(فکر و نظر) رزق میں کمی بیشی کی حکمتیں - راحیل گوہر

8 /

رزق میں کمی بیشی کی حکمتیںراحیل گوہر صدیقی
معاون مسئول‘ شعبۂ تصنیف و تالیف‘ قرآن اکیڈمی‘ یٰسین آباد ‘ کراچی

یہ انسان کے اپنے ذہن کی اختراع ہے کہ رزق میں کمی بیشی اُس کے لیے عزت یا ذلت کا باعث بنتی ہے۔درحقیقت ایسا ہرگز نہیں ہے۔ انسان کے رزق میں کمی بیشی میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی کئی مصلحتیں اور حکمتیں کارفرما ہوتی ہیں۔رزق کی تقسیم کے ذریعے انسان کی آزمائش اور اس کی بندگی کا امتحان لینا مقصود ہوتا ہے۔فرمانِ الٰہی ہے:
{وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ۭ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ (۱۵۵)} (البقرۃ)
’’ اور ہم کسی قدر خوف اور بھوک اور مال اور جانوں اور ثمرات کے نقصانات سے تمہاری آزما ئش کریں گے۔تو صبر کرنےوالوں کو (اللہ کی خوشنودی کی) بشارت سنادو!‘‘
اس آیتِ مبارکہ میں جن چیزوں کے نام لیےگئے ہیں وہ سب انسان کی آزمائش اور امتحان کی مختلف صورتیں ہیں۔چنانچہ جو شخص بھی ان آزمائشی مراحل سے صبر و تحمل کے ساتھ گزر گیا‘ وہی اللہ کی نظر میں کام یاب اور فلاح پانے والا ہے۔دراصل ہماری یہ زندگی تو ہے ہی مسلسل امتحان‘ اور یہ دنیا ایک امتحان گا ہ ہے۔اس حقیقت کو جو بھی جان گیا اس کے لیے نہ کوئی غم ہوتا ہے اور نہ خوف!دنیا ایک آزمائش گاہ ہے اور انسان اللہ کا بندہ‘ جسے اپنی بندگی کا ثبوت اسی دنیا میں رہتے ہوئے پیش کرنا ہے۔دنیا اور انسان کا یہ تعلق اس کی موت ہی پر ختم ہوتا ہے اور اُس وقت تک وہ آزمائشوں کے دائرے میں سفر کرتا رہتا ہے۔
رزق کی ترسیل کا معاملہ سراسر اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ اور اس کی مصلحت پر منحصر ہے ۔وہ کس کے رزق میں فراوانی کرتا ہے اور کس کے رزق میں تنگی ‘ اس کا فیصلہ اسی کے قبضہ قدرت میں ہے۔
مشاہدے میں آتا ہے کہ بظاہر ایک بدکار‘ گمراہ ‘ بے راہ روی میں مبتلا اور خدا نا شنا س شخص جو اللہ ربّ العزت کو اپنا حاجت روا اور مشکل کشا مانتا ہی نہیں ‘ عیش و عشرت کی زندگی گزار رہا ہے‘ تمام آسائشیں اسے حاصل ہیں۔ رزق اتنا مل رہا ہے کہ اس کی ناقدری کی جارہی ہے ۔ اُس کے پالتوکتوں کو وہ کچھ مل رہا ہے جو ایک ضرورت مند انسان کو بھی میسر نہیں ہوتا۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس کے رزق میں روز بروز اضافہ بھی ہورہا ہے۔اس کا معاملہ ’’مٹی پکڑے‘ سونا ہوتا ہے‘‘ کا مصداق ہوتا ہے۔
تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ایک ایسا شخص جو نیکو کار اور صالح ہے ‘ حقوق اللہ اور حقوق العباد کا خیال رکھتا ہے‘ حتی الامکان اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں سے دامن بچاتا ہے مگر وہ زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے بھی پوری طرح فیض یاب نہیں ہوتا۔ صبح سے شام تک جاں گزامحنت کرتا ہے مگر اس کی جائز ضرورتیں بھی پوری نہیں ہوتیں۔ایسے میں بسا اوقات وہ زندگی سے مایوس بھی ہو جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ کی ذات سے اسے بد گمانیاں پیدا ہونے لگتی ہیں ۔ اکثر سننے میں آتا ہے کہ فلاں شخص نے غریبی ‘ مفلسی اور فاقہ کشی سے تنگ آکر اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو جان سے مار کر خود کو بھی ہلا ک کر لیا۔ یہ سب اسی مایوسی ‘کس مپرسی اور احساسِ محرومی کا نتیجہ ہے۔
دراصل اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی جو مصلحتیں اور حکمتیں کام کر رہی ہیں‘ ان کو انسان سمجھ نہیں پاتا ۔مسائل‘ پریشانیاں اور بنیادی ضرورتوں سے محرومی اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو مفلوج کر دیتی ہیں۔قرآن و حدیث کی تعلیمات سے لاعلمی بھی انسان کی عقل و فہم کو نا کارہ کردینے کا ایک بڑا سبب ہے۔ارشادِ ربانی ہے:
{وَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ ۚ وَعَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَّھُوَ شَرٌّ لَّکُمْ ۭ وَاللہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۲۱۶)} (البقرۃ)
’’ممکن ہے تم کسی چیز کو برا جانو اور دراصل وہی تمہارے لیے بھلی ہو‘ اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم کسی چیز کواچھا سمجھو‘حالاں کہ وہ تمہارے لیے بری ہو ۔ اس کا حقیقی علم اللہ ہی کو ہے اور تم محض بے خبر ہو۔‘‘
دین ہمیں بتاتا ہے کہ جو انسان اس دنیا میں اپنی جائز خواہشات کی تکمیل سے محروم رہتا ہے اس کے نعم البدل کے طور پر اُسے آخرت میں ایسے بیش بہا انعامات ملنے والے ہیں جن کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اگر کسی کو اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتیں میسر آبھی گئی ہیں تو وہ اُ ن سے کتنے دن فائدہ اٹھا سکتا ہے؟موت کا تو کسی کو علم نہیں کہ نہ جانے کب سامنے آکھڑی ہو! بقولِ نکہت افتخار؎
جانے کس وقت کوچ کرنا ہو
اپنا سامان مختصر رکھیے!
حضرت عمر بن عبد العزیز ؒ جنہیں اسلامی تاریخ میں پانچواں خلیفہ راشد کہا گیا ہے‘ ایک صاحبِ ثروت انسان تھے۔ جب خلافت کی ذمہ داریاں سنبھالیں تو اپنا سب کچھ بیت المال میں جمع کروادیا ۔دورانِ خلافت عید کا تہوار آگیا۔ بیت المال سے جو مشاہرہ ملتا تھا‘ اس سے گزر اوقات مشکل سے ہوتی تھی۔ چنانچہ زوجہ محترمہ کے مشورہ پر ناظم بیت المال سے کہا کہ مجھے ایک ماہ کی تنخواہ پیشگی دے دیں‘ بچوں کے کپڑے بنوانے ہیں‘ مَیں ایک ماہ بعد تھوڑی تھوڑی کر کے یہ رقم واپس کر دوں گا۔ناظم بیت المال نے عرض کیا: ’’امیر المومنین! کیا آپ کو یہ یقین کامل حاصل ہے کہ آپ اگلے مہینے تک زندہ رہ سکیں گے؟ اگر نہیں تو کیوں اپنے کاندھوں پر اُمّت کا بوجھ لے کر دنیا سے جانا چاہتے ہیں‘‘۔اس جوا ب سے خلیفہ محترم کی آنکھیں کھل گئیں اور پھر پورے شہر نے دیکھا کہ عید کے دن ہر بچہ نئے کپڑے زیب تن کیے ہوئے ہے جبکہ خلیفہ کے بچے دھلے ہوئے کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔یہ دراصل اس سوچ کا نتیجہ تھا کہ اس دنیا کی آسائشیں عارضی اور یہاں کی محرومیاں چند روزہ ہیں۔ نہ تویہاں کاعیش و آرام ہمیشہ رہے گا اور نہ دکھ‘ تکلیف‘ مصائب و آلام !جب انسان ہی فانی ہے تو پھر اُس کی آسائشیں اور کلفتیں کیا معنی رکھتی ہیں!
انسان کا معاملہ یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے جو نعمتیں اسے میسر آتی ہیں اُ س کی نظر میں ان کی کوئی وقعت نہیں ہوتی مگر جن نعمتوں سے وہ محروم رہتا ہے اس کا رونا روتا رہتا ہے۔اصل میں وہ اس حقیقت سے نا واقف ہے کہ اللہ نے جن بندو ں کو اپنی نعمتوں سے نوازا ہے اُن کو بھی کئی دوسری نعمتوں سے محروم رکھا ہے۔کوئی شخص بھی دنیا کے ہر انسان کے حالات سےواقف نہیں ہوتا ‘چنانچہ انسان کی عافیت راضی برضا رہنے میں ہی ہے۔بقول اکبر الہ آبادی؎
رضائے حق پہ راضی رہ یہ حرفِ آرزو کیسا
خدا خالق‘ خدا مالک‘ خدا کا حکم‘ تو کیسا؟
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے کلام کی صورت میں ہدایتِ کاملہ سے سر فراز کیا ہے۔ اپنے رسول ﷺ کو اس ہدایت کاملہ کی عملی تصویر بنا کر مبعوث فرمایا تاکہ انسان اپنے مقصد حیات کو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق پورا کر سکے ۔ ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت و مصلحت کے تحت ہر انسان کو اپنی مرضی سے زندگی بسر کرنے کی آزادی بھی دے دی۔آزمائش تبھی ہو سکتی ہے کہ ایک ہاتھ بندھا ہو تو دوسرا ہاتھ کھلا بھی رہنا چا ہیے۔ بقولِ داغ دہلوی؎
رُخِ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں
اُدھر جاتا ہے دیکھیں یا اِدھر پروانہ آتاہے!
انسان اس دنیا میں کئی عوامل کے تحت زندگی بسر کرتا ہے۔ اس کے گھر کا ماحول سب سے پہلے اس کی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے ‘ جیسا کے حدیث مبارکہ میں ارشاد ہے ۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
((مَامِنْ مَوْلُوْدٍ اِلَّا یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ، فَاَبَوَاہُ یُھَوِّدَانِہٖ اَوْ یُنَصِّرَانِہٖ اویُمَجِّسَانِہٖ)) (متفق علیہ)
’’ہر بچہ فطرت(اسلام) پر پیدا ہوتا ہے‘پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی ‘ نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں ۔‘‘
گویا عقا ئد ونظر یا ت کا بیج انسان کے اس ماحول میں ہی پڑ جاتا ہے جس میں وہ آنکھ کھولتا ہے۔پھر انہی نظریا ت کے تحت وہ اپنی زندگی بسر کرتا ہے۔اگر اس کی فطرت سلیمہ نے اس کی راہ نمائی کر دی اور وہ قرآن و سنت کی تعلیمات سے بہرہ مند ہوگیا تو اس کی زندگی کا رخ تبدیل ہوجاتا ہے۔البتہ اس کے لیے مضبوط قوتِ ارادی درکار ہوتی ہے‘ ورنہ معاشرے میں قدم قدم پر کھڑے فسق و فجور کے درخت اور ان کی شاخیں انسان کو ہر طرف سے لپیٹنے کے لیے ہمہ وقت موجود رہتی ہیں۔لالچ‘ خو د غرضی‘ مفاد پرستی‘ بغض و عداوت کے ماحول میں انسان اپنی دنیا خوب سے خوب تر بنانے کا آرزو مند رہتا ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ قنا عت‘ صبر و تحمل‘ راضی برضا رہنے جیسی اقدار سے دور ہوتا جا تا ہے۔ دوسروں کی پُر آسائش زندگی اس کی آنکھوں میں کھٹکتی رہتی ہے۔ان غیر فطری رویوںکا ایک سبب وہ تعلیم بھی ہے جس میں صرف اس فانی دنیا ہی کی لذتیں حاصل کرنے کاسبق پڑھا یا جاتا ہے۔دنیاوی تعلیم مغرب کےلادینی افکار و نظریات پر مبنی ہے‘جو انسانی ذہن کو اس طرح مرعوب و مسحور کر دیتی ہے کہ اسے حصولِ دنیا کے سوا اور کچھ اچھا نہیں لگتا ۔ مغربی تعلیم میں آخرت کا کوئی مبہم سا تصوّر بھی نہیں پایا جاتا۔
انسانی زندگی میں ایک اہم مسئلہ دکھاوے کی زندگی کو اہمیت دینا بھی ہے۔اس نے ہماری معاشرتی اور سماجی زندگی کو اتنا متاثر کیا ہے کہ جھوٹی انا کی خاطر ہم سب کچھ کر گزرتے ہیں۔ہم اپنی ناک اونچی رکھنے کے لیے مسلسل جھوٹ پہ جھوٹ بولے جاتے ہیں۔ بعض اوقات تواپنے اَن پڑھ ماں باپ کا تعارف بھی کروانا پسند نہیں کرتے کہ اس سے ہماری بے عزتی ہوتی ہے۔ اس نام نہاد ترقی یافتہ دور نے ہمیں ایک مصنوعی زندگی میں دھکیل دیا ہے ۔ہم اپنے ٹھاٹ باٹ کو قائم رکھنے کے لیے ہر جائز اور ناجائز کام کرنے کو تیار رہتے ہیں۔اسی دہرےمعیار نے معاشرے میں احساسِ محرومی کو جنم دیا ہے۔ایک طرف عیش و تنعم کی بہاریں ہیں تو دوسری جانب قوتِ لایموت بھی میسر نہیں۔یہ سب کچھ دینی تعلیم سے دُوری اور مغربی تعلیم سے مرعوبیت کا شاخسانہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جب تک مادہ پرستانہ تصور زندگی پر مذہبی اور آفاقی تصورِ زندگی کو فوقیت نہیں دی جائے گی‘ معاشرہ اسی طرح انتشار و افتراق کا شکار رہے گا۔ انسان کی حقیقت اس کا مادی جسم نہیں بلکہ اس کی روح کی ہے جو اسے اُخروی حیات کے لیے تیار کرتی ہے جبکہ اس دنیا کی زندگی کو عارضی ‘ فانی اور حقیر بنا کر پیش کرتی ہے۔معاشرے میں نقطہٴنظر کی اس تبدیلی کے بغیر انسانیت کی فلاح اور سکون و راحت ممکن ہی نہیں۔
موجودہ صدی کو مغربی فلسفیانہ فکر اور علمیت کے غلبے کا دور کہا جاسکتا ہے۔یہ مادہ پرستانہ نقطہ نظر اب عالمگیر بن چکا ہے۔نظامِ تعلیم اور ابلاغِ عامہ کے ذریعے مشرق ومغرب کے تقریباً ہر ملک میں اس کی حمایت اور اشاعت کی گئی ہے ۔سیاسی ‘معاشی‘ سماجی ‘تعلیمی اور ثقافتی حلقوں کے تمام بالا تر اور مقتدر لوگ اس نقطہ نظر کی حمایت میں کمر بستہ ہیں ۔ بہت سارے مخلص مسلمان جو احیائے دین کی معاصر تحریکوں کے ساتھ مل کر اس فکر کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں ‘ ان کا اگر قریب سے معائنہ کیا جائے تو انکشا ف ہوتا ہے کہ وہ بھی اپنے نقطہ نظر (approach)‘ منہاج (method) اور تعبیرات (interpretations) میں مغربی افکار سے اس بری طرح متاثر ہیں کہ اپنی بیشتر تاثیر (effectiveness)کو گنوا بیٹھتے ہیں۔
اسلامی طرزِ فکر اور زہد و ورع کی زندگی اس سے قطعی مختلف ہے‘ اور اسی میں عافیت اور فوزو فلاح ہے۔اس کے لیے انسان کو جو مشرف بہ اسلام بھی ہو‘اس دنیا کی چمک دمک کو نظر انداز کر نا ہوگا۔ سیرت النبیﷺ کے مطابق اپنی زندگی کو استوار کرنا لازمی ہو گا‘ کیونکہ یہی راستہ اللہ کی خوشنودی اور اس کی رضا مندی تک لے جاتا ہے۔حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ آنحضرت ﷺ فرش پر کھجور کے درخت کے پتوں کی بنی چٹائی پر استراحت فرمارہے ہیں ۔اس پر کوئی بستر نہیں بچھا ہوا تھا‘ چٹائی کے نشان جسم اطہر پر منقش تھے۔ آپ کا تکیہ چمڑے کا ایک تھیلا تھا جس میں کھجور کے درخت کی کھال بھری ہوئی تھی۔میں نے غور سے دیکھا تو کمرے کی اشیاءکھال کے تین ٹکڑوں اور مٹھی بھر جَوپر مشتمل تھیں۔میں نے اِدھر اُدھر دیکھا تو کمرے میں کسی اور چیز کو ڈھونڈنے میں ناکام رہا۔میں رو پڑااور کہا:’’ یا نبی ﷺ! آپ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی زندگی کی مناسب ضروریات عطا کردے۔ایرانی اور ر ومی جو اللہ تعالیٰ پر ایمان بھی نہیں رکھتے ‘ وہ وافر مال اور خوش حالی سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ پھر اللہ کے بر گزیدہ نبی ﷺ ایسی غربت کی حالت میں زندگی کیوں گزاریں؟‘‘ آپ ﷺ اپنے سخت تکیہ پر استراحت فرمارہے تھے ‘ لیکن جب مجھے اس طرح سے گفتگو کرتے سنا تو جلدی سے اُٹھ بیٹھے اور مجھے سر زنش کرتے ہوئے فرمایا:’’اے عمر! تم اُن کی آسائش و آرام کے بارے میں حسد کیوں کرتے ہو؟ کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ اُن کے لیے تو دنیا کی زندگی ہے اور ہمارے لیےآخرت کی زندگی ہے؟ ‘‘میں نے عاجزی سے کہا : ’’اے اللہ کے رسول ﷺ! مجھے معاف فرمادیں‘ مَیں غلطی پر تھا۔‘‘
جدید عقلی اور نقلی سائنسی تعبیرات اسلام سے سراسر اجنبی ہیں۔نبوی مشن کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ اُس روحانی پیغام سے بالکل تہی دامن ہیں جو قرآنی وحی کا جوہر ہے۔مادہ پرستانہ تصوّرِ زندگی سے مذہبی طرزِ فکر کی طرف تبدیلی کا پہلا قدم غیبی (unseen)‘ ناقابلِ محسوس (intangible)‘ مطلق (absolute)‘ماورائی حقیقت (transcendental Truth) کو مادی اشیا پر فوقیت دینا ہے ۔
آج اخلاقی زوال ‘ بے راہ روی‘ گمراہی‘ جنسی جرائم‘ قتل و غارت‘ چوری ‘ذخیرہ اندوزی اور سیاسی حقوق کی پامالی کی شکل میں ہمیں جو کچھ نظر آرہا ہے اور معاشرے میں احساسِ محرومی کی جو فضا پروان چڑھ رہی ہے ‘ اسے دور کرنے کےلیے وہی حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی جوہادیٔ اعظم اور محسنِ انسانیت ﷺ نے اُس دورِ جاہلیت میں استعمال کی تھی جو موجودہ دورِجاہلیت سے کچھ زیادہ مختلف نہ تھا۔اُس بگڑے ہوئے معاشرے کی فکری تطہیر اور عمل کے تزکیے کے لیے توحید کا صحیح تصور لازم کیا گیا تھا۔بالکل اسی طرح آج الکتاب سے وابستگی اور اس کی ہدایت ِ تامہ کوبراہِ راست سمجھ کر زندگی کے تمام شعبوں میں نفوذکا چیلنج درپیش ہے۔
اس دنیا کی زندگی ناپائدار (transitory) ‘مختصر ‘ غیر حقیقی اور حقیر ہے‘ جب کہ آخرت کی زندگی دائمی (everlasting) اور اعلیٰ ترین اہمیت کی حامل ہے۔خوشنودیٔ ربّ کو دنیاوی دولت ‘ شہرت‘ عزت اور حرمت پر فوقیت دینی چاہیے‘ کیوں کہ یہ دنیا حقیقت میں ایک مچھر کے پَر کے برابر بھی نہیں!چناں چہ جب تک امت یا مسلم سماج کا ایک بڑا حصہ نقطہ نظر کی اس بنیادی تبدیلی سے نہیں گزرتا اُس وقت تک انسانی معاشرے سے انتشار ‘ مایوسی‘ کرب و بے چینی اور محرومی کا احساس ختم نہیں ہوسکتا۔
اسلام صرف عقائد و عبادات ہی کا داعی نہیں بلکہ وہ پوری انسانی زندگی کی تنظیم خدا پرستی اور روحانیت و مادیت کے صحیح توازن کی بنیاد پر کرنے کا علم بردار ہے۔ آج اسی چیز کی کمی ہے جس نے ساری انسانیت کو تہس نہس کیا ہوا ہے۔ان ناگفتہ بہ حالات میں علماء و مشائخ اور اولو الامر کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہے۔وہ صرف اپنے اعمال کے لیے جواب دہ نہیں بلکہ پوری قوم کے اعمال کی جواب دہی بھی ایک حدتک ان پر عائد ہوتی ہے۔ جو اُمراء اور علما و مشائخ اپنے محلوں‘ گھروں اور خانقا ہوں میں بیٹھے زہد و تقویٰ اور عبادت و ریاضت کی داد دے رہے ہیں وہ بھی خدا کے ہاں جواب دہی سے بچ نہیں سکتے کیونکہ جب ان کی قوم پر گمراہی اور بد اخلاقی کے طوفان اُمڈے چلے آرہے ہوں تو اُن کا کام یہ ہے کہ مَردِ میدان بن کر نکلیں ۔جو کچھ زور اور اثر اللہ نے اُن کو عطا کیا ہے‘ اس کو کام میں لا کر اس طوفان کا مقابلہ کریں۔ طوفان کو دور کرنے کی ذمہ داری بلا شبہ اُن پر نہیں ‘مگر اس کے مقابلے میں اپنی پوری امکانی قوت صرف کر دینا یقیناً اُن پرفرض ہے۔
قرآن حکیم محض دینی اور شرعی اعتبار سے ہی ہمارے لیے ہدایت نامہ نہیں ہے بلکہ وہ تمدنی حوالے سے بھی ہمارے لیے ایک بہترین رہبر ہے۔اسباب و علل بھی خد اکے بنائے ہوئے ہیں ‘ جو اس کی قانونِ ربوبیت ہی کے ما تحت ہیں۔ نظام ربوبیت میں الگ سے ان کا کوئی وجود نہیں۔ضرورت صرف شعور و ادراک اجا گر کرکے زندگی کی را ہوں کو استوار کرنے کی ہے۔ یہ انفرادی طور پر بھی ہوسکتاہے اور اجتماعی طور پر بھی! یہ بھی ذہن میں مستحضر رہے کہ خوفِ خدا اور جواب دہی کا احساس ہی جڑ اور بنیاد ہے تمام اخلاقِ حسنہ اور اعمالِ صادقہ کی‘ ورنہ زندگی تو حیوانات بھی گزار لیتے ہیں۔
حالات میں کو ئی بڑی تبدیلی اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک دنیا کی قیادت مادہ پرست انسانوں کے ہاتھ سے نکل کر ان خدا شناس اور خدا ترس انسانوں کے ہاتھ میں نہ پہنچ جائے جو پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں اور ان ہی کی تعلیمات کی روشنی میں رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ ان کے پاس آخری پیغمبرﷺ کی شریعت اور دین و دنیا کی رہنمائی کا مکمل دستور موجود ہے۔ جب تک یہ صورتِ حال پیدا نہ ہوجائے ‘انسانی معاشرہ اسی طر ح دگر گوں اور ظلم و استحصال کا شکار رہے گا۔نہ غربت ختم ہوگی‘ نہ عدل و انصاف کی فضا قائم ہوگی اور نہ انسانوں کی زندگی میں سکون و راحت میسر آسکے گا۔ اس کے لیے کوشش انسانوں ہی نے کر نی ہے کیونکہ دنیا میں بگاڑ اور فساد فی الارض بھی انہی کی حماقتوں‘ لا لچ ‘ خود غرضی اور اپنی خواہشات کی تکمیل کے جنون کا منطقی نتیجہ ہے۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ تو اپنے بندوں کے لیے آسانیاں چاہتا ہے لیکن بندہ خود اپنے لیے زندگی کو مشکل بنا لیتا ہے۔ربّ تو ہمیشہ مائل بہ کرم ہی رہتا ہے‘بندوں ہی میں سائل بننے کی صلاحیت نہیں رہی۔

کتابیات
(۱) انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر:مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ
(۲) تنقیحات:مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ
(۳) عالم ِاسلام میں مغربیت کا نفوذ:مریم جمیلہ
(۴) معاشرتی و اخلاقی زوال اور نجات کی راہ:ڈاکٹر انیس احمد