(حسن معاشرت) ادب اور احترام - مرکزی شعبۂ تربیت تنظیم اسلامی

7 /

ادب اور احترامشعبہ تعلیم و تربیت‘ تنظیم اسلامی

’’ادب‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کا اردو میں مفہوم ہم اس طرح بیان کر سکتے ہیں : ’’کسی چیز کی حد نگاہ میں رکھنا‘ حفظِ مراتب کا لحاظ رکھنا ‘تہذیب‘ شائستگی اور تمیز۔‘‘
پہلے زمانے میں استاد کو مؤدِّب بھی کہا جاتا تھا‘ یعنی’’ادب سکھانے والا‘‘۔ اُس وقت اساتذہ بچوں کومتعلقہ علوم پڑھانے کے ساتھ ’’آداب‘‘ بھی سکھایا کرتے تھے۔ یہ ایک مسلم معاشرے کی روایت تھی۔ لہٰذا علم کے ساتھ ادب بھی آنا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ کا ادب
سب سے پہلے ہمیں ’’ اللہ تعالیٰ کا ادب‘‘ کرنا آنا چاہیے۔ اللہ ربّ العزت کے ادب کا سب سے پہلا تقاضا یہ ہے کہ اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔ سورئہ لقمان کی آیت ۱۳ میں فرمانِ الٰہی ہے: {لَا تُشْرِكْ بِاللهِ}’’اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔‘‘یعنی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا جو مقام ہے‘ اُسے اسی مقا م پر رکھا جائے۔ نہ تو مخلوق میں سے کسی کا مرتبہ بڑھا کر اللہ کے برابر کیا جائے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کو اُس کے اعلیٰ مقام سے اُتار کر مخلوق کے برابر لاکر کھڑا کردیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کے ادب کا اوّلین تقاضا ہے: ’’اللہ اکبر‘‘ ( اللہ سب سے بڑا ہے)۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی کبریائی کو تسلیم کیا جائے او راس کا اظہار و اعلان کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کے ادب سے یہ بھی مراد ہے کہ اس کے سامنے عاجزی اور خشوع و خضوع اختیار کیا جائے۔ ارشادِ ربّانی ہے:
{قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ(۱) الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلَاتِہِمْ خٰشِعُوْنَ(۲)}(المؤمنون)
’’کامیاب ہو گئے اہل ایمان‘وہ جو اپنی نمازوں میں خشوع اختیار کرنے والے ہیں۔‘‘
یعنی وہ مؤمن کامیاب ہونے والے ہیں جن کی نماز کے اندر خشوع وخضوع ہوگا۔ یہ مؤمن اپنے ربّ کے سامنے جھکے رہتے ہیں۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ادب کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ اس کی تسبیح بیان کی جائے۔ اُس کا کثرت سے ذکر کیا جائے۔ اُس کی عظمت کا تصور کیا جائے۔ ہمیں چاہیے کہ اُسی کو اپنی زندگی کامحور بنالیں۔ اُسی کے نام سے جئیں اور اُسی کے نام سے مریں‘ جیسا کہ ارشادِ الٰہی ہے:
{قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (۱۶۲) }(الانعام)
’’کہیے :میری نماز‘ میری قربانی‘ میری زندگی اور میری موت اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: {كُوْنُوْا رَبّٰنِیّٖنَ}(آلِ عمران:۷۹) ’’اللہ والے بن جاؤ‘‘ ۔یعنی ایسے اللہ والے بن جاؤ کہ بس اللہ تمہارے دل پر چھا جائے۔ اٹھتے بیٹھتے وہی یاد آئے۔ اُس سے شدید ترین محبت ہوجائے۔
ہمیں اللہ تعالیٰ کے نام کا بھی ادب کرنا چاہیے۔ کسی کاغذ پر اللہ کا نام لکھا ہوا ہو تو اسے ردّی کی ٹوکری میں نہ پھینکیں۔ زمین پر کوئی کاغذ پڑا ہوا نظر آئے جس پر اللہ کا نام لکھاہوا ہو تو اسے اٹھا کر کہیں اونچی جگہ پر رکھ دیں۔ اللہ کے نام پر جھوٹی قسمیں نہ کھائیں۔ لغو اور لہو و لعب کے کاموں پر اللہ کا نام مت لیں‘ یعنی ایسے کام بسم اللہ پڑھ کر شروع نہ کریں۔ اللہ کی قسم کھا کر کبھی یہ نہیں کہنا چاہیے کہ میں یہ نیک کام نہیں کروں گا۔ مثلاً قسم کھا کر یہ کہنا کہ میں فلاں شخص کو کبھی سلام تک نہیں کروں گا یا فلاں شخص سے میں کبھی کلام نہیں کروں گا۔ارشادِ ربانی ہے :
{وَلَا تَجْعَلُوا اللهَ عُرْضَةً لِّاَیْمَانِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْا وَتَتَّقُوْا وَتُصْلِحُوْا بَیْنَ النَّاسِ ط وَ اللهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۲۲۴)} (البقرۃ)
’’اور اللہ کے نام کو تختۂ مشق نہ بنا لو اپنی قسموں کے لیےکہ بھلائی نہ کرو گے‘ پرہیزگاری نہ کرو گے اور لوگوں کے درمیان صلح نہ کراؤ گے۔ اور اللہ سننے والا‘ جاننے والا ہے۔‘‘
نبی اکرم ﷺ کا ادب
ذاتِ باری تعالیٰ کے بعد سب سے اشرف و اَرفع ذاتِ مبارکہ رسول اللہ ﷺ کی ہے۔ ع’’بعد از خدا بزرگ توئی قِصّہ مختصر‘‘۔ فرمانِ الٰہی ہے:
{یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاتَّقُوا اللہَ ط اِنَّ اللہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱) یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَـکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْہَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ (۲) } (الحجرات)
’’اے اہلِ ایمان! مت آگے بڑھو اللہ اور اُس کے رسول (ﷺ)سے اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔یقینا ًاللہ سب کچھ سننے والا سب کچھ جاننے والا ہے۔اے اہل ایمان! اپنی آواز کبھی بلند نہ کرنا نبی(ﷺ) کی آواز پر اور نہ انہیں اس طرح آواز دے کر پکارنا جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کو بلند آواز سے پکارتے ہو‘مبادا تمہارے سارے اعمال ضائع ہو جائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔‘‘
جب نبی اکرم ﷺ کا نام آئے تو درود پڑھنا چاہیے۔ کوئی بحث مباحثہ ہورہا ہو اور کسی نے کہا کہ اس معاملے میں حضور اکرم ﷺ کا یہ فرمان ہے تو بات وہیں ختم ہوجانی چاہیے اور حضور اکرم ﷺ کے فرمان کے مطابق فیصلہ ہوجانا چاہیے۔
نبی اکرم ﷺ کے ادب میں یہ بات بھی شامل ہے کہ آپ ﷺ کے صحابہ کرامؓ ‘ آپﷺ کی ازواجِ مطہرات‘ آپ ﷺ کی اولاد‘ آپ ﷺ کے رشتہ دار جو ایمان لائے‘ ان سب کا بھی لازماً ادب اور احترام کیا جائے‘ ا ن کی بھی عزت کی جائے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت میں ایک مرتبہ سخت قحط سالی ہوئی تو آپ ؓنے رسول اللہﷺ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے توسط سے دعا کرائی۔ ہمیں چاہیے کہ وقت نکال کر نبی اکرم ﷺ کی سیرتِ مبارکہ کا مطالعہ کریں۔ جتنا زیادہ ہمیں حضور اکر م ﷺ کا اپنی اُمّت پر رحمت و شفقت کا علم ہوگا‘ اور یہ معلوم ہوگا کہ آپﷺ اپنی اُمّت کی نجات کے لیے کتنے فکر مند تھے ‘ اتنا ہی زیادہ ہم آپﷺ سے محبت کر سکیں گے اور دل سے آپﷺ کا ادب کریں گے۔
قرآن مجید کا ادب
قرآن کریم اور وہ مجلس جہاں درسِ قرآن ہو رہا ہو یا قرآن کی تلاوت کی جارہی ہو‘ دونوں کے آداب کا خیال رکھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{وَاِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ(۲۰۳)} (الاعراف)
’’اور جب قرآن پڑھا جار ہا ہو تو اسے پوری توجہ کے ساتھ سنا کرو اور خاموش رہا کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘
البتہ اگر آپ بازار جارہے ہیں اور کسی نے تلاوتِ قرآن کی کیسٹ اونچی آواز سے لگائی ہوئی ہے تو اب ادب سے سننا صرف اُسی کے لیے واجب ہے‘ باقی لوگ اس کے سننے کے مکلّف نہیں۔ قرآن مجید کوبے دلی سے نہیں پڑھنا یا سننا چاہیے۔ اس وقت دل و دماغ دونوں کو حاضر رکھنا چاہیے۔ جہاں قرآن مجید کا درس ہو رہا ہو‘ وہاں متوجہ ہوکر سننا بہت ضروری ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ایک طرف تو درسِ قرآن ہو رہا ہو اور دوسری طرف ہم موبائل پر پیغامات بھیج رہے ہوں‘ یا کسی سے فون پر بات کرنے لگ جائیں‘ یا کسی ساتھی سے گفتگو کرنے لگیں۔ یہ تمام باتیں قرآن مجید کی بے ادبی کے زمرے میں آتی ہیں۔
عمر میں بڑوں کا ادب
عمر میں بڑے تین طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک خاندان کے بزرگ‘ جیسے والدین اور رشتہ دار وغیرہ۔ ان سب کا ادب اور احترام کرنا بہت ضروری ہے‘ خاص طور پر والدین کا۔ ان کے سامنے زبان درازی نہیں کرنا چاہیے۔ وہ اگر بلاوجہ بھی ڈانٹ دیں تو خاموش رہنا چاہیے۔ آگے سے ان کو جواب نہ دیں۔ جوں ہی وہ ملیں ‘ انہیں خوش دلی سے مسکرا کر سلام کرنا چاہیے۔ ان کے سامنے ایسی کوئی بات نہیں کرنی چاہیے جس سے وہ اپنی بے عزتی یا بے ادبی محسوس کریں۔
دوسرے پڑوسی یا محلہ دار۔ ان کا بھی ادب کرنا چاہیے۔ انہیں کسی رشتے سے پکارنا چاہیے‘ جیسے چچا یا خالہ۔ ان کی ڈانٹ کو بھی محسوس نہیں کرنا چاہیے اور ان کے سامنے بھی خاموش رہنا چاہیے۔ تیسرے وہ عمر رسیدہ لوگ جو ہمارے گھروں میں ملازم ہیں یا بے چارہ غریب ریڑھی بان ‘ چھابڑی لگانےوالا‘ ڈرائیور ‘سکیورٹی گارڈ یا جھاڑو دینے والا ۔ ان سے بھی تمیز اور شائستگی سے بات کرنی چاہیے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضورِ اکرمﷺ نے فرمایا:
((لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا ولَمْ وَيُوَقِّرْ كَبِيْرَنَا)) (رواہ الترمذی)
’’وہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی تعظیم نہ کرے۔‘‘
ہمیں چاہیے کہ ہم خاص طور پر اپنے بچوں کو سکھائیں کہ وہ نوکروں اور ملازموں سے ادب و احترام سے پیش آئیں۔ انہیں’’آپ‘‘ کہہ کر مخاطب کریں۔ نام لینے کے بجائے چچا یا خالہ کہہ کر پکاریں۔ ان سے تحکمانہ لہجے میں بات نہ کریں۔ بچوں کو چاہیے کہ وہ نوکروں کو خود سلام کریں‘ اس لیے کہ چھوٹے ہی بڑوں کو سلام کرتے ہیں۔ ملازمین کی بھی عزّتِ نفس ہوتی ہے‘ وہ بھی عزّت چاہتے ہیں۔ یادرکھیں غریب کی آہ عرشِ الٰہی کوبھی ہلا دیتی ہے۔
علاوہ ازیں علماء کرام اور دینی شخصیات کا بھی ادب کرنا چاہیے‘ خواہ عمر میں چھوٹے ہی کیوں نہ ہوں۔ اگرچہ وہ عمر میں چھوٹے ہیں مگر علم میں بڑے ہیں۔
رتبے اور عہدے میں بڑوں کا ادب
جو عہدے میں بڑا ہو‘ اس کی بھی عزت کرنی چاہیے ‘کیوں کہ یہ مقام اُسے اللہ تعالیٰ نے عطا کیا ہے۔ مثلاً ملک کا سربراہ‘ ادارے کا سربراہ یا مسجد کا امام وغیرہ۔ البتہ ایسے لوگوں کے غلط کام پر تنقید کی جاسکتی ہے مگر ادب کے دائرہ میں رہ کر۔ اسی طرح کوئی کاروبار کا مالک ہے تو اس کے ملازمین کو بھی اُس کی عزّت کرنی چاہیے۔ ادب میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جو لوگ عمر‘ علم‘ عہدے میں بڑے ہوں ان کا ہر گز مذاق نہیں اڑاناچاہیے۔ آج کل اخباروں میں کسی بھی سیاستدان کا کارٹون بنا کر اس کے نیچے کوئی تبصرہ کردیا جاتا ہے‘ یا ٹی وی چینلزپر ان کے مزاحیہ کردار بنا کر ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر کسی جانور کے سر پر کسی سیاستدان کا سر لگا کر نیچے تبصرہ آجاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر تو رواج چل پڑا ہے کہ جوبھی عہدے میں بڑے ہوں ان کے مزاحیہ کردار بنائے جاتے ہیں ‘ ان کی کردار کشی کے لیے لطیفے گھڑے جاتے ہیں‘ یہاں تک کہ ننگی گالیاں تک دی جاتی ہیں اورپھر اس سے لطف اندوز ہوا جاتا ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب بے ادبی کرنا دنیا کا رواج بن گیا ہے۔ ہرکسی کی بے ادبی کی جاتی ہے‘ جملے کسے جاتے ہیں۔ جعلی سکینڈلز بنا کر انہیں اچھالا جاتا ہے‘ بدنام کیاجاتا ہے۔ ان سکینڈلز کی پرنٹ اور سوشل میڈیا پر تشہیر کی جاتی ہے‘ یہاں تک کہ ان پر کتابیں بھی لکھ دی جاتی ہیں۔ اصل میں تو یہ مغربی تہذیب ہے اور ہم اس کی نقّالی کرتے چلے جارہے ہیں۔ انہوں نے تو اپنے پیغمبروں کو بھی نہیں بخشا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسی معزز اور محترم ہستیوں پر یہودیوں نے جھوٹے الزام لگائے۔ دورِ حاضر میں مزاحیہ فلمیں بنائی گئیں۔ نعوذ باللّٰہ من ذٰلک۔
یہ نہ صرف بے ادبی کی بات ہے بلکہ اللہ کے عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ شائستگی کے دائرے میں رہ کر بڑوں سے اختلاف کیا جاسکتا ہے اور تعمیری تنقید بھی کی جاسکتی ہے۔
علم ادب کے ساتھ آتا ہے۔ یا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ادب علم کے بغیر نہیں آتا۔ علم اور ادب دونوں لازم و ملزوم ہیں۔
بڑوں کا ادب کیسے کیا جائے؟
جب بڑے بات کریں تو بیچ میں بات نہ کاٹی جائے بلکہ بات مکمل ہوجانے کے بعد اظہارِ خیال کیا جائے۔ اکثر معمر افراد ٹھہر ٹھہر کر اور دُہرا دُہرا کر بات کرتے ہیں۔ ان کی بات صبر کے ساتھ سنی جائے۔ بات مکمل ہونے کا انتظار کیا جائے۔
مکہ مکرمہ میں ایک مرتبہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ولید بن مغیرہ آیا اور اس نے بات شروع کی:بھتیجے! یہ تم نے کیا کیا؟ مکہ کے گھر گھر میں فساد برپا کردیا! تم نے ہمارے معبودوں کو برا بھلا کہا !وغیرہ وغیرہ ۔ نبی اکرم ﷺاس سے عمر میں چھوٹےتھے مگررسول ہونے کے ناطے رتبہ میں سب سے بڑے تھے۔ آپ ﷺ اللہ کے پیارے رسول تھے اور وہ اللہ کا دشمن تھا۔ اس کے باوجود آپ ﷺ نے اس کی بات نہیں کاٹی بلکہ صبر اور خاموشی سے سنتے رہے۔ جب وہ اپنی بات مکمل کرچکا تو آپ ﷺ نے فرمایا:’’ابو ولید! آپ کی بات مکمل ہوگئی؟‘‘ اس نے کہا:’’ جی ہوگئی۔‘‘ اس کے بعد آپ ﷺ نے اس کی بات کا جواب دیا۔
اسی طرح بچوں کو سکھانا چاہیے کہ وہ بڑوں کی کسی غلطی پر مت ہنسیں۔ انہیں دور سے مخاطب نہ کریں بلکہ قریب جا کر ان سے بات کریں اور شائستگی کے ساتھ نرم لہجے میں گفتگو کریں۔ شریعت کے دائرے کے اندر رہ کر ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے کہ بڑوں کی بات مان لی جائے‘ ان کا کہا مانا جائے۔
علماء اور اساتذہ کا ادب
ایک مرتبہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کسی جنازے میں شرکت فرمائی۔ نمازِ جنازہ سے فارغ ہونے کے بعد ان کی سواری کے لیے ایک خچر لایا گیا تو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فوراً آگے بڑھ کر رکاب تھام لی۔ یہ دیکھ کر حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:’’اے میرے آقا کے ابنِ عم ! میری سواری کی رکاب تھام کر آپ تکلیف نہ فرمائیں‘‘۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما آنحضورﷺ کے چچا زاد بھائی ہیں۔ اس لحاظ سے ان کا بڑا مقام ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا:’’ اطمینان سےبیٹھیے ! علماءِ دین کی اس طرح عزت کرنی چاہیے‘‘۔ ایک مرتبہ خلیفہ ہارون الرشید مدرسہ میں آیا تو دیکھا استاد صاحب وضو کر رہے ہیں ۔شہزادہ لوٹے سے پانی ڈال رہا ہے اور وہ اپنے ہاتھ سے پاؤں مل رہے ہیں۔ خلیفہ ہارون الرشید اپنے بیٹے پر ناراض ہوا اور کہنے لگا کہ ایسا کیوں نہ ہوا کہ تُو ایک ہاتھ سے پانی ڈالتا اور دوسرے ہاتھ سے استاد کا پاؤں دھوتا! یہ ہے ادب کا معیارِ مطلوب اور ہماری اسلامی تہذیب۔
ادب اور حکم میں تصادم
حکم کی بجا آوری اور ادب دونوں بہت ضروری ہیں مگر بعض اوقات دونوں پر بیک وقت عمل ممکن نہیں ہوتا۔ اس صورت میں قانون یہ ہے کہ’’اَلْأَمْرُ فَوْقَ الْأَدَبِ‘‘ یعنی حکم کو ادب پر فوقیت حاصل ہے۔ مثلاً کچھ لوگ کسی بزرگ کا ہاتھ چومنا چاہتے ہیں مگر بزرگ کو پسند نہیں کہ کوئی میرا ہاتھ چومے۔ لہٰذا نہوں نے منع کردیا تو اب لوگوں کو ان کا ہاتھ چومنے پر اصرار نہیں کرنا چاہیے۔ ہمارے اسلاف میں تو یہاں تک ہوا ہے کہ کچھ علماء سفر پر جارہے تھے۔ انہوں نے اپنے ایک سینئر استاد کو سفر کا امیر بنا دیا۔ راستے میں امیر سفر نے ساتھیوں سے کہا کہ سامان میرے سر پر رکھ دو۔ ان کے ساتھی علماء اس وقت کو کوسنے لگے جب انہوں نے ان استاد صاحب کو اپنا امیر سفر بنایاتھا۔
ایک مرتبہ کوئی دیہاتی مولانا اشرف علی تھانویؒ کے پاس بیعت کرنے آگیا۔ مولانا کا معمول تھا کہ عام طور پر بہت دیکھ بھال کر بیعت لیا کرتے تھے‘ بلکہ بڑے بڑے علماء ان سے بیعت کے لیے آتے اور وہ انکار کردیتے تھے۔ اس دیہاتی سے مولانا نے فوراً بیعت لے لی۔ اس کو بیعت کے تقاضے سمجھائے‘ کچھ ہدایات دیں اور واپس بھیج دیا۔ کچھ عرصہ بعد وہ دیہاتی ایک گٹھڑی میں مولانا کے لیے کچھ ہدیہ لے کر حاضر ہوا اور کہنے لگا:’’ اشرف! اسے کہاں رکھوں؟‘‘ مولانا اُس وقت کچھ لکھنے میں منہمک تھے‘ اس لیے اس کی طرف کوئی دھیان نہیں دیا۔ اس نے دوبارہ‘ سہ بارہ کہا‘ مگر مولانا بدستور مصروف رہے۔ آخر جھنجلا کر بولے:’’ رکھ دے میرے سر پر!‘‘ اس دیہاتی نے فوراً وہ گٹھڑی ان کے سر پر رکھ دی۔ مولانا اس پر بہت خوش ہوئے اور حاضرین سے کہا:’’ دیکھو! اسی وجہ سے مَیں نے اس سے فوراً بیعت لےلی تھی۔‘‘ لہٰذا جو بھی حکم دیا جائے اسے فوراً مان لینا چاہیے خواہ اس سے ادب میں کوئی کمی آرہی ہو۔ عین ممکن ہے کوئی شاگردیا ماتحت ادب اور تعظیم کی وجہ سے کوئی کام کر رہے ہوں جب کہ استادیا امیر اس کام کی وجہ سے بے اطمینانی محسوس کر رہے ہوں۔ ایسی صورت میں استاد یا امیر جو بھی حکم دے اسے فوراً مان لینا چاہیے۔ بقول زکی کیفی ؎
عشق تسلیم و رضا کے ماسِوا کچھ بھی نہیں
وہ وفا سے خوش نہ ہوں تو پھر وفا کچھ بھی نہیں!
قوانین کا احترام
اسلام نے قانون کا ادب کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔ جب قانون کا ادب اور احترام ہوگا تو اس کی خلاف ورزی بھی نہیں ہوگی۔ شریعت اللہ کا دیا ہوا قانون ہے اور اس کی بھی حدود ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ادب ہوگا تو اُس کی شریعت کا بھی ادب ضرور ہوگا۔ ایک حدیث ِ نبویؐ کا مفہوم کچھ یوں ہے : ’’مؤمن اور ایمان کی مثال اُس گھوڑے کی سی ہے جو کہ اپنے کھونٹے سے بندھا ہوا ہے ۔وہ (اپنی رسّی کی حدود میں) گھومتا پھرتا ہے اور پھر (اپنے کھونٹے پر) لوٹ آتا ہے۔ بےشک مؤمن سے خطا ہو جاتی ہے مگر وہ ایمان کی طرف لوٹ آتا ہے۔‘‘ (مسند احمد)مؤمن شریعت کے دائرے کے اندر اندر رہتا ہے‘ قانون توڑ کر پھلانگتا نہیں ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
{تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَعْتَدُوْهَا ۚ وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ(۲۳۹)} (البقرۃ)
’’یہ اللہ کی قائم کردہ حدود ہیں تو انہیں پامال مت کرو۔اور جو کوئی اللہ کی حدود کو پامال کرے تو یہی لوگ ظالم ہیں۔‘‘
جن لوگوں کے دل میں تکبر ہوتا ہے وہ قوانین کا احترام نہیں کرتے۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ قانون دوسروں کے لیے ہے‘ میرے لیے نہیں۔ یا وہ چاہتے ہیں کہ ان کے لیے فلاں فلاں قانون میں تبدیلی کردی جائے۔ یہ لوگ خود کو قانون سے بالا تر سمجھتے ہیں۔ درحقیقت قانون بنانے کا فائدہ یہ ہے کہ اس سے اجتماعیت پیدا ہوتی ہے اور اجتماعی کام آسان ہوجاتے ہیں۔ معاشرہ میں سب کے ساتھ برابری کا سلوک ہوتا ہے۔ قانون کی پابندی سے بہت سی مثبت خوبیاں اُبھرتی ہیں۔ انسان میں اطاعت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ معاملات کو چلانے کے لیے قوانین لازمی ہیں۔ چھوٹے سے چھوٹے ادارے کے بھی کچھ نہ کچھ قواعد و ضوابط ہوتے ہیں۔ اگر قوانین نہ ہوں یاان پر عمل در آمد نہ ہورہا ہو تو معاشرے میں امن و سکون کے بجائے تنازع اور ٹکراؤ کی کیفیت رہتی ہے۔
قانون پر عمل کرنے اور اس کا احترام کرنے سے نظم و ضبط پیدا ہوتا ہے۔ نماز میں صفوں کی درستی سے اس کی عادت ڈالی گئی ہے۔ جب نبی اکرم ﷺ کا وصال ہوا تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم صفیں بنا بنا کر حجرئہ مبارکہ میں جاتے‘ نمازِ جنازہ ادا کرتے اور باہر نکل آتے ۔ تمام لوگ منظم اورپُر سکون رہے۔ نہ کوئی ہڑبونگ مچی‘ نہ کوئی دھکم پیل ہوئی اورنہ ہی لوگ پیروں تلے روندے گئے۔
نبی اکرم ﷺ لوگوں سے جو بیعت لیا کرتے تھے اس کے الفاظ نظم و ضبط کی بہترین مثال ہیں۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :
بَایَعْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِﷺ عَلَی السَّمعِ وَالطَّاعَۃِ، فِی العُسرِ وَالیُسرِ، وَالمَنشَطِ وَالْمَکرَہِ، وَعَلٰی اَثَرَۃٍ عَلَینَا، وَعَلٰی اَنْ لَا نُنَازِعَ الاَمرَ اَھلَہٗ، وَعَلٰی اَن نَقُولَ بِالحَقِّ اَینَمَا،کُنَّا لَا نَخَافُ فِی اللّٰہِ لَومَۃَ لَائِمٍ(متفق علیہ)
’’ہم نے بیعت کی رسول اللہ ﷺ سے کہ ہم سنیں گے اور مانیں گے‘ خواہ مشکل ہو یا آسانی ‘ خواہ ہماری طبیعت کو اچھالگے یا برا‘ خواہ دوسروں کو ہم پر ترجیح دی جائے‘ اور جس کو بھی ہم پر امیر بنایا جائے گاہم اس سے نہیں جھگڑیں گے‘ اور ہم حق کہتے رہیں گے جہاں کہیں بھی ہوں‘ اور اللہ تعالیٰ کے معاملے میں حق کہنے سے ہم ہرگز نہیں ڈریں گے‘ نہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کو خاطر میں لائیں گے۔ ‘‘
غور کریں کہ ہر نکتہ پر کتنا زور ہے۔ دل چاہے یا نہ چاہے ‘ چاہے خوش اور راضی ہوں چاہے ناخوش اور ناراض ہوں‘ مشکل ہو یا آسانی ‘ہم ہر حال میں اطاعت کریں گے۔
جب انسان اس طرح اپنے آپ کو قواعد وضوابط کی اطاعت اور پیروی کا عادی بنا لیتا ہے تو مشکلات اور دقت کے باوجود وقت پر کام کرنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی عظیم الشان فتوحات جن کے نتیجہ میں دین غالب ہوگیا تھا‘ اسی تنظیم اور اطاعت کی بدولت حاصل ہوئیں۔
اسلام نہیں چاہتا کہ مسلمانوں کا مزاج اعتراض والا ہو۔ ہمیں قانون کی اصلاح کی ذمہ داری اپنے سر نہیں لینی چاہیے۔ قانون کی اصلاح کرنا اصحابِ امر کا کام ہے۔ قانون پر تنقید کرنا بھی بے ادبی کا ایک مظہر ہے۔ ارشادِ الٰہی ہے:
{اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاِذَا کَانُوْا مَعَہٗ عَلٰٓی اَمْرٍ جَامِعٍ لَّمْ یَذْہَبُوْا حَتّٰی یَسْتَاْذِنُوْہُ ط } (النور:۶۲)
’’بے شک مومن تو صرف وہ ہیں جو ایمان لاتے ہیں اللہ پر اور اُس کے رسول (ﷺ) پر اور جب ان کے ساتھ کسی اجتماعی معاملہ میں ہوں تو جب تک اجازت نہ ملے‘ وہاں سے نہیں جاتے۔‘‘
یعنی اگر غیر معمولی صورتحال پیدا ہوگئی ہو تو آپﷺ سے اجازت لے کر جاتے ہیں‘ بغیر اجازت کے نہیں جاتے۔
جب انسان اطاعت کو اپنی عادت بنا لیتا ہے تو یہ انسان کو کڑے وقت اور آزمائش کے موقع پر بھی سنبھال لیتی ہے۔ سیرت النبی ﷺ میں اس کا مظاہرہ صلح حدیبیہ کے موقع پر ملتا ہے۔ صلح حدیبیہ کی شرائط سے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم بالکل خوش نہیں تھے لیکن چونکہ اطاعت اور نظم وضبط کے خوگر ہوچکے تھے‘ لہٰذا اس کٹھن وقت میں بھی اطاعت پر کاربند رہے ۔ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
{اِذْ جَعَلَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْحَمِیَّۃَ حَمِیَّۃَ الْجَاہِلِیَّۃِ فَاَنْزَلَ اللہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَعَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَاَلْزَمَہُمْ کَلِمَۃَ التَّقْوٰی وَکَانُوْٓا اَحَقَّ بِہَا وَاَہْلَہَاط وَکَانَ اللہُ بِکُلِّ شَیْ ئٍ عَلِیْمًا (۲۶) } (الفتح)
’’جب ان کافروں نے اپنے دلوں میں حمیت بٹھالی‘ جاہلیت کی حمیت‘ تو اللہ نے سکینت نازل کر دی اپنے رسول(ﷺ) پر اور اہلِ ایمان پر‘اور اُس نے لازم کر دیا ان پر تقویٰ کی بات کو اور وہ اس کے زیادہ حق دار بھی ہیں اور اس کے اہل بھی ہیں۔اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔‘‘
اسی اطاعت کے جذبہ کی وجہ سے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم تقویٰ اور احسان کے اعلیٰ مراتب پر فائز ہوئے۔ درحقیقت تقویٰ بھی قانون کی اطاعت کے بغیر نہیں حاصل ہو سکتا ۔
ادب اور احترام
عام طور پر ادب اور احترام کو مترادف سمجھ لیا جاتاہے لیکن ان دونوں الفاظ کےمفہوم میں تھوڑا سا فرق ہے۔’’احترام‘‘ کا لفظ حرمت سے بنا ہے‘ جس کا مطلب ہے کہ کسی چیز کی عظمت کی وجہ سے اُس کی تعظیم کرنا۔ اگر کسی کے لیے دل کے اندر عزّت اور احترام ہے تو خودبخود تعظیم ہوگی۔ اصل ادب بھی یہی ہے کہ دل میں احترام ہو اور جسم کی حرکات و سکنات سے بھی اس کا اظہار ہو رہا ہو‘ نہ کہ دکھاوا اور بناوٹی عزّت و احترام۔ البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان ہر ایک کا دل سے احترام نہیں کرسکتا ۔ جن لوگوں کا ادب کرنے کا تقاضا ہوتا ہے‘ بعض اوقات دل میں ان کا احترام نہیں ہوتا۔ ایسے وقت میں بھی انسان کو مناسب رویّہ اختیار کرنا چاہیے۔ دل میں اگر احترام نہیں ہے تو بھی کم از کم رویّہ سے اس کا اظہار نہیں ہونا چاہیے۔
مثال کے طور پر مہمانوں کا ادب اور حق یہ ہے کہ خوش دلی سے ان کا استقبال کیا جائے‘ انہیں ادب کے ساتھ بٹھایا جائے‘ ان کی خاطر تواضع کی جائے۔اگر کچھ ایسے لوگ آجائیں جن کو ہم پسند نہیں کرتے‘ ان کی کچھ بری عادتوں کی وجہ سے ہمارے دل میں ان کاا حترام نہیں ہے تب بھی ظاہراً ان کا ادب کرنا چاہیے ۔ ان کامسکرا کر استقبال کرنا چاہیے۔ جب انسان اس طرح سے ہر ایک کا’’ادب‘‘ اور’’احترام‘‘ کرناسیکھ لیتا ہے تو زندگی میں کسی بھی مزاج کے لوگوں کے ساتھ رہنا آسان ہوجاتا ہے۔ بعض اوقات لڑکیوں کو سسرال میں ایسے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے جن کی عادات اچھی نہیں ہوتیں۔ ایسے وقت میں انہیں والدین کی دی ہوئی تربیت ہی کام آتی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنا رویّہ مناسب رکھ کر بہت سی تلخیوں سے بچ سکتی ہیں۔
آج کل ادب اور احترام کا معیار بدل گیا ہے۔ بے ادبی کو خود اعتمادی کا نام دے دیا گیا ہے۔ ایسے میں تمام معاملات تلپٹ ہو کر رہ گئے ہیں۔ بچے بڑوں کے سامنے بد تمیزی کرتے ہیں۔ منہ پھٹ بچوں کو حاضر جواب کہہ کر ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ۔والدین خوش ہوتے ہیں کہ ہمارا بچہ بہت با اعتماد اور بولڈ ہے۔ ادب کرنا بے چارگی ‘ بزدلی یا کمزوری کی علامت بنا دیا گیا ہے‘ جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ۔ ادب وہی لوگ کرتے ہیں جواندر سے با اعتماد ہوتے ہیں‘ ورنہ زبان تو سب کے پاس ہے اور زبان چلانا بھی کوئی بہت بڑی بات نہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ادب اور احترام کا خوگر بنائے۔ آمین یا رب العالمین!