زندگی کی قدر و قیمت
اور وقت کی تنظیممولانا عبد المتین
مدیر مدرسہ دار ارقم‘ لیاری‘ کراچی
زندگی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ یہ ایک مقصد حاصل کرنے کے لیے دی گئی ہے۔ اللہ ربّ العزت نے اسے بہت ہی مختصر رکھا ہے اور ساتھ یہ بھی سمجھا دیا ہے کہ اس کواپنی جنت اور آخرت بنانے میں گزار دو۔
اس مختصر زندگی میں وقت کی جتنی زیادہ قدر کی جائے گی اتنا ہی زندگی کا مقصد حاصل کرنا آسان ہوگا۔ وقت کی جس قدر نا قدری کی جائے گی مثلاًفضول اور بے مقصد کاموں میں وقت لگایا جائے گا تو ہم زندگی کے مقصد سے اتنا ہی دور ہوتے جائیں گے۔ لغویات‘ لایعنی اور فضول کاموں میں اپنا وقت ضائع کریں گے تو ہم اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکیںگے۔ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ کوئی چیز اگر اپنے مقصد سے ہٹ کر استعمال کی جاتی ہے تو اس میں خرابیاں بڑھتی جاتی ہیں۔ زندگی کا واحد مقصد اللہ کی رضا اور جنت کا حصول ہے۔ اس مقصد سے زندگی گزاری جائے گی تو یہ آسان محسوس ہوگی ۔ ایسے شخص کے لیے عبادت کرنا‘ نیکی کرنا‘ صبر کرنا‘ لوگوں کی خدمت کرنا‘ حلال کا اہتمام کرنا وغیرہ سب آسان ہوجائے گا۔اس کے برعکس اگر کوئی زندگی کے مقصد کو بھول کر اللے تللے میں لگ جائے اورپیسہ بنانا‘ کمانا ‘ اڑانا‘ گھومنا پھرنا‘ عالی شان گھر‘ منصب‘ شہرت‘ دولت وغیرہ ہی کو اپنا مقصد بنالے تو وہ جلد پریشان ہوجائے گا۔ کچھ وقت کے بعد گلے شکوےشروع کر دے گا اور پھر بیماریوں میں مبتلا ہوکر اس کا کھیل ختم ہوجائے گا ۔
اگر یہ دنیا بے مقصد کاموں کے لیے ہوتی تو اللہ تعالیٰ اسے اس قدر وسائل اور مسائل کے ساتھ نہ بناتے اور اگر اتنی ہی اچھی ہوتی تو زندگی اتنی مختصر نہ ہوتی ۔ دنیا اور انسان دونوں کی زندگی ختم ہونے والی ہے‘ تبھی اللہ تعالیٰ نے آخرت کا نظام پیدا کیا تاکہ اس مقصد کو سامنے رکھ کر یہ تھوڑی سی زندگی اچھی طرح گزاری جائےاور پھر جنت میں ہمیشہ کے لیے خوش رہا جائے۔
زندگی کیا ہے ؟
یہ جو ہماری زندگی کے مختلف دور ہیں مثلاً بچپن‘لڑکپن‘جوانی‘ادھیڑ عمری‘ضعیفی اور بڑھاپا وغیرہ یہ وقت کی پیداوار ہیں۔ وقت جس میں سیکنڈ‘ منٹ‘ گھنٹہ‘ دن‘ رات‘ ہفتہ‘ مہینہ‘ سال ہوتے ہیں‘یہی زندگی ہے۔ زندگی کا ایک سیکنڈ بھی زندگی ہی کہلاتا ہے کیونکہ یہی سیکنڈ آگے جاکر منٹ‘ گھنٹے کا سفر طے کرکے کچھ سالوں بعد ہمارا لڑکپن ختم کرتا ہے ‘پھر کچھ زیادہ وقت کے بعد بڑھاپا اور پھر موت تک بھی یہی سیکنڈ لے جاتا ہے۔ یوں زندگی کا عارضی چراغ بجھ جاتا ہے۔ بقول خواجہ عزیز الحسن مجذوب ؎
ہو رہی ہے عمر مثل برف کم
چپکے چپکے‘ رفتہ رفتہ‘ دم بدمزندگی اور وقت
عربی مقولہ ہے : الوقت ھو الحیاۃ یعنی’’وقت ہی زندگی ہے۔‘‘ زندگی وقت سے ہے اور وقت زندگی سے ہے۔ لہٰذا جو اچھی اور بامقصد زندگی گزارنا چاہتا ہے وہ وقت کی قدر کرے۔ وقت کی قدر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے ایک ایک سیکنڈ کی قدر کی جائے۔ جو سیکنڈ کی قدر کرے گا وہ منٹ اور گھنٹوں کی قدر کرے گا۔ پھر اسی طرح دن‘ رات‘ ہفتہ‘ مہینہ‘ سال بھر کی قدر کرنا بھی آسان ہوجائے گا۔ معلوم ہوا کہ جو اپنا سیکنڈ ضائع کرتے ہیں وہ در حقیقت اپنی زندگی ضائع کررہے ہوتے ہیں۔
گھڑی کی سیکنڈ کی سوئی ٹک ٹک کرکے ہمیں خبردار کر رہی ہوتی ہے کہ میں بظاہر آگے جارہی ہوں لیکن تمہاری زندگی کم کرتی جا رہی ہوں۔ وقت آگے جاکر ہمیں موت کی طرف دھکیلتا جارہا ہے۔ عربی محاورہ ہے :’’الوقت کالسیف فان لم تقطعہ لقطعک‘‘ یعنی وقت تلوار کی طرح ہے‘ اگر تم نے (اس کا اچھا استعمال کرکے)اسے نہیں کاٹا تو یہ تمہیں کاٹ دے گا۔ اور وقت کی کاٹ ایسی ہے جس سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ بچہ‘ جوان‘ بوڑھا‘ بادشاہ‘ امیر‘ غریب سب اس کی زد میں آجاتے ہیں اور یہ بڑی بے رحمی سے اپنا کام مکمل کرلیتا ہے۔
’’سیٹ‘‘ ہونے کا انتظار: ایک فضول خواہش
سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں!وقت ایک مرتبہ ہاتھ سے نکل جائے تو دوبارہ ہاتھ نہیں آتا۔ یہ وقت جو آج ہے‘ اگر نکل گیا تو موت تک نہیں آئے گا۔ اس لیے وقت کی قدر کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کی قدر آج اور ابھی سے کی جائے۔ کل‘ پرسوں یا کسی معاملے کے طے ہونے کا انتظار نہ کیا جائے۔ زندگی میں سیٹ ہونا ممکن نہیں کیونکہ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے جنت بنائی ہے‘ دنیا نہیں۔دنیا تو آزمائش کا گھر ہے‘ یہاں سیٹ ہونے کا انتظار کرنا سعی ٔ لاحاصل ہے‘ سمجھ دار انسان مسائل کے ساتھ جینا سیکھتے ہیں۔ درحقیقت یہ سب شیطانی بہانے ہیں کہ پڑھائی سیٹ ہوجائے‘ نوکری سیٹ ہوجائے ‘ گھربار سیٹ ہوجائے‘ کاروبار سیٹ ہوجائے‘ صحت سیٹ ہوجائے اور پھر آخر میں یوں ہوتا ہے کہ مردے کو قبلہ رخ رکھ کر آواز لگائی جاتی ہے کہ ’’اب سیٹ ہے۔‘‘
ماضی‘ حال اور استقبال
جو اپنے آج کی فکر کرے گا اور اپنے عمل کو سدھارے گا‘ اس کا حال خود بخود درست ہوجائے گا۔ جس کا حال درست ڈگر پر ہے تو کچھ وقت کے بعد یہی حال ماضی بن چکا ہوگا اور اس طرح ماضی بھی ٹھیک ہوجائے گا ۔اسی طرح استقامت کے ساتھ چلتا رہے تو یہی حال مستقبل میں بدل جائے گا۔ اس طرح ’’اب‘‘،’’آج‘‘ اور ’’حال‘‘ کی فکر کرنے والے شخص کا ماضی‘ حال اور مستقبل تینوں سنور جائیں گے۔ اسے ماضی کا غم اور پچھتاواجبکہ مستقبل کا خوف اور اندیشہ نہیں رہے گا ۔ ان سب کا دارومدار آج اور ابھی کے عمل پر ہے ۔
موبائل فون اور فضولیات
موجودہ دور میں ہمارے وقت کو ضائع کرنے والی سب سے بڑی چیز ہم سب کی جیبوں میں موجود ’’موبائل فون‘‘ کی صورت میں چھوٹا سا آلہ ہے۔یہ ہمیں وقت‘ بے وقت اپنے ساتھ مصروف کرلیتا ہے۔ ہم لاشعوری طور پر موبائل فون کے اس قدر عادی ہوچکے ہیں کہ اس کے بغیر ہمیں زندگی ادھوری معلوم ہوتی ہے۔ موبائل فون کے دو چار فوائد کے چکر میں ہمارے عقائد و نظریات‘ عبادات و ریاضت‘ اخلاق و اقدار‘معاشرتی تعلقات اور سب سے بڑی چیز یعنی ہمارا وقت تہس نہس ہو گیا ہے۔ایک بزرگ فرمایا کرتے ہیں کہ موبائل فون دو چیزوں کا سرچشمہ ہے: ’’شہوات اور شبہات‘‘۔ اس کے ذریعے ہر انسان کو ایک ایسے سوشل میڈیائی مصنوعی انسان میں بدل دیا گیا ہے جو کہ ریلز اور ویڈیوز کو دیکھتے ہوئے اپنے ناقابل واپسی وقت کو بدترین درجے میں ضائع کرتا جارہا ہے۔
ایمان والوں کی خوبیاں
اللہ ربّ العزت نے قرآن حکیم میں بہت سے مقامات پر لایعنی باتوں‘لغویات اور وقت ضائع کرنے والے کاموں کی بہت ہی شدت کے ساتھ مذمت فرمائی ہے۔ سورۃ المومنون میں ارشاد ہوتا ہے:
{قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ(۱) الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلَاتِہِمْ خٰشِعُوْنَ(۲) وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ(۳)}
’’وہ ایمان والے کامیاب ہوچکے‘ جو اپنی نماز میں خشوع کا اہتمام کرتے ہیں‘ اور بےمقصد فضول کاموں کو نظر انداز کرنے والے ہوتے ہیں۔ ‘‘
یہاں ایمان والوں کی ایک اہم خوبی یہ بتلائی گئی کہ وہ ایسے کاموں سے خود کو بچاتے ہیں جن میں نہ دین کا کوئی فائدہ ہے اور نہ دنیا کا۔ ایسے کام میں وقت بھی ضائع ہوتا ہے اور زندگی بھی ۔
سورۃ الفرقان میں’’عبادالرحمٰن‘‘ کے عنوان سے اللہ کے خاص بندوں کی کچھ خوبیاں بیان فرمائی گئی ہیں جن میں ایک یہ ہے کہ:
{ وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا(۷۲)} (الفرقان)
’’اور جب کسی فضول معاملے کے پاس سے گزرتے ہیں تو وقار کے ساتھ گزر جاتے ہیں۔‘‘
یعنی جب ایمان والوں کا گزر کسی ایسی جگہ سے ہوتا ہے جہاں فضول کام ہورہے ہوں اور وقت ضائع کیا جارہا ہو تو وہ وقار کے ساتھ وہاں سے رخصت ہوجاتے ہیں‘وہاں ٹھہرنا پسند نہیں کرتے۔
سورۃ القصص میں فرمانِ الٰہی ہے:
{وَاِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْہُ } (آیت۵۵)
’’اور جب وہ کوئی بےہودہ بات سنتے ہیں تو اسے ٹال دیتے ہیں۔‘‘
ان کے کانوں میںجب کوئی فضول بات پڑتی ہے جیسے غیبت‘حسد‘گالیاں‘بے حیائی کا تذکرہ‘ گانا بجانا‘میوزک وغیرہ تو وہ ایمان والے وہاں توجہ نہیں لگاتے ۔
{وَقَالُوْا لَنَآ اَعْمَالُنَا وَلَکُمْ اَعْمَالُکُمْ ز }
’’اور کہتے ہیں کہ ہمارے لیے ہمارے اعمال اور تمہارے لیے تمہارے اعمال۔‘‘
حساب دینے کی فکر انہیں مجبور کر دیتی ہے کہ وہ اپنے وقت اور اپنی صلاحیت کو غلط جگہ استعمال ہونے سے بچائیں ۔ پھر کہتے ہیں کہ:
{ سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ ز لَا نَبْتَغِی الْجٰہِلِیْنَ (۵۵)}
’’تم پر سلام ہے‘ ہم نادان لوگوں سے الجھنا نہیں چاہتے۔ ‘‘
یہ کہتے ہوئے سلامتی کی راہ لے لیتے ہیں کہ ہم جاہلوں سے نہیں الجھتے‘ کیونکہ جاہل سے سرکھپانا دیوار پر سر مارنے جیسا ہے جس سے اپنا ہی نقصان ہوتا ہے۔
وقت کی قدر کا آخری احساس
قرآن مجید میں ارشاد خداوندی ہے:
{وَلَوْ تَرٰٓی اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاکِسُوْا رُءُوْسِہِمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ ط رَبَّـنَـآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ(۱۲) }(السجدۃ)
’’اور کاش تم وہ منظر دیکھو جب یہ مجرم لوگ اپنے رب کے سامنے سر جھکائے ہوئے ( کھڑے ) ہوں گے ‘ ( کہہ رہے ہوں گے کہ)ہمارے پروردگار ! ہماری آنکھیں اور کان کھل گئے ‘ اس لیے ہمیں ( دنیا میں ) دوبارہ بھیج دیجیے ‘ تاکہ ہم نیک عمل کریں ‘ ہمیں اب اچھی طرح یقین آچکا ہے۔‘‘
جب انسان اپنی موت دیکھتا ہے تو پھر اس کی زبان پر بڑے ہی عجیب کلمات جاری ہوتے ہیں۔ کہتا ہے کہ اب تو حقیقت ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لی اور کانوں سے سن لی‘ لہٰذااگر ہمیں ایک موقع دے کر دوبارہ دنیا میں بھیج دیا جائے تو ہم اس دفعہ بھر پور عمل کریں گے۔
فضولیات سے پاک جگہ ’’جنت‘‘
قرآن کریم میں جنت کی ایک خوبی یوں بیان کی گئی ہیں:
{لَّا تَسْمَعُ فِیْہَا لَاغِیَۃً(۱۱)}( الغاشیۃ)
’’وہ (جنتی) اس میں کوئی فضول بات نہیں سنے گا۔‘‘
{لَا یَسْمَعُوْنَ فِیْہَا لَغْوًا وَّلَا کِذّٰبًا(۳۵)}(النبا)
’’وہ (جنتی) اس میں نہ کوئی بے ہودہ بات سنیں گے نہ ہی کوئی جھوٹ۔‘‘
وقت کی قدر و قیمت: حدیثِ نبویؐ کی روشنی میں
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
((مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لَا يَعْنِيهِ))(سنن الترمذی:۲۳۱۷)
’’کسی شخص کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی اور فضول باتوں کو چھوڑ دے۔‘‘
مسلمان ہونے کی بہت سی خوبیوں میں سے ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی بدولت فضولیات سے بچنے کی کوشش کی جائے۔
دو بڑی نعمتیں اور انسانی نفسیات
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:
((نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ: الصِّحَّةُ وَالْفَرَاغُ))
(صحیح البخاری:۶۴۱۲)
’’دو نعمتیں ایسی ہیں کہ اکثر لوگ ان نعمتوں کے حوالے سے دھوکے کا شکار ہیں: صحت اور فرصت۔‘‘
صحت اور فرصت دو عظیم نعمتیں ہیں۔ ان کی عظمت وہ لوگ اچھی جانتے ہیں جو برسوں سے بیماری میں مبتلا ہیں اور وہ جو بے جا مصروفیت کی وجہ سے اپنی فیملی تک کو وقت نہیں دے پاتے۔
نبی کریمﷺ کا فرمان ہے کہ یہ دو نعمتیں ہیں تو بہت بڑی لیکن ان سے متعلق دھوکا بھی ایسا لگتا ہے کہ انسان بس یہ سمجھنے میں اپنے روز و شب گزارتا ہے کہ یہ نعمتیں ہمیشہ میرا ساتھ دیں گی اور میں سدا یوں ہی صحت مند رہوں گا ۔اسی طرح فرصت کے جو لمحات آج میسر ہیں وہ ہمیشہ نہیں رہیں گے۔جیسے جیسے وقت گزرتا ہے‘ہم ماضی کو یاد کرکے خود کو کوستے ہیں کہ کاش میں فرصت کے لمحات کی کچھ قدر کرتا اور اپنے وقت کو کسی بہتر مشغلے میں لگاتا۔
رسول اللہﷺ کا اشارہ اس جانب ہے کہ اپنی صحت کی قدر کرو اور اپنے بدن کی قوت کو آج ہی سے بھلائی کے کاموں میں لگادو‘ نہ جانے کل تمہاری صحت کیسی رہے۔ اس مغالطے سے نکلو کہ تمارے اندر جو قوت اور طاقت آج موجود ہے وہ ہمیشہ رہے گی۔اسی طرح فرصت کے جو لمحات تمہیں میسر ہیں ان کی قدر کرو۔ان کو زیادہ سے زیادہ اپنی آخرت بنانے میں لگادو۔
نام نہاد ترقی یافتہ لوگ
موجودہ دور میں جن لوگوں کو زیادہ ترقی یافتہ سمجھا جاتا ہے ان کے گھریلو حالات معلوم کرکے انسان حیرت زدہ ہوجاتا ہے۔ کسی نے سالوں سے اپنے بچوں کو نہیں دیکھا‘ کوئی اپنی ازدواجی زندگی سے محروم ہوچکا اور کوئی اپنے والدین کی خدمت کے لیے وقت نکالنا تو درکنار ان کے جنازے تک نہیں پہنچ سکا۔ وہ مصروفیت کس کام کی جو ہمیں کسی کی خوشی میں شریک نہ کرسکے! وہ عیش و آرام کس کام کا جس کے حاصل کرتے کرتے انسان اپنی صحت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ لہٰذا صحت اور فرصت کے لمحات کی بھرپور قدر کی جائے۔
انسانی زندگی کا بہترین نقشہ
ایک حدیث مبارکہ میں رسول اللہﷺ انسانی زندگی کا بہترین نقشہ کھینچتے ہوئے انتہائی تاکید فرماتے ہیں کہ پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو:
(۱) جوانی کو بڑھاپے سے پہلے
(۲) صحت کو بیماری سے پہلے
(۳) مال داری کو تنگ دستی سے پہلے
(۴) فرصت کو مصروفیت سے پہلے
(۵) زندگی کو موت سے پہلے
(مستدرک حاکم‘ راوی عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما )
اللہ ربّ العزت نے جوانی کی نعمت سے نوازا ہے تو اس کی توانائی کو ضائع کرنے کی بجائے اسے اللہ کی رضا میں لگادو۔اللہ نے تمہیں صحت دی ہے ‘اس نعمت کو اللہ کی عبادت اور اللہ کے بندوں کی خدمت میں لگادو۔اللہ تعالیٰ نے تمہیں مال دیا ہے تو اسے زکوٰۃ‘ صدقات‘ خیرات‘ صلہ رحمی اور مستحق لوگوں پر لگاؤ۔ربّ تعالیٰ نے تمہیں فرصت کے لمحات دیے ہیں ان کی قدر کرو اس سے پہلے کہ مصروفیت بہت بڑھ جائے ۔اور پھر سب سے بڑی بات اللہ نے تمہیں زندگی دی ہے‘ اس کو موت کے جھٹکے سے پہلے پہلے ناپ تول کر خرچ کرو۔
نیکی کا خیال آنا اور اسے ٹالنا
ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنے عمل کو آج اور ابھی سے بدلنے کی جستجو کی جائے‘ اسے کل پرسوں پر ٹالا نہ جائے۔ ہمارے دل میں جب کسی نیک کام کے کرنے کا خیال آتا ہے تو یہ خیال درحقیقت اللہ کی طرف سے مہمان ہوتا ہے۔ اگر میزبان اپنے مہمان کو نظر انداز کرے تو مہمان بدظن ہوکر دوبارہ اس میزبان کے پاس جانا پسند نہیں کرتا۔
ایک شخص نے سونے سے پہلے ارادہ کیا کہ کل صبح اٹھ کر توبہ کروں گا اور اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش کروں گا ۔یہ ارادہ کر کے وہ سو جاتا ہے لیکن زندگی وفا نہیں کرتی اور وہ صبح اٹھ نہیں پاتا۔ اس کا کل کا ارادہ ایک ناکام ارادے میں بدل جاتا ہے ۔ لہٰذا عمل کی اصل قوت یہی ہے کہ جب اس کا ارادہ کیا جائے تو اسی وقت اسے کر لیا جائے۔
شیطان کبھی یہ نہیں کہتا کہ تم نماز نہ پڑھو بلکہ وہ یوں کہتا ہے کہ نماز پڑھنا بہت اچھی بات ہے‘ ضرور پڑھنی چاہیے لیکن تم کل سے پڑھ لینا‘جمعے کے مبارک دن سے نہا دھوکرشروع کر دینا یا رمضان المبارک کے مہینے میں شروع کر دینا۔پھر وہ ’’کل‘‘ موت تک نہیں آتا۔
معمولات کو منظم کرنا
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ہم اپنے اوقات کو تقسیم کریں۔چوبیس گھنٹے کوئی کم وقت نہیں ہے۔ وقت میں بے برکتی کی سب سے بڑی وجہ اسے منظم نہ کرنا ہے۔کس وقت کیا کرنا ہے‘ یہ طے ہونا بہت ضروری ہے۔
کامیاب زندگی گزارنے کے لیے لازم ہے کہ اپنے وقت کو اس انداز سے تقسیم کیا جائے کہ سب معاملات کو ضرورت کے مطابق وقت دیا جاسکے۔ کسی ایک کام کو زیادہ وقت دینا اور دوسرے کام کو معمولات سے خارج کرنا ناکام طرز زندگی کی علامت ہے۔
(۱) سب سے پہلے اپنے اندر وقت کی قدر کا احساس بیدار کیا جائے۔
(۲) اپنی زندگی کا مقصد سمجھا جائے۔
(۳) کون سا کام کرنے کی صلاحیت زیادہ ہے‘ اسی کو اولین ترجیح بنایا جائے۔
(۴) دن بھر میں کچھ نہ کچھ نیا سیکھنے کے لیے ضرور وقت نکالا جائے۔
وقت کی تنظیم کا آسان طریقہ کار
اپنے دن بھر کے اوقات کو چار کاموں میں تقسیم کیا جائے:
(۱) عبادات:اس میں نماز روزہ‘ ذکر مناجات کا اہتمام ہو۔
(۲) معاش: ہر وہ حلال مصروفیت جائز ہے جس سے ہمارا گزر بسر ہوجائے۔
(۳) آرام:نیند رات کو جلدی سوکر پوری کی جائے۔ رات کے آخری پہر اٹھ کر عبادت کی کوشش کی جائے۔
(۴) خدمت: لوگوں کی عیادت‘تعزیت‘والدین کی زیارت‘ علاج معالجہ‘ اہل خانہ کو وقت دینا‘ بچوں کی تربیت‘رشتہ دار‘ پڑوسی‘ دوست‘ احباب‘ متعلقین کے کام آنا۔ ان کے غم اور خوشی میں شریک ہونا۔ بیوہ‘ مسکین‘ یتیم‘ محتاج اور ضرورت مندوں کی مشکلات حل کرنا ۔
اس کے ساتھ دعوت دین‘ تعلیم و تربیت‘تصنیف و تالیف‘ تحقیق و تدریس‘ سیاست و جہاد‘ رفاہی اور فلاح و بہبود کے مختلف سلسلے جن سے مخلوق خدا اور ملت کی خدمت کی جاسکتی ہے۔
خواتین کے لیے خدمت کے ان تمام امور سے ہٹ کر ایک بہت بڑا باب یہ ہے کہ وہ اپنے گھر‘شوہر اور بچوں کی خدمت میں خود کو لگائیں جو کہ حدیث مبارکہ کے مطابق ان کے لیے بہت بڑی بشارت کا ذریعہ ہے۔ مرد حضرات اپنے گھریلو امور سے بے فکر ہوکر مخلوق اور اُمّت کی جو خدمت کرتے ہیں‘ اس کا اجر خواتین کو برابر ملتا رہتا ہے‘ کیونکہ ان کی گھریلو خدمات کی وجہ ہی سےمرد اتنے بڑے پیمانے پر کام کرنے کے لائق بنتے ہیں۔
خلاصہ کلام
جو اپنے وقت کی قدر کرے گا وہ اپنی زندگی کی قدر کرے گا۔جو اپنی زندگی کی قدر کرے گا وہ اس زندگی کو منظم طریقے سے گزار سکے گا ۔جو منظم طریقے سے زندگی گزارے گا وہ دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب رہے گا‘ ان شاءاللہ!
tanzeemdigitallibrary.com © 2024