(بیت المقدس ) مسجد ِ اقصیٰ سے متعلق ایک اہم حدیث - ابوکلیم مقصود الحسن فیضی

14 /

مسجد ِاقصیٰ سے متعلق ایک اہم حدیثابوکلیم مقصود الحسن فیضی

عنْ أَبِي ذَرٍّ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ‘ قَالَ: تَذَاكَرْنَا وَنَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللّٰهِﷺ أَيُّهُمَا أَفْضَلُ: مَسْجِدُ رَسُولِ اللّٰهِﷺ أَوْ مَسْجِدُ بَيْتِ الْمَقْدِسِ‘ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ: ((صَلَاةٌ فِي مَسْجِدِي هٰذَا أَفْضَلُ مِنْ أَرْبَعِ صَلَوَاتٍ فِيهِ‘ وَلَنِعْمَ الْمُصَلَّى‘ وَلَيُوشِكَنَّ أَنْ لَا يَكُونَ لِلرَّجُلِ مِثْلُ شَطَنِ فَرَسِهِ مِنَ الْأَرْضِ حَيْثُ يَرَى مِنْهُ بَيْتَ الْمَقْدِسِ خَيْرٌ لَهُ مِنَ الدُّنْيَا جَمِيعًا – أَوْ قَالَ: خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا–
(مستدرک الحاکم:۴ / ۵۰۹‘ المعجم الاوسط:۸۲۲۶‘ ۹/ ۸۲۲۶ ‘ شعب الایمان:۳۸۴۹‘ ۶/ ۴۲)

’’حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے یہ گفتگو کررہے تھے کہ مسجد نبوی افضل ہے یا مسجد بیت المقدس؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میری اس مسجد میں ایک نماز بیت المقدس میں پڑھی گئی چار نمازوں کے برابر ہے‘ویسے وہ نماز پڑھنے کی بہترین جگہ ہے‘ اور وہ وقت قریب ہے کہ ایک (مؤمن) شخص کے لیے اُس کے گھوڑے کی رسّی کے برابر جگہ بھی ملنا مشکل ہوگا کہ وہ وہاں سے بیت المقدس کو دیکھ لے۔ اگر اسے صرف اتنی جگہ بھی مل گئی تو وہ اس کے نزدیک دنیا اور اس کی تمام چیزوں سے بہتر ہوگا۔‘‘
نبی کریم ﷺ کی یہ مبارک حدیث بیت المقدس سے متعلق کئی امور پر روشنی ڈالتی ہے‘ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہ بیت المقدس کی موجودہ تاریخ سے متعلق نبی ﷺ کی پیشین گوئی پر مبنی ایک معجزہ ہے۔لہٰذا ہمیں اس حدیث پر غور کرناچاہیے اور موجودہ دور میں بیت المقدس کی جو صورتِ حال ہے اس پر توجہ دینی چاہیے۔
(۱) دورِ نبویؐ میں بیت المقدس مسلمانوں کی پہنچ سے بہت دور تھا اور اس پر دنیا کی ایک بہت بڑی طاقت یعنی روم کا قبضہ تھا۔ایسے حالات میں نبی اکرم ﷺ کا بیت المقدس میں نماز کی اہمیت اور مسلمانوں کے دل میں اس کی محبت کی یہ خبر دینا گویا بیت المقدس کی فتح کی خوش خبری سنانا اور یہ واضح کرنا تھا کہ بیت المقدس پر مسلمانوں کا حق ہے۔یہی وجہ ہے کہ آپﷺ کی وفات کے بعد ابوبکرصدیق وعمرفاروق رضوان اللہ علیہما کی پہلی کوششوں میں بیت المقدس کو فتح کرنا تھا۔چنانچہ بیت المقدس۱۵ھ میں عہد فاروقی کے دوران فتح ہوا۔
(۲) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا بیت المقدس سے متعلق معلومات کا اہتمام کرنا۔ یہ بات یقینی ہے کہ نبی کریم ﷺ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے سامنے اس کی اہمیت بیان فرماتے تھے ‘اس کی عظمت کا ذکر کرتے تھے ‘تبھی تو صحابہ کو یہ احتمال ہوا کہ شاید بیت المقدس کی اہمیت مسجد نبوی سے بھی زیادہ ہے۔
(۳) اس حدیث سے مسجد اقصیٰ کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ شریعت میں اس کا ایک بڑا مقام ہے ‘ جو مسلمانوں کے دلوں میں ہمیشہ باقی رہے گا۔
(۴) مسجد اقصیٰ کی فضیلت اور اس میں نماز کے اجر کا زیادہ ہونا۔چنانچہ نبی مکرمﷺ نے فرمایا: ((وَلَنِعْمَ الْمُصَلّٰی ھُوَ))’’ وہ نماز پڑھنے کی بہترین جگہ ہے۔‘‘نیز آپﷺ نے فرمایا کہ اس مسجد میں نماز کا ثواب دیگر مسجدوں کے مقابلے ڈھائی سو گنا زیادہ ہے۔
(۵) ابتدا میں مسلمانوں کا قبلہ بیت المقدس رہا ہے۔اب اگر چہ اس کا قبلہ ہونا منسوخ ہوگیا ہے لیکن اس کی اہمیت باقی ہے اور قیامت تک باقی رہے گی۔
(۶) بہت ممکن ہے ایک وقت آئے کہ یہ مقدس زمین مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل جائے حتیٰ کہ اس کے اردگرد بھی انہیں رہائش نصیب نہ ہوگی۔
(۷) اُس وقت بھی مسلمانوں کے دلوں میں اس کی ایسی محبت ہوگی کہ ایک مسلمان کے لیے کچھ دور پر صرف اتنی زمین کا مل جانا کہ وہاں سے وہ بیت المقدس کو دیکھ سکے ‘ دنیا کی ہر چیز سے عزیزتر ہوگا۔
(۸) مسلمانوں خصوصاً بیت المقدس کے اردگرد رہنے والوں کو متنبہ کیا جارہا ہے کہ بیت المقدس کی حفاظت تمہاری ذمہ داری ہے۔اس کی خدمت اور اس کا دفاع تمہارے لیے باعث ِشرف ہے۔
(۹) ۱۹۴۸ء میں یہودیوں نےفلسطین میں اسرائیلی حکومت کی بنیاد ڈالی اور۱۹۶۷ء میں حملہ کرکے اپنا قبضہ فلسطین اور خاص طور پر قدس پر مستحکم کرلیا ۔ اس کے بعد ہی سے بیت المقدس کو مکمل طور پر اپنی تحویل میں لینے کے لیے درج ذیل چالیں چلیں اور چل رہے ہیں:
٭ مسجد اقصیٰ کے چاروں طرف یہود نئی آبادیاں بنا رہے ہیں جس میں وہ کافی حد تک کامیاب ہیں۔اگر چہ دنیا کے بیشتر ممالک اس کی مخالفت کررہے ہیں‘مگر یہود کسی کو خاطر میں نہیں لا رہے۔
٭ قدس کا وہ علاقہ جہاں مسلمان آبادی ہے وہاں کی زمینوں کی قیمت غیر معمولی طور پر بڑھا رہے ہیں تاکہ کوئی مسلمان وہاں زمین یا گھر نہ خرید سکے‘ کوئی اسرائیلی ہی خریدے ‘ جس کے لیے دنیا کی دیگر یہودی تنظیمیں مدد دے رہی ہیں۔ اگر کوئی مسلمان جو اس زمین کا مالک ہے وہ اسےکسی یہودی کے ہاتھ نہیں بیچنا چاہتا تو فلسطین کے اندر یا باہر کے کسی مسلمان کو تیار کیا جاتا ہے۔ چنانچہ وہ مسلمان سے اس زمین کو خرید کر پھر کسی یہودی کے ہاتھ بیچ دیتا ہے۔
٭ قدس کو اقتصادی طور پر مفلوج کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ مسلمان اسے چھوڑ کر نکل جائیں ۔ اس کی صورت یہ ہے کہ یہاں داخل ہونے کے لیے ہر طرف سے چیک پوسٹیں بنا ئی گئی ہیں اور کسی بھی ایسے شخص کو باہر سے نہیں آنے دیاجاتا جو قدس کا رہنے والا نہیں ہے‘ حتیٰ کہ پڑوس کے شہروں سے اگر کوئی اپنے رشتے داروں سے ملنے آنا چاہتا ہے تو اوّل تو اسے اجازت نہیں ملتی اور اگر ملتی بھی ہے تو مشکل سے اور محدود وقت کے لیے۔
٭ قدس کے اردگرد امن کے قیام کے نام پر پولیس اور فوج کو متعین کررکھا ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں کی نقل وحرکت کم ہے جبکہ یہود کو مکمل آزادی حاصل ہے کہ وہ جس طرح چاہیں آئیں اور جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب قدس میں یہود کی آبادی بڑھ گئی ہے اور مسلمانوں کی آبادی ان کے مقابلے میں کم ہوگئی ہے اور وہ بھی صرف بیت المقدس کے مشرقی جانب۔
٭ قدس کے جو اصلی باشندے ہیں یعنی مسلمان‘ یہودی حکومت ان کا مستقل وجود تسلیم نہیں کرتی۔ یہ واضح کردیا گیا ہے کہ تم لوگ یہاں کے اصلی باشندے نہیں ہو‘ لہٰذا تمہاری حیثیت یہاں پر وقتی طور پر اقامت پذیر لوگوں کی ہے ۔اسی لیے اگر کوئی شخص سات سال تک قدس سے باہر رہ جاتا ہے تو اس کا حق شہریت چھین لیا جاتا ہے اور اس کی املاک پر قبضہ کرلیا جاتا ہے۔
٭ ایک مسلمان کے لیے اب مسجد اقصیٰ کے قریب رہائش بڑی خطرناک صورت اختیار کرگئی ہے ۔عموماً ایسا ہوتا ہے کہ رات کی تاریکی میں جب وہ نماز کے لیے یا کسی اور مقصد کے لیے نکلتے ہیں تو کوئی چھپا ہوا شخص ان پر حملہ کردیتا ہے۔
اس طرح یہود کی یہ پلاننگ ہے کہ مستقبل قریب میں بیت المقدس اور مسجد ِاقصیٰ کے قریب کوئی مسلمان نہ رہ جائے تاکہ انہیں اپنی من مانی کرنے اور اسے گراکر وہاں پر ہیکل سلیمانی تیار کرنے کا موقع ہاتھ آجائے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان کی یہ ناپاک کوشش کامیاب نہ ہو!