(عرض احوال) احیائے اسلام:جماعت سازی‘ خدشات‘تدارک - ایوب بیگ مرزا

7 /

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

احیائے اسلام
جماعت سازی ‘ خدشات اور تدارک

انسان کا معاملہ بہت عجیب ہے۔وہ اکیلا اِس دنیا میں آتا ہے اوراکیلا ہی دارِفانی سے کوچ کر جاتا ہے ‘لیکن وہ مہد سے لحد تک کا سفر نہ اکیلا کرنا چاہتا ہے اور نہ ہی کر سکتا ہے۔ وہ کسی خاندان کے فرد‘ کسی قبیلے کے رُکن‘ کسی شہر کے شہری اور کسی ملک کے باشندے کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ اِسی لیے انسان کو معاشرتی حیوان کہا جاتا ہے ‘بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ انسان کے لیے معاشرے کی وہی حیثیت ہے جو مچھلی کے لیے پانی کی ہے۔ انسان کی انفرادیت بڑی محدود ہے۔ وہ کئی چھوٹے موٹے روز مرہ اُمور تنہا ہی کر لیتاہے۔ وہ غور و فکر اور عملی طور پر کسی کام کا آغازتو تنہا کر سکتا ہے ‘لیکن بذاتِ خود کسی ایسے کام کو منطقی انجام تک نہیں پہنچا سکتا جومعاشرے پر اچھے یا بُرے اثرات مرتّب کرے۔ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ اجتماعیت انسانی فطرت کا حصّہ ہے۔ لہٰذا انسان کی فطرت کی رُو سے یہ واجب ہے کہ وہ اپنے لیے سازگار معاشرہ تلاش کرے‘ اور اگر یہ میسر نہ ہو تو اپنی اخلاقی و روحانی تکمیل کے لیے پورے اخلاص کے ساتھ اس کو سازگار بنانے کی جدّوجُہد کرے ۔ مقصد کے حصول کے لیے اجتماعی دانش اور اجتماعی جدّوجُہد انسان کی ضرورت ہی نہیں مجبوری بھی ہے۔
انبیاء و رسل علیہم السلام کی بعثت کا بنیادی مقصد بلاشبہ افراد کی اخلاقی و روحانی تکمیل اور فلاح و نجات ہے ‘لیکن اس مقصد کے لیے سازگار اجتماعی ماحول مہیّا کرنے کی جدّوجُہد کرنا بھی بلا شبہ انبیاء و رسلؑ کے مقاصد ِ بعثت اور فرائض ہائے منصبی میں شامل رہا ہے۔ عام انسان کی بات چھوڑیں‘ انبیاء اور رسل علیہم السلام نے بھی اپنے مشن کا آغاز تو تن تنہا کیا ‘لیکن حواریین اور صحابہ کرامؓ کی نصرت ہی سے مشن آگے بڑھا۔
اللہ تعالیٰ کے اولوالعزم رسولوں میں سے حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام نے ایک طرف تو اپنی قوم بنی اسرائیل پر ہونے والے سیاسی جبر و استحصال کے خلاف آزادی کی تحریک چلائی اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی معجزانہ مدد کے نتیجے میں اپنی قوم کی آزادی‘ کتاب و شریعت کے اُتارے جانے اور ایک جماعت فراہم ہو جانے کے بعد اس کے نفاذ کے لیے اپنی قوم سے اجتماعی جدّوجُہد کا مطالبہ کیا۔البتہ قوم کی بزدلی آڑے آئی‘ بات آگے نہ بڑھ سکی اوردین نافذ نہ ہوسکا۔
اللہ کے آخری نبی اور رسول محمد مصطفیٰ ﷺ نے آ کر پہلی مرتبہ پوری انسانیت کو ایک محفوظ کتاب قرآن مجید کے ذریعے ایک کامل دین کی طرف نہ صرف دعوت دی بلکہ اس دعوت کو قبول کرنے والوں کی سمع و طاعت کے ٹھٹیھ اسلامی اُصول پر ایک مضبوط جماعت بنا ئی ۔ اِس جماعت نے مال و جان کی جس طرح قربانیاں دیں اور جس جاں فشانی سے اِس مشن کے لیے وہ جُت گئے‘ انسانی تاریخ اُس کی مثال دینے سے قاصرہے۔ اور بالآخرفتح مکہ پر حضورﷺ کے تکبیر رب کے اُس مشن کی جزیرہ نما ئےعرب کی حد تک تکمیل ہو گئی جس کا حکم آپؐ کو سورۃ المدثّر کی ابتدائی آیات میں دیا گیا تھا۔ خطبہ حجۃ الوداع میں شہادت علی الناس کا یہ فریضہ اپنی اُمّت کو منتقل کر کے آپ ﷺ رفیق اعلیٰ سے جاملے۔حضور ﷺ نے جو نظامِ عدل و قسط قائم کیا‘ خلفائے راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اُسے نہ صرف نکھارا بلکہ صرف تیس برس کے قلیل عرصے میں تین براعظموں تک پھیلا دیا ۔ خلافت ِ راشدہ کے اختتام پر ‘شاہ اسمعٰیل شہیدؒ کی اختیار کردہ تعبیر کے مطابق‘ دین حق کے نظامِ عدلِ اجتماعی کی چھ منزلہ عمارت کی صرف چھٹی منزل منہدم ہوئی ۔ بقیہ پانچوں منزلوں کو ایک ایک کر کے گرنے میں تقریباً ڈیڑھ ہزار سال لگے۔ یہاں تک کہ بیسویں صدی کے آغاز میں یہ عمارت راکھ کا ڈھیر بن گئی‘ یعنی مسلمانوں نے خود ادارئہ خلافت کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا وہ عمارت جو اپنوں کی غلطیوں اور کوتاہیوں سے اور غیروں کی سازشوں سے زمین بوس ہو گئی تھی اُسے از سرِ نو کھڑاکرنے کی ضرورت ہے یا نہیں ؟کیا رحمۃ للعالمینﷺ کے دیے ہوئے اُس عادلانہ نظام کو ماضی کا قِصّہ سمجھ لیا جائے ؟ ہماری نظر میں ایسا کرنا صرف اپنی دنیا اور آخرت تباہ وبرباد کرنا ہی نہیں بلکہ انسانیت سے دشمنی کا مظہر بھی ہے۔ ایسا کرناانسانیت کو آگ کے سمندر میں پھینکنے کے مترادف ہے۔ آج دنیا ٹیکنالوجی میں انتہائی ترقی کے باوجود اور انسانوں کو زندگی میں بے شمار سہولتیں فراہم کرنے کے باوجود جہنّم زار بنتی چلی جارہی ہے۔لہٰذا اُس عادلانہ نظام کو واپس لائے بغیر چارہ نہیں!
عالم اسلام کی حالت یہ ہے کہ ہر گزرتا دن مسلمانوں کی پسپائی اور ہزیمت کی داستان سنا رہا ہے۔ اُمّت ِمسلمہ کا اب کوئی حقیقی وجود نہیں ہے ‘مختلف مسلمان ممالک ہیںجہاں مغرب کا سیاسی اور معاشی نظام اپنا قبضہ مکمل کر چکا ہے ۔روشن خیالی کے ٹائٹل کے ساتھ مغربی تہذیب و تمدن بھی اپنی جگہ بنا چکی ہے۔یہ ہمہ جہتی یلغار اتنی کامیابی سے سرایت کر گئی ہے کہ آج کے اسلامی دانشور اور مفکر خود اِسلام کے سیاسی پہلو پر انگلیاں اُٹھا رہے ہیں۔ ایسے سوال کھڑے کیے جا رہے ہیں کہ اِسلامی نظام کے قیام کی جدّوجُہد کسی اِسلامی معاشرے کی ضرورت ہے بھی یا نہیں!یہ وہ دانشور ہیں جو ’’آسان اسلام‘‘ کے قائل ہیں۔ بدقسمتی سے گمراہی کی راہ پر گامزن ہیں اور شریعت میں ترمیم و تحریف کرتے دکھائی دیتے ہیں ـ۔ مثلاً ان کے نزدیک سود لینا حرام اور ناجائز لیکن دینا حلال اور جائزہے۔ وہ عورت کو اپنے تئیں ’’پردے کی جکڑ بندیوں‘‘ سے آزاد کر رہے ہیں۔ جمہوری نظام کے حوالے سے پروفیسر فرانسس فوکوہاما کے فلسفہ End of History کے شدت سے قائل ہیں ۔ہمیں اِن دانشوروں سے کچھ لینا دینا نہیں۔
البتہ دین سے انتہائی مخلص کچھ دانشور جو شریعت ِمحمدی علی صاحبھا الصلوٰۃ والسلام کو من و عن قبول کرتے ہیں اور اُس پر عمل پیرا بھی نظر آتے ہیں ‘ اُن کی علمی صلاحیتوں اور علمی کاوشوں کے ہم دل کی گہرائیوں سے معترف ہیں ۔اُنھیں بڑی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ‘لیکن حیرت اِس بات پر ہے کہ وہ اقامت ِ دین کی جدّوجُہد اور اُس کے لیے منظّم جماعت کا قیام غیر ضروری سمجھنے لگے ہیں۔ ایسے ہی ایک صاحب ِ علم کے سامنے ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ نے چند سوالات رکھے تھے‘ جن کا ہم قارئین کے سامنے اعادہ کیے دیتے ہیں۔پہلا سوال یہ تھا کہ :اگر کسی ملک کی آبادی کی عظیم اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہو تو اُس ملک میں کون سا نظام رائج ہونا چاہیے‘ اِسلامی نظام یا کوئی دوسرا نظام؟دوسرا سوال یہ تھا کہ :اگر بدقسمتی سے وہاں اسلامی نظام قائم نہیں بلکہ غیروں کا نظام نافذ ہے تو مسلمان باشندوں کو اِسلامی نظام کے قیام کی کوشش کرنی چاہیے یا نہیں؟ کیا یہ کوشش ہر مسلمان انفرادی طور پر اپنے تئیں کرتا رہے یا اِس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کسی منظّم جماعت کی ضرورت ہے؟ظاہر ہے ہر ذی شعور ہی نہیں ‘ذی ہوش بھی یہ کہے گا کہ مسلمانوں کو ایک منظّم جماعت بنا کر اِسلامی نظام کے قیام کی جدّوجُہد کرنا چاہیے۔ یہی جواب اُن صاحبِ علم نے بھی دیا تھا۔ ہم اِس میں یہ اضافہ کیے دیتے ہیں کہ اگر یہ اِسلامی ملک پاکستان ہو تو بات محض اخلاقی ہی نہیں بلکہ دینی سطح پر مزید مؤکد ہو جاتی ہے ‘کیونکہ مسلمانانِ برصغیر نے اللہ سے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ اُنہیں ایک خطہ زمین عطا فرما دے تو وہ وہاںاُس کا دین نافذ کریں گے۔
جہاں تک اِس مقصد کے حصول کے لیے جماعت کی ضرورت و اہمیت کی بات ہے تو ایک طرف حضرت نوح علیہ السلام سے محمد مصطفیٰﷺ تک سلسلۂ رسالت پر نظر ڈالی جائے جبکہ دوسری طرف اُنیسویں اوربیسویں صدی میں سائنسی ترقی اور صنعتی و ثقافتی انقلابات کو دیکھا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ارتقائے زمانہ کے نتیجے میں انفرادیت کا دائرہ سکڑتا جا رہا ہے اور انسان کی اجتماعی زندگی کی اہمیت بڑھتی چلی جا رہی ہے۔لہٰذا آج اجتماعیت کی ناگزیریت پہلے سے کہیں زیادہ عیاں ہو رہی ہے۔ دین اسلام کا معاملہ تو یہ ہے کہ وہ سفر اور نماز میں دو افراد کو بھی جماعت کی صورت میں دیکھنا پسند کرتا ہے۔
جماعت سازی کے حوالے سے کچھ اندیشوں کا بڑی شدّت سے اظہار کیا جاتا ہے۔ مثلاً یہ کہ اس سے جماعتی وگروہی عصبیت کی لعنت اور شخصیت پرستی کی مہلک بیماری پیدا ہوتی ہے۔مزید یہ کہ خود جماعتیں عموماً داخلی انتشار کا شکار ہو جاتی ہیں۔اس سلسلے میں اوّلین بات تو یہ ہے کہ کون سا بڑا کام ہے جو اندیشوں سے خالی ہوتا ہے۔ جس چیز میں خیر کا پہلو غالب ہو اُس کو اختیارکرنا چاہیے اور اس کے اندیشوں سے بچاؤ کی ہر ممکن تدبیر کرنی چاہیے۔
’’شخصیت پرستی‘‘ کے پیدا ہونے کے امکانات وہاں زیادہ ہوتے ہیں جہاںصرف کسی ایک داعی کے اپنے خیالات و نظریات و تصوّرات اور اسی کے فہم و فکر ہی کو اس اجتماعیت میں ایک ایسے مرکز و محور کی حیثیت حاصل ہو جائے جس پر کبھی کوئی سوال ہی نہ اُٹھایا جا سکے۔ اس کے برعکس اگر بہت سے لوگ باہمی مشاورت سے اپنے مقصد اور اس کے حصول کے طریق پرغور کرتے رہیں اورمسلسل اَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ کی قرآنی ہدایت پر عمل پیرا رہیں تو ان شاء اللہ اس اندیشے کا سد ِ باب ہو جائے گا۔مزید یہ کہ دین کی خدمت کے لیے جمع ہونے والے لوگ ہمیشہ اِنَّنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ کے مطابق اپنے آپ کو اُمّت ِمسلمہ ہی کا ایک حصہ تصوّر کریں۔ چنانچہ نہ ان میں کوئی غرور و گھمنڈ پیدا ہو نہ اپنے ’’چیزے دگر‘‘ ہونے کا احساس پیدا ہونے پائے اور نہ ہی وہ اپنے آپ کو عام مسلمانوں سے کسی اعتبار سے بہتر وبرتر تصوّر کریں۔
یہاں یہ حقیقت بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ تفرقہ بازی محض جماعت سازی ہی سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ کوئی ادارہ یا محض درس گاہ یا دارالعلوم بھی اس کا سبب بن سکتا ہے۔ درس گاہیں اور دارالعلوم جہاں اسلامی تعلیمات عام کرنے کا عظیم کارنامہ سرانجام دے رہے ہیں وہاں یہ بھی ہوا کہ دین اسلام کو اپنے مسلک تک محدود کرنے کا طرزِ عمل سامنے آیا جو من دیگرم تو دیگری کی بنیاد بنا۔ اب نہ تو یہ صحیح ہے کہ ان خدشات کی بنا پر درس گاہیں اور دارالعلوم قائم کرنے ہی بند کر دیے جائیں اور نہ ہی یہ درست ہے کہ دینی مقاصد کے حصول کے لیے جماعتیں قائم کرنا ممنوع قرار دے دیا جائے۔ اس کے برعکس حتی الامکان ایسی احتیاطی تدابیر اختیار کی جانی چاہئیں کہ ان کے ذریعے اُمّت میں تفرقہ و انتشار پیدا نہ ہو۔
تیسرا اندیشہ جماعتوں کے ’’داخلی انتشار‘‘ کا ہے ۔اختلاف اس عالمِ واقعہ کی ایک عظیم اگرچہ تلخ حقیقت ہے۔ تحریکیں اُٹھتی ہیں اوربہت کچھ مفید کام کرتی ہیں‘ پھر ان میں داخلی انتشار رونما ہو جاتا ہے ۔اسی طرح مدارس میں باہمی سرپھٹول کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ہے کہ ان کا کام نسیاًمنسیا ہو جاتا ہے۔ان کے اثرات بہت بعد تک بھی باقی رہتے ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس کی ہے کہ خلوص اور للہیت کے ساتھ کام شروع کیا جائے۔ اختلافات کے حل کے لیے صحت مند راستے حتی الامکان کھلے رکھے جائیں اور جہاں اختلاف نصوص اور بنیادی معاملات کا نہ ہو بلکہ صرف رائے اور تعبیر و تشریح کا ہو ‘تو جماعت کے نظم بالا کی رائے اور تشریح کو فوقیت دی جانی چاہیے ۔ اس کے بعد بھی کبھی ناگوار صورتِ حال پیدا ہو تو اس کا سامنا کیا جائے۔
ہمارے نزدیک احیائے اسلام کا یہ عمل سادہ اوربسیط نہیں ہے بلکہ اس کے متعدد گوشے ہیں‘ جن میں سے ہر ایک میں اولوالعزم افراد اور جماعتیں برسرکار ہیں۔ مثلاً تعلیمی و تدریسی‘ اصلاحی و تربیتی‘ تبلیغی و دعوتی‘ قومی وملّی اور انقلابی و احیائی‘ جوبظاہر ایک دوسرے سے جدا اورمختلف بلکہ بعض پہلوؤں کے اعتبار سے متضاد ہونے کے باوجود اِس وسیع تر احیائی عمل کے اعتبار سے ایک دوسرے کے لیے باعث تقویت ہیں اور قدر کی نگاہ سے دیکھے جانے کے قابل ہیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ دین و مذہب کے مخالف اور لادینیت کے علمبردارتو پوری طرح منظّم ہوکر کام کر رہے ہیں اور ان کے مختلف گروہ اور جتھے مختلف اطراف سے پوری تنظیم اور اجتماعیت کے ساتھ دینی قوتوں پر یلغار کر رہے ہیں‘لیکن دین ِحق کے ماننے والے ابھی اِس بحث میں اُلجھے ہوئے ہیں کہ دین متین کے لیے اجتماعی جدّوجُہد ضروری ہے یا نہیں!یہاں ایک فرمانِ رسول ﷺ کا حوالہ دینا اس بحث کو منطقی انجام تک پہنچاتا ہے:
((اَنَا اَمُرُکُمْ بِخَمْسٍ، اَللّٰہُ اَمَرَنِیْ بِھِنَّ: بِالْجَمَاعَۃِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ وَالْھِجْرَۃِ وَالْجِھَادِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ))
’’(مسلمانو!)مَیں تمہیں پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں‘ اللہ نے مجھے ان کا حکم دیا ہے۔ یعنی جماعت‘ سننا‘ اطاعت کرنا‘ ہجرت‘ اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنا‘‘۔
نوٹ: اِس تحریر میں تنظیم اسلامی کے بنیادی لٹریچر ’’تعارف ِتنظیم اسلامی‘‘ سے بھی استفادہ کیا گیاہے۔