(توضیح و تنقیح) غزوئہ ہند کے بارے میں ارشاداتِ نبویؐ - طارق محمود ہاشمی

7 /

غزوۂ ہندکے بارے میں ارشاداتِ نبویﷺطارق محمود ہاشمی
نائب مدیر سہ ماہی ’’حرفِ نیم گفتہ‘‘ لاہور
مقدّمات
احادیث ِمقدسہ میں رسول اللہ ﷺ کی لسانِ مبارک سے مستقبل کے بارے میں پیش گوئیاں روایت ہوئی ہیں۔ ان کے بارے میں چند مقدمات پیش نظر رہنے چاہئیں:
ایک‘ یہ روایات مستقبل (یعنی عالم غیب) کے بارے میں آپ ﷺ کی دی ہوئی اطلاعات ہیں۔ ایسی اطلاعات ہمارے پاس قرآن مجید کے علاوہ واحد ذریعۂعلم ہیں‘ اس لیے نہایت قیمتی ہیں۔ ان اخبار کا مقصد اُمّت کو خبردار کرنا تھا‘ اور ان میں بتائے گئے امور کے لیے تیار رہنے کی تحریض تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اُمّت نے ہمیشہ اِنہیں اہمیت دی ہے۔
دوسرے‘ مستقبل کے واقعات میں زمان کی تعیین بالعموم مجمل ہوتی ہے۔ دن‘ تاریخ اور سال کی تعیین نہیں ہوتی‘بلکہ محدثین کا اصول ہے کہ جس حدیث میں تمام واقعات بقید ِوقت‘ تاریخ‘ دن‘ مہ و سال بیان ہوں‘ وہ معرضِ شک میں ہے۔ علامہ ملا علی قاری حنفی ؒنے ’’الاسرار المرفوعة فی الاخبار الموضوعة‘‘ میں اس اصول پر تفصیلی بحث کی ہے اور متعدد مثالوں سے ثابت کیا ہے کہ مستقبل کے بارے میں وہ اخبار جن میں اس طرح کی قید اور تعیین ہو‘ قابلِ اعتبار نہیں ہیں۔(۱)
تیسرے‘ اس قسم کی اخبار کی صحت جاننے کے اصول جرح و تعدیل کے روایتی اصول ہی ہوں گے۔ یعنی ہر روایت کے ردّ و قبول کا فیصلہ اُس کی اسناد پر کیا جائے گا۔ لہٰذا اس باب کی تمام روایات کو کوئی طبع زاد اصول وضع کر کے مجموعی طور پر مسترد نہیں کیا جا سکتا‘ بلکہ انفرادی اسناد کی تحقیق پر فیصلہ کیا جائے گا۔ لہٰذا فتن‘ ملاحم اور اماراتِ آخرت کے بارے میں منکرین حدیث کا عمومی انکار بلا دلیل ہے۔ امام احمد بن حنبل ؒکا ایک قول اس سلسلے میں عموماً پیش کیا جاتا ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’تین کتب کی کوئی اصل نہیں۔ ملاحم‘ مغازی اور تفسیر۔‘‘ حضرت امامؒ کے اس قول کی وضاحت خطیب بغدادیؒ اور بعد کے علماء نے فرمائی ہے۔ امام صاحبؒ کی مراد یہ ہے کہ ان اصناف میں تمام روایات نبی ﷺسے مروی نہیں ہیں بلکہ ان اخبار کی اکثریت صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم یا ان کے تابعین باحسان سے مروی ہے‘ یعنی مرسل ہیں‘ گو یہ وہ مُرسل نہیں جس کی تکنیکی تعریف متاخرین نے کی ہے۔ اس پر خطیب بغدادیؒکا کلام وقیع ہے۔ فرماتے ہیں کہ امام صاحب تین متعین کتب‘ یا اصنافِ کتب کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں کیونکہ امام احمدؒکے الفاظ ہیں: ’’ثلاث كُتُبٍ لَیسَ لَهَا أُصُولٌ: الْمَغَازِی وَالْمَلاحِمُ وَالتَّفْسِیرُ‘‘(۲) ۔ خطیب بغدادیؒ نے اس قول کو نقل کر کے لکھا ہے:
وَهٰذَا الْكَلَامُ مَحْمُولٌ عَلٰى وَجْهٍ وَهُوَ أَنَّ الْمُرَادَ بِهٖ كُتُبٌ مَخْصُوصَةٌ فِی هٰذِهِ الْمَعَانِی الثَّلَاثَةِ غَیرُ مُعْتَمدٍ عَلَیهَا وَلَا مَوْثُوقٍ بِصِحَّتِهَا لِسُوءِ أَحْوَالِ مُصَنِّفِیهَا وَعَدَمِ عَدَالَةِ نَاقِلِیهَا وَزِیادَاتِ الْقُصَّاصِ فِیهَا(۳)
’’اس قول کی ایک خاص توجیہہ ہے‘ جو یہ ہے کہ اس سے مراد ان تین معاملات پر لکھی گئی مخصوص کتب ہیں جو قابلِ اعتماد نہیں ہیں اور ان کی صحت موثوق نہیں ہے‘ کیوں کہ ان کے مصنّفین کے حالات اور ان کے ناقلین کی عدالت اچھی نہیں۔ اس کے علاوہ قصہ گو لوگوں نے ان میں اضافے بھی کیے ہیں۔ ‘‘
خطیب بغدادیؒ مزید فرماتے ہیں کہ امام احمدؒکی مراد یہ ہے کہ اُن کے دور میں تین علوم میں مؤلفہ کتب میں اکثر روایات مُرسل ہیں۔ ان میں بہت سی اخبارِ باطلہ بھی ہیں جو ’’واہی‘‘ اسناد سے روایت کی گئی ہیں۔ اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ تفسیر‘ مغازی اور ملاحم میں احادیث و آثار سب غیر صحیح ہیں۔ یہ تعبیر امام صاحب ؒکی مراد سے بہت بعید ہے‘ کیونکہ بے شک ان علوم میں کثیر تعداد میں صحیح روایات موجود ہیں‘ اور خود امام احمد بن حنبل ؒنے اپنی ’’مسند‘‘ میں ان علومِ ثلاثہ کے ضمن میں صحیح روایات و آثار روایت فرمائے ہیں‘ انتہیٰ۔
چوتھے‘ ان اخبار میں صحت کے اسنادی معیارات کے علاوہ ایک اور معیار بھی ہے:خبر کا واقع ہو جانا۔ یعنی جس واقعے کی ضعیف ذریعے سے بھی خبر ملی‘ وہ عملاً واقع ہو گیا‘ تو کیا اب بھی انکار کیاجائے گا؟ نبی ﷺ سے مستقبل کے حوادث و واقعات کے بارے میں بہت سی احادیث مروی ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ نبی ﷺغیب کے امور کو وحی پانے کے بعد بیان فرماتے تھے۔ آپ ﷺکے بارےمیں قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے کہ آپؐ ہوائے نفس سے بات نہیں کرتے { وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی(۳) }(النجم)۔ اس آیت کا ایک مستفاد یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ کے ارشادات وحی پر مبنی ہوتے ہیں اور حق کے خلاف نہیں ہوتے۔ لہٰذا آپﷺ نے جو اخبار مستقبل کے حوادث اور واقعات کے بارے میں دی ہیں‘ ان میں بہت سے ماضی میں ہی ظاہر ہو چکے۔ اپنی اصل میں وہ اخبار آحاد تھیں جن کی روایت میں صدق و کذب کا احتمال تھا‘ مگر وقوع کے بعد ان کے حتمیت ثابت ہو گئی۔ اسی طرح وہ روایات جو ان واقعات کے بارے میں ہیں جو ابھی تک وقوع پزیر نہیں ہوئے‘ ان سے جڑے رہنا ضروری ہے۔ انہیں اخبار آحاد کہہ کر ناقابلِ اعتناء قرار دینا مبنی بر جہالت ہے۔
پانچویں‘ خبر کی صحت ایک شے ہے اور اس میں مجمل کی تعیین دوسری بات ہے۔ اس قسم کی اخبار میں صحت کے بارے میں فیصلہ معروضی ہوتا ہے‘ اور ان کی تعبیر روایت پر مبنی ہے‘ یعنی اُمّت کے مجموعی فہم کے مطابق۔ لہٰذا جن اخبار کے بارے میں اختلاف ہے کہ آیا وہ وقوع پذیر ہو چکیں یا نہیں‘ اور یہ اختلاف تعبیر کا ہے‘ تو اس بنیاد پر نبی ﷺ کی دی ہوئی کسی ایسی خبر کو قطعیت کے ساتھ غیر متعلق قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ تصوّر کر کے کسی خبر کو اس عہد سے غیر متعلق کردینا‘ کہ اس میں بیان کردہ واقعہ پہلے ہی رونما ہو چکا ہے‘ تعبیری اختلافات کی موجودگی میں بے جا تحکم ہو گا۔
چھٹے‘ اسلام کی خاصیت یہ ہے کہ وہ مسلمانوں میں یہ جذبہ پیدا کرتا ہے کہ تاریخ‘ حال اور مستقبل‘ تینوں میں مرادِ رسول ﷺ کو تلاش کرنے‘ سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کی جائے۔ یہ جذبہ ہماری تہذیب کے قلب میں جاگزیں ہے اور اس کی بنیاد‘ ماخذاور سرچشمہ ہمارا رسوخ فی الدین ہے۔ اس جذبہ و رجحان کے خلاف شکوک پیدا کرنا یا اس کی تحقیر و تخفیف کرنا مسلمان کے شایانِ شان نہیں۔
غزوۂ ہند کے بارے میں احادیث
استعماری منکرین حدیث نے بلا دلیل غزوۂ ہند کی روایات کا علی الاطلاق انکار کیا ہے(۴)۔ حدیث کے بارے میں اُن کا عمومی طریقہ کار یہ ہے کہ یا تو’’عقل عام‘‘ کی روشنی میں روایت کی تردید کر دی جائے‘ یا کسی مخصوص طریق کے رُوات پر فن رجال کے اصولوں کا الل ٹپ اطلاق کر کے اس باب کی تمام روایات کا انکار کر دیا جائے۔ اس طرح متجددین روایت کے کسی ایک طریق کی اسناد میں کیڑے نکال کر روایت کو بظاہراسلامی روایت ہی سے مدد لے کر مجروح قرار دیتے ہیں‘ خواہ ان کی تنقید کا شکار بننے والی روایت متعدد مستند مراجع سے آئی ہو‘اس کے طُرق کثیر ہوں‘ روایت مسلمانوں کے متنوع علوم میں مقبول ہو‘ علماء کی بحثوں میں بار بار ظاہر ہوتی ہو‘ اور مختلف طریقوں سے استناد پاکر تواتر معنوی کا درجہ پا چکی ہو۔ منکرین حدیث کسی خاص روایت پر بحث کے دوران اس کے تعدد مراجع کو دیکھتے ہیں‘ اس کے کثیر طرق کی طرف ان کی نظر جاتی ہے‘ اور نہ وہ اسے مجموعی تناظر میں دیکھتے ہیں۔ اسلامی علوم بالخصوص فن رجال کا یہ سوئے استعمال فن سے عدم واقفیت کا جیتا جاگتا ثبوت ہے اور غزوۂ ہند کے موضوع پر متجددین کا کلام اسلامی روایت سے ان کی بے اعتنائی کی مثال ہے۔ یہ مضمون متجددین کے دلائل سے براہِ راست تعارض کرنے کی بجائے یہ واضح کرنے کی کوشش ہے کہ غزوئہ ہند پر وارد ہونے والی بعض روایات کا ضعف ان کی اسناد‘ تعددِ طُرق‘ اور قبولیت عام کی وجہ سے دور ہو جاتا ہے۔ اس بحث سے یہ بھی واضح ہو گا کہ اس موضوع پر وارد روایات اور ان کے طرق کو الگ الگ کر کے عقل عام پر مبنی مبتدعانہ اصولوں اور محدثین کے اقوال کے سوئے استعمال سے مسترد کرنا کسی صورت بھی درست نہیں ہے۔
غزوۂ ہند کی روایات کے مضامین
غزوۂ ہند کی روایات میں مندرجہ ذیل باتیں بیان ہوئی ہیں:
(الف) مستقبل میں ایک جنگ ہو گی جسے رسول اللہﷺ نے’’غزوۂ ہند‘‘ کا عنوان دیا ہے۔ اس واقعے کی کوئی تاریخ یا ماہ و سال حدیث میں بیان نہیں ہوئے۔ لہٰذا‘ اسے اس بنیاد پر مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ اس میں زمانے کی تعیین ہو گئی ہے۔ البتہ اس اجمال کے سبب‘ یہ بھی متعین نہیں کیا جا سکتا کہ یہ جنگ کب ہوگی۔ اس وجہ سے جن علماء نے ماضی میں گزرے کچھ واقعات پر اس پیش گوئی کا انطباق کیا ہے‘ وہ ایک تعبیر ہی ہے‘ اور ایسی کسی تعبیر کو حتمی قرار دے کر نبیﷺ کے فرمان کو مستقبل سے غیر متعلق نہیں کیا جا سکتا۔
(ب) اس جنگ میں شرکت مسلمانوں کے لیے غیر معمولی اجرکا باعث ہو گی‘ بلکہ اس کے اجر کو اُن لوگوں کے اجر کے مماثل بتایا گیا ہے جو حضرت مسیح بن مریم علیہما السلام کے ساتھ مل کر دجال سے جنگ کریں گے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ غزوئہ ہند بہت اہم جنگ ہو گی۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس جنگ میں شرکت کے آرزومند تھے‘ جس سے اس جنگ میں شرکت کے فضائل کا اندازہ ہوتا ہے۔
(ج) جنگ کا نتیجہ کیا ہو گا‘ اس کی صراحت روایات میں نہیں کی گئی۔ یہ درست ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اس کی آرزو رکھتے تھے کہ وہ بھی اس جنگ میں شریک ہوں‘ اور اس کی حسرت رکھتے تھے کہ لڑتے ہوئے شہید ہو جائیں‘ لیکن فتح کی صراحت نہیں ہے۔ تاہم‘ یہ نکتہ اہم ہے کہ روایات میں غزوۂ ہند کو حضرت مسیح بن مریم علیہما السلام کے اُس جہاد کے مماثل قرار دیا گیا ہے جو آپؑ دجال کے خلاف کریں گے۔ چونکہ دجال کے خلاف جنگ میں حضرت مسیح بن مریم علیہما السلام کو اور ان کے مسلمان متبعین ہی کو فتح نصیب ہو گی‘ لہٰذا یہ قرین قیاس ہے کہ غزوۂ ہند میں بھی مسلمان ہی فتح مند ہوں گے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث میں ’’وَعَدَنَا‘‘ [نبیﷺ نے ہم سے وعدہ فرمایا] کے الفاظ ہیں۔ وعدہ جب مطلق استعمال ہو تو اسے ایک مثبت اور محبوب امر پر محمول کرنا اولیٰ ہے۔ جو امور عموماً مرغوب نہیں ہوتے ان کے لیے تخویف اور ترہیب کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ اس میں بھی اشارہ ہے کہ مسلمان اس جنگ میں ظفر مند ہوں گے۔
روایات کا جائزہ
غزوۂ ہند کے بارے میں نبیﷺ سے چار روایات مروی ہیں:
(۱) روایتِ ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ
(۲) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پہلی روایت جس کے تین طرق ہیں۔
(۳) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دوسری روایت
(۴) روایتِ حضرت كعب الاحبار رحمہ اللہ
لہٰذا غزوۂ ہند کے بارے میں وارد چار احادیث کے کُل چھ طُرق ہیں۔ ذیل میں ان کی اسانید اور ان کے درجۂ صحت کا ایک مختصر جائزہ پیش ہے:
پہلی حدیث: حدیث ِ ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ
یہ حدیث مبارکہ آپ ﷺکے آزاد کردہ غلام‘ حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ‘ نے روایت کی ہے۔ سنن نسائی میں حدیث کا متن یہ ہے:
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : عِصَابَتَانِ مِنْ أُمَّتِی أَحْرَزَهُمَا اللّٰهُ مِنَ النَّارِ: عِصَابَةٌ تَغْزُو الْهِنْدَ‘ وَعِصَابَةٌ تَكُونُ مَعَ عِیسَى ابْنِ مَرْیمَ عَلَیهِمَا السَّلَام
رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ’’میری اُمّت کے دو گروہ اللہ تعالیٰ نے آگ سے محفوظ کردیے۔ ایک وہ گروہ جو ہند پر حملہ کرے گا اور ایک وہ جو حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کے ہمراہ ہو گا۔ ‘‘(۵)
یہ حدیث صحیح ہے۔ علامہ ناصر الدین البانی ؒ فرماتے ہیں: اس حدیث کو امام نسائی ؒ‘ امام احمدؒ ‘ اور ابو عروبہ حرانی ؒ نے درج ذیل سند سے روایت کیا ہے:
عَنْ بَقِیةُ بْنُ الْوَلِیدِ‘ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰهِ بْنُ سَالِمٍ وَأَبُو بَكْرِ بْنُ الْوَلِیدِ الزُّبَیدِی‘ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْوَلِیدِ الزُّبَیدِی‘ عَنْ لُقْمَانَ بْنِ عَامِرٍ الْوُصَابِی‘ عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى بْنِ عَدِی الْبَهْرَانِی‘ عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلَى رَسُولِ اللّٰهِ ﷺ عَنِ النَّبِی ﷺ
میرا موقف یہ ہے کہ یہ سند جید ہے۔ اس سند میں ایک راوی ابو بکر زبیدی مجہول الحال ہیں‘ مگر اسی سند میں ان کے ساتھ عبد اللہ بن سالم اشعری حمصی بھی روایت کر رہے ہیں جو ثقہ ہیں اور صحیح بخاری کے رجال میں سے ہیں۔ اسی طرح بقیة بن ولید مدلس ہیں‘ مگر انہوں نے اس اسناد میں [حدثناکہہ کر] تحدیث کی تصریح کر دی ہے۔ لہٰذا یہ اسناد ان کی تدلیس کے اثر سے مامون ہو گئی ہے۔ مزید برآں‘ ایک دوسری سند میں ان کی متابعت بھی ہو گئی۔ یہ متابِع روایت ابن عدی اور ابن عساکر اس اسناد سے لائے ہیں:
فَقَالَ هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ: حَدَّثَنَا الْجَرَّاحُ بْنُ مَلِیحٍ الْبَهْرَانِی‘ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِیدِ الزُّبَیدِی بِهِ
یہ سند متابعات میں مقبول ہے۔ جراح بن ملیح حمصی صدوق ہیں۔ ہشام بن عمار امام بخاری رحمہ اللہ کے شیخ ہیں۔ یہ تلقین قبول کر لیا کرتے تھے(۶) ‘ مگر یہاں ان کی متابعت بھی موجود ہے۔ امام بخاریؒکی ’’التاریخ الکبیر‘‘ میں سلیمان بن عبد الرحمٰن بن بنت شرحبیل ان کی متابعت کر رہے ہیں۔ بخاری کی سند یہ ہے:
سُلَیمَان (ابْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنَ بِنْتِ شُرَحْبِیلَ) حَدَّثَنَا الْجَرَّاحُ بْنُ مَلِیحٍ حَدَّثَنَا الزَّبِیدِی عَنْ لُقْمَانَ بْنِ عَامِرٍ عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى بْنِ عَدِی الْبَهْرَانِی‘ عَنْ ثَوْبَانَ رَضِی اللّٰهُ عَنْهُ
لہٰذا مَیں کہتا ہوں کہ یہ قوی سند ہے‘ اور یہ حدیث شریف صحیح ہے۔ والحمد للہ۔(۷)
دوسری حدیث: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہکی پہلی روایت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی اس حدیث کے تین طُرق ہیں:
طریق اوّل : جبر بن عَبِیدةؒ عن ابی ھریرۃرضی اللہ تعالیٰ عنہ
حَدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمٰعِیلَ بْنِ إِبْرَاهِیمَ‘ قَالَ: حَدَّثَنَا یزِیدُ‘ قَالَ: أَنْبَأَنَا هُشَیمٌ‘ قَالَ: حَدَّثَنَا سَیارٌ أَبُو الْحَكَمِ‘ عَنْ جَبْرِ بْنِ عَبِیدَةَ‘ عَنْ أَبِی هُرَیرَةَ‘ قَالَ:وَعَدَنَا رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ غَزْوَةَ الْهِنْدِ‘ فَإِنْ أَدْرَكْتُهَا أُنْفِقْ فِیهَا نَفْسِی وَمَالِی‘ وَإِنْ قُتِلْتُ كُنْتُ أَفْضَلَ الشُّهَدَاءِ‘ وَإِنْ رَجَعْتُ فَأَنَا أَبُو هُرَیرَةَ الْمُحَرَّرُ

’’ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہسے روایت ہے: رسول اللہ ﷺ نے ہم سے غزوۂ ہند کا وعدہ فرمایا۔ اگر مَیں [یعنی ابو ہریرہؓ] نے اس غزوے کو پا لیا تو میں اس میں اپنا مال اور جان خرچ کر دوں گا۔ اگر میں اس میں قتل ہو گیا‘ تو پھر میں افضل الشہداء میں شامل ہونے کی سعادت پاؤں گا اور اگر میں [سلامتی سے] واپس آ گیا تو میں [آگ سے] مامون ہوؤں گا۔‘‘(۸)
حدیث کے مندرجہ بالا طریق جبر بن عبیدہ عن ابی ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صحت پر محدثین کا اختلاف ہے‘ مگر یہ روایت معتبر ہے۔ اگرچہ شعیب ارنؤوط نے اسے ضعیف قرار دیا ہے‘ احمد محمد شاکر نے بدلائل اس کی صحت ثابت کی ہے(۸)۔ شعیب ارنؤوط نے مسند احمد پر اپنی تعلیقات میں لکھا ہے کہ یہ حدیث جبر بن عبیدةؒ سے سیار بن حکم کے علاوہ کسی اور نے روایت نہیں کی‘ اور ابن حبانؒ کے علاوہ جبر بن عبیدة کو کسی اور محدث نے ثقہ قرار نہیں دیا۔ شعیب ارنؤوط نے امام ذہبی رحمہ اللہ کا درج ذیل قول نقل کیا ہے:
[اتى] عن أبی هریرة بخبرٍ منكرٍ لا یعرف مَن ذا‘ وحدیثه: وُعِدنا بغزوة الهند!
’’[ جبر]ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک ہی روایت کرتے ہیں‘ جو منکر ہے۔ معلوم نہیں یہ کون صاحب ہیں۔ حدیث یہ ہے: وُعِدَنَا بِغَزْوَةِ الْهِنْدِ۔ ‘‘ (۱۰)
اس کے بعد ارنؤوط اس حدیث کے دیگر دو طُرق کی طرف اشارہ کرتے ہیں (جن کا ذکر آگے آ رہا ہے)‘ اور اُن میں ضعف کا ذکر کرتے ہیں۔ آخر میں لکھتے ہیں:
’’ہماری رائے ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول’’وَعَدَنَا رَسُوْلُ اللّٰهِ ﷺ غَزْوَةَ الْهِنْدِ‘‘ کو حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت مؤکد کرتی ہے۔ اس تائیدی روایت کو احمد بن حنبل‘ نسائی‘ ابن عدی‘ اوربیہقی(رحمہم اللہ) نے روایت کیا ہے۔ حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں: عِصَابَتَانِ۔۔۔ الحدیث۔ مگر اس حدیث میں بھی ایک ضعف ہے۔ ‘‘ (۱۱)
جس حدیث کی طرف شعیب ارنؤوط اشارہ کر رہے ہیں‘ اس کے بارے میں پہلے واضح کیا جا چکا ہے کہ وہ صحیح ہے۔ اگر علامہ کو اس شاہد کی صحت کا استحضار ہوتا تو وہ زیر بحث حدیث کو ضعیف قرار نہ دیتے۔
اس کے برخلاف‘ احمد محمد شاکرؒ نے مسند احمد ہی پر اپنی تعلیقات میں واضح کیا ہے کہ یہ اسناد صحیح ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
إسْنَادُهُ صَحِیحٌ [۔۔۔۔] جَبْرِ بْنِ عَبِیدَةَ: هُوَ الشَّاعِرُ‘ وَهُوَ تَابِعِی ثِقَةٌ‘ تَرْجَمَهُ الْبُخَارِی فِی الْكَبِیرِ فَلَمْ یَذْكُرْ فِیهِ جَرْحًا‘ وَابْنُ أَبِی حَاتِمٍ فَلَمْ یجَرِّحْهُ أَیضاً‘ وَذَكَرَهُ ابْنُ حِبَانٍ فِی الثِّقَاتِ. وَزَعَمَ الذَّهْبِی فِی الْمِیزِانِ أَنَّهُ أَتَى ’’بِخَبَرٍ مُنْكَرٍ‘ لَا یُعْرَفُ مَنْ ذَا!‘ وَحَدِیثُهُ: وُعِدَنَا بِغَزْوَةِ الْهِنْدِ!”‘ وَكَذَالِكَ نَقَلَ الْحَافِظُ فِی التَّهْذِیبِ عَمَّا قَرَأَ بِخَطِّ الذَّهْبِی وَلَسْتُ أَدْرِی مِمَّ جَاءَ للذَّهْبِىُّ نُكْرَ الْخَبَرِ؟‘ وَلَمْ ینْكِرْهُ الْبُخَارِی وَلَا غَیرُهُ مِنْ قَبْلِهِ‘ وَلَمْ یجَرَّحُوْا هَذَا التِّابِعِی بِشَیءٍ!‘ مَا هُوَ إِلَّا التَّحَكُّمُ. [۔۔۔]

 وَالْحَدِیثُ رَوَاهُ الْحَاكِمُ فِی الْمُسْتَدْرَكِ مِنَ الْمُسْنَدِ‘ مِنْ طَرِیقِ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ أَحْمَدَ عَنْ أَبِیهِ‘ بِهٰذَا الْإِسْنَادِ. وَلَمْ یتَكَلَّمْ عَلَیهِ هُوَ وَلَا الذَّهْبِی. وَرَوَاهُ النِّسَائِی‘ مِنْ طَرِیقِ زَیدٍ بْنِ أَبِی أُنَیسَةَ عَنْ سَیارٍ‘ وَمِنْ طَرِیقِ هُشَیمٍ عَنْ سَیارٍ‘ بِنَحْوِهِ
’’اس کی سند صحیح ہے۔ [۔۔۔] جبر بن عَبیدة شاعر ہیں۔ یہ تابعی ہیں اور ثقہ ہیں۔ امام بخاریؒ نے الکبیر میں ان کا ترجمہ لکھا ہے اور ان پر کسی جرح کا ذکر نہیں کیا۔ ابن ابی حاتم ؒ نے بھی اپنے ترجمے میں ان پر کوئی جرح نہیں کی۔ ابن حبانؒ انہیں ثقات میں شمار کرتے ہیں۔ ذہبیؒ نے ’’المیزان‘‘ میں کہا ہے کہ ان’’[جبر]سے ایک ہی روایت مروی ہے‘ جو منکر ہے۔ معلوم نہیں یہ کون صاحب ہیں۔ اور ان کی حدیث یہ ہے: وعدنا بغزوة الهند۔‘‘ اسی طرح حافظ [ابن حجرؒ] نے’’التہذیب‘‘ میں ذہبی ؒکی تحریر کی بنیاد پر اسی بات کا ذکر کیا ہے (یعنی: لَا یُعْرَفُ مَنْ ذَا!)۔ مجھے معلوم نہیں کہ اس خبر کے منکر ہونے کی بات ذہبیؒ نے کیسے کی۔ ان سے پہلے تو اس خبر کو کسی نے بھی منکر نہیں کہا؟ نہ امام بخاریؒ نے نہ ان سے قبل کسی اور نے۔ نہ انہوں نے اس تابعی پر کوئی جرح کی۔ لہٰذا [ذہبی کی] یہ بات تحکم کے سوا کچھ نہیں! [۔۔۔] اس حدیث کو حاکم ؒ نے مستدرک میں المسند کے ذریعے عبد اللہ بن احمدؒ اور ان کے والد کی سند سے نقل کیا ہے۔ نہ حاکم نے نہ ہی ذہبیؒ نے اس مقام پر اس حدیث پر کوئی کلام کیا۔ اس حدیث کو نسائی ؒ نےبھی زید بن ابی اُنَیسة کے واسطے سے سیار سے روایت کیا ہے۔ اس کے علاوہ نسائیؒ ہی نے اس روایت کو ہشیم عن سیار سے نقل کیا ہے۔ ‘‘ (۱۲)
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ علامہ ابن حجرؒ نے جبر بن عَبیدة کے بارے میں لکھا ہے:’’جَبْر بن عَبِیدَةَ بِفَتْحِ الْعَینِ وَیقَالُ جُبَیرُ ابْنُ عَبْدَةَ شَاعِرٌ مَقْبُوْلٌ مِنَ الرَّابِعَة۔‘‘ اس سے واضح ہے کہ وہ جبر بن عبیدة کو مقبول قرار دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ احمد عبد الرحمٰن البنا ساعاتیؒ نے بھی سنن نسائی کی روایت کا ذکر کر کے کہا ہے کہ اس کی سند جید ہے (وَسَنَدُهُ جَیِّدٌ
علامہ ناصرالدین البانیؒ نے جبر بن عبیدہ عن ابی ہریرہؓ کی روایت وعدنا غزوة الہند کو ’’ضعیف الاسناد‘‘ قرار دیا ہے‘ لیکن انہوں نے اس کی وجہ بیان نہیں کی۔(۱۵) ممکن ہے کہ اس حکم کی وجہ بھی البانی کی نظر میں جبر بن عبیدة کا مجہول ہونا ہو۔ البتہ ضعف کا یہ حکم اس لیے محل نظر ہے کہ ابن ابی حاتمؒ اور امام بخاریؒ نے جبر بن عبیدہ پر جرح نہیں کی‘ جیسا کہ اوپر احمد شاکر کے حوالے سے بیان ہوا۔ ابن حبانؒ کے نزدیک وہ ثقہ ہیں‘ اور ابن حجرؒ نے انہیں مقبول لکھا ہے۔ لہٰذا‘ احمد شاکر کا تجزیہ قرین قیاس ہے کہ یہ سند جید ہے۔
اس موقع پر ایک اہم سوال سامنے آتا ہے: کسی مجہول راوی کی روایت کو کیونکر صحیح قرار دیا جا سکتا ہے؟ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اگر جبر بن عبیدہ مجہول ہیں تو ابن حِبانؒ نے ان کی توثیق کیوں کی اور ابن حجرؒ نے ان کو مقبول کیوں ٹھہرایا؟ کہا جاتا ہے کہ ابن حبانؒ کی یہ عادت ہے کہ وہ بغیر ٹھوس شہادت کے تابعین کی توثیق کر دیتے ہیں۔ یہاں ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ابن حبانؒ کے اس رویے پر علمائے فن کیکیا رائے ہے؟ البانی نے لکھا ہے کہ ’’ابن حبانؒ کی عادت ہے کہ ان رُوات کی توثیق کرتے ہیں جو ائمہ اثبات کے ہاں مجہول شمار ہوتے ہیں‘ جیسا کہ حافظ [ابن حجرؒ] نے لسان المیزان کے مقدمے میں متنبہ کیا ہے‘‘ ۔(۱۶) پھر علامہ اس پر استدراک کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ’’بہت سے محققین کے خیال کے برعکس‘ یہ بات علی الاطلاق درست نہیں ہے‘ بلکہ اس میں تفصیل ہے‘‘ ۔(۱۷) یہ تفصیل علامہ البانی نے اپنی کتاب ’’تمام المنة‘‘ میں پیش کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے:
ابن حبانؒ کے بارے میں حافظ ابن حجر ؒکی تنبیہہ اور دیگر علماء کے بیان کی وجہ سے یہ سمجھنا درست نہیں ہے کہ ایسا مستور راوی جس کی توثیق ابن حبانؒ کر دیں وہ یا مجہول العین ہوتا ہے یا مجہول الحال۔ایسا بھی بکثرت ہوتا ہے کہ وہ رُوات جن کی ابن حبانؒ نے توثیق کی ہے وہ بعد میں آنے والے علماء سے بھی توثیق پاتے ہیں۔ لہٰذا متعدد مواقع پر متاخرین نے ابن حبانؒ کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ اِن علماء نے ایسے راویوں میں سے بعض کو’’صدوق‘‘قرار دیا اور بعض کے بارے میں ’’مَحَلُّهُ الصِدْقُ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے(۱۸)۔ معلوم ہے کہ یہ الفاظ تعدیل کے ہیں‘ جیسا کہ اس فن میں معروف ہے۔ البانی نے دس ایسے راویوں کو بطور مثال پیش کیا ہے جن کی اگلوں میں سے صرف ابن حبانؒ نے توثیق کی تھی۔ بعد میں ابن حجرؒ وغیرہ نے اوپر دیے گئے الفاظ میں اس کی تقریر کر دی۔ اگر ابن حبانؒ کسی ایسے راوی کی توثیق کر دیتے ہیں جو عموماً مجہول سمجھا جاتا ہے اور اس سے ایک یا دو ہی راویوں نے حدیث روایت کی ہوتی ہے‘ تو ایسے لوگوں کے بارے میں حافظ ابن حجرؒ ضرور تبصرہ کرتے ہیں اور یہ لکھ دیتے ہیں کہ وہ مستور ہے یا مقبول ۔ اوپر گزر چکا ہے کہ جبر بن عَبیدہ کو ابن حجرؒ نے مقبول کہا ہے۔ حافظ سخاویؒ نے بھی اس طرف اشارہ کیا ہے کہ کچھ اہل علم مجہول العدالة رُوات کی روایت قبول کرنے میں حق بجانب اس لیے ہیں کہ’’اخبار [کی قبولیت] راوی کے بارے میں ہمارے حسن ظن پر مبنی ہے۔‘‘(۱۹) سخاویؒ کی یہ بات خاص طور پر اس صورت میں قوی ہے جب ایک مجہول راوی سے بہت سے ثقہ راوی حدیث قبول کر رہے ہوں‘ اور ان کی روایات میں اس راوی کی تنکیر کا کوئی اشارہ نہ ہو۔ سخاویؒ نے کہا ہے:’’جب معتد بہٖ ثقہ روات کسی [ضعیف یا مجہول الحال] شخص سے روایت قبول کررہے ہوں‘ تو اُس راوی کے بارے میں یہ حسن ِظن قوی ہو جاتا ہے‘‘۔(۲۰) یہی وجہ ہے کہ علامہ ذہبی ؒ‘ حافظ ابن حجرؒ اور دیگر متاخرین نے ان لوگوں کی بھی توثیق کی جنہیں اُن سے قبل ابن حبانؒ کے سوا کسی نے بھی ثقہ قرار نہیں دیا تھا۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جبر بن عبیدہؒ ایک تابعی ہیں۔ ایک تابعی کا مجہول الحال ہونا اس کی روایت کی صحت کو زیادہ نقصان نہیں پہنچاتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی ﷺ نے تابعین کی اجمالاً تعدیل کر دی ہے۔ شمس الائمہ علامہ سرخسیؒ نے صراحت کی ہے کہ پہلے تین قرون کے مجہول رُوات عادل ہیں‘ کیوں کہ صاحب شریعت ﷺنے خود ان کی تعدیل کر دی ہے۔ لہٰذا ان قرون کے افراد میں سے کوئی مجہول راوی اس وقت تک عادل ہی شمار ہو گا جب تک اس سے کوئی ایسی بات ظاہر نہ ہو جو اس کی عدالت کو زائل کر دے۔ (۲۱)
خلاصہ یہ ہے کہ جبر بن عبیدة کی روایت اس وجہ سے رد نہیں کی جاسکتی کہ کچھ علماء نے انہیں مجہول قرار دیا ہے۔ اس بات کی دلیل یہ ہے کہ اولاً یہ راوی تابعی ہیں اور خیر القرون میں سے ہیں۔ ثانیاً ان پر کوئی جرح نہیں ہے۔ متعدد اہل علم نے ان کی توثیق بھی کی ہے۔ ثالثاً اس مضمون کی روایات کے متعدد طُرق ہیں۔ تعددِ طُرق اور شواہد کی موجودگی میں مجہول راوی کاضعف دور ہو جاتا ہے۔
طریق دوم: البراء عن الحسن رحمہ اللہ عن ابی ھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حَدَّثَنَا یحْیى بْنُ إِسْحَاقَ‘ أَخْبَرَنَا الْبَرَاءُ‘ عَنِ الْحَسَنِ‘ عَنْ أَبِی هُرَیرَةَ‘ قَالَ: حَدَّثَنِی خَلِیلِی الصَّادِقُ رَسُولُ اللّٰهِﷺ‘ أَنَّهُ قَالَ:’’یكُونُ فِی هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْثٌ إِلَى السِّنْدِ وَالْهِنْدِ‘ فَإِنْ أَنَا أَدْرَكْتُهُ فَاسْتُشْهِدْتُ فَذَاكَ‘ وَإِنْ أَنَا فَذَكَرَ كَلِمَةً رَجَعْتُ وَأَنَا أَبُو هُرَیرَةَ الْمُحَرَّرُ قَدْ أَعْتَقَنِی مِنَ النَّارِ‘‘
ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے: میرے سچے خلیل‘ رسول ﷺ نے فرمایا: ’’اس اُمّت میں سے سندھ اور ہند کی طرف ایک فوج جائے گی۔‘‘ اگر میں نے اس جنگ کو پا لیا اور [اس میں شریک ہو کر] شہید ہو گیا تو ٹھیک‘ اور اگر میں-----اس موقع پر راوی کو یاد پڑتا ہے کہ آپ نے کہا —واپس لوٹ آیا تو میں ابو ہریرہ مُحَرَّر (مامون) ہوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے آگ سے بچا لیا ہو گا۔ (۲۲)
اس حدیث کی سند میں انقطاع ہے۔حسن بصریؒ کا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سماع محل نزاع ہے‘ اور محققین نے براء کو ضعیف لکھا ہے۔ البتہ حمزہ احمد زینؒ نے مسند احمد پر اپنی تعلیق میں اس روایت کو حسن قرار دیا ہے(۲۳)۔ اس کی وجہ واضح ہے کہ حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صحیح حدیث اس کی معناً شاہد ہے۔ اسی روایت کا پہلا صحیح طریق [جبر بن عبیدہ عن ابی ہریرہؓ] اور کعب الاحبارؒ کی حدیثیں اپنے طُرق کے ساتھ اسے موکد کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسے حسن قرار دیاگیا ہے۔(۲۴)
طریق سوم: کنانہ بن نُبیہ مولی صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا‘ عن ابی ہریرہرضی اللہ تعالیٰ عنہ
حَدَّثَنَا أَبُو الْجَوْزَاءِ أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ‘ وَكَانَ مِنْ نُسَّاكِ أَهْلِ الْبَصْرَةِ‘ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ قَالَ: حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ سَعِیدٍ‘ عَنْ كِنَانَةَ بْنِ نُبَیهٍ مَوْلَى صَفِیةَ‘ عَنْ أَبِی هُرَیرَةَ قَالَ: وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ غَزْوَةَ الْهِنْدِ‘ فَإِنْ أُدْرِكْهَا أُنْفِقْ فِیهَا نَفْسِی وَمَالِی‘ فَإِنْ قُتِلْتُ كُنْتُ كَأَفْضَلِ الشُّهَدَاءِ‘ وَإِنْ رَجَعْتُ فَأَنَا أَبُو هُرَیرَةَ الْمُحَرَّرُ
’’ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے: اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ نے ہم سے غزوۂ ہند کا وعدہ فرمایا۔ اگر مَیں [یعنی ابو ہریرہؓ] نے اس غزوہ کو پا لیا تو میں اس میں اپنا مال اور جان دونوں خرچ کر دوں گا۔ اگر میں اس کے دوران قتل ہو جاتا ہوں تو پھر میں افضل الشہداء کی طرح ہوؤں گا۔ اگر مَیں [سلامتی سے] واپس آ جاتا ہوں تو مَیں ایک ایسا ابوہریرہ ہوؤں گا جو [آگ سے] مامون ہو گا۔ ‘‘(۲۵)
یہ سند بھی ضعیف قرار دی گئی ہے۔ اس میں ایک راوی ہاشم بن سعید کو ائمہ حدیث نے ضعیف قرار دیا ہے۔اسی طرح کنانہ بن نُبیہ پر بھی کلام ہے(۲۶)۔ جہاں تک کنانہ بن نُبیہ کا تعلق ہے تو محدثین کے ایک گروہ نے ان کی حدیث قبول کی ہے۔ ابن حبانؒ نے ان کی توثیق کی ہے۔ ابن حجرؒ نے’’التقریب‘‘میں انہیں مقبول قرار دیا ہے(۲۷)۔ اسی طرح متابعات میں ہاشم بن سعید بھی مقبول ہیں۔ امام شوکانی ؒنے لکھا ہے کہ حاکم ؒ نے ہاشم بن سعید کی ایک دوسری روایت کی تخریج کی ہے‘ جسے امام سیوطیؒ نے صحیح قرار دیا ہے(۲۸)۔ لہٰذا ہاشم بن سعید کی تجریح پر محدثین متفق نہیں ہے۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ ہاشم بن سعید کی موجودگی کی وجہ سے ضعف کا حکم صرف اس طریق کی انفرادی حیثیت میں درست قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس مضمون کی دیگر روایات اور کثرتِ طُرق سے جو تقویت اس روایت کے مضمون کو ملتی ہے اس کی بنا پر اسے بھی ہم معتبر کہہ سکتے ہیں۔ اس اصول پر تفصیلی بحث اس فصل کے بعد مضمون کے آخر میں کی جائے گی۔
تیسری حدیث: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دوسری روایت
حَدَّثَنَا بَقِیةُ بْنُ الْوَلِیدِ‘ عَنْ صَفْوَانَ‘ عَنْ بَعْضِ الْمَشْیخَةِ‘ عَنْ أَبِی هُرَیرَةَ‘ رَضِی اللّٰهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ ﷺَ‘ وَذَكَرَ الْهِنْدَ‘ فَقَالَ: لَیغْزُوَنَّ الْهِنْدَ لَكُمْ جَیشٌ‘ یفْتَحُ اللّٰهُ عَلَیهِمْ حَتّٰى یأْتُوا بِمُلُوكِهِمْ مُغَلَّلِینَ بِالسَّلَاسِلِ‘ یغْفِرُ اللّٰهُ ذُنُوبَهُمْ‘ فَینْصَرِفُونَ حِینَ ینْصَرِفُونَ فَیجِدُونَ ابْنَ مَرْیمَ بِالشَّامِ قَالَ أَبُو هُرَیرَةَ: إِنْ أَنَا أَدْرَكْتُ تِلْكَ الْغَزْوَةَ بِعْتُ كُلَّ طَارِفٍ لِی وَتَالِدٍ وَغَزَوْتُهَا‘ فَإِذَا فَتْحَ اللّٰهُ عَلَینَا وَانْصَرَفْنَا فَأَنَا أَبُو هُرَیرَةَ الْمُحَرَّرُ‘ یقْدَمُ الشَّامَ فَیجِدُ فِیهَا عِیسَى ابْنَ مَرْیمَ‘ فَلَأَحْرِصَنَّ أَنْ أَدْنُوَ مِنْهُ فَأُخْبِرُهُ أَنِّی قَدْ صَحِبْتُكَ یا رَسُولَ اللَّهِ‘ قَالَ: فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَضَحِكَ‘ ثُمَّ قَالَ:’’هَیهَاتَ هَیهَاتَ"
’’ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے ہند کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: تمہارا ایک لشکر ہند سے جنگ کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اس لشکر کو اُن پر فتح دے گا یہاں تک کہ یہ ہند کے بادشاہوں کو پا بہ سلاسل لائیں گے۔ اللہ تعالیٰ [اس لشکر میں شامل] مجاہدوں کے گناہ معاف فرما دے گا۔ جب وہ واپس لوٹیں گے تو عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کو شام میں پائیں گے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اگر میں اس غزوے کے وقت موجود ہوا تو میں اس کے لیے اپنی ہر نئی اور پرانی چیز بیچ دوں گا اور اس جنگ میں لڑوں گا۔ اگر اللہ نے ہمیں فتح دی اور ہم واپس لوٹے تو میں ایک آزاد ابو ہریرہؓ ہوؤں گا‘ جو شام آئے گا اور مسیح ابن مریم سے ملے گا۔ اے اللہ کے رسولؐ !مَیں اپنی پوری کوشش کروں گا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤں اور انہیں بتاؤں کہ مجھے آپ ﷺ کی صحبت حاصل رہی ہے۔ ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ اس پر نبی ﷺ مسکرائے۔ اور پھر [تعجب کا ا ظہار کرتے ہوئے]فرمایا: هَیهَاتَ هَیهَاتَ۔ ‘‘(۲۹)
یہ روایت بقیہ بن ولید کے ضعف کی وجہ سے کمزور ہے۔ اس کے علاوہ صفوان نے اپنے شیوخ کا نام نہیں لیا‘ لہٰذا‘ وہ مجہول ہیں۔ اس لیے تنہا یہ روایت بھی معتبر نہیں ہے۔
چوتھی حدیث: حدیثِ کعب الاحباررحمہ اللہ
یہ موقوف حدیث ہے‘ جو کعب الاحبارؒ سے مروی ہے۔ نُعیم ابن عبادؒ نے کتاب الفتن میں اس کی تخریج کی ہے:
حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ‘ عَمَّنْ حَدَّثَهُ عَنْ كَعْبٍ‘ قَالَ: یبْعَثُ مَلِكٌ فِی بَیتِ الْمَقْدِسِ جَیشًا إِلَى الْهِنْدِ فَیفْتَحُهَا‘ فَیطَئُوا أَرْضَ الْهِنْدِ‘ وَیأْخُذُوا كُنُوزَهَا‘ فَیصَیرُهُ ذَلِكَ الْمَلِكُ حِلْیةً لَبَیتِ الْمَقْدِسِ‘ وَیقْدِمُ عَلَیهِ ذَلِكَ الْجَیشُ بِمُلُوكِ الْهِنْدِ مُغَلَّلِینَ‘ وَیفْتَحُ لَهُ مَا بَینَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ‘ وَیكُونُ مَقَامُهُمْ فِی الْهِنْدِ إِلَى خُرُوجِ الدَّجَّالِ
’’بیت المقدس کا ایک بادشاہ ہند کی طرف ایک لشکر روانہ کرے گا جو ارضِ ہند کو روند دے گا اور اسے فتح کر لے گا۔ یہ لشکر وہاں کے خزانے قبضے میں کر لے گا۔ وہ بادشاہ اس خزانے کو بیت المقدس کی زینت بنائے گا۔یہ لشکر زنجیروں میں جکڑے ہند کے بادشاہوں کے ساتھ [اپنے بادشاہ] کے پاس پہنچے گا۔ اس بادشاہ کو مشرق اور مغرب پر فتح حاصل ہو گی۔ یہ لشکر خروج دجال تک ہند میں قیام کرے گا۔ ‘‘(۳۰)
آخری دونوں روایتیں‘ روایت ابو ہریرہؓ اور روایتِ کعب الاحبار‘ محدثین نے ضعیف قرار دی ہیں۔ لیکن جیسا کہ اوپر بیان ہوا‘ جو ضعیف متن کسی صحیح حدیث کے مطابق ہو وہ مقبول ہوتا ہے‘ اور اسی طرح کثرتِ طُرق سے ضعف دور ہو جاتا ہے۔ لہٰذا متابعات میں ضعیف روایت نہ صرف قابل قبول ہوتی ہے بلکہ شاہد کی وجہ سے یہ حسن یا صحیح کے درجے میں ترقی کرجاتی ہے۔
علم حدیث کا ایک اہم اصول
محدثین کا اصول ہے کہ کثرتِ طرق سے ضعیف حدیث کا ضعف دور ہو جاتا ہے۔(۳۱) اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی روایت کے ایک سے زاید طرق ہوں تو ان اسناد میں رُوات کے ضعف کے باوجود روایت صحت کے درجے تک ترقی کر جاتی ہے۔ اس اصولِ حدیث کی کچھ تفصیل ہے‘ جو یہاں پیش ہے۔
علمائے فن ِحدیث کے مطابق ضعف کی دو اقسام ہیں: پہلی قسم میں راوی کا فسق اور متعلقات آتے ہیں‘ اور دوسری قسم میں راوی کے ضبط کی کمی‘ اختلاط‘ یا اس کا مجہول ہونا شامل ہے۔(۳۲) اکثر محدثین کے مطابق ان میں سے پہلی قسم کا ضعف اگر ہر طریق میں موجود ہو‘ تو کثرتِ طُرق سے بھی اس روایت کا ضعف زائل نہیں ہو گا۔ تاہم کچھ محدثین کے نزدیک اس قسم کا ضعف بھی کثرتِ طُرق سے دور ہو جاتا ہے۔ دوسری قسم کے بارے میں محدثین کا اتفاق ہے کہ یہ ضعف کثرتِ طُرق سے زائل ہو جاتا ہے۔ اسی بنیاد پر بہت سی ضعیف روایات حسن لغیرہٖ کا درجہ حاصل کر لیتی ہیں۔ اسی طرح بہت سی حسن روایات صحیح لغیرہٖ بن جاتی ہیں۔ ابن حجر عسقلانی ؒ نے اپنی کتاب’’التلخیص الحبیر فی تخریج احادیث الرافعی الکبیر‘‘میں لکھا ہے:
وَالْحَسَنُ لِغَیرِهِ: مَا وَرَدَ مِنْ طَرِیقَینِ فَأَكْثَرَ‘ لَا یخْلُوْ وَاحِدٍ مِنْهَا مِنْ ضُعْفٍ إَلَّا أَنَّهَا بِمَجْمُوْعِهَا تَرَقَّى بِالْحَدِیثِ إِلٰى دَرَجَةِ الْحَسَنِ لِغَیرِهِ بِشَرْطٍ أَنْ یكُوْنَ الضُّعْفُ غَیرَ شَدِیدٍ. أَمَّا الضَّعِیفُ فَهُوَ مَا قَصَرَ عَنْ دَرَجَةِ الْحَسَنِ‘ وَتَتَفَاوَتُ دَرَجَاتِهِ ضُعْفاً بِحَسْبِ بُعْدِهِ مِنْ شُرُوْطِ الصِّحَةِ. وَلَیسَ لِلضَّعِیفِ مَرْتَبَةٌ وَاحِدَةٌ‘ بَلْ هُوَ قِسْمِانِ. قِسْمٌ یجْبَرُ بِتَعَدُّدِ الطُّرُقِ‘ وَقِسْمٌ لَا یجْبَرُ بِهٰذَا التَّعَدُّدِ‘ فَالَّذِی یجْبَرُ بِتَعَدُّدِ الطُّرُقِ یكُوْنُ نَاشِئاً عَنْ سُوْءِ حِفْظِ رُوَاتِهِ لَا مِنْ تُهْمَةٍ فِیهِمْ. أَمَّا الضَّعِیفُ الَّذِی لَا یجْبُرُ ضُعْفَهُ فَهُوَ مَا كَانَ بَعْضُ رُواتِهِ مُتَّهَّماً بِالْكِذْبِ أَوِ الْفِسْقِ وَقَدْ یرْتَقِی بِمَجْمُوْعِهِ عَنْ كَوْنِهِ مُنْكَراً أَوْ لاَ أَصْلَ لَهُ.
’’حسن لغیرہٖ حدیث دو یا دو سے زیادہ ایسے طُرق سے مروی ہوتی ہے جن میں سے ہر ایک طریق میں کوئی نہ کوئی ضعف ہو۔ البتہ ان سب کا مجموعہ حدیث کو حسن لغیرہٖ کے درجے میں ترقی دے دیتا ہے۔ اس میں شرط صرف یہ ہے کہ یہ ضعف بہت شدید نہ ہو۔ ضعیف وہ روایت ہوتی ہے جو حسن کے درجے سے قاصر ہو۔ شرائطِ صحت سے بُعْد کے لحاظ سے ایسی روایات کے درجات میں فرق واقع ہوتا جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ضعیف روایات ایک ہی درجے پر نہیں ہوتیں بلکہ ان کی دو قسمیں ہیں۔ ایک قسم وہ ہے جس کا ضعف تعددِ طُرق سے دور ہو جاتا ہے۔ ضعیف کی دوسری قسم وہ ہے جس کا ضعف تعددِ طُرق سے زائل نہیں ہوتا۔ تعددِ طُرق سے دور ہو جانے والا ضعف رُوات کے کردار میں کسی تہمت کی وجہ سے نہیں بلکہ ان حفظ و ضبط کی کمی سے پیدا ہوتا ہے۔ وہ ضعیف روایت جس کا ضعف اس کے رُوات میں جھوٹ یا فسق کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے وہ کثرتِ طُرق سے دور نہیں ہوتا۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ ایسی حدیث کثرت طرق سے کچھ بہتر ہو جائے اور ہم یہ نہ کہہ سکیں کہ یہ منکَر ہے یا اس کی کوئی اصل نہیں۔ ‘‘(۳۳)
علامہ ابن حجرؒ نے یہی بحث اپنی کتاب نزھة النظر فی توضیح نخبة الفکر میں بھی اٹھائی ہے۔ لکھتے ہیں:
وَبِكَثْرَةِ طُرُقِهِ یُصَحَّحُ‘ وإنَّمَا نَحْكُمُ لَهُ بِالصِّحَّةِ عِنْدَ تَعَدُّدِ الطُّرُقِ‘ لأنَّ لِلصُّوْرَةِ الْمَجْمُوْعَةِ قُوَّةٌ تَجْبُرُ القَدْرَ الَّذِی قَصُرَ بِهِ ضَبْطُ رَاوِی الحَسَنِ عَنْ رَاوِی الصَّحِیحِ‘ وَمِنْ ثَمَّ تُطْلَقُ الصِّحَةُ عَلَى الْإِسْنَادِ الَّذِی یكُوْنُ حَسَناً لِذَاتِهِ - لَوْ تَفَرَّدَ - إِذَا تَعَدَّدَ.
’’[حسن حدیث ]کثرتِ طُرق کی وجہ سے صحیح قرار پاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس مجموعے میں اتنی قوت ہے کہ حسن روایت کے راوی کے ضبط کی وہ کمی‘ جس نے اسے صحیح کے درجہ سے گرا دیا تھا‘ دور ہو جائے گی۔ اسی وجہ سے حسن لذاتہٖ سند کو اس کے تعددِ طُرق کی وجہ سے صحیح قرار دیا جاتا ہے‘ اگرچہ وہ متفرد ہو۔ ‘‘(۳۴)
اسی طرح ابو عبد اللہ شمس الدین محمد معروف بابن امیر حاج حنفیؒ نے التقریر و التحبیر علی تحریر الکمال بن الھمام میں لکھا ہے:
(حَدِیثُ الرَّاوِی الضَّعِیفِ لِلْفِسْقِ لَا یرْتَقِی بِتَعَدُّدِ الطُّرُقِ إلَى الْحُجِّیةِ) لِعَدَمِ تَأْثِیرِ مُوَافَقَةِ غَیرِهِ فِیهِ كَمَا ذَكَرَهُ النَّوَوِی (وَلِغَیرِهِ) أَی وَحَدِیثُ الضَّعِیفِ لِغَیرِ الْفِسْقِ كَسُوءِ الْحِفْظِ مَعَ الصِّدْقِ وَالدِّیانَةِ یرْتَقِی بِتَعَدُّدِ الطُّرُقِ إلَى الْحُجِّیةِ
’’(فسق کی وجہ سے ضعیف راوی کی حدیث تعدّدِ طُرق کے باوجود حجت نہیں بنتی کیونکہ) اس کے معاملے میں کسی دوسرے [راوی ]کی موافقت کوئی اثر نہیں ڈالتی‘ جیسا کہ نوویؒ نے بیان کیا ہے۔ [وہ ضعیف حدیث جس کے ضعف کی وجہ] (اس کے سوا ہے)‘ یعنی اس کی وجہ راوی کا فسق نہیں ہے بلکہ اس کے حفظ اور ضبط کی کمزوری ہے جبکہ وہ صداقت اور دیانت سے متصف ہو‘ تو [ایسی حدیث] تعددِ طُرق کی وجہ سے حجت بن جائے گی۔ ‘‘(۳۵)
اس کے بعد وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ ایک راوی کے مجہول ہونے کے سبب جو ضعف حدیث کو لاحق ہوتا ہے وہ کس طرح زائل ہوتا ہے:
(وَأَمَّا) الطَّعْنُ فِی الْحَدِیثِ (بِالْجَهَالَةِ) لِرَاوِیهِ بِأَنْ لَمْ یعْرَفْ فِی رِوَایةِ الْحَدِیثِ إلَّا بِحَدِیثٍ أَوْ بِحَدِیثَینِ (فَبِعَمَلِ السَّلَفِ) بِهِ یزُولُ الطَّعْنُ فِیهِ لِأَنَّ عَمَلَهُمْ بِهِ إمَّا لِعِلْمِهِمْ بِعَدَالَةِ الرَّاوِی وَحُسْنِ ضَبْطِهِ أَوْ لِمُوَافَقَتِهِ سَمَاعَهُمْ ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللّٰهِ ﷺ أَوْ مِنْ سَامِعٍ مِنْهُ ذٰلِكَ مَشْهُورٌ لِانْتِفَاءِ اتِّهَامِهِمْ بِالتَّقْصِیرِ فِی أَمْرِ الدِّینِ مَعَ مَا لَهُمْ مِنْ الرُّتْبَةِ الْعَالِیةِ فِی الْوَرَعِ وَالتَّقْوَى (وَسُكُوتُهُمْ) أَی السَّلَفِ (عِنْدَ اشْتِهَارِ رِوَایتِهِ) أَی الْحَدِیثِ الَّذِی رَاوِیهِ بِالصِّفَةِ الْمَذْكُورَةِ (كَعَمَلِهِمْ) بِهِ (إذْ لَا یسْكُنُونَ عَنْ مُنْكَرٍ) یسْتَطِیعُونَ إنْكَارَهُ
’’جب ایک حدیث پر طعن کی وجہ یہ ہو کہ اس کا راوی مجہول ہو بایں طور کہ وہ روایتِ حدیث کے حوالےسے معروف نہ ہو بلکہ اس نے صرف ایک یا دو روایتیں ہی بیان کی ہوں‘تو اس نوع کا طعن سلف صالحین کے عمل سے رفع ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سلف صالحین ایسی حدیث پر صرف اس صورت میں عمل کرتے ہیں کہ جب انہیں معلوم ہوتا ہے کہ یا راوی عادل اور ضابط ہے‘ یا اس راوی کی روایت کے مضمون کی موافقت میں ان کے پاس رسول اللہ ﷺ سے مسموع کوئی دلیل موجود ہوتی ہے‘ جو انہوں نے حضور کریم ﷺ سے خود سنی ہو‘ یا کسی مشہور راوی کے واسطے سے ان کے علم میں آئی ہو۔ یہ بات اس وجہ سے درست ہے کہ اسلاف پر دین کے معاملے میں کوئی تہمت نہیں ہے‘ نیز سلف صالحین تقویٰ اور پرہیزگاری کے بہت اعلیٰ مقام پر تھے۔ ان لوگوں کاکسی ایسے مجہول راوی کی روایت کے معروف ہو جانے کے باوجود اس کے بارے میں خاموش رہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس راوی کو جانتے ہیں۔ اسلاف کسی منکَر پر انکار کی قدرت کے باوجود خاموش نہیں رہتے تھے۔ ‘‘(۳۶)
درج بالا تفصیلات سے یہ واضح ہوتا ہے ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور کعب احبار ؒکی یہ روایتیں‘ اپنے بنیادی نکتے میں یعنی غزوۂ ہند میں ایک جنگ ہو گی جس میں شرکت مسلمانوں کے لیے باعث ثواب ہو گی‘صحیح روایات کے مطابق ہیں‘ لہٰذا مستند ہیں۔
حاصلِ بحث
دور حاضر میں متعدد متجددین نے غزوۂ ہند کے بارے میں نبی اکرم ﷺ کی پیش گوئی کا انکار کیا ہے۔ یہ اخبار متعدد طُرق سے اور ایک سے زائد صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے مروی ہیں۔ ان میں سے ایک روایت صحیح کی شرائط پر پوری اترتی ہے۔ دیگر کا ضعف بھی تعددِ طُرق اور متابعات و شواہد کی وجہ سے زائل ہو گیا ہے‘کیوں کہ کتبِ اصولِ حدیث سے رہنمائی ملتی ہے کہ تعددِ طرق جابر ِضعف ہوتا ہے۔ اس اصول کی روشنی میں ان اخبار کا انتساب نبی اکرمﷺ کی جانب درست ہے۔ روایات کے مجموعے کو کسی ایک روایت کے مخصوص راوی پر طعن کی وجہ سے مطلقاً مسترد کر نا علم اصول حدیث اور فن رجال سے ناواقفیت کے بغیر ممکن نہیں۔ غزوۂ ہند پر متجددین کے رشحاتِ قلم دراصل اسی ناواقفیت کا نمونہ ہیں۔
یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ اصولِ حدیث سے عدمِ اعتناء دراصل متجددین کے سیاسی موقف سے پھوٹتا ہے۔ پس استعمار‘ بالخصوص نائن الیون کے بعد جہاد و قتال سے متعلق دینی احکامات مغرب کے شدید حملے کی زد میں ہیں۔ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی لومة لائم کی پروا کیے بغیر‘ دینی احکامات کو نہ صرف بے کم و کاست بیان کریں بلکہ ان پر قائم رہنے کی جرأت بھی پیدا کریں۔اس کے برعکس متجددین اپنی دو سو سالہ روایات کے عین مطابق ہر اس دینی حکم کی تاویل اور انکار ضروری سمجھتے ہیں جو جدیدیت کے تقاضوں کے مطابق نہ ہو۔ چنانچہ متجددین کے لیےایسے تمام دینی احکام و اخبار کا انکار کرنا لازم ہے جن سے جنگ و قتال یا مزاحمت کی بُو آتی ہو۔اس پر مستزاد‘ امریکا کی اس خطے کے حوالے سے موجودہ پالیسی ہےکہ برصغیر کے مسلمان بھارت کی بالادستی قبول کر لیں۔ چنانچہ متجددین کایہ فرضِ اوّلیں ٹھہرا ہے کہ دین کی ایسی تشریح کریں جو مغرب کے ساتھ ساتھ ہندوئوں کی ابھرتی ہوئی سیاسی قوت‘ جو ہندوتوا کے لباس میں ظاہر ہو رہی ہے ‘کے لیے بھی قابلِ قبول ہو‘ لہٰذا ہمارے متجددین ہندوستان پر یلغار کرنے کے استحباب کو کیسے قبول کر سکتے ہیں۔ بظاہر غزوۂ ہند کی روایات کے انکارکے پیچھے یہ جذبہ بھی کارفرما نظر آتا ہے۔ یہ دین کی سیاسی تعبیر کی بدترین مثال ہے۔

حواشی
(۱) علی بن محمد‘ ابو حسن نور الدین ملاہروی قاری‘ الاسرار المرفوعة فی الاخبار الموضوعة (بیروت: مؤسسة: ۱۴۳۱ء)‘ صفحات: ۴۳۸ اور ۴۷۲ تا ۴۷۳
(۲) ابو احمد بن عدی جرجانی‘ الکامل فی ضعفاء الرجال (بیروت: الکتب العلمیہ‘ ۱۹۹۷ء)‘ جلد: ۱‘ صفحہ: ۲۱۲
(۳) ابو بکر احمد بن علی خطیب بغدادی‘ الجامع لاخلاق الراوی و آداب السامع (ریاض: مکتبہ المعارف‘ ۱۴۳۱ھ)‘ جلد: ۲‘ صفحہ: ۱۶۲
(۴) غزوۂ ہند کے بارے میں نبی ﷺ سے مروی روایات کا انکار جدیدیت زدہ طبقے کا معروف موقف ہے۔ موجودہ دور میں جاوید احمد غامدی اور ان کے تلامذہ بھی اس موقف کے علم بردار ہیں۔ مثلاً عمار خان ناصر کہتے ہیں کہ اگرچہ اس موضوع پر ایک حدیث صحیح ہے‘ مگر یہ پیش گوئی صادق آ چکی ہے۔ دیگر روایات ضعیف ہیں۔ دیکھیے: عمار خان ناصر‘’’ لبرل ازم اور جمہوریت کی ناکامی کی بحث‘‘‘ ماہنامہ الشریعہ‘ ۳۰‘ نمبر ۱۰‘ (۲۰۱۹ء): صفحہ ۳۔ المورد کے اردو جریدے اشراق میں غامدی صاحب کے تلمیذ معز امجد نے ایسی تمام روایات کی اسانید کو ضعیف ثابت کرنے کی کوشش ہے اور اشارہ کیا ہے کہ ان روایات کو نبی ﷺ کی طرف منسوب کرنا گویا اپنے’’جذبات اور احساسات کی تسکین کے لیے‘‘‘ ’’خدا کی شریعت سے آنکھیں بند‘‘ کرنا‘ ’’اس کی پسند اور نا پسند کو پس پشت‘‘ڈالنا‘ اور’’پیغمبرؐ کی طرف غلط باتیں منسوب‘‘کرنا ہے۔ دیکھیے: معز امجد‘’’غزوۂ ہند‘‘‘ ماہنامہ اشراق ۱۱ ‘نمبر۲‘ (۱۹۹۹ء): صفحات: ۵۰ تا ۵۸۔ خورشید احمد ندیم نے حسب ِمعمول اس علمی مسئلے کو صحافیانہ سطح پر گرا دیا ہے۔ دیکھیے: خورشید احمدندیم‘ ’’جنگ‘ مذہب اور پاکستان‘‘‘ روزنامہ دنیا‘ ۱؍اکتوبر‘ ۲۰۱۶ء۔
یہ تینوں حضرات در اصل غامدی صاحب ہی کے موقف پر انحصار کر رہے ہیں‘ جسے انہوں نے متعدد مواقع پر بیان کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ’’اس طرح کی کوئی روایت صحت کے ساتھ ثابت نہیں ہے‘‘۔ ان روایات کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر اس روایت میں کوئی سچائی ہے‘ تو یہ واقعہ بنو اُمیہ کے دور میں گزر چکا‘ یعنی بہر صورت اس روایت کو مسلمانوں کے علم و عمل میں جگہ نہیں ملنی چاہیے۔دیکھیے:
https://www.youtube.com/watch?v=uheUj3EEDXQ
(۵) ابو عبد الرحمٰن احمد بن شعیب خراسانی نسائی‘ سنن نسائی(قاہرہ: مکتبہ تجاریہ کبریٰ ۱۹۸۶ء)‘ جلد: ۶‘ صفحہ: ۴۲۔نسائیؒ کے علاوہ اس حدیث کی تخریج امام احمد بن حنبلؒ نے اپنی مسند میں‘ امام بخاریؒ نے التاریخ الکبیر میں‘ ابو عروبہ حرانیؒ نے ایک جزو میں‘ ابن عدیؒ نے الکامل فی ضعفاء الرجال میں‘ ابن ابی عاصمؒ نے الجہاد میں‘ طبرانیؒ نے المعجم الاوسط اور مسند الشامیین میں‘ بیہقی ؒنے سنن الکبریٰ میں‘ اور ابن عساکرؒ نے تاریخ دمشق میں کی ہے۔ دیکھیے: ابو عبداللہ احمد بن محمد بن حنبل شیبانی‘مسند‘تحقیق شعیب ارنؤوط (بیروت: مؤسسہ رسالہ‘۲۰۰۱ء)‘جلد: ۳۷‘صفحہ: ۸۱؛ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بخاری‘ التاریخ الکبیر (حیدرآباد‘ دکن: دائرہ معارف عثمانیہ‘ تاریخ ندارد)‘ جلد: ۶‘ صفحات: ۷۲ تا ۷۳؛ ابو عروبہ حسین بن محمد حرانی‘ جزء ابی عروبہ (ریاض: مکتبہ الرشد‘ ۱۹۹۸ء)‘ صفحہ: ۵۸؛ ابو احمد بن عدی جرجانی‘ الکامل فی ضعفاء الرجال‘ جلد: ۱‘ صفحہ: ۲۱۲؛ ابن ابی عاصم، الجہاد (دمشق: دار القلم، ۱۹۸۹ء)، جلد: ۲، صفحہ: ۶۵؛ ابو القاسم سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الاوسط (قاہرہ: دار الحرمین، ۱۹۹۵ء)، جلد: ۷، صفحہ: ۲۳؛ ابوالقاسم سلیمان بن احمدطبرانی، مسندالشامیین (بیروت: مؤسسہ الرسالہ، ۱۹۸۴ء)،جلد: ۳،صفحہ: ۸۹؛ ابوبکراحمد بن حسین بن علی بن بیہقی، السنن الکبریٰ (قاہرہ:مرکز ہجر للبحوث والدراسات العربیہ والاسلامیہ،۲۰۱۱ء)‘جلد:۱۸،صفحات: ۵۸۱تا۵۸۳؛ ابو قاسم علی بن حسن شافعی ابن عساکر، تاریخ دمشق (دمشق: دار الفکر للطباعہ والنشر والتوزیع، ۱۹۹۵ء)، جلد: ۵۲، صفحہ: ۲۴۸۔
(۶) تلقین قبول کرنے سے مراد یہ ہے کہ اگر انہیں پرکھنے کی غرض سے کہا جاتا کہ آپ نے فلاں روایت کی ہے، تو قلّت ضبط کی وجہ سے وہ یہ بات مان لیتے تھے، اگرچہ وہ روایت انہوں نے بیان نہیں کی ہوتی تھی۔ یہ راوی کے ضعف کی ایک شکل ہے۔
(۷) ابو عبد الرحمٰن محمد ناصر الدین البانی، سلسلة الاحادیث الصحیحة (ریاض: مکتبہ المعارف للنشر والتوزیع‘ ۱۹۹۵ء)‘ جلد: ۴‘ صفحہ: ۵۷۰
(۸) نسائی‘ سنن نسائی‘ جلد: ۶‘ صفحہ: ۴۲۔حدیث کا یہ متن سنن نسائیؒ سے لیا گیا ہے۔ یہ حدیث الفاظ کی تھوڑی تبدیلی کے ساتھ کئی کتبِ حدیث میں روایت کی گئی ہے: امام احمد بن حنبلؒ کی مسند‘ حاکمؒ کی المستدرک علی الصحیحین‘ نسائیؒ کی سنن‘ بیہقیؒ کی السنن الکبریٰ‘ نعیم ابن حماد ؒکی الفتن‘ بزاز ؒکی البحر الزخار‘ خطیب بغدادیؒ کی تاریخ بغداد‘ اور ابو نعیم احمد بن عبد اللہ ؒکی حلیہ الاولیاء و طبقات الاصفیاء۔ دیکھیے: احمد بن حنبل‘ مسند‘ تحقیق شعیب ارنؤوط‘ جلد:۱۲‘ صفحات: ۲۸ تا ۲۹؛ ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ حاکم نیساپوری‘ المستدرک علی الصحیحین (بیروت: دارالکتب العلمیہ‘ ۱۹۹۰ء)‘ جلد: ۳‘ صفحہ: ۵۸۸؛ ابو بکر احمد بن حسین بن علی بن بیہقی‘ السنن الکبریٰ‘جلد:۱۸‘ صفحات: ۵۸۱؛ ابو عبد اللہ تعالیٰ نعیم بن حماد‘ کتاب الفتن (قاہرہ: مکتبہ التوحید‘ ۱۴۱۲ھ)‘ جلد: ۱‘ صفحہ: ۴۰۹؛ ابو بکر احمد بن عمرو بن عبدالخالق المعروف بالبزاز‘ البحر الزخار (مدینہ منورہ: مکتبہ العلوم والحکم‘ ۲۰۰۹ء)‘ جلد:۱۵‘ صفحہ: ۳۰۲؛ ابوبکر احمد بن علی بن ثابت بن احمد خطیب البغدادی‘ تاریخ بغداد (بیروت: دارالغرب الاسلامی‘ ۲۰۰۲ء)‘ جلد: ۱۱‘ صفحہ: ۳۷۷؛‘ ابو نعیم احمد بن عبد اللہ اصبہانی‘ حلیہ الاولیاء و طبقات الاصفیاء (مصر: مطبعة السعادہ‘ ۱۹۷۴ء)‘ جلد:۸‘ صفحہ: ۳۱۶۔ ان مراجع میں حدیث کے متن میں معمولی اختلافات موجود ہیں۔ لہٰذا مسند احمد‘ مستدرک حاکم‘ اور حلیة الاولیاء میں درج ذیل الفاظ یا ان کا متبادل موجود نہیں ہے: فَإِنْ أَدْرَكْتُهَا أُنْفِقْ فِیهَا نَفْسِی وَمَالِی۔ تاریخ الکبیر اور فتن نعیم بن حماد میں فعل ’’اَنْفَقْتُ‘‘آیا ہے۔ باقی تمام مصادر میں’’أُنْفِقْ‘‘ہے۔ تاریخ بغداد میں’’اِنْ اَنَا اَدْرَکْتُهَا‘‘میں لفظ’’اَنَا‘‘کا اضافہ ہے۔ اور اسی طرح تاریخ بغداد میں’’اُنْفِقْ/اَنْفَقْتُ فِیهَا نَفْسِیْ وَ مَالِی‘‘کی بجائے ’’اَتْبَعْتُ فِیْهَا نَفْسِی‘‘ہے۔اوپر دیے گئے متن کے علاوہ تاریخ الکبیر اور مسند ِبزاز کی روایت میں فعل’’فَإِنْ قُتِلْتُ‘‘ہے۔ نسائی کی سُنن میں ’’اُقْتَل‘‘ ہے جبکہ باقی تمام مصادر میں’’اسْتُشْهِدْتُ‘‘ کا فعل آیا ہے۔مسند احمد‘ مستدرک حاکم اور حلیة الاولیاء میں’’كُنْتُ مِنْ خَیرِ الشُّهَدَاءِ‘‘ہے‘ باقی تمام مصادر میں اس کی جگہ’’أَفْضَلَ الشُّهَدَاءِ‘‘کے الفاظ وارد ہوئے ہیں۔ تاریخ کبیر اور بزاز میں’’کُنْتُ‘‘کی بجائے’’فَأَنَا مِنْ‘‘آیا ہے۔ نسائیؒ کے سوا تمام مصادر میں’’اِنْ رَجَعْتُ‘‘ہے۔ نسائی ؒکی روایت میں پہلے حصے کی مطابقت میں فعل’’اَرْجِعْ‘‘استعمال ہوا ہے۔
(۹) احمد بن حنبل‘ مسند‘ تحقیق احمد شاکر (قاہرہ: دار الحدیث‘ ۲۰۰۱ء)‘ جلد: ۶‘ صفحات: ۵۳۲تا۵۳۳
(۱۰) احمد بن حنبل‘ مسند‘ تحقیق شعیب ارنؤوط‘ جلد:۱۲‘ صفحہ :۲۹
(۱۱) احمد بن حنبل‘ مسند‘ تحقیق شعیب ارنؤوط‘ جلد:۱۲‘ صفحہ :۲۹
(۱۲) احمد بن حنبل‘ مسند‘ تحقیق احمد شاکر‘ جلد: ۶‘ صفحات: ۵۳۲ تا ۵۳۳
(۱۳) احمد بن علی بن محمد بن احمد بن حجر عسقلانی‘ تقریب التہذیب (شام: دار الرشید‘ ۱۴۰۶ھ)‘ صفحہ: ۱۳۷
(۱۴) احمدبن عبدالرحمان بن محمدالبناساعاتی‘الفتح الربانی لترتیب مسند الامام احمد بن حنبل شیبانی (دار احیاء التراثـ العربی‘ تاریخ ندارد)‘ جلد: ۱۴‘صفحہ: ۲۸
(۱۵) ابو عبد الرحمٰن محمد ناصر الدین البانی‘ ضعیف سنن النسائی (ریاض: مکتبہ المعارف للنشر والتوزیع‘ ۱۹۹۸ء)‘ صفحہ: ۹۴
(۱۶) ابو عبد الرحمان محمد ناصر الدین البانی‘ تخریج احادیث فضائل الشام (ریاض: مکتبہ المعارف للنشر والتوزیع‘ ۲۰۰۰ء)‘ صفحہ : ۱۹
(۱۷) البانی‘ تخریج احادیث فضائل الشام‘ صفحات : ۱۹ تا ۲۰
(۱۸) البانی‘ تمام المنہ فی التعلیق علی فقہ السنہ (ریاض: دار الرایة للنشر والتوزیع‘ تاریخ ندارد)‘ صفحہ: ۲۰۵
(۱۹) البانی‘ تمام المنہ فی التعلیق علی فقہ السنہ‘صفحہ: ۲۰۶
(۲۰) البانی‘ تمام المنہ فی التعلیق علی فقہ السنہ‘ صفحہ: ۲۰۷
(۲۱) ابو بکر محمد بن احمد بن ابی سہل سرخسی‘ اصول السرخسی (حیدرآباد‘ انڈیا: لجنة احیاء المعارف النعمانیہ‘ ۱۳۹۵ھ)‘ جلد:۱‘ صفحہ: ۳۵۲
(۲۲) احمد بن حنبل‘ مسند‘ تحقیق شعیب ارناؤوط‘ جلد: ۱۴‘ صفحہ :۴۱۹
(۲۳) دیکھیے تعلیق : احمد بن حنبل‘ مسند‘ تحقیق شعیب ارناؤوط‘ جلد: ۱۴‘ صفحہ: ۴۱۹
(۲۴) ابو احمد محمد عبد اللہ اعظمی‘ الجامع الکامل فی الحدیث الصحیح الشامل المرتب علی ابواب الفقہ (ریاض: دار الاسلام للنشر والتوزیع‘ ۲۰۱۶ء)‘ جلد: ۸‘ صفحہ: ۷۴۸
(۲۵) ابن ابی عاصم‘ الجهاد (دمشق: دار القلم‘ ۱۹۸۹ء)‘ جلد: ۲‘ صفحہ: ۶۶۸
(۲۶) احمد بن حنبل‘مسند‘ تحقیق شعیب ارناؤوط‘ جلد: ۱۲‘ صفحہ: ۲۹
(۲۷) اعظمی‘ الجامع الکامل فی الحدیث الصحیح الشامل المرتب علی ابواب الفقہ‘ جلد: ۷‘ صفحہ: ۲۱۴
(۲۸) شہاب الدین ابو عباس احمد بن احمد بن محمد بن عیسیٰ فاسی‘ عدة المرید الصادق (دارابن حزم‘ ۲۰۰۶ء)‘ صفحہ: ۲۵۲
(۲۹) نعیم بن حماد‘ کتاب الفتن‘ جلد: ۱‘ صفحہ: ۴۰۹ اور ۴۱۰؛ ابو یعقوب اسحاق بن ابراہیم ابن راہویہ‘ مسند اسحاق بن راہویہ (مدینہ منورہ: مکتبہ الایمان‘ ۱۹۹۱ء)‘ جلد: ۱‘ صفحہ: ۴۶۲
(۳۰) نعیم بن حماد‘ کتاب الفتن‘ جلد: ۱‘ صفحہ: ۴۰۲ اور ۴۰۹
(۳۱) ابو فضل احمد بن علی بن محمد بن احمد بن حجر عسقلانی‘ نزھة النظر فی توضیح نخبة الفکر فی مصطلح اھل العصر ( ۲۰۲۱ء)‘ صفحہ: ۸۹
(۳۲) ابو فضل احمد بن علی بن محمد بن احمد بن حجر عسقلانی‘ التلخیص الحبیر (بیروت: دار الکتب العلمیہ‘ ۱۹۸۹ء)‘ جلد: ۱‘ صفحہ: ۸۹
(۳۳)عسقلانی‘ التلخیص الحبیر (بیروت: دار الکتب العلمیہ‘ ۱۹۸۹ء)‘ جلد: ۱‘ صفحہ: ۸۹
(۳۴) عسقلانی‘ نزھة النظر فی توضیح نخبة الفکر فی مصطلح اھل العصر‘ صفحہ: ۸۹
(۳۵) ابو عبد اللہ شمس الدین محمد بن محمد ابن امیر حاج‘ التقریر والتحبیر علی تحریر الکمال بن الھمام (بیروت: دار الکتب العلمیہ‘ ۱۹۸۳ء)‘ جلد: ۲‘ صفحہ: ۲۴۹
(۳۶)ابن امیر حاج‘ التقریر والتحبیر علی تحریر الکمال بن الھمام‘ جلد: ۲‘ صفحہ: ۲۴۹
کتابیات
٭ ابن ابی عاصم‘ احمد بن عمرو شیبانی‘ الجہاد‘ دمشق: دار القلم‘ ۱۹۸۹ء
٭ ابن امیر حاج‘ ابو عبد اللہ شمس الدین محمد بن محمد‘ التقریر والتحبیر علی تحریر الکمال بن الھمام‘ بیروت: دار الکتب العلمیہ‘ ۱۹۸۳ء
٭ ابن راہویہ‘ ابو یعقوب اسحاق بن ابراہیم‘ مسند اسحاق بن راہویہ‘ مدینہ منورہ: مکتبہ الایمان‘ ۱۹۹۱ء
٭ ابن عساکر‘ ابو قاسم علی بن حسن الشافعی‘ تاریخ دمشق‘ دمشق: دار الفکر للطباعة والنشر والتوزیع‘ ۱۹۹۵ء
٭ ابن ماجہ‘ ابو عبد اللہ محمد بن یزید القزوینی‘ سنن ابن ماجہ‘ مصر: دار احیاء الکتب العربیہ‘ تاریخ ندارد
٭ ابن ملقن‘ سراج الدین ابو حفص عمر بن علی بن احمد الشافعی‘ مختصر تلخیص الذهبی‘ ریاض: دار العاصمہ‘ ۱۴۱۱ھ
٭ اصبہانی‘ ابو نعیم احمد بن عبد اللہ‘ حلیہ الاولیاء و طبقات الاصفیاء‘مصر: مطبعہ السعادہ‘ ۱۹۷۴ء
٭ اعظمی‘ ابو احمد محمد عبد اللہ‘ الجامع الکامل فی الحدیث الصحیح الشامل المرتب علی ابواب الفقہ‘ ریاض: دار الاسلام للنشر والتوزیع‘ ۲۰۱۶
٭ البانی‘ ابو عبد الرحمان محمد ناصر الدین‘ تمام المنہ فی التعلیق علی فقہ السنہ‘ ریاض: دارالرایة للنشر والتوزیع‘ تاریخ ندارد
٭ سلسلة الاحادیث الصحیحة و شیء من فقہھا و فوائدھا‘ ریاض: مکتبہ المعارف للنشر والتوزیع‘ ۱۹۹۵ء
٭ ضعیف سنن النسائی‘ ریاض: مکتبہ المعارف للنشر والتوزیع‘ ۱۹۹۸ء
٭ تخریج احادیث فضائل الشام‘ ریاض: مکتبہ المعارف للنشر والتوزیع‘ ۲۰۰۰ء
٭ بخاری‘ ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم‘ التاریخ الکبیر‘حیدرآباد‘ دکن: دائرہ معارف عثمانیہ‘ تاریخ ندارد
٭ بزاز‘ ابو بکر احمد بن عمرو بن عبد الخالق‘ البحر الزخار‘ مدینہ منورہ: مکتبہ العلوم والحکم‘ ۲۰۰۹ء
٭ بغدادی‘ابو بکر احمد بن علی خطیب‘ الالجامع لاخلاق الراوی و آداب السامع‘ریاض: مکتبہ المعارف‘ ۱۴۳۱ھ
٭ بغدادی‘ ابوبکر احمد بن علی بن ثابت بن احمد خطیب‘ تاریخ بغداد‘ بیروت: دار الغرب الاسلامی‘ ۲۰۰۲ء
٭ بیہقی‘ ابو بکر احمد بن حسین بن علی‘ السنن الکبریٰ‘ قاہرہ: مرکز ھجرللبحوث والدراسات العربیہ والاسلامیہ‘ ۲۰۱۱ء
٭ جرجانی‘ ابو احمد بن عدی‘ الکامل فی ضعفاء الرجال‘ بیروت: الکتب العلمیہ‘ ۱۹۹۷ء
٭ حرانی‘ ابو عروبہ حسین بن محمد‘ جزء ابی عروبہ‘ ریاض: مکتبہ الرشد‘ ۱۹۹۸ء
٭ ساعاتی‘ احمد بن عبد الرحمان بن محمد البنا‘ الفتح الربانی لترتیب مسند الإمام احمد بن حنبل الشیبانی‘ دار احیاء التراث العربی‘ تاریخ ندارد
٭ سرخسی‘ ابو بکر محمد بن احمد بن ابی سہل‘ اصول السرخسی‘ حیدرآباد‘ انڈیا: لجنة احیاء المعارف النعمانیہ‘ ۱۳۹۵ھ
٭ شیبانی‘ ابو عبد اللہ احمد بن محمد بن حنبل‘ مسند‘ تحقیق احمد شاکر‘قاہرہ: دار الحدیث‘ ۲۰۰۱ء
٭ شیبانی‘ ابو عبد اللہ احمد بن محمد بن حنبل‘ مسند‘ تحقیق شعیب ارنؤوط‘ بیروت: مؤسسہ رسالہ‘ ۲۰۰۱ء
٭ طبرانی‘ ابو القاسم سلیمان بن احمد‘ مسند الشامیین‘ بیروت: مؤسسہ الرسالہ‘ ۱۹۸۴ء
٭ طبرانی‘ ابو القاسم سلیمان بن احمد بن ایوب‘ المعجم الکبیر‘ قاہرہ: مکتبہ ابن تیمیہ‘ ۱۹۹۴ء
٭ طبرانی‘ ابو القاسم سلیمان بن احمد‘ المعجم الاوسط‘ قاہرہ: دار الحرمین‘ ۱۹۹۵ء
٭ عسقلانی‘ ابو الفضل احمد بن علی بن محمد بن احمد بن حجر‘ التلخیص الحبیر‘ بیروت: دار الکتب العلمیہ‘ ۱۹۸۹ء
٭ عسقلانی‘ ابو الفضل احمد بن علی بن محمد بن احمد بن حجر‘ المطالب العالیة بزوائد المسانید الثمانیة‘ ریاض: دار العاصمہ للنشر والتوزیع‘ ۲۰۰۰ء
٭ عسقلانی‘ ابو الفضل احمد بن علی بن محمد بن احمد بن حجر‘ نزھة النظر فی توضیح نخبة الفکر فی مصطلح اھل العصر‘ دمشق: مکتبہ الصباح‘ ۲۰۰۰ء
٭ عسقلانی‘ احمد بن علی بن محمد بن احمد بن حجر‘ تقریب التہذیب‘ شام: دار الرشید‘ ۱۴۰۶ھ
٭ فاسی‘ شہاب الدین ابو العباس احمد بن احمد بن محمد بن عیسیٰ‘ عدة المرید الصادق‘ دارابن حزم‘ ۲۰۰۶ء
٭ قاری‘ علی بن محمد‘ ابو حسن نور الدین مُلا‘ الاسرار المرفوعة فی الاخبار الموضوعة‘ بیروت: مؤسسة: ۱۴۳۱ء
٭ معز امجد‘غزوۂ ہند‘ ماہنامہ اشراق ۱۱‘نمبر۲‘ (۱۹۹۹ء): صفحات: ۵۰ تا ۵۸
٭ ناصر‘ عمار خان‘ ’’ لبرل ازم اور جمہوریت کی ناکامی کی بحث‘ ماہنامہ الشریعہ ۳۰‘ نمبر ۱۰‘ (۲۰۱۹ء): صفحات: ۲ تا ۶
٭ ندیم‘ خورشید احمد‘ ’’جنگ‘ مذہب اور پاکستان‘‘‘ روزنامہ دنیا‘ ۱؍اکتوبر‘ ۲۰۱۶ء
٭ نسائی‘ ابو عبد الرحمٰن احمد بن شعیب خراسانی‘ سنن نسائی‘ قاہرہ: مکتبہ تجاریہ کبریٰ ۱۹۸۶ء
٭ نعیم بن حماد‘ ابو عبد اللہ‘ کتاب الفتن‘ قاہرہ: مکتبہ التوحید‘ ۱۴۱۲ھ
٭ نیسابوری‘ ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ حاکم‘ المستدرک علی الصحیحین‘ بیروت: دار الکتب العلمیہ‘ ۱۹۹۰ء
(تشکر:سہ ماہی حرفِ نیم گفتہ لاہور)