(بصائر) ارضِ فلسطین: تاریخی پس منظر اور ہولناک مستقبل - ڈاکٹر اسرار احمد

7 /

ارضِ فلسطین
تاریخی پس منظر اور ہولناک مستقبل
ڈاکٹر اسرار احمدؒ

ڈیڑھ سو برس تک فلسطین یہودیوں سے خالی رہا۔ اس کے بعد ایران کا بادشاہ سائرس منظر عام پر آیا‘ جس نے عراق پر حملہ کر کے نمرود کو شکست دی اور یہود کو واپس جانے کی اجازت دے دی۔ اس وقت حضرت عزیر علیہ السلام کی تجدیدی و اصلاحی تحریک کے ذریعے بنی اسرائیل کی تطہیر( (purgation کی گئی اور مشرکانہ اعمال سے ان کو پاک کیا گیا۔ معبد سلیمانی کو انہوں نے دوبارہ تعمیر کیا اور اسے ’’معبد ثانی‘‘(Second Temple) کا نام دیا۔ اس کے بعد ان پر یونانی حملہ آور ہوئے۔ سکندر اعظم یہیں سے گزر کر انہیں تہس نہس کرتا ہوا پنجاب تک آیا اور اس کے سپہ سالار سلیوکس کی ان پر حکومت رہی۔ کچھ عرصے بعد رومیوں نے یہاں پر حکومت قائم کر لی۔البتہ انہوں نے براہِ راست قبضہ نہیں کیا بلکہ وہاں پر مقامی بادشاہتیں رہنے دیں۔ بہرحال اس زمانے میں ایک عظیم مکابی سلطنت قائم ہوئی‘ جس نے ۱۷۰ ق م سے ۶۳ ق م تک پھر بالکل وہی نقشہ دکھا دیا جو حضرت دائود اور حضرت سلیمان علیہما السلام کے زمانے کا تھا۔ یہ سوبرس ایسے ہیں کہ پورے فلسطین پر یہودیوں کا قبضہ رہا۔ پھر ان کے اندر زوال آیا اور اللہ تعالیٰ نے رومیوں کو ان پر مسلط کیا۔ حضرت مسیح علیہ السلام اس زمانے میں مبعوث کیے گئے۔ یہودیوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کا کفر کیا۔ انہیں ۳۳ یا ۳۴ عیسوی میں اللہ تعالیٰ نے آسمان پر اٹھا لیا۔ اللہ تعالیٰ نے یہود کو یوں سزا دی کہ ۷۰ء میں ایک رومن جنرل ٹائٹس نے ان پر حملہ کیا اوریروشلم کی دوبارہ اینٹ سے اینٹ بجا دی۔سیکنڈ ٹیمپل گرا دیا گیا۔۷۰ء سے آج ۲۰۰۴ء تک ۱۹۳۴ءبرس سے یہودیوں کا خانہ کعبہ گرا ہوا ہے۔ ٹائٹس نے ایک دن میں ایک لاکھ ۳۳ہزاریہودی یروشلم میں قتل کیے اور ۶۶ ہزار کو وہ قیدی بنا کر یورپ لے گیا۔ یہودیوں کو فلسطین سے نکلنے کا حکم دے دیا گیا۔۱۹۱۷ء تک یہودی فلسطین سے بے دخل رہے ہیں۔
یہ ساری داستان میں نے آپ کو اس لیے بتائی ہے کہ یہودی کہتے ہیں کہ فلسطین کی سرزمین اللہ نے ہمیں دی ہے اور اس پر ہمارا پیدائشی حق ہے۔ آج بدقسمتی سے لبرل مسلمان‘ یہاں تک کہ میں حیران ہوں کہ بعض وسیع النظر علماء بھی ان کے اس دعوے کو تسلیم کر رہے ہیں۔ اس کے لیے قرآن کے ان الفاظ کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ{... الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَۃَ الَّتِیْ کَتَبَ اللہُ لَـکُمْ ...} (المائدۃ:۲۱)  ’’وہ ارضِ مقدس جو تمہارے لیے لکھ دی گئی ہے۔‘‘ لیکن اُس وقت یہ چیز اس سے مشروط تھی کہ اگر جہاد کر کے فتح کر لو گے تو یہ تمہاری ہوگی۔ جب انہوں نے جہاد و قتال نہیں کیا تو یہ وعدہ ختم ہو گیا۔ بہرحال یہاں پر ان کا حق نہیں ہے ۔وہ دو ہزار سال پہلے نکال دیے گئے تھے۔ پوری دنیا میں ان سے شدید نفرت کی جاتی تھی۔ عیسائی یورپ کے اندر انہیں ستایا اور مارا جاتا تھا۔ ا ن کو شہروں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی ۔ان کی بستیاں شہروں سے باہر ہوتی تھیں‘ صرف دو گھنٹے کاو قت مقرر تھا کہ ضروریاتِ زندگی کی خرید و فروخت کے لیے آجا سکتے ہو۔ یہ حال تھا ان کا!
فلسطین پر یہودیوں کے دعوے میں عیسائیوں کا بھی ایک بہت بڑا اور مؤثّر حلقہ ان کے ساتھ ہے۔ عیسائیوں کو دو فرقوں یعنی کیتھولکس اور پروٹسٹنٹس میں تقسیم کرنے والے بھی یہودی تھے‘ ورنہ پہلے سب عیسائی ایک پوپ کو ماننے والے تھے۔ پوپ کے خلاف بغاوت یہودیوں نے کروائی اور سب سے پہلے اس کا ظہور انگلستان میں ہوا۔ انگریزوں نے اپنا چرچ ’’چرچ آف انگلینڈ‘‘ کے نام سے علیحدہ کر لیا‘ جو پوپ کے تحت نہیں تھا۔ سب سے پہلا پروٹسٹنٹ ملک بھی برطانیہ تھا اور وہیں پر یہودیوں نے سب سے پہلا ’’بینک آف انگلینڈ‘‘ قائم کیا تھا۔ اس سے پہلے دنیا میں کوئی بینک نہیں تھا‘ کوئی سودی معاملہ نہیں تھا۔ پوپ کے زیر اثر کسی بھی علاقے میں سود کی اجازت نہیں تھی۔ یوں پروٹسٹنٹس یہودیوں کے آلۂ کار بن گئے۔ سو سال پہلے تک پروٹسٹنٹس کا امام برطانیہ تھا‘ لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد سے یہ جگہ امریکہ نے لے لی ہے۔
عیسائیوں کا معاملہ یہ ہے کہ ارضِ فلسطین سے ان کا بھی تعلق ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جہاں پیدا ہوئے‘ وہ مقام بیت اللحم ہی تھا۔ پھر جہاں انہوں نے تبلیغ کی‘ وہ سارا علاقہ فلسطین ہی کا تو ہے۔ عیسائیوں کے قول کے مطابق اسی یروشلم شہر کے اندر انہیں صلیب دی گئی۔ تو عیسائیوں کی نظر میں فلسطین مذہبی اعتبار سے ان کا اہم ترین اور مقدّس ترین علاقہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے کے ایک ہزار سال بعد انہوں نے ارضِ مقدّس کو مسلمانوں کے قبضے سے واگزار کرانے کے لیے صلیبی جنگیں(crusades)شروع کیں۔ ان کروسیڈز کے اندر انتہائی خون ریزی ہوئی اور بحیرئہ روم کے ساحلی علاقوں میں مسلمانوں کی اکثر بستیاں تباہ و برباد ہو گئیں۔۱۰۹۹ءمیں عیسائیوں نے یروشلم فتح کر لیا اور وہاں لاکھوں مسلمانوں کو قتل کیا۔ یورپی مؤرخین لکھتے ہیں کہ جب عیسائی فاتحین کے گھوڑے یروشلم میں داخل ہوئے تو ان گھوڑوں کے گھٹنوں تک خون کا دریا بہ رہا تھا۔ مسلمانوں پر ایسا عذاب آیا۔اللہ کا شکر ہے کہ اٹھاسی سال بعد ۱۱۸۷ءمیں اُس نے ایک مردِ مجاہد صلاح الدین ایوبیؒ کو اٹھایا۔ انہوں نے عیسائیوں کو شکست دی اور یروشلم واپس لے لیا۔ اس کے بعد بھی تین چار کوششیں ہوئی ہیں۔ کروسیڈز ایک دفعہ نہیں بلکہ کئی دفعہ ہوئی ہیں۔ تاہم‘ اب امریکہ کے پروٹسٹنٹ عیسائی کہہ رہے ہیں کہ فیصلہ کن صلیبی جنگ شروع ہونے والی ہے‘ جب مسلمانوں کے ایک ایک بچے کو فلسطین سے نکال دیا جائے گا اور یہ زمین پاک کر دی جائے گی۔ The Philadelphia Trumpet کی اشاعت بابت اگست ۲۰۰۱ء میں اس کے ایڈیٹر کی طرف سے یہ عبارت شائع ہوئی ہے :
‘‘Most people think the crusades are a thing of the past over forever. But they are wrong. Preperations are being made for a final crusade, and it will be the bloodiest of all! (Gerald Flurry)’’

’’اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ صلیبی جنگ ماضی کی بات ہے جو ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکی۔ لیکن وہ غلط سمجھتے ہیں۔ آخری صلیبی جنگ کے لیے تیاریاں ہو رہی ہیں اور وہ سب سے زیادہ خون ریز ہو گی!‘‘
اب مستقبل کیا ہے؟ آئندہ کے حالات سامنے آ گئے ہیں۔ ۷۰ء سے نکالے ہوئے یہودی جن کی انتہائی تعذیب (persecution) ہوئی ہے----- پہلے کروسیڈز میں جہاں مسلمانوں کا قتل عام ہوا ہے ‘ اس کے برابر یہودیوں کا بھی ہوا ہے‘ کیونکہ عیسائیوں کو یہودیوں سے بھی شدید نفرت تھی۔ ایک قوم (عیسائی) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا مانتی ہے جبکہ دوسری (یہود) انہیں حرام زادہ‘ واجب القتل‘ کافر اور مرتد ٹھہراتی ہے (نعوذ باللہ)۔ تو ان دونوں قوموں میں کوئی مصالحت کیسے ہو سکتی ہے؟ یہ تاریخ کا معجزہ ہے۔ یہ یہودیوں کی محنت ‘ جدّوجُہد‘ کوشش‘ سازشی انداز‘ منصوبہ بندی اور دوراندیشی کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے عیسائیوں کو ‘جو یہودیوں کےخون کے پیاسے تھے اور ان سے انتہائی نفرت کرتے تھے‘ رفتہ رفتہ دو فرقوں میں تقسیم کر دیا۔ پروٹسٹنٹس کو انہوں نے اپنا آلۂ کار بنایا اور آج پوری عیسائی دنیا ان کے قبضہ ٔ قدرت میں ہے۔ یہودیوں کا ایجنڈا کیا ہے؟ ’’آرمیگاڈان‘‘ کی ایک خبر دی گئی ہے کہ بہت بڑی جنگ ہوگی۔ وہ چاہتے ہیں کہ یہ جلد از جلد ہو جائے‘ جس کی حدیث میں بھی خبر ہے’’الملحمۃ الکبریٰ‘‘۔ تاریخ انسانی کی یہ سب سے بڑی جنگ کئی سالوں پر پھیلی ہوگی۔ یہ جنگ اگرچہ چھوٹے سے علاقے میں ہوگی‘ لیکن خون ریزی کے اعتبار سے دنیا کی تاریخ کی کوئی جنگ اس کے مساوی نہیں ہوگی۔چنانچہ یہود چاہتے ہیں کہ پہلے تو آرمیگاڈان کے نتیجے میں گریٹر اسرائیل قائم ہوجائے۔ اس کے لیے کوشش ہو رہی ہے۔
ذرا سوچیے کہ امریکہ نے عراق پر کیوں حملہ کیا! ابھی تک کوئی وجہ سامنے نہیں آ سکی۔ کوئی وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار برآمد نہیں ہوئے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ تیل کے لیے کیا گیا۔ قطعاً نہیں! یہ گریٹر اسرائیل کی طرف پہلا قدم ہے۔ ۱۹۹۱ء کی خلیجی جنگ کے اتحادی کمانڈر انچیف نے بعد میں صاف کہہ دیا تھا کہ ’’ہم نے اسرائیل کی حفاظت کے لیے جنگ کی۔‘‘ یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ ہم نے گریٹر اسرائیل بنانا ہے۔ پہلے کہتے تھے کہ فرات تک ہمارا علاقہ ہے‘ اب کہتے ہیں دریائے دجلہ بھی ہمارا ہے۔ سقوطِ بغداد کے وقت اسرائیلی وزیراعظم شیرون نے صاف کہہ دیا تھا کہ عنقریب عراق پر ہمارا قبضہ ہوگا۔ یہ ساری تیاری اس کے لیے ہے۔ یہ یہودی ہیں جو بش اور اس کے ساتھیوں کو چابی دے رہے ہیں۔ یہ اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کا واقعہ کرنے والے بھی یہودی ہیں۔ امریکہ میں اب اس بارے میں کوئی تحقیق نہیں ہو رہی کہ نائن الیون کا واقعہ کس نے کیا تھا! شروع میں کچھ کارروائی ہوئی تھی ‘ لیکن اس کی بعض باتیں لیک ہونے پر معاملہ فوراً ٹھپ کر دیا گیا‘ کیونکہ وہ کُھرا تو اسرائیل تک پہنچ رہا تھا۔ بہرحال یہودیوں کا ایجنڈا یہ ہے کہ سب سے پہلے آرمیگاڈان جلد از جلد ہو جائے جس کے نتیجے میں گریٹر اسرائیل قائم ہو ۔ وہاں پر وہ اپنا تھرڈ ٹمپل تعمیر کریں گے‘ جس کے لیے مسجد اقصیٰ اور گنبد صخرہ(Dome of the Rock) دونوں کو گرایا جائے گا۔ پھر وہاں پر تخت دائود لاکر رکھا جائے گا اور اس پر وہ ’’مسیحا‘‘ آ کر بیٹھے گا جس کا انہیں انتظار ہے۔
پروٹسٹنٹ عیسائی بھی یہی کہتے ہیں کہ آرمیگاڈان جنگ جلد ہو‘ گریٹر اسرائیل قائم ہو اور تھرڈ ٹمپل بنے۔ پروٹسٹنٹ عیسائیوں اور کیتھولکس کے درمیان مذہب کے نام پر جتنی خون ریزی ہوئی ہے‘ دنیا میں کبھی نہیں ہوئی۔ یورپ میں اس پر جس قدر خانہ جنگیاں ہوئی ہیں‘ اس کا آپ تصوّر نہیں کر سکتے۔ سارے پروٹسٹنٹس یہاں سے مار مار کر بھگا دیے گئے‘ جو امریکہ میں جا کر آباد ہوئے۔ یورپ کا بڑا حصہ کیتھولکس پر مشتمل ہے۔ سپین‘ اٹلی‘ فرانس ‘ جرمنی سب کیتھولکس ہیں۔ پروٹسٹنٹس نے امریکہ کے اندر اپنی نئی دنیا بسائی ہے اور وہاں وہ غالب ہیں۔ یہودی اور پروٹسٹنٹ عیسائی برطانیہ اور امریکہ کونیا اسرائیل کہتے ہیں‘ اس لیے کہ یہاں انہیں طاقت اور کنٹرول حاصل ہے۔ بہرحال کیتھولکس کی چونکہ پروٹسٹنٹس کے ساتھ دشمنی ہے اس لیے درحقیقت اب یورپ میں آخری صلیبی جنگ کی تیاری ہو رہی ہے۔ یورپ کو دوبارہ متحد کیا جا رہا ہے‘ جیسے کبھی رومن ایمپائر ہوتی تھی اور پورا یورپ تقریباً ایک بادشاہ کے تحت ہوتا۔ یہ اصل میں پوپ کی طرف سے کروایا جا رہا ہے تا کہ بہت بڑی رومن کیتھولک ایمپائر قائم ہو سکے۔ نیٹو سے علیحدہ ہو کر یورپ کی اپنی الگ فوج بنانے کی تیاریاں بھی اسی منصوبے کا حصہ ہیں۔ پروٹسٹنٹس کا کہنا یہ ہے کہ کیتھولک عیسائی فلسطین کو فتح کرنا چاہتے ہیں‘ تا کہ یہودیوں اور مسلمانوں کو ختم کر کے وہاں پر کیتھولک عیسائی ریاست قائم ہو جائے۔
سابقہ اُمّت ِ مسلمہ بنی اسرائیل جن کو اللہ تعالیٰ نے کتابِ ہدایت اور کتاب ِشریعت تورات عطا کی تھی‘ تقریباً دو ہزار برس تک اس دنیا میں اللہ کی نمائندہ قوم کے منصب پر فائز رہی۔ انہیں ۱۴۰۰ قبل مسیح میں تورات عطا کی گئی تھی اور ۶۱۰ عیسوی میں آنحضورﷺ کی بعثت تک وہ اُمّت ِمسلمہ تھے۔۶۲۴ء میں تحویل قبلہ کا حکم اس امر کی واضح علامت اور اعلان تھا کہ سابقہ اُمّت ِمسلمہ‘ جس کا مرکز بیت المقدس تھا‘ اب اپنی اس حیثیت سے معزول کر دی گئی ہے اور جو نئی اُمّت اس مقام پر فائز کی گئی ہے یعنی اُمّت محمدﷺ ‘ اس کا مرکز خانہ کعبہ ہے۔ حضورِ اکرم ﷺ کی بعثت تک بنی اسرائیل کی دو ہزار سالہ تاریخ تھی جبکہ تقریباً ساڑھے چودہ سو برس اس اُمّت محمدؐ کے ہیں۔ اس پس منظر میں فلسطین کے حوالے سے ایک بڑا پیارا جملہ میری نظر سے گزرا تھا کہ :
Too small geography but too big a history
یعنی فلسطین جغرافیہ کے اعتبار سے تو بہت چھوٹی جگہ ہے‘ اس کا رقبہ ہماری سابقہ ریاست بہاول پور کے برابر ہے‘ لیکن تاریخ اس کی پانچ ہزار سال تک پہنچی ہوئی ہے۔ اس کے مانند دنیا کے کسی علاقے کی تاریخ محفوظ نہیں ہے۔ اس کا آغاز آج سے چار ہزار سال قبل انبیاء کرام علیہم السلام کے سلسلے سے ہوتا ہے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام عراق سے ہجرت کر کے فلسطین میں آئے تھے۔ ان کی قوم کی طرف سے دشمنی کی انتہا یہ تھی کہ آگ میں ڈال دیے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے آگ کو حکم دیا تو وہ گل و گلزار بن گئی۔
اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فوراً فیصلہ کر لیا کہ اب میں یہاں سے ہجرت کرجائوں گا۔ یہ اللہ کا قانون رہا ہے کہ جب کسی قوم کی طرف کوئی رسول بھیجا جائے اور وہ قوم اس رسول کی جان لینے پر آمادہ ہو جائے تو پھر اسے ہجرت کی اجازت ہو جاتی ہے۔ حضورﷺ کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا تھا۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فلسطین کو اپنا مسکن اور مرکز بنا لیا۔ ان کے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام کا مقام بھی یہیں رہا۔ پھر ان کے بیٹے یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پوتے حضرت یعقوب علیہ السلام نے بھی یہیں قیام کیا۔ان تین انبیاء کے تسلسل کے ساتھ وہاں قیام کو بھی بنی اسرائیل اپنی تاریخ کا حصّہ سمجھتے ہیں۔
حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے میں بنی اسرائیل مصر چلے گئے اور چار پانچ سو سال تک وہاں رہے۔ اس دوران فلسطین کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں رہا۔ بنی اسرائیل کے لیے یہ شدید ترین غلامی اور تعذیب کا دور تھا‘ جس سے انہیں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعے سے نجات دلائی۔ پانچ چھ سو سال قبل محض ستر افراد کا جو قافلہ مصر میں داخل ہوا تھا‘ اب اس کی تعداد چھ لاکھ تک پہنچ چکی تھی۔ وہاں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام اس قافلے کو لے کر فلسطین کی سرحد پر پہنچ گئے اور اپنی قوم کو حکم دیا کہ اب جنگ کے لیے تیار ہوجائو اور اِس ارضِ مقدس میں داخل ہو جائو۔ لیکن پوری قوم نے کورا جواب دے دیا۔ قرآن مجید میں (سورۃ المائدۃ)ارشاد ہے : {اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَہَآ اَبَدًا مَّا دَامُوْا فِیْہَا فَاذْہَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَا اِنَّا ہٰہُنَا قٰـعِدُوْنَ (۲۴)} یعنی’’ہم ہر گز داخل نہیں ہوں گے ارضِ فلسطین میں کبھی بھی جب تک کہ جو لوگ آج اس پرقابض ہیں وہ وہاں سے نکل نہ جائیں‘ تو (اے موسیٰ!) جائو تم اور تمہارا رب لڑو‘ ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔‘‘ اس پر اللہ تعالیٰ کا فیصلہ آ گیا کہ انہوں نے بزدلی دکھائی ہے: {فَاِنَّہَا مُحَرَّمَۃٌ عَلَیْہِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃًج یَـتِیْہُوْنَ فِی الْاَرْضِ ط فَلَا تَاْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ(۲۶)} ’’پس ارضِ مقدس چالیس برس تک ان پر حرام کر دی گئی ہے۔ اب وہ اس زمین کے اندر بہکتے اور بھٹکتے پھریں گے۔ (اے موسیٰ !) اب تم افسوس نہ کرو ان فاسقوں کے بارے میں (کہ ان کا یہ حشر ہو رہا ہے)۔‘‘
ان چالیس برسوں کے دوران حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کا انتقال ہو گیا۔ وہ ساری نسل جو کہ مصر میں غلام رہی تھی‘ ختم ہو گئی۔ نئی نوجوان نسل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جانشین حضرت یوشع بن نون کی سرکردگی میں رفتہ رفتہ پورا فلسطین فتح کر لیا۔ البتہ ایک بہت بڑی غلطی یہ ہوئی کہ پورے فلسطین پر کوئی ایک مرکزی حکومت قائم نہیں کی گئی۔ بارہ میں سے دس قبیلوں نے اپنی چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم کر لیں جبکہ دو قبیلوں کا تاریخ میں سراغ نہیں ملتا کہ کہاں گئے۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ وہ بھارت میں آ کر آباد ہوئے۔ یہاں کا برہمن وہی یہودی طبقہ ہے جو اُس وقت برہما یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نام لے کر یہاں آیا تھا۔ {صُحُفِ اِبْرٰہِیْمَ وَمُوْسٰی} کا قرآن مجید میں دو جگہ ذِکر ہے‘ لیکن وہ آج ہمارے پاس کہیں نہیں ہیں۔ تورات بگڑی تگڑی ہے تو سہی نا۔ زبور محرف حالت میں سہی‘ لیکن موجود تو ہے۔ انجیل کیسی بھی ہو‘ وجود تو رکھتی ہے۔ لیکن آج دنیا میں ’’صحف ابراہیم‘‘ کے نام سے کوئی کتاب نہیں ہے۔ ایک رائے ہے کہ ہندوئوں کے اپنشد درحقیقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صحیفے ہیں۔ یہ رائے مَیں نے اپنشد کا کچھ مطالعہ کر کے قائم کی ہے۔بہرحال انہوں نے دس چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم کر لیں‘ جو باہم دست و گریباں رہنے لگیں۔ آس پاس کی مشرک قومیں ایک دوسرے کے خلاف ان سے مدد لیتیں۔ ہوتے ہوتے ان قوموں کا اتنا اثر و و نفوذ ہو گیا کہ تقریباً پورے فلسطین پر وہ قابض ہو گئے اور یہود کو اپنے گھرں سے نکال باہر کیا۔ یہ تین سو برس کی تاریخ ہے جو ان حملوں میں بیان ہوئی ہے۔
پھر انہیں ہوش آیا کہ ہمیں تو جہاد کرنا چاہیے۔ چنانچہ وقت کے نبی سے کہا گیا کہ ہمارے لیے ایک سپہ سالار مقرر کر دیں۔ انہوں نے حضرت طالوت کو معیّن کیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت طالوت کو جالوت کے مقابلے میں فتح دی۔ یہاں سے یہود کی تاریخ کا زریں باب شروع ہوا‘ جو میرے نزدیک ان کی خلافت ِ راشدہ ہے۔ ۱۰۰۰ قبل مسیح سے ۹۰۰ قبل مسیح تک محیط تقریباً ۱۰۰ برس میں پہلے حضرت طالوت تھے‘ پھر ان کے داماد حضرت دائود علیہ السلام آئے اور پھر ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام ۔ اس کے بعد ان کا ایک دورِ زوال شروع ہو گیا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے دو بیٹوں کے درمیان یہ سلطنت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی: شمالی سلطنت اسرائیل اور جنوبی سلطنت یہودیہ۔ شمالی سلطنت کا دارالخلافت سامریہ جبکہ جنوبی کا یروشلم تھا۔ آپس کی لڑائی کا نتیجہ یہ ہوا کہ ۷۰۰ قبل مسیح میں آشوریوں نے اسرائیل کی شمالی سلطنت ختم کر دی‘ صرف چھوٹی سی جنوبی سلطنت یہودیہ رہ گئی۔ پھر ان کے ہاں فسق و فجور کا بازار گرم ہوا تو اللہ تعالیٰ نے عراق کے بادشاہ اور اُس وقت کے نمرود بخت نصر(Nabuchad Nazzar) کے ہاتھوں ان پر زبردست عذاب مسلط کیا۔حضرت سلیمان علیہ السلام نے جو معبد (ہیکل سلیمانی) بنایا تھا‘ اسے مکمل طور پر مسمار کر دیا گیا۔ لاکھوں افراد یروشلم میں موقع پر قتل ہوئے جبکہ چھ لاکھ یہودی مَردوں‘ عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا کر بابل لے جایاگیا۔
یہودیوں‘ رومن کیتھولکس اور پروٹسٹنٹ عیسائیوں تینوں کی نگاہ اس وقت اس چھوٹے سے علاقے پر ہے۔ یہ سارا معاملہ اب ارضِ فلسطین پر آ گیا ہے۔ اس کا حل کیا ہے؟ ایک اصولی اور مبنی بر انصاف حل تو یہ ہے جو شروع سے تحریک آزادی ٔفلسطین (P.L.O) کا مطالبہ تھا اور اب بھی ’’حماس‘‘ کا مطالبہ ہے کہ اسرائیل کا قیام ناجائز طور پر ہوا تھا‘ ہمارے اوپر ظلم کر کے یہاں یہودیوں کو آباد کیا گیا‘ اس لیے اسرائیل کو ختم ہونا چاہیے اور پورے کا پورا فلسطین اس کے اصل رہنے والوں کو دیا جائے۔ لیکن اصل فیصلہ تو طاقت کرتی ہے۔ ع ’’ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات!‘‘ امریکہ ان کی پشت پر ہے۔ یورپ سے بھی کبھی کبھی امیدیں بنتی ہیں کہ وہ کچھ یہودیوں کے خلاف اور فلسطینیوں کے حق کی بات کر دیتے ہیں لیکن ان کا بھی اصل ایجنڈا یہی ہے کہ یہاں سے یہودیوں اور مسلمانوں سب کو نکال کر رومن کیتھولک حکومت قائم کی جائے۔بہرحال یہ صورتِ حال ہے۔ ہمارے ہاں بھی کہا جاتا ہے کہ بھئی زمینی حقائق کودیکھو! ایک زمانہ ہوا کہ ’’پی ایل او‘‘ نے ہاتھ ڈال دیے کہ اچھا ٹھیک ہے‘ اسرائیل بھی رہے لیکن ایک فلسطینی ریاست بھی بن جائے۔ اب اس صورتِ حال کو بھی بارہ تیرہ سال گزر گئے ہیں۔ بظاہر اس مسئلے کا کوئی حل ہے ہی نہیں۔ اس چھوٹے سے جغرافیہ پر اتنے لوگوں کی نگاہیں ہیں اور بے چارہ مسلمان وہاں پر پِٹ رہا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو موجودہ حالات میں پی ایل او کی بات بھی کسی درجے میں صحیح ہے۔ امریکہ کے سامنے سر جھکانے کے علاوہ اور کیا چارئہ کارہے!
بہرحال دنیا کی تازہ ترین صورت حال کے مطابق ’’آرمیگاڈان‘‘ اب زیادہ دور نہیں ہے۔ اس کے لیے یورپ بھرپور تیاریاں کر رہا ہے۔آج کل ایک عجیب بات قبرص کے حوالے سے بھی دیکھنے میں آ رہی ہے۔کوفی عنان صاحب وہاں بار بار آ رہے ہیں۔ اصل میں نیٹو افواج کا صدر مقام پہلے جرمنی تھا‘ وہاں سے یہ کوسوو کی طرف منتقل ہوا۔ اب وہاں سے ان کا اگلا قدم قبر ص ہے۔ وہیں اصل ’’جمپنگ پیڈ‘‘ بنے گا۔ فلسطین یہاں سے بہت قریب ہے‘ لہٰذا یہیں سے حملہ ہوگا‘ اور اس حملے میں اتنی خون ریزی ہوگی کہ اس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے‘ کیونکہ جب تک یہود مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخرہ کو نہ گرائیں ان کا تھرڈ ٹمپل نہیں بنتا۔ قبضہ ان کے پاس ہے اور دنیا کی عظیم ترین عسکری قوت ان کی پشت پر ہے۔ اب اس سے بڑی بات کیا ہوگی کہ اسرائیلی وزیراعظم شیرون نے فیصلہ کیا ہے کہ غزہ کی پٹی پر قائم چند یہودی بستیوں کو تو ہم خالی کر دیں گے‘ جس کا رقبہ محض ۱۴۰مربع میل ہے‘ لیکن مغربی کنارے پر ہم اپنی بستیاں نہیں گرائیں گے اور وہ یہودی علاقہ ہی رہےگا۔ امریکہ نے بھی اس منصوبے کی منظوری دے دی ہے۔ اس سے آگے یہ معاملہ ہوا ہے کہ صدر حسنی مبارک نے اپنے حالیہ دورئہ امریکہ کے دوران بش کو یہ دھمکی دی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امن کا عمل طویل ہونے اور روڈ میپ پر اسرائیل کے کاربند نہ ہونے سے عرب دنیا میں بے چینی اور اضطراب بڑھ رہا ہے۔ عوام یہ صورت حال کب تک برداشت کریں گے! عرب نوجوانوں کے اندر یہودیوں کی نفرت رچی ہوئی ہے۔ لہٰذا وہ اٹھیں گے اور پھر ہولناک قتل عام ہوگا۔ اس میں سب سے پہلے امریکہ کے ایجنٹوں کی صورت میں جو مسلمان حکمران بیٹھے ہوئے ہیں وہ اپنے نوجوانوں کو ختم کریں گے۔ ملّت ِ عرب کے لیے انتہائی خون ریز معاملہ آنے والا ہے۔ یہ ہے وہ ہولناک منظر جسے حضورﷺ نے الملحمۃ العظمیٰ اور الملحمۃ الکبریٰ یعنی تاریخ انسانی کی عظیم ترین جنگ سے تعبیر کیا ہے۔ مستقبل سوائے اس کے اور کوئی نہیں۔ کوئی راستہ نہیں۔
(۲۰۰۴ء کا ایک اخباری کالم)