لقمان حکیم کی وصیتیں(۳)
مقصود الحسن فيضى
چوتھی وصیت:نماز قائم کرو
نماز کی شرائط ‘آداب اور ارکان و واجبات کے ساتھ اس کی ادائیگی پر مداومت کرو۔
عقیدے کی تاکیدکے بعد حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کی توجہ عبادات کی طرف مبذول کرائی۔ یہ وصیت عبادات خصوصاً نماز سے متعلق ہے۔ بطور خاص یہاں نماز کا ذکر اس لیے کیا گیا کیونکہ یہ متعدد قسم کی عبادات کی جامع ہے۔اس وصیت میں والدین کے لیے یہ ہدایت ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت نماز کے اہتمام پر کریں۔ نماز کی محبت اولاد کے دلوں میں بچپن ہی سے ڈالیں‘ اور انہیں یہ اچھی طرح سکھائیں کہ پانچ وقت کی نماز ان پر اللہ تعالیٰ کا ایک عظیم حق ہے۔یہ مسلمان والدین کی بہت بڑی ذمہ داری ہے‘ لیکن موجودہ دور میں چونکہ وہ خود ہی نماز کی پابندی نہیں کرتے اس لیے اپنی اولاد کی بھی تربیت اس عظیم عبادت پر نہیں کرپاتے۔
انبیاء کرام علیہم السلام کی سیرت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی اولاد کو نمازی بنانے کی بڑی فکر کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نہ صرف اپنی اولاد کو نماز کی تاکید فرماتے بلکہ مزید آگے بڑھ کر ان کے نمازی رہنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کرتے تھے۔ قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا ان الفاظ میں نقل فرمائی ہے:
{رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوۃِ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْق رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَآئِ(۴۰) } (ابراھیم)
’’اےمیرے رب! مجھےاورمیری اولاد کو نماز قائم کرنے والا بنادے‘اوراےہمارے رب! میری دعا قبول فرما ۔‘‘
حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ذکر میں ہے کہ وہ بھی نماز کی ادائیگی پر اپنے اہل وعیال کی تربیت فرماتے تھے:
{وَکَانَ یَاْمُرُ اَہْلَہٗ بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّکٰوۃِص وَکَانَ عِنْدَ رَبِّہٖ مَرْضِیًّا(۵۵) }(مریم)
’’اور وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے تھے‘ اور وہ اپنے رب کے نزدیک بڑے پسندیدہ تھے۔‘‘
اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمارے نبی کریمﷺ کو بھی یہی حکم دیاہے :
{وَاْمُرْ اَہْلَکَ بِالصَّلٰوۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْہَاط لَا نَسْئَلُکَ رِزْقًاط نَحْنُ نَرْزُقُکَط وَالْعَاقِبَۃُ لِلتَّقْوٰی(۱۳۲)} (طٰہٰ)
’’اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیجیے اور خود بھی اس پر ڈٹ جائیے‘ہم آپ سے رزق کا سوال نہیں کرتے (بلکہ) ہم ہی آپ کو رزق دیتے ہیں ‘اور اچھا انجام تقویٰ (والوں )کا ہے۔ ‘‘
نبی کریم ﷺ نماز کے بارے میں اپنے اہل خانہ کی کس قدر خبر گیری کرتے تھے‘ اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک بار مَیں نےاپنی خالہ اُمّ المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس رات گزاری۔جب رسول اللہ ﷺ رات کو گھر تشریف لائے تو آپؐ نے پوچھا:((أَصَلَّى الْغُلَامُ؟))کیالڑکےنے نماز پڑھ لی؟ انہوںنےکہا: ہاں!(۲۶) عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما جو نبی مکرم ﷺ کے چچا زاد بھائی تھے‘ ابھی نابالغی کی عمر کے تھے اور صرف ایک رات کے لیے اپنی خالہ کے گھر ٹھہرے ہوئے تھے ‘مگر ان کےبارےمیںبھی رسول اللہﷺ نےپوچھاکہ کیا بچے نے نماز پڑھ لی !
مقامِ عبرت ہے کہ اگر اللہ کے انبیاء علیہم السلام اپنی اولاد کے بارے میں نماز کی فکر اس قدر رکھتے تھے تو ہمیں اپنی اولاد کی نماز کے بارے میں کتنا فکر مند ہونے کی ضرورت ہے!یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں کو حکم دیتے ہوئے فرمایا:
{یٰٓــاَیـُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا} (التحريم:۶)
’’اے ایمان والو!خود کو اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔‘‘
امام ضحاک اور امام مقاتل رحمہا اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
((حَقٌّ عَلَى الْمُسْلِمِ أَنْ يُعَلِّمَ أَهْلَهُ، مِنْ قَرَابَتِهِ وَإِمَائِهِ وَعَبِيدِهِ، مَا فَرَضَ اللّٰہُ عَلَيْهِمْ، وَمَا نَهَاهُمُ اللّٰہُ عَنْهُ))(۲۷)
’’ مسلمان پر حق بنتا ہے کہ اپنے گھر والوں یعنی اپنے اہل و عیال اور اپنے غلام لونڈیوں کو اللہ کے مقرر کردہ فرائض اور اس کی منع کردہ چیزوں کی تعلیم دے۔‘‘
نبی مکرم ﷺ کا فرمان ہے:
((مُرُوا الصَّبِيَّ بِالصَّلَاةِ إِذَا بَلَغَ سَبْعَ سِنِينَ، وَإِذَا بَلَغَ عَشْرَ سِنِينَ فَاضْرِبُوهُ عَلَيْهَا))(۲۸)
’’بچہ جب سات سال کاہوجائے تو اسے نماز کاحکم دو ‘اور جب دس سال کاہوجائے (اور نماز نہ پڑھے )تو اس پر اسے مارو۔‘‘
یعنی نماز نہ پڑھنے پر سزادینےکی نوبت بھی آ جائے تو ایسا بھی کیا جا سکتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما تو یہاں تک فرمایا کرتے تھے:
’’يُعَلَّمُ الصَّبيُّ الصَّلَاةَ إِذَا عَرَفَ يَمِينَهُ مِنْ شِمَالِهِ"(۲۹)
’’بچہ اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ سے پہچان لے تو اسے نماز سکھائی جائے۔‘‘
اولاد کو صرف نماز کا حکم دینا ہی کافی نہیںہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انہیں نماز کی عملی تربیت بھی دینی چاہیے۔اسی طرح فرض نماز مسجد میں باجماعت پڑھنے کی تاکید کرنی چاہیے‘ جبکہ سنتیں اور نوافل کو گھر میں ادا کرنے کی ترغیب دینی چاہیے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((إِذَا قَضٰى أَحَدُكُمُ الصَّلَاةَ فِي مَسْجِدِهِ، فَلْيَجْعَلْ لِبَيْتِهِ نَصِيبًا مِنْ صَلَاتِهِ، فَإِنَّ اللّٰہَ جَاعِلٌ فِي بَيْتِهِ مِنْ صَلَاتِهِ خَيْرًا(((۳۰)
’’جب تم میںسےکوئی مسجد میںاپنی(فرض) نماز مکمل کر لے تو اپنے گھر کے لیے بھی نماز کا کچھ حصہ (سنن و نوافل)باقی چھوڑ دے ‘ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ گھر میں نماز پڑھنے کی وجہ سے اس میں خیر عطا کرے گا۔‘‘
سنتیں اور نوافل گھر میں ادا کرنے میں ایک بہت بڑی حکمت یہ بھی ہے کہ اس کی وجہ سے بچے نماز کی عملی تربیت حاصل کرتے ہیں‘کیونکہ یہ فطری بات ہے کہ بچے اپنے بڑوں کو جو کام کرتا دیکھتے ہیں وہی کام وہ بھی کرنے لگ جاتے ہیں۔
نمازایک ایسی عبادت ہے جو بہت ہی اہم ہے۔ اس کا اندازہ مندرجہ ذیل نکات سے لگا یا جاسکتا ہے:
(۱) کلمہ شہادت کے بعدنماز اسلام کا سب سے افضل رکن ہے‘جیسا کہ کئی ایک حدیثیں اس پر دلیل ہیں۔چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((بُنِيَ الإِسْلَامُ عَلٰى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ))(۳۱)
’’ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے: اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں‘نماز قائم کرنا‘زکاۃ دینا‘ حج کرنا‘ اور رمضان کے روزے رکھنا۔‘‘
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یمن کی طرف بھیجا تو ان سے فرمایا:
((إِنَّكَ تَقْدَمُ عَلٰى قَوْمٍ أَهْلِ كِتَابٍ‘ فَلْيَكُنْ أَوَّلَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ عِبَادَةُ اللّٰهِ، فَإِذَا عَرَفُوا اللّٰہَ، فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ اللّٰہَ قَدْ فَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي يَوْمِهِمْ وَلَيْلَتِهِمْ.....(( (۳۲)
’’تم ایک ایسی قوم کے پاس جا رہے ہو جو اہل کتاب ہیں‘ لہٰذا انہیں سب سے پہلے اللہ کی (خالص) عبادت کی دعوت دینا‘ جب وہ اللہ کو (صحیح معنوں میں) پہچان لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔‘‘
صرف یہی نہیں کہ نماز اسلام کے ارکانِ خمسہ میں سے ایک رکن ہے بلکہ یہ دین کا اہم ترین ستون بھی ہے (یعنی اس کے بغیر دین کی چھت یا عمارت قائم نہیں رہ سکتی)۔چنانچہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک طویل حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ((وَعَمُودُهُ الصَّلَاةُ))دین کا ستون نماز ہے۔(۳۳)
(۲) نماز کو عبادات میں سب سے اونچا مقام حاصل ہے۔نبی کریمﷺ کا فرمان ہے: ))وَاعْلَمُوا أَنَّ خَيْرَ أَعْمَالِكُمُ الصَّلَاةُ((’’ اور جان لوکہ تمہارا سب سے بہترین عمل نماز ہے۔‘‘(۳۴)
اسی بنا پر اسلام میں داخل ہونے کے بعد بندے پر سب سے پہلے یہی عبادت فرض ہوتی ہے۔ چنانچہ اسلام قبول کرنے والے کو سب سے پہلے نماز کی تعلیم دی جائے گی ‘جیسا کہ عہد ِنبویؐ میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا طریقہ تھا۔چنانچہ حضرت ابو مالک اشجعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والدؓ سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:
كَانَ الرَّجُلُ إِذَا أَسْلَمَ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّﷺ عَلَّمُوهُ الصَّلَاةَ (۳۵)
’’نبی ﷺ کےزمانےمیں جب کوئی مسلمان ہوتا تو صحابہ اسے نماز سکھایا کرتے تھے۔‘‘
(۳) نماز کی اس عظیم اہمیت کے پیش نظر قیامت کے دن عبادات میں سے سب سے پہلا سوال نماز ہی کے متعلق ہوگا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں: مَیں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
((إِنَّ أَوَّلَ مَا يُحَاسَبُ بِهِ العَبْدُ يَوْمَ القِيَامَةِ مِنْ عَمَلِهِ صَلَاتُهُ، فَإِنْ صَلُحَتْ فَقَدْ أَفْلَحَ وَأَنْجَحَ، وَإِنْ فَسَدَتْ فَقَدْ خَابَ وَخَسِرَ))(۳۶)
’’ بلا شبہ قیامت کے دن بندے کے اعمال میں سے سب سے پہلے نماز کا حساب لیا جائےگا۔اگر نماز درست ہوئی تو وہ فلاح پا جائے گا اور کامیاب ہوجائےگا‘اور اگر نماز درست نہ ہوئی تو وہ ناکام ہوگا اور خسارہ پائے گا۔‘‘
(۴) کامیابی کی سب سے پہلی سیڑھی نماز ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ(۱)الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلَاتِہِمْ خٰشِعُوْنَ(۲)}(المؤمنون)
’’یقیناً وہ مومن فلاح پا گئے‘ جو اپنی نمازوں میں خشوع وخضوع اختیار کرنے والے ہیں۔‘‘
ایک اور مقام پر فرمایاگیا:
{یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ارْکَعُوْا وَاسْجُدُوْا وَاعْبُدُوْا رَبَّکُمْ وَافْعَلُوا الْخَیْرَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ(۷۷)} (الحج)
’’اے ایمان والو!رکوع اور سجدہ کرو(یعنی نماز پڑھو)‘اپنے رب کی عبادت کرو اور خیر کے کام کرتے رہو تاکہ تم فلاح پا جاؤ۔‘‘
اسی لیے ہر اذان میں دو مرتبہ یہ جملہ دہرایا جاتا ہے:حَيَّ عَلَى الْفَلاحِکہ آؤ کامیابی کی طرف!وہ شخص مکمل طور پر ناکام ہے جو نماز کو ضائع کرنے والا ہے۔نماز کا چھوڑنا قیامت کے دن عذاب کا ایک بہت بڑا سبب ہے۔اسی لیے کافر جب جہنم میں جائیں گے اور ان سے پوچھا جائے گا:{مَا سَلَکَکُمْ فِیْ سَقَرَ(۴۲)}(المدثر)’’کس گناہ کی وجہ سے تمہیں جہنم میں ڈالا گیا؟‘‘ تو ان کا جواب ہوگا:{لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ(۴۳)}(المدثر)’’ہم نماز پڑھنے والوں میںسے نہیںتھے۔‘‘ یعنی دوسرے اسباب کےساتھ ان کےجہنم میںجانےکاایک سبب یہ بھی ہوگا کہ وہ بے نماز تھے۔
نماز کی اہمیت اور اس کی عظمت کی ایک بہت بڑی دلیل یہ بھی ہے کہ اسے چھوڑنے اور ضائع کرنے کو کفر سے تعبیر کیا گیا ہے۔حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:((الْعَهْدُ الَّذِي بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمُ الصَّلَاةُ، فَمَنْ تَرَكَهَا فَقَدْ كَفَرَ)) ’’ہمارے اور ان (کفارومشرکین) کےدرمیان عہد نماز ہے‘پس جس نے نماز چھوڑدی بلاشبہ اس نےکفرکیا۔‘‘(۳۷)
(۵) نماز صرف اس امت کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ تمام انبیاءؑاور ان کے سچے پیروکارنماز پڑھتے اور لوگوں کو نماز کی دعوت دیتے رہے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام علیہم السلام کی ایک جماعت کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا:
{وَجَعَلْنٰہُمْ اَئِمَّۃً یَّہْدُوْنَ بِاَمْرِنَا وَاَوْحَیْنَآ اِلَیْہِمْ فِعْلَ الْخَیْرٰتِ وَاِقَامَ الصَّلٰوۃِ وَاِیْتَآئَ الزَّکٰوۃِج وَکَانُوْا لَنَا عٰبِدِیْنَ(۷۳)} (الانبیاء)
’’اور ہم نے انہیں پیشوا بنا دیا کہ ہمارے حکم سے لوگوں کی رہبری کریں اور ہم نے ان کی طرف نیک کاموں کے کرنے‘نمازوںکوقائم کرنے اور زکاۃدینےکی وحی کی‘اوروہ سب کے سب ہمارےعبادت گزاربندےتھے۔‘‘
گزشتہ تمام اُمتوں کوبھی نماز قائم کرنے کا حکم دیا گیا تھا:
{وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوا اللہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ ۵ حُنَفَآئَ وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوا الزَّکٰوۃَ وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ(۵)}(البینۃ)
’’ اور انہیں صرف یہی حکم دیاگیاتھاکہ اللہ کی عبادت کریں ‘اسی کے لیے دین کو خالص کرکے‘یکسوہوکر‘اوروہ نماز قائم کریں اور زکاۃدیں‘اوریہی نہایت درست دین ہے۔‘‘
کوئی بھی نبی ایسا نہیںگزراجس کی شریعت میں نماز نہ ہو اور کوئی بھی امت ایسی نہیںگزری جس نے نماز نہ پڑھی ہو۔
نماز صرف پڑھناکافی نہیںہےبلکہ ضروری ہےکہ نماز قائم کی جائے‘ جیساکہ حضرت لقمان نےاپنےبیٹےکوفرمایا:
{یٰبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ } (لقمٰن:۱۷)’’ پیارے بیٹے! نماز قائم کرو ۔‘‘
حواشی
(۲۶) تفسير ابن كثير، تحقیق سلامة۸ / ۱۶۷
(۲۷)سنن أبي داود:۴۹۴‘ سنن الترمذی:۴۰۷‘ مسند احمد ۳/ ۲۰۱ بروایت برۃ بن معبد
(۲۸) مصنف ابن أبي شيبة۱/ ۳۰۵ ح:۳۴۸۵
(۲۹) صحيح مسلم:۷۷۸
(۳۰) صحيح البخاري :۸‘ صحیح مسلم:۱۶
(۳۱) صحيح البخاري: ۱۴۵۸ واخرجہ مسلم‘ ص۱۹
(۳۲) مسند احمد ۳۶ / ۳۴۴ مسند کے محققین نے شواہد کی بنا پر اس حدیث کو صحیح قرار دیا۔
(۳۳) مسند أحمد ۳۷ / ۶۰‘ سنن ابن ماجه:۲۷۷ بروایت ثوبان رضی اللہ عنہ۔ مسند احمد کے محققین اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا
(۳۴) المعجم الكبير للطبراني۸ / ۳۱۷ ح:۸۱۸۶
(۳۵) مسند احمد ۲۷/ ۱۶‘ سنن الترمذی: ۴۱۳ ا لفاظ سنن ترمذی کے ہیں۔
(۳۶) مسند أحمد:۳۸ / ۲۰‘ سنن ابن ماجہ: ۱۰۷۹‘ سنن الترمذی:۲۶۲۱
(۳۷) صحيح البخاري: ۲۴۹۳‘سنن الترمذی:۲۱۷۳‘ مسند احمد ۳۰ / ۳۲۹
tanzeemdigitallibrary.com © 2024