(یادِ رفتگاں) ڈاکٹر اسرار احمدؒ:قرآن میں رچی بسی شخصیت - شاہ اجمل فاروق ندوی

12 /

ڈاکٹر اسرار احمدؒ:قرآن میں رچی بسی شخصیتشاہ اجمل فاروق ندوی
انچارج اردو سیکشن‘ انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز‘ نئی دہلی ؛
چیف ایڈیٹر ماہنامہ المؤمنات‘ لکھنؤ؛ ایڈیٹر ماہنامہ تسنیم‘ نئی دہلی

حرکت وروانی اس کائنات کا خاصّہ ہے۔ یہاں ہر چیز ایک مخصوص نظام کے مطابق حرکت میں رہتی ہے۔ البتہ حرکت کے ساتھ فنا بھی کائنات کا لازمی وصف ہے۔ لہٰذا ہر وہ چیز جو حرکت میں رہتی ہے‘ نموپزیر اور رواں دواں رہتی ہے‘ ایک نہ ایک دن رک بھی جاتی ہے‘ پھر کبھی نہیں چلتی۔ کائنات کی دوسری اشیاء کی طرح انسانی زندگی کا بھی یہی خاصّہ ہے: حرکت اور فنا۔ تاہم‘ بعض لوگوں کو اللہ تعالیٰ ایسی حرکت عطا فرماکر بھیجتا ہے کہ ان کے جانے کے بعد بھی لگتا ہے کہ وہ رواں دواں ہی ہیں‘ اپنے کاموں میں لگے ہوئے ہیں۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ اپنی زندگی وہ لوگ ایسی سرگرمی کے ساتھ گزارتے ہیں کہ سر اپاحرکت و روانی بن جاتے ہیں۔ کسی منزل پر ٹھہرنا‘ رکنا اور سانس لینا اُن کے مزاج کے خلاف ہوتا ہے۔ ایسی ہی چلتی پھرتی‘ رواں دواں اور مسلسل حرکت رکھنے والی ایک عظیم شخصیت کو دنیا ڈاکٹر اسرار احمد (ولادت: ۲۶ / اپریل ۱۹۳۲ء‘ وفات :۱۴ / اپریل ۲۰۱۰ء ) کے نام سے یاد کرتی ہے۔ ہمارے اس دعوے کی تصدیق کرنی ہوتو‘ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ کی کوئی تقریر یا چھوٹا موٹا بیان سن لیجیے۔ چند ہی لمحات میں اندازہ ہو جائے گا کہ آپ کسی زوردار اور متحرک شخصیت کو سن رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کے اندر نہ جانے کیسی حرکت القا فرمائی تھی۔ وہ سراپا حرکت اور تحریک معلوم ہوتے تھے۔ یہ حرکت و تحریک ان کے شب و روز سے آگے بڑھ کر ان کی گفت و شنید سے بھی ظاہر ہونے لگی تھی۔
پہلا تعارف
یہ۲۰۰۳ء کی بات ہے۔ ندوہ کے دورِ طالب علمی میں ہمیں اخبارات کا چسکا لگا۔عالم عرب کے اخبارات کے ساتھ پڑوسی ممالک کے اردو اخبار ات بھی ہم بڑے ذوق و شوق سے پڑھنے لگے۔ پاکستان سے روزنامہ ’’جنگ‘‘ بھی آتا تھا۔ اُسے بھی شروع سے آخر تک پڑھ ڈالتے تھے۔ ڈاکٹر اسرار احمد کے نام سے پہلا تعارف وہیں حاصل ہوا۔ ان کے بیانات اور کالمز بہت پسندآئے۔ آہستہ آہستہ غائبانہ طور پر وہ ہماری ایک پسندیدہ شخصیت بن گئے۔ ایک دن روزنامہ ’’جنگ‘‘ ہی میں کسی مسئلے پر مشاہیر کی آراء شائع ہوئیں۔ ہر شخص کی رائے کے ساتھ اس کی تصویر بھی تھی۔ اُس دن پہلی مرتبہ ڈاکٹر صاحب کی تصویر دیکھی تو حیرت میں پڑگیا۔ حیرت سے زیادہ تشویش ہوئی کہ خدا جانے یہ وہی اسرار احمد ہیں یا کوئی اور! نہ ماننے کی دلیل صرف یہ تھی کہ ہم نے اپنے ذہن میں جس اسرار احمد کی تصویر بنا رکھی تھی‘ وہ اتنے متشرع نہ تھے۔ آہستہ آہستہ ہم نے کچھ شک کے ساتھ مان ہی لیا کہ یہ وہی اسرار احمد ہیں‘ جن کے معتدل بیانات کے ہم گرویدہ ہیں۔
۲۰۰۴ء میں ندوہ سے تعلیم مکمل کرکے دلّی پہنچے۔ پاکستان کے QTV کا آغاز ہوچکا تھا۔ اس وقت تک ہمارے سامنے کوئی دوسرا مسلم ٹی وی چینل نہ تھا‘ اس لیے اس کے پروگرام سننا ہماراپسندیدہ مشغلہ بن گیا۔ ایک دن کیا دیکھتے ہیں کہ وہی تصویر والے ڈاکٹر اسرار احمد یہاں بھی موجود ہیں۔ قرآن کا درس دے رہے ہیں۔ اب ہماری محبت‘ عقیدت میں بدل گئی۔ ڈاکٹر صاحب کے مسلسل دروسِ قرآن کا آغازہی ہوا تھا۔ ہم کسی شاگرد کی طرح کاغذ قلم لے کر بیٹھتے اور ان کے بیان کردہ نکات نوٹ کرتے۔وقت کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کا عرفان حاصل ہونے لگا‘ ان کے مقامِ بلند کا اندازہ ہونے لگا۔ ان کے تبحر علمی اور بالخصوص قرآنی علوم پر بے مثال گرفت نے ہمیں اُن کا عاشق بنادیا۔ بعد میں QTV نے بوجوہ اُن کے دروس کا سلسلہ بند کردیا‘ لیکن اللہ تعالیٰ کو اُن کی آخری عمر میں شہرت کی بلندیوں پر پہنچانا تھا‘ اس کے لیے ذریعہ QTV ہی کو بنایا۔ گھر گھر میں ڈاکٹر صاحب کا چرچا ہونے لگا اور وہ ہندوستان میں بھی ہر مسلم گھرانے کے روحانی مربی کی شکل میں سامنے آئے۔
برّصغیر میں عام مقبولیت
ہندوستان کے مسلم طبقے میں ڈاکٹر صاحب کی مقبولیت و محبوبیت کا اندازہ دو موقعوں پر سامنے آیا۔ ایک اُن کے سفرِ ہندوستان کے موقعے پر اور دوسرا اُن کی وفات کے موقعے پر۔ ڈاکٹر صاحب ہندوستان آئے تو ایک ایک دن میں کئی بڑے بڑے مجمعوں کو خطاب کرنے کا نظم کیا گیا۔ صبح کے وقت عید گاہ دہلی میں ہیں‘ دوپہر میں جامع مسجد دہلی میں‘ بعد مغرب جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تو بعد عشاء مرکز جماعت اسلامی ہند کی مسجد میں۔ دو تین دن کے طوفانی دورے میں یہی عالم رہا۔ اخبارات میں کئی کئی جلسوں کے اشتہارات شائع ہوتے۔ جگہ جگہ بڑے بڑے بینر اور پوسٹر لگتے۔ ڈاکٹر صاحب بھی ہر جگہ پہنچتے اور پوری شان سے خطاب فرماتے۔ کیا مرد‘ کیا عورتیں‘ کیا بوڑھے اور کیا جوان‘ سب پروانہ وار ان کی تقریریں سننے کے لیے ٹوٹ پڑتے تھے۔ یہ دلّی کی صورت حال تھی۔ دوسرے بڑے شہروں میں بھی اسی طرح کی کیفیت سننے میں آئی۔
اس کے دو چار سال بعد جب ڈاکٹر صاحب نے رحلت فرمائی تو بھی گھر گھر میں غم و اندوہ کی لہر دوڑ گئی۔ اخبارات کئی دن تک تعزیتی بیانات اور تعزیتی جلسوں کی خبریں شائع کرتے رہے‘ جیسے کہ وہ یہیں کے تھے اور یہیں رہ رہے تھے۔
اس محبوبیت و مقبولیت کی تاویل ہم صرف یہی کرتے ہیں کہ اللہ کے اُس بندے نے اپنی پوری زندگی کو قرآنی زندگی بنالیا تھا۔ قرآن ہی پر جیے اور اسی کو عام کرتے کرتے اس دنیا سے چلے گئے۔ لہٰذا یہ کیسے ممکن تھا کہ اللہ تعالیٰ اُن کو قبولِ عام کا درجہ عطا نہ فرماتا! ربِّ کریم نے QTV کو ذریعہ بنایا اور پورے برصغیر میں اُن کی لہر چل پڑی۔ ہر سلیم الفطرت شخص ان کا دل دادہ ہوگیا۔ اُن کے ٹھوس علمی افکار کے باوجود بہت کم عرصے میں عوام و خواص میں ایسی محبوبیت و مقبولیت سوائے عطائے الٰہی کے کچھ نہیں تھی!
شرفِ نیاز
۲۰۰۴ءمیں ان کی ہندوستان آمد کے موقعے پر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے انصاری آڈیٹوریم میں شرفِ نیاز حاصل ہوا۔ وہاں اُن کی تقریر کا موضوع تھا: ’’موت کا عقیدہ‘‘۔ اُن کی آمد سے پہلے ہی ہال بھر چکا تھا۔ تقریر کے وقت سے چند منٹ پہلے ڈاکٹر صاحب تشریف لے آئے۔ موضوع عوامی سے زیادہ فلسفیانہ تھا‘ چنانچہ ان کی گفتگو پر دونوں رنگ غالب رہے۔ عوامی کم اور فلسفیانہ زیادہ‘ لیکن وہ مجمع کو ایسی گرفت میں لے لیتے تھے کہ کیا مجال کوئی اپنی جگہ سے ہل جائے۔پورا مجمع ڈیڑھ دو گھنٹے ساکت و جامد بیٹھا رہا اور ڈاکٹر صاحب خطاب فرماتے رہے۔ وہیں تقریر سے پہلے ناظم جلسہ نے یہ بھی بتایا کہ جب ہم اِس پروگرام کے لیے وقت لینے کے لیے ڈاکٹر صاحب کے پاس پہنچے تو وہ اپنی قیام گاہ پر نہیں تھے۔ کسی جلسے ہی میں گئے ہوئے تھے۔ ابھی ہم وہاں سے واپس آبھی نہ سکے تھے کہ ہمارے دیے ہوئے نمبر پر ڈاکٹر صاحب کا فون آچکا تھا کہ آپ پروگرام طے کردیں‘ میں وقت ِمقررہ پر (ان شاء اللہ) ضرور حاضر ہوجائوں گا۔
قرآنی تحریک
ڈاکٹر اسرار احمد ہریانہ کے مشہور علاقے حصار میں پیدا ہوئے تھے۔ تقسیم ہند کے بعد مع اہلِ خانہ پاکستان منتقل ہوگئے۔۱۹۴۸ء میں جماعت اسلامی سے متأثر ہوئے اور اپنی تعلیم کے ساتھ جماعت کی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے۔ بانی جماعت اسلامی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ملک کے عام انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تو اس پر سخت احتجاج کیا‘ حتیٰ کہ جماعت سے علیحدگی اختیار کرلی۔۷۱ - ۱۹۷۰ء ڈاکٹر صاحب کی زندگی کا سب سے اہم موڑ ثابت ہوا‘ جب انھیں حجاز مقدس میں خاصے لمبے عرصے قیام کا موقع ملا۔ حج کی سعادت بھی میسر آئی۔ اسی دوران انہوں نے اپنی میڈیکل پریکٹس ترک کرنے کا اہم فیصلہ لیا اور ۱۹۷۲ءمیں مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کی بنیاد رکھ دی۔ ۱۹۷۵ء میں تنظیم اسلامی اور ۱۹۷۶ء میں قرآن اکیڈمی لاہور قائم کی۔ مختلف پلیٹ فارم قائم کرکے انہوں نے ملک بھر میں مختلف نوعیتوں سے فہم ِقرآن کی تحریک اُٹھا دی۔ہفتہ وار دروسِ قرآن‘ سالانہ قرآن کانفرنسیں اور اس کے علاوہ متعدد پہلوئوں سے قرآن کریم کی اشاعت کا کام شروع کیا۔ رمضان المبارک ۱۴۰۴ھ (۱۹۸۴ء) میں نماز تراویح کے ساتھ دورۂ ترجمہ قرآن کا منفرد پروگرام شروع کیا (جو اُن کےصلبی و روحانی بیٹے پاکستان کے طول و عرض میں سینکڑوں مقامات پر جاری رکھے ہوئے ہیں۔) ہم پوری ذمہ داری کے ساتھ یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ مفسر قرآن مولانا احمد علی لاہوریؒ کے بعد شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی ؒکے آخری خواب (اشاعت ِقرآن) کو عام کرنے والی شخصیت ڈاکٹر صاحب کے علاوہ کوئی نظر نہیں آتی۔ مفتی محمد رفیع عثمانی ؒنے بھی تقریباً اسی طرح کا تأثر ظاہر کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب حضرت شیخ الہند کو مجدد کہتے تھے۔ ڈاکٹر صاحبؒ قرآن کریم کے اندر اُتر گئے تھے‘ یا یوں کہیے کہ قرآن کریم کو اپنے اوپر اوڑھ لیا تھا۔ اس لیے ان کی شخصیت قرآن کریم میں ایسی رچ بس گئی تھی کہ وہ عہدِ حاضر میں شاید پورے عالم اسلام میں قرآن کریم کے سب سے ممتاز مبلغ و داعی کی حیثیت سے سامنے آئے۔
حق گوئی
ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ کو اللہ تعالیٰ نے حق گوئی کی دولت سے بھی نوازا تھا۔ وہ ہر بات پوری مضبوطی کے ساتھ کہتے تھے اور بہ بانگ ِدُہل کہتے تھے۔ ہندوستان تشریف لائے اور مرکز جماعت اسلامی ہند میں خطاب فرمایا تو جماعت کی خدمات کے اعتراف کے ساتھ اپنا اختلاف بھی ذکر کیا۔ پاکستان میں جاوید احمد غامدی اور ان کے ہم نوائوں کے انکارِ حدیث آمیز افکار کے خلاف محاذ سنبھالا۔ خود بھی مسلسل لکھا اور دوسروں سے بھی لکھوایا۔ اپنے ایک استاد مولانا امین احسن اصلاحی ؒسے ہونے والی سخت تفسیری غلطیوں کا ردّ کیا۔سورۃ النور کادرس دیتے دیتے رکے‘ ’’حدرجم‘‘ پراپنے استاد کی صریح غلطی کا تذکرہ کیا اور ان کے لیے ہاتھ اٹھاکر دعائے مغفرت کرائی۔ جماعت اسلامی سے علیحدگی کے بعد کچھ عرصہ تبلیغی جماعت سے وابستہ رہےتاکہ اجتماعیت کے ساتھ کام چلتا رہے۔ ان کی دعوت و تبلیغ کو ’’Quran-centric‘‘نہیں پایا تو اپنا اختلاف صاف صاف بیان کرکے علیحدگی اختیار کی۔ اس کے باوجود تمام جماعتوں کی خدمات کا کھلے دل سے اعتراف اور تمام شخصیات کا ادب و احترام بھی علی الاعلان کرتے تھے۔ اس معاملے میں وہ قرآن و حدیث اور سلف صالحین کے حقیقی مسلک پر قائم تھے‘ یعنی کھلے دل سے سب کا اعتراف اور صاف زبان میں علمی اختلاف۔
اعتدال و توازن
ایک طرف وہ خلافت کے عظیم علم بردار تھے۔افغان طالبان کے پُرزور حامی اور ان کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتے تھے۔ ۱۹۹۱ء میں عالمی خلافت کانفرنس میں شرکت کے بعد ’’تحریک خلافت پاکستان‘‘ قائم کرچکے تھے ‘تو دوسری طرف امام غزالی‘ شیخ محی الدین ابن عربی‘ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور شیخ احمد سرہندی وغیرہ (رحمہم اللہ)کے صوفیانہ افکار و نظریات کے بھی حامی تھے۔ اس سلسلے میں ایک دل چسپ واقعہ بھی ہے۔
ڈاکٹر صاحب لاہور کے علاقے سمن آباد کی مسجد خضراء میں درس قرآن دیتے تھے۔مسلسل ڈھائی گھنٹے درس چلتا تھا۔ حاضرین کی تعداد عام طور پر پانچ چھ سو تک پہنچ جاتی تھی۔ مسجد خضراء کا سنگ بنیاد مفسر قرآن مولانا احمد علی لاہوری ؒنے رکھا تھا۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم اپنے اس درس کی بے پناہ مقبولیت کا سہرا حضرت مفسر قرآن کے سر باندھتے تھے اور اسے اُن کا روحانی فیض اور کرامت سمجھتے تھے۔ لکھتے ہیں :
’’مسجد خضراء سمن آباد میں اس دعوتِ قرآن کو جو پزیرائی حاصل ہوئی‘ اس پر میں خود اور میرے قریبی ساتھی سب کے سب شدید حیران تھے۔ بالآخر اس کا راز ایک روز کھل ہی گیا۔ آج کے عقلیت زدہ بلکہ گزیدہ لوگ تو شاید اس بات پر ناک بھوں چڑھائیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ مسجد خضراء کی اس استثنائی کیفیت کا اصل راز جو مجھے ایک دن اچانک معلوم ہوا‘ یہ تھا کہ اس کا سنگ بنیاد اُس مرد درویش نے رکھا تھا جسے دنیا مولانا احمد علی لاہوریؒ کے نام سے جانتی ہے اور جس نے خود بھی پورے چالیس سال تک ارضِ لاہور پر درسِ قرآن کا سلسلہ جاری رکھا تھا۔ گویا معاملہ وہی تھا جو علامہ اقبال نے یوں بیان کیا ہے ؎
ہے مگر اس نقش میں رنگ ثباتِ دوام
جس کو کیا ہو کسی مردِ خدا نے تمام!‘‘
(دعوت رجوع اِلی القرآن کا منظر و پس منظر‘طبع جدید‘ ستمبر ۲۰۲۱ء‘ص۱۷۰)
عظیم خلا
علماء ِدہلی کی یادگار‘ مفسر قرآن مولانا اخلاق حسین قاسمیؒ سے بھی ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے گہرے مراسم تھے۔ ان مراسم کا نکتۂ اتحاد تفسیری اشتغال ہی تھا۔ افسوس کہ اب یہ دونوں شخصیات شہر خموشاں میں جا سوئیں۔ کچھ دن پہلے میں نے تفسیر قرآن کے متعلق قائم کیے گئے علماء کے ایک واٹس ایپ گروپ پر سوال کیا : ’’کیا موجودہ وقت میں برصغیر میں ایسی کوئی شخصیت ہے‘ جس کا اوڑھنا بچھونا تفسیر قرآن ہو؟ وہ صرف کسی ادارے میں تفسیر کا استاد نہ ہو‘ بلکہ علوم تفسیر کے ساتھ مسلسل و متواتر اشتغال رکھتا ہو؟ جیساکہ ماضی بعید میں مولانا احمد علی لاہوریؒ اور ماضی قریب میں ڈاکٹر اسرار احمدؒ اور مولانا اخلاق حسین قاسمیؒ تھے؟‘‘ آپ یقین جانیے کہ جوابات میں بس دو نام آئے اور وہ دونوں بھی دو اداروں میں تفسیر کی تدریس انجام دے رہے تھے۔ ہمارے مطلوبہ معیار کے مصداق نہ تھے۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں‘ بلکہ ایک عظیم المیہ ہے۔
۲۰۱۰ء میں ڈاکٹر صاحب کی وفات سے سب سے بڑا نقصان یہی ہوا کہ تفسیر قرآن کے میدان میں ایسا خلا پیدا ہوگیا جس کا پُر ہونا بہ ظاہر آسان نظر نہیں آتا۔ یوں اللہ کی قدرتِ کاملہ سے کیا بعید؟ اُن کے بعد پوری اُمّت میں ایسی کوئی دوسری شخصیت نظر نہیں آتی جو قرآن کریم پر ایسا استحضار بھی رکھتی ہو اور اس کو ایک تحریک کی شکل میں پیش بھی کر رہی ہو‘ وہ بھی پوری حکمت اور اعتدال کے ساتھ۔ ہم بجا طور پر ڈاکٹر صاحب کو ’’قرآن کریم میں رچی بسی شخصیت‘‘ سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ رحمہ اللّٰہ تعالیٰ رحمۃً واسعۃً۔