روزے کا مقصد اور طبّی مسائلپروفیسر ڈاکٹر نجیب الحق
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اُس نےہمیں زندگی میں ایک مرتبہ پھر رمضان المبارک کی برکات سے مستفیض ہونےکا موقع عطا فرمایا ۔ اُسی کی توفیق سے ہم اِس ماہِ مقدس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی دعا کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں روزے کے مقصد اور اس کی حقیقت سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
روزہ عام طور پر مخصوص وقت میں کھانے پینے سے اجتناب کو کہتے ہیں۔ مسلمان اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اس دوران حلال چیزوں سے بھی پرہیز کرتا ہے‘ لیکن افسوس کہ جن اعمال کو اسی اللہ نے حرام قرار دیا ہے انہیں روزے کے دوران کر گزرتا ہے۔ایسے روزے کے بارے میں اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا :
((رُبَّ صَائِمٍ لَیْسَ لَـــــہٗ مِنْ صِیَامِہٖ اِلَّا الْجُوْعُ، وَرُبَّ قَائِمٍ لَیْسَ لَــــــہٗ مِنْ قِیَامِہٖ اِلَّا السَّھَرُ)) (دارمی‘مشکوٰۃ)
’’کتنے ہی روزہ دار ہیں کہ ان کو اپنے روزے سے سوائے بھوک پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا( کیونکہ وہ روزے میں بھی بدگوئی ‘ بدنظری اور بدعملی نہیں چھوڑتے) اور کتنے ہی رات میں قیام کرنے والے ہیں جن کو اپنے قیام سے ماسوا جاگنے کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔‘‘
ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا گیا:
((مَنْ لَمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِہٖ ، فَلَیْسَ لِلّٰہِ حَاجَۃٌ فِیْ اَنْ یَّدَعَ طَعَامَــــــہٗ وَشَرَابَــــــہٗ)) (رواہ البخاری وابوداوٗد والترمذی)
’’جس شخص نے روزے کی حالت میں بے ہودہ باتیں (مثلاً: غیبت ‘ بہتان ‘ تہمت ‘ گالی گلوچ ‘ لعن طعن ‘ غلط بیانی وغیرہ) اور گناہ کا کام نہیں چھوڑا‘ تو اللہ تعالیٰ کو کچھ حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑے رکھے۔‘‘ ( بخاری)
روزے کا مقصدتقویٰ حاصل کرنا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا :
{یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَـبْلِکُمْ لَـعَلَّـکُمْ تَتَّقُوْنَ (۱۸۳)} (البقرۃ)
’’اے ایمان والو! تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تم تقویٰ اختیار کرنے والے بن جاؤ ۔‘‘
اور یہ مقصد تب ہی حاصل ہوگا جب ہم روزہ اس طریقے کے مطابق رکھیں گے جو اللہ اور اُس کے رسول ﷺ نے ہمیں بتایاہے۔
رمضان اور قرآن
قرآن حکیم رمضان المبارک میں نازل ہوا‘ یہی اس مہینے کی برکت کا سبب ہے۔اس میں لیلۃ القدر ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((مَنْ صَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَّاحْتِسَابًا غُفِرَ لَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ، وَمَنْ قَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَّاحْتِسَابًا غُفِرَ لَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ ، وَمَنْ قَامَ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ اِیْمَانًا وَّاحْتِسَابًا غُفِرَ لَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ )) (رواہ البخاری ومسلم)
’’جس نے رمضان کے روزے رکھے ایمان اور خود احتسابی کے ساتھ اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے‘ اور جو رمضان (کی راتوں) میں کھڑا رہا(قرآن سننے اور سنانے کے لیے) ایمان اور خود احتسابی کے ساتھ اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے ‘ اور جس نے لیلۃ القدر میں قیام کیا ایمان اور خود احتسابی کے ساتھ اُس کے بھی پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔‘‘
یہ موقع ہے کہ ہم اس مہینے میں قرآن کی طرف خصوصی توجہ دیں۔ اسے سمجھنے کا بندوبست کریں اور اس پر عمل کی کوشش کریں۔
رمضان میں ہر نیک عمل کا ثواب بڑھا چڑھا کر دیا جاتا ہے۔آپﷺ کا ارشاد ہے:
((کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ یُضَاعَفُ، الْحَسَنَۃُ بِعَشْرِ اَمْثَالِھَا اِلٰی سَبْعِ مِائَۃِ ضِعْفٍ قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی: اِلَّا الصَّوْمَ فَاِنَّــــــہٗ لِیْ وَاَنَا اَجْزِیْ بِہٖ، یَدَعُ شَھْوَتَہٗ وَطَعَامَہٗ مِنْ اَجْلِیْ، لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ، فَرْحَۃٌ عِنْدَ فِطْرِہٖ ، وَفَرْحَۃٌ عِنْدَ لِقَاءِ رَبِّہٖ، وَلَخُلُوْفُ فِیْہِ اَطْیَبُ عِنْدَ اللّٰہِ مِنْ رِیْحِ الْمِسْکِ))(صحیح مسلم‘ کتاب الصیام‘ باب فضل الصیام)
’’ابن آدم کا ہر عمل اس کے لیے کئی گنا بڑھایا جاتا ہے‘ یہاں تک کہ ایک نیکی دس سے سات سو گنا تک بڑھائی جاتی ہے‘ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزے کا معاملہ اس سے جدا ہے‘ کیونکہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔ وہ اپنی جنسی خواہش اور کھانا پینا میری خاطر چھوڑتا ہے۔ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں: ایک خوشی افطاری کے وقت اور دوسری خوشی اپنے رب سے ملاقات کے وقت۔ اور روزہ دار کے منہ سے آنے والی بُو اللہ کے نزدیک کستوری کی خوشبو سے پاکیزہ تر ہے۔ ‘‘(متفق علیہ)
پس ہمیں اس مہینے سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہیے اور اس کو لہو و لعب میں ضائع نہیں کرنا چاہیے۔
روزے کی حقیقت (روزے کے حقوق)
حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کیاکہ:
((الصِّیَامُ حُنَّۃٌ مَالَمْ یَخْرِقْھَا))(سنن النسائی)
’’روزہ ڈھال ہے جب تک (روزہ دار) اس میں سوراخ نہ کردے۔ ‘‘
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’روزہ ڈھال ہے کہ نفس و شیطان کے حملوں سے بھی بچاتاہے‘ گناہوں سے بھی باز رکھتا ہے‘ اور قیامت میں دوزخ کی آگ سے بھی بچائے گا۔ پس جب تم میں سے کسی کے روزے کا دن ہو تو نہ ناشائستہ بات کرے ‘ نہ شور مچائے۔پھر اگر کوئی شخص اس سے گالی گلوچ یا لڑائی جھگڑا کرے تو کو کہہ دے کہ:میں روزے سے ہوں (اس لیے تجھ کو جواب نہیں دے سکتا‘ کہ روزہ اس سے مانع ہے)۔‘‘ (بخاری ومسلم )
اس حدیث میں جن برے اعمال کا ذکر کیا گیا ہے وہی اس ڈھال کے سوراخ ہیں جن سے روزہ کی افادیت اسی طرح متأثر ہوتی ہے جیسےڈھال میں سوراخ ہو جائے تو وہ بیکار ہو جاتی ہے اور اس سے بچاؤ کا کام نہیں لیا جا سکتا۔ روزہ صرف کھانے پینے سے رکنے کا نام نہیں۔ روزے میں آنکھ ‘ زبان ‘ کان ‘ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء کے گناہوں سے بچا جائے۔ یہی حقیقی روزہ ہے جس پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے پورے اجر کی امید کی جا سکتی ہے اور جو زندگی میں تبدیلی کا باعث بھی بنے گا۔
آنکھ کا روزہ
{ قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ ۭ ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ بِمَا يَصْنَعُوْنَ(۳۰) } (النور)
’’(اے نبیﷺ ) مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں ‘یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے ۔ جوکچھ وہ کرتے ہیں اللہ اس سے باخبر ہے۔‘‘
آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے :
’’ نظر شیطان کے تیروں میں سے ایک زہر میں بجھا ہوا تیر ہے۔پس جس نے اللہ تعالیٰ کے خوف سے نظرِ بد کو ترک کر دیا‘ اللہ تعالیٰ اس کو ایسا ایمان نصیب فرمائے گا کہ اس کی حلاوت کو وہ اپنے دل میں محسوس کرے گا ۔‘‘(رواہ الحاکم )
کان کا روزہ
حرام اور مکروہ چیزوں کے سننے سے پرہیز رکھے‘ کیونکہ جو بات زبان سے کہنا حرام ہے اس کا سننا بھی حرام ہے۔
زبان کا روزہ
زبان کی حفاظت کرے اور اس کو بے ہودہ باتوں ‘ جھوٹ ‘ غیبت ‘ چغلی ‘ جھوٹی قسم اور لڑائی جھگڑے سے محفوظ رکھے۔اسے خاموشی کا پابند بنائے اور ذکر و تلاوت میں مشغول رکھے۔اللہ ربّ العزت کا ارشاد ہے:
{ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّز اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًاط اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِہْتُمُوْہُ ط وَاتَّقُوا اللہَ ط اِنَّ اللہَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ (۱۲) }(الحجرات)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں‘ اور تجسّس نہ کیا کرو‘ اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے ۔کیا تمہارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟ دیکھو ‘ تم خود اس سے گھن کھاتے ہو۔ اللہ سے ڈرو ‘ اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے۔‘‘
کتنی بدقسمتی ہوگی اگر ہم رمضان میں بھی اس سے اجتناب نہ کرسکیں!
منہ اور پیٹ کا روزہ
اِفطارکے وقت حلال کھانے میں بھی بسیار خوری نہ کرے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:’’ پیٹ سے بدتر کوئی برتن نہیں‘ جس کو آدمی بھرے۔‘‘ ( احمد والترمذی وابن ماجہ والحاکم)
اگر شام کو افطاری میں دن بھر کی ساری کسر پوری کرلی تو روزہ سے شیطان کو مغلوب کرنے اور نفس کی شہوانی قوت توڑنے کا مقصد حاصل کرنا مشکل ہو گا۔ افطار کے وقت پیٹ میں کوئی مشتبہ چیز نہ ڈالی جائے‘ کیونکہ اس کا کوئی فائدہ نہیں کہ دن بھر تو حلال سے روزہ رکھا اور شام کو حرام چیز سے روزہ کھولا یا روزہ کھولتے ہی حرام پینےیا کھانے میں مشغول ہو جائے۔
افطار کے وقت روزہ دار حالت خوف اور امید کے درمیان مضطرب رہے کہ نہ معلوم اس کا روزہ اللہ تعالیٰ کے یہاں مقبول ہوا یا مردُود !درحقیقت یہی کیفیت ہر عبادت کے بعد ہونی چاہیے اور مقدور بھر کوشش کے بعد اللہ پر اچھا گمان رکھا جائے۔
دل کا روزہ
دل کو دُنیوی افکار سے پاک رکھیں ۔ پوری توجہ رب العزت ہی کی طرف ہو۔ماسوااللہ سے اس کو روک دیا جائے ‘البتہ وہ دُنیا جو دین کے لیے مقصود ہو وہ توشۂ آخرت ہے۔ قلب کی حفاظت کے لیے طعام‘ کلام‘ نیند اور اختلاط کی کثرت سے پرہیز کیا جائے۔دل کی طرف جانے والے راستوں کی نگہبانی کی جائے۔ یعنی آنکھ‘ کان‘ زبان اور شرمگاہ کی حفاظت کی جائے۔ ارشاد ِباری تعالیٰ ہے:
{ وَلَا تَقْفُ مَالَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ ط اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلًا(۳۶) } (بنی اسرائیل)
’’کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہ ہو۔یقینا ًآنکھ ‘ کان اور دل سب ہی کی باز پرس ہونی ہے۔‘‘
ہاتھ‘ پاؤں وغیرہ کا روزہ
ہاتھ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء کو حرام اور مکروہ کاموں سے محفوظ رکھاجائے۔ جو کام کریں‘ پہلے سوچ لیں کہ یہ قرآن و سنت کے خلاف تو نہیں ہے! ایسے ہی روزے کے بارے میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے روایت فرمایاکہ’’ جس نے رمضان کار وزہ رکھا ‘ اور اس کی حدود کو پہچانا‘ اور جن چیزوں سے پرہیز کرنا چاہیے ان سے پرہیز کیا‘ تو یہ روزہ اس کے گزشتہ گناہوں کا کفّارہ ہو گا۔‘‘ (صحیح ابنِ حبان ‘ بیہقی)
ایک اہم اور قابل توجہ پہلو رمضان کی آخری رات ہے۔ اس کے بارے میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کردہ حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بخشش کی جاتی ہے میر ی اُمّت کی رمضان کی آخری رات میں۔عر ض کیا گیا: یا رسول اللہ ﷺ! کیا یہ لیلۃ القدر ہوتی ہے؟ فرمایا: ’’نہیں‘ بلکہ کا م کرنے والے کی مزدوری اس کا کا م پورا ہونے پر ادا کر دی جاتی ہے۔‘‘ یعنی جب کوئی پورے اہتمام سے حقیقی روزہ رکھے تو رمضان المبارک کی آخری شب اجرت اور انعام کے طور پر اس کی بخشش کر دی جاتی ہے۔ہمیں لیلۃ القدر کی فضیلت تو یاد رہتی ہے اور ہونی بھی چاہیے‘ لیکن افسوس کہ آخری رات عبادات کی بجائے فضولیات اور خرافات میں گزار دی جاتی ہے۔اس رات کو ضائع نہ کیا جائے ‘ معلوم نہیں پھر یہ نصیب ہوتی ہے یا نہیں!
اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہمیں روزے کی حقیقت اور اس کے مقصد کو سمجھنے کا فہم عطا فرماے۔ ایسا روزہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائےجوتقویٰ کے حصول کا باعث ہو۔اللہ تعالیٰ ہمارے روزے قبول فرمائےاور ہمیں ان لوگوں میں شامل کرے جن کو روزے رکھنے پر بخشش کی بشارت دی گئی ہے۔ آمین یا ربّ العالمین!
طبی مسائل اور روزے پر اثرات
1پٹھوں یا رگوں میں انجکشن لگانا۔۔۔روزہ نہیں ٹوٹتا
2طاقت کے انجکشن یا ڈرپ لگانا۔۔۔جمہور علماء کی رائے میں روزہ نہیں ٹوٹتا لیکن اسے روزے کی روح کے خلاف سمجھتے ہیں۔ بعض روزہ ٹوٹنے کا فتویٰ دیتے ہیں۔
3شوگر کی بیماری۔۔۔روزہ رکھا جا سکتاہے۔ ڈاکٹر کے مشورےسے دوا کی مقدار اور اوقات میں تبدیلی کی جاسکتی ہے۔
4شوگر کے انجکشن( انسولین) لگوانا۔۔۔روزہ نہیں ٹوٹتا اورڈاکٹر کے مشورے سے انجکشن کی مقدار اور اوقات میں تبدیلی کی جاسکتی ہے۔ شوگر انتہائی کم ہونے کا خطرہ ہو تو روزہ نہ رکھا جائے۔
5دل اور دوسری بیماریوں میں زیر زبان گولی کا استعمال۔۔۔روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔دل کی بیماری زیادہ شدید ہو تو روزہ نہ رکھا جائے۔
6گردے کی پتھری۔۔۔درد شدید ہو تو قضاکیا جا سکتا ہے۔
7گردے کی دائمی بیماری/ ڈائلیسز۔۔۔روزہ نہ رکھنا بہتر ہے۔یہی صورت ڈائلیسزکی بھی ہے۔
8حاملہ یا دودھ پلانے والی خواتین۔۔۔روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے‘ رکھنے کے لیے ڈاکٹر سے مشورہ کریں۔
9سانس کی تکلیف (دمہ)کے لیے انہیلر کا استعمال۔۔۔روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔
10عام یرقان / کالا یرقان۔۔۔چند مخصوص صورتوں کے علاوہ روزہ رکھا جاسکتا ہے۔بہتر ہوگا کہ ڈاکٹر سے مشورہ کریں۔
11آپریشن کروانا۔۔۔روزہ نہیں ٹوٹتا۔آپریشن ضروری نہ ہو تو بہتر ہے رمضان کے بعدکرائیں۔
12انڈوسکوپی‘ برانکوسکوپی‘ یا ناک میں خوراک کی نالی ڈالنا۔۔۔روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔
13پیشاب کی نالی میں catheter ڈالنا۔۔۔روزہ نہیں ٹوٹتا۔
14انگلی یا آلے سے مقعدکے اندرونی حصے کا معائنہ کرنا۔۔۔روزہ ٹوٹ جاتا ہے‘ بعض علماء نہ ٹوٹنے کا فتویٰ بھی دیتے ہیں۔
15حقنہ /انیما یا بتی۔۔۔ان کے استعمال سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔
16اندام نہانی کا معائنہ (PV)۔۔۔روزہ ٹوٹ جاتا ہے‘بعض علماء نہ ٹوٹنے کا فتویٰ بھی دیتے ہیں۔
17جلد پر دوا لگانا (مرہم پٹی وغیرہ)۔۔۔روزہ نہیں ٹوٹتا۔
18کان میں دوائی ڈالنا۔۔۔کان کا پردہ سالم ہو تو روزہ نہیں ٹوٹتا۔ پردے میں سوراخ ہو تو ٹوٹ جاتا ہے۔
19آنکھ میں دوا ڈالنا۔۔۔مرہم ڈالنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا‘البتہ بعض علما ءقطرے ڈالنے پرٹوٹنے کا فتویٰ دیتے ہیں ۔ بہتر ہے ناک کی جانب آنکھ کو دبا کر قطرےحلق میں داخل ہونے سے روک لیے جائیں۔
20ناک کے اندر دوا ڈالنا۔۔۔روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔
21مریض کو خون دینا۔۔۔روزہ نہیں ٹوٹتا‘لیکن بہتر ہے افطاری کے بعد دیا جائے تاکہ کمزوری نہ ہو۔
22نفسیاتی بیماریوں میں۔۔۔عمومی طورپر رکھاجاسکتا ہے۔ شدید بیماری میں ڈاکٹر سے مشورہ کریں۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024