سُوْرَۃُ التَّـکْوِیْرِتمہیدی کلمات
سورۃ التکویر اپنے مضمون اور اسلوب کے اعتبار سے اپنے بعد والی تینوں سورتوں سے گہری مشابہت رکھتی ہے۔ اس مشابہت کی وجہ سے یہ چاروں سورتیں (التّکویر‘ الاِنفِطار‘ المُطفِّفِین اور الاِنشِقاق) ایک ضمنی گروپ کی حیثیت سے بھی پہچانی جاتی ہیں۔ البتہ جوڑوں کے نظم کے حوالے سے سورۃ التکویر کا تعلق سورۃ الانفطار سے ہے ‘جبکہ سورۃ المُطفِّفِین اپنے بعد والی سورت یعنی سورۃ الانشقاق کے ساتھ مل کر جوڑا بناتی ہے۔
آیت ۱{اِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ (۱)} ’’جب سورج لپیٹ لیاجائے گا۔‘‘
آیت۲{وَاِذَا النُّجُوْمُ انْکَدَرَتْ(۲)}’’اور جب ستارے ماند پڑ جائیں گے۔‘‘
آیت ۳{وَاِذَا الْجِبَالُ سُیِّرَتْ(۳)} ’’اور جب پہاڑ چلادیے جائیں گے۔‘‘
آیت۴{وَاِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ(۴)}’’اور جب گابھن اونٹنیاں چھٹی پھریں گی۔‘‘
العِشار سے دس مہینوں کے حمل والی اونٹنیاں مراد ہیں‘ یعنی ایسی اونٹنیاں جن کے وضع حمل کا وقت بہت قریب ہو۔ عربوں کے ہاں ایسی اونٹنی بہت قیمتی سمجھی جاتی تھی اور اس لحاظ سے وہ لوگ اس کی خصوصی حفاظت اور خدمت کرتے تھے ۔ آیت میں اس حوالے سے قیامت کی ہولناک کیفیت کی تصویر دکھائی گئی ہے کہ جب قیامت برپا ہو گی تو بہت قیمتی اونٹنیاں بھی لاوارث ہو جائیں گی‘ انہیں کوئی سنبھالنے والا نہیں ہو گا۔ ظاہر ہے اُس وقت جبکہ خود عورتوں کو اپنے حمل کی کوئی فکر نہیں ہو گی تو اونٹنیوں کی کسے ہوش ہو گی۔
آیت ۵{وَاِذَا الْــوُحُوْشُ حُشِرَتْ(۵)} ’’اور جب وحشی جانور جمع کر دیےجائیں گے۔‘‘
عام طور پر جنگلی جانور ایک دوسرے سے دور بھاگتے ہیں ‘لیکن اس دن خوف کے مارے ان کی وحشت بھی جاتی رہے گی اور مختلف اقسام کے جانور بھی اکٹھے ہوجائیں گے۔
آیت ۶{وَاِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ(۶)} ’’اور جب سمندر دہکا دیے جائیں گے۔‘‘
اگلی سورت یعنی سورۃ الانفطار میں سمندروں کے پھاڑے جانے {وَاِذَا الْبِحَارُ فُجِّرَتْ(۳)} کا ذکر ہے۔ان دونوں آیات پر غور کریں تو یوں لگتا ہے کہ جب زمین کو کھینچ کر پھیلایا جائے گا {وَاِذَا الْاَرْضُ مُدَّتْ(۳)} (الانشقاق) تو اس کی اندرونی تپش اوپری سطح پر آ جائے گی۔ چنانچہ دہکتے ہوئے لاوے کے عین اوپر سمندراُبل رہے ہوں گے اور اس طرح سمندروں کا پانی بخارات بن کر ہوا میں تحلیل ہو جائے گا۔ واللہ اعلم!
آیت ۷{وَاِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ(۷)}’’اور جب جانوں کے جوڑ ملائے جائیں گے۔‘‘
یعنی پوری نسل ِانسانی کے مختلف افرادکی گروہ بندی کر دی جائے گی۔ یہ گروہ بندی لوگوں کے اعمال اور انجام کے حوالے سے ہوگی جیسے سورۃ النمل ‘آیت ۸۳ اور سورئہ حٰمٓ السجدۃ‘آیت ۱۹ میں اہل ِجہنّم کو مختلف گروہوں میں تقسیم کیے جانے کاذکر آیا ہے ۔اس آیت کا مفہوم یہ بھی لیا گیا ہے کہ جب جانیں جسموں کے ساتھ جوڑ دی جائیں گی۔
آیت ۸{وَاِذَا الْمَوْئٗ دَۃُ سُئِلَتْ(۸)} ’’اور جب زندہ دفن کی گئی لڑکی سے پوچھا جائے گا۔‘‘
آیت ۹{بِاَیِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ(۹)} ’’کہ وہ کس گناہ کی پاداش میں قتل کی گئی تھی؟‘‘
یہ تذکیر و انذار کا بہت لطیف انداز ہے۔
آیت ۱۰{وَاِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ(۱۰)} ’’اور جب اعمال نامے کھول دیے جائیں گے۔‘‘
آیت۱ ۱{وَاِذَا السَّمَآئُ کُشِطَتْ(۱۱)}’’اور جب آسمان کی کھال اُتار لی جائے گی۔‘‘
یعنی آسمان پر سے پردہ اُٹھادیا جائے گا اور اس کے وہ سب رموز اور مناظر جو انسانوں کی نظروں سے پوشیدہ تھے ان پرظاہر ہوجائیں گے۔اس سے یہ مفہوم بھی نکلتا ہے کہ آسمان اس دن کھال اُترے ہوئے کسی جانور کے جسم کی طرح سرخ نظر آئے گا ‘جیسا کہ سورۃ الرحمٰن کی اس آیت میں بھی بتایاگیا ہے : {فَاِذَا انْشَقَّتِ السَّمَآئُ فَکَانَتْ وَرْدَۃً کَالدِّہَانِ(۳۷)} ’’پھر جب آسمان پھٹ جائے گا اور ہو جائے گا گلابی‘ تیل کی تلچھٹ جیسا۔‘‘
آیت ۱۲{وَاِذَا الْجَحِیْمُ سُعِّرَتْ(۱۲)}’’اور جب جہنّم دہکائی جائے گی۔‘‘
آیت ۱۳{وَاِذَا الْجَنَّۃُ اُزْلِفَتْ(۱۳)} ’’اور جب جنّت قریب لے آئی جائے گی۔‘‘
ان تیرہ آیات میں قیامت کے دن کی مختلف کیفیات کا ذکرکرنے کے بعد جو اہم اور اصل بات بتانا مقصود ہے وہ یہ ہے :
آیت ۱۴{عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّآ اَحْضَرَتْ(۱۴)} ’’(اُس دن) ہر جان جان لے گی کہ اُس نے کیا کچھ حاضر کیا ہے۔‘‘
یعنی ہر انسان کے تمام اعمال کی پوری تفصیل اس کے سامنے آجائے گی۔
آیت ۱۵‘۱۶{فَلَآ اُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ(۱۵) الْجَوَارِ الْکُنَّسِ(۱۶)} ’’تو نہیں! مَیں قسم کھاتا ہوں پیچھے ہٹنے والے‘ چلنے والے اور چھپ جانے والے ستاروں کی۔‘‘
یعنی ایسے ستارے جو سیدھا چلتے چلتے پھر پیچھے ہٹنا شروع ہو جاتے ہیں۔ان آیات کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا شبیر احمد عثمانی ؒلکھتے ہیں:
’’کئی سیاروں (مثلاً زحل‘ مشتری‘ مریخ‘ زہرہ‘ عطارد) کی چال اس ڈھب سے ہے کہ کبھی مغرب سے مشرق کو چلیں‘ یہ سیدھی راہ ہوئی ‘ کبھی ٹھٹک کر اُلٹے پھریں اور کبھی سورج کے پاس آکر کتنے دنوں تک غائب رہیں۔‘‘
بہرحال یہ آیات آج کے ماہرین ِفلکیات کو دعوتِ تحقیق دے رہی ہیں کہ وہ جدید معلومات کی روشنی میں ان الفاظ (الْخُنَّس اور الْجَوَارِ الْکُنَّس) کے لغوی معانی کے ساتھ ستاروں کی دنیا کے رموز و حقائق کی مطابقت ڈھونڈنے کی کوشش کریں۔
آیت ۱۷{وَالَّیْلِ اِذَا عَسْعَسَ(۱۷)}’’قسم ہے رات کی جب وہ روانہ ہونے لگے۔‘‘
یہ آیت اور سورۃ المدثر کی یہ آیت باہم مشابہ اور ہم معنی ہیں: {وَالَّـیْلِ اِذْ اَدْبَرَ(۳۳)} ’’اور قسم ہے رات کی جب کہ وہ پیٹھ موڑے۔‘‘
آیت ۱۸{وَالصُّبْحِ اِذَا تَنَفَّسَ(۱۸)} ’’اور صبح کی جب وہ سانس لے۔‘‘
یعنی صبح صادق کا وہ وقت جب رات کے سناٹے میں سے زندگی انگڑائی لیتی ہوئی آہستہ آہستہ بیدار ہوتی ہے۔
آیت ۱۹{اِنَّہٗ لَـقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ (۱۹)}’’یقیناً یہ (قرآن) ایک بہت باعزّت پیغامبر کا قول ہے۔‘‘
یہاں ’’رَسُوْلٍ کَرِیْم‘‘سے مراد حضرت جبرائیل علیہ السلام ہیں۔ یہ آیت قبل ازیں سورۃ الحاقہ میں بھی (بطور آیت ۴۰) آ چکی ہے اور وہاں ’’رَسُوْلٍ کَرِیْم‘‘ سے مراد محمد رسول اللہﷺ ہیں۔سورۃ الحج (آیت ۷۵) میں فرمایا گیا ہے : {اَللّٰہُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ رُسُلًا وَّمِنَ النَّاسِ ط} ’’اللہ چُن لیتا ہے اپنے پیغامبر فرشتوں میں سے بھی اور انسانوں میں سے بھی‘‘۔چنانچہ فرشتوں میں سے اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل ؑکو چنا اور انسانوں میں سے حضرت محمدﷺ کو اور یوں ان دو ہستیوں کے ذریعے سے ’’رسالت‘‘ کا سلسلہ تکمیل پذیر ہوا۔ زیر مطالعہ آیات میں رسولِ کریم بشر(محمد رسول اللہﷺ) اور رسولِ کریم ملک (حضرت جبرائیلؑ) کی ملاقات کا ذکر بھی آ رہا ہے کہ رسالت کی ان دو کڑیوں کے ملنے کا ثبوت فراہم ہوجائے۔یہ مضمون اس سے پہلے سورۃ النجم میں بھی آ چکا ہے۔
آیت ۲۰{ذِیْ قُوَّۃٍ عِنْدَ ذِی الْعَرْشِ مَکِیْنٍ(۲۰)} ’’جو (جبرائیل) بہت قوت والا ہے ‘صاحب ِعرش کے نزدیک بلند مرتبہ ہے۔‘‘
یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے خاص مقربین میں سے ہیں۔
آیت ۲۱{مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِیْنٍ(۲۱)}’’جس کی اطاعت کی جاتی ہے اور وہ امانت دار بھی ہے۔‘‘
حضرت جبرائیل علیہ السلام تمام فرشتوں کے سردار ہیں ۔اس لحاظ سے آپؑ تمام فرشتوں کے مطاع ہیں یعنی تمام فرشتے آپؑ کی اطاعت کرتے ہیں۔ اور آپ ؑامانت دار ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا پیغام جوں کا توں انبیاء و رسل علیہم السلام تک پہنچاتے رہے ہیں۔
آیت۲۲{وَمَا صَاحِبُـکُمْ بِمَجْنُوْنٍ(۲۲)}’’اور تمہارے یہ ساتھی (محمدﷺ) کوئی مجنون نہیں ہیں۔‘‘
زیر مطالعہ آیات سورۃ النجم کی ابتدائی آیات کے ساتھ خصوصی مناسبت اور مشابہت رکھتی ہیں۔ وہاں بھی اس مضمون کا آغاز ستارے کی قسم (وَالنَّجْم) سے ہوا ہے اور یہاں بھی اس موضوع پر بات شروع کرنے سے پہلے آیات ۱۵ اور ۱۶میں ستاروں کی قسمیں کھائی گئی ہیں۔ وہاں صَاحِبُکُمْ سے بات شروع ہوکر حضرت جبرائیل ؑ کے ذکر تک آئی ہے‘ جبکہ یہاں حضرت جبرائیل ؑکا ذکر پہلے اور صَاحِبُکُمْ کا بیان بعد میں آیا ہے۔ وہاں حضرت جبرائیل ؑکا ذکر شَدِیْدُ الْقُوٰی کے لقب سے ہوا ہے جبکہ یہاں انؑ کی شان میں ذِیْ قُوَّۃٍ کے الفاظ آئے ہیں۔
آیت۲۳{وَلَقَدْ رَاٰہُ بِالْاُفُقِ الْمُبِیْنِ(۲۳)} ’’اور انہوں نے دیکھا ہے اس کو کھلے اُفق پر۔‘‘
یعنی ہمارے نبی(ﷺ) نے جبریل ؑکو کھلے اور روشن اُفق پر دیکھا ہے‘ اس میں کوئی اشتباہ نہیں ہے۔ بِالْاُفُقِ الْمُبِیْن کے لیے سورۃ النجم میں’بِالْاُفُقِ الْاَعْلٰی‘ (آیت ۷) کی ترکیب آئی ہے۔
آیت ۲۴{وَمَا ہُوَ عَلَی الْغَیْبِ بِضَنِیْنٍ(۲۴)}’’اور وہ غیب کے معاملے میں حریص یا بخیل نہیں ہیں۔‘‘
’ضَنِیْن‘ کا ترجمہ حریص بھی کیا گیا ہے اور بخیل بھی۔ دراصل بخل اور حرص دونوں لازم و ملزوم ہیںاور ایک ہی مفہوم کے دو پہلوئوں کو واضح کرتے ہیں۔ حریص کے معنی میں آیت کا مفہوم یہ ہو گا کہ ہمارے نبی (ﷺ) کی پوری زندگی تم لوگوں کے سامنے ہے۔ کیا اُنہوںؐ نے کاہنوں اور نجومیوں کے ساتھ کبھی دوستی رکھی ہے؟ یا غیب کی خبریں معلوم کرنے کے لیے کیا انہوںؐ نے کبھی ریاضتیں وغیرہ کرنے کی کوشش کی ہے ؟ ظاہر ہے اُن ؐکی زندگی میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ چنانچہ تم لوگ یہ نہیں کہہ سکتے ہوکہ وہ غیب کی خبروں کے معاملے میں شروع ہی سے ’’حریص‘‘ تھے۔ اسی طرح وہؐ اس بارے میں بخیل بھی نہیں ہیں اور اس حقیقت کے بھی تم خود گواہ ہو۔ انہیـںؐ غیب کی جو خبریں معلوم ہوتی ہیں وہ تم لوگوں کو بتاتے ہیں۔ کیا کاہن اور نجومی بھی غیب کی خبریں اسی طرح کھلے عام لوگوں کو بتاتے ہیں؟کسی کاہن کے پاس تو غیب کا علم ہوتا ہی نہیں اور جو کسی قیاس آرائی یا ظن و تخمین کی بنا پر وہ کچھ جانتا ہے اس پر وہ اپنا کاروبار چمکاتا ہے۔گویا ’’ہلدی کی گانٹھ‘‘ مل جانے پر وہ پنساری بن کر بیٹھ جاتا ہے اور اپنی ایک ایک بات کے عوض منہ مانگے نذرانے وصول کرتا ہے۔ اس کے برعکس ہمارے رسول(ﷺ)نے اگر فرشتے کو دیکھا ہے تو اُنہوںؐ نے سرِعام تم لوگوں کو بتا دیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں غیب کا جو علم دیا جا رہا ہے وہؐمِن وعَن تم لوگوں کو بتاتے ہیں اور اس معاملے میں بخل سے کام نہیں لیتے۔
[اس آیت پر مولانا شبیر احمد عثمانیؒ کاتفسیری حاشیہ ملاحظہ ہو:
’’یعنی یہ پیغمبر ہر قسم کے غیوب کی خبر دیتا ہے‘ ماضی سے متعلق ہوں یا مستقبل سے‘ یا اللہ کے اسماء و صفات سے یا احکامِ شرعیہ سے یا مذاہب کی حقیقت و بطلان سے یا جنّت و دوزخ کے احوال سے یا واقعات بعد الموت سے‘ اور ان چیزوں کے بتلانے میں ذرا بخل نہیں کرتا نہ اجرت مانگتا ہے۔‘‘]
آیت ۲۵{وَمَا ہُوَ بِقَوْلِ شَیْطٰنٍ رَّجِیْمٍ (۲۵)} ’’اور یہ کسی شیطانِ مردودکا قول نہیں ہے۔‘‘
شیاطین جن چونکہ غیب کے نام پر جھوٹی سچی خبریں کاہنوں تک پہنچاتے رہتے تھے اس لیے یہاں اس امکان کی بھی تردید کر دی گئی ہے۔ یعنی تم لوگ یہ مت سمجھو کہ جنوں میں سے کسی شیطان نے انہیںؐ کوئی پٹی پڑھا دی ہے (معاذ اللہ)۔ یہی مضمون سورۃ الحاقہ میں زیادہ وضاحت اور زیادہ ُپرزور انداز میں یوں بیان ہوا ہے: {فَلَآ اُقْسِمُ بِمَا تُبْصِرُوْنَ(۳۷) وَمَا لَا تُبْصِرُوْنَ(۳۹)}
’’مَیں قسم کھاتا ہوں ان چیزوں کی جو تم دیکھتے ہو اور ان کی بھی جو تم نہیں دیکھتے ہو‘‘۔ (یہاں پر مَا تُبْصِرُوْنَ سے شاعری وغیرہ مراد ہے ‘اس لیے کہ شاعر لوگ اپنی سوچ اور فکر سے شعر کہتے ہیں‘ جبکہ مَا لَا تُبْصِرُوْنَ کے الفاظ میں شیاطین جن کی خبروں کی طرف اشارہ ہے جو وہ کاہنوں تک پہنچاتے تھے)۔ {اِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ (۴۰) وَّمَا ہُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍط قَلِیْلًا مَّا تُؤْمِنُوْنَ (۴۱) وَلَا بِقَوْلِ کَاہِنٍ ط قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ(۴۲)}’’یہ قول ہے رسولِ کریم کا۔اور یہ کسی شاعر کا قول نہیں ہے ۔کم ہی ہے جو تم یقین کرتے ہو ۔اور نہ ہی یہ کسی کاہن کا کلام ہے ۔کم ہی ہے جو تم غور کرتے ہو۔‘‘
آیت۲۶{فَاَیْنَ تَذْہَبُوْنَ (۲۶)} ’’تو تم کدھر چلے جا رہے ہو؟‘‘
تمہاری بھلائی اور کامیابی تو اس میں تھی کہ تم لوگ ہمارے رسول (ﷺ) پر ایمان لاتے اور انؐ کی طرف جو وحی آ رہی ہے اس کے نور سے اپنے دلوں کو منور کرتے ‘لیکن تم لوگوں نے اس کے بجائے اُن ؐکی تکذیب اور مخالفت کی روش اپنا رکھی ہے۔ تم لوگ کبھی سنجیدگی سے غور تو کرو کہ اللہ کے کلام سے منہ موڑ کر تم لوگ کس طرف جارہے ہو۔
آیت ۲۷{اِنْ ہُوَ اِلَّا ذِکْرٌ لِّلْعٰلَمِیْنَ(۲۷)}’’نہیں ہے یہ مگر تمام جہان والوں کے لیے ایک یاد دہانی۔‘‘
قرآن مجید اس مفہوم میں ذکر یعنی یاد دہانی ہے کہ یہ انسان کی فطرت میں پہلے سے موجود حقائق کی یاد تازہ کرتا ہے۔ دراصل انسان فطری طور پر اللہ تعالیٰ کی ذات اور توحید کے تصوّر سے آشنا ہے‘ مگر دنیا میں رہتے ہوئے اگر انسان کی فطرت پر غفلت کے پردے پڑ جائیں تو وہ اللہ تعالیٰ کو بھول جاتا ہے۔ سورۃ الحشر کی آیت۱۹ میں اس حوالے سے ہم اللہ تعالیٰ کا یہ حکم پڑھ چکے ہیں:{وَلَا تَـکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللہَ فَاَنْسٰىہُمْ اَنْفُسَھُمْ ط} کہ اے اہل ِایمان! تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو اللہ کو بھول گئے تو اللہ نے انہیں اپنے آپ سے ہی غافل کر دیا۔ بہرحال اس غفلت کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایمان باللہ سے متعلق وہ حقائق جو ہر انسان کی فطرت میں مضمر ہیں پس ِپردہ چلے جاتے ہیں۔ چنانچہ قرآنی تعلیمات انسانی فطرت میں موجود ان تمام حقائق کو خفتہ (dormant)حالت سے نکال کر پھر سے فعال(active)کرنے میں اس کی مدد کرتی ہیں۔
آیت ۲۸{لِمَنْ شَآئَ مِنْکُمْ اَنْ یَّسْتَقِیْمَ(۲۸)}’’ہر اُس شخص کے لیے جو تم میں سے سیدھے راستے پر چلنا چاہے۔‘‘
یعنی قرآن ہر اُس شخص کے لیے یاد دہانی ہے جو ہدایت کا طالب ہو اور پورے خلوص سے چاہتا ہو کہ وہ گمراہی سے نکل کر ہدایت کے راستے پر آ جائے۔
آیت۲۹ {وَمَا تَشَآئُ وْنَ اِلَّآ اَنْ یَّشَآئَ اللہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ(۲۹)} ’’اور تمہارے چاہے بھی کچھ نہیں ہوسکتا جب تک کہ اللہ نہ چاہے جو تمام جہانوں کا ربّ ہے۔‘‘
یہ مضمون قرآن مجیدمیں بہت تکرار کے ساتھ آیا ہے ‘یعنی کسی انسان کو ہدایت تبھی ملے گی جب وہ خود بھی اس کے لیے ارادہ کرے اور پھر اللہ بھی اسے ہدایت دینا چاہے۔ ظاہر ہے ہر کام اللہ ہی کے اذن اور اسی کی توفیق سے ہوتا ہے ۔لیکن ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ کی توفیق کے ساتھ انسان کی اپنی خواہش اور طلب کا شامل ہونا بہت ضروری ہے‘کیونکہ اللہ تعالیٰ زبردستی کسی پر ہدایت مسلط نہیں کرتا۔ اگر ایسا ہو تو پھر سزا اور جزا کا سارا فلسفہ ہی غلط ہو جاتا ہے۔
سُوْرَۃُ الْاِنْفِطَارِتمہیدی کلمات
سورۃ الانفطار اور سورۃ التکویر کا آپس میں جوڑے کا تعلق ہے اور یہ تعلق اس حد تک گہرا ہے کہ ان دونوں کا مضمون بھی ایک ہے‘ بلکہ متعلقہ مضمون دونوں سورتوں کے ملنے سے مکمل ہوتا ہے۔ دونوں سورتوںکی ابتدائی آیات میں قیامت کے حالات کا نقشہ دکھایا گیا ہے۔ سورۃ التکویر میں ان حالات کی تفصیل تیرہ آیات میں بیان ہوئی ہے جبکہ سورۃ الانفطار میں وہی مضمون صرف چار آیات میں سمٹ گیا ہے۔ اس مضمون کے بعد سورۃ التکویر میں جو اہم خبر دی گئی ہے وہ یہ ہے: {عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّا اَحْضَرَتْ(۱۴)} جبکہ سورۃ الانفطار میں اس کے مقابلے یہ آیت آئی ہے : {عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ وَاَخَّرَتْ(۵)} ۔یہاں تک تو دونوں سورتوں کا مضمون ایک جیسا ہے۔ اس کے بعد سورۃ التکویر میں قرآن مجیدکی صداقت کا حوالہ دے کر مخاطبین سے یہ چبھتا ہوا سوال کیا گیا ہے : {فَاَیْنَ تَذْھَبُوْنَ(۲۶)} کہ تم لوگ نہ اللہ کے رسولؐ کی سیرت کو دیکھتے ہو ‘نہ حق کو پہچاننے کی زحمت گوارا کرتے ہو۔آخر تم لوگ جاکدھر رہے ہو؟ لیکن وہاں یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ جب قیامت برپا ہو جائے گی اور ہر شخص کو اس کے اعمال کی تفصیل سے آگاہ کر دیا جائے گا تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ چنانچہ اس موضوع پر روشنی یہاں سورۃ الانفطار میں ڈالی گئی ہے کہ اگر یہ راستہ اختیار کرو گے تو اس منزل پر پہنچو گے اور اگر دوسرا طرزِعمل اپنائو گے تو اس انجام سے دوچار ہو گے۔
آیت ۱{اِذَا السَّمَآئُ انْفَطَرَتْ (۱)} ’’جب آسمان پھٹ جائے گا۔‘‘
آیت۲{وَاِذَا الْکَوَاکِبُ انْتَثَرَتْ(۲)}’’اور جب تار ے بکھر جائیں گے۔‘‘
آیت ۳{وَاِذَا الْبِحَارُ فُجِّرَتْ(۳)} ’’اور جب سمندرپھاڑ دیےجائیں گے۔‘‘
آیت۴{وَاِذَا الْقُبُوْرُ بُعْثِرَتْ(۴)} ’’اور جب قبریں تلپٹ کر دی جائیں گی۔‘‘
آیت ۵{عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ وَاَخَّرَتْ(۵)} ’’(اُس وقت) ہر جان‘ جان لے گی کہ اُس نے کیا آگے بھیجا اور کیا پیچھے چھوڑا۔‘‘
اُس دن ہر شخص کو واضح طور پر معلوم ہو جائے گا کہ اُس نے کیا کیا اچھے یا بُرے اعمال آگے بھیجے تھے اور ان کے آثار و نتائج کی شکل میں کیا کچھ وہ اپنے پیچھے دنیا میں چھوڑ آیاتھا۔ اس مضمون کی وضاحت قبل ازیں سورۃ القیامہ کی آیت ۱۳ کے تحت بھی کی جا چکی ہے۔ اس کے علاوہ اس آیت کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ قیامت کے دن ہر انسان کو بتا دیا جائے گا کہ اس نے کس شے کو آگے کیا تھااور کس شے کو پیچھے رکھا تھا۔ یعنی دنیا اور آخرت میں سے اس نے کس کو مقدم رکھا تھا اور کس کومؤخر کیا تھا۔ آیت کے اس مفہوم سے واضح ہوتا ہے کہ قیامت کے دن کسی انسان کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار کلی طور پر اس ’’طرزِعمل‘‘ پر ہے جو وہ اپنی زندگی میں دنیا اور آخرت کے بارے میں اختیار کرتا ہے۔ یعنی انسان کا ایک طرزِعمل یہ ہو سکتا ہے کہ میر ااصل مطلوب و مقصود تو آخرت ہے‘ دنیا کا کیا ہے جو مل گیا وہی غنیمت ہے اور اگر کبھی نہ بھی ملے تب بھی کوئی بات نہیں۔ دوسرا ممکنہ رویّہ یہ ہے کہ میرا اصل مقصود تو دنیا ہے ‘اس کے ساتھ ساتھ اگر آخرت بھی مل جائے تو اچھا ہے‘ چاہے وہ کسی کی سفارش سے مل جائے یا کسی اور حیلے سے۔ لیکن میری پہلی ترجیح بہرحال دنیا اور اس کا مال و متاع ہے‘ اور زندگی میں میری ساری تگ و دو اسی کے لیے ہے۔
آیت ۶{یٰٓــاَیُّہَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الْکَرِیْمِ(۶)} ’’اے انسان !تجھے کس چیز نے دھوکے میں ڈال دیا ہے اپنے ربّ کریم کے بارے میں۔‘‘
ظاہر ہے یہ کام شیطان لعین ہی کرتا ہے۔ وہی انسان کو اللہ تعالیٰ کے بارے میں دھوکے میں ڈالتا ہے۔ اس حوالے سے قرآن مجید میں بنی نوع انسان کو باربار خبردار کیاگیا ہے ‘مثلاً سورئہ لقمان میں فرمایا: {وَلَا یَغُرَّنَّکُمْ بِاللہِ الْغَـرُوْرُ(۳۳)} کہ وہ بڑا دھوکے باز تم لوگوں کو اللہ کے بارے میں کہیں دھوکے میں مبتلا نہ کر دے! لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمام تر تنبیہات کے باوجود اکثر انسان شیطان کے اس جال میں پھنس جاتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے شیطان مختلف لوگوں کے ساتھ مختلف چالیں اور حربے آزماتا ہے۔ مثلاً ایک دیندار شخص کو اہم فرائض سے ہٹانے کے لیے وہ نوافل اور ذکر واذکار کاپُرکشش پیکج پیش کر سکتا ہے کہ تم اقامت ِدین اور دوسرے فرائض ِدینی کا خیال چھوڑو اوراللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے راتوں کو جاگنے اور تہجد کی پابندی پر توجّہ دو۔ عام مسلمانوں کے لیے اس کی بہت ہی تیر بہدف چال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ غفورٌ رحیم ہے‘ وہ کوئی خردہ گیر نہیں کہ اپنے مؤمن بندوں کو چھوٹی چھوٹی خطائوں پر پکڑے۔ وہ تو بہت بڑے بڑے گناہگاروں کو بھی معاف کر دیتا ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں بے عملی کی سب سے بڑی وجہ شیطان کی یہی چال ہے ‘ بلکہ اس دلیل کے سہارے اکثر لوگ گناہوں کے بارے میں حیران کن حد تک جری اور بے باک ہو جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے آیت زیر مطالعہ ہم میں سے ہر ایک کو دعوتِ فکر دے رہی ہے کہ اے اللہ کے بندے! تمہاری بے عملی کی وجہ کہیں یہ تو نہیں ہے کہ شیطان نے تمہیں اللہ تعالیٰ کی شانِ غفاری کے نام پر دھوکے میں مبتلا کر دیا ہے؟
آیت ۷{الَّذِیْ خَلَقَکَ فَسَوّٰىکَ فَعَدَلَکَ(۷)} ’’ جس نے تمہیں تخلیق کیا‘ پھر تمہارے نوک پلک سنوارے‘ پھر تمہارے اندر اعتدال پیدا کیا۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے تمہارے قوائے جسمانی اور قوائے نفسیاتی میں ہر طرح سے اعتدال اور توازن پیدا کیا ہے۔ گویا تمہاری تخلیق اللہ تعالیٰ کی صفت ِعدل کی مظہر ہے۔ تمہاری تخلیق کے اندر توازن اور خوبصورتی کا یہ پہلو گویا اس حقیقت پر گواہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر معاملے میں عدل و اعتدال کو پسند فرماتا ہے اور یہ کہ وہ تم انسانوں کے ساتھ آخرت میں بھی عدل و انصاف کا معاملہ فرمائے گا ‘تاکہ گناہگاروں کو قرار واقعی سزا مل سکے اور نیکوکار اپنی نیکیوں کا پورا پورا بدلہ پائیں ۔تمہاری مبنی براعتدال تخلیق و ترکیب کا تقاضا تو یہ تھا کہ تمہارے خیالات و اعمال بھی اعتدال اور توازن کا مظہر ہوتے ‘مگر تم لوگ ہو کہ اپنے خالق کے بارے میں ہی دھوکے میں مبتلا ہوگئے ہو۔ تم اس کی شانِ غفاری کو تو بہت اہتمام سے یاد رکھتے ہو جبکہ اس کی صفت ِعدل سمیت بہت سی دوسری صفات کو بالکل ہی بھولے ہوئے ہو ۔ تمہاری یہ بے اعتدالی تمہارے اس خالق کو بالکل پسند نہیں ہے جس نے تمہاری تخلیق کا خمیر ہی اعتدال سے اٹھایا ہے۔
آیت ۸{فِیْٓ اَیِّ صُوْرَۃٍ مَّا شَآئَ رَکَّبَکَ (۸)} ’’پھر جس شکل میں اُس نے چاہا تجھے ترکیب دے دیا۔‘‘
اللہ تعالیٰ ہر انسان کی شکل اور اس کے مختلف اعضاء اپنی مرضی و مشیت کے مطابق بناتا ہے۔ ظاہرہے اس معاملے میں کسی انسان کو کوئی اختیار نہیں۔ اس موضوع کی مناسبت سے مجھے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نعتیہ اشعار یاد آ گئے ہیں۔ آپؓ حضورﷺ کی شان میں فرماتے ہیں:
وَاَحْسَنُ مِنْکَ لَمْ تَرَ قَطُّ عَیْنِیْ
وَاَجْمَلُ مِنْکَ لَمْ تَلِدِ النِّسَاءُ
خُلِقْتَ مُبَرَّأً مِنْ کُلِّ عَیْبٍ
کَاَنَّکَ قَدْ خُلِقْتَ کَمَا تَشَاءُ
’’آپﷺ سے زیادہ حسین میری آنکھ نے کبھی نہیں دیکھا اور آپ ؐ سے بڑھ کر جمیل عورتوں نے جنا ہی نہیں۔آپؐ ہر عیب اور نقص سے مبراپیداہوئے ہیں۔ گویا آپؐ اس طرح پیدا ہوئے ہیں جس طرح آپؐ نے خود چاہا۔‘‘
آیت ۹{کَلَّا بَلْ تُکَذِّبُوْنَ بِالدِّیْنِ(۹)}’’ہرگز نہیں! بلکہ اصل میں تم جزا و سزا کا انکار کررہے ہو۔‘‘
تم لوگ یہ جو اللہ تعالیٰ کی شانِ غفاری کے قصیدے پڑھ رہے ہو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ تم اس کی رحمت اور بخشش پر واقعتاًبہت پختہ یقین بھی رکھتے ہو ‘بلکہ اصل بات یہ ہے کہ اپنے اس فلسفے کی آڑ میں تم جزا و سزاکا انکار کرنا چاہتے ہو۔ اسی طرح کے ایک ’’قصیدے‘‘ کی یہ جھلک ملاحظہ کیجیے اور پھر فیصلہ کیجیے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور شانِ غفاری کا اقرار ہے یا اس کے فلسفہ جزا و سزا کا مذاق : ؎
عصیاں سے کبھی ہم نے کنارا نہ کیا
پر تُو نے دل آزردہ ہمارا نہ کیا
ہم نے تو جہنّم کی بہت کی تدبیر
لیکن تیری رحمت نے گوارا نہ کیا!اگر کوئی شخص واقعی پوری دیدہ دلیری سے جہنّم کی تدبیر اور کوشش کر رہا ہے تو اللہ تعالیٰ کے عدل کا تقاضا تو یہی ہے کہ اس کی خواہش پوری کرتے ہوئے اسے جہنّم میں جھونک دیاجائے ۔ چنانچہ ایسے خیالات و نظریات کے حامل لوگ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور شانِ غفاری کی مَن مانی تشریح کرکے نہ صرف اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں‘ بلکہ عملی طور پر جزا و سزا کے فلسفہ کا ہی انکار کررہے ہیں۔
آیت ۱۰{وَاِنَّ عَلَیْکُمْ لَحٰفِظِیْنَ(۱۰)} ’’حالانکہ تم پرنگران (فرشتے) مقرر ہیں۔‘‘
آیت۱ ۱{کِرَامًا کَاتِبِیْنَ(۱۱)}’’جو بڑے باعزّت لکھنے والے ہیں۔‘‘
آیت ۱۲{یَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ(۱۲)}’’وہ جانتے ہیں جو کچھ تم کر رہے ہو۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے ساتھ دو فرشتے بطور نگران مقرر کر رکھے ہیں جو اُس کا ایک ایک عمل لکھ رہے ہیں۔ اب اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو انسانوں کا محاسبہ کرنا منظور نہیں ہے تو گویا وہ یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ اس کا فرشتوں کو بطور نگران مقرر کرنا اور ان فرشتوں کا ایک ایک انسان کے ایک ایک عمل کا ریکارڈ مرتّب کرنا سب کارِعبث ہے۔ ایسے خیالات کے حامل لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ’’کارِعبث‘‘ اللہ تعالیٰ کے شایانِ شان نہیں‘ وہ احتساب ضرور کرے گا اور اس احتساب کے نتائج بھی ضرور نکلیں گے‘ جن کا ذکر اگلی آیات میں ہے:
آیت ۱۳{اِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِیْ نَعِیْمٍ(۱۳)}’’یقیناً نیکوکار بندے نعمتوں میں ہوں گے۔‘‘
آیت ۱۴{وَّاِنَّ الْفُجَّارَ لَفِیْ جَحِیْمٍ(۱۴)}’’اوریقیناً فاسق و فاجر جہنّم میں ہوں گے۔‘‘
آیت ۱۵{یَّصْلَوْنَہَا یَوْمَ الدِّیْنِ(۱۵)}’’ داخل ہوں گے اس میں جزا و سزا کے فیصلے کے دن۔‘‘
آیت ۱۶{وَمَا ہُمْ عَنْہَا بِغَـآئِبِیْنَ(۱۶)}’’اور وہ اس سے کہیں غائب نہیں ہو سکیں گے۔‘‘
ظاہر ہے جہنّم سے بھاگ نکلنے کا نہ کوئی راستہ ہوگا اور نہ ہی کسی میں بھاگ جانے کی طاقت ہو گی۔
آیت ۱۷{وَمَـآ اَدْرٰىکَ مَا یَوْمُ الدِّیْنِ(۱۷)}’’اورکیاتمہیں کچھ معلوم ہے کہ روزِ جزا کیا ہے؟‘‘
آیت ۱۸{ثُمَّ مَـآ اَدْرٰىکَ مَا یَوْمُ الدِّیْنِ(۱۸)}’’پھر کیاتمہیں کچھ اندازہ ہوا ہے کہ روزِجزا کیا ہے؟‘‘
آیت ۱۹{یَوْمَ لَا تَمْلِکُ نَفْسٌ لِّـنَفْسٍ شَیْئًاط} ’’جس روزکسی جان کو کسی دوسری جان کے لیے کوئی اختیار حاصل نہیں ہو گا ۔‘‘
{وَالْاَمْرُ یَوْمَئِذٍ لِّلہِ(۱۹)} ’’اور امرکل کا کل اس دن اللہ ہی کے ہاتھ میں ہو گا۔‘‘
اُس دن سرِمحشر پکارا جائے گا : {لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ ط} (المؤمن: ۱۶) کہ اے نسلِ انسانی کے لوگو‘دیکھو! آج حکومت‘ اختیار اور اقتدارکس کے ہاتھ میں ہے؟ اور اس سوال کا جواب بھی پھر خود ہی دیا جائے گا : {لِلہِ الْوَاحِدِ الْقَھَّارِ} (المؤمن:۱۶) یعنی آج کے دن اختیار کُل کا کُل اللہ ہی کے پاس ہے جو اکیلا ہے اور سب پر غالب ہے۔ اس دن انسانوں کی اکثریت کو بے بسی اور نفسانفسی کی جس کیفیت کا سامنا ہو گا ‘ سورۃ البقرۃ میں اس کا نقشہ یوں دکھایا گیا ہے : {وَاتَّقُوْا یَوْمًا لَّا تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْئًا وَّلَا یُقْبَلُ مِنْہَا شَفَاعَۃٌ وَّلَا یُؤْخَذُ مِنْہَا عَدْلٌ وَّلَا ہُمْ یُنْصَرُوْنَ(۴۸)} ’’اور ڈرو اُس دن سے کہ جس دن کام نہ آ سکے گی کوئی جان کسی دوسری جان کے کچھ بھی اور نہ کسی سے کوئی سفارش قبول کی جائے گی اور نہ کسی سے کوئی فدیہ قبول کیا جائے گا اور نہ انہیں کوئی مدد ہی مل سکے گی۔‘‘
tanzeemdigitallibrary.com © 2024