(شہر عظیم) ماہِ رمضان اور قرآن - چوہدری رحمت اللہ بٹر

8 /

ماہِ رمضان اور قرآنچودھری رحمت اللہ بٹرؒ

اللہ تعالیٰ نے جب آدم علیہ السلام کو زمین پر بھیجنے کا حکم دیا تو ساتھ ہی وعدہ فرمایا:
{فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ہُدًی لا فَمَنِ اتَّبَعَ ہُدَایَ فَلَا یَضِلُّ وَلَا یَشْقٰی (۱۲۳) وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا وَّنَحْشُرُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اَعْمٰی(۱۲۴) قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِیْٓ اَعْمٰی وَقَدْ کُنْتُ بَصِیْرًا(۱۲۵) قَالَ کَذٰلِکَ اَتَتْکَ اٰیٰتُنَا فَنَسِیْتَہَاج وَکَذٰلِکَ الْیَوْمَ تُنْسٰی(۱۲۶) وَکَذٰلِکَ نَجْزِیْ مَنْ اَسْرَفَ وَلَمْ یُؤْمِنْ  بِاٰیٰتِ رَبِّہٖ ط وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَۃِ اَشَدُّ وَاَبْقٰی(۱۲۷)} (طٰہٰ)
’’پس جب بھی میری طرف سے تمہارے پاس کوئی ہدایت آئے تو جو پیروی کرے گا میری ہدایت کی وہ نہ گمراہ ہو گا اور نہ ہی بدبخت۔ اور جو میری اس نصیحت سے منہ موڑے گا اس کے لیے زندگی اجیرن ہو گی اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا کر کے اٹھائیں گے۔ وہ کہے گا: اے میرے رب! تو نے مجھے اندھا کیوں اٹھایا ہے جبکہ میں تو آنکھوں والا تھا؟ اللہ فرمائے گاکہ اسی طرح ہماری آیات تمہارے پاس آئی تھیں تو تم نے انہیں نظر انداز کردیا‘ اور اسی طرح آج تمہیں بھی نظر انداز کردیا جائے گا۔ اور ہم اسی طرح بدلہ دیتے ہیں اس کو جو حد سے آگے بڑھ جاتا ہے اور ہماری آیات پر ایمان نہیں لاتا۔ اور آخرت کا عذاب تو بہت سخت اور ہمیشہ رہنے والا ہے۔ ‘‘
یہ وعدہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے تمام انسانیت کے لیے پورا کیا اور ہر اُمّت کی طرف اپنی ہدایت بھیجی۔ جن کتابوں کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے وہ بھی سب کی سب رمضان ہی میں نازل کی گئیں۔ چنانچہ صحف ِ ابراہیم علیہ السلام یکم رمضان‘ تورات ۱۸رمضان‘ زبور ۱۲رمضان اور قرآن مجید لیلۃ القدر میں اتارا گیا۔ روزے کی عبادت بھی ہر اُمت پر فرض رہی ہے۔
اللہ تعالیٰ کی ہدایت اتنی عظیم نعمت ہے کہ اس کا تعلق جس شے سے بھی ہو جاتا ہے وہ اسے مبارک بنا دیتی ہے۔ چنانچہ ہفتے کے دنوں میں سے جمعہ مبارک دن ہے تو اس کی برکت کا ذریعہ بھی قرآن مجید ہے۔ اصل میں جمعہ کو فضیلت خطبہ ٔجمعہ کی وجہ سے ملی ہے ۔ اس میں نبی اکرمﷺ کا معمول تھا کہ ’’کَانَ یَقْرَءُ الْقُرْآنَ وَیُذَکِّرُ النَّاسَ‘‘ آپﷺ قرآن مجید کے ذریعے لوگوں کو نصیحت فرماتے تھے۔ سال کے مہینوں میں سے رمضان کو جو برکت ملی ہے اس کا سبب اس ماہ میں قرآن مجید کا نزول ہے:
{شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰی وَالْفُرْقَانِ ج } (البقرۃ:۱۸۵)
’’رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن مجید نازل کیا گیا تمام انسانیت کے لیے ہدایت بناکر اور ہدایت بھی وہ جو بالکل روشن ہے اور حق و باطل میں فرق کرنے والی ہے۔‘‘
پھر جس رات کو اس کا نزول لوحِ محفوظ سے آسمانِ دُنیا پر ہوا‘ اس کو ایک ہزار مہینوں سے زیادہ خیر و برکت مل گئی:
{ اِنَّــآ اَنْزَلْنٰـہُ فِیْ لَـیْلَۃِ الْقَدْرِ(۱) وَمَآ اَدْرٰکَ مَا لَـیْلَۃُ الْقَدْرِ(۲) لَـیْلَۃُ الْقَدْرِ۵ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَہْرٍ(۳) تَنَزَّلُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَالرُّوْحُ فِیْہَا بِاِذْنِ رَبِّہِمْ مِّنْ کُلِّ اَمْرٍ(۴) سَلٰـمٌ قف ہِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ(۵)}(القدر)
’’بے شک ہم نے اس (قرآن مجید) کو لیلۃ القدر میں نازل کیا۔ اور آپ کو کیا معلوم کہ لیلۃ القدر کیا ہے۔ لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے بھی زیادہ بہتر ہے۔ اس میں فرشتے اور جبرائیل ؑاﷲ کے اذن سے ہر کام پر نازل ہوتے ہیں۔ (اس رات) سلامتی ہی سلامتی ہے طلوعِ فجر تک۔‘‘
اب ذرا قرآن مجید کی عظمت کا اندازہ کیجیے کہ وہ خود کتنی عظمت والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مثال کے ذریعے انسانوں کو شعور دلایا ہے:
{لَوْ اَنْزَلْنَا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیْتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ ط وَتِلْکَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ
یَتَفَکَّرُوْنَ(۲۱)} (الحشر)

’’اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر نازل فرما دیتے تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کی عظمت و ہیبت سے دب جاتا اور ریزہ ریزہ ہو جاتا۔ اور یہ مثال ہم انسانوں کے لیے بیان کر رہے ہیں تاکہ وہ غور و فکر کریں۔‘‘
اس لیے اس کلام کو واسطوں کے ذریعہ نازل کیا گیا‘ کیونکہ براہِ راست تحمل ممکن نہ تھا۔ فرمایا:
{ وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّکَلِّمَہُ اللّٰہُ اِلَّا وَحْیًا اَوْ مِنْ وَّرَآیِٔ حِجَابٍ اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوْحِیَ بِاِذْنِہٖ مَا یَشَآئُ ط اِنَّہٗ عَلِیٌّ حَکِیْمٌ(۵۱)} (الشورٰی)
’’اور کسی بشر کا یہ مقام نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے کلام کرے‘ سوائے وحی کے (بندے کے دل میں بات سرعت سے ڈال دیتاہے) یا (پھر وہ بات کرتا ہے) پردے کی اوٹ سے‘ یا وہ اپنا ایلچی (فرشتہ) بھیجتا ہے تو وہ وحی کرتا ہے اُس کے اِذن سے جو وہ چاہتا ہے۔ یقینا وہ بہت بلند وبالا ہے‘ کمالِ حکمت والا ہے۔‘‘
اور فرمایا:
{یٰٓــاَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَآئَ تْکُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَشِفَآئٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ۵ وَہُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ(۵۷) قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَبِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْاط ہُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ(۵۸)} (یونس)
’’اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت (اور خیر خواہی) پہنچ گئی ہے اور تمہارے سینوں (کے اَمراض) کی شفا اور اہل ایمان کے لیے ہدایت اور رحمت۔ (اے نبیﷺ! ان سے) کہہ دیجیے کہ یہ (قرآن) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے (نازل ہوا) ہے ‘تو چاہیے کہ لوگ اس پر خوشیاں منائیں۔ یہ کہیں بہتر ہے اس سے جو وہ جمع کرتے ہیں۔‘‘
ہر چیز اپنی اصل کی طرف لوٹتی ہے (کُلُّ شَیْءٍ یَرْجِعُ اِلٰی اَصْلِہٖ) ‘ چنانچہ یہ قرآن مجید ہی ہے جو انسان کو اللہ سے جوڑنے کا ذریعہ ہے۔ قرآن مجید میں سورۃ الحج کی آخری آیت میں فرمایا گیا ہے:{وَاعْتَصِمُوْا بِاللہِ ط ہُوَ مَوْلٰىکُمْ ج فَنِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِیْرُ(۷۸)} ’’(اے ایمان والو!) اللہ تعالیٰ کو مضبوطی سے تھام لو!وہی تمہارا پشت پناہ ہے‘ پس وہ کتنا ہی اچھا مولا ہے اور کتنا ہی اچھا مددگار!‘‘ اب سوال پیدا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کو کیسے تھاما جائے؟ وہ تو کوئی مرئی ہستی نہیں ہے۔ اس کو قرآن میں مزید واضح کر دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ سے جڑنا ہے تو {وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا} (آل عمران:۱۰۳) ’’اللہ تعالیٰ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو اور اس بارے میںاختلاف میں نہ پڑو !‘‘
پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ کی یہ رسّی کون سی ہے ؟ اس کو رسول اللہ ﷺ نے اپنے فرمان میں واضح فرما دیا کہ قرآن مجید وہ مضبوط رسّی ہے: ((ھُوَ حَبْلُ اللّٰہِ الْمَتِیْنُ)) (رواہ الترمذی فی روایۃ طویلۃ علٰی ھٰذا) حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا: ((کِتَابُ اللّٰہِ ھُوَ حَبْلُ اللّٰہِ الْمَمْدُوْدُ مِنَ السَّمَاءِ اِلَی الْاَرْضِ)) (صحیح الجامع) ’’اﷲ کی کتاب ہی اﷲ کی رسّی ہے جو آسمان سے زمین تک تنی ہوئی ہے۔‘‘
معجم طبرانی کبیر میں حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ نبی مکرمﷺ مسجد میں تشریف لائے تو دیکھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم آپس میں قرآن مجید پڑھ پڑھا رہے ہیں۔ اس پر آپﷺ کے چہرے پر بشاشت کے آثار نمایاں ہوئے اور آپ ﷺ نے فرمایا: ((اَلَیْسَ تَشْھَدُوْنَ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَاَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ وَاَنَّ الْقُرْآنَ جَآءَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ!)) ’’کیا تم اس بات کی گواہی نہیں دیتے کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں‘ وہ تنہا ہے اور اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ؟ اور یہ کہ میں اﷲ کا رسول ہوں اور یہ کہ قرآن اﷲ کے پاس سے آیا ہے؟‘‘ حضرت جبیر ؓ‘ آگے روایت کرتے ہیں: قُلْنَا بَلٰی یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ’’ہم نے عرض کیا: یقیناایسا ہی ہے اے اﷲ کے رسول!‘‘ حضور ﷺنے صحابہ کرام ؓ کی اس تصدیق و شہادت کے بعد فرمایا: ((فَاَبْشِرُوْا فَاِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ طَرَفُہٗ بِیَدِ اللّٰہِ وَطَرَفُہٗ بِاَیْدِیْکُمْ)) ’’پھر تو خو شیاں منائو‘ اس لیے کہ اس قرآن کا ایک سرا اﷲ کے ہاتھ میں ہے اور ایک سرا تمہارے ہاتھ میں ہے۔‘‘ آگے ارشاد ہوا: ((فَتَمَسَّکُوْا بِہٖ‘ فَاِنَّکُمْ لَنْ تَھْلِکُوْا وَلَنْ تُضِلُّوْا بَعْدَہٗ اَبَدًا)) ’’پس اسے مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھو! (اگرتم نے ایسا کیا) تو اس کے بعد تم نہ کبھی ہلاک ہو گے اور نہ کبھی گمراہ۔‘‘ اس حدیث شریف میں گویا حبل اﷲ کی شرح موجود ہے کہ یہ قرآن حکیم ہے۔
قرآن حکیم کی عظمت اور فضیلت کے بارے میں یہ حدیث قدسی ملاحظہ کیجیے۔ حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
یَقُوْلُ الرَّبُّ عَزَّوَجَلَّ: مَنْ شَغَلَہُ الْقُرْآنُ وَذِکْرِیْ عَنْ مَسْاَلَتِیْ اَعْطَیْتُہُ اَفْضَلَ مَا اُعْطِی السَّائِلِیْنَ، وَفَضْلُ کَلَامِ اللّٰہِ عَلـٰی سَائِرِ الْکَلَامِ کَفَضْلِ اللّٰہِ عَلـٰی خَلْقِہٖ))(سنن الترمذی وضَعَّفَـہُ الالبانیؒ)
’’ جس شخص کو قرآن مجید (کے پڑھنے پڑھانے) اور میرے ذکر (یعنی قرآن) کی مشغولیت کے باعث مجھ سے مانگنے کی فرصت نہ ہو تو میں اسے بہتر عطا کرتا ہوں بہ نسبت ان کے جو مانگنے والوں کو دیتا ہوں۔ اور اللہ تعالیٰ کے کلام کی فضیلت دوسرے کلاموں پر ایسے ہی ہے جیسے خود اللہ تعالیٰ کی فضیلت اپنی تمام مخلوق پر ہے۔‘‘
علامہ اقبال نے اسے یوں بیان کیا ہے:
فاش گویم آنچہ در دل مضمر است
ایں کتابے نیست چیزے دیگر است
مثل حق پنہاں و ہم پیدا ست ایں
زندہ و پائندہ و گویا ست ایں
’’(اس کتاب کے بارے میں) جو بات میرے دل میں پوشیدہ ہے اسے اعلانیہ ہی کہہ گزروں؟حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک کتاب نہیں ‘کچھ اور ہی شے ہے!
یہ ذاتِ حق سبحانہ و تعالیٰ (کا کلام ہے‘ لہٰذا اسی) کے مانند پوشیدہ بھی ہے اور ظاہر بھی۔ اور جیتی جاگتی بولتی بھی ہے اور ہمیشہ قائم رہنے والی بھی!‘‘
اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((اِنَّ لِکُلِّ شَیْئٍ شَرْفًا یَتَبَاھُونَ بِہٖ، وَاِنَّ بِھَاءَ اُمَّتِی وَشَرْفُھَا الْقُرآن)) (رواہ الطبرانی)
’’بے شک ہر چیز کے لیے ایک شرف ہوتا ہے جس پر فخر کیا جاتا ہے‘ اور میری امت کے لیے وہ شرف اور فخر کی چیز قران مجید ہے۔‘‘
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے رمضان المبارک میں نبی کریمﷺ کا معمول یوں بیان کیا:
کان النبی ﷺ اجودَ الناس بالخیر، وکان اجودَ ما یکون فی رمضان حین یلقاہ جبریل علیہ السلام، وکان جبریل یلقاہ کل لیلۃ حتی ینسلخ، یعرض علیہ النبیﷺ القرآن، فاذا لقیہ جبریل کان اجود بالخیر من الریح المرسلۃ (رواہ البخاری)
’’نبی اکرمﷺ تمام انسانوں سے زیادہ سخی تھے اور رمضان میں جب جبریل علیہ السلام سے ملاقات کرتے تو آپؐ کی سخاوت اور زیادہ بڑھ جاتی تھی۔ اور جبریل ؑ ماہِ رمضان کے دوران آپ ﷺ سے ہر رات ملاقات کرتے تھے‘ اور نبی اکرمﷺ جبریلؑ پر قرآن پیش کرتے تھے۔ پس جب آپﷺ جبریلؑ سے ملاقات کرتے تو آپﷺ کی سخاوت تند و تیز ہوا سے بھی زیادہ بڑھ جاتی تھی۔‘‘
کتب احادیث میں آپﷺ کا ایک فرمان نقل ہوا ہے:
((اِذَا اَحَبَّ اَحَدُکُمْ اَنْ یُحَدِّثَ رَبَّہُ فَلْیَقْرءِ الْقُرآن))(کنز العمال)
’’جب تم میں کسی کو اپنے رب سے ہم کلامی کی چاہت ہو تو وہ قرآن کی تلاوت کرے۔‘‘
اس لیے کہ قرآن حکیم اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں سے تخاطب ہی تو ہے۔ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
((اِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِھٰذَا الْکِتَابِ اَقْوَامًا وَّیَضَعُ بِہٖ آخَرِیْنَ)) (صحیح مسلم)
’’بے شک اللہ تعالیٰ اب (قرآن کے ماننے والی) اقوام کو اسی کتاب کے ذریعے عروج عطا فرمائے گا اور اسی کو چھوڑنے پر زوال پذیر کرے گا۔‘‘
قرآن مجید میں یہ اعلان فرما دیا گیا:
{اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَـکُمْ دِیْنَـکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَـکُمُ الْاِسْلاَمَ دِیْنًاط} (المائدۃ: ۳)
’’آج کے دن میں نے کامل کر دیا ہے تمہارے لیے تمہارا دین اور پوری کر دی ہے تم پر اپنی نعمت (ہدایت) اور اسلام کو بطور دین تمہارے لیے پسند کر لیا ہے۔‘‘
یہ ہے اللہ کا فضل اور اس کی رحمت جو اس امت پر ہوئی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کے نزول کا مقصد کیا ہے؟ آیا اُمّت ِمسلمہ اس مقصد کو پورا کرنے کی جدوجہد کر رہی ہے اور اس کے حقوق ادا کر رہی ہے یا پہلی امتوں کی طرح اس سے پہلو تہی کر رہی ہے اور اس کے تقدس کو پامال کر رہی ہے!
اللہ تعالیٰ نے اس کو ہدایت ِانسانی کے لیے نازل کیا ہے اور قرآن مجید میں جہاں اس کے نزول کا ذکر آیا ہے وہاں بھی یہی فرمایا ہے :
{شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰی وَالْفُرْقَانِ ج} (البقرۃ:۱۸۵)
’’رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن مجید نازل کیا گیا جو تمام انسانیت کے لیے ہدایت کا سامان ہے اور ہدایت بھی وہ جو بالکل روشن ہے اور حق و باطل میں فرق کرنے والی ہے۔‘‘
چنانچہ انسان کی اصل ضرورت و احتیاج بھی یہی ہے‘ جس کے لیے ہمیں سورۃ الفاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے خود سکھا یاہے کہ یوں دعا کرو:
{اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ(۵) اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ(۶)صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ۵ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ(۷)}
’’(اے اللہ!) ہمیں سیدھی راہ کی ہدایت دے۔ ان لوگوں کی راہ جن پر تیرا انعام ہوا‘ نہ ان پر تیرا غضب ہوا اور نہ وہ گمراہ ہوئے۔‘‘
اور اسی کے جواب میں فرما دیا گیا کہ اگر تمہارے اندر طلب ِ ہدایت پیدا ہو گئی ہے تو پھر :
{الٓـمّٓ (۱) ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ ج فِیْہِ ج ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ(۲)}(البقرۃ)
’’الف لام میم ۔ یہ وہ کتاب ہے جس (کے کلام الٰہی ہونے) میں کوئی شک نہیں۔ ہدایت ہے پرہیز گار لوگوں کے لیے۔‘‘
یعنی ان کے لیے جو ہدایت کے طالب ہوں۔ متقی (پرہیزگار) اسے ہی کہتے ہیں جو اللہ کی ہدایت جاننا چاہتا ہو کہ میں اس پر عمل پیرا ہو کر اللہ کی نافرمانی سے بچ جائوں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان اس معاملہ میں بالکل اللہ تعالیٰ کا محتاج ہے‘ کیونکہ جب وہ اپنی عقل سے راہ معین کرتا ہے تو اعتدال پر نہیں رہ پاتا بلکہ انتہا پسندی کی طرف نکل جاتا ہے۔ اس کے لیے اعتدال اور روشن راہ وہی ہے جو اللہ تعالیٰ اس کے لیے نازل کرتا ہے‘ کیونکہ وہ تمام مخلوق کا خالق ہے‘ اس کی ضرورتوں سے خوب واقف ہے اور اس کے حقوق و فرائض کا تعین کرنے والا ہے۔خاص طور پر ایمان کا تو یقینی ذریعہ ہی نورِ وحی ہے جو آکر نورِ فطرت کی تصدیق کرتا ہے اور اس کی تفاصیل سے انسان کو آگاہ کرتا ہے۔ پھر اجتماعی معاملات میں تو انسان کبھی بھی سیدھی راہ پر قائم نہیں رہ سکتا جب تک کہ اس کی رہنمائی نہ کی جاتی رہے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی انسان راہِ اعتدال کو چھوڑ کر مادر پدر آزاد معاشرت‘ سود پر مبنی کپیٹلزم اور کبھی کمیونزم کی طرف بڑھتا ہے‘ اور کبھی اسلام کے عادلانہ نظام سے بچنے کے لیے اسے روشن خیال بنانے پر دولت نچھاور کرتا ہے۔
انسان حب عاجلہ کا شکار ہوکر انبیاء و رسل علیہم السلام کا لایا ہوا معاشرتی‘ معاشی اور سیاسی نظامِ عدل و قسط برباد کرتا رہا ہے۔جس کو اختیار مل جاتا ہے وہ اپنے لیے مراعات حاصل کرنے اور دوسروں کو دبانے کا رویہ اپنا لیتا ہے۔ اس سے مرد و عورت‘ سرمایہ اور دولت‘ ریاست اور عوام کے حقوق و فرائض میں توازن بگڑ جاتا ہے اور دنیا ظلم اور اندھیر نگری نظر آنے لگتی ہے‘ جیسے آج طاقت کے نشے میں امریکہ مسلم ممالک کے سربراہوں کو خوف و لالچ کے ذریعے اپنے سانچے میں ڈھالنے کے لیے اپنی قومی دولت اور عسکری قوت کے بے دریغ استعمال پر تلا ہوا ہے۔ ان بین الانسانی معاملاتِ اجتماعی میں اگر توازن پیدا ہوا ہے تو انبیاء و رُسلؑ کے ذریعے۔ مساوات‘ اخوت اور آزادی ٔرائے کے نمونے دورِ خلافت ِراشدہ میں دنیا نے آخری بار دیکھے۔ یہ نظام خالق ِ کائنات کا اپنے آخری رسول ﷺ کو دیا ہوا ہے‘ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبﷺ کو مخاطب کر کے قرآن مجید میں فرمایا:
{وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَاط مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتٰبُ وَلَا الْاِیْمَانُ وَلٰـکِنْ جَعَلْنٰـہُ نُوْرًا نَّـہْدِیْ بِہٖ مَنْ نَّشَآئُ مِنْ عِبَادِنَاط وَاِنَّکَ لَتَہْدِیْٓ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ (۵۲)} (الشورٰی)
’’(اے نبیﷺ! جیسے ہم پہلے رسولوں کی طرف وحی کرتے رہے ہیں) اسی طرح ہم نے آپ کی طرف وحی کی ہے ایک روح اپنے امر میں سے۔ آپ کو معلوم نہ تھا کہ شریعت کے احکام کیا ہوتے ہیں اور ایمان کی تفاصیل کیا ہیں‘ لیکن ہم نے اپنے کلام کو وہ نور بنایا ہے جس کے ذریعے ہم اپنے بندوں میں جسے چاہیں ہدایت عطا کرتے ہیں۔ اور اب آپ (اس ہدایت کی بدولت) لوگوں کو صراط مستقیم کی طرف راہنمائی دے رہے ہیں۔‘‘
اس ہدایت کو اللہ تعالیٰ نے نازل ہی اس لیے کیا ہے کہ اب اس کے تحت نوع انسانی کے تمام معاملات چلائے جائیں اور پہلے جو ضابطے اُس نے اپنے رسولوں کو دے کر بھیجے تھے وہ بھی اسی کے تابع ہو جائیں۔ چنانچہ فرمایا:
{ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ} (الصف: ۹)
’’وہی ہے (اللہ) جس نے بھیجا اپنے رسول ﷺ کو کامل ہدایت اور دین الحق دے کر تاکہ اسے پورے نظامِ زندگی پر غالب کردے۔‘‘
اور فرمایا:
{قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَلَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَلَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍ وَّہُمْ صٰغِرُوْنَ (۲۹)} (التوبۃ)
’’(اے آخری رسول ﷺ کے ماننے والو!) تمہاری جنگ جاری رہنی چاہیے ان سے جو نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ آخرت کے دن پر‘ اور نہ حرام قرار دیتے ہیں ان چیزوں کو جن کو اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے‘ اور نہ قبول کرتے ہیں دین ِ حق کی تابع داری کو‘ ان لوگوں میں سے جن کو کتاب دی گئی تھی‘ یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ پیش کریں اور چھوٹے (تابع) بن کر رہیں۔‘‘
یعنی اپنے دین کو مذہب بنا لیں‘ اپنے عقائد و عبادات اور رسومات کو جاری رکھیں‘ لیکن اجتماعی معاملاتِ انسانی میں ان کو دین الحق کے نظام کے تحت زندگی گزارنا ہو گی۔ یہی وہ دین الحق اور الہدیٰ ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا تھا :
((قَدْ تَرَکْتُ فِیْکُمْ مَا لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدَہٗ اِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِہٖ: کِتَابَ اللّٰہِ)) (صحیح مسلم)
’’اور میں تمہارے درمیان ایسی چیز چھوڑے جا رہا ہوں کہ اگر تم اسے مضبوطی سے پکڑ لو گے تو اس کے بعد کبھی گمراہ نہیں ہو گے‘ وہ کتاب اللہ ہے!‘‘
یہی ہے جس کی اہمیت کے بارے میں رسول اللہﷺ نے امت کو بصراحت آگاہ فرمادیا:
((عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: اِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِﷺ یَقُوْلُ: ((اِنَّھَا سَتَکُوْنُ فِتْنَۃٌ))، قُلْتُ مَا الْمَخْرَجُ مِنْھَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِﷺ؟ قَالَ: ((کِتَابُ اللّٰہِ، فِیْہِ نَبَاُ مَا قَبْلَکُمْ ، وَخَبَرُ مَا بَعْدَکُمْ، وَحُکْمُ مَا بَیْنَکُمْ، ھُوَ الْفَصْلُ لَیْسَ بِالْھَزْلِ، مَنْ تَرَکَہٗ مِنْ جَبَّارٍ قَصَمَہُ اللّٰہُ ، وَمَنِ ابْتَغَی الْھُدٰی فِیْ غَیْرِہٖ اَضَلَّہُ اللّٰہُ ، وَھُوَ حَبْلُ اللّٰہِ الْمَتِیْنُ، وَھُوَ الذِّکْرُ الْحَکِیْمُ ، وَھُوَ الصِّرَاطُ الْمُسْتَقِیْمُ، ھُوَ الَّذِیْ لَا تَزِیْغُ بِہِ الْاَھْوَاءُ وَلَا تَلْتَبِسُ بِہِ الْاَلْسِنَۃُ، وَلَا یَشْبَعُ مِنْہُ الْعُلَمَاءُ وَلَا یَخْلُقُ عَنْ کَثْرَۃِ الرَّدِّ، وَلَا تَنْقَضِیْ عَجَائِبُہٗ، ھُوَ الَّذِیْ لَمْ تَنْتَہِ الْجِنُّ اِذْ سَمِعَتْہُ حَتّٰی قَالُوْا: {اِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًا یَّھْدِیْ اِلَی الرُّشْدِ فَاٰمَنَّا بِہٖ} مَنْ قَالَ بِہٖ صَدَقَ، وَمَنْ عَمِلَ بِہٖ اُجِرَ، وَمَنْ حَکَمَ بِہٖ عَدَلَ، وَمَنْ دَعَا اِلَیْہِ ھُدِیَ اِلٰی صِرَاطٍ مُسْتَقِیْمٍ)) (رواہ الترمذی والدارمی)
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ عنقریب ایک بہت بڑا فتنہ برپا ہو گا۔ میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسولﷺ! اس سے نکلنے کا ذریعہ کیا ہو گا؟ آپﷺ نے فرمایا: کتاب اللہ! اس میں خبریں ہیں ان کی بھی جو تم سے پہلے ہو گزرے اور تمہارے بعد والوں کی بھی‘ اور تمہارے اختلافات کے فیصلے موجود ہیں۔ یہ فیصلہ کن کتاب ہے‘ کوئی یاوہ گوئی نہیں ہے۔ جو کوئی اس سے بے اعتنائی کرے گا غرور ِ نفس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اسے پیس کر رکھ دے گا‘ اور جو کوئی اس کے علاوہ کہیں سے ہدایت ڈھونڈے گا اللہ تعالیٰ اسے گمراہ کر دے گا۔ اور یہی اللہ کی مضبوط رسّی ہے‘ اور یہی پُرحکمت نصیحت ہے‘ اور یہی صراط مستقیم ہے۔ اس میں خواہشات ٹیڑھ پیدا نہیں کر سکتیں‘ زبان کا لوچ اس میں التباس پیدا نہیں کر سکتا اور علماء اس سے سیری حاصل نہیں کر سکتے‘ اور بار بار پڑھنے سے اس پر بوسیدگی طاری نہیں ہوسکتی‘ اور اس کے عجائبات کبھی ختم نہیں ہو سکتے۔ یہ وہ کتاب ہے کہ جوں ہی جنوں نے اسے سنا تو یہ کہنے میں کوئی دیر نہیں کی کہ ’’ہم نے بڑا ہی دل پسند قرآن سنا ہے‘ جو ہدایت کی طرف رہنمائی کرتا ہے‘ پس ہم اس پر ایمان لے آئے‘‘۔ جو کوئی اس کی بنیاد پر بات کرے گا وہ سچ کہے گا‘ اور جو اس کے مطابق عمل کرے گا اجر پائے گا‘ اور جو اس کے مطابق فیصلے کرے گا عدل کرے گا‘ اور جو دوسروں کو اس کی طرف بلائے گا وہ لازماً سیدھی راہ پا لے گا۔‘‘
اصل میں یہ سب صفات خود اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کے بارے میں قرآن مجید میں بیان کی ہیں‘ جن کو جوامع الکلم کی صورت میں رسول اللہﷺ نے یہاں جمع کر دیا ہے۔ جیسے فرمایا:
{لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ کِتٰبًا فِیْہِ ذِکْرُکُمْ ط} (الانبیاء:۱۰)
’’لوگو! ہم نے تمہاری طرف ایک کتاب نازل کر دی ہے‘ اس میں تمہارا ذکر موجود ہے۔‘‘
اس کی عظمت سورۃ الواقعہ میں بایں الفاظ بیان کی گئی ہے:
{فَلَآ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ(۷۵) وَاِنَّہٗ لَقَسَمٌ لَّوْ تَعْلَمُوْنَ عَظِیْمٌ(۷۶) اِنَّہٗ لَقُرْاٰنٌ کَرِیْمٌ(۷۷) فِیْ کِتٰبٍ مَّکْنُوْنٍ(۷۸) لَّا یَمَسُّہٗٓ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ(۷۹) تَنْزِیْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ(۸۰) اَفَبِہٰذَا الْحَدِیْثِ اَنْتُمْ مُّدْہِنُوْنَ(۸۱) وَتَجْعَلُوْنَ رِزْقَکُمْ اَنَّکُمْ تُکَذِّبُوْنَ(۸۲) فَلَوْلَآ اِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَ(۸۳) وَاَنْتُمْ حِیْنَئِذٍ تَنْظُرُوْنَ(۸۴) وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْکُمْ وَلٰکِنْ لَّا تُبْصِرُوْنَ(۸۵) فَلَوْلَآ اِنْ کُنْتُمْ غَیْرَ مَدِیْنِیْنَ(۸۶) تَرْجِعُوْنَہَآ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۸۷)}
’’پس نہیں! قسم ہے مجھے ان مقامات کی جہاں ستارے ڈوبتے ہیں۔ اور یقینا یہ بہت بڑی قسم ہے اگر تم جانو! یقینا یہ بہت عزت والا قرآن ہے۔ ایک چھپی ہوئی کتاب میں۔ اسے چھو نہیں سکتے مگر وہی جو بالکل پاک ہیں۔ اس کا اتارا جانا ہے ربّ العالمین کی جانب سے۔ تو کیا تم لوگ اس کتاب کے بارے میں مداہنت کر رہے ہو؟ اور تم نے اپنا نصیب یہ ٹھہرا لیا ہے کہ تم اس کو جھٹلا رہے ہو! تو کیوں نہیں‘ جب جان حلق میں آ(کر پھنس) جاتی ہے۔ اور تم اُس وقت دیکھ رہے ہوتے ہو۔ اور ہم تمہارے مقابلے میں اس سے قریب تر ہوتے ہیں لیکن تم دیکھ نہیں پاتے۔ تو اگر تم کسی کے اختیار میں نہیں ہو‘ تو اس (جان) کو لوٹا کیوں نہیں لیتے اگر تم سچے ہو؟‘‘
اور فرمایا:
{ وَاَنِ احْکُمْ بَیْنَہُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَلاَ تَتَّبِعْ اَہْوَآئَ ہُمْ وَاحْذَرْہُمْ اَنْ یَّــفْتِنُوْکَ عَنْ  بَعْضِ مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ اِلَـیْکَ ط فَاِنْ تَوَلَّــوْا فَاعْلَمْ اَنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ اَنْ یُّصِیْـبَہُمْ بِبَعْضِ ذُنُوْبِہِمْ ط وَاِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ لَفٰسِقُوْنَ (۴۹) اَفَحُکْمَ الْجَاہِلِیَّۃِ یَبْغُوْنَ ط وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ حُکْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ(۵۰)} (المائدۃ)
’’(اے ہمارے رسولﷺ!) ان کے درمیان فیصلے کیجیے اس (شریعت) کے مطابق جو کہ اللہ نے اتاری ہے اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کیجیے اور ان سے ہوشیار رہیے‘ ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ آپ کو ان میں سے کسی چیز سے بچلا دیں جو اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی طرف نازل کی ہیں۔ پھر اگر وہ روگردانی کریں تو جان لیجیے کہ اللہ انہیں ان کے بعض گناہوں کی سزا دینا چاہتا ہے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ لوگوں میں سے اکثر نافرمان ہیں۔ کیا یہ جہالت کے فیصلے چاہتے ہیں؟ اور اللہ تعالیٰ سے کون بہتر ہے فیصلے کرنے میں ان لوگوں کے لیے جو (اس کتاب پر) یقین رکھنے والے ہیں!‘‘
یہی ہے وہ وراثت جو اللہ کے رسولﷺ اپنی امت کے لیے چھوڑ کر گئے‘ جس کا احساس دلایا ایک دفعہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس طریقہ سے:
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ﷺ اَنَّہٗ دَخَلَ السُّوْقَ فَقَالَ: اَرَاکُمْ ھٰھُنَا وَ مِیْرَاثُ رَسُوْلِ اللّٰہِﷺ یُقْسَمُ فِیْ الْمَسْجِدِ! فَذَھَبُوْا وَانْصَرَفُوْا وَقَالُوْا: مَارَاَیْنَا شَیْئًا یُقْسَمُ، رَاَیـْـــنَا قَوْمًا یَقْرَؤُوْنَ الْقُرْآنَ، قَالَ: فَذٰلِکُمْ مِیْرَاثُ نَبِیِّکُمْ))
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دن بازار تشریف لے گئے اور لوگوں سے فرمایا کہ میں تم کو یہاں دیکھ رہا ہوں اور رسول اللہ ﷺ کی میراث مسجد میں بانٹی جارہی ہے! لوگ فوراً مسجد میں گئے اور پھر واپس آگئے‘ اور آکر کہنے لگے کہ ہم نے تو وہاں کوئی چیز تقسیم ہوتے نہیں دیکھی‘ وہاں پر توہم نے دیکھا کہ کچھ لوگ قرآن مجید پڑھ رہے ہیں۔ اس پر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: یہی تو تمہارے نبیﷺ کی میراث ہے!‘‘
یہ ہے وہ وراثت ہے جو امتوں کو سپرد کی جاتی ہے لیکن وہ اس کی قدر نہیں کرتیں اور ان کو صرف مقدس کتاب کے طور پر پاس رکھتی ہیں اور ان سے ہدایت لینے کی نوبت نہیں آتی۔ جیسے آج کل اُمّت ِمسلمہ کی اکثریت اگر قرآن پڑھتی بھی ہے تو بغیر سمجھے صرف حصولِ ثواب کے لیے‘ بلکہ آج کل تو وہ صرف ایصالِ ثواب کی کتاب رہ گئی ہے۔ حالانکہ اس کتاب میں یہ کہیں نہیں لکھا ہوا‘ بلکہ فرمایا گیا ہے :
{کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْٓا اٰیٰتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ(۲۹)}(ص)
’’یہ ایک بابرکت کتاب ہے جو (اے نبیﷺ!) ہم نے آپ کی طرف نازل کی ہے‘ تاکہ لوگ اس کی آیات پر تدبر کریں اور عقل مند اس سے نصیحت حاصل کریں۔‘‘
اور فرمایا:
{وَمَا عَلَّمْنٰــہُ الشِّعْرَ وَمَا یَنْبَغِیْ لَہٗ ط اِنْ ہُوَ اِلَّا ذِکْرٌ وَّقُرْاٰنٌ مُّبِیْنٌ(۶۹) لِّیُنْذِرَ مَنْ کَانَ حَیًّا وَّیَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ(۷۰)} (یٰس)
’’اور ہم نے اپنے رسولؐ کو شعر و شاعری نہیں سکھائی اور نہ ہی یہ ان کے شایانِ شان ہے۔ یہ تو ایک یاددہانی اور واضح قرآن ہے‘ تاکہ وہ خبردار کرے (اس کے ذریعے) ان کو جو زندہ ہیں اور نہ ماننے والوں پر حجت قائم ہو جائے۔‘‘
قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے‘ اور یہ تو اس کی برکت ہے کہ پڑھنے پر ثواب ملتا ہے۔ اصلاً تو یہ ہدایت کے لیے نازل ہوا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جو کتاب اللہ نے عطا کی تھی اس کے بارے میں بھی قرآن مجید میں یہ ارشاد موجود ہے :
{وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْہُدٰی وَاَوْرَثْنَا بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ الْکِتٰبَ (۵۳) ہُدًی وَّذِکْرٰی لِاُولِی الْاَلْبَابِ (۵۴)} (المؤمن)
’’ہم نے موسیٰؑ کو بھی ہدایت عطا فرمائی اور پھر اس کتابِ ہدایت کا بنی اسرائیل کو وارث بنا دیا۔ اس میں ہدایت اور یاددہانی تھی اہل ِ عقل کے لیے۔‘‘
لیکن یہی اُمتی پھر یہاں تک پہنچ جاتے ہیں جو نقشہ کھینچاہے قرآن مجید نے اُس وقت کے یہودیوں کا:
{فَخَلَفَ مِنْ  بَعْدِہِمْ خَلْفٌ وَّرِثُوا الْکِتٰبَ یَاْخُذُوْنَ عَرَضَ ہٰذَا الْاَدْنٰی وَیَقُوْلُوْنَ سَیُغْفَرُ لَنَاج وَاِنْ یَّاْتِہِمْ عَرَضٌ مِّثْلُہٗ یَاْخُذُوْہُ ط اَلَمْ یُؤْخَذْ عَلَیْہِمْ مِّیثَاقُ الْکِتٰبِ اَنْ لَّا یَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰہِ اِلَّا الْحَقَّ وَدَرَسُوْا مَا فِیْہِ ط وَالدَّارُ الْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ ط اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ(۱۶۹)} (الاعراف)
’’پھر ان کے بعد ایسے (ناخلف) جانشین کتاب کے وارث بنے جو اس دنیا کے سازو سامان ہی کو حاصل کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم کو تو بخش ہی دیا جائے گا۔ اور اگر ایسا ہی اور سامان بھی ان کو دے دیا جائے تو لپک کر لیں گے۔ کیا ان سے پختہ عہد نہ لیا گیا تھا کتاب (تورات) کے بارے میں کہ وہ اللہ کی طرف کوئی بات منسوب نہ کریں گے مگر حق ‘ اور انہوں نے پڑھ بھی لیا جو کچھ اس میں درج تھا۔ اور آخرت کا گھر تو بہت بہتر ہے ان کے لیے جو تقویٰ کی روش اختیار کرتے ہیں۔ تو کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے!‘‘
اس اُمّت کے بارے میں بھی فرما دیا :
{وَالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ ہُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ ط اِنَّ اللّٰہَ بِعِبَادِہٖ لَخَبِیْرٌ بَصِیْرٌ (۳۱) ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْکِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَاج فَمِنْہُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِہٖ ج وَمِنْہُمْ مُّقْتَصِدٌج وَمِنْہُمْ سَابِقٌم بِالْخَیْرٰتِ بِاِذْنِ اللّٰہِ ط ذٰلِکَ ہُوَ الْفَضْلُ الْکَبِیْرُ (۳۲)} (فاطر)
’’اور (اے نبیﷺ!) ہم نے جو وحی بھیجی ہے آپ کی طرف کتاب میں سے‘ وہی حق ہے ‘ تصدیق کرتے ہوئے آئی ہے اُس (کتاب)کی جو اس سے پہلے موجود ہے۔ پھر ہم نے کتاب کا وارث بنایا ان لوگوں کو جنہیں ہم نے اپنے بندوں میں سے چن لیا‘ تو ان میں سے کچھ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں‘ اور ان میں کچھ درمیانی راہ پر چلنے والے ہیں‘ اور ان میں سے کچھ نیکیوں میں سبقت لے جانے والے ہیں ‘اللہ کی توفیق سے۔ یہی بہت بڑی فضیلت ہے۔‘‘
آسمانی کتابوں کے وارث اصل میں ان کے بارے میں شک میں پڑ جاتے ہیں‘ پھر وہ صرف نام کتاب کا لیتے ہیں مگر ان کے مندرجات پر ان کا یقین نہیں رہتا‘ کیونکہ زندگی کی رہنمائی کے لیے ان کو اختیار نہیں کرتے۔ جیسے آج کل اسلامی ممالک میں ہو رہا ہے کہ کتاب کی حد تک تو مانتے ہیں کہ اللہ کی ارسال کردہ ہے‘ لیکن پورا نظامِ زندگی مغرب کی تقلید میں سیکولرازم پر چلا رہے ہیں ۔ کتاب کو اس زمانے میں قابلِ عمل قرار نہیں دیتے‘ بلکہ اپنی مرضی سے اس کے احکام کو بدل بھی دیتے ہیں۔ جیسے فرمایا:
{وَمَا تَفَرَّقُوْٓا اِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَآئَ ہُمُ الْعِلْمُ بَغْیًا بَیْنَہُمْ ط  وَلَوْلَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّکَ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی لَّـقُضِیَ بَیْنَہُمْ ط وَاِنَّ الَّذِیْنَ اُوْرِثُوا الْکِتٰبَ مِنْ بَعْدِہِمْ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ مُرِیْبٍ(۱۴)} (الشورٰی)
’’اور انہوں نے تفرقہ نہیں کیا مگر اس کے بعد کہ ان کے پاس علم آ چکا تھا ‘آپس میں ضدم ضدا کے باعث۔ اور اگر ایک بات آپ کے رب کی طرف سے پہلے سے ایک وقت معین کے لیے طے نہ پا چکی ہوتی تو ان کے مابین (اختلافات کا) فیصلہ چکا دیا جاتا۔ اور جو لوگ کتاب کے وارث بنائے گئے ان کے بعد وہ اس کے متعلق ایک خلجان آمیز شک میں مبتلا ہیں۔‘‘
ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کیفیتوں سے نکل کر اُمّت ِمسلمہ قرآن حکیم کے نزول کے مقصد کو اختیار کرے اور اس کی ہدایت کو اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگی میں اختیار کرے‘ کیونکہ یہی کتاب ہے جو سیدھی راہ کی طرف رہنمائی دینے والی ہے اور اس کے نزول کا مقصد بھی تمام انسانیت کے لیے ہدایت ہے۔ ازروئے الفاظِ قرآنی:
{اِنَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنَ یَہْدِیْ لِلَّتِیْ ہِیَ اَقْوَمُ} (بنی اسراء یل:۹)
’’بے شک یہ قرآن اس راہ کی طرف ہدایت دینے والا ہے جو سب سے سیدھی ہے۔‘‘
اسی بارے میں نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
((خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْاٰنَ وَعَلَمَّہٗ)) (رواہ البخاری)
’’تم میں سے بہترین وہ ہے جو قرآن مجید کا علم سیکھے اور اسے دوسروں کو سکھائے۔‘‘
رمضان المبارک کی فضیلت میں ایک حدیث وارد ہوئی ہے:
((لَوْ یَعْلَمُ الْعِبَادُ مَا فِیْ رَمَضَانَ لَتَمَنَّتْ اُمَّتِیْ اَنْ تَکُوْنَ السَنَۃُ کُلُّہَا رَمَضَانَ)) (مجمع الزوائد للھیثمی)
’’اگر لوگ رمضان کی فضیلت کو جانتے تو میری امت یہ خواہش کرتی کہ سارا سال رمضان ہی رہے۔ ‘‘
قرآن مجید کے بارے میں نبی اکرم ﷺ نےفرمایا:
((یَا اَھْلَ الْقُرْآنِ لَا تَتَوَسَّدُوا الْقُرْآنَ، وَاتْلُوْہُ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ مِنْ آنَاءِ اللَّیْلِ وَالنَّھَارِ، وَافْشُوْہُ وَتَغَنَّوْہُ وَتَدَبَّرُوْا مَا فِیْہِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ))(شعب الایمان للبیہقی)
’’اے قرآن والو! قرآن کو سہارا نہ بنا لینا‘ بلکہ اسے پڑھو جیسا کہ اس کے پڑھنے کا حق ہے دن اور رات کی گھڑیوں میں‘ اور اسے پھیلاؤ‘ اور اسے اچھی آواز سے پڑھو‘ اور اس میں غور و فکر کرو‘ تاکہ فلاح پاؤ۔‘‘
اور یہ کہ:
((اِنَّ ھٰذِہِ الْقُلُوْبَ تَصْدَأُ کَمَا یَصدَأُ الْحَدِیْدُ اِذَا اَصَابَہُ الْمَاءُ)) قِیْلَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَا جِلَاءُھَا؟ قَالَ: ((کَثَرَۃُ ذِکْرِ الْمَوْتِ وَتِلَاوَۃُ الْقُرْآنِ)) (رواہ البیہقی)
’’بے شک یہ دل زنگ آلود ہو جاتے ہیں جیسے لوہے پر پانی پڑے تو زنگ آلود ہو جاتا ہے‘‘۔ پوچھا گیا: یا رسول اللہﷺ! اس کا صیقل کیا ہے؟ فرمایا: ’’موت کی کـثرت سے یاد اور تلاوتِ قرآن مجید۔‘‘
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے :
ألا لا خیر فی قراء ۃٍ لیس فیہ تدبر، ألا لا خیر فی عبادۃٍ لا فقہ فیہا
’’خبردار! اُس تلاوت میں کوئی خیر نہیں جس میں تدبر نہ ہو‘ خبردار!اس عبادت میں کوئی خیر نہیں جس میں سمجھ بوجھ نہ ہو۔ (یعنی عبادت کرنے والے کو سمجھ ہی نہ ہوکہ وہ کیا کہہ رہا ہے)۔‘‘
سورۃ القمر میں یہ آیت چار مرتبہ دہرائی گئی:
{وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْآنَ فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍo }
’’ہم نے آسان کردیا ہے قرآن کو یاد دہانی کے لیے ‘ تو ہے کوئی یاد دہانی حاصل کرنے والا!‘‘
اور فرمایا:
{اَلرَّحْمٰنُ (۱) عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ (۲) خَلَقَ الْاِنْسَانَ (۳) عَلَّمَہُ الْبَیَانَ(۴)}
’’رحمٰن نے قرآن سکھایا۔ اُسی نے انسان کو بنایا۔ اُس کو بیان سکھایا۔‘‘
رحمٰن کی رحمت کا سب سے بڑا مظہر قرآن مجید اور سب سے افضل مخلوق انسان ہے‘ اور اسے جو کچھ دیا گیا ہے اس میں بہترین قوت بیان کی خوبی ہے۔ یہی خوبی جب کلام اللہ کو بیان کرنے میں لگے تو بہترین ہے۔
اللہ کرے ہم قرآن حکیم کی طرف پلٹیں اور اس کے حقوق ادا کریں ‘ اسے پڑھیں‘ یاد کریں‘ سمجھیں‘ عمل کریں اور آگے پہنچائیں اور اس کے نتیجے میں اس دعا کے مصداق بن جائیں جو قرآن مجید کی تلاوت مکمل کرنے پر مانگی جاتی ہے:
((اَللّٰھُمَّ آنِسْ وَحْشَتَنَا فِیْ قُبُوْرِنَا، اَللّٰھُمَّ ارْحَمْنَا بِالْقُرْآنِ الْعَظِیْمِ، وَاجْعَلْہُ لَنَا اِمَامًا وَّنُوْرًا وَھُدًی وَّرَحْمَۃً، اَللّٰھُمَّ ذَکِّرْنَا مِنْہُ مَا نَسِیْنَا وَعَلِّمْنَا مِنْہُ مَا جَھِلْنَا، وَارْزُقْنَا تِلَاوَتَہٗ آنَاءَ اللَّیْلِ وَاَطْرَافَ النَّھَارِ، وَاجْعَلْہُ لَنَا حُجَّۃً یَّا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ))آمین!
’’اے اللہ! اس قرآن کو ہماری قبروں کی وحشت میں ہمارا ساتھی بنا دے۔ اے اللہ! اس قرآن کے ذریعہ ہم پر اپنی رحمت فرما اور اسے ہمارا امام بنا دے کہ اس کی پیروی کریں۔ اسے ہمارے لیے نور بنا دے کہ اس کی روشنی میں اپنی منزل کا تعین کریں۔ اسے ہدایت بنا دے کہ اس کی راہ اختیار کریں۔ اسے رحمت بنا دے کہ جس کے سہارے آخرت میں کامیابی حاصل ہو۔ اے اللہ! ہم اس میں سے جو کچھ بھولے ہوئے ہیں وہ ہمیں یاد کروا دے اور جس کا علم نہیں ہے اس کا علم ہمیں عطا فرما دے۔ اور اس کی پیروی کی توفیق دے تلاوت و عمل میں دن رات کے اوقات میں‘ اور اس پر عمل کے ذریعے اسے ہمارے حق میں سفارش کرنے والا بنا دے۔ اے سارے جہانوں کے مالک ۔ آمین!‘‘