سُوْرَۃُ الْمُطَفِّفِیْنَ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ (۱) الَّذِیْنَ اِذَا اکْتَالُوْا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ (۲) وَاِذَا کَالُوْھُمْ اَوْوَّزَنُوْھُمْ یُخْسِرُوْنَ (۳) اَلَا یَظُنُّ اُولٰۗئِکَ اَنَّہُمْ مَّبْعُوْثُوْنَ (۴) لِیَوْمٍ عَظِیْمٍ (۵) یَّوْمَ یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (۶) کَلَّآ اِنَّ کِتٰبَ الْفُجَّارِ لَفِیْ سِجِّیْنٍ (۷) وَمَآ اَدْرٰکَ مَا سِجِّیْنٌ (۸) کِتٰبٌ مَّرْقُوْمٌ (۹) وَیْلٌ یَّوْمَئِذٍ لِّلْمُکَذِّبِیْنَ (۱۰) الَّذِیْنَ یُکَذِّبُوْنَ بِیَوْمِ الدِّیْنِ (۱۱) وَمَا یُکَذِّبُ بِہٖٓ اِلَّا کُلُّ مُعْتَدٍ اَثِیْمٍ (۱۲) اِذَا تُتْلٰی عَلَیْہِ اٰیٰتُنَا قَالَ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ (۱۳) کَلَّا بَلْ ۫ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ (۱۴) کَلَّا اِنَّہُمْ عَنْ رَّبِّھِمْ یَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوْبُوْنَ (۱۵) ثُمَّ اِنَّھُمْ لَصَالُوا الْجَحِیْمِ (۱۶) ثُمَّ یُقَالُ ھٰذَا الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تُکَذِّبُوْنَ (۱۷) کَلَّآ اِنَّ کِتٰبَ الْاَبْرَارِ لَفِیْ عِلِّیِّیْنَ (۱۸) وَمَآ اَدْرٰىکَ مَاعِلِّیُّوْنَ (۱۹) کِتٰبٌ مَّرْقُوْمٌ (۲۰) یَّشْھَدُہُ الْمُقَرَّبُوْنَ (۲۱) اِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِیْ نَعِیْمٍ (۲۲) عَلَی الْاَرَاۗئِکِ یَنْظُرُوْنَ(۲۳) تَعْرِفُ فِیْ وُجُوْھِھِمْ نَضْرَۃَ النَّعِیْمِ (۲۴) یُسْقَوْنَ مِنْ رَّحِیْقٍ مَّخْتُوْمٍ (۲۵) خِتٰمُہٗ مِسْکٌ ۭ وَفِیْ ذٰلِکَ فَلْیَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْنَ (۲۶) وَمِزَاجُہٗ مِنْ تَسْنِیْمٍ (۲۷) عَیْنًا یَّشْرَبُ بِھَا الْمُقَرَّبُوْنَ (۲۸) اِنَّ الَّذِیْنَ اَجْرَمُوْا کَانُوْا مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یَضْحَکُوْنَ (۲۹) وَاِذَا مَرُّوْابِھِمْ یَتَغَامَزُوْنَ (۳۰) وَاِذَا انْقَلَبُوْٓا اِلٰٓی اَھْلِھِمُ انْقَلَبُوْا فَکِھِیْنَ (۳۱) وَاِذَا رَاَوْھُمْ قَالُوْٓا اِنَّ ھٰٓؤُ لَاۗءِ لَضَاۗلُّوْنَ (۳۲) وَمَآ اُرْسِلُوْا عَلَیْھِمْ حٰفِظِیْنَ (۳۳) فَالْیَوْمَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنَ الْکُفَّارِ یَضْحَکُوْنَ (۳۴) عَلَی الْاَرَاۗئِکِ ۙ یَنْظُرُوْنَ (۳۵) ھَلْ ثُوِّبَ الْکُفَّارُ مَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَ(۳۶)
آیت ۱{وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ(۱)} ’’ہلاکت ہے کمی کرنے والوں کے لیے۔‘‘
وَیْل کے معنی تباہی‘ بربادی اور ہلاکت کے بھی ہیں اور یہ جہنّم کی ایک وادی کا نام بھی ہے۔ ’طف‘ لغوی اعتبار سے حقیر سی چیز کو کہا جاتا ہے۔ اسی معنی میں یہ لفظ کم تولنے یا کم ماپنے کے مفہوم میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ مُطَفِّف وہ ہے جو حق دار کو اس کا پورا حق نہیں دیتا بلکہ اس میں کمی کردیتا ہے۔ ظاہر ہے جو شخص ماپ تول میں کمی کرتا ہے وہ اپنے اس عمل کے ذریعے متعلقہ چیز کی بہت تھوڑی سی مقدار ہی ناحق بچا پاتا ہے۔ اس کے باوجود اسے یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ اتنی حقیر سی چیزکے لیے اپنا ایمان فروخت کر رہا ہے ۔ بہرحال اس آیت میں کم تولنے یا کم ماپنے والوں کو آخرت میں بربادی اور جہنّم کی نوید سنائی گئی ہے۔
آیت۲{الَّذِیْنَ اِذَا اکْتَالُوْا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ (۲)}’’وہ لوگ کہ جب دوسروں سے ناپ کر لیتے ہیں تو پورا لیتے ہیں۔‘‘
آیت ۳{وَاِذَا کَالُوْہُمْ اَوْ وَّزَنُوْہُمْ یُخْسِرُوْنَ(۳)} ’’اور جب خود انہیں ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو کمی کر دیتے ہیں۔‘‘
آیت۴{اَلَا یَظُنُّ اُولٰٓئِکَ اَنَّـہُمْ مَّبْعُوْثُوْنَ(۴)}’’کیا ان کو یہ گمان نہیں کہ وہ دوبارہ اٹھائے جانے والے ہیں۔‘‘
آیت ۵{لِیَوْمٍ عَظِیْمٍ(۵)}’’ایک بڑے دن کے لیے۔‘‘
آیت ۶{یَّوْمَ یَـقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(۶)} ’’جس دن کہ لوگ کھڑے ہوں گے تمام جہانوں کے رب کے سامنے۔‘‘
ناپ تول میں کمی کرتے ہوئے ہاتھ کو ہلکی سی جنبش دینا بظاہر تو ایک معمولی سا عمل ہے لیکن ’’تل کی اوٹ میں پہاڑ‘‘کے مصداق ایسا کرنے والے کی اس حرکت سے ثابت ہوتا ہے کہ یا تو اس کا بعث بعد الموت پر یقین نہیں یا پھر اسے اس کی پروا نہیں کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے ۔
آیت ۷{کَلَّآ اِنَّ کِتٰبَ الْفُجَّارِ لَفِیْ سِجِّیْنٍ(۷)} ’’ہرگز نہیں! یقیناًگناہگاروں کے اعمال نامے سجین میں ہوں گے۔‘‘
عام طور پر کِتٰب سے یہاں اعمال نامہ ہی مراد لیا گیا ہے کہ کافر و فاجر لوگوں کے اعمال نامے ’’سِجِّین‘‘ میں‘ جبکہ نیک لوگوں کے اعمال نامے ’’عِلِّیّین‘‘ (بحوالہ آیت۱۸) میں ہوں گے۔ تاہم بعض احادیث سے پتا چلتا ہے کہ ’’سجین‘‘ ایک مقام ہے جہاں اہل دوزخ کی روحیں محبوس ہوں گی‘ جبکہ اہل ِجنّت کی ارواح ’’علیین‘‘ میں ہوں گی۔ چنانچہ سجین اور علیین کا یہ فرق صرف اعمال ناموں کو رکھنے کے اعتبار سے نہیں ہو سکتا۔ اس حوالے سے میرے غور و فکر کا حاصل یہ ہے کہ انسان کے خاکی جسم میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو روح پھونکی گئی ہے وہ ایک نورانی چیز ہے۔ انسان اچھے برے جو بھی اعمال کرتا ہے اس کے اثرات اس کی روح پر مترتب ہوتے رہتے ہیں‘ جیسے آواز کی ریکارڈنگ کرتے ہوئے ٹیپ کے فیتے ‘سی ڈی یا مائیکرو کارڈ وغیرہ پر اس آواز کے اثرات نقش ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ انسانوں کی ارواح جب اس دنیا سے جاتی ہیں تواعمال کے اثرات اپنے ساتھ لے کر جاتی ہیں۔ان ’’اثرات‘‘ کی وجہ سے ہر روح دوسری روح سے مختلف ہو جاتی ہے اور یوں نیک اور برے انسانوں کی ارواح میں زمین آسمان کا فرق واقع ہو جاتا ہے۔ چنانچہ میری رائے میں انسانی ارواح پر ثبت شدہ اثراتِ اعمال کو یہاں لفظ ’’کتاب‘‘ سے تعبیر کیاگیا ہے ‘یعنی انسانی ارواح اعمال کے اثرات لیے ہوئے جب اس دنیا سے جائیں گی تو بُرے اعمال کے اثرات والی ارواح کو سجین میں رکھا جائے گا۔ سجن کے معنی ’’جیل خانہ‘‘ کے ہیں۔گویا برے لوگوں کی ارواح کو وہاں کسی جیل نما جگہ میں بند کر دیا جائے گا ‘جیسے ضلعی انتظامیہ کے ’’محافظ خانے‘‘ میں پرانی فائلوں کے انبار لگے ہوتے ہیں۔
آیت ۸{وَمَآ اَدْرٰىکَ مَا سِجِّیْنٌ(۸)} ’’اور تم نے کیا سمجھا کہ سجین کیا ہے؟‘‘
آیت ۹{کِتٰبٌ مَّرْقُوْمٌ (۹)} ’’لکھا ہوا دفتر۔‘‘
اس ’’کِتٰب‘‘ سے مراد ایک انسان کی جان اور روح کا وہ ملغوبہ ہے جس میں اُس کے اعمال کے اثرات بھی ثبت ہوتے ہیں۔ کسی بُرے انسان کے مرنے پر متعلقہ فرشتہ وہ ملغوبہ لا کر سجین میں ’’جمع‘‘ کرا دیتا ہے۔
آیت ۱۰{وَیْلٌ یَّوْمَئِذٍ لِّلْمُکَذِّبِیْنَ(۱۰)} ’’تباہی اور ہلاکت ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے۔‘‘
آیت۱ ۱{الَّذِیْنَ یُکَذِّبُوْنَ بِیَوْمِ الدِّیْنِ(۱۱)}’’جو جھٹلا رہے ہیں جزا و سزا کے دن کو۔‘‘
آیت ۱۲{وَمَا یُکَذِّبُ بِہٖٓ اِلَّا کُلُّ مُعْتَدٍ اَثِیْمٍ(۱۲)}’’اور نہیں جھٹلاتا اس دن کو مگر وہی کہ جوحد سے بڑھنے والا گناہگار ہے۔‘‘
ایسا شخص جزا وسزا کے دن کو دراصل اس لیے جھٹلاتا ہے کہ وہ اپنے گناہوں اور حرام خوریوں کی وجہ سے اس دن کے احتساب کا سامنا نہیں کرنا چاہتا۔ چنانچہ جس طرح بلی سے بچنے کے لیے کبوتر اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے اسی طرح یومِ حساب کی جواب دہی سے بچنے کے لیے ایسے لوگ اس دن کے وقوع کا ہی انکار کر دیتے ہیں۔
آیت ۱۳{اِذَا تُـتْلٰی عَلَیْہِ اٰیٰتُـنَا قَالَ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ(۱۳)} ’’ جب اسے پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ہماری آیات تو کہتا ہے کہ یہ تو پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں۔‘‘
یعنی یہ تو وہی باتیں ہیں جو پچھلے زمانے کے لوگوں سے سینہ بہ سینہ چلی آ رہی ہیں۔
آیت ۱۴{کَلَّا بَلْ سکتۃ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ(۱۴)}’’ہرگزنہیں! بلکہ (اصل صورتِ حال یہ ہے کہ) ان کے دلوں پر زنگ آ گیا ہے ان کے اعمال کی وجہ سے ۔‘‘
اس ’زنگ‘ کی تشریح رسول اللہﷺ نے یوں فرمائی ہے کہ ’’بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اُس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے۔ اگر وہ توبہ کر لے‘ اس گناہ سے باز آ جائے اور استغفار کرے تو اس کے دل کا یہ داغ صاف ہو جاتا ہے‘ لیکن اگر وہ گناہوں کا ارتکاب کرتا ہی چلا جائے تو وہ داغ بڑھتے جاتے ہیں‘ یہاں تک کہ سارے دل کو گھیر لیتے ہیں۔‘‘ (مسند احمد‘ ترمذی‘ نسائی‘ ابن ماجہ وغیرہ)
گناہگار اہل ِایمان کے دلوں کے اندر ان کی روحوں کا ’’نور‘‘ تو موجود ہوتا ہے لیکن دلوں کے ’’شیشے‘‘ زنگ آلود ہو جانے کی وجہ سے یہ نور خارج میں اپنے اثرات نہیں دکھا سکتا ۔جیسے کسی فانوس یا لالٹین کا شیشہ اگر دھوئیں سے سیاہ ہوجائے تو اس کے اندر جلنے والے شعلے کی روشنی باہر نہیں آ سکتی اور باہر کی روشنی اندر نہیں جا سکتی۔ انسانی دل کی اس کیفیت کی وضاحت کرتے ہوئے حضورﷺ نے اس کا علاج بھی تجویز فرمادیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما روایت کرتے ہیں کہ آنحضورﷺ نے ارشاد فرمایا:
((اِنَّ ھٰذِہِ الْقُلُوْبَ تَصْدَأُ کَمَا یَصْدَأُ الْحَدِیْدُ اِذَا اَصَابَہُ الْمَاءُ)) قِیْلَ : یَارَسُوْلَ اللّٰہِ وَمَا جِلَاءُھَا؟ قَالَ: ((کَثْرَۃُ ذِکْر الْمَوْتِ وَتِلَاوَۃُ الْقُرْآنِ)) (رواہ البیھقی فی شعب الایمان۔ مشکاۃ المصابیح‘ کتاب فضائل القرآن‘الفصل الثالث)
’’ان دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے جیسے لوہا پانی پڑنے سے زنگ آلود ہو جاتا ہے‘‘۔ دریافت کیا گیا : یارسول اللہ! اس زنگ کو دور کس چیز سے کیا جائے؟ فرمایا: ’’موت کی بکثرت یاد اور قرآن مجید کی تلاوت!‘‘
آیت ۱۵{کَلَّآ اِنَّہُمْ عَنْ رَّبِّہِمْ یَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوْبُوْنَ(۱۵)} ’’ہرگزنہیں! یقیناًیہ لوگ اُس دن اپنے ربّ سے اَوٹ میں رکھے جائیں گے۔‘‘
قیامت کے دن یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے دیدار سے محروم کر دیے جائیں گے۔ اس کے برعکس نیکوکارلوگوں کے لیے سورۃ القیامہ میں یہ خوشخبری سنائی گئی ہے : {وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ(۲۲) اِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ(۲۳)} کہ اس دن کچھ چہرے تروتازہ ہوں گے اور وہ اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ میدانِ حشر میں اہل ِایمان کو اللہ تعالیٰ کے دیدار یا اس کی کسی خاص شان کے مشاہدے سے سرفراز فرمایا جائے گا جس کے باعث اس دن کے سخت مراحل ان کے لیے آسان ہو جائیں گے۔ اس حوالے سے ہمارے عام مفسرین کی رائے بھی یہی ہے کہ میدانِ حشر میں بھی مؤمنین صادقین کو اللہ تعالیٰ کا دیدار کرایا جائے گا ۔ آیت زیر مطالعہ سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ اُس وقت میدانِ حشر میں کُفّار و مشرکین بھی کھڑے ہوں گے لیکن انہیں اس نعمت سے محروم کر دیا جائے گا۔ میدانِ حشر کے ایسے ہی ایک منظر کی جھلک سورئہ نٓ کی اس آیت میں بھی دکھائی گئی ہے :{یَوْمَ یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَّیُدْعَوْنَ اِلَی السُّجُوْدِ فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ(۴۲)} ’’جس دن پنڈلی کھولی جائے گی‘ اور انہیں پکارا جائے گا (اللہ کے حضور) سجدے کے لیے‘ لیکن وہ کر نہیں سکیں گے‘‘۔یعنی اہل ِایمان جو دنیا میں اللہ تعالیٰ کے حضورسجدے کرتے تھے وہ تو اس حکم کو سنتے ہی سجدے میں گر جائیں گے لیکن دوسرے لوگوں کی کمریں تختہ ہو کر رہ جائیں گی ‘وہ تمام تر خواہش اور کوشش کے باوجود سجدہ نہیں کر سکیں گے۔
آیت ۱۶{ثُمَّ اِنَّہُمْ لَصَالُوا الْجَحِیْمِ(۱۶)} ’’پھر انہیں جھونک دیا جائے گا جہنّم میں۔‘‘
اس آیت سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ مذکورہ مرحلہ دوزخ میں داخلے سے پہلے کا ہے‘ یعنی دیدارِ الٰہی سے محروم رکھے جانے کا واقعہ میدانِ حشر میں ہی رونما ہو گا۔
آیت ۱۷{ثُمَّ یُـقَالُ ہٰذَا الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تُکَذِّبُوْنَ(۱۷)}’’پھر ان سے کہا جائے گا: یہ ہے وہ چیز جس کی تم تکذیب کیا کرتے تھے!‘‘
دنیا میں تم لوگ جنّت‘ دوزخ اور جزا و سزا کو بڑے شدّومدّ سے جھٹلایا کرتے تھے ۔ اب دیکھ لو! دوزخ اور اس کی سزائیں حقیقت بن کر تمہارے سامنے آگئی ہیں۔
آیت ۱۸{کَلَّآ اِنَّ کِتٰبَ الْاَبْرَارِ لَفِیْ عِلِّیِّیْنَ(۱۸)}’’نہیں! یقیناً نیکوکاروں کے اعمال نامے علیین میں ہوں گے۔‘‘
آیت ۱۹{وَمَآ اَدْرٰىکَ مَا عِلِّیُّوْنَ(۱۹)} ’’اور تمہیں کچھ اندازہ ہے وہ علیین کیا ہے؟‘‘
آیت ۲۰{کِتٰبٌ مَّرْقُوْمٌ (۲۰)}’’لکھا ہوا دفتر۔‘‘
یعنی ان لوگوں کی ارواح کا مقام جن پر ان کے نیک اعمال کے اثرات بھی ثبت ہوں گے۔
آیت ۲۱{ یَّشْہَدُہُ الْمُقَرَّبُوْنَ(۲۱)}’’وہاں موجود ہوں گے ملائکہ مقربین۔‘‘
ان لوگوں کی ارواح کو ملائکہ مقربین کی صحبت میسّرہوگی۔ا س بلند مقام پر انہیں قیامِ قیامت تک رکھا جائے گا ۔
آیت۲۲{اِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِیْ نَعِیْمٍ (۲۲)} ’’یقیناً نیکوکارنعمتوں میں ہوں گے۔‘‘
آیت۲۳{عَلَی الْاَرَآئِکِ یَنْظُرُوْنَ(۲۳)} ’’وہ تختوں پر بیٹھے (مناظر ِجنّت) دیکھ رہے ہوں گے۔‘‘
آیت ۲۴{تَعْرِفُ فِیْ وُجُوْہِہِمْ نَضْرَۃَ النَّعِیْمِ(۲۴)} ’’تم دیکھو گے ان کے چہروں پر تروتازگی کی علامات۔‘‘
جیسے دنیا میں انسان کی خوشحالی اور آسودگی کے اثرات اس کے چہرے پر نمایاں ہوتے ہیں اسی طرح قیامت کے دن اہل ِجنّت اپنے تروتازہ چہروں سے صاف پہچانے جائیں گے۔
آیت ۲۵{یُسْقَوْنَ مِنْ رَّحِیْقٍ مَّخْتُوْمٍ (۲۵)}’’انہیں پلائی جائے گی خالص شراب جس پر مہر لگی ہو گی۔‘‘
ہندوستان کے معروف اہل ِحدیث عالم دین مولانا صفی الرحمن مبارکپوری نے احادیث کے حوالے سے سیرت پر ایک بہت عمدہ کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب کا نام انہوں نے اس آیت سے اخذ کیا ہے۔ انہیں اس کتاب پر شاہ فیصل ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔ الرّحِیقُ المَخْتُوْم کے نام سے یہ کتاب اردو میں ہے اور اس کا انگریزی ترجمہ بھی چھپ چکا ہے۔
آیت۲۶{خِتٰمُہٗ مِسْکٌ ط} ’’اس کی مہر ہو گی مشک کی۔‘‘
{وَفِیْ ذٰلِکَ فَلْیَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْنَ(۲۶)} ’’اس چیز کے لیے سبقت لے جانے کی کوشش کریں سبقت لے جانے والے۔‘‘
اہل ایمان کو چاہیے کہ وہ دنیا کی حقیر چیزوں کے پیچھے دوڑنے کے بجائے ان دوامی نعمتوں کو حاصل کرنے کے لیے محنت اور مسابقت کریں۔
آیت ۲۷{وَمِزَاجُہٗ مِنْ تَسْنِیْمٍ (۲۷)} ’’اور اس کی ملونی ہو گی تسنیم سے۔‘‘
اس شراب یعنی رحیق ِمختوم میں تسنیم کا مشروب بھی ملایا گیاہو گا ۔ اور یہ تسنیم کیا ہے؟
آیت ۲۸{عَیْنًا یَّشْرَبُ بِہَا الْمُقَرَّبُوْنَ(۲۸)}’’یہ ایک چشمہ ہے جس پرجام نوشی کریں گے مقربین بارگاہ۔‘‘
آیت۲۹{اِنَّ الَّذِیْنَ اَجْرَمُوْا کَانُوْا مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یَضْحَکُوْنَ(۲۹)} ’’یقیناً جو مجرم تھے وہ اہل ِ ایمان پر ہنسا کرتے تھے۔‘‘
وہ اہل ایمان کا مذاق اڑایا کرتے تھے کہ دیکھو ان بے وقوفوں کو جنہوں نے آخرت کے موہوم وعدوں پر اپنی زندگی کی خوشیاں اور آسائشیں قربان کر دی ہیں۔
آیت ۳۰{وَاِذَا مَرُّوْا بِہِمْ یَتَغَامَزُوْنَ(۳۰)} ’’اور جب یہ ان کے قریب سے گزرتے تھے تو آپس میں آنکھیں مارتے تھے۔‘‘
کہ دیکھو! یہ ہیں وہ احمق جو جنّت کی حوروں کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔
آیت۳۱{وَاِذَا انْقَلَبُوْٓا اِلٰٓی اَہْلِہِمُ انْقَلَبُوْا فَکِہِیْنَ(۳۱)} ’’اور جب وہ اپنے گھر والوں کی طرف لوٹتے تھے تو باتیں بناتے ہوئے لوٹتے تھے۔‘‘
آیت ۳۲{وَاِذَا رَاَوْہُمْ قَالُوْٓا اِنَّ ہٰٓؤُلَآئِ لَضَآلُّوْنَ(۳۲)} ’’اور جب وہ ان (اہل ِ ایمان) کو دیکھتے تھے توکہتے تھے کہ یقیناً یہ بہکے ہوئے لوگ ہیں۔‘‘
مخالفین کے ایسے تبصرے طنزیہ بھی ہو سکتے ہیں اور ان میں ہمدردی کا پہلو بھی ہو سکتا ہے۔ جیسے آج کل بھی ہمیں ایسے فقرے اکثر سننے کو مل جاتے ہیں کہ دیکھیں! یہ اچھا بھلا ذہین نوجوان تھا۔ بورڈ ٹاپ کیا‘ یونیورسٹی میں گولڈ میڈل لیا ‘ملازمت بھی بہت اچھی ملی‘لیکن پھر اچانک خدا جانے اسے کیا ہوا کہ اس کا رجحان مذہب کی طرف ہو گیا‘ اس کے بعد تو اس کی ترجیحات ہی بدل گئی ہیں‘ اب اسے نہ اپنا خیال ہے اور نہ ملازمت کی فکر‘ بس رات دن اس کے سر پر تبلیغ کی دھن سوار ہے ۔ بے چارہ‘ اچھا خاصا کیریئر تباہ کر کے بیٹھ گیا ہے۔
آیت ۳۳{وَمَآ اُرْسِلُوْا عَلَیْہِمْ حٰفِظِیْنَ(۳۳)} ’’جب کہ انہیں نہیں بھیجا گیا تھا ان پر نگران بنا کر۔‘‘
آیت ۳۴{فَالْیَوْمَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنَ الْکُفَّارِ یَضْحَکُوْنَ(۳۴)}’’تو آج (قیامت) کے دن اہل ِایمان ان کُفّار پر ہنس رہے ہیں ۔‘‘
آیت ۳۵{عَلَی الْاَرَآئِکِلا یَنْظُرُوْنَ (۳۵)}’’وہ تختوں پر بیٹھے (ان کا حشر) دیکھ رہے ہیں۔‘‘
کہ ابوجہل پر کیا بیت رہی ہے اور ابولہب کو کیسے عذاب کا سامنا ہے۔
آیت ۳۶{ہَلْ ثُوِّبَ الْکُفَّارُ مَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَ(۳۶)}’’بدلہ مل گیا نا کافروں کو اس کا جو کچھ وہ کیا کرتے تھے!‘‘
tanzeemdigitallibrary.com © 2024