لقمان حکیم کی وصیتیں(۴)مقصود الحسن فيضى
پانچویں اور چھٹی وصیت: نیکی کا حکم دو اور برائی سے منع کرو
حضرت لقمان نے اپنےبیٹے کو نماز کا حکم دینے کے بعد فرمایا:
{وَاْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنْکَرِ} (لقمٰن:۱۷)
’’(میرے بیٹے!لوگوں کو)نیکی کا حکم دو اور (انہیں)برائی سے روکو ۔‘‘
اس وصیت میں دراصل یہ تربیت کی جارہی ہےکہ صرف خود نیک بن جانا‘ اپناعقیدہ درست کرلینا اورخود عبادات کا اہتمام کرلیناکافی نہیں ہے بلکہ ہر معروف‘ جس میں سرفہرست توحید اورنماز ہے‘لوگوں کو اس کاحکم دیاجائے اور اس کی تبلیغ کی جائے۔اسی طرح ہر منکر (برائی) سے‘ جس میں سرفہرست شرک اور نماز کاچھوڑناہے‘ لوگوں کوروکاجائے اور اس کی قباحت اور سنگینی سےانہیں آگاہ کیاجائے۔
اپنی اصلاح کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے‘کیونکہ معاشرےکابہترین فرد وہ ہے جو خود بھی فائدہ اٹھائے اور دوسروں کوبھی فائدہ پہنچائے۔جواپنی بھی اصلاح کرے اور دوسروںکی اصلاح کے لیے بھی عملی کوشش کرے۔اس وصیت میں یہ بھی اشارہ ہےکہ لوگوں کی اصلاح کرنےوالےکو سب سےپہلےاپنا عمل درست کرناچاہیےتاکہ اس کے قول وفعل میں تضاد نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت لقمان نےاپنےبیٹےکوپہلے خود توحیداختیارکرنے ‘شرک سےبچنے ‘والدین کےساتھ حسن سلوک اور نماز قائم کرنےکی وصیت کی‘ پھراسےنیکی کاحکم دینے اور برائی سے منع کرنےکی ترغیب دلائی۔انبیاء کرام علیہم السلام کا شیوہ یہی رہا ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَج}(النحل:۳۶)
’’اور ہم نے ہر اُمّت میں ایک رسول (اس پیغام کے ساتھ)بھیجا کہ (لوگو!)صرف اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت (اُس کے سوا معبودوں) کی عبادت سے بچو ۔‘‘
اس فریضے کے ترک کرنے پر بنی اسرائیل اور ان سے پہلےکے لوگوں کی مذمت کی گئی۔
{فَلَوْلَا کَانَ مِنَ الْقُرُوْنِ مِنْ قَبْلِکُمْ اُولُوْا بَقِیَّۃٍ یَّنْہَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِی الْاَرْضِ اِلَّا قَلِیْلًا مِّمَّنْ اَنْجَیْنَا مِنْہُمْج } (ھود:۱۱۶)
’’پس کیوںنہ تم سےپہلےزمانےکےلوگوںمیںسےایسےاہل خیرلوگ ہوئے جو زمین میں فساد پھیلانےسےروکتے ‘سوائے ان چندکےجنہیںہم نے ان میںسے نجات دی تھی۔‘‘
ایک اور جگہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{لَوْلَا یَنْہٰـہُمُ الرَّبّٰنِیُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ عَنْ قَوْلِـہِمُ الْاِثْمَ وَاَکْلِہِمُ السُّحْتَط لَبِئْسَ مَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ(۶۳)} (المائدۃ)
’’انہیں(یہودکو)ان کے عابد اور عالم جھوٹی باتیںکہنے اور حرام مال کھانے سے کیوں نہیں روکتے؟بے شک وہ بہت برا کر رہے ہیں۔‘‘
جن لوگوں نے اس فریضے کی ادائیگی میں غفلت برتی‘ انہیں رسوا کن عذاب کا سامنا کرنا پڑا:
{فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُکِّرُوْا بِہٖٓ اَنْجَیْنَا الَّذِیْنَ یَنْہَوْنَ عَنِ السُّوْٓئِ وَاَخَذْنَا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا بِعَذَابٍم بَئِیْسٍم بِمَا کَانُوْا یَفْسُقُوْنَ(۱۶۵) } (الاعراف)
’’پھر جب وہ اس نصیحت کوبھول گئے جو ان کوکی گئی تھی تو ہم نے ان لوگوںکو تو (عذاب سے)بچالیا جو برائی سے منع کرتےتھے اور ظالموںکو ان کےگناہوںکی وجہ سےایک سخت عذاب میںپکڑلیا۔‘‘
اس اُمّت کی افضلیت اور خیریت بھی اسی فریضے کی مرہونِ منّت ہے:
{کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ ط}(آل عمران:۱۱۰)
’’تم بہترین اُمّت ہو جو لوگوںکے لیے پیداکی گئی ہےکہ تم نیکی کاحکم دیتےہو اور برائی سے منع کرتےہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘
فریضہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو ترک کرنا بڑی ہلاکت کا سبب بن سکتا ہے۔ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
((مَثَلُ القَائِمِ عَلٰى حُدُودِ اللّٰهِ وَالوَاقِعِ فِيهَا، كَمَثَلِ قَوْمٍ اسْتَهَمُوا عَلٰى سَفِينَةٍ، فَأَصَابَ بَعْضُهُمْ أَعْلَاهَا وَبَعْضُهُمْ أَسْفَلَهَا، فَكَانَ الَّذِينَ فِي أَسْفَلِهَا إِذَا اسْتَقَوْا مِنَ المَاءِ مَرُّوا عَلٰى مَنْ فَوْقَهُمْ، فَقَالُوا: لَوْ أَنَّا خَرَقْنَا فِي نَصِيبِنَا خَرْقًا وَلَمْ نُؤْذِ مَنْ فَوْقَنَا، فَإِنْ يَتْرُكُوهُمْ وَمَا أَرَادُوا هَلَكُوا جَمِيعًا، وَإِنْ أَخَذُوا عَلٰى أَيْدِيهِمْ نَجَوْا، وَنَجَوْا جَمِيعًا))(۳۸)
’’اللہ کی حدود پر قائم رہنےوالے اور انہیںپامال کرنےوالےکی مثال ان لوگوںکی طرح ہےجنہوںنےایک کشتی پر سوار ہونےکے لیے قرعہ اندازی کی‘پس ان میں سے کچھ اس کےاوپروالےحصےپر سوار ہوگئے اور ان میںسے بعض کشتی کے نچلے حصےمیں سوار ہوگئے۔نچلےحصےوالے جب پانی لینےکے لیے آتے تو اوپر والوں کے پاس سے گزرتے‘اس پرانہوںنےکہا:(پانی لینے کے لیے ) اگر ہم اپنے حصے کی جگہ میںسوراخ کرلیں اور اوپروالوںکو(با ر بار آنےجانےسے )تکلیف بھی نہ دیں (تو یہ بہترہوگا)‘ اب اگر تو اوپروالوںنےانہیں ان کےارادے اور حال پرچھوڑدیا تو سب ہلاک ہوں گے‘اوراگرانہوںنے ان کےہاتھوںکوپکڑلیا تو سب نجات پاجائیںگے ۔‘‘
ساتویں وصیت: صبر کا حکم
توحید اور شرک سے اجتناب پر ثابت قدمی‘والدین کی اطاعت اور ان کے ساتھ حسن سلوک ‘نماز قائم کرنے ‘نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کے لیے چونکہ صبر وعزیمت کی سخت ضرورت ہوتی ہے اس لیے حضرت لقمان نے اپنے لخت جگر کو اس کی خصوصی وصیت کرتے ہوئے فرمایا:
{وَاصْبِرْ عَلٰی مَـآ اَصَابَکَط }(لقمٰن:۱۷)
’’اور تمہیں جو تکلیف پہنچے اس پر صبر کرو۔‘‘
اس مقام پر صبر کی وصیت دو اعتبار سےاہمیت کی حامل ہے:
(۱) مذکورہ فرائض کی ادائیگی بغیر صبر کے ممکن نہیں ہے‘اس لیے یہ حکم دیا گیا ۔اس صبر کو الصبر علٰى أوامر اللّٰه اور الصبر عن معصية اللّٰه کہا جاتا ہے۔سورۃالعصر میں یہی صبر زیادہ واضح ہے‘ یعنی اللہ کے فرامین کی ادائیگی پر صبر اور اللہ کی منع کی ہوئی چیزوں سے رکنے پر صبر۔
(۲) مذکورہ فرائض کی ادائیگی ‘خاص طور پر بھلائی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے پر لوگوں کی طرف سے ایذاء اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑے گا‘جس کے لیے صبر بہت ضروری ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
{لَتُـبْـلَوُنَّ فِیْٓ اَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْقف وَلَـتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْـکِتٰبَ مِنْ قَـبْلِکُمْ وَمِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْٓا اَذًی کَثِیْرًاط وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَـتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ(۱۸۶)} (آل عمران)
’’یقیناًتمہیں تمہارے مالوں اور جانوں میں آزمایا جائےگا‘اور تم یقینا ان لوگوں کی جانب سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اور مشرکین کی جانب سے بہت سی تکلیف دہ باتیں سنو گے۔اور اگر تم صبر کروگے اور اللہ سے ڈرتے رہو گے تو بے شک یہ ہمت وعزم کا کام ہے۔‘‘
تاریخ شاہد ہےکہ انبیاءکرام علیہم السلام اور ان کے سچے پیروکاروں کو اس سلسلے میں کس قدر تکلیفیں پہنچائی گئیں۔چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : گویا کہ میں نبی کریمﷺ کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ ایک نبی کی حالت بیان کررہے ہیں ‘جنہیں ان کی قوم نے مار مارکر لہولہان کر دیا‘ وہ اپنے چہرے سے خون کو صاف کررہے تھے اور یہ بھی کہہ رہے تھے:
((اللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ))
’’اے اللہ! میری قوم کو بخش دے ‘یہ مجھے نہیں جانتے۔‘‘(۳۹)
اسی لیے اسلام میں صبر کی بڑی اہمیت ہے اور اس پر ترغیب دی گئی ہے۔
{ اِنَّمَا یُوَفَّی الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَہُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ(۱۰)} (الزمر)
’’بے شک (اللہ کی راہ میں)صبر کرنے والوں کو ان کے صبر کابے حساب اجر دیا جائے گا ۔‘‘
نیزفرمایا:
{اُولٰٓئِکَ یُجْزَوْنَ الْغُرْفَۃَ بِمَا صَبَرُوْا وَیُلَقَّوْنَ فِیْہَا تَحِیَّۃً وَّسَلٰمًا(۷۵) خٰلِدِیْنَ فِیْہَاط حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَّمُقَامًا(۷۶)} (الفرقان)
’’یہی وہ لوگ ہیں جنہیں ان کے صبر کے بدلے جنت کے بالا خانے دیے جائیں گے‘ جہاں انہیں دُعا سلام پہنچایا جائےگا۔اس میں وہ ہمیشہ رہیں گے‘وہ بہت ہی اچھی جگہ اور عمدہ مقام ہے۔‘‘
نبی کریم ﷺ نے صبر کی فضیلت کچھ اس طرح سےبیان فرمائی:
))وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهٖ مَا رُزِقَ عَبْدٌ شَيْئًا أَوْسَعَ مِنَ الصَّبْرِ(((۴۰)
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمدﷺ کی جان ہے‘بندے کو صبر سے زیادہ بہتر اور عمدہ کوئی بھی چیز نہیں دی گئی۔‘‘
آٹھویںوصیت: لوگوں کے ساتھ حسن سلوک
(لوگوں کے ساتھ بات کرتے ہوئے عاجزی اختیار کرنا)
حضرت لقمان نے بیٹے کی تربیت کو صرف اس کی ذات تک محدود نہیں رکھا‘ بلکہ اسے دوسروں کے ساتھ رہنے اور معاشرے کے لوگوں کے ساتھ میل جول کے آداب بھی سکھلائے۔ چنانچہ اس سلسلے میں بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
{ وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ لِلنَّاسِ} (لقمٰن:۱۸)
’’اور لوگوں سے اپنا چہرہ پھیر کر بات نہ کر‘‘
یعنی ’’لوگوں کے سامنے اپنے گال نہ پھلا‘‘
مراد یہ ہےکہ جب لوگوںسے بات کرویا وہ تم سے بات کریںتو انہیںحقیرسمجھ کر اور تکبرکی وجہ سے ان سےمنہ پھیرکر بات نہ کرو۔ ان کےساتھ بات کرنے میں نرمی‘محبت اور خوش روئی سے پیش آؤ۔ان کی طرف متوجہ رہوتاکہ وہ خوشی محسوس کریں۔مسکراکر بات کروتاکہ لوگ تمہاری طرف مائل ہوں۔ لوگوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئےایسا اندازاختیارنہ کرو جو گھمنڈی اور متکبرلوگوںکاہوتاہے‘بلکہ ان کے ساتھ عاجزی سے پیش آؤ۔قرآن مجید کاحکم یہی ہے:
{وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا} (البقرۃ:۸۳)
’’اور لوگوں کے ساتھ اچھی بات کرو!‘‘
اللہ کے رسولﷺنےبھی اسی کی تعلیم دی۔حضرت ابوذر اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:
))وَخَالِقِ النَّاسَ بِخُلُقٍ حَسَنٍ(((۴۱)
’’اور لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آؤ۔ ‘‘
اللہ کے رسول ﷺ نےلوگوں کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آنے کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
))تَبَسُّمُكَ فِي وَجْهِ أَخِيكَ صَدَقَةٌ(((۴۲)
’’تمہارا اپنے بھائی کو دیکھ کر مسکرانا (یہ بھی)صدقہ ہے (یعنی اس کا اجر صدقہ کی طرح ہے)۔‘‘
نبی مکرمﷺ کا اسوئہ حسنہ بھی یہی تھا۔ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں :
كَانَ رَسُولُ اللّٰه ﷺ يُقْبِلُ بِوَجْهِهِ وَحَدِيثِهِ عَلٰى أَشَرِّ الْقَوْمِ يَتَأَلَّفُهُمْ بِذٰلِكَ، فَكَانَ يُقْبِلُ بِوَجْهِهٖ وَحَدِيثِهٖ عَلَيَّ حَتّٰى ظَنَنْتُ أَنِّي خَيْرُ الْقَوْمِ(۴۳)
’’رسول اللہﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ برے آدمی کی طرف بھی اپنے چہرے اور گفتگو کے ذریعے متوجہ ہوتے‘اس سےآپﷺ کا مقصد انہیں مانوس کرنا ہوتا۔ اسی طرح آپ ﷺ اپنے چہرے اور گفتگو کے ساتھ میری طرف اس طرح متوجہ ہوتے حتیٰ کہ میں سمجھ بیٹھا کہ(آپ کے نزدیک) لوگوں میں سب سے بہتر میں ہی ہوں۔‘‘
حضرت لقمان حکیم کی اس وصیت میں تواضع کی ترغیب جبکہ تکبر سے ممانعت ہے۔ حضرت عیاض بن حمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہﷺ ہمارے درمیان خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے تو آپؐ نے فرمایا:
((وَإِنَّ اللّٰہَ أَوْحٰى إِلَيَّ أَنْ تَوَاضَعُوا حَتّٰى لَا يَفْخَرَ أَحَدٌ عَلٰى أَحَدٍ، وَلَا يَبْغِي أَحَدٌ عَلٰى أَحَدٍ)) (۴۴)
’’اور اللہ تعالیٰ نے میری طرف یہ وحی بھیجی ہے کہ تم ایک دوسرے کے ساتھ عاجزی اختیار کرو‘حتیٰ کہ کوئی کسی دوسرے پر فخر نہ کرے اور نہ کوئی دوسرے پر سرکشی(زیادتی) پر اتر آئے۔‘‘
تواضع سے عزت حاصل ہوتی ہے اور لوگوں کے دلوں میں مقام بڑھتا ہے۔نبی ﷺ نے فرمایا:
((وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلّٰهِ إِلَّا رَفَعَهُ اللّٰهُ)) (۴۵)
’’اور جو شخص اللہ کے لیے عاجزی اختیار کرے گا تو اللہ تعالیٰ اُسے بلند کردے گا۔‘‘
نویں وصیت: زمین پر اکڑ کر مت چلو
حضرت لقمان نے بیٹے کو چلنے کے آداب سکھا تے ہوئے فرمایا:
{وَلَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًاط اِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ(۱۸)}(لقمٰن)
’’اور زمین پر اکڑ کر مت چلو‘ (کیونکہ )بے شک اللہ تعالیٰ خود پسند اور فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا ۔‘‘
اللہ تعالیٰ نےاپنےنیک بندوںکی صفات بیان کرتےہوئےفرمایا:
{وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ہَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَہُمُ الْجٰہِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا(۶۳)} (الفرقان)
’’اور رحمٰن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر نرمی اور عاجزی سے چلتے ہیں‘اور جب نادان لوگ ان کے منہ لگتے ہیں تو وہ سلام کرکےگزر جاتے ہیں۔‘‘
ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ نےاہل ِایمان کو فرمایا:
{وَلَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًاج اِنَّکَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا(۳۷) } (الاسراء)
’’اور زمین پر اکڑ کر مت چلو‘یقیناً تم (اپنی متکبرانہ چال سے)زمین کو ہرگز نہیں پھاڑ سکتے اور نہ ہی پہاڑوں کی اونچائی کو پہنچ سکتے ہو ۔‘‘
آخرت میں بلندیاں متواضع اور نرم خو لوگوںکے لیے ہیں۔متکبر اور شیخی بگھارنے والوں کے لیے آخرت میں کوئی مقام نہیںہے۔
{تِلْکَ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ نَجْعَلُہَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَلَا فَسَادًاط وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ(۸۳) } (القصص)
’’آخرت کا گھر ہم ان ہی لوگوں کے لیے مقرر کر دیتے ہیں جو نہ تو زمین پر اپنی بڑائی کا ارادہ رکھتے ہیں اور نہ ہی اس میں فساد پھیلانے کی چاہت رکھتے ہیں۔ پرہیزگاروں کے لیے نہایت عمدہ انجام ہے۔‘‘
یہ آیت قارون کے قصے پر بطور تبصرہ وارد ہوئی ہے۔گویا قارون کے اپنے خزانہ سمیت زمین میں دھنسنے کی وجہ یہ تھی کہ اس نے دنیا کی زندگی کو مقدّم رکھا اور تکبّر سے کام لیا۔
تکبرایساقبیح فعل ہےکہ بسا اوقات اس کا بدلہ دنیا ہی میں مل جاتا ہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی محترمﷺ نے فرمایا:
((بَيْنَمَا رَجُلٌ يَمْشِي فِي حُلَّةٍ، تُعْجِبُهُ نَفْسُهُ، مُرَجِّلٌ جُمَّتَهُ، إِذْ خَسَفَ اللّٰہُ بِهِ، فَهُوَ يَتَجَلْجَلُ إِلٰى يَوْمِ القِيَامَةِ)) (۴۶)
’’ایک وقت ایک آدمی ایک جوڑے میں ملبوس چلا جا رہا تھا ‘ اس کے نفس نے اس کو خودپسندی میں مبتلا کر دیا تھا‘ بالوں میں کنگھی کیے ہوئے تھا (اپنی حالت پر اترا رہا تھا) کہ اللہ تعالیٰ نے اسے زمین میں دھنسا دیا‘ پس وہ قیامت تک زمین میں دھنستا چلا جائے گا۔‘‘
اکڑکرچلنےوالےکے لیے قیامت کے دن بھی بڑی سخت وعید آئی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ مَیں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
))مَنْ تَعَظَّمَ فِي نَفْسِهِ‘ أَوِ اخْتَالَ فِي مِشْيَتِهِ لَقِيَ اللّٰہَ وَهُوَ عَلَيْهِ غَضْبَانُ(((۴۷)
’’جس نے خود کوبہت بڑا سمجھا اور اکڑاکڑ کر چلا‘ تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرےگاکہ اللہ تعالیٰ اس سے بہت زیادہ ناراض ہو گا۔‘‘
دسویں وصیت: میانہ روی اختیار کرو اور آواز کو پست رکھو
حضرت لقمان اپنے بیٹے کو مزید کچھ معاشرتی آداب سکھاتے ہوئےوصیت کرتے ہیں:
{ وَاقْصِدْ فِیْ مَشْیِکَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِکَط اِنَّ اَنْکَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیْرِ(۱۹)} (لقمٰن)
’’اور اپنی چال میں میانہ روی اختیار کرو‘ اور اپنی آواز پست رکھو۔ یقیناً آوازوں میں بدتر آواز گدھوں کی ہوتی ہے۔‘‘
اس وصیت میں دو آداب کی طرف رہنما ئی کی گئی ہے:
(۱) میانہ روی اختیار کرو‘ یعنی اپنی رفتار میں یا اپنے تمام امور میں میانہ روی اختیار کرو۔ چلنے میں رفتار ایسی ہو کہ نہ تو انسان گنواروںکی طرح دوڑرہاہوکہ جس سے خود کوتکلیف اور دوسروںکو ضرر پہنچ سکتاہو اور نہ چال اس قدر دھیمی ہو کہ بندہ مریض‘ مریل اور ٹوٹا ہوا محسوس ہو رہا ہو۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:
كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا مَشٰى كَأَنَّهُ يَتَوَكَّأُ (۴۸)
’’نبی ﷺ جب چلتے تو ایسا لگتا کہ آگے کو جھک جاتے ہیں۔‘‘
چلنے کی اس کیفیت کی دو علامتیں ہوتی ہیں: (۱)آدمی سینہ تان کر اور آہستہ آہستہ نہیں چلتا۔ (۲)چلتے وقت رفتار قدرے تیز رہتی ہے۔اس کی تفصیل دوسری حدیث میں اس طرح وارد ہے‘ حضرت ابوالطفیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
كَانَ أَبْيَضَ مَلِيحًا، إِذَا مَشٰی كَأَنَّمَا يَهْوِي فِي صَبُوبٍ(۴۹)
’’ آپﷺ سفید رنگ اور انتہائی خوبصورت تھے ‘اور جب چلتے تو لگتا تھا کہ اوپر سے نیچے کی طرف اتر رہے ہوں۔‘‘
جب کوئی آدمی اوپر سے نیچے اتر رہا ہو تو تین کیفیات کا ظاہر ہونا ضروری ہے:(۱) سینہ تان کر فخر سے نہیں چل سکتا ۔ (۲) بہت آہستہ آہستہ بھی نہیں چلتا۔ (۳) دوڑ کر بھی نہیں چل سکتا کیونکہ گرنے کا خطرہ ہوتا ہے۔
ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنی چال میں شریف اور ایک باعزت شخصیت کا مالک ظاہرہو۔ حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ وہ سروں کوجھکائےہوئے دھیمی دھیمی چال چلتے ہوئےجارہے ہیں تو انہوں نے اپنا کوڑا تانا اور فرمایا:
ارفع رأسك، لا تمت علينا ديننا
’’ اپنا سر اونچا کرکےچلو‘ اور ہمارے دین کو کمزور نہ کرو۔‘‘
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کو یہودیوں کی اکھڑی تیز چال اور نصاریٰ کی چیونٹیوں جیسی چال سے روکا جاتا تھا۔(۵۰)
(۲) آواز کو پست رکھو‘ یعنی اسے ضرورت یا حد سے زیادہ اونچا نہ کرو‘ کیونکہ آوازوں میں بدتر آواز گدھوں کی ہوتی ہے۔ آواز اس قدر آہستہ بھی نہ ہو کہ سامنے والے کو سنائی نہ دے اور اس کی سمجھ میں نہ آئے‘ بلکہ درمیانہ آواز کے ساتھ بات کی جائے۔اللہ تعالیٰ نے نماز کے بارے میں فرمایا:
{وَلَا تَجْہَرْ بِصَلَاتِکَ وَلَا تُخَافِتْ بِہَا وَابْتَغِ بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلًا(۱۱۰)}(الاسراء)
’’اور آپ اپنی نماز نہ تو زیادہ اونچی آوازسے پڑھیں اور نہ ہی بالکل پست آواز سے‘ بلکہ ان دونوں کے درمیان کا طریقہ اختیار کریں۔‘‘
جب نماز میں مناسب اور درمیانی آواز اختیار کرنے کاحکم ہے تو عام باتوں میں اس کا اور بھی زیادہ خیال رکھنا چاہیے۔بلاضرورت ہر جگہ خصوصاً بازاروں اور عوامی مقامات پر آواز کو بلند کرنا‘چیخنا اور چلّانا بے ادبی کی بات ہے۔ہر ماحول میں اسے برا تصور کیا جاتا ہے‘خاص طور پر اگر اس سے دوسروں کو تکلیف پہنچے تو اس کی قباحت اور بڑھ جاتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے ایسے ہی لوگوں کو بے عقل قرار دیا ہے۔
{اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَکَ مِنْ وَّرَآئِ الْحُجُرٰتِ اَکْثَرُہُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴)}(الحجرات)
’’(اے نبیﷺ! ) بے شک جو لوگ آپ کوحجروں کے پیچھے سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر بے عقل ہیں۔‘‘
اسی طرح لوگوں میں اپنا بڑا پن ظاہر کرنے‘ دھونس جمانے یا تکلفاً گلا پھاڑ پھاڑ کر آواز کا بلند کرنا بھی بد اخلاقی ہے۔ اگر آوا زکا بلند ہونا کوئی عمدہ چیز ہوتی یا اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب ہوتی تو گدھے کی آواز کو برا اور سب سے زیادہ ناپسندیدہ قرار نہ دیا جاتا۔
البتہ بعض حالات ایسےہیں جہاں آواز کا بلند کرنا پسندیدہ ہے‘ جیسے اذان میں‘ تلبیہ پڑھتے ہوئے اور خطبہ کے دوران وعظ و نصیحت وغیرہ۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اذان کا خواب دیکھنے کے واقعہ میں ہے کہ نبی کریمﷺ نے حضرت عبد اللہ بن زید سے فرمایا:
((إِنَّهَا لَرُؤْيَا حَقٌّ إِنْ شَاءَ اللّٰہُ، فَقُمْ مَعَ بِلَالٍ فَأَلْقِ عَلَيْهِ مَا رَأَيْتَ، فَلْيُؤَذِّنْ بِهِ، فَإِنَّهُ أَنْدَى صَوْتًا مِنْكَ)) (۵۱)
’’ان شاء اللہ یہ خواب حق ہے‘ اٹھو اور جو خواب دیکھا ہےاسےبلال کو سکھلا دو ‘تاکہ وہ اذان دیں ‘ کیونکہ وہ تم سے زیادہ بلند آواز ہیں۔‘‘
تلبیہ میں آواز بلند کرنے سے متعلق متعدد حدیثیں وارد ہیں۔حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((جَاءَنِي جِبْرِيلُ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، مُرْ أَصْحَابَكَ فَلْيَرْفَعُوا أَصْوَاتَهُمْ بِالتَّلْبِيَةِ، فَإِنَّهَا مِنْ شِعَارِ الْحَجِّ)) (۵۲)
”میرےپاس جبریل آئے اور بولے : اے محمد(ﷺ)! اپنے صحابہؓ سے کہو کہ تلبیہ بآواز بلند پکاریں‘ اس لیے کہ یہ حج کا شعار ہے۔‘‘
خطبہ سے متعلق حدیث حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے:
كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ ﷺَ إِذَا خَطَبَ احْمَرَّتْ عَيْنَاهُ، وَعَلَا صَوْتُهُ، وَاشْتَدَّ غَضَبُهُ، حَتّٰى كَأَنَّهُ مُنْذِرُ جَيْشٍ يَقُولُ صَبَّحَكُمْ وَمَسَّاكُمْ(۵۳)
’’ رسول اللہﷺ جب خطبہ دیتے تو آپ کی آنکھیں سرخ ہو جاتیں‘ آواز بلند اور لہجہ سخت ہو جاتا‘ گویا کہ آپﷺ کسی (حملہ آور)لشکرسےڈرانےوالے اس شخص کی طرح ہیں جو کہہ رہا ہے کہ دشمن تمہارے اوپر صبح کو حملہ کرنے والا ہے ‘ شام کو حملہ کرنے والا ہے!‘‘
وصیتوں سے ماخوذ فوائد
لقمان حکیم کی مذکورہ وصیتوں میں بے شمار تربیتی و اصلاحی اسباق و فوائد موجود ہیں۔ چند ایک بطور نمونہ ذیل کی سطور میں پیش ہیں‘ جن میں سے اکثر فوائد الشیخ مصطفیٰ العدوی کی کتاب ’’موعظۃ لقمان لولدہ‘‘ سے ماخوذ ہیں۔
(۱)یہ لقمان حکیم کی فضیلت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ان کا ذکر خیر رکھا‘ انہیں حکیم قرار دیا اور انہیں یہ مقام ومرتبہ عطا فرمایا کہ لوگ اپنی اولاد کی تربیت میں ان کو اُسوہ تسلیم کریں۔ ان وصیتوں کے ذکر کرنے کا مقصد ہی یہی ہے کہ اہل ایمان اپنی اولاد(مذکر ومؤنث) کی تربیت انہی اصولوں پرکریں۔
(۲)کسی بندے کو جو بھی نعمت ملتی ہے وہ صرف اور صرف اللہ کی طرف سے عطیہ اور اس کا فضل ہوتا ہے۔ چنانچہ عالم کا علم ‘ حکیم کی حکمت اور مالدار کا مال رب کائنات کا عطیہ ہے۔
{وَلَقَدْ اٰتَیْنَا لُقْمٰنَ الْحِکْمَۃَ}
اسی طرح ایک اور جگہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{وَمَا بِكُمْ مِنْ نِعْمَةٍ فَمِنَ اللّهِ} (النحل:۵۳)
’’تمہیں جو نعمت بھی ملی ہے وہ اللہ کی جانب سے ہے۔‘‘
(۳) اللہ کی نعمتوں اور اس کے عطایا پر اُس کا شکر واجب ہے‘ جیسے فرمایا:
{وَلَقَدْ اٰتَیْنَا لُقْمٰنَ الْحِکْمَۃَ اَنِ اشْکُرْ لِلہِ ط }
’’اور ہم نے لقمان کو حکمت عطا فرمائی کہ شکر کرو اللہ کا!‘‘
(۴) انسان کے شکر کرنے اور عبادت کرنے کا فائدہ اسی کو ملنے والا ہے ‘ اللہ تعالیٰ اس سے بے نیاز ہے۔
(۵) والدین کے لیے مستحب ہے کہ اپنے بچوں کو عمل خیر کی وصیت ونصیحت کرتے رہیں‘ جیسا کہ یہ انبیاء کرا م علیہم السلام کی سُنّت رہی ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں حضرت نوح ‘ حضرت یعقوب اور اسماعیل علیہم السلام کی نصیحتوں اور وصیتوں کا ذکر ملتا ہے۔
(۶) ایک مربی کو تربیت کے لیے کیسا انداز اختیار کرنا چاہیے‘ اس کے بارے میں مکمل رہنمائی کی گئی ہے۔جیسے:
(i) تربیت کرنے والےکووعظ کا اسلوب اختیار کرنا چاہیے۔تعلیم و تربیت کے لیے یہ اسلوب انتہائی مؤثر ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے لقمان حکیم کے بارے میں فرمایا:
{وَاِذْ قَالَ لُقْمٰنُ لِابْنِہٖ وَہُوَ یَعِظُہٗ}(لقمٰن:۱۳)
’’ اور(اس وقت کو یاد کرو)جب لقمان نے اپنے بیٹے کووعظ(نصیحت)کرتے ہوئے فرمایا‘‘
’’ وعظ‘‘ کی تعریف کرتے ہوئے ابن سیدہؒ فرماتے ہیں:
’’ھُوَ تَذْکِیْرُکَ لِلْاِنْسَانِ بِمَا یُلَیِّنْ قَلْبَہُ مِنْ ثَوَابٍ وَعِقَابٍ‘‘(۵۴)
’’ وعظ کا معنی یہ ہے کہ آپ کسی بندے کو ثواب اور سزا کا ذکر کرکے ایسی چیز کی نصیحت کریں جو اُس کے دل کو نرم کردے۔‘‘
اسی طرح تربیت کرنے میں شفقت کاپہلو غالب ہو۔ مربی کا انداز ایسا ہو کہ سامنے والا یہ سمجھے کہ تربیت کرنے والا ہمارا ہمدرد ہے اور ہماری بھلائی چاہتاہے۔محض ڈانٹ ڈپٹ اور جھڑکنے کا انداز اختیار کرنے سے تربیت صحیح بنیادوں پر نہیں کی جا سکتی ۔خصوصاً موجودہ دور میں نوجوان نسل کی حالت کو مدّنظر رکھتے ہوئے‘ ان کے لیے مناسب اندازِ تربیت اختیار کرنا بہت ہی ضروری ہے‘ وگرنہ ان کے ضیاع کا خدشہ ہے۔
(ii) ایسا محبت بھرا انداز اختیار کرنا چاہیے کہ جس کی تربیت کی جارہی ہے اس کی ساری توجہ مربی کی طرف مبذول ہو جائے‘جیسا کہ حضرت لقمان کے بار بار اپنے بیٹے کو يَابُنَيَّ(اے میرے پیارے بیٹے!)کہنے سے معلوم ہورہا ہے۔
(iii)تربیت کرنے والے کو چاہیے کہ ضرورت پڑنے پر اپنی بات کی دلیل بھی ذکر کرے اور جس کی تربیت کر رہا ہے اس پر واضح کرے کہ میں نے فلاں بات فلاں سبب کی بنا پر کہی ہے‘ جیسا کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتے ہوئے فرمایا:
{حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ وَہْنًا عَلٰی وَہْنٍ وَّفِصٰلُہٗ فِیْ عَامَیْنِ}(لقمٰن:۱۵)
’’اس کی ماں نے کمزوری پر کمزوری برداشت کر کے اسے حمل میں رکھا‘ اور اس کی دودھ چھڑائی دو برس میںہے۔‘‘
(iv)مربی کو چاہیے کہ جس چیز سے منع کر رہا ہے اس کی قباحت اور اس کے باعث نفرت ہونے کی علت بھی واضح کرے ‘جیسا کہ حضرت لقمان نے بیٹے کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا:
{وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ}(لقمٰن:۱۸)
’’اور لوگوں سے اپنا چہرہ پھیر کر بات نہ کرو۔ ‘‘
اس اندازِ گفتگو کو معاشرے میں کوئی بھی پسند نہیں کرتا۔ اسی طرح بلا ضرورت آواز بلند کرنے کو گدھے کی آواز سے تشبیہ دینا کہ بیٹا اس سےکراہت محسوس کرے۔
{وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِکَط اِنَّ اَنْکَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیْرِ(۱۹)} (لقمٰن)
’’ اور اپنی آواز پست رکھو‘ یقیناً آوازوں میں بدتر آواز گدھوں کی ہوتی ہے۔‘‘
(v)اسلوبِ تعزیز: اس کا معنی یہ ہے کہ کوئی بات کہتےہوئےیاکسی چیز کو حکم دیتے ہوئے ایسی بات بھی ذکر کی جائے کہ جس سے اولاد کو وہ کام کرنے کی تقویت ملے‘اس کے حوصلے بلند ہوں اور اس کی ہمت میں مزید اضافہ ہو۔ لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کو نماز قائم کرنے‘ نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کی نصیحت کرنے کے بعد فرمایا:
{اِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ(۱۷)} (لقمٰن)
’’بے شک یہ (مذکورہ )کام پختہ امور میں سے ہیں ۔‘‘
(۷) شرک کی قباحت کہ وہ علی الاطلاق ’’ظلمِ عظیم ‘‘ہے۔
(۸) والدین کے حقوق کی اہمیت ‘ خصوصاً والدہ کا عظیم مقام۔
اس عمل پر بعض انبیاء علیہم السلام کی تعریف کی گئی ہے‘ جیسے حضرت یحییٰ اور عیسیٰ علیہما السلام۔
(۹) مدّتِ رضاعت دو سال ہے۔ یعنی اس مدّت کے بعد اگر کوئی بچہ کسی عورت کا دودھ پیتا ہے تو اس پر رضاعت کے احکام مترتب نہیں ہوں گے‘ البتہ یہ جائز ہوگا کہ وقت ضرورت کوئی عورت اپنے بچے کو دو سال سے زائد بھی دودھ پلا سکتی ہے۔
(۱۰) والدین کافر ہی کیوں نہ ہوں ‘ ان کے ساتھ ان کےحسنِ صحبت کا حق باقی رہتا ہے۔
(۱۱) ضروری ہے کہ بچوں کی تربیت میں توحید اورشرک کا مسئلہ سب سے مقدم رکھا جائے ۔ بچوں کے دل میںاس موضوع کی اہمیت بٹھائی جائے تاکہ شیطان انہیں آسانی سے بھٹکا نہ سکے اور ان کی صاف وشفاف فطرت کو آلودہ نہ کر سکے ۔
(۱۲) حضرت لقمان نے صرف توحید الوہیت اور توحید أسماءوصفات کے بارے میں نصیحت کی‘ کیونکہ توحید کا کوئی منکر نہیں ہے۔ البتہ موجودہ زمانے میں بچوں کو توحید ربوبیت سے بھی مکمل طور پر آگاہ کرنا چاہیے‘کیونکہ آج لوگ شرک کی اس قسم کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
(۱۳) اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے کام میں کسی کی اطاعت جائز نہیں ہے‘خواہ وہ والدین ہی کیوں نہ ہوں۔
(۱۴) اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہ کرنے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اس کے ساتھ برا سلوک کیا جائے۔اطاعت اور سلوک دونوں الگ الگ چیزیں ہیں‘جیسے والدین اگر شرک کے لیے مجبور کریں تو ان کی اطاعت نہیں کی جائے گی‘ البتہ ان کے احترام کے تقاضوں کو پورا کیا جائے گا اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کو مدّ ِ نظررکھا جائے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{وَاِنْ جَاہَدٰکَ عَلٰٓی اَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌلا فَلَا تُطِعْہُمَا وَصَاحِبْہُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًاز وَّاتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّج ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(۱۵)} (لقمٰن)
’’ لیکن اگر وہ تم پر دبائو ڈالیں کہ میرے ساتھ تم کسی اور کو شریک کرو جسے تم نہیں جانتے ‘ تو تم ان کی بات ہرگز نہ مانو‘ البتہ دنیا میں ان کے ساتھ نیک برتائو کرتے رہو‘ مگر پیروی اُس شخص کے راستے کی کرو جس نے میری طرف رجوع کیا ہے۔ ‘‘
(۱۵) مؤمن کو چاہیے کہ اپنے لیے ایسے لوگوں کو اُسوہ اور آئیڈیل بنائے جو صاحب ِفضل اور متقی ہوں۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{وَّاتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّج} (لقمٰن:۱۵)
’’اور اُس کی راہ پر چلو جو میری طرف رجوع کرنے والا ہے۔‘‘
(۱۶) نماز اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی اہمیت ‘ اور یہ فریضہ بہت پرانا ہے۔
(۱۷) انسان کے لیے صرف یہی کافی نہیں کہ وہ خود نیک بن جائے‘بلکہ کمال یہ ہے کہ اپنی اصلاح کے ساتھ وہ دوسروں کی بھی اصلاح کرے۔ اگر اس نے صرف اپنی اصلاح پر توجہ دی اور دوسروں کی اصلاح نہ کی تو وہ خود بھی نہیں بچ پائے گا۔
(۱۸) اسلام میں اخلاقیات کو بڑا مقام حاصل ہے۔انسان کی شخصیت اُس وقت تک کامل نہیں ہو سکتی جب تک وہ اپنے عقائد‘عبادات اور معاملات کے ساتھ اپنے اخلاق کو بھی درست نہ رکھے۔نبی کریمﷺ کا فرمان ہے:
((إِنَّمَا بُعِثْتُ لأُتَمِّمَ مَكَارِمَ الأَخْلاقِ))(۵۵)
’’مجھے تو بھیجا ہی اس لیے گیا ہے کہ مَیں عمدہ اخلاق کی تکمیل کروں۔‘‘
جس قدر بندے کا اخلاق اچھا ہوگا اسی قدر اس کے ایمان کی تکمیل ہوگی۔آپﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
))أَكْمَلُ الْمُؤْمِنِينَ إِيمَانًا، أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا(((۵۶)
’’مؤمنوں میں سب سے زیادہ کامل ایمان والا وہ ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہو۔‘‘
(۱۹) فريضہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی فضیلت ‘ نیز یہ کہ نماز قائم کرنے کے ساتھ اس کا بڑا گہرا تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک مقام پرفرمایا:
{اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰہُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْکَرِط وَلِلہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ(۴۱) } (الحج)
’’جن لوگوںکوہم نے زمین میں اقتدار دیا انہوںنے نماز کو قائم کیا اور زکوٰۃ دی‘ نیکی کا حکم دیا اور برائی سے منع کیا۔۱ور تمام امور کا انجام اللہ ہی کے لیے ہے۔‘‘
(۲۰) دین اسلام کی خوبی کہ وہ صرف عبادات وعقائد ہی نہیں بلکہ اچھے اخلاق و عادات کی بھی ترغیب دیتا ہے‘ حتیٰ کہ وہ راستہ چلنے اور لوگوں سے مخاطب ہونے کے آداب بھی سکھلاتا ہے۔
(۲۱) بزرگان دین اور اللہ کے نیک بندوں کے واقعات بیان کرنا اور ان میں عبرت ونصیحت کے پہلواُجاگر کرنا مستحب اور اچھی چیز ہے۔
حواشی
(۳۸) صحيح البخاري :۳۴۷۷، صحیح مسلم: ۱۷۹۲
(۳۹) مسند أحمد ۱۷ / ۱۵۵، سنن ابی داود:۱۶۴۴، مستدرک حاکم ۲/ ۴۴۹بروایت حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ‘ الفاظ ابن حبان کےہیں۔
(۴۰) مسند أحمد۳۵ / ۲۸۴، سنن الترمذی: ۱۹۸۷، سنن الدارمی:۲۷۹۱۔
(۴۱) سنن الترمذي:۱۹۵۶، الادب المفرد:۸۹۱، صحیح ابن حبان:۴۷۴ بروایت حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ
(۴۲) مختصر الشمائل للترمذي:۴۲۹۵
(۴۳) صحيح مسلم: ۲۸۶۵، سنن ابن ماجہ:۴۱۷۹
(۴۴)صحيح مسلم:۲۵۸۸، سنن الترمذی:۲۰۲۹بروایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
(۴۵) صحيح البخاري: ۵۷۸۹‘ صحیح مسلم:۲۰۸۸
(۴۶) مسند أحمد ۱۰ / ۲۰۰، الادب المفرد:۵۴۹
(۴۷)سنن أبي داود:۴۸۶۳، سنن الترمذی:۱۷۵۴، مسند ابی یعلی:۳۷۶۴
(۴۸) سنن أبي داود: ۴۸۶۴
(۴۹) تیسیر الرحمن لبیان القرآن ، دکتور لقمان السلفى
(۵۰) سنن ابو داود:۴۹۹، سنن الترمذی:۱۸۹، صحیح ابن خزیمۃ:۳۶۳
(۵۱) سنن ابن ماجۃ: ۲۹۲۳، صحیح ابن خزیمۃ :۲۶۲۹، مسند احمد ۵ / ۱۹۲
(۵۲) صحيح مسلم:۸۶۷، سنن النسائي:۱۵۷۷،سنن ابن ماجۃ:۴۵
(۵۳) لسان العرب،۷ / ۴۶۶
(۵۴) مسند أحمد ۱۴ / ۵۱۲، الادب المفرد:۲۷۳ مسند البزار ۱۵ / ۳۶۴ بروایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ الفاظ مسند البزار کے ہیں۔
(۵۵) مسند أحمد ۱۶ / ۴۷۸، سنن ابی داود: ۴۶۸۲، سنن الترمذي:۱۱۶۲
tanzeemdigitallibrary.com © 2024