(ارضِ مُقدّس) مسجد ِاقصیٰ کی تاریخی اہمیت - انجینئر نوید احمدؒ

8 /

مسجد اقصیٰ کی تاریخی اہمیتانجینئر نوید احمدؒ

مسجد اقصیٰ کے حوالے سے ایک غلط فہمی جو اکثر و بیشتر تحریر و تقریر میں نظر آتی ہے‘ یہ ہے کہ اِسے ’’قبلہ اوّل‘‘ کہہ دیا جاتاہے۔ یہ بات درست نہیں۔قبلہ اوّل مسجد ِحرام ہی تھی اور قیامت تک اب یہی قبلہ رہے گی۔درمیان میں کچھ عرصہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی آزمائش کے لیے مسجد اقصیٰ کو قبلہ کی حیثیت دی تھی۔ پھر تحویل قبلہ کے حکم کے ذریعے دوبارہ مسجد ِحرام کو قبلہ بنا دیاگیا۔ مسجد حرام کے قبلہ اوّل ہونے کا ذکر قرآنِ حکیم اور حدیث نبوی ؐ دونوں میں ہے۔ سورۂ آل عمران میں ارشادِ ِباری تعالیٰ ہے :
{اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّـۃَ.... }(آیت۹۶)
’’بے شک پہلا گھر جو مقرر کیا گیا لو گو ں (کی عبادت) کے لیے یقیناً وہ مکہ میںہے‘‘
حضرت ابو ذرغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے :
قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ! اَیُّ مَسْجِدٍ وُضِعَ اَوَّلًا؟ قَالَ:((الْمَسْجِدُ الْحَرَامُ)) قُلْتُ ثُمّ اَیٌّ؟ قَالَ: ((ثُمَّ الْمَسْجِدُ الأَقْصٰی)) قُلْتُ: کَمْ کَان بَـیْنَہُمَا؟ قَالَ: ((اَرْبَعُوْنَ)) ثُمَّ قَالَ: ((حَیْثُمَا اَدْرَکَتْکَ الصَّلَاۃُ فَصَلِّ، وَالْاَرْضُ لَکَ مَسْجِدٌ)) (صحیح البخاری)
میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول ﷺ! اِس روئے زمین پر سب سے پہلے کون سی مسجد تعمیر ہوئی ؟ آپ ﷺ نے جواب دیا:’’ مسجد ِحرام۔‘‘ میں نے پوچھا: اِس کے بعد؟ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ مسجداقصیٰ۔‘‘ میں نے کہا :اِن دونوں کی تعمیر کے دوران کل کتنا وقفہ ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا:’’چالیس سال۔‘‘پھر آپ ﷺ نے فرمایا:’’تمہیں جہاں نماز پڑھنا نصیب ہو‘ پڑھ لو۔تمہارے لیے ساری زمین مسجدہے۔‘‘
سنن النسائی کی شرح میں امام السندی نے اِس حدیث کی وضاحت میں تحریر کیا ہے کہ:
لیس المراد بناء ابراھیم للمسجد الحرام وبناء سلیمان للمسجد الأقصٰی فان بـینہما مدۃ طویلۃ بلا ریب بل المراد بناؤھما قبل ھٰذین البنائین
’’اس سے مراد مسجد ِحرام کی وہ تعمیر نہیں ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی اورنہ مسجد ِاقصیٰ کی وہ تعمیر جو حضرت سلیمان علیہ السلام نے کی۔اِن تعمیرات کے درمیان تو بڑی طویل مدت ہے‘ بلکہ یہاں اِن تعمیرات سے قبل کی تعمیرات کا ذکر ہے۔‘‘
گویا انسانی تاریخ کے ابتدائی دور میں ہی دونوں مساجد تعمیر کی گئیں اور اکثر اہلِ علم کی رائے ہے کہ یہ دونوں مساجد حضرت آدم علیہ السلام نے تعمیر فرمائیں۔ارشادِ نبویﷺ ہے:
بَعَثَ اللّٰہُ جِبْرِیْلَ اِلٰی آدَمَ وَحَوَّاءَ فَاَمَرَھُمَا بِبِنَاءِ الْکَعْبَۃِ، فَبَنَاہُ آدَمُ، ثُمَّ اَمَرَ بِالطَّوَافِ بِہٖ وَقِیْلَ لَہٗ: اَنْتَ اَوَّلُ النَّاسِ وَھٰذَا اَوَّلُ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ(رواہ البیہقی)
’’اللہ تعالیٰ نے حضرت جبریل علیہ السلام کو حضرت آدم علیہ السلام وبی بی حوا سلامٌ علیہاکی طرف بھیجا اور اُن کوبیت اللہ کی تعمیر کا حکم دیا۔پس حضرت آدمؑ نے اُسے تعمیر کیا۔پھر اللہ نے اُنہیں طواف کرنے حکم دیا اور اُن سے کہا گیا کہ آپ پہلے انسان ہیں اور یہ پہلا گھر ہے جو کہ لوگوں کی عبادت کے لیے بنایا گیا ہے۔‘‘
ابن ہشام نے اپنی کتاب ’’التیجان‘‘ میں نقل کیا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے جب بیت اللہ کو تعمیر کیا تو اللہ تعالیٰ نے اُن کو حکم دیا کہ بیت المقدس کی طرف جائیں اور اُس کی بنیاد رکھیں‘ تو اُنہوں نے جا کر اُس کو تعمیر کیا۔ قرآنِ حکیم کی کئی آیات میں اِن دونوں مقامات اور اِن سے ملحق سرزمین کے تقدس کا ذکر کیا گیا۔ مسجد ِحرام یا بیت اللہ کی حرمت یوں بیان کی گئی :
{جَعَلَ اللہُ الْـکَعْبَۃَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیٰمًا لِّلنَّاسِ} (المائدۃ: ۹۷)
’’اللہ نے بنا دیا ہے اِس کعبہ کو حرمت والا گھراور لوگوںکی بقا کا ذریعہ ۔‘‘
دنیا کے بت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا
ہم اُس کے پاسباں ہیں ‘ وہ ہے پاسباں ہمارا !
{اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّـۃَ مُبٰرَکًا وَّہُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ(۹۶) فِیْہِ اٰیٰتٌ بَـیِّنٰتٌ مَّـقَامُ اِبْرٰہِیْمَ ج وَمَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًاط وَلِلہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْـبَـیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَـیْہِ سَبِیْلًاط وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ(۹۷)} (آل عمران)
’’بے شک پہلا گھر جو کہ مقرر کیا گیا لو گو ں (کی عبادت) کے لیے یقیناً وہ ہے جو مکہ میںہے‘ برکت والا اور (وہ ذریعہ) ہدایت ہے تما م جہا ن وا لو ں کے لیے ۔اِس میں بڑی واضح نشا نیا ں ہیں اورمقا مِ ابرا ہیم (ابراہیم ؑ کے کھڑے ہونے کی جگہ) ہے‘ اور جو کو ئی بھی اِس(گھر) میں دا خل ہوگیاوہ ہو گیا امن میں۔اوراﷲ کے لیے لو گو ں پر (فرض) ہے اِس گھر کا حج کرنا جوکو ئی بھی استطا عت رکھتا ہو اِس کی طرف راستہ (اختیار کر نے) کی۔ اور جس کسی نے کفر(استطاعت کے باوجود حج نہیں) کیا تو بے شک اﷲ تعالیٰ تمام جہا ن وا لوں سے غنی ہے۔‘‘
{وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًاط وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰہٖمَ مُصَلًّی ط وَعَہِدْنَــآ اِلٰٓی اِبْرٰہٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَہِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّـآئِفِیْنَ وَالْعٰکِفِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ(۱۲۵)} (البقرۃ)
’’اور جب ہم نے خانہ کعبہ کو لوگوں کے جمع ہونے اور امن پانے کی جگہ بنایا۔ اور (حکم دیا کہ) جس مقام پر ابراہیم ؑ کھڑے ہوئے تھے اُس کو نماز کی جگہ بنا لو۔ اور ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ کو کہا کہ طواف کرنے والوں ‘ اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے میرے گھر کو پاک صاف رکھا کرو۔‘‘
{وَاِذْ بَوَّاْنَا لِاِبْرٰہِیْمَ مَکَانَ الْبَیْتِ اَنْ لَّا تُشْرِکْ بِیْ شَیْئًا وَّطَہِّرْ بَیْتِیَ لِلطَّآئِفِیْنَ وَالْقَآئِمِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ(۲۶)} (الحج)
’’اور جب ہم نے ابراہیم ؑ کوآباد کیا خانہ کعبہ کے پاس (اوراُنہیں حکم دیا) کہ میرے ساتھ کسی کوشریک نہ کرنا اور طواف کرنے والوں‘ قیام کرنے والوں اور رکوع (اور) سجدہ کرنے والوں کے لیے میرے گھر کو صاف رکھنا۔‘‘
مسجد ِاقصیٰ سے ملحق سرزمین کی برکتوں کا ذکر اِس طرح کیا گیا:
{یٰــقَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَۃَ الَّتِیْ کَتَبَ اللہُ لَـکُمْ وَلَا تَرْتَــدُّوْا عَلٰٓی اَدْبَارِکُمْ فَـتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِیْنَ (۲۱)} (المائدۃ)
’’(حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا:)اے میری قوم کے لوگو !داخل ہو جائو اِس مقدس سرزمین (فلسطین) میں کہ جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دی ہے اور پیٹھ نہ پھیرنا ‘ورنہ تم ہوجائو گے خسارہ پانے والوں میں سے۔‘‘
{وَلِسُلَیْمٰنَ الرِّیْحَ عَاصِفَۃً تَجْرِیْ بِاَمْرِہٖٓ اِلَی الْاَرْضِ الَّتِیْ بٰرَکْنَا فِیْہَاط وَکُنَّا بِکُلِّ شَیْ ئٍ عٰلِمِیْنَا(۸۱)} (الانبیاء)
’’اور ہم نے مسخر کردی تھی سلیمان ؑ کے لیے تیز ہواجو کہ چلتی تھی اُس کے حکم سے اُس سرزمین کی طرف کہ جس میںہم نے برکت رکھی تھی۔ اور ہم ہر چیز کو جاننے والے تھے۔‘‘
{وَاَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِیْنَ کَانُوْا یُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَمَغَارِبَہَا الَّتِیْ بٰرَکْنَا فِیْہَاط} (الاعراف:۱۳۷)
’’اور ہم نے وارث بنا دیااُن (بنی اسرئیل) کوجو کمزور سمجھے جاتے تھے اُس سرزمین (فلسطین) کے مشرق و مغرب کا جس میں ہم نے برکت دی تھی۔‘‘
اِس آیتِ مبارکہ میں بنی اسرائیل کی اُس عظیم سلطنت کی طرف اشارہ ہے جو ۱۰۲۰ ق م میں حضرت طالوت نے فلسطین اور اُس کے گردو نواح میں قائم کی اورپھر وہ حضرت سلیمانؑ کے دور میں اپنے عروج کو پہنچی۔
{وَجَعَلْنَا بَیْنَہُمْ وَبَیْنَ الْقُرَی الَّتِیْ بٰرَکْنَا فِیْہَا قُرًی ظَاہِرَۃً وَّقَدَّرْنَا فِیْہَا السَّیْرَط} (السبا:۱۸)
’’اور ہم نے اُن(قومِ سبا) کے اور (فلسطین کی) اُن بستیوں کے درمیان جن میں ہم نے برکت دی تھی (ایک دوسرے کے متصل) دیہات بنائے تھے جو سامنے نظر آتے تھے اور ان میں آمد و رفت کا اندازہ مقرر کر دیا تھا ۔‘‘
اِس آیتِ مبارکہ کے لفظ ’’القُریٰ‘‘ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ برکت صرف فلسطین کی بستی میں نہیں رکھی گئی بلکہ اُن تمام بستیوں میں رکھی گئی ہے جو کہ اِس سرزمین سے ملحق تھیں ۔
مسجد ِحرام ‘مسجد ِاقصیٰ اور اِن سے ملحق مقامات کی یہی اہمیت ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کو دعوتِ توحید کے مراکز بنا دیا۔جب اُن کی قوم اُن کی جان کی دشمن ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے اُنہیں بیت المقدس کی طرف ہجرت کروائی :
{وَنَجَّیْنٰہُ وَلُوْطًا اِلَی الْاَرْضِ الَّتِیْ بٰرَکْنَا فِیْہَا لِلْعٰلَمِیْنَ(۷۱)} (الانبیاء)
’’اور ہم نے بچا لیا اُس(ابراہیم ؑ) کو اور لوط ؑ کو بھی ایک ایسی سرزمین ( فلسطین)کی طرف کہ جس میں ہم نے برکت رکھی تھی تمام جہان والوں کے لیے۔‘‘
اِس آیتِ مبارکہ میں وارد لفظ ’’لِلْعٰلِمِیْن‘‘ سے واضح ہوتا ہے کہ سرزمینِ فلسطین کی برکات تمام جہان والوں کے لیے ہیں۔یہودیوں کا یہ خیال باطل ہے کہ اِس سرزمین کی برکات صرف اُن ہی کے استفادے کے لیے ہیں۔ہجرت کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعوتِ توحید کا ایک مرکزاِس سرزمین کوبنایا۔اُن کے چھوٹے صاحب زادے حضرت اسحاق علیہ السلام اور پوتے حضرت یعقوب علیہ السلام کامسکن یہی مقدس سرزمین تھی۔اِسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بڑے صاحبزادے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو مسجد ِحرام کے پاس شہر مکہ میں آباد فرمایا:
{رَبَّنَآ اِنِّیْٓ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ لا} (ابراھیم:۳۷)
’’اے ہمارے رب !بے شک میں نے اپنی اولاد میں سے کچھ کولا بسایاہے ایک ایسی بنجروادی میںجہاں کوئی کھیتی نہیں تیرے عزت والے گھر کے پاس۔‘‘
ان مساجد کی ابتدائی تعمیر حوادثِ زمانہ کی وجہ سے منہدم ہوگئی۔ مسجد حرام کو اُس کی سابقہ بنیادوں پرحضرت ابراہیم علیہ السلام نے دوبارہ تعمیر کیا جن کا دور ایک اندازے کے مطابق ۱۸۶۱ ق م کا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{ وَاِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰہٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَاِسْمٰعِیْلُ }(البقرۃ:۱۲۷)
’’اور یاد کرو جب اٹھا رہے تھے ابراہیم ؑ بنیادیں اﷲ کے گھر کی اور اُن کے ساتھ اسماعیلؑ۔‘‘
حضرت ابراہیم علیہ السلام سے حضرت سلیمان علیہ السلام تک تمام انبیاء کرام علیہم السلام کا قبلہ مسجد حرام ہی رہا۔ مسجد اقصیٰ کو دوبارہ حضرت سلیمان علیہ السلام (جن کازمانہ ۹۶۵ ق م کا ہے) نے تعمیر کیا اور اِس کے بعد یہود نے اِس مسجد کوقبلہ بنا لیا ۔ تمام انبیاء کرام علیہم السلام بشمول انبیائے بنی اسرائیل بیت اللہ کی طرف ہی رخ کرکے نماز پڑھا کرتے تھے اور اِسی کا حج کرتے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب بیت اللہ کی تعمیر مکمل کر لی تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے حج کی آواز لگائی ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{وَاَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاْتُوْکَ رِجَالًا وَّعَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ یَّاْتِیْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ(۲۷) } (الحج)
’’اور (اے ابراہیم ؑ) لوگوں میں حج کا اعلانِ عام کرو ۔ وہ تمہارے پاس آئیں گے پیدل اور دبلے اونٹوں پر اور ہر دُور کے راستے سے ۔‘‘
اِس آیت میں النَّاس کا ذکر ہے جس میں بنو اسرائیل اور اُن کے تمام انبیاء بھی شامل ہیں۔اگر بنو اسرائیل کے آباء واَجداد حضرت ابراہیم‘ حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب علیہم السلام کا قبلہ بیت اللہ ہی تھا تو اُن کے بعد آنے والی نسلوں کا قبلہ تبدیل کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ بنو اسرائیل اپنے والدحضرت یعقوب علیہ السلام کے دین پر تھے۔جب حضرت یعقوب علیہ السلام کا قبلہ بیت اللہ تھا تو ان کی اولاد یعنی بنو اسرائیل کا قبلہ بیت المقدس کیسے ہوسکتا ہے ؟
اس ضمن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو (جن کا دور ۱۴۳۶ ق م کا ہے) ﷲ تعالیٰ نے جو حکم دیا وہ قرآن حکیم میں بایں الفاظ مذکور ہے:
{ وَاَوْحَیْنَآ اِلٰی مُوْسٰی وَاَخِیْہِ اَنْ تَبَوَّاٰ لِقَوْمِکُمَا بِمِصْرَ بُیُوْتًا وَّاجْعَلُوْا بُیُوْتَکُمْ قِبْلَۃً وَّاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَط} (یونس:۸۷)
’’اور ہم نے موسیٰ ؑاور اُن کے بھائی کی طرف وحی بھیجی کہ اپنے لوگوں کے لیے مصر میں گھر بناؤ اور اپنے گھروں کو قبلہ رُخ کرواور نمازقائم کرو۔‘‘
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور میں وہ قبلہ کون سا تھا جس کی طرف رُخ کرنے کا حکم دیا گیا؟ بلاشبہ وہ مسجد حرام ہی تھی۔امام طبری ؒ نے اِس آیت مبارکہ کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا قول نقل کیا ہے کہ :’’وَاجْعَلُوْا بُیُوْتَکُمْ قِبْلَۃً کے حکم میں قبلہ سے مراد’’کعبہ‘‘ ہے۔‘‘
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور ہی میں اﷲ نے بنی اسرائیل کو خوشخبری دی کہ اگر وہ بیت المقدس میں آباد عمالقہ نامی قوم کے خلاف قتال کریں تو اﷲ اُن کو فتح دے گا:
{یٰــقَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَۃَ الَّتِیْ کَتَبَ اللہُ لَـکُمْ وَلَا تَرْتَــدُّوْا عَلٰٓی اَدْبَارِکُمْ فَـتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِیْنَ (۲۱)} (المائدۃ)
’’(حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا:)اے میری قوم کے لوگو !داخل ہو جائو اِس مقدس سرزمین (فلسطین) میں کہ جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دی ہے اور پیٹھ نہ پھیرناورنہ تم ہوجائو گے خسارہ پانے والوں میں سے۔‘‘
قوم نے اِس موقع سے فائدہ نہ اٹھایا اور قتال کرنے سے صاف انکار کردیا:
{فَاذْہَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَا اِنَّا ہٰہُنَا قٰـعِدُوْنَ (۲۴)}(المائدۃ)
’’(وہ بولے کہ اے موسیٰ!) تم اور تمہارا رب جاؤ اور لڑو ‘ہم تویہیں بیٹھے رہیں گے ۔‘‘
اپنی قوم کی بزدلی پر ناراض ہوکر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اﷲ تعالیٰ سےفریاد کی :
{رَبِّ اِنِّیْ لَآ اَمْلِکُ اِلَّا نَفْسِیْ وَاَخِیْ فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ(۲۵)} (المائدۃ)
’’ اے اللہ! مَیں اپنے اور اپنے بھائی کے سوا اور کسی پر اختیار نہیں رکھتا‘ تو ہم میں اور اِن نافرمان لوگوں میں جدائی کر دے۔‘‘
اﷲ ربّ العزت نے جواب میں فرمایا :
{ فَاِنَّہَا مُحَرَّمَۃٌ عَلَیْہِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃًج یَـتِیْہُوْنَ فِی الْاَرْضِ ط فَلَا تَاْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ(۲۶)} (المائدۃ)
’’ و ہ سرزمین اُن پر چالیس برس تک کے لیے حرام کر دی گئی ‘بھٹکتے پھریں گے زمین میں۔پھر اِن نافرمان لوگوں کے حال پر افسوس نہ کرنا۔‘‘
چالیس سال تک صحرائے تیہہ میں بھٹکنے کے دوران ایک نئی نسل پل کر جوان ہوئی۔ اِس نسل پر فرعون کی غلامی کے اثرات نہیں تھے۔ اقبال نے کہا ہے : ؎
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندۂ صحرائی یا مردِ کہستانی!
صحرا میں پرورش پانے والی اِس نسل نے اُس وقت کے نبی حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کی قیادت میں جہاد کیا اور ارضِ مقدس پر فتح حاصل کی۔ یہ فتح عارضی ثابت ہوئی اور کچھ ہی عرصہ بعدمحکوم قوم یعنی عمالقہ دوبارہ غالب آگئی اور اُس نے اسرائیلیوں کو ارضِ مقدس سے نکال باہر کیا۔ اِس کے بعد حضرت طالوت کی قیادت میں بنی اسرائیل دوبارہ منظم ہوئے اور ۱۰۲۰ ق م میں اُنہوں نے ارضِ مقدس پر فتح حاصل کرکے ایک مستحکم حکومت قائم کی۔۱۶سال حضرت طالوت خلیفہ رہے‘ پھرچالیس سال حضرت داؤد علیہ السلام کی خلافت رہی اوراِس کے بعد چالیس سال تک حضرت سلیمان علیہ السلام خلیفہ رہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام (جن کا دور ۹۶۵ ق م کا ہے) نے ارضِ مقدس میں ایک مسجد بنائی جسے ہیکلِ سلیمانی کہا جاتا ہے ۔ارشاداتِ نبویﷺہیں :
((اِنَّ دَاوٗدَ ابْتَدأَ بِبِنَاءِ الْبَیْتِ الْمَقْدِسِ، ثُمَّ اَوْحَی اللّٰہُ اِلَیْہِ اِنِّیْ لَاَقْضِیْ بِنَائَہٗ عَلٰی یَدِ سُلَیْمَانَ)) (طبرانی)
’’حضرت دائود علیہ السلام نے بیت المقدس کی تعمیر کے لیے بنیادیں رکھیں ‘ پھر اللہ تعالیٰ نے اُن کی طرف وحی کی کہ مَیں مسجد اقصیٰ کی تعمیر سلیمان ؑکے ہاتھوں مکمل کروائوں گا۔‘‘
((اَنَّ سُلَیْمَانَ بْنَ دَاوُدَ لَمَّا بَنٰی بَـیْتَ الْمَقْدِسِ سَأَلَ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ خِلَالًا ثَلَاثَۃً: سَأَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ حُکْمًا یُصَادِفُ حُکْمَہٗ فَاُوْتِیَہٗ، وَسَأَلَ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ مُلْکًا لَّا یَنْبَغِیْ لِاَحَدٍ مِنْ بَعْدِہٖ فَاُوْتِیَہٗ، وَسَأَلَ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ حِینَ فَرَغَ مِنْ بِنَاءِ الْمَسْجِدِ اَنْ لَّا یَاْتِیَہٗ اَحَدٌ لَّا یَنْہَزُہُ اِلَّا الصّلَاۃُ فِیْہِ اَنْ یُّخْرِجَہٗ مِنْ خَطِیْئَتِہٖ کَیَوْمِ وَلَدَتْہُ اُمُّہٗ)) (النسائی)
’’حضرت سلیمان بن داؤد علیہما السلام نے جب بیت المقدس کی تعمیر مکمل کر لی تو اللہ تعالیٰ سے تین باتوں کی دعا کی۔اُنہوں نے اللہ سے ایسا فیصلہ کرنے کی توفیق مانگی جو اللہ کی مرضی کے مطابق ہو‘پس اُن کی دعا پوری کی گئی۔اُنہوں نے اللہ سے ایسی حکومت کا سوال کیا جو اُن کے بعد کسی اور کوعطا نہ ہو‘پس اُن کا سوال پورا کیا گیا۔ جب وہ مسجد بنا کر فارغ ہوگئے تو اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ جب بھی کوئی شخص اِس مسجد میں نماز پڑھنے کی غرض سے آئے تو وہ گناہوں سے ایسے پاک ہو کر نکلے جیسے کہ اُس کی ماں نے اُسے جنا ہو۔‘‘
حضرت سلیمان علیہ السلام کے بعد اُن کے جانشین باہم جنگ و جدال میں دست و گریباں ہوگئے اور اُن کی ریاست دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ شمالی ریاست ’’اسرائیل‘‘ کہلائی جسے ۷۰۰ق م میں آشوریوں نے تباہ کردیا اور جنوبی ریاست ’’یہودا‘‘کہلائی جس پر ۵۸۷ ق م میں بابل کے حکمران بخت نصر نے حملہ کیا۔ اُس نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی قائم کردہ مسجد کو شہید کردیا‘ پورے شہر کو اُجاڑ دیا‘ چھ لاکھ اسرائیلیوں کو قتل کیا اور چھ لاکھ کو قیدی بناکر بابل لے گیا:
{وَقَضَیْنَآ اِلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ فِی الْکِتٰبِ لَتُفْسِدُنَّ فِی الْاَرْضِ مَرَّتَیْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا کَبِیْرًا(۴) فَاِذَا جَآئَ وَعْدُ اُوْلٰىہُمَا بَعَثْنَا عَلَیْکُمْ عِبَادًا لَّـنَــآ اُولِیْ بَاْسٍ شَدِیْدٍ فَجَاسُوْا خِلٰلَ الدِّیَارِط وَکَانَ وَعْدًا مَّفْعُوْلًا(۵)} (بنی اسرائیل)
’’ اور ہم نے کتاب میں بنی اسرائیل سے کہہ دیا تھا کہ تم زمین میں دو دفعہ فساد مچاؤ گے اور بڑی سر کشی کرو گے ۔پس جب پہلے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے اپنے سخت لڑائی لڑنے والے بندے تم پر مسلط کر دیے اور وہ شہروںکے اندر پھیل گئے۔ اور وہ وعدہ پورا ہو کر رہا۔‘‘
حضرت عزیر علیہ السلام جو اُس وقت کے نبی تھے ‘شہر سے باہر تھے۔ اُنہوں نے واپس آکر اُجڑے ہوئے شہر کو دیکھا تو حیران ہوئے کہ جس شہر کے بارے میں مستقبل کی پیشین گوئیاں اُن کے علم میں ہیں‘ یہ شہر دوبارہ کیسے آباد ہوگا! سورۃ البقرۃ میں ارشاد ہوا :
{اَوْ کَالَّذِیْ مَرَّ عَلٰی قَرْیَۃٍ وَّہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوْشِہَاج قَالَ اَنّٰی یُحْیٖ ہٰذِہِ اللہُ بَعْدَ مَوْتِہَاج فَـاَمَاتَہُ اللہُ مِائَۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہٗ ط قَالَ کَمْ لَبِثْتَ ط قَالَ لَبِثْتُ یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ ط قَالَ بَلْ لَّبِثْتَ مِائَۃَ عَامٍ فَانْظُرْ اِلٰی طَعَامِکَ وَشَرَابِکَ لَمْ یَتَسَنَّہْ ج وَانْظُرْ اِلٰی حِمَارِکَ وَلِنَجْعَلَکَ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ وَانْظُرْ اِلَی الْعِظَامِ کَیْفَ نُنْشِزُہَا ثُمَّ نَـکْسُوْہَا لَحْمًاط فَلَمَّا تَـبَـیَّنَ لَہٗ لا قَالَ اَعْلَمُ اَنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْرٌ(۲۵۹)}
’’یا اُس شخص کی طرح جس کا گزر ہوا ایک ایسی بستی پرجوگری پڑی تھی اپنی چھتوں پر ۔ اُس نے کہا کہ اللہ اِس بستی کو مرنے(یعنی تباہ ہونے) کے بعدکیسے زندہ (یعنی آباد)کرے گا! تو اللہ نے اُسے موت دے دی سو برس تک کے لیے ‘پھر اُسے زندہ کیا۔ پوچھا: تم کتنا عرصہ رہے؟ اُس نے جواب دیا کہ ایک دن یا اُس سے بھی کم۔ (اللہ نے) فرمایا:بلکہ تم سو برس رہے ہو۔پس دیکھو اپنے کھانے پینے کی چیزوں کو وہ خراب تک نہیں ہوئیں اور دیکھو اپنے گدھے کو (جو مرا پڑا ہے) اور ہم تمہیں تمام لوگوں کے لیے(اپنی قدرت کی) ایک نشانی بنادیں گے ‘اور دیکھو ( گدھے کی) ہڈیوں کو کہ ہم اُن کو کیسے جوڑ دیتے ہیں اور اُن پر گوشت پوست چڑھا دیتے ہیں۔ جب یہ واقعات اُس کے مشاہدے میں آئے تو وہ بول اٹھا کہ میں جان گیاکہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘
حضرت عزیر علیہ السلام نے سو سال کا یہ تجربہ پورا کیا۔ دوسری طرف ایران کے بادشاہ ذوالقرنین نے بابل پر حملہ کرکے اسرائیلیوں کو آزاد کرا دیا۔ اب اُن کے قافلے دوبارہ بیت المقدس آنا شروع ہوئے ۔حضرت عزیر علیہ السلام کی تجدیدی مساعی کے ذریعے اُن میں پھر سے ایمان اور یقین کی شمعیں روشن ہوئیں اور سیرت و کردار کی اصلاح ہوئی۔ کچھ عرصہ یونانیوں کے ساتھ اسرائیلیوں کی معرکہ آرائی رہی اور آخر کاروہ ۱۷۵ ق م میں دوبارہ ایک عظیم سلطنت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے جس کا نام تھا’’ مکابی سلطنت‘‘۔ اب اُنہوں نے دوبارہ ہیکلِ سلیمانی کے نام سے ایک مسجد تعمیر کرلی۔اللہ تعالیٰ نے اِس کا ذکر یوں فرمایا :
{ثُمَّ رَدَدْنَا لَـکُمُ الْکَرَّۃَ عَلَیْہِمْ وَاَمْدَدْنٰـکُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وَجَعَلْنٰـکُمْ اَکْثَرَ نَفِیْرًا(۶)} (بنی اسرائیل)
’’پھر ہم نے دوسری بار تم کو اُن پر غلبہ دیا اور مال اور بیٹوں سے تمہاری مدد کی اور تمہیں کردیا کثیر افرادی قوت والا۔‘‘
حضرت مریم سلامٌ علیہا کی پرورش اِسی ہیکلِ سلیمانی میں ہوئی اور پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جائے پیدائش بھی یہی ہے۔ اسی لیے یہ مقام عیسائیوں کے لیے بھی تقدس کا درجہ رکھتا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جب بعثت ہوئی تو اسرائیلیوں یعنی یہودیوں نے اُن پر دو بہتان لگا ئے۔ پہلا یہ کہ وہ بغیر والد کے پیدا نہیں ہوئے‘ بلکہ معاذ اللہ‘ ولد الزنا ہیں۔ دوسرا یہ کہ اُن کے پیش کردہ معجزات دراصل جادو ہیں‘جبکہ جادو کرنا ارتداد ہے اور شریعت میں مرتد کی سزا قتل ہے۔ چنانچہ اُنہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مرتد قرار دے کر مصلوب کرنے کی کوشش کی لیکن اﷲ تعالیٰ نے آپؑ کو آسمان پر اٹھالیا:
{وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَـبُوْہُ وَلٰــکِنْ شُبِّہَ لَـہُمْ ط وَاِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْہِ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ ط مَا لَہُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ج وَمَا قَتَلُوْہُ یَقِیْنًا (۱۵۷) بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ ط} (النساء)
’’اور اُنہوں نے اُس( عیسیٰ ؑ) کو قتل نہیں کیا اور نہ اُسے صلیب پر لٹکایا بلکہ اُن کے لیے یہ معاملہ مشکوک کردیا گیا ۔اور جو لوگ اِس معاملہ میں اختلاف کرتے ہیں وہ اس بارے میں شک میں ہیں ۔اُن کے پاس کوئی علم نہیں سوائے گمان کی پیروی کے۔ اور اُنہوں نے عیسیٰ ؑکو یقیناً قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے اُس کو اپنی طرف اٹھا لیا ۔‘‘
یہودیوں کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے انکار اور اُن پر بہتان طرازی کی سزا اِس طرح ملی کہ رومی جرنیل ٹائٹس نے ۷۰ء میں بیت المقدس پر حملہ کرکے ایک بار پھر ہیکل کو شہید کردیا۔ایک لاکھ تینتیس ہزار یہودی ماردیے اور بقیہ کو بیت المقدس سے نکال کر اس شہر مقدس میں ان کے داخلہ پر پابندی لگادی۔ قرآنِ حکیم میں اِس کا ذکر اِس طرح ہوا:
{اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ قف وَاِنْ اَسَاْتُمْ فَلَہَاط فَاِذَا جَآئَ وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ لِیَسُوْٓئٗ ا وُجُوْہَکُمْ وَلِیَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ کَمَا دَخَلُوْہُ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّلِیُتَبِّرُوْا مَا عَلَوْا تَتْبِیْرًا(۷) } (بنی اسرائیل)
’’اگر تم نیکی کرو گے تو اپنے ہی لیے کرو گے ‘اور اگر برے اعمال کرو گے تو (اُن کا) وبال بھی تمہاری ہی جانوں پر ہو گا۔ پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا (تو ہم نے پھر اپنے بندے بھیجے) تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑدیں اور جس طرح پہلی دفعہ مسجد (ہیکل) میں داخل ہو گئے تھے اُسی طرح پھر اُس میں داخل ہو جائیں اور جس چیز پر غلبہ پائیں اُسے تباہ کر دیں۔‘‘
یہ یہودیوں کا ’’دورِ انتشار‘‘ (Diaspora)کہلاتا ہے جس میں یہ دنیا کے مختلف حصوں میں پھیل جانے پر مجبور ہوگئے۔۳۱۳ء میں رومن ایمپائر نے بحیثیت مجموعی عیسائی مذہب قبول کرلیا۔ اب اُنہوں نے بیت المقدس کے مشرقی حصے میں جہاں حضرت مریم سلامٌ علیہا نے سکونت اختیار کی تھی‘ اپنی عبادت گاہیں تعمیر کرلیں۔ ۶۱۰ء میں نبی کریم ﷺ پر ظہورِ نبوت ہوا اور دس سال بعد یعنی ۶۲۰ء میں آپ ﷺ نے سفرِ معراج کے دوران مسجد ِحرام سےمسجد ِاقصیٰ تک سفر کیا :
{سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَاط اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ(۱)}(بنی اسرائیل)
’’وہ (اللہ ) پاک ہے جو لے گیاایک ہی رات میں اپنے بندے(ﷺ )کو مسجد الحرام (یعنی خانہ کعبہ) سے مسجد اقصیٰ (یعنی بیت المقدس) تک جس کے گردا گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں تاکہ ہم اُس(بندے) کو اپنی (قدرت کی) نشانیاں دکھائیں۔ بے شک وہ سب سننے والا (اور) دیکھنے والا ہے۔‘‘
معراج کے معنی ہیں عروج حاصل کرنا۔ رسول اللہﷺ کے لیے اصل معراج تو تھی آسمانوں کی طرف جانا اور اﷲ تعالیٰ سے ہم کلامی کا شرف حاصل کرنا‘ لیکن اِس سے قبل آپﷺ کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف لے جایا گیا۔ وہاں آپﷺ نے تمام انبیاء کی ارواح سے ملاقات کی اور دو رکعات نماز میں اُن کی امامت کی۔ آپﷺ کا ارشاد ہے:
((وَقَدْ رَأَیْتُنِیْ فِیْ جَمَاعَۃٍ مِّنَ الأَنْبِیَاءِ، فَاِذَا مُوْسٰی قَائِمٌ یُصَلِّیْ، فَاِذَا رَجُلٌ ضَرْبٌ جَعْدٌ کَاَنَّہٗ مِنْ رِجَالِ شَنُوْئِۃَ، وَاِذَا عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ قَائِمٌ یُصَلِّیْ اَقْرَبُ النَّاسِ بِہٖ شَبَھًا عُرْوَۃُ بْنُ مَسْعُوْدٍ الثَّقَفِیُّ، وَاِذَا اِبْرَاھِیْمُ قَائِمٌ یُصَلِّیْ اَشْبَہُ النَّاسِ بِہٖ صَاحِبُکُمْ یَعْنِیْ نَفْسَہٗ فَحَانَتِ الصَّلَاۃُ فَاَمَمْتُھُمْ)) (مسلم )
’’میں نے اپنے آپ کو (شب معراج) انبیاء ؑ کی جماعت کے اندر پایا ۔ مَیں نے دفعتاًدیکھا کہ موسیٰ علیہ السلام کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں۔ میں نے دیکھا موسیٰ ؑ ایک مرد ہیں متوسط قد کے کسی قدر دبلے ‘ گول بدن والے گویا کہ وہ قبیلہشنوئہ کے ایک مرد ہیں۔ پھر میری نظر عیسٰی علیہ السلام پر پڑی جو کھڑے نماز پڑھ رہے تھے ۔اُن سے بہت ملتے جلتے ہیں عروہ بن مسعود ثقفی ؓ ۔پھر میں نے اچانک ابراہیم علیہ السلام کو نماز پڑھتے دیکھا جن سے تمہارے یہ دوست ‘یعنی خود آپﷺ ‘ بہت مشابہ ہیں ۔ پھر نماز کا وقت آگیا اورمَیں نے اُن سب کی امامت کی۔‘‘
اِس سارے عمل کی حکمت یہ حقیقت واضح کرنا تھی کہ مسجد ِحرام کے ساتھ اب مسجداقصیٰ کے متولی بھی نبی کریم ﷺ اور آپﷺ کے اُمتی ہیں۔
ابتدا میں مسلمانوں کی آزمائش کے لیے مسجد ِاقصیٰ کو قبلہ کا درجہ دیا گیا تھا۔ اِس کا حکم قرآنِ حکیم میں نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے وحی خفی کے ذریعہ یہ حکم نبی اکرمﷺ کو دیا۔نبی اکرمﷺ اور صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مسجد ِحرام سے شدید قلبی محبت تھی۔مکی دور میں تو مسلمان نماز میں اس طرح رُخ کرتے کہ مسجد ِحرام اور مسجد ِاقصیٰ دونوں سامنے ہوتے۔اِسے ’’استقبالِ قبلتین‘‘ کہا جاتا ہے۔ ہجرت کے بعد مدینہ میں ایک آزمائش آگئی۔مدینہ کے شمال میں مسجد ِاقصیٰ اور جنوب میں مسجد ِحرام ہے۔ اب اگر مسجد ِاقصیٰ کی طرف رُخ کیا جائے تو مسجد ِحرام کی طرف پشت ہوجاتی ہے۔اِس سے مقصود صحابہ کرام ؓ کا امتحان لینا تھا کہ آیا وہ مسجد ِحرام سے اپنی محبت کو ترجیح دیتے ہیں یا اللہ کے رسولﷺ کی اتباع کرتے ہوئے مسجد ِحرام کے بجائے بیت المقدس کو قبلہ بنا لیتے ہیں۔سورۃ البقرۃ کی آیت ۱۴۳میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
{ وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْہَآ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یَّـتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰی عَقِبَیْہِ ط وَاِنْ کَانَتْ لَـکَبِیْرَۃً اِلَّا عَلَی الَّذِیْنَ ہَدَی اللہُ ط}
’’اورہم نے نہیں مقررکیاوہ قبلہ جس پر کہ (اے نبیﷺ!) آپ تھے مگراِس لیے تاکہ ہم ظاہر کردیں کہ کون ہے جو رسولؐ کی پیروی کرتا ہے اُس کے برعکس جو اپنی ایڑیوں کے بل رُخ پھیر لیتا ہے۔ اور یقیناًوہ بہت بھا ر ی (حکم )تھا سوائے اُن لوگوں کے جنہیں اﷲ نے ہدایت دی۔‘‘
جب صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا امتحان اچھی طرح سے ہوگیا تو ہجرت کے ۱۶ ماہ بعد۶۲۴ءمیں تحویلِ قبلہ کا حکم اِن الفاظ میں وارد ہوا :
{قَدْ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْہِکَ فِی السَّمَآئِ ج فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبْلَۃً تَرْضٰھَاص فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ط وَحَیْثُ مَا کُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْہَکُمْ شَطْرَہٗ ط} (البقرۃ:۱۴۴)
’’(اے نبیﷺ! ) ہم دیکھ رہے ہیں آپ کے چہرے کا بار باراُٹھنا آسمان کی طرف‘ پس ہم پھیرے دیتے ہیں آپؐ کے چہرے کواُس قبلہ کی طرف کہ جس سے آپ محبت کرتے ہیں‘ توپھیر لیجیے اپنے چہرے(رخ ) کو مسجد ِحرا م کی طر ف۔ اور (اے مسلمانو!) تم جہا ں کہیں پر بھی ہو پس پھیر لو اپنے چہروں کو اُس( مسجد ِ حرا م )کی طرف۔‘‘
نبی اکرمﷺ کے وصال کے پانچ سال بعد ۶۳۷ء میں مسلمانوں نے بیت المقدس فتح کرلیا۔ یہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دورِ خلافت تھا۔ عیسائیوں نے پُر امن طور پر ایک معاہدے کے ذریعے بیت المقدس مسلمانوں کے حوالے کیا۔اِس سے قبل مسلمانوں نے کئی روز سے اِس شہر کا محاصرہ کررکھا تھا لیکن وہ شہر کو فتح کرنے سے قاصر تھے۔ عیسائیوں کے مذہبی رہنمائوں نے مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ ہماری کتابوں میں اُس بادشاہ کے تمام اوصاف درج ہیں جس کے ہاتھوں یہ شہر فتح ہوگا اور ہم تم میں ایسا بادشاہ نہیں پاتے۔ مسلمانوں نے یہ اوصاف دریافت کیے۔اوصاف جاننے کے بعد کہا کہ یہ تو ہمارے خلیفہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصاف ہیں۔ قرآنِ مجید میں اِس بات کا ذکر یوں ہے :
{ ذٰلِکَ مَثَلُہُمْ فِی التَّوْرٰىۃِج وَمَثَلُہُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ قف} (الفتح:۲۹)
’’ اُن (صحابہؓ) کی مثال تورات میں ہے‘ اور اُن کی مثال انجیل میں ہے ۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خصوصی طور پر بیت المقدس آنے کی دعوت دی گئی۔ آپؓ آئے اور عیسائیوں نے ایک معاہدے کے تحت یہ شہر مسلمانوں کے حوالے کردیا۔ معاہدہ کرتے وقت عیسائیوں نے مطالبہ کیا کہ یہودیوں کو اِس شہر میں داخلے کی اجازت نہ دی جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ مطالبہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا کہ ہمارا دین اِس کی اجازت نہیں دیتا۔ البتہ معاہدے میں یہ طے ہوا کہ یہودی اِس علاقہ میں آباد نہ ہوسکیں گے یعنی یہاں کوئی رہائشی‘ صنعتی یا زرعی اراضی یا عمارت نہیں خرید سکیں گے۔ مسلمانوں کے تمام ادوارِ حکومت میں یہودیوں نے اِس پابندی کو ختم کرانے کی کوشش کی اوربعض مواقع پر بھاری مالی امداد کی بھی پیشکش کی لیکن کوئی مسلمان حکمران اِس پر تیار نہ ہوا۔
دورِ بنو اُمیہ میں اُموی خلیفہ عبد الملک بن مروان نے ۶۸۵ء میں اُس چٹان پر ایک گنبد کی تعمیر کا آغاز کیا جس پر سے نبی اکرم ﷺ شب ِمعراج آسمانوں کی طرف روانہ ہوئے تھے۔ اِس گنبد کی تعمیر۶۹۱ء میں مکمل ہوئی اور یہ ’’ قبۃ الصخرہ‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ بعد ازاں اِس گنبد کے جنوب مشرق میں اموی خلیفہ ولید بن عبد الملک نے مسجد اقصیٰ کے نام سے ایک عبادت گاہ تعمیر کی۔ یہ تعمیر۷۰۹ء تا ۷۱۴ء جاری رہی۔ بعد کے ادوار میں بھی مسلمان سلاطین قبۃ الصخرہ اور مسجد اقصیٰ میں مختلف تعمیراتی کام کراتے رہے۔یہودی قبۃ الصخرہ کی تصاویر کے نیچے مسجد اقصیٰ لکھ کر مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ جب وہ مسجد اقصٰی کو شہید کریں تو لوگوں کومیڈیا پر قبۃ الصخرہ کی تصاویر دکھا کر مطمئن کیا جائے کہ مسجد جوں کی توں سلامت ہے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے ایک ہزار سال مکمل ہونے پر مذہبی رہنمائوں نے یورپ کے عیسائیوں میں بہت جوش و خروش پیدا کیا اور اُنہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جائے پیدائش یعنی بیت المقدس کو مسلمانوں سے آزاد کرانے کے لیے جنگ پر آمادہ کیا۔ یہ پہلی صلیبی جنگ تھی جس کے لیے زور شور سے تیاری شروع ہوگئی ۔اِس کے نتیجہ میں ۱۰۹۹ء میں عیسائیوں نے مسلمانوں سے بیت المقدس چھین لیا۔اِس شہر مقدس پر عیسائیوں کا قبضہ ۸۸ برس تک رہا۔ ۱۱۸۷ء میں مسلمانوں نے صلاح الدین ایوبی ؒ کی قیادت میں بیت المقدس دوبارہ حاصل کیا۔
پہلی جنگ عظیم کے دوران برطانیہ نے سازش کے ذریعے عربوں اور ترکوں کو آپس میں لڑاکر بیت المقدس سے ترکوں کو بے دخل کردیا۔ پھر مشرقِ وسطیٰ کو کئی عرب ممالک میں تقسیم کرکے اپنی اجارہ داری قائم کردی ۔۱۹۱۷ءمیں برطانوی وزیر خارجہ بالفور نے ’’اعلانِ بالفور‘‘ کے ذریعے یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت دے دی۔ یہودیوں نے فلسطینیوں سے منہ مانگے داموں جائیدادیں خریدیں‘ اور جنہوں نے اپنی جائیدادیں فروخت کرنے سے انکار کیا اُنہیں برطانوی حکومت کے تعاون سے زبردستی بے دخل کردیا گیا۔ جعلی دستاویزات کے ذریعے ثابت کیا گیا کہ فلاں جائیداد دو ہزار سال قبل ہمارے فلاں بزرگ کے نام تھی جس پر آج کوئی فلسطینی قابض ہے۔ برطانوی حکومت نے اِس طرح کے دعوے قبول کیے اور یوں یہودی فلسطین میں آباد ہوتے چلے گئے۔یہ دھاندلی مسلسل جاری رہی ۔ یہودیوں کو باہر سے لاکر فلسطین میں آباد کیاجاتا رہاجبکہ اُنہیں اٹھارہ سو برس قبل یہاں سے نکال دیا گیا تھا۔ بالآخر برطانیہ اور امریکہ کی ملی بھگت سے ۱۹۴۸ءمیں فلسطین کے۵۶فیصد علاقے پرقبضہ کرکے ایک یہودی ریاست اسرائیل کے نام سے قائم کردی گئی۔ یہودیوں کو جب برطانیہ کے زیرسرپرستی فلسطین میں ناجائز طور پر آباد کیا جارہا تھا تو اس پر اقبال نے کہا تھا : ؎
ہے خاکِ فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عرب کا؟
اسرائیل کے اِس طرح قیام کو کوئی بھی با ضمیر انسان نہ جائز قرار دے گا اور نہ ہی تسلیم کرے گا۔ بانی ٔ پاکستان محمد علی جناح نے اسرائیل کو مغربی دنیا کا ناجائز بچہ قرار دیا۔۲۵ اکتوبر ۱۹۴۷ء کوجب کہ ابھی قیامِ اسرائیل کے منصوبہ کو پیش کیا جا رہا تھا ‘ بانی ٔ پاکستان نے رائٹرنیوز ایجنسی کے نمائندے کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا:
’’فلسطین کے بارے میں ہمارے موقف کی وضاحت اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کے سربراہ چودھری ظفراللہ خان نے کردی ہے۔مجھے اب بھی یہ امید ہے کہ تقسیم(فلسطین) کا منصوبہ مسترد کردیا جائے گا‘ورنہ ایک خوفناک چپقلش کا شروع ہوناناگزیر اور لازمی امر ہے۔یہ چپقلش صرف عربوں اور منصوبۂ تقسیم نافذکرنے والوں کے درمیان نہ ہوگی بلکہ پوری اسلامی دنیا اِس فیصلہ کے خلاف عملی بغاوت کرے گی کیوں کہ ایسے فیصلے (اسرائیل کے قیام) کی حمایت نہ تاریخی اعتبار سے کی جاسکتی ہے اور نہ ہی سیاسی اوراخلاقی طور پر ۔ایسے حالات میں پاکستان کے پاس اِس کے سوا اور کوئی چارہ کار نہ ہوگا کہ عربوں کی مکمل اور غیر مشروط حمایت کرے اور خوا مخواہ کے اشتعال اور دست درازیوں کو روکنے کے لیے جو کچھ اُس کے بس میں ہے‘ پورے جوش وخروش اور طاقت سے بروئے کار لائے۔‘‘
یہود کے خالصتًا مذہبی عناصر بھی اسرائیل کے اِس طرح سے قیام کوجائز نہیں سمجھتے۔ معروف یہودی اسکالر ڈاکٹر ایلمر بلجر نے اپنے مقالے’’ کیا اسرائیل بائبل کی پیشین گوئیوں کی تکمیل ہے؟‘‘ میں لکھاہے :
’’ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ کوئی پکا مذہبی یہودی یہ نہیں مانتا کہ موجودہ اسرائیلی ریاست اُس طریقۂعمل سے وجود میں آئی ہے جو بائبل کے احکامات سے ذرہ بھر بھی مطابقت رکھتا ہو۔‘‘
جون ۱۹۶۷ء میں جنگ کے دوران اسرائیل نے بیت المقدس سمیت فلسطین کے مزید بائیس فیصد علاقہ پر قبضہ کرلیا۔بیت المقدس پر اُن کے قبضہ کو چالیس برس ہونے کو آرہے ہیں۔ یہودیوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے اور اب وہ چاہتے ہیں کہ مسجد اقصیٰ کو شہید کرکے تیسری بار اپنا ہیکل تعمیر کرلیں۔ اِسی لیے اب مسجد اقصیٰ کے گرد زور شور سے کھدائی کا عمل شروع کردیا گیا ہے۔ عیسائی اِس معاملہ میں یہودیوں کی پوری طرح سے پشت پناہی اِس لیے کررہے ہیں کہ اُنہیں مسلسل پروپیگنڈے کے ذریعے یہ بات سمجھا دی گئی ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کی آمد سے قبل بیت المقدس میں ایک اسرائیلی ریاست کا قیام ضروری ہے۔ یہودیوں اور عیسائیوں نے اِس حوالے سے مل کر یہ منصوبہ بندی کی تھی کہ ۲۰۰۷ءمیں مسجد اقصیٰ کو شہید کرنے سے قبل اُن تمام مسلمان ملکوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی جائے جن سے اِس ناپاک یہودی منصوبہ کو کوئی خطرہ ہے۔ لہٰذا۲۰۰۱ء میں پاکستان اور افغانستان کو تباہ کرنے کا منصوبہ تھا۔ پاکستان تو ایک یوٹرن لے کر فوری تباہی سے بچ گیا لیکن افغانستان میں اسلامی حکومت کو تہس نہس کردیا گیا۔ ۲۰۰۳ء میں عراق پر حملہ کرکے اُس کا بھرکس نکال دیا گیا۔۲۰۰۵ء میں ایران کے خلاف اقدام کا منصوبہ تھا لیکن عراق و افغانستان میں غیر معمولی مزاحمت نے اِس منصوبہ کو ناکام بنادیا۔ بہرحال اب بھی یہودی لابی امریکہ کی قیادت پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ ایران کے خلاف اقدام کردیا جائے۔
اِس پورے معاملہ میں پاکستان اور افغانستان کی‘ جو عرب کے مشرق میں واقع ہیں‘ خصوصی اہمیت ہے۔ حدیث ِمبارکہ ہے:
((یَخْرُجُ نَاسٌ مِنَ الْمَشْرِقِ فَیُوَطِّئُوْنَ لِلْمَہْدِیِّ یَعْنِیْ سُلْطَانَہٗ)) (ابنِ ماجہ)
’’ مشرق سے فوجیں نکلیں گی جو مہدی کی حکومت قائم کرنے کے لیے منزل پر منزل مارتی چلی آئیں گی۔‘‘
اِس حدیث سے معلوم ہوا کہ مشرق کے کسی علاقے میں پہلے ہی اسلامی حکومت قائم ہو چکی ہو گی ۔ ایک اور حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ یہ علاقہ خراسان کا ہوگا۔سنن الترمذی کی روایت ہے:
((تَخرُجُ مِنْ خُرَاسَانَ رَأْیَاتٌ سُوْدٌ لَا یَرُدُّھَا شَیْئٌ حَتّٰی تُنْصَبَ بِاِیْلِیَاءَ))
’’ خراسان کی جانب سے عَلم نکلیں گے ‘ ان کو کوئی روک نہ سکے گا‘ حتیٰ کہ وہ ایلیاء میں جا کر نصب نہ ہو جائیں گے۔‘‘
’’ ایلیاء‘‘بیت المقدس کا دوسرا نام ہے ۔نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں ’’خراسان‘‘ اُس علاقے کا نام تھا جس میں اب پاکستان کے شمالی علاقہ جات اور افغانستان کابڑا حصہ شامل ہے ۔ گویا یہی علاقہ ہے جہاں اسلامی حکومت قائم ہوگی ۔ اِس خطہ میں طالبان کی اسلامی حکومت کا قائم ہونا‘ دیگر جہادی سرگرمیاں اور پھر پاکستان کا ایٹمی قوت بن جانا اسرائیل کے لیے باعث تشویش ہے۔۱۹۶۷ء میں اسرائیل کے وزیر اعظم بن گوریان نے پیرس میں کہا تھا کہ ہمیں عرب ممالک سے نہیں‘ صرف پاکستان سے خطرہ ہے۔ ہمارےپہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو امریکہ میں پیشکش کی گئی تھی کہ اگر پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرلے تو اسے ناقابلِ تصوّر مالی امداد دی جائے گی۔ اُنہوں نے اِس کے جواب میں کہا تھا:’’Our souls are not for sale‘‘۔ اس کے بعد بھی جب جنرل پرویز مشرف نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کی تو بھارت میں اسرائیل کے سفیر نے کہا کہ اگر پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا تو ہم اس کے لیے وہ کچھ کریں گے جس کا تصوّر بھی ممکن نہیں۔
آج جب کہ مسجد اقصیٰ کی شہادت کے لیے کارروائی کا آغاز کردیا گیا ہے‘ ہمیں غیرتِ دینی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی حکومت کو اسرائیل کے اِس ناپاک عزم کے خلاف فیصلہ کن موقف اختیار کرنے پر مجبور کرنا چاہیے ۔ بعض دانشور یہ گمراہی پھیلا رہے ہیں کہ مسجد اقصیٰ کی مسلمانوں کے لیے کوئی خاص اہمیت نہیں۔ لیکن مندرجہ ذیل احادیث مبارکہ اِس گمراہ کن تصور کی نفی کے لیے کافی ہیں :
((وَلَا تُشَدُّ الرِّحَالُ اِلَّا اِلٰی ثَلَاثَۃِ مَسَاجِدَ:مَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَسْجِدِ الْأَقْصٰی وَمَسْجِدِیْ ھٰذَا)) (صحیح البخاری)
’’تین مساجد کے علاوہ کسی جگہ کا(ثواب کی نیت سے) قصد کرکے سفر کرنا جائز نہیں ہے: مسجد ِحرام ‘مسجد ِاقصیٰ اورمیری اِس مسجد (یعنی مسجد نبوی ؐ) کا۔‘‘
((مَنْ اَھَلَّ بِحَجّۃٍ اَوْ عُمْرَۃٍ مِنَ المَسْجِدِ الأَقْصٰی اِلَی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ غُفِرَ لَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ وَمَا تَأَخّرَ، اَوْ وَجَبَتْ لَہُ الْجَنّۃُ)) شَکَّ عَبْدُاللّٰہِ (ابو داؤد)
’’ جس نے بھی مسجد اقصیٰ سے مسجد حرام کے لیے حج یا عمر ہ کی نیت سے احرام باندھا اُس کے اگلے پچھلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے‘ یا اُس کے لیے جنت واجب ہو جائے گی۔‘‘ عبداللہ (راوی) کو شک گزرا کہ آپ ﷺ نے اِن دونوں میں سے کون سے الفاظ بیان فرمائے ہیں ۔
((مَنْ صَلّٰی فِی الْمَسَاجِدِ الْأَرْبَعَۃِ غُفِرَ لَہٗ ذَنْبُہٗ)) (سنن النسائی)
’’جس نے چار مساجد میں نماز پڑھی اُس کے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔‘‘
امام السندی نے اِس حدیث کی وضاحت میں تحریر کیا ہے : فی المساجد الأربعۃ لعل المراد بہا مسجد مکۃ والمدینۃ ومسجد قباء والمسجد الأقصٰی۔ یعنی ’’المساجد الاربعۃ‘‘ سے یہاں مراد ہے :مکہ اور مدینہ کی مساجد‘مسجد ِقبا اور مسجد ِاقصیٰ ۔
((صَلَاۃُ الرَّجُلِ فِیْ بَیْتِہٖ بِصَلَاۃٍ، وَصَلَاتُہٗ فِی مَسْجِدِ الْقَبَائِلِ بِخَمْسٍ وَعِشْرِیْنَ صَلَاۃً، وَصَلَاتُہٗ فِی الْمَسْجِدِ الَّذِیْ یُجَمَّعُ فِیْہِ بِخَمْسِ مِائَۃِ صَلَاۃٍ، وَصَلَاتُہٗ فِی الْمَسْجِدِ الْأَقْصٰی بِخَمْسِیْنَ اَلْفَ صَلَاۃٍ، وَصَلَاتُہٗ فِی مَسْجِدِیْ بِخَمْسِیْنَ اَلْفَ صَلَاۃٍ، وَصَلَاتُہٗ فِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ بِمِائَۃِ اَلْفِ صَلَاۃٍ)) (سنن النسائی)
’’ایک شخص کااپنے گھر میں نماز پڑھنا ایک نماز کے اجر کے برابر ہے‘ اوراپنے محلے کی مسجد میں نماز پڑھناپچیس نمازوں کے اجر کے برابر ہے‘ اور جامع مسجد میں نماز پڑھناپانچ سو نمازوں کے اجر کے برابر ہے‘ اور مسجد ِاقصیٰ میں نماز پڑھناپچاس ہزار نمازوں کے اجر کے برابر ہے‘ اور مسجد ِنبویؐ میں نماز پڑھناپچاس ہزار نمازوں کے اجر کے برابر ہے‘ اورمسجد ِحرام میں نماز پڑھنا ایک لاکھ نمازوں کے اجر کے برابر ہے۔‘‘
آج کیفیت یہ ہے کہ : ؎
مسجد ِاقصیٰ روتی ہے                                             اُمّت ِمسلمہ سوتی ہےکاش ہمارا کوئی حکمران پھر سے صلاح الدین ایوبیؒ کی صورت اختیار کرکے میدان میں آئے اور مسجد اقصیٰ کی حفاظت کی خدمت بجا لاکر عظیم سعادتوں سے سرفراز ہوجائے۔ آمین!