(حکمتِ قرآنی) لقمان حکیم کی وصیتیں (۲) - مقصود الحسن فیضی

7 /

لقمان حکیم کی وصیتیں(۲)مقصود الحسن فيضى

لقمان حکیم کی وصیتیں
اب ہم ان نصیحتوں کا بالترتیب ذکر کررہے ہیں جو لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کو کی تھیں۔ ان کا ذکر سورۃ لقمان کی آیات ۱۳ تا ۱۹ میں ہے۔ سب سے پہلے ہم ان آیات اور ان کے ترجمے کا مطالعہ کر لیتے ہیں:
{وَاِذْ قَالَ لُقْمٰنُ لِابْنِہٖ وَہُوَ یَعِظُہٗ یٰبُنَیَّ لَا تُشْرِکْ بِاللہِ ط اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ(۱۳) وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ ج حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ وَہْنًا عَلٰی وَہْنٍ وَّفِصٰلُہٗ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْکُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْکَ ط اِلَیَّ الْمَصِیْرُ(۱۴) وَاِنْ جَاہَدٰکَ عَلٰٓی اَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ لا فَلَا تُطِعْہُمَا وَصَاحِبْہُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًاز وَّاتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ ج ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(۱۵) یٰـبُنَیَّ اِنَّہَآ اِنْ تَکُ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَکُنْ فِیْ صَخْرَۃٍ اَوْ فِی السَّمٰوٰتِ اَوْ فِی الْاَرْضِ یَاْتِ بِہَا اللہُ ط اِنَّ اللہَ لَطِیْفٌ خَبِیْرٌ(۱۶) یٰبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ وَاْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاصْبِرْ عَلٰی مَـآ اَصَابَکَ ط  اِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ(۱۷) وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًاط اِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ(۱۸) وَاقْصِدْ فِیْ مَشْیِکَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِکَ ط اِنَّ اَنْکَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیْرِ(۱۹) }
’’ یاد کرو جب لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کر رہا تھا تو اس نے کہا:’’بیٹا! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا ‘ حق یہ ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کی خود تاکید کی ہے ‘ اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے‘(اسی لیے ہم نے اسے نصیحت کی کہ )میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا‘ میری ہی طرف تجھے پلٹنا ہے۔ لیکن اگر وہ تجھ پر دبائو ڈالیں کہ میرے ساتھ تو کسی اورکو شریک کرے جسے تو نہیں جانتا تو تو ان کی بات ہرگز نہ مان ‘دنیا میں ان کے ساتھ نیک برتائو کرتا رہ‘ مگر پیروی اس شخص کے راستے کی کرنا جس نے میری طرف رجوع کیا ہے‘ پھر سب کو پلٹنا میری ہی طرف ہے‘ اس وقت میں تمہیں بتادوں گا کہ تم کیسے عمل کرتے رہے ہو۔ (اور لقمان نے کہا :) بیٹا! کوئی چیز رائی کے دانہ برابر بھی ہو اور کسی چٹان میں یا آسمانوں یا زمین میں کہیں چھپی ہوئی ہو ‘ اللہ اسے نکال لائے گا ‘وہ باریک بیں اور باخبر ہے۔ بیٹا! نماز قائم کر‘ نیکی کا حکم دے‘ بدی سے منع کر‘ اور جو مصیبت بھی پڑے اس پر صبر کرو‘ یہ وہ باتیں ہیں جن کی بڑی تاکید کی گئی ہے۔ اور لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کر‘نہ زمین میں اکڑ کر چل ‘ اللہ کسی خود پسند اور فخر جتانے والے شخص کو پسند نہیں کرتا۔اپنی چال میں اعتدال اختیار کر اور اپنی آواز ذرا پست رکھ‘ سب آوازوں سے زیادہ بری آواز گدھے کی آواز ہوتی ہے۔‘‘
پہلی وصیت:شرک کی قباحت
حضرت لقمان کی اپنے بیٹے کو سب سے پہلی وصیت شرک کی قباحت سے متعلق تھی ‘جس میں توحید کی تاکید بھی یقیناً شامل ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{وَاِذْ قَالَ لُقْمٰنُ لِابْنِہٖ وَہُوَ یَعِظُہٗ یٰبُنَیَّ لَا تُشْرِکْ بِاللہِ ط اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ(۱۳) }
’’اور جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئےکہا:اے میرے بیٹے!اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا‘بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے ۔‘‘
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حکیم و دانا باپ وہ ہے جو اپنی اولاد کوسب سے پہلے اللہ کی معرفت کی تعلیم دیتا ہے۔یہ سب سےاہم وصیت ہے اور اسی کوبچوں کی تربیت کی اساس ہونا چاہیے۔ یہی اللہ تعالیٰ کا انسان پر سب سےپہلا اور سب سےعظیم حق ہے۔ اللہ تعالیٰ کے شکر کا سب سے اہم میدان اس کی توحید کو بجالانا ہے‘جیساکہ آگے اللہ تعالیٰ نےفرمایا:{اَنِ اشْکُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْکَ ط اِلَیَّ الْمَصِیْرُ(۱۴) }’’(ہم نے انسان کو یہ وصیت کی کہ )میرا اور اپنےوالدین کاشکریہ ادا کرو‘میری طرف ہی (تمہیں) لوٹنا ہے‘‘۔ یہیں سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ اللہ ربّ العالمین کی نعمتوں کی ناشکری اور ناقدری کی سب سے قبیح صورت اس کے ساتھ شرک کرنا ہے۔
حضرت لقمان نےشرک کو ظلم عظیم قرار دیا‘کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کےساتھ بھی ظلم ہے اور خود اپنےاوپربھی ظلم ہے۔ ظلمکی تعریف ہے:’’وضع الشيء في غير محله‘‘ یعنی کسی چیز کو اس کی اصل جگہ پر نہ رکھا جائے۔چونکہ عبادت صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہےلہٰذا اگر یہ حق کسی اور کو دے دیا گیا تو گویااسے اس کی اصل جگہ سے کسی اور جگہ رکھ دیا گیا۔
شرک کر کے بندہ اپنے اوپر بھی ظلم کرتا ہے جس کی متعددوجوہات ہیں:
(۱) شرک ایسا گناہ ہے جس کی بخشش نہیں ۔ مشرک بندہ اگر بغیر توبہ کیے اس دنیا سے چلا جائے تو اللہ تعالیٰ اسے کبھی معاف نہیں فرمائےگا۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:{اِنَّ اللہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ ج وَمَنْ یُّشْرِکْ بِاللہِ فَقَدِ افْتَرٰٓی اِثْمًا عَظِیْمًا(۴۸)}(النساء) ’’بے شک اللہ تعالیٰ اس بات کو معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بنایا جائے‘اور اس کے علاوہ گناہوں کو جس کے لیے چاہتا ہے معاف کر دیتا ہے ۔‘‘
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((الظُّلْمُ ثَلَاثَةٌ: فَظُلْمٌ لَا يَغْفِرُهُ اللّٰہُ ، وَظُلْمٌ يَغْفِرُهُ اللّٰهُ ، وَظُلْمٌ لَا يَتْرُكُهُ اللّٰہُ ، فَأَمَّا الظُّلْمُ الَّذِي لا يَغْفِرُهُ اللّٰہُ فَالشِّرْكُ، وَقال اللّٰہُ: "اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ"وَأَمَّا الظُّلْمُ الَّذِي يَغْفِرُهُ اللّٰہُ فَظُلْمُ الْعِبَادِ لأَنْفُسِهِمْ فِيمَا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ رَبِّهِمْ، وَأَمَّا الظُّلْمُ الَّذِي لا يَتْرُكُهُ اللّٰہُ فَظُلْمُ الْعِبَادِ بَعْضِهِمْ بَعْضًا حَتَّى يَدِينَ لِبَعْضِهِمْ مِنْ بَعْضٍ))(۱۵)

’’ ظلم تین طرح کاہے:ایک ظلم وہ ہےجسےاللہ تعالیٰ کبھی معاف نہیں کرےگا‘اور دوسرا ظلم وہ ہےجسےاللہ تعالیٰ معاف کر دےگا‘اورتیسرا ظلم وہ ہےجسےاللہ تعالیٰ نہیں چھوڑے گا۔جس ظلم کواللہ تعالیٰ کبھی معاف نہیں کرےگاوہ شرک ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’بلاشبہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔‘‘اور جس ظلم کو اللہ معاف کردےگاوہ بندوں کااپنی جانوں پر ظلم(گناہ) کرناہے‘ جو اُن کا اور اُن کے رب کےدرمیان کامعاملہ ہوگا۔اور جس ظلم کواللہ نہیں چھوڑےگاوہ بندوں کاایک دوسرےپر ظلم کرناہے‘(اور اسےاللہ تعالیٰ اس وقت تک نہیں چھوڑےگا)یہاں تک کہ انہیں ایک دوسرےسےبدلہ لےکرنہ دےدے۔‘‘
(۲) اس برائی کی موجودگی میں ہدایت و امن کا حصول ممکن نہیں ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْٓا اِیْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓئِکَ لَہُمُ الْاَمْنُ وَہُمْ مُّہْتَدُوْنَ(۷۲)}(الانعام)
’’جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو شرک کے ساتھ آلودہ نہیں کیا ‘انہی کے لیے امن ہے اوروہی ہدایت یافتہ ہیں ۔‘‘
(۳) شرک سے تمام اعمال برباد ہو جاتے ہیں۔ارشادِ ربانی ہے:
{وَلَوْ اَشْرَکُوْا لَحَبِطَ عَنْہُمْ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۸۸) }(الانعام)
’’اور اگر یہ حضرات (مذکورہ انبیاء)بھی شرک کرتے تو ان کے تمام اعمال ضائع ہوجاتے۔‘‘
نیز فرمایا:
{وَلَقَدْ اُوْحِیَ اِلَیْکَ وَاِلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکَ ج لَئِنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَلَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ(۶۵) }(الزمر)
’’(اے نبی ﷺ!)یقیناً آپ کی طرف بھی اور آپ سے پہلے (کے تمام نبیوں ) کی طرف بھی یہ وحی کی گئی ہے کہ اگر آپ نے کسی کو اللہ کا شریک بنایا تو بلاشبہ آپ کا عمل ضائع ہو جائے گا اور یقیناً آپ خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے ۔‘‘
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےمروی ہےکہ رسول اللہﷺ نےفرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ((أَنَا أَغْنَى الشُّرَكَاءِ عَنِ الشِّرْكِ، مَنْ عَمِلَ عَمَلًا أَشْرَكَ فِيهِ مَعِي غَيْرِي، تَرَكْتُهُ وَشِرْكَهُ)) (۱۶) ’’مَیں شریکوں میں سے شرک سے سب سے زیادہ بے نیاز ہوں‘(لہٰذا ) جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس میں میرے ساتھ کسی اور کو بھی شریک کردیا ‘مَیں اُسے اور اُس کے شرک کو چھوڑ دوں گا(یعنی اس کا وہ عمل باطل ہوگا اور اس پر اسے کوئی اجر نہیں ملے گا) ۔‘‘
(۴) مشرک پر جنّت حرام اور جہنم واجب ہو جاتی ہے اور حشر میں اس کا کوئی معین ومددگار نہیں ہوگا۔فرمان الٰہی ہے:
{اِنَّـہٗ مَنْ یُّشْرِکْ بِاللہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللہُ عَلَـیْـہِ الْجَنَّـۃَ وَمَاْوٰىہُ النَّارُط وَمَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ(۷۲)} (المائدة)
’’ بے شک جو کوئی اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے گا تو اللہ نے اس پر جنّت حرام کردی ہے‘اور اس کا ٹھکانا جہنم ہی ہے‘اور (ایسے )ظالموں کا کوئی مددگار نہ ہوگا۔‘‘
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:((مَنْ مَاتَ يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ النَّارَ))’’ جسے اس حال میں موت آئی کہ وہ اللہ کے ساتھ کچھ بھی شریک کرتا تھا‘وہ آگ میں داخل ہوگا۔‘‘(۱۷)
شرک کی انہی قباحتوں کی وجہ سے ہر نبی اور رسول نے اپنی اُمّت کو اس کبیرہ گناہ سے روکا۔بلکہ شرک کی مذمت تمام انبیاء و رُسل علیہم السلام کی دعوت کا بنیادی اور مرکزی نکتہ رہا۔اللہ وحدہ لاشریک کا فرمان ہے:
{وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ج}(النحل:۳۶)
’’اور ہم نے ہر اُمّت میں ایک رسول (اس پیغام کے ساتھ) بھیجا کہ (لوگو!)صرف اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت (اس کے سوا معبودوں) کی عبادت سے بچو ۔‘‘
دوسری وصیت: والدین کے ساتھ حسن سلوک
{ وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ} ’’اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کی خاص تاکید کی ہے۔‘‘
چونکہ نوجوان عموماً حقوق و واجبات کی اہمیت کو محسوس نہیں کرتے اس لیے توحید کے بعد دوسری وصیت والدین کے ساتھ حسن سلوک کے بارے میں ہے۔والدین کے حقوق کی ادائیگی سے نوجوان کے دل میں بقیہ حقوق کی ادائیگی اور ان کے احترام کا جذبہ بھی پیدا ہوگا ‘ جیسے کہ دیگر رشتہ داروں اور پڑوسیوں وغیرہ کے حقوق ۔
اس بارے میں مفسرین کا اختلاف ہے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک حضرت لقمان کی وصیتوں کے ضمن میں ہے یا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے!سلسلہ کلام کے لحاظ سے پہلے قول کی تائید ہوتی ہے کہ حضرت لقمان نے جہاں اپنے بیٹے کواللہ تعالیٰ کے حق کی وصیت کی وہیں والدین کے حق کی بھی وصیت کی‘ جس میں والدہ کے حق کو والد کے حق پر مقدّم رکھا۔ قرآن وحدیث میں بھی یہ امر اسی طرح بیان ہوا ہے کہ متعدد جگہ جہاں اللہ کی عبادت کی تاکید ہے وہیں والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کی بھی تاکید وارد ہے۔البتہ اسلوب کے لحاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ قرآن حکیم میں دیگر مقامات پر بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے حق(توحید) کے بیان کے بعد والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے۔چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْنًاط وَاِنْ جَاہَدٰکَ لِتُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَاط اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(۸)} (العنكبوت)
’’اور ہم نے انسان کو وصیت کی کہ اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرو۔اور اگر وہ تمہیں میرے ساتھ اسے شریک بنانے پر مجبور کریں جس کے بارے میں تمہیں کچھ علم نہیں تو ان کی اطاعت مت کرنا۔میری طرف ہی تم سب کو لوٹنا ہے‘پھر مَیں تمہیں تمہارے اعمال کی خبر دوں گا۔‘‘
ایک اور مقام پرفرمانِ الٰہی ہے:
{وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ اِحْسٰنًاط حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ کُرْہًا وَّوَضَعَتْہُ کُرْہًاط وَحَمْلُہٗ وَفِصٰلُہٗ ثَلٰثُوْنَ شَہْرًاط} (الاحقاف:۱۵)
’’ اور ہم نے انسان کو وصیت کی کہ اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔اُس کی ماںنےتکلیف کےساتھ اسےاٹھایا اور مشقت کےساتھ اسے جنم دیا۔اور اس کے حمل اور دودھ چھڑانےکی مدّت تیس مہینےتھی۔‘‘
بہرحال جو بھی صورت ہو ‘ خواہ یہ حضرت لقمان حکیم کی وصیت کا حصہ ہو جیسا کہ سیاق و سباق کا تقاضا ہے‘ یا فائدہ کے لیے اللہ ربّ العالمین کی طرف سے اضافہ ہو جیسا کہ اسلوب کلام کا تقاضا ہے‘ ہر صورت میں اصل مقصد والدین کے حق کی وضاحت ہے جس کا حاجت مند ایک جوان ہر ماحول میں ہوتا ہے۔
اس مقام پر والدین کے حقوق کے ضمن میں تین اہم باتیں بیان ہوئی ہیں:
(۱) والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم۔ یہ حکم قرآن مجید کے اور بھی کئی مقامات پر بیان ہواہے۔ سورۃ العنکبوت اور سورۃ الاحقاف کی آیات اوپر گزر چکی ہیں۔ مزید مقامات ملاحظہ ہوں:
{وَاعْبُدُوا اللہَ وَلَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا وَّبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا}(النساء:۳۶)
’’ اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔‘‘
ایک اور جگہ فرمایا:
{قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمْ عَلَیْکُمْ اَلَّا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا وَّبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاج} (الانعام:۱۵۱)
’’آپ کہہ دیجیے کہ آؤ میں تمہیں وہ چیزیں پڑھ کر سناؤں جن کو تمہارے رب نے تم پر لازم فرما دیا ہے(دوسرے ترجمہ کے مطابق تم پر حرام کردیا ہے)۔وہ یہ کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔‘‘
ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے:
{وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاط} (الإسراء:۲۳)
’’اورآپ کے رب نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔‘‘
یہ ایسا حکم ہے جو پہلےرسولوں کی شریعت میں بھی رہا ہے۔بنی اسرائیل سے اس ضمن میں پختہ عہد لیا گیا تھا:
{وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللہَ قف   وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا} (البقرۃ:۸۳)
’’اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ وعدہ لیا کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔‘‘
احادیث میں بھی والدین کےساتھ حسن سلوک کی ترغیب اور فضیلت بکثرت وارد ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتےہیں کہ مَیں نےنبی مکرمﷺ سےسوال کیا: أَيُّ العَمَلِ أَحَبُّ إِلَى اللّٰهِ؟ کون سا عمل اللہ کو سب سےزیادہ محبوب ہے؟ آپؐ نےفرمایا:((الصَّلاَةُ عَلٰى وَقْتِهَا))’’نماز کو اُس کے وقت پر ادا کرنا۔‘‘ مَیں نے پوچھا: پھر کون سا عمل؟ آ پؐ نے فرمایا:((بِرُّ الوَالِدَيْنِ))’’والدین کےساتھ اچھابرتاؤکرنا۔‘‘ میں نے پوچھا :اس کے بعد کون سا عمل اللہ کو محبوب ہے؟آپ ﷺنےفرمایا:((الجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللّٰهِ)) ’’اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔‘‘ اور اگرمیں آپؐ سےکچھ اور اعمال کی بابت سوال کرتا تو آپؐ مجھےمزید اعمال کےبارےمیں بھی بتاتے۔(۱۸)
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے حق (نماز) کے بعد والدین کے حق کو ذکر کرکے اس کی فضیلت کو واضح فرمایا ہے۔ اس کے علاوہ جس حدیث میں ایک غار میں پھنسے ہوئے تین لوگوں کا قِصّہ مذکور ہے ‘اس سے بھی والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کی اہمیت معلوم ہوتی ہے ۔
(۲) والدہ کا حق والد سے پہلے بیان ہوا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدمت اور حسنِ سلوک میں والدہ کا مقام والد کے حق پر مقدّم ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اورسوال کیا: يَا رَسُولَ اللّٰهِ، مَنْ أَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ صَحَابَتِي؟ اےاللہ کے رسول ﷺ !لوگوں میں سےمیرے حسنِ سلوک کا سب سےزیادہ حقدارکون ہے؟آپؐ نےفرمایا:((أُمُّكَ))’’ تیری ماں‘‘اس نے پوچھا: پھر کون؟ آپؐ نے فرمایا: ((ثُمَّ أُمُّكَ))’’ پھرتیری ماں‘‘۔اُس نےسوال کیا:پھرکون؟ آپؐ نے فرمایا: ((ثُمَّ أُمُّكَ))’’پھرتیری ماں‘‘۔ اُس نے پوچھا:پھرکون؟آپؐ نےفرمایا:((ثُمَّ أَبُوكَ))’’پھر تیرا باپ۔‘‘(۱۹)
حضرت معاویہ بن حیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں مَیں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا: مَنْ أَبَرُّ؟ مَیں(سب سے زیادہ) اچھا برتاؤ کس کے ساتھ کروں؟ آپؐ نے فرمایا:((أُمَّكَ)) ’’اپنی ماں کے ساتھ‘‘۔ مَیں نے دوبارہ پوچھا:مَیں( اس کے بعد سب سے زیادہ) اچھا برتاؤ کس کے ساتھ کروں؟ آپؐ نے فرمایا:((أُمَّكَ))’’اپنی ماں کے ساتھ‘‘۔مَیں نے پھر پوچھا: مَیں (اس کے بعد سب سے زیادہ) اچھا برتاؤ کس کے ساتھ کروں؟آپؐ نے فرمایا: ((أُمَّكَ))’’اپنی ماں کے ساتھ‘‘۔ مَیں نے کہا: مَیں (اس کے بعد سب سے زیادہ) اچھا برتاؤ کس کے ساتھ کروں؟ آپؐ نے فرمایا: ((ثُمَّ أَبَاكَ، ثُمَّ الْأَقْرَبَ فَالْأَقْرَبَ))’’پھر اپنے باپ کے ساتھ‘ اور پھر قریبی سے قریبی رشتہ دار کے ساتھ (حسنِ سلوک کرو)۔‘‘(۲۰)
یہ مسئلہ کہ والدہ کا حق والد سے زیادہ ہے ‘عموماً علماء نے اس پر اہل ِعلم کا اجماع نقل کیا ہے‘اور کچھ دیگر علماء نے اسے جمہور کا قول قرار دیا ہے۔(۲۱)شارحینِ حدیث اور علمائے حدیث نے اس کے تین اسباب بیان کیے ہیں:(i) حمل (ii) وضع حمل کی تکلیف(iii) رضاعت۔ یعنی یہ تین عمل ایسے ہیں جو والدہ ہی کو برداشت کرنے پڑتے ہیں ۔اس کی دلیل سورۃ لقمان کی آیت ۱۴ اور سورۃ الاحقاف کی آیت ۱۵ ہے‘ جو ماقبل گزر چکی ہیں۔چونکہ مذکورہ تینوں کام والدہ کے ساتھ مخصوص ہیں( اس لیے اس کا مقام بھی زیادہ ہے)‘جبکہ اس کے علاوہ باقی امور میں ماں باپ دونوں شریک ہیں۔
(۳) والدین کے حقوق کی اگرچہ بڑی اہمیت ہے اور بندے پر ان کا سب سے بڑا حق ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان کے حق کو اللہ کے حق پر مقدّم رکھا جائے‘ بلکہ اللہ تعالیٰ کا حق ہر حال میں مقدّم رہے گا۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{وَاِنْ جَاہَدٰکَ عَلٰٓی اَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ لا فَلَا تُطِعْہُمَا وَصَاحِبْہُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًاز وَّاتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ ج } (لقمٰن:۱۵)
’’اور اگر وہ دونوں تجھے اس بات پر مجبور کریں کہ تو کسی ایسے کو میرا شریک بنا جس کا تجھے علم نہیں‘تو ان کی بات نہ مان‘اور دنیا میں ان کے ساتھ بھلائی کرتا رہ۔ مگر پیروی اُس شخص کے راستے کی کرنا جس نے میری طرف رجوع کیا ہے۔‘‘
یعنی خواہ وہ کتنی کوشش کریںکہ تم شرک میں مبتلا ہوجاؤ ‘ان کی بات ہرگز قبول نہ کرنا‘کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کےکاموںمیںکسی بھی مخلوق کی اطاعت نہیںکی جائےگی۔ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:((لَا طَاعَةَ فِي مَعْصِيَةِ اللّٰهِ، إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ))’’اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں‘(مخلوق کی)اطاعت تو صرف نیکی کے کاموں میں ہے۔‘‘(۲۲)
مذکورہ آیت یا سورۃ العنکبوت کی آیت۸ کے شانِ نزول میں مفسرین نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کی والدہ کاواقعہ ذکرکیاہے۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب مسلمان ہوگئے تو ان کی والدہ نے قسم کھالی کہ وہ ان کےساتھ اس وقت تک بات نہیں کریں گی اور نہ ہی کچھ کھائیں پئیں گی جب تک وہ اپنا دين ترک نہ کردیں۔ اس موقع پر حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ماںنے ان سےیہ بھی کہاکہ تم دعویٰ کرتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نےتمہیں والدین کےساتھ حسن سلوک کاحکم دیاہے ‘اور مَیں تمہاری ماں تمہیں یہ حکم دےرہی ہوںکہ تم ایسا کرو۔حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی بات نہ مانی تووہ تین دن تک بھوکی پیاس رہیں حتیٰ کہ مشقّت کی تاب نہ لاتے ہوئے بےہوش ہوگئیں۔اس وقت یہ آیات نازل ہوئیں۔(۲۳)
اگروالدین کافر اور مشرک ہو ں اور شرک اور کفرقبول کرنے لیے دباؤڈالیں تو ان کی اطاعت تو جائز نہیں ہےالبتہ اس حالت میں بھی ان کےساتھ حسن سلوک مشروع ہے‘جس کے لیےدرج ذیل اسلوب اختیار کیےجائیں گے:
(i) دستور کے مطابق ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جائے گا ‘ یعنی ان کا احترام کیا جائے۔انہیں پکارنے اور مخاطب کرنے میں احترام کو مدّ ِ نظر رکھا جائے۔جیسے ابوجان‘ امی جان وغیرہ جیسے الفاظ استعمال کیے جائیں ۔اس کی بہترین مثال ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے آپؑ کے مشرک باپ کے ساتھ مکالمہ میں نظر آتی ہے۔ آپ بار بار اپنے باپ کو یَا اَبَتِ (ابا جان!) کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔(سورئہ مریم‘ رکوع ۳)
(ii) حتی الامکان ان کی جائز ضروریات پوری کرنےکی کوشش کی جائےگی۔اس بارے میں حضرت اسما ء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا واقعہ بہت مشہور ہے کہ جب انہوں نےاپنی مشرک ماں کے ساتھ صلہ رحمی کی بابت رسول اللہ ﷺسےدریافت کیاتو آپ ﷺ نے فرمایا: ((نَعَمْ، صِلِي أُمَّكِ))’’ہاں! اپنی ماں کےساتھ صلہ رحمی کرو(یعنی ان کےساتھ اچھاسلوک کرو اور ان کی حاجت کوپوراکرو)۔‘‘(۲۴)
(iii) ان کی طرف سےآنےوالی تکلیف اور سختی پر صبر کیا جائے۔ ان کےساتھ ڈانٹ ڈپٹ والا اسلوب ہرگزاختیارنہ کیا جائے۔
(iv) ان کی ہدایت کے لیے دعا کرتےرہنا چاہیے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا(۲۴) } (الاسراء)
’’اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست کیے رکھنا ‘ اور دعا کرتے ہوئے کہتے رہنا کہ :اے میرےپروردگار ان پر اُسی طرح رحم فرما جیسا کہ انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے۔ ‘‘
تیسری وصیت: اللہ کا مراقبہ
( اس کی نگرانی اور قیامت کے دن جواب دہی کا احساس)
{ یٰـبُنَیَّ اِنَّہَآ اِنْ تَکُ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَکُنْ فِیْ صَخْرَۃٍ اَوْ فِی السَّمٰوٰتِ اَوْ فِی الْاَرْضِ یَاْتِ بِہَا اللہُ ط اِنَّ اللہَ لَطِیْفٌ خَبِیْرٌ(۱۶) }
’’(اور لقمان نے کہا : ) بیٹا! کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو اور کسی چٹان میں یا آسمانوں یا زمین میں کہیں چھپی ہوئی ہو ‘ اللہ اسے نکال لائے گا ۔ یقیناً وہ باریک بیں اور باخبر ہے۔‘‘
نوجوانوں کی طبیعت میںعموماً غصہ اورطیش ہوتا ہے ۔ وہ کوئی کام کرتے ہوئے انجام کی پرواہ نہیں کرتے۔اس کی بنا پر ایک نوجوان بعض اوقات ایسے اقدامات کر بیٹھتا ہے جن سے اس کوبڑا نقصان پہنچتا ہے۔لہٰذا اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ نوجوانوں کے دل میں اللہ تعالیٰ کی نگرانی اوراس کی خشیت کا ایسا قوی احساس پیدا کیا جائے جسے وہ جلوت و خلوت میں ملحوظِ خاطر رکھیں۔ ان کے دل میں اللہ کے سامنے جواب دہی کا خوف ہو اور اپنی ذمہ داری کا احساس بھی۔چونکہ اس مقام پر کی گئی دیگر وصیتوں پر مراقبہ کے بغیر عمل ممکن نہیں تھا‘اسی لیے حضرت لقمان نے بیٹے کو اس کی نصیحت کی۔
یہاں ’’ کوئی چیز‘‘ سے مرادبرائی یا اللہ کی نافرمانی کا کوئی کام ہے جو بندوں سے سرزد ہوتے ہیں ۔اللہ کے مراقبے اور اس کی نگرانی کی اہمیت واضح کرنے لیے حضرت لقمان نے یہاں دوباتوں کاذکرکیا ہے:
(۱)اللہ تعالیٰ کے علم کی وسعت: اللہ تعالیٰ کا علم اس قدر وسیع ہےکہ وہ کائنات میں موجود ہرچھوٹی سےچھوٹی چیزکوبھی جانتا ہے۔ کوئی باریک سےباریک چیزبھی اس سےمخفی نہیں ہے۔ ہرپوشیدہ چیز اس پرعیاں ہے۔ وہ صرف انسان کےظاہری افعال اور اقوال سے ہی باخبر نہیں بلکہ اسے انسان کے دل میں پیدا ہونےوالےایک ایک خیال تک کاپوراعلم ہے۔ ربِّ کائنات کا ارشادِ گرامی ہے:{ یَعْلَمُ خَآئِنَۃَ الْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ (۱۹) }(غافر) ’’ وہ آنکھوں کی خیانت اور جو کچھ سینے (اپنے اندر)چھپاتے ہیں اسے جانتا ہے۔‘‘
(۲) ایمان بالآخرت پر توجّہ: ایک ایسے دن کی آمد برحق ہے جس میں تمہیں ربّ ذو الجلال کے حضور حاضر ہونا ہے۔پھر وہ تمہاری ہرنیکی و بدی کاحساب لے گا اور عدل وانصاف سے بدلہ دےگا۔
ارشادِباری تعالیٰ ہے:
{وَنَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَۃِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْئًاط وَاِنْ کَانَ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِہَاط وَکَفٰی بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷)} (الانبیاء)
’’ اور قیامت کے دن ہم (لوگوں کے اعمال تولنے کے لیے )عدل و انصاف والے ترازو قائم کریں گے‘پھر کسی پر کچھ بھی ظلم نہ کیا جائےگا۔اور اگر ایک رائی کے دانے کے برابر بھی کوئی عمل ہوگا ہم اسے حاضر کریں گے‘اور ہم کافی ہیں حساب کرنے والے۔‘‘
نیز فرمایا:
{فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ(۷) وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ(۸)} (الزلزال)
’’پس جس نےذرّہ برابر کوئی نیکی کی ہوگی وہ اسےدیکھ لےگا ۔اور جس نےذرّہ برابر کوئی برائی کی ہوگی وہ اسےدیکھ لےگا۔‘‘
سورئہ لقمان کی مذکورہ آیت میں یہ تعلیم دی جا رہی ہے کہ نوجوان کی تربیت اللہ تعالیٰ کے مراقبہ اور نگرانی کے احساس پر کی جانی چاہیے۔ اس کے دل میں احساس جگانا چاہیےکہ اللہ تعالیٰ کا علم بہت وسیع ہے اور اس کی صفت ہر چیز کو محیط ہے۔تمہیں معلوم ہوناچاہیےکہ تم جوبھی کرو گے وہ سب اللہ کے علم میں ہے اور وہ تمہاری ایک ایک حرکت کو دیکھ رہا ہے۔ جب بچوں کی تربیت اس نہج پر کی جائے گی تو وہ بہت سارے گناہوں سے دوررہنے میں کامیا ب ہوں گے۔اللہ تعالیٰ کی اس شان کا بیان قرآن مجید میں متعدد جگہ ہوا ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہے:
{عٰلِمِ الْغَیْبِ ج لَا یَعْزُبُ عَنْہُ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَلَا فِی الْاَرْضِ وَلَآ اَصْغَرُ مِنْ ذٰلِکَ وَلَآ اَکْبَرُ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ(۳)} (سبا)
’’ اللہ عالم الغیب (غیب کی باتیں جانتا)ہے‘آسمانوں اور زمین میں ایک ذرہ برابر بھی کوئی چیز اس سے چھپی ہوئی نہیں ہے‘اور نہ اس سے چھوٹی اور نہ اس سے بڑی‘ہر چیز اور ہر بات ایک روشن کتاب میں لکھی ہوئی ہے۔‘‘
نیزفرمایا:
{وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُہَآ اِلَّا ہُوَط وَیَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِط وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَۃٍ اِلَّا یَعْلَمُہَا وَلَاحَبَّۃٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ(۵۹)} (الانعام)
’’اور اُسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا‘اور جو کچھ خشکی اور تری میں ہے اسے وہ جانتا ہے‘اور جو پتا بھی گرتا ہے اس کا بھی اسے علم ہے‘اور زمین کی تاریکیوں میں کوئی بھی دانہ ہو اور کوئی بھی خشک یا تر چیز ہو مگر وہ ایک واضح کتاب (لوح محفوظ) میں ہے۔‘‘
قول وعمل ہی نہیں بلکہ انسانوں کے نقش قدم بھی لکھے جا رہے ہیں:
{ اِنَّا نَحْنُ نُحْیِ الْمَوْتٰی وَنَکْتُبُ مَا قَدَّمُوْا وَاٰثَارَہُمْ ط وَکُلَّ شَیْ ئٍ اَحْصَیْنٰہُ فِیْٓ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ(۱۲)}(یٰسٓ)
’’ بے شک ہم مُردوں کو زندہ کریں گے‘اور ہم وہ اعمال لکھ رہے ہیں جنہیں لوگ آگے بھیج رہے ہیں اور ان کے قدموں کے نشانات بھی (لکھ رہے ہیں)۔اور ہم نے ہر چیز کو ایک واضح کتاب (لوح محفوظ)میں درج کر رکھا ہے۔‘‘
جب والدین اس اصول پر اپنی اولاد کی تربیت کریں گے تو قوی امید ہے کہ ان میں جلوت وخلوت ہر حال میں اللہ سے ڈرتے رہنے کی کیفیت پیدا ہو گی۔ لہٰذا والدین کو اس طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے‘کیونکہ خشیت ِالٰہی ہی نفسانی خواہشات کے آگے ایک مضبوط رکاوٹ ثابت ہوتی ہےاور کامیابی کا زینہ بنتی ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((ثَلَاثٌ مُنْجِيَاتٌ:خَشْيَةُ اللّٰهِ عَزَّوَجَلَّ فِي السِّرِّ وَالْعَلَانِيَةِ، وَالْقَصْدُ فِي الْغِنَى وَالْفَقْرِ، وَالْعَدْلُ فِي الرِّضَا وَالْغَضَبِ))(۲۵)
’’ تین کام نجات کا ذریعہ ہیں:جلوت وخلوت میں اللہ سے ڈرنا‘امیری وفقیری (دونوں حالتوں)میں میانہ روی اختیار کرنا اور رضا و غضب میں عدل وانصاف کرنا۔‘‘
حواشی
(۱۵) علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔ دیکھئے : صحيح الجامع الصغير :۶۱۳۹، الصحيحة:۱۹۲۷
(۱۶) صحيح مسلم:۵۳۔كِتَابُ الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ:۵،بَابُ مَنْ أَشْرَكَ فِي عَمَلِهِ غَيْرَ اللّٰهِ‘ ح:۲۹۸۵
(۱۷) صحيح البخاري :۱۲۳۸‘ صحیح مسلم:۹۲
(۱۸) صحيح البخاري:۵۹۷۰‘ صحیح مسلم:۸۵
(۱۹) صحيح البخاري:۵۹۷۱‘ صحیح مسلم:۲۵۴۸
(۲۰) مسند أحمد۳۳ / ۲۳۰ ‘ح:۲۰۰۲۸‘ الأدب المفرد:۳‘سنن أبي داود:۵۱۳۹
(۲۱) موعظة لقمان لولده:ص۳۵
(۲۲) صحيح البخاري:۷۲۵۷‘ صحیح مسلم:۱۸۴۰
(۲۳) صحيح مسلم:۱۷۴۸‘ سنن الترمذی: ۳۱۸۹
(۲۴) صحيح البخاري:۵۹۷۸‘ صحیح مسلم: ۱۰۰۳
(۲۵) اعتلال القلوب للخرائطي:۱۰۲‘ شعب الایمان:۶۸۶۵‘ المعجم الأوسط للطبراني: ۵۴۵۲۔

الفاظ خرائطی کے ہیں۔علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن کہاہے‘ دیکھئے الصحیحہ:۱۸۰۲