغانیؒ کا ذکر کر رہے تھے جو حضر ت بہاء الدین زکریا ملتانی ؒکے مریدوں میں سے تھے اور ظاہر ہے کہ ان کا دور حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒکے دور سے متصل تھا‘ اس لیے کہ وہ حضرت خواجہ کے مرشد شیخ الاسلام فرید الدینؒ کے معاصر بھی تھے اور ان کے مابین نسبتی قرابت داری بھی تھی۔ حضرت خواجہ نے حسن افغانی کے باب میں فرمایا کہ وہ اُمی محض تھے مگر لوگ ان کے پاس آتے اور کاغذوں پر اور تختیوں پر چند سطریں تحریر کرتے۔ نظم بھی‘ نثر بھی‘ کچھ عربی‘کچھ فارسی۔ طرح طرح کی انہی سطور میں کوئی ایک سطر قرآنی آیات میں سے بھی لکھ دیتے اور پھر حسن سے پوچھتے: ان سطور میں قرآن کہاں ہے ؟ حسن اشارے سے بتا دیتے کہ یہ ہے۔ جب ان سے پوچھا جاتا کہ تم نے تو قرآن پڑھا ہی نہیں‘ تم کیسےجان لیتے ہو کہ یہ قرآن کی آیت ہے ؟تو وہ جواب دیتے کہ ’’جو نور اس سطر میں نظر آتا ہے وہ دوسری سطور میں نظر نہیں آتا۔‘‘ ( فوائد الفواد ‘فارسی ایڈیشن‘ اوقاف لاہور)
وہی تختی یا کاغذ‘ وہی قلم‘ وہی روشنائی او روہی خط‘ پھر شناخت کرنے والا اَن پڑھ اور اشارہ کرے بالکل صحیح کہ ’’یہ تحریرقرآن ہے‘ جو نور اس میں ہے وہ دوسری تحریروں میں نہیں ہے۔‘‘ مرئی اشیا ءکے بارے میں ضیائے نظر کے طولِ موجی (wave length) اور سپیکٹرم کے تناسباتِ رنگ کے حقائق سے آگاہ لوگ قرآنی آیات میں پوشیدہ نور دیکھنے والی کسی آنکھ یا اس آنکھ کے پیچھے کارفرما کسی آنکھ کے بارے میں بھی کچھ جانتے ہیں؟ جلد بازی میں ان حقائق کی تردید نہ کر دیجیے‘ اس سے الٹا یہ نتیجہ اخذ کیجیے کہ انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے بڑی بڑی لطافتیں اور نفاستیں جمع کر رکھی ہیں۔ اس کے روحانی اور معنوی امکانات بے حدود ہیں۔ ابھی تک خارجی حسیات ہی کے جغرافیے سمجھ میں نہیں آ رہے‘ داخلی حسیات کی باری ذرا دیر میں آئے گی۔ ہاں اتنی سی بات ضرور توجہ طلب ہے کہ داخلی حسیات کے ماہرین نے بھی کچھ کہا ہے۔ وہ ماہرین جو حسنِ کردار کا نمونہ تھے‘ جوآدابِ اخلاق کی روشن مثال تھے‘ جو بادیانت اور متقی تھے۔ ان کا ظاہری علم اپنے اپنے دور کے علوم کی عام سطح کے حوالے سے دیکھیں تو کسی بڑےعالم سے کمتر نہ تھا اور ان کی تعداد بھی تھوڑی نہ تھی۔ وہ بے نیاز مدرس تھے‘ وہ مستغنی معلم تھے‘ وہ خدا مست مصلح تھے‘ وہ مخلص مبلغ تھے۔ وہ تارک الدنیا سادھو اور بھنگ پی کے نعرہ لگانے والے لوگ نہ تھے۔ وہ تو بقول حضرت شیخ ہجویریؒ اہل علم تھے (ایشاں اہل علم بودہ اند)۔ ان لوگوں نے بھی کچھ باتیں بتائی ہیں ‘ کچھ مشاہدات نقل کیے ہیں۔ ان کے لیے یہ اندرونی اور روحانی لطافتیں اور باریکیاں اور حسیات کی یہ نزاکتیں اتنی ہی حقیقی تھیں اور اتنی ہی قابل اعتماد تھیں جتنی آج طبیعیاتی‘ کیمیائی یا نفسیاتی معلموں میں تجربات کی زد میں آنے والے اور ہو چکنے والے حقائق۔
یہ واضح ہو چکنے کے بعد کہ علّامہ اقبال کی نظر میں قرآن محض ازروئے معنی ہی نہیں‘ بلکہ ازروئے لفظ بھی آسمانی اور الٰہی کتاب ہے تو گویا جب کوئی شخص قرآن پڑھتا ہے اس وقت اس کا براہِ راست اللہ کے ساتھ ایک رشتہ استوار ہو جاتا ہے۔ قرآن ایک ایسا رابطہ اور ایک ایسی رسّی بن جاتا ہے جس کے ایک جانب خدا ہو اور دوسری جانب بندہ۔ اگر ساتھ ہی پڑھنے والے کو یہ خیال بھی رہے کہ یہ وہ الفاظ ہیں جو حضرت جبریل ؑنے اد اکیے‘حضرت نبی اکرمﷺ کی زبان مبارک سے نکلے ‘جن کو اسی طرح ائمہ صدیقین و شہداء و اولیاء نے ادا کیا‘ جن کو آج تک کروڑوں زبانیں اسی طرح پڑھ چکی ہیں جس طرح میں پڑھ رہا ہوں تو مطالعہ قرآن کی لذت میں کچھ اور ہی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ اگر ساتھ ہی یہ احساس بھی ہو کہ آوازیں بھی مادی ذرات کی طرح ناقابل تحلیل ہیں اور وہ مٹتی نہیں تو نشے میں مزید گداز واقع ہو جاتا ہے کہ مَیں حضور نبی اکرم ﷺ اور آپؐ کے خلفاء اور امت کے ائمہ صدیقین و شہداء اور دیگر اہل دل و ایمان کی آواز میں اپنی آواز بھی شامل کر رہا ہوں۔ یہ مثال ان ذرات کی سی ہے جو سورج کی کرن کے سامنے آجائیں اور ان کے لیے کرن وہ رشتہ اور تاگا بن جائے کہ سورج کے ساتھ ان کا تعلق قائم کر دے۔
اسی طرح قرآن جو اللہ کی رسّی ہے‘ پوری اُمت ِاسلامیہ کے لیے ظاہراً اور باطناً دونوں طرح رشتہ اتحاد بن جاتا ہے۔ قرآن کو مضبوطی سے پکڑ لینے کے مطلب یہ ہوا کہ موتی ایک ہی رشتے میں پرو دیے گئے اور اس رشتے میں پرو دیے گئے جس کی ایک طرف بندہ ہے اور دوسری طرف خدا۔ جو اس رشتے میں پرویا نہ جا سکا‘ وہ کہاں کا رہا۔ پھر ظاہر ہے کہ ایسے عالم میں جملہ امتیازات ختم ہو جاتے ہیں۔ حضرت ابوسعید الخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: ’’ کِتَابُ اللّٰہِ ھُوَ حَبْلُ اللّٰہِ الْمَمْدُوْدُ مِنَ السَّماءِ اِلَی الْاَرْض‘‘ (اللہ کی کتاب ہی اللہ کی رسّی ہے جو آسمان سے زمین تک پہنچی ہوئی ہے)۔ اسی مضمون کو علّامہ اقبال نے الفاظِ ذیل میں بیان کیا ہے۔ وہ قرآن کے بارے میں کہتے ہیں: ؎
ما ہمہ خاک و دلِ آگاہ اوست
اعتصامش کن کہ حبل اللہ اوست!
چوں گہر در رشتۂ او سفتہ شو
ورنہ مانند غبار آشفتہ شو!
’’ہم سرتاسر مٹی ہیں‘ دلِ آگاہ قرآن ہے۔ یہ اللہ کی رسی ہے‘ اسے مضبوطی سے تھام لو۔ اس رشتے میں اپنے آپ کو موتی کی طرح پرولو‘ورنہ ذرئہ خاک کی طرح آوارہ و پریشان ہو جائو گے۔‘‘
مگر ’’اعتصامش کن‘‘ کا مطلب ہے مضبوطی سے پکڑو اور پکڑے رکھو۔ یہ نہیں کہ مطالعہ کرتے وقت جو ایک رابطہ قائم ہو‘ اسی کو کافی جان لو۔ ادھر الفاظ تہ کر کے طاق میں رکھے اور اُدھر رابطہ ختم ہو گیا۔ قرآن کو مضبوطی سے پکڑنے کا معنی ہے کہ قرآن دل میں اُتر جائے‘ قرآن لائحہ زندگی بن جائے بلکہ خود زندگی۔ہرجائزہ قرآن کی روشنی میں کارفرما ہو۔ ہر فیصلہ قرآن کی روشنی میں صادر ہو۔ حیاتِ انفرادی اور حیاتِ اجتماعی میں حقوق و فرائض کا تعین اور انجام دہی قرآن ہی کی روشنی میں جلوہ گر ہو۔ غرض قرآن علم ہو‘ قرآن آرزو ہو‘ قرآن عمل ہو ۔اگر عالم یہ ہو تو واضح ہے کہ جملہ حاملین قرآن ایک ہی طرح سوچیں گے۔ ایک ہی طرح کا اسلوبِ زندگی اختیار کریں گے۔ ان کی ایک ہی جیسی پسند و ناپسند ہو گی اور وہ باقی اولادِ آدم سے ازروئے رویہ و سلوک ممیز و ممتاز ہوں گے۔ گویا قرآن ان میں ’’توحید‘‘ پیدا کر دے گا۔ اس طرح توحید ِخداوندی کا جلوہ زمیں پر دکھائی دینے لگے گا۔ بقول علّامہ اقبالؒ ؎
یک شو و توحید را مشہود کن
غائبش را از عمل موجود کن!
لذتِ ایماں فزاید در عمل
مردہ آں ایماں کہ ناید در عمل
’’ایک ہو جا اورتوحید کا اظہار کر دے۔ اپنے عمل سے غائب کو موجود کر دے۔ ایمان کی لذت عمل کرنے سے بڑھتی ہے۔ وہ ایمان مردہ ہے جس میں عمل نہ ہو۔‘‘
( میثاق: اپریل ۱۹۷۴ء)
tanzeemdigitallibrary.com © 2024