(تعمیرِ سیرت ) روزہ اور تزکیۂ نفس - مولاناعبدالمتین

12 /

روزہ اور تزکیۂنفسمولاناعبدالمتین
مدیر ‘مدرسہ دار ارقم ‘لیاری کراچی
روزے کی فرضیت
{ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ(۱۸۳)} (البقرۃ)
’’اے ایمان والو ! تم پر روزہ رکھنا فرض کر دیا گیا ہے ‘ جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا ‘ تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو۔‘‘
اس آیت میں اللہ ربّ العزت روزوں کی فرضیت کا اعلان فرماتے ہیں۔ سرکارِ دو عالم خاتم النبییّنﷺ نے جب مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کی تو سن دو ہجری میں یہ آیت نازل ہوئی۔ اس آیت کے نازل ہوتے ہی روزوں کا جو سلسلہ اس سے پہلے چل رہا تھا وہ فرض روزوں میں تبدیل ہو گیا۔ روزہ رکھنے کا تصور تو اس سے پہلے بھی موجود تھا‘ایامِ بیض کے روزے بھی رکھے جاتے تھے‘ لیکن اب رمضان المبارک کو ’’ماہِ صیام‘‘ قرار دے کر اس کے روزوں کو فرض کادرجہ دے دیا گیا۔
اللہ ربّ العزت نے انداز ایسا اختیار کیا کہ {کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ} جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ واقعتاً خالق اپنی مخلوق کو کسی بات کا حکم دے رہا ہے۔ پوچھا نہیں جارہا کہ تم پر روزے فرض کریں یا نہیں؟ یا ہم تم پر روزے فرض کرنے والے ہیں! بلکہ جو بارگاہ میں طے ہوا اس کی اطلاع دی جا رہی ہے کہ تم پر روزہ رکھنافرض کر دیا گیا ہے۔ ایک مخلوق کی حیثیت سے اپنے خالق کا حکم تمہیں ہرحال میں ماننا ہے‘ اب دوسری کوئی بات نہیں کرنی ۔ بس روزوںکا اہتمام کرنا ہے۔ اس حکم کی حکمتیں نہیں پوچھنی‘ اپنی عقل کے گھوڑے نہیں دوڑانے کہ پہلے نفلی تھا اب اچانک فرض کیسے ہوا اور کیوں ہوا‘ وغیرہ ۔
صوم کا مفہوم اور تاریخی حیثیت
مذکورہ آیت میں ’’صیام‘‘ کا لفظ (مصدر)استعمال ہوا ہے جس کے معنی روزہ رکھنے کے ہیں۔ ’’صوم‘‘ لغت کے اعتبار سے کسی کام سے رک جانے کو کہتے ہیں۔ روزے کو صوم اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں سحری کا وقت ختم ہونے سے سورج غروب ہونے تک کھانے‘پینے اور ازدواجی تعلق قائم کرنے سے خود کو روکنا پڑتا ہے۔
اس آیت کے دوسرے حصے میں اللہ ربّ العزت نے ارشاد فرمایا کہ {کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ} ’’جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا‘‘ یعنی محمد رسول اللہﷺ کی اُمت سے پہلے بھی روزوں کا سلسلہ موجود تھا۔ آپ ﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو وہاں یہودیوں کی بہت بڑی تعداد آباد تھی ‘جوعاشورہ یعنی محرم الحرام کی دس تاریخ کا روزہ رکھنا فرض سمجھتے تھے۔ ان کا ماننا یہ تھا کہ اسی دن اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کے مظالم سے بنی اسرائیل کو آزادی عطا فرمائی تھی۔ اس کے شکرانے کے طور پر ان میں روزہ رکھنے کا رواج پیدا ہوا اور آپ ﷺ کے زمانے تک یہ سلسلہ جاری تھا۔اس کے علاوہ عیسائی مذہب میں بھی روزے رائج تھے۔ اسی پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے فرمایا گیاکہ تم سے پہلی اُمتوں میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا ہے لہٰذا تم سے کسی نئے اور انوکھے کام کا نہیں کہا جارہا۔ اس طرح ایک تسلی والی بات کردی ‘جیسے ہم کسی شخص کو کوئی نیا کام کرنے کا کہہ دیتے ہیں کہ آپ یہ کام کریں اور ساتھ بتاتے ہیں کہ یہ کام فلاں بھی کرچکاہے اور مَیں نے خود بھی یہ کام کیا ہے‘ وغیرہ۔ تواب اس کرنے والے کو ذرا تسلی ہو جاتی ہے‘ اطمینان ہو جاتا ہے کہ یہ کام میں پہلی بار نہیں کر رہا‘ یہ اگر اتنا مشکل ہوتا تو کوئی بھی نہ کر سکتا۔ تو اللہ ربّ العزت نے جیسے تسلی کا کلمہ ذکر فرمادیا کہ تم سے پہلی اُمتوں میں بھی روزے کی عبادت کا تصوّر موجودتھا۔
روزے کا مقصد
آیت کے آخر میں فرمایا کہ روزے کا اصل مقصد کیا ہے! بھوک اور پیاس برداشت کرنے اور ازدواجی تعلق سے دور رہنے کا اصل مقصد کیا ہے؟ اللہ ربّ العزت ہمیں بھوکا اور پیاسا رکھ کرکیا چاہتے ہیں؟فرمایا: {لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ} تاکہ تمہارے اندر تقویٰ اور پرہیز گاری پیدا ہو۔ نیک اعمال کرنے اور برائیوں سے بچنے کی عادت پیدا ہوجائے۔ یہ روزے کا اصل مقصد ہے۔
یوں تو تمام عبادات کا یہی مقصد ہے۔ نماز کا ‘ حج کا ‘اور زکوٰۃ و صدقات کامقصد بھی تقویٰ کا حصول ہے ‘لیکن دوسری عبادات کے مقابلے میں روزے سے یہ مقصد جلد اور زیادہ اچھے طریقے سے پورا ہوتا ہے۔ اسی لیے یہاں بطور خاص اس کا ذکر فرمایا۔
تقویٰ کیا ہے؟
تقویٰ کے معنی ہیں بچنا‘ کسی چیز سے پرہیز کرنا‘ کسی چیز سے اپنے آپ کو اہتمام کرکے بچانا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ملاقات حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوئی جو بہت بڑے صحابی تھے۔ان کو ’’اقرأ الصَّحابۃ ‘‘کہا جاتا ہے‘ یعنی آپؓ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں قراء ت کے سب سے بڑے ماہر اور قاری ہیں۔ آپ سب سے زیادہ قراءت اور تجوید کے جاننے والےتھے‘ سورۃ الفاتحہ کی فضیلت کی روایت ان ہی سے منقول ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے تقویٰ کی وضاحت چاہی جس کا ذکر قرآن میں بار بار کیا گیا ہے؟حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ: اے امیر المؤمنین! آپ کبھی ایسے راستے سے گئے ہیں جس کے دونوں طرف خار دار جھاڑیاں ہوں‘ کانٹے دار راستہ ہو اور پگ ڈنڈی بھی تنگ ہو ؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ایسا تو بہت بار ہوا ہے ‘کئی مرتبہ میں ایسے راستے سے گزرا ہوں۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا: آپ ایسے راستے سے کیسے جاتے ہیں؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں اپنا دامن سمیٹ سمیٹ کر جاتا ہوں کہ کہیں یہ کانٹے میرے کپڑوں میں نہ چبھ جائیں‘ کہیں مجھے کوئی نقصان نہ پہنچ جائے۔ اس پر حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یہی تقویٰ ہے کہ ساری زندگی خواہشات اور نفسانیت کے خطرناک راستے میں خود کو سمیٹ سمیٹ کر بچانا اور گناہوں میں پڑنے سے بچ کر زندگی کے راستے کو پار کرنا۔ یعنی جس طرح آپ ایسے راستے میں اپنے کپڑے سمیٹ کر جاتے ہیں ویسے ہی دنیا میں خود کو ان نفسانی و شیطانی حربوں سے بچانے کی کوشش کریں تو یہ روش تقویٰ کی ہے۔
نفس اور شیطان
علماء فرماتے ہیں کہ نفس اور شیطان آپس میں حقیقی بھائی ہیں اور ان دونوں کا جنم بھی ایک ساتھ ہوا ہے۔ ان دونوں کا مقصد یہی ہے کہ انسان کو کسی نہ کسی طریقے سے راہِ راست سے ہٹاکر گمراہ کرنا اور پھر اسے اپنی منزلِ مراد یعنی’’جنت‘‘ سے دور کرنا۔ بقول خواجہ مجذوبؒ ؎
نفس اور شیطاں ہیں خنجر در بغل
وار ہونے کو ہے اے غافل سنبھل!
روزہ اس منزلِ مراد یعنی جنّت کو حاصل کرنے کی ایک سیڑھی ہے کہ جب انسان روزے کی عبادت میں مصروف رہتا ہے تو نفس کی تربیت کا عمل شروع ہوجاتا ہے ‘ جو تقویٰ کا جوہر پیدا کرتی ہے۔ جب تقویٰ پیدا ہوتا ہے انسان ہدایت کے رستے پر چل پڑتا ہے اور بالآخر یہ رستہ جنت تک پہنچادیتا ہے۔
روزہ اور نفس کی تربیت کا عمل
اس پورے پس منظر میں اصل تصادم نفس کی تربیت کا ہے ۔اگر تربیت ٹھیک ہوئی تو تقویٰ کا حصول ممکن رہے گا ‘ورنہ ناممکن۔ نفس کو اللہ ربّ العزت نے اس انداز سے پیدا فرمایا ہے کہ اس کی جتنی بات مانی جائے اتنا ہی یہ بگڑتا جاتا ہے اور جتنا اس کی بات ردّ کی جائے اتنا ہی یہ سدھرنے لگتا ہے ۔اگر اس کو زیادہ کھلایا پلایا جائے تویہ زیادہ بگڑتا ہے۔ اس کی خواہشات کو جتنا زیادہ پورا کیا جائے اتنا ہی اس میں بگاڑ بڑھتا رہتا ہے۔ جتنا اس کی بات مانی جائے گی یہ اتنا ہی زیادہ بگڑنے لگتا ہے۔ جیسے ہم دیکھتے ہیں کہ چھوٹے بچوں کی ہر ضد پوری کی جائے تو دوسرے دن اتنا ہی ان کی ضد میں اضافہ ہوتا ہے‘ ٹھیک ایسی ہی نفس کی مثال ہے۔ یہ نفس چاہتا ہے کہ میں زیادہ سے زیادہ کھاؤں‘ زیادہ آرام کروں‘ ہر وقت سوتا رہوں‘ عیاشی کروں‘مزے سے بیٹھا رہوں‘ تکلیف اورمشقت سے دور رہوں۔ لہٰذا اگر اس کی مانتے جائیں تو یہ بس نہیں کرے گا بلکہ اضافی خواہشات کی تمنا کرتا جائے گا ۔
روزے کی صورت میں اللہ ربّ العزت نے نفس کی تربیت کا ایک بہترین انتظام فرمادیا کہ اسے سدھارنا ہے تو بہت مشکل مگر تمہیں جو روزے کا طریقہ بتایا جا رہا ہے اس کے ذریعے تم اپنے نفس کو ٹھیک کرنے کی کامیاب کوشش کرسکتے ہو۔ اس کا طریقہ یہ ہوگا کہ تم کچھ وقت کے لیے اپنا کھانا پینا اور جائز جنسی تعلق چھوڑدو تو نفس پر یہ سب بھاری پڑے گا۔ اصول یہ ہے کہ جب بھی نفس پر مشقت آتی ہے تو ابتدا میں بہت تکلیف ہوتی ہے لیکن آہستہ آہستہ وہ تکلیف ایک جوہر اور ایسی قابلیت پیدا کردیتی ہے کہ نفس انسان پرغالب نہیں آتا۔ اس میں سدھار پن آجاتا ہے۔
خواہشاتِ نفسانی کا اثر
امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’ جو شخص کم کھانا کھاتا ہے تو اسے بیت الخلا کی حاجت بھی کم ہوتی ہے‘ نیند بھی کم آتی ہے‘ دل میں جذبات اور خواہشات کم پیدا ہوتی ہیں۔ روزے میں کم کھانا معمول بن جاتا ہے ‘جس کے نتیجے میں ان سب چیزوں سے بچنے کی طاقت خود سے پیدا ہوجاتی ہے۔صوفیاء فرماتے ہیں نفس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شیرخوار بچہ جو ماں کے سینے سے چمٹ کر دودھ پیتا ہے۔جب اس کے دودھ پینے کی مدت مکمل ہوجاتی ہے تو ہم اسے سینے سے دور کر دیتے ہیں۔بچہ رونے لگ جاتا ہے‘چیخنے لگتا ہے‘ بعض اوقات بیمار بھی ہوتا ہے لیکن ہم یہ سب برداشت کرتے ہیں اور اسے پھر سے ماں کا دودھ نہیں پلاتے ۔ اگر اس بچے کی ضد پوری کی جائے تو وہ شباب کی سرحد کو چھولے گا لیکن اس کی یہ عادت نہیں چھوٹے گی۔ تو ضروری ہے کہ اس پر کچھ نہ کچھ مشقت لائی جائے‘ بار ڈالا جائے‘اس نیت سے کہ آئندہ وہ اس عادت سے محفوظ رہے۔
نفس کی تربیت کا چار نکاتی لائحہ عمل
مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے اپنی کتابوں میں نفس کے بگاڑ کو کم کرنے کے چار طریقے ذکر فرمائے ہیں:
(۱) قلّتِ کلام :یعنی انسان کم بات کرے۔ زیادہ بولنے کی کوشش نہ کرے۔ کثرت کے ساتھ اپنی زبان کو نہ چلائے‘ بلکہ جب ضرورت ہو تب بولے۔ جو زیادہ بولتا ہے وہ غیبت زیادہ کرتا ہے۔ زیادہ بولنے سے بہتان طرازی کا بھی خطرہ رہتا ہے‘ جھوٹ بھی بول سکتا ہے‘ تکبر کا کلمہ بھی زبان سے نکال سکتا ہے۔ ان سب کا آسان حل یہ ہے کہ وہ زیادہ بولنے سے پرہیز کرے۔
(۲) قلّتِ طعام:یعنی کم کھائے۔ ہر وقت کھانے کا معمول نہ ہو‘ زیادہ کھانے کی ترتیب نہ ہو۔ ایسا نہ ہو کہ وقت بے وقت کھائے جارہے ہیں۔ کہیں کھڑے کھڑے کھا رہے ہیں‘ کہیں دوستوں کے ساتھ اور کبھی ناشتہ دو تین بار ۔
(۳) قلّتِ منام :یعنی سونا بھی کم کرے‘ کیوں کہ زیادہ سونا زیادہ وبال کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ حکماء فرماتے ہیں کہ زیادہ سونے کی صورت میں انسان کا دماغ کمزور ہوجاتا ہے جبکہ جو بہت کم سوتا ہے اس کا جسم کمزور ہوجاتا ہے۔سونے کا ایک درمیانہ معمول ہونا چاہیے جتنا انسان کی صحت کے لیے ضروری ہو۔
(۴) قلّتِ اختلاط مع الانام:یعنی لوگوں کے ساتھ کم از کم تعلق رکھے۔ غیر ضروری تعلق سے اجتناب کرے‘ بس حقوق العباد کی فکر کرے ۔ زیادہ میل جول سے گناہوں کے مواقع بڑھنے کا امکان زیادہ رہتا ہے۔
نفسانی خواہشات ٹالنے کا طریقہ
جو شخص یہ چار کام کرے گا اس کے لیے نفس کو راہِ راست پر لانا آسان ہو جائے گا۔انسان متقی تب ہی بن سکتا ہے جب وہ نفس کے تقاضوں پر عمل نہ کرے۔ جو دل چاہ رہا ہے اس کے خلاف کرے۔ مثلاً فجر کے وقت اگر دل چاہ رہا ہے کہ سویا رہوں تو نہ سوئے ۔تنگدستی میں دل چاہ رہا ہے کہ حرام کماکر مالامال ہوجائوں تو ناداری برداشت کرے۔
ڈاکٹر عبدالحئ عارفی رحمہ اللہ نے اپنا واقعہ خود ذکر کیاکہ جو نفس کہہ رہا ہے اس کے خلاف کیسے کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ میں ایک دفعہ رات کو تہجد کے لیے اٹھا تو شیطان نے میرے ذہن میں یہ بات ڈال دی کہ بڑھاپے میں تہجد پڑھنے کی کیا ضرورت ہے ! گویا نفس سے ان کی گفتگو ہورہی ہے کہ آپ ابھی اپنی صحت کا خیال رکھیں‘ یہ کوئی فرض نماز تو نہیں بلکہ نفلی نماز ہے‘ یہ تو آپ پر لازم بھی نہیں ہے اور آپ پر اتنی کمزوری آگئی ہے‘ لیکن ڈاکٹر صاحب نے من ہی من میں جواب دیا کہ میں تہجد پڑھنے کے لیے نہیں اٹھ رہا بلکہ بس بیٹھ کر دو چار ذکر کے کلمات کہہ کر پھر سوجاؤں گا۔ جب وہ بیٹھ گئے اور ذکر کیا تو سونے کا تقاضا ہوا ۔ اس پر انہوں نے نفس سے مخاطب ہوکر کہا کہ ایک مرتبہ جب اٹھ ہی گئے ہو اور بیٹھ ہی گئے ہو تو وضو کرکے آجاؤ اورپھرسوجاؤ۔ اب جیسے نفس ہمیں ٹالتا ہے بالکل ویسے ہی انہوں نے نفس کو ٹالنے کی کوشش کی اور کہا کہ میں وضو کرکے آجاؤں گا اور پھر فوراً سو جاؤں گا‘ تہجد پڑھنے کا ارادہ نہیں کر رہا۔ انہوں نے وضو کیا اور بیٹھ گئے تو نفس نے کہا کہ اب تو سوجاؤ۔ انہوں نے کہا اب جب اُٹھ ہی گئے ہو ‘اپنی نیند کا خمار توڑ دیا ہے اور باوضو بھی ہو تو اب دو رکعت نماز پڑھ کے سوجاؤ۔ آخر میں وہ دو رکعت پڑھ ہی لیتے ہیں ۔ اس طریقے سے وہ نفس کو ٹالنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ یعنی یہ انداز اختیار کیا گیا کہ نفس جس بات کا تقاضا کر رہا ہے اسی بات کے خلاف جانا۔ جس چیز کا داعیہ پیدا ہورہا ہے اس کے خلاف چلنا۔ تو جب تک اس نفس پر آرے نہیں چلیں گے تب تک تقویٰ کا جوہر پیدا نہیں ہوگا۔
روزہ :ایک جامع تربیتی پروگرام
روزے کے ذریعے اللہ ربّ العزت نے اس مشکل اور طویل کام کو آسان کردیا کہ انسان کی طبیعت کے خلاف جتنے کام ہیں وہ سب اس میں ایک ساتھ شامل کر دیے گئے ۔ اب تمہارا کھانا بھی بند ہے‘ تمہارا پینا بھی ممنوع ہے‘ تمہارا ازدواجی تعلق قائم کرنا جائز نہیں ہے۔ تم جانتے ہو کہ روزے میں غصہ کرنا کتنا بڑا گناہ ہے اور تم جانتے ہو کہ جو گناہ روزے کے بغیر کیا جائے وہ اگر روزے میں کیا جائے تو اس کی شدت زیادہ ہے۔ روایات میں ہے کہ جو شخص روزے کی حالت میں زبان سے جو جی چاہے نکال لیتا ہے تو اللہ کو ایسے روزے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ وہ بے فائدہ اپنا کھانا پینا چھوڑرہا ہے۔ یہ سارے مقاصد روزے میں ایک ساتھ جمع کردیے گئے جو نفس کو قابو کرنے کا ذریعہ ہیں تاکہ ایک مہینے تک تم اس نسخے پر عمل کرتے رہو اور متقی بننے کا سفر شروع کرسکو۔
تصوّر کریں کہ ایک بند کمرے میں کوئی فرد موجود ہےاور روزے سے اس کی زبان سوکھ چکی ہو۔ کوئی اسے دیکھ بھی نہیں رہا ۔وہاں ایک کولر رکھا ہوا ہو جس کے نیچے گلاس بھی ہو‘ اس میں ٹھنڈا پانی موجود ہو اور وہ تھوڑا تھوڑا ٹپکتا بھی رہے۔اس پانی کی ٹھنڈک اس گلاس میں بھی نظر آئے۔ الغرض نفس کے جو تقاضے ہیں وہ سب کے سب موجود ہوں۔ پیاس بھی شدت سے محسوس ہورہی ہو لیکن روزے کی وجہ سے وہ ان تقاضوں پر ہرگز عمل نہیں کرتا۔اللہ ربّ العزت نے روزے دار میں قدرتی طور پر وہ صلاحیت رکھی ہے جو نفس کی تربیت کے لیے ضروری ہےتاکہ اس کی تہذیب اور اس کو سدھارنا آسان ہو جائے۔ جب ایک مہینے تک یہ تربیت کا عمل جاری رہے گا تو گیارہ مہینوں تک اس کا اثر باقی رہے گا ۔پھر مزید قدرت پیدا کرنے کے لیے ایک اور رمضان آجائے گا اور روزے کا مقصد یعنی تقویٰ کا حصول ممکن ہوجائے گا ‘ان شاءاللہ!