(بیان القرآن) سُوْرَۃُ الْاِنْشِقَاقِ - ڈاکٹر اسرار احمد

12 /

دورۂ ترجمۂ قرآنسُوْرَۃُ الْاِنْشِقَاقِ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

 

آیت ۱{اِذَا السَّمَآئُ انْشَقَّتْ(۱)} ’’جب آسمان پھٹ جائے گا۔‘‘
نوٹ کیجیے! ان تمام سورتوں کا بنیادی موضوع ’’تذکیر ِآخرت‘‘ ہے۔
آیت۲{وَاَذِنَتْ لِرَبِّہَا وَحُقَّتْ(۲)}’’اور اپنے رب کے حکم کی تعمیل کرے گا اور اسے یہی زیب دیتا ہے۔‘‘
اَذِنَتْ لِرَبِّہَا کا لفظی ترجمہ یوں ہو گا کہ وہ اپنے رب کے حکم پر کان لگائے ہوئے ہے اور جو بات کان لگا کر سنی جائے اس کے مطابق عمل بھی کیا جاتا ہے۔ اَذِنَتْ کا معنی اِسْتَمَعَتْ وَانْقَادَتْ کیا گیا ہے‘یعنی اُس نے غور سے سنا اور تعمیل کی۔ حُقَّتْ یہاں مجہول ہے حَقَّ یَحِقُّ سے۔ یعنی وہ اسی لائق ہے اور اس کا فرض ہے کہ وہ بے چون و چرا اپنے خالق کے حکم پرسرِتسلیم خم کرے۔
آیت ۳{وَاِذَا الْاَرْضُ مُدَّتْ(۳)} ’’اور جب زمین کو پھیلا دیا جائے گا ۔‘‘
آیت۴{وَاَلْقَتْ مَا فِیْہَا وَتَخَلَّتْ(۴)} ’’اور وہ نکال باہر کرے گی جو کچھ اس کے اندر تھا اور خالی ہو جائے گی۔‘‘
سورۃ الزلزال میں یہی بات یوں بیان ہوئی ہے : {وَاَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَھَا(۲)} ’’اور جب زمین اپنے سارے بوجھ نکال کر باہر پھینک دے گی‘‘۔ قیامت کے دن زمین اپنے اندر مدفون تمام انسانوں کے اجسام اور ان کے تمام اجزاء کو نکال باہرکرے گی ۔اس کے علاوہ بھی زمین میں جو کچھ معدنیات اور خزانے مخفی ہیں وہ قیامت کے دن نکال کر باہر پھینک دے گی۔
آیت ۵{وَاَذِنَتْ لِرَبِّہَا وَحُقَّتْ(۵)} ’’اور وہ بھی اپنے رب کے حکم کی تعمیل کرے گی اور اسے یہی زیب دیتا ہے۔‘‘
جس طرح اطاعت و انقیاد کا مظاہرہ آسمان کرے گا ‘ اسی طرح زمین بھی حکم الٰہی بجا لائے گی۔
آیت ۶{یٰٓــاَیُّہَا الْاِنْسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدْحًا فَمُلٰقِیْہِ(۶)}’’اے انسان! تُو مشقّت پر مشقّت برداشت کرتے جا رہا ہے اپنے رب کی طرف‘ پھر تُو اس سے ملنے والا ہے۔‘‘
یہ دنیا انسان کے لیے دارالمِحن یعنی مشقتوں کا گھر ہے۔ انسانی زندگی کی اس تلخ حقیقت کو سورۃ البلد میں یوں بیان فرمایا گیا: {لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ(۴)} کہ انسان تو پیدا ہی مشقّت میں کیا گیا ہے۔ گویا مشقتیں برداشت کرنا‘ دکھ اٹھانا اور سختیاں جھیلنا انسان کا مقدر ہے۔ اس سے کسی انسان کو رستگاری نہیں۔ مزدور ہے تو وہ صبح سے شام تک جسمانی سختیاں سہہ رہا ہے۔ کارخانہ دار ہے تو انتظامی گتھیوں کو سلجھانے میں جگر خون کر رہا ہے۔ اگر کوئی کسی دفتر کی کرسی پر بیٹھا ہے تو ذہنی مشقّت کی چکی میں پس رہا ہے۔ پھر اپنی اور اہل و عیال کی بیماریاں‘ معاشی مشکلات‘ معاشرتی الجھنیں‘ مال و جان کی حفاظت کی فکر وغیرہ کی صورت میں ذہنی و نفسیاتی پریشانیاں الگ ہیں جو ہر انسان کے گلے کا ہار بنی ہوئی ہیں۔ دوسروں سے مسابقت اور مقابلے کا غم اس کے علاوہ ہے جو ہر انسان نے اپنے دل و دماغ میں کسی نہ کسی سطح پر ضرور پال رکھا ہے۔ پیدل چلنے والا سائیکل سوار کو رشک بھری نظروں سے دیکھتاہے‘ سائیکل سوار کار والے کے حسد میں مبتلا ہے۔ چھوٹی کار والا بڑی کار والے سے جلن کا شکار ہے۔ غرض مشقّت‘ تکلیف یا غم کی نوعیت تو مختلف ہو سکتی ہے مگر کوئی انسان ایسا نہیں جو کسی نہ کسی دکھ‘ پریشانی یا مشقّت میں مبتلا نہ ہو۔ان مشقتوں ‘ تکلیفوں اور پریشانیوں کا سامنا انسان کو روزِ اوّل سے ہے اور رہتی دنیا تک رہے گا۔ جیتے جی کوئی انسان اس سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتا۔ مرزا غالب ؔنے اس حوالے سے بڑے پتے کی بات کہی ہے : ؎
قید ِحیات و بند ِغم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں!
ان مشقتوں اور مصیبتوںمیں گھری انسانی زندگی کی یہ سختیاں اور پریشانیاں اپنی جگہ ‘لیکن انسان کا اصل مسئلہ اس سے کہیں زیادہ گمبھیر اور پریشان کن ہے۔ اور وہ مسئلہ ہے کہ : ؎
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے؟
انسان کے اخروی احتساب کا تصوّر ذہن میں لائیں اور پھر موازنہ کریں کہ باقی جانداروں کے مقابلے میں ’’انسان‘‘ کس قدر مشکل میں ہے۔ ایک بار بردار جانور کی زندگی کا معمول چاہے جتنا بھی مشکل ہو لیکن اس کی مشقّت اور تکلیف اس کی زندگی کے ساتھ ختم ہو جاتی ہے۔ ظاہر ہے ایک بیل جب ہل یا رہٹ چلاتے چلاتے مر جاتا ہے تو اس مشقّت سے ہمیشہ کے لیے چھوٹ جاتا ہے۔ لیکن اس کے مقابلے میں ایک انسان ہے جو کوفت پر کوفت برداشت کرتا اور تکلیف پر تکلیف جھیلتا جب اس دنیا سے جائے گا تو اسے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہو کر اپنی دنیوی زندگی کے ایک ایک پل کا حساب دینا ہو گا۔ اس ضمن میں حضورﷺ کا فرمان ہے :
((لَا تَزُوْلُ قَدَمُ ابْنِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مِنْ عِنْدِ رَبِّہٖ حَتّٰی یُسْأَلَ عَنْ خَمْسٍ: عَنْ عُمُرِہٖ فِیْمَا اَفْنَاہُ ، وَعَنْ شَبَابِہٖ فِیْمَا اَبْلَاہُ ، وَمَالِہٖ مِنْ اَیْنَ اکْتَسَبَہٗ وَفِیْمَ اَنَفَقَہٗ ، وَمَاذَا عَمِلَ فِیْمَا عَلِمَ))(سنن الترمذی‘ کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع‘ باب ما جاء فی شان الحساب والقصاص۔ ح:۲۴۱۶۔ راوی : عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ)
’’ابن آدم کے پائوں قیامت کے روز اپنے رب کے حضور اپنی جگہ سے ہل نہیں سکیں گے جب تک اس سے پانچ چیزوں کا حساب نہ لے لیا جائے : اس کی عمر کے بارے میں کہ کہاں فنا کی؟ اس کی جوانی (کی قوتوں‘ صلاحیتوں اور اُمنگوں ) کے دورکے بارے میں کہ کیسے گزارا؟مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟ (حلال ذرائع سے کمایا یا حرام طریقے سے اور اللوں تللوں میں خرچ کیا یا ادائے حقوق کے لیے؟)اور جو علم حاصل ہوا تھا اس پر کتنا عمل کیا؟‘‘
یعنی دنیا میں باربرداری بھی کرو‘ جسمانی ‘ ذہنی اور نفسیاتی اذیتیں بھی برداشت کرو۔ مال وجان اور اولاد سے متعلق رنگا رنگ صدمے جھیلتے جھیلتے زندگی بھر کانٹوں پربھی لوٹتے رہو اور پھر مرنے کے بعد ایک ایسی ہستی کے سامنے کھڑے ہو کر پل پل کا حساب بھی دوجس سے تمہارے قلوب و اذہان کی گہرائیوں میں پیدا ہونے والے جذبات و خیالات بھی پوشیدہ نہیں ۔ یہ ہے ’’انسان‘‘ کی اصل ٹریجڈی!
یہ مرحلہ ایک انسان کے لیے ایسا مشکل ہے کہ اسے یاد کر کے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اکثر رویا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ کاش میں ایک چڑیا ہوتا!
دیکھا جائے تو حضورﷺ کے درج بالا فرمان میں مذکور سوالات میں سے آخری سوال سب سے مشکل ہے۔ جس کسی نے دین اور قرآن کا علم جس قدر زیادہ سیکھا اس کے لیے اس کا حساب دینا اسی قدر مشکل ہو گا۔ اگر کسی انسان تک قرآن کی یہ دعوت پہنچ ہی نہیں پائی تو ممکن ہے کہ اس کی طرف سے کوئی عذر بھی قبول ہو جائے۔ (ایسی صورت میں اس کوتاہی کا کچھ نہ کچھ بوجھ ان لوگوں پر بھی ضرور پڑے گا جنہوں نے اسے دعوت پہنچانے میں تساہل برتا )لیکن جن لوگوں تک قرآن کی دعوت پہنچ گئی اور انہوں نے اپنی استعداد کے مطابق قرآن کے پیغام کو سمجھ بھی لیا تو ظاہر ہے ان کے لیے اس آخری سوال کا جواب دینا بہت مشکل ہو گا۔
آیت ۷{فَـاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ کِتٰــبَہٗ بِیَمِیْـنِہٖ(۷)}’’تو جس کو دیا جائے گا اس کا اعمال نامہ داہنے ہاتھ میں۔‘‘
آیت ۸{فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیْرًا(۸)}’’تو اس سے لیا جائے گا بہت ہی آسان حساب۔‘‘
اس حساب کی کیفیت کیا ہو گی؟ اس کی وضاحت حضرت عائشہ صدیقہرضی اللہ تعالیٰ عنہاکی روایت کردہ بخاری و مسلم کی اس حدیث میں آئی ہے۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ((مَنْ حُوْسِبَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عُذِّبَ)) ’’قیامت کے روز جس کا حساب لیا جائے گا اسے تو ضرور عذاب دیا جائے گا‘‘۔اس پر میں نے عرض کیا: کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے : {فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیْرًاo} تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ((لَـیْسَ ذَاکِ الْحِسَابُ، اِنَّمَا ذَاکِ الْعَرْضُ، مَنْ نُوقِشَ الْحِسَابَ یَوْمَ الْقِیاَمَۃِ عُذِّبَ))(صحیح البخاری‘ کتاب العلم‘ باب من سمع شیئا فلم یفھمہ … ح:۱۰۳۔ وصحیح مسلم‘ کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا واھلھا‘ باب اثبات الحساب‘ ح:۲۸۷۶ واللفظ لہ۔) ’’یہ حساب نہیں ہوگا‘ یہ تو محض (اعمال نامہ) پیش کیا جانا ہو گا ‘ روزِ قیامت جس کے حساب کی جانچ پڑتال کی گئی اُسے تو ضرور عذاب دیا جائے گا۔‘‘
یعنی جس خوش قسمت انسان کا اعمال نامہ اُس کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا ‘ا س سے نہ تو کوئی سوال ہو گا اور نہ ہی اس کے مواخذے اور مناقشے کی نوبت آئے گی۔ بس اس کے اعمال نامے کو ایک نظر دیکھ کر اس کی خطائوں کو معاف کر دیا جائے گا ۔یعنی اللہ تعالیٰ اس شخص سے نرمی کا معاملہ فرمائے گا۔ (اللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ!)
آیت ۹{وَّیَنْقَلِبُ اِلٰٓی اَہْلِہٖ مَسْرُوْرًا(۹)}’’اور وہ لوٹے گا اپنے گھر والوں کی طرف شاداں و فرحاں۔‘‘
عدالت کے کٹہرے سے وہ شخص جب اپنے ان اہل و عیال‘ رشتہ دار اور ساتھیوں کی طرف واپس لوٹے گا جو اُسی کی طرح معاف کیے گئے ہوں گے تو بہت خوش ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے میری بھی خلاصی ہو گئی۔
آیت ۱۰{وَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ کِتٰـبَہٗ وَرَآئَ ظَہْرِہٖ(۱۰)}’’اور جس کو دیا جائے گا اس کا اعمال نامہ اس کی پیٹھ کے پیچھے سے۔‘‘
قرآن کریم کی اکثر آیات میں ایسے لوگوں کو بائیں ہاتھ میں اعمال نامے دیے جانے کا ذکر ہے۔ اس سیاق و سباق میں یہاں وَرَآئَ ظَہْرِہٖ کے الفاظ سے یوں لگتا ہے کہ فرشتہ ایک مجرم شخص کو جب اس کا اعمال نامہ پکڑانے لگے گا تو وہ اس سے بچنے کے لیے اپنا بایاں ہاتھ اپنی کمر کے پیچھے چھپا لے گا۔ چنانچہ اسی حالت میں اعمال نامہ پیچھے سے اس کے بائیں ہاتھ میں تھما دیا جائے گا۔
آیت۱ ۱{فَسَوْفَ یَدْعُوْا ثُــبُوْرًا(۱۱)}’’تو اب وہ موت کی طلب کرے گا۔‘‘
اُس وقت اُس کی ایک ہی خواہش ہو گی کہ مجھے موت آجائے اور میں مر کر ختم ہو جائوں۔
آیت ۱۲{وَّیَصْلٰی سَعِیْرًا(۱۲)}’’لیکن وہ داخل ہو گا جہنّم میں۔‘‘
آیت ۱۳{اِنَّہٗ کَانَ فِیْٓ اَہْلِہٖ مَسْرُوْرًا(۱۳)} ’’یقیناً (دنیا میں) وہ اپنے اہل و عیال میں بہت خوش و خرم تھا۔‘‘
دنیا میں وہ حرام کی کمائی سے اپنے اہل و عیال کے ساتھ عیش کرتا رہا اور آخرت کے محاسبے کا کبھی تصوّر بھی ذہن میں نہ لایا۔ یہاں پر ایک اہم نکتہ یہ بھی سمجھ لیجیے کہ اگر کوئی شخص اپنی روزی تو سوفیصد حلال ذرائع سے کما رہا ہے لیکن وہ اللہ کے دین کا حق ادا نہیں کر رہا تو ایسے شخص کی حلال ذرائع سے کمائی ہوئی وہ روزی بھی حلال نہیں ۔ اس لیے کہ اُس نے اپنی روزی کمانے کی اس تگ و دو میں جو وقت‘ صلاحیتیں اور وسائل صَرف کیے ہیں ان میں دین کے حقوق کا حصّہ بھی شامل تھا۔گویا اپنے وقت‘ وسائل اور اپنی صلاحیتوں کا وہ حصّہ جو اُسے اللہ کے دین کے لیے خرچ کرنا چاہیے تھا اس حصّے کو غصب کر کے وہ اپنے ذاتی استعمال میں لے آیا ہے ۔تودین کے حقوق کو غصب کرکے کمائی ہوئی ایسی روزی حلال کیسے ہو سکتی ہے ؟دراصل حلال و حرام کے معاملے کو بہت دِقّت ِ نظری سے جانچنے اور پرکھنے کی ضرورت ہے۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس معاملے کو عام طورپر بہت سطحی انداز میں دیکھا اور پرکھا جاتا ہے۔مثلاً ایک عام مسلمان سؤر کا گوشت کھانے کا تو تصوّر بھی نہیں کر سکتا لیکن وہ اس بکری کا گوشت بہت مزے اور رغبت سے کھا لیتا ہے جو اُس نے کسی کی جیب پر ڈاکہ ڈال کر خریدی ہوتی ہے۔ اب ایسی بکری کے بارے میں کون کہے گا کہ وہ حلال ہے اور حرام نہیں ہے!
اس موضوع کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اگر کوئی مسلمان باطل کے غلبے کے تحت اطمینان و سکون سے زندگی بسر کر رہا ہے اور اس نظام کو تبدیل کرنے کے لیے کوئی جدّوجُہد نہیں کر رہا تو وہ بزعم خویش بے شک ناپ تول کر حلال ہی کیوں نہ کھا رہا ہو ‘اُس کا کھانا پینا حتیٰ کہ اس ماحول میں سانس لینا سب حرام ہے۔ ایسے شخص کو خود سوچنا چاہیے کہ وہ کس نظام کی چاکری کر رہا ہے؟ کس کے اقتدار کو کندھا دے رہا ہے ؟ تنخواہ کہاں سے لے رہا ہے؟ اور اپنا کاروبار کس کی مدد سے آگے بڑھا رہا ہے ؟ ظاہر ہے وہ یہ سب کچھ باطل نظام کے لیے کررہا ہے اور طاغوت کی فراہم کردہ چھتری کے سائے میں کررہا ہے۔ چنانچہ کسی مسلمان کا کسی باطل نظام کے تحت ہنسی خوشی زندگی گزارنا کسی طور پر جائز نہیں۔اِلایہ کہ ایسی صورتِ حال میں وہ کراہت اور بے چینی میں زندگی بسرکرے‘ اپنی ضروریات کو کم سے کم سطح پر رکھے اور باطل نظام کو بدلنے کے لیے اپنا تن من دھن کھپا دینے پر ہمہ وقت کمربستہ رہے ۔ اس طرح امید کی جا سکتی ہے کہ اس کی یہ سوچ اور جدّوجُہد باطل نظام کے تحت زندگی بسر کرنے کے گناہ کا کفّارہ بن جائے گی۔
آیات زیر مطالعہ میں دو انسانی کرداروں کا نقشہ دکھایا گیا ہے۔ ان میں ایک کردار تو اللہ کے اُس بندے کا ہے جو دُنیوی زندگی کے دوران آخرت کی جواب طلبی کے احساس سے ہر وقت لرزاں و ترساں رہتا تھا ۔ ایسے لوگوں کے اعصاب پر آخرت کے احتساب کا خوف اس حد تک مسلط ہوتا ہے کہ وہ اپنی اس کیفیت کو جنّت میں پہنچ کر بھی یاد کریں گے: {قَالُوْا اِنَّا کُنَّا قَبْلُ فِیْٓ اَہْلِنَا مُشْفِقِیْنَ(۲۶)}(الطور) ’’وہ کہیں گے کہ ہم پہلے (دنیا میں) اپنے اہل و عیال میںڈرے ہوئے رہتے تھے‘‘۔ایسے ہی ایک شخص کے بارے میں یہاں بتایا گیا ہے کہ وہ اللہ کی عدالت سے اپنی کامیابی کی نوید سننے کے بعد اپنے گھر والوں کی طرف شاداں و فرحاں لوٹے گا۔ اس کے مقابلے میں ایک کردار وہ ہے جو آخرت اور آخرت کے محاسبے سے بے خبر اپنے اہل و عیال کے ساتھ عیش وعشرت میں مست رہا۔ ایسے شخص نے دنیا میں بلاشبہ ایک خوشحال اور خوشیوں بھری زندگی گزاری‘لیکن آخرت میں اس کے لیے جہنم کی آگ کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔
آیت ۱۴{اِنَّـہٗ ظَنَّ اَنْ لَّنْ یَّحُوْرَ(۱۴)} ’’اُسے گمان ہو گیا تھا کہ کبھی لوٹ کر نہیں آنا ہے۔‘‘
آیت ۱۵{بَلٰٓی ج اِنَّ رَبَّہٗ کَانَ بِہٖ بَصِیْرًا(۱۵)}’’کیوں نہیں! یقیناً اُس کا ربّ تو اُسے خوب دیکھ رہا تھا۔‘‘
اگلی تین آیات میں تین قسمیں کھائی گئی ہیں۔ اپنے مضمون اور اسلوب کے اعتبار سے یہ آیات سورۃ المدثر کی ان آیات کے ساتھ خاص مناسبت اور بہت گہری مشابہت رکھتی ہیں:{کَلَّا وَالْقَمَرِ(۳۲) وَالَّیْلِ اِذْ اَدْبَرَ(۳۳) وَالصُّبْحِ اِذَآ اَسْفَرَ(۳۴)}’’کیوں نہیں ‘قسم ہے چاند کی۔اور قسم ہے رات کی جب کہ وہ پیٹھ موڑے۔ اور قسم ہے صبح کی جبکہ وہ روشن ہو جائے‘‘۔ ان دونوں مقامات کے مابین ایک مشابہت یہ بھی ہے کہ ان دونوں سورتوں میں قسموں پر مشتمل مذکورہ آیات سے بالکل نیا مضمون شروع ہوتا ہے۔ سورۃ المدثر میں بھی{کَلَّا وَالْقَمَرِ(۳۲)} سے ایک نئے مضمون کا آغاز ہو رہا ہے اور بالکل ایسی ہی صورتِ حال زیرمطالعہ سورت کے اس مقام پر بھی نظر آتی ہے۔
آیت ۱۶{فَلَآ اُقْسِمُ بِالشَّفَقِ(۱۶)} ’’تو نہیں ‘مجھے قسم ہے شام کی سرخی کی۔‘‘
آیت ۱۷{وَالَّـیْلِ وَمَا وَسَقَ(۱۷)}’’اور رات کی اور اُن چیزوں کی جن کو وہ سمیٹے ہوئے ہے۔‘‘
آیت ۱۸{وَالْقَمَرِ اِذَا اتَّسَقَ(۱۸)} ’’اور چاند کی جب وہ پورا ہو جاتا ہے۔‘‘
میری خالص ذاتی رائے کے مطابق (واللہ اعلم!) سورۃ المدثر کی مذکورہ آیات (۳۲‘ ۳۳‘۳۴) میں بعثت ِمحمدیﷺ کی خبر دی گئی ہے‘ جبکہ زیر مطالعہ آیات میں اسلام کی نشا ٔۃِ ثانیہ کی نشاندہی کی گئی ہے۔سورۃ المدثر کے مطالعے کے دوران اس موضوع پر تفصیلی گفتگو ہو چکی ہے۔ اس تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ رات {وَالَّـیْلِ اِذْ اَدْبَرَ(۳۳)} سے مراد چھ سو سال (حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد سے حضورﷺ کی نبوت کے ظہور تک)کا وہ طویل عرصہ ہے جس کے دوران وحی و نبوت کا سلسلہ منقطع رہا اور دُنیا پر مجموعی طور پر کفر و شرک اور ضلالت و جہالت کے اندھیرے چھائے رہے۔ چاند کی قسم {کَلَّا وَالْقَمَرِ(۳۲)}میں علم و ہدایت کی اس مدھم روشنی کا استعارہ ہے جو جن و اِنس کے نیک افراد کی صورت میں اس دوران کہیں کہیں موجود رہی‘ جبکہ صبح کی قسم {وَالصُّبْحِ اِذَآ اَسْفَرَ(۳۴)} کے پردے میں نبوتِ محمدی ﷺکے خورشید کے طلوع ہونے کی خبر دی گئی ہے ‘اور اس کے بارے میں یہ بھی واضح کر دیا گیا ہے : {اِنَّھَا لَاِحْدَی الْکُبَرِ(۳۵)} کہ یہ بلاشبہ ایک بہت عظیم واقعہ ہے۔ظاہر ہے نوعِ انسانی کی تاریخ میں نبوتِ محمدیﷺ کے ظہور سے بڑا کوئی اور واقعہ کیا ہو گا۔
بہرحال نبوت و رسالت ِمحمدی ﷺکے خورشید ِجہاں تاب کی تابانیوں سے چھ سو سال کی تاریکیاں چھٹ گئیں۔ حضورﷺ کی وساطت سے اَبنائے آدم کو ’’اَکْمَلْتُ لَـکُمْ دِیْنَـکُمْ‘‘ کی خصوصی سند بھی عطا ہوئی ‘ جزیرہ نمائے عرب میں انسانی تاریخ کا عظیم ترین انقلاب بھی رونما ہو گیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس انقلاب کی فتوحات و برکات تین براعظموں تک پھیل گئیں۔ لیکن چند ہی دہائیوں کے بعد مشیت ِخداوندی سے نہ صرف مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے قدم رک گئے‘ بلکہ رفتہ رفتہ وہ پسپائی پر مجبور ہو گئے۔ پسپائی کا یہ عمل جب شروع ہوا تو صرف جنگی محاذوں سے پیچھے ہٹنے تک ہی محدود نہ رہا بلکہ مسلمان بحیثیت قوم زندگی کے ہر شعبے اور ہر میدان سے دست بردار ہو کر نکبت و ادبار کی پستیوں میں لڑھکتے چلے گئے۔ یہ سفر آج بھی جاری ہے اور ابھی اس کے رکنے کے بظاہر کوئی آثار بھی نظر نہیں آتے۔ یہ گمبھیر صورتِ حال اپنی جگہ پر ایک زمینی حقیقت ہے ‘لیکن دوسری طرف ہمارا ایمان ہے کہ قیامت سے پہلے اسلام پوری دنیا پر غالب آئے گا۔ اس بارے میں حضورﷺ کے فرمودات بہت واضح ہیں (اس مضمون کی احادیث ’’نوید ِخلافت‘‘ کے عنوان سے ایک کتابچے میں جمع کر دی گئی ہیں۔ تفصیل جاننے کے لیے اس کتابچے سے استفادہ کیا جا سکتا ہے) ۔میں سمجھتا ہوں کہ زیر مطالعہ آیات میں اسلام کے اسی غلبے کی بشارت دی گئی ہے جس کی تفصیل حضورﷺ کے فرمودات میں ملتی ہے۔
میرے نزدیک یہاں پہلی قسم {فَلَآ اُقْسِمُ بِالشَّفَقِ(۱۶)} میں اسلام کے رفتہ رفتہ زوال پذیر ہونے کی صورتِ حال کا نقشہ دکھایا گیا ہے۔ یعنی سورج غروب ہو چکا ہے اور اب اُفق پر صرف شفق کی سرخی نظر آرہی ہے۔دوسری قسم {وَالَّـیْلِ وَمَا وَسَقَ(۱۷)} میں حالات کے مزید گمبھیر ہونے کی طرف اشارہ ہے کہ دین پر عمل کے اعتبار سے دنیا میں ایک دفعہ پھر تاریکی چھا جائے گی‘ صرف مدھم سی روشنی باقی رہے گی جو وقت آنے پر آہستہ آہستہ بڑھتی جائے گی۔ درجہ بدرجہ بڑھتے ہوئے چاند کی قسم {وَالْقَمَرِ اِذَا اتَّسَقَ(۱۸)} اسی مدھم اور تدریجاً بڑھتی ہوئی روشنی کا استعارہ ہے۔ ظاہر ہے جب چاند پورا ہو جاتا ہے تو اس کی چاندنی ایک حد تک رات کو روشن کر دیتی ہے۔ اس کے بعد فرمایا:
آیت ۱۹{لَتَرْکَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ(۱۹)} ’’(اسی طرح) تم لازماًچڑھو گے درجہ بدرجہ۔‘‘
یعنی جس طرح چاند درجہ بدرجہ بڑا ہو کر مرحلہ وار رات کو روشن کرتا ہے بالکل اسی طرح تم مرحلہ وار کوششوں سے غلبہ ٔدین کی منزل تک پہنچو گے۔ واضح رہے کہ لَتَرْکَبُنَّ کے صیغے میں زور اور تاکید بھی ہے کہ تم لوگ اس منزل تک ضرور پہنچو گے ۔ ظاہر ہے ہمیں یہ خبر محمد رسول اللہﷺ نے دی ہے وَھُوَ الصَّادِقُ وَالْمَصْدُوْق! آپؐ کی دی ہوئی خبر غلط نہیں ہو سکتی ۔لہٰذا دنیا پر اسلام کا مکمل غلبہ ہو کر رہے گا۔ البتہ اسلام کے پہلے غلبے کی شان اور تھی اور دوسرے غلبے کا انداز اور ہو گا۔ یہ فرق سورۃ المدثر کی آیت ۳۴ اور زیر مطالعہ سورت کی آیت ۱۸ پر غور کرنے سے خود بخود واضح ہو جاتا ہے۔ یعنی اسلام کے پہلے غلبے کا ظہور صبح کے اُجالے کی طرح ہوا تھا: {وَالصُّبْحِ اِذَآ اَسْفَرَ(۳۴)}(المدّثّر)۔اس اُجالے کی شان یہ تھی کہ ادھر آفتابِ نبوتؐ طلوع ہوا اور اُدھر دیکھتے ہی دیکھتے پورا ماحول منورہو گیا۔یعنی حضورﷺ کی دعوت کے آغاز کے بعد صرف تیئیس (۲۳) برس کے مختصر عرصے میں تاریخ ِانسانی کا عظیم ترین انقلاب برپا ہو گیا اور جزیرہ نمائے عرب میں اسلام پوری طرح غالب آگیا۔ ظاہر ہے سورج کے طلوع ہونے کے بعد روشنی ہونے میں زیادہ دیر تو نہیں لگتی۔
البتہ اسلام کے دوسرے غلبہ کی روشنی چاند کی چاندنی کی طرح مرحلہ وار اور تدریجاً پھیلے گی۔ یعنی اب اقامت ِدین اور خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا نظام کسی ایک داعی یا کسی ایک تحریک کی کوششوں اور کسی ایک نسل کے زمانے میں نہیں بلکہ نسل در نسل جدّوجُہد سے قائم ہو گا۔ جیسے برعظیم پاک و ہند میں علّامہ اقبال نے ایک فکر کو واضح کیا کہ اسلام مذہب نہیں بلکہ دین ہے اور ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور یہ کہ’’جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘ یعنی مسلمان اس ضابطہ حیات کو ایک ’’وحدت‘‘ کے طور پر زندگی کے تمام شعبوں میں نافذ کرنے کے لیے جدّوجُہد کریں۔پھر مولانا ابوالکلام آزاد نے ’’حزبُ اللہ ‘‘اور مولانا مودودی نے ’’جماعت اسلامی‘‘ کے پلیٹ فارم سے اقامت ِدین کے لیے جدّوجُہد کی۔ اسی طرح آئندہ اَدوار میں بھی اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اُس کے بندے اس جدّوجُہد کا علم سنبھالے رہیں گے۔ مختلف تحریکیں اس مشن کی ترویج و ترقی کے لیے مختلف انداز میں کردار ادا کرتی رہیں گی اور بالآخران اجتماعی اور مرحلہ وار کوششوں کے نتیجے میں جب اللہ کو منظور ہو گا اسلام بطور دین پوری دنیا میں غالب ہو جائے گا۔
آیت ۲۰{فَمَا لَہُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ(۲۰)} ’’تو انہیں کیا ہو گیا ہے کہ یہ ایمان نہیں لاتے؟‘‘
آیت ۲۱{وَاِذَا قُرِیَٔ عَلَیْہِمُ الْقُرْاٰنُ لَا یَسْجُدُوْنَ(۲۱)}’’اور جب انہیں قرآن پڑھ کر سنایا جاتا ہے تو یہ سجدہ نہیں کرتے؟‘‘
آیت۲۲{بَلِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُـکَذِّبُوْنَ(۲۲)} ’’بلکہ یہ کافر تو جھٹلا رہے ہیں۔‘‘
اس آیت کے الفاظ سے یہ اہم نکتہ بھی واضح ہوتا ہے کہ کفر اور تکذیب باہم مترادفات نہیں بلکہ الگ الگ معنی ٰکے حامل دو الفاظ ہیں۔ کفر کے لغوی معنی چھپانے کے ہیں۔ اس مفہوم میں کسی انسان کا ’’کفر‘‘ یہ ہے کہ اس کی فطرت کے اندر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی معرفت سے متعلق جو گواہیاں رکھی ہیں ‘وہ جانتے بوجھتے ان گواہیوں کو چھپا دے اور لوگوں کے سامنے ان کا اقرار و اظہار نہ کرے۔ جبکہ تکذیب سے مراد اللہ تعالیٰ کی ان آیات کو جھٹلانا ہے جو انسانی فطرت میں موجود گواہیوں کو اُجاگر(activate) کرنے کے لیے اس کی طرف سے نازل ہوئیں۔ اس لحاظ سے کفر اور تکذیب دو الگ الگ جرائم ہیں ۔بلکہ اس وضاحت کے اعتبار سے دیکھا جائے تو کفر کے مقابلے میں تکذیب بڑا جرم ہے۔ حضرت آد م علیہ السلام کو زمین پر بھیجتے وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپؑ کو جو چارٹر عطا کیا گیا تھا اس میں بھی ان دونوں جرائم کا ذکر الگ الگ ہوا ہے۔ ملاحظہ ہو اس چارٹر کی عبارت :
{قُلْنَا اھْبِطُوْا مِنْھَا جَمِیْعًاج فَاِمَّا یَاْتِیَنَّـکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی فَمَنْ تَبِعَ ھُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ(۳۸) وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَکَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَـآ اُولٰٓـئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِج ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ(۳۹)}
’’ہم نے کہا: تم سب کے سب یہاں سے اُتر جائو۔تو جب بھی آئے تمہارے پاس میری جانب سے کوئی ہدایت‘ تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے اُن کے لیے نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ حزن سے دوچار ہوں گے۔اور جو کفر کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے وہ آگ والے (جہنمی) ہوں گے‘ اس میں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔‘‘
ان دونوں جرائم میں سے پہلے جرم یعنی کفر کے بارے میں تو شاید کوئی عذر بھی قبول ہوجائے ۔ مثلاً یہ عذر کہ ماحول کے منفی اثرات کی وجہ سے کسی انسان کی روح یا فطرت پر غفلت یا جہالت کے پردے پڑ گئے تھے‘ اور اس وجہ سے اس کی فطرت کے آئینے میں اللہ تعالیٰ کی معرفت پوری طرح سے منعکس نہ ہو سکی۔ مگرجب اللہ تعالیٰ کی واضح آیات کی صورت میں انسان کے سامنے باقاعدہ روشنی آ گئی اور اس روشنی سے بھی اس کو وہی پیغام ملا جو عین اُس کی اپنی فطرت کی پکار تھی تو اس کا جانتے بوجھتے ان آیات کو جھٹلا دینا یقیناً بہت بڑی ڈھٹائی اور بہت بڑا جرم ہے جس کے خلاف کوئی عذر قابل قبول نہیں ہو سکتا۔
آیت۲۳{وَاللہُ اَعْلَمُ بِمَا یُوْعُوْنَ(۲۳)} ’’اور اللہ کو خوب معلوم ہے کہ یہ لوگ (اپنے اندر) کیا بھرے ہوئے ہیں۔‘‘
عام طور پر اس آیت کے بارے میں یہی سمجھا گیا ہے کہ اس میں انسان کے مال و دولت جمع کرنے کی طرف اشارہ ہے‘ لیکن دراصل اس سے دلوں اور سینوں کی گندگی مراد ہے ۔یعنی اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ ان لوگوںکے سینے کفر‘ عداوت‘ بغض‘ حسد‘ تکبّر وغیرہ کی غلاظتوں سے بھرے ہوئے ہیں اور اسی وجہ سے یہ اللہ کی آیات کو پہچان لینے کے بعد بھی ان کی تکذیب کررہے ہیں۔
آیت ۲۴{فَـبَشِّرْہُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ(۲۴)}’’تو (اے نبیﷺ!) ان کو بشارت دے دیجیے دردناک عذاب کی۔‘‘
آیت ۲۵{اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوالصّٰلِحٰتِ لَہُمْ اَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنٍ(۲۵)} ’’البتہ جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے ‘ ان کے لیے کبھی نہ ختم ہونے والا اجر ہے۔‘‘
مَنَّ یَمُنُّ مَنًّا کے لغوی معنی کسی چیز کو کاٹ دینے کے ہیں۔ ظاہر ہے جب کسی چیز کو کاٹ دیا جاتا ہے تواس کی انتہا ہو جاتی ہے۔ چنانچہ اَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْن سے مراد ایسا اَجر ہے جس کا سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہو گا۔