مثنوی ’’پس چہ باید کرد ‘‘ میںاقبالؒ کا اُمّت کے لیے پیغامارسلان اللہ خان
پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق
باز روشن می شود ایامِ شرق(۱)’’تو پھر اے مشرق کی عوام! تمہیں کیا کرنا چاہیے تاکہ مشرق کا دور پھر سے روشن ہو جائے ؟‘‘
مثنوی’’ پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق‘‘میں علّامہ اقبالؒ ‘اہل مشرق کو سمجھاتے ہیں کہ اب اُنہیں کیا کرنا چاہیے۔ اقوامِ شرق کو چاہیےکہ یورپ کی کاری گری سمجھیں۔مغرب کا کمال یہ ہے کہ اُس نے مشرق کے ریشم سے قالین بنایا ‘اسی کے سامنے بیچنے کے لیے پیش کردیا اور عجیب بات یہ ہے کہ مشرق والے اس قالین کو فخر سے خرید بھی رہے ہیں ۔ علامہ اقبالؒ کے نزدیک مشرق اس سمندر کی مانند ہے جس کے اندر قیمتی موتی ہیں لیکن اُس کے پاس وہ غوطہ خور نہیں جو ان موتیوں کو نکال سکیں۔ چنانچہ مغرب اپنے غوطہ خوروں کے ذریعے وہ موتی نکالتا ہے اور اُس سے استفادہ کرتا ہے ۔
اقبالؒ چاہتے ہیں کہ شرق کے لوگ محض مغرب کے مقلد بن کر نہ رہ جائیں بلکہ خود بھی تحقیق کے میدان میں اُتریں ۔پاک و ہند کے کروڑوں ہندوؤں اور مسلمانوں کو مٹھی بھر انگریزوں نے غلام بنالیا ۔یہ بات اقبالؒ جیسے حسّاس شاعر کے لیے نہایت افسوس ناک ہے۔وہ چاہتے ہیں کہ مسلمانانِ ہند سائنسی علوم میں بھی ترقّی کریں اور سوشل سائنسز جیسے علوم و فنون میں بھی آگے بڑھیں۔ان کی تمنا ہے کہ مسلمان فلسفہ ‘تاریخ ‘قانون ‘ معاشیات‘ شہریت‘ سیاست اور عمرانیات جیسے علوم و فنون میں بھی کامل دسترس حاصل کریں ۔ ایک مسلمان خواہ کتنے ہی مغربی علوم حاصل کرلے ‘ اُس کی نگاہ ہمیشہ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺکے اُسوئہ حسنہ کی جانب رہنی چاہیے۔ مسلمان وہی ہے جو رمز دین مصطفیٰ ﷺ سے آشنا ہو۔ مسلمانوں کوچاہیے کہ آپس میں اتحاد قائم کریں تاکہ مسلم اُمّت اپنی نشا ٔۃ ِثانیہ حاصل کرسکے۔ مثنوی ’’پس چہ باید کرد‘‘ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جناب یوسف سلیم چشتی صاحب کے بقول :’’اگر اقبالؒ کی ساری شاعری کو ایک جسم کہا جائے تو مثنوی پس چہ باید کرد اُس کی روح ہے ۔‘‘(۲)
اقبالؒ ہر قسم کے تعصب سے پاک ایک دیانت دار مفکر تھے ۔اُنہوں نے مغرب اور مشرق دونوں تہذیبوں کا مطالعہ کیا ۔ مغرب کے مثبت پہلوؤں کی تحسین جبکہ منفی معاملات پر نقد کی۔ اقبالؒ کی خواہش تھی کہ مسلمان مغربی تجربات سے استفادہ کریں اور مشرق کی بعض فرسودہ روایات کو ترک کریں ۔ حضرت شاہ ولی اللہ ؒ کے بعد اگر کسی شخصیت نے تقلید ِجامد کے خلاف اور اجتہاد کے حق میں دُرست معنی میں آواز بلند کی ہے تو وہ اقبالؒ ہی ہیں۔ ’’پس چہ باید کرد ‘‘ کے مطالعے کو اگر پانچ نکات میں سمیٹا جائے تو وہ یہ ہیں:
(۱) مشرق کی فرسودہ روایات کو ترک کیا جائے۔
(۲) اسلام میں اجتہاد کا دَر وا کیاجائے ۔
(۳) مغرب کی اندھی تقلید سے گریز کیا جائے ۔
(۴) مغرب سے تحقیق کا وہی گُر سیکھا جائے جو دراصل اُنہوں نے مشرق سے حاصل کیا ہے ۔
(۵) مغرب سے مرعوب ہونے کے بجائے اپنی اچھی روایات کو فخر سے اپنایا جائے۔
کتاب ’’زندہ اقبال ؒ ‘‘ میں ہے کہ اقبالؒ نے ۱۳ /اگست ۱۹۱۸ء کو اکبر الٰہ آبادی کو خط لکھ کر مشرق کے بزرگوں کی صحبت کو یورپ کی درس گاہوں سے زیادہ اہمیت کا حامل قرار دیا:
’’ واقعی آپ نے سچ فرمایا کہ ہزارکتب خانہ ایک طرف اورباپ کی نگاہِ شفقت ایک طرف ۔ اسی واسطے تو جب کبھی موقع ملتا ہے اُن کی خدمت میں حاضر ہوتا ہوں اور پہاڑ پر جانے کے بجائے اُن کی گرمیٔ صحبت سے مستفید ہوتا ہوں ۔پرسوں شام کھانا کھا رہے تھے اور کسی عزیز کا ذکر کر رہے تھے جس کا حال ہی میں انتقال ہوگیا تھا ۔دورانِ گفتگو کہنے لگے : معلوم نہیں بندہ اپنے رب سے کب کا بچھڑا ہوا ہے ۔اس خیال سے اس قدر متاثر ہوئے کہ حالت غیر ہوگئی اور رات دس گیارہ بجے تک یہی کیفیت رہی ۔یہ خاموش لیکچر ہیں جو پیرانِ مشرق سے ہی مل سکتے ہیں۔ یورپ کی درس گاہوں میں ان کا نشان نہیں۔‘‘
اپنے لیکچرز میں یورپی تہذیب اور اسلامی ثقافت کے بارے میں اقبالؒ لکھتے ہیں :
’’ دورِ حاضر کی تاریخ کی سب سے زیادہ توجّہ طلب بات عالم اسلام کی وہ برق رفتاری ہے جس کے ساتھ دُنیائے اسلام روحانی طور پر بھی مغرب کی طرف مائل ہورہی ہے۔ اس رغبت میں کوئی قباحت نہیں کیونکہ یورپی تہذیب خرد کے ارتقاء کے لحاظ سے اسلامی ثقافت ہی کی بعض اہم روایات کی مزید ترقی یافتہ شکل ہے ۔ڈر صرف اس بات کا ہے کہ کہیں یورپی تہذیب کی ظاہری چمک دمک ہماری اپنی ترقّی کی راہ کی رفتار میں رُکاوٹ نہ بن جائے اور ہم اُس تمدن کی روح تک نہ پہنچ پائیں۔‘‘
اقبالؒ مغرب کے سامراجی نظام کے خلاف تھے ‘وہاں کی مثبت ترقّی کے مخالف نہیں۔ اُن کی خواہش تھی کہ مسلمان جدید مدرسے قائم کریں جن میں ماڈرن آرٹس ‘ سائنس ‘ ٹیکنالوجی اور سوشل سائنسز کی تعلیم دی جائے تاکہ وہ جمود سے باہر نکل سکیں۔ حکمران ہمیشہ یہ چاہتے ہیں کہ عوام جامد اور مقلّد رہ کر تقلید اور اطاعت ہی کو اپنا شیوہ بنائیں۔ اقبالؒ ‘عوام کو اس غلامی سے آزاد کرانا چاہتے ہیں ۔(۳)
آدمیت زار نالید از فرنگ
زندگی ہنگامہ برچید از فرنگ(۴)’’نوعِ انسان فرنگیوں کے ہاتھوں بڑی ہی نالاں ہے۔زندگی نے فرنگ سے کئی ہنگامے پائے ہیں۔‘‘
’’ مثنوی پس چہ باید کرد‘‘ میں اقبالؒ نےایک مردِ حُر کا تذکرہ کیا ہے جو روحانی نگاہ رکھتا ہے۔ اُس کی عقل قلب کے تابع ہے ۔وہ احساس ‘ہمدردی اور اخلاقیات کا مرصّع ہے ۔ اس کے برعکس مغرب کی فکر ہے جو ایک انسان کو الحاد اور مادّہ پرستی کی جانب مائل کر رہی ہے ۔ ایک ایسا انسان جس کے پاس دل نہیں ‘ ہمدردی نہیں ‘احساس نہیں ‘ محض ایک مشین ہے جسے دولت ‘عیاشی اور مادّی فوائد کے سوا دُنیا میں کچھ نظر نہیں آتا ۔ ایسا انسان نیکی و بدی میں تفریق کا قائل نہیں ۔
دانشِ افرنگیاں تیغے بدوش
در ہلاکِ نوعِ انساں سخت کوش(۵)’’اہلِ مغرب کی دانش تو ایسے ہی ہے جیسے کندھے پر تلوار ہو ۔یہ بنی نوعِ انسان کی ہلاکت کے در پے ہے ۔‘‘
مغرب نے روح کو جسم سے الگ کر دیا اورجسم کو ترجیح دی ‘جس کے نتیجے میں آج کا انسان روحانی سکون کی تلاش میں سر گرداں ہے ۔
در جنیوا چیست غیر از مکر و فن
صید تو ایں میش و آں نخچیر من!(۶)’’جنیوا ( جو جمعیت ِاقوام کا مرکز ہے ) میں مکرو فریب کی جگہ اور کیا ہے ؟یہی نا کہ اس کو تُو شکار کرلے ‘اس کو مَیں۔‘‘
اسی بات کو اقبال ’’ضربِ کلیم‘‘ میں اس طرح کہتے ہیں:
ہے خاکِ فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عرب کا!(۷)آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ اقوامِ متحدہ کا ادارہ ہمیشہ مسلمانوں کے خون کو ہی ارزاں سمجھتا ہے ۔ کشمیر اور فلسطین میں مسلمانوں کی ۷۵سال سے نسل کُشی کی جارہی ہے لیکن کوئی پُرسانِ حال نہیں۔ دوسری جانب انڈونیشیا میں مشرقی تیمور کے نام سے ایک عیسائی مملکت ۲۰۰۲ء میں اور سوڈان کے دو ٹکڑے کرکے جنوبی سوڈان کے نام سےدوسری عیسائی مملکت ۲۰۱۱ءمیں بنا کر اقوامِ متحدہ نے جانب داری اور تعصب کی تمام حدیں پار کردیں ۔ ہم یہی سمجھتے ہیں کہ دُنیا کے نقشے پر صرف پاکستان اور اسرائیل دو ایسے ممالک ہیں جو مذہب کی بنیاد پر معرضِ وجود میں آئے ‘ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان بھی عیسائی مذہب کے نام پر بنائے گئے ہیں۔آج بھی جو کچھ فلسطین میں ہو رہا ہے وہ کسی سے مخفی نہیں۔ اقبالؒ سمجھتے تھے کہ مغرب نے مسلمانوں کے اتحاد کو کمزور کیا اور عالم اسلام سے غیر منصفانہ بلکہ معاندانہ روش اختیار کی ۔ اب مسلمانوں کو اسلام کے روشن پہلو اپنانے چاہئیں۔مغرب کی تعمیر و ترقّی لادینیت کی جانب مائل ہے ۔ لوگ اب بے خدا تہذیب کے گرویدہ ہوتے چلے جارہے ہیں ۔ آج اہلِ مشرق بھی سائنس اور ٹیکنالوجی کے نام پر مذہب ‘ اخلاقیات اور انسانیت سے دور ہو کر مادّہ پرستی اور دُنیاوی عیش و آرام کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیّار بیٹھے ہیں۔
اقبالؒ چاہتے ہیں کہ مسلمان باہم متحد ہوکر آگے بڑھیں ۔ خود اپنی صنعتیں قائم کریں ۔ مغرب کے رحم و کرم پر نہ رہیں بلکہ صنعت و حرفت کے میدان میں خود ترقی حاصل کریں ۔ اب وقت آگیا ہے کہ اُمّت ِ مسلمہ بیدار ہو اوردُنیا کی قیادت کرے تاکہ اسلام کے زرّیں پہلو ساری دُنیا پر آشکار ہوسکیں ۔
مصادر و مراجع
(۱) اقبال ‘علّامہ ‘ڈاکٹر ‘ مثنوی ‘پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق
(۲) پاریکھ ‘رؤف‘ڈان اخبار ‘۸ نومبر۲۰۲۱ء
(۳) نظامی ‘قیوم ‘زندہ اقبال‘صفحہ ۱۴۹‘ ۱۵۰ علم و عرفان پبلشرز‘اُردوبازار‘لاہور‘ جون ۲۰۲۲ء
(۴) اقبال ‘علّامہ ‘ڈاکٹر ‘ مثنوی ‘پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق
(۵) اقبال ‘علّامہ ‘ڈاکٹر ‘ مثنوی ‘پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق
(۶) اقبال ‘علّامہ ‘ڈاکٹر ‘ مثنوی ‘پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق
(۷) اقبال‘ علّامہ ‘ڈاکٹر‘نظم ‘شام و فلسطین ‘ضربِ کلیم
tanzeemdigitallibrary.com © 2024