(اقبالیات) اکیسویں صدی میں فکر اقبال کی اہمیت - علیزہ عبدالقادر نظامانی

12 /

اکیسویں صدی میں فکر اقبال کی اہمیتعلیزہ عبدالقادر نظامانی
اے ڈی ایس (سال دوم)‘ ٹنڈو محمد خان‘ حیدرآباد (سندھ)

حقیقی مفکرین کی فہرست میں اوّلین درجہ اُن کو حاصل ہے جن کی ساری تگ و دو ممکنہ حد تک حق کو باطل سے ایسے جدا کرنے میں لگے کہ حقیقت کا پردہ تو چاک ہوجائے مگر اس کے دامن پر باطل کا کوئی دھبا بھی نہ آنے پائے۔یہاں یہ سوال قدرتی طور پر اُٹھتا ہے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا!مسلمانوں کے لیے حق وہی ہے جو نبی اکرم ﷺلےکر آئے اور باطل وہ جس کے مخالف آپ ﷺ نے جدّوجُہد کی۔ اس سے قطع نظر منطقی طور پر اس کا جواب یوں بھی دیا جا سکتا ہے کہ حق وہی ہے جو مخلوق کی فطرت کے عین مطابق ہو جبکہ باطل وه جس کے نتائج فطرت کے عین برعکس ہوں۔
مفکرین کی اس قبیل کی امتیازی شان یہ ہے کہ وہ محض انسان کی فطرت ہی کو محفوظ رکھنے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ ان کی ایسی کاوشیں تمام مخلوقات پرمحیط ہوتی ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہی انسان جب اپنی فطرت پر ہوتا ہے تو ہر چیز اعتدال کے دائرے میں سمیٹ کر رکھتا ہے اور اگر فطرت سے ہٹ جائے تو تمام اشیاء و انتظامات کو درہم برہم کر دیتا ہے جس کا اثر دوسری مخلوقات پر بھی پڑتا ہے۔
ہر دور میں بساطِ باطل پر حق کے مہرے ضرور اُٹھتے ہیں جو سچ کا پرچم اپنے افکار کی شکل میں بلند کرتے ہیں۔ ایسا ہی ایک مردِ مجاهد بیسویں صدی میں نمودار ہوا جس کی فکر اکیسویں صدی تو کیا آنے والی کئی صدیوں پر محیط ہے۔اُن کا اسمِ گرامی علّامہ محمد اقبال رحمہ اللہ ہے۔وہ ایک ایسی شخصیت تھے جن کا فکری ارتقاء مسلسل آگے بڑھتا رہا‘ اور بڑھتے بڑھتے مغربی فکر سے جا ٹکرایا۔ پھر راز یہ کھلا کہ آج کا سب سے بڑا بت مغرب کا تراشا ہوا ہے جو دھیرے دھیرے تمام انسانوں کو نگوں کر دے گا۔ علّامہ اقبال بھانپ گئے کہ اس کے اثرات مغرب تک ہر گز محدود نہیں ہیں‘بلکہ رفتہ رفتہ یہ پوری دنیا کے ہر میدان تک رسائی حاصل کر لے گا۔دورِ اقبال سے دورِحاضر تک‘ اُمت ِمسلمہ کو علّامہ صاحب کا پیغام بہت واضح اور دوٹوک ہے کہ:
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری!
اقبال نصیحت کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو یہ بات پوری طرح ذہن نشیں کر لینی چاہیے کہ اقوامِ مغرب کی پیروی اور اُن کے طرزِ حیات کی مانند اپنا طرزِ حیات تشکیل دینے میں اُمّت کی بقا نہیں بلکہ موت ہے۔ اقوامِ مغرب کا مرکز و محور اپنی جغرافیائی حدود کا تحفظ ہے۔ اُن کا کوئی ایک مذہب یا خدا نہیں جس کے قوانین کے مطابق وہ زندگی بسر کریں بلکہ ہر دن اُن کے لیے ایک نیا خدا تراشتا ہے۔ طاغوت کے پجاری زمانے ہی کی پرستش کیا کرتے ہیں جبکہ ہر دور کا اپنا طاغوت ہوتا ہے۔ مغربی نظریات اپنی اصل میں نہایت ہی خام ہیں کیونکہ گردشِ ایام کا دریا انہیں اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے۔ اس کے برعکس مسلمانوں کا استحکام اُس مذہب میں ہے جو رسولِ ہاشمیﷺ لےکر آئے۔ یہ زمان و مکاں کی حدود میں مقید نہیں۔ یہی واحد قوت و طاقت ہے جو اُمّت ِمسلمہ کے استحکام کو قائم رکھ سکتی ہے۔ اسی کی قائم کردہ فصیلیں ہیں جن کے دائرے میں زندگی بسر کرکے مسلمان اپنی اصلی شناخت کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔
• تصوّف اور فکر ِاقبال
علّامہ اقبال نے جہاں مغربی افکار کی وبا کی تشخیص کی وہاں اُمّت کے کئی ایسے امراض کو بھی معیّن کیا جو مسلمانوں نے اسلام کے نام پر ایجاد کر رکھے ہیں۔ ان میں نمایاں کردار فلسفہ ٔتصوف کا ہے۔ بقول اقبال‘اس نام نہاد فلسفہ نے مسلمانوں کے ذہنوں کو جمود کی کیفیت سے دوچار کردیا ہے ۔ اس کے باعث اُن کے اجسام و اذہان ساکت ہوکر رہ گئے ہیں۔ علّامہ نے یہ پیغام کہیں اشعار ‘ کہیں مقالوں تو کہیں خطوط کی شکل میں پہنچایا ہے۔ تصوف کی موجودہ شکل کی اُنہوں نے سخت الفاظ میں تردید کی ہے اور اُسے خلافِ اسلام قرار دیا ہے۔ ۱۹۱۷ء میں سید سلیمان ندوی کے نام ایک خط میں علّامہ نے لکھا:’’تصوف کا وجود ہی سرزمین اسلام میں ایک اجنبی پودا ہے‘ جس نے عجمیوں کی دماغی آب و ہوا میں پرورش پائی ہے۔‘‘
’’بالِ جبریل‘‘ میں بندئہ مومن اور پیروکارِ تصوّف کا تقابل یوں کرتے ہیں: ؎
یا وسعت افلاک میں تکبیر مسلسل
یا خاک کے آغوش میں تسبیح و مناجات!
بندئہ مؤمن کی بلند تکبیریں آسمان کو چھو رہی ہیں اور کونے میں تسبیح کرتا ہوا بندہ خاک کی آغوش میں سکون سے بیٹھا اللہ اللہ کر رہا ہے۔ بندئہ مؤمن کے لیے اصل ہدف حق کا نعرہ بلند کرنا ہے۔ کرئہ ارض پر نا انصافی کو برداشت کرنا بندئہ مؤمن کے شایانِ شان نہیں۔ ولی اللہ کا کام محض اللہ اللہ کرنے تک محدود نہیں بلکہ اسے عزیمت کے راستوں کو لبیک کہنا ہے۔
نام نہاد تصوّف کے علاوہ اقبال نے رسوم و رواج کے نام پر قائم ان بدعتوں پر بھی تنقید کی جنہوں نے حقائق کو زنگ آلود کردیا ہے۔ فرماتے ہیں:؎
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ اُمّت روایات میں کھو گئی!
’’ضربِ کلیم‘‘ میں فرمایا:
دنیا ہے روایات کے پھندوں میں گرفتار
کیا مدرسہ‘ کیا مدرسے والوں کی تگ و دو!
بقول اقبال‘ عجمیوں سے اخذ کی گئی روایات کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ تمام خرافات پر مبنی ہیں ‘ جن سے اپنا دامن بچا کر چلنے سے ہی حقیقت آشکار ہوگی۔
•فلسفہ ٔخودی
دورِ حاضر میں تمام مسائل و مصائب کی بنیادی وجہ خود شناسی سے بے اعتنائی ہے۔ انسانوں کی کثیر تعداد اس مرض کی تشخیص کیے بغیر اس کا حل تلاش کرنے میں کوشاں ہے۔ چنانچہ نتیجہ وہی نکلتا ہے جو نکلنا چاہیے۔ افکار کی دُنیا میں اس کا بہترین علاج علّامہ صاحب کا فلسفہ ٔخودی ہے جو اُن کے اشعار میں بار بار سامنے آتا ہے۔سید نذیر نیازی نے اپنے ایک مضمون میں وضاحت کی ہے کہ ایک بار میں علّامہ صاحب کے پاس گیا اور اُن سے پوچھا کہ آپ کے اس فلسفے کا ماخذ کیا ہے جس کی چہ میگوئیاں ہر خاص و عام میں ہوتی رہتی ہیں! جواباً علّامہ نے بس اتنا کہا کہ کل فلاں وقت پرآئیے گا‘ میں واضح کردوں گا۔ چنانچہ مقررہ وقت پر سید نذیر نیازی پنسل کاپی سمیت وہاں پہنچ گئے کہ اس فلسفے کے متعلق تمام اہم باتیں لکھ کر محفوظ کر لینی چاہئیں۔ لیکن اُنہیں اتنی محنت کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔ علّامہ نے ہدایت کی کہ قرآن مجید اُٹھا لاؤ‘ اور پھر سورۃ الحشر کی آیت۱۹ کھول کر فرمایا: یہ ہے میرے فلسفہ ٔخودی کا ماخذ!
{وَلَا تَـکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللہَ فَاَنْسٰىہُمْ اَنْفُسَہُمْ ط اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ(۱۹)}
’’اور (اے مسلمانو دیکھنا !) تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے انہیں اپنے آپ سے غافل کردیا۔ یہی لوگ ہیں جو فاسق ہیں۔‘‘
اپنے آپ سے آشنا ہوجانا‘ اپنی اصل حقیقت کو پہچان لینا‘ یہی اقبال کا فلسفہ ٔ خودی ہے۔ اُن کے بیشتر اشعار اسی کی جانب توجہ مبذول کراتے ہیں۔ جیسے ’’بال جبریل‘‘ میں لکھا ہے:؎
جرأت ہے تو افکار کی دنیا سے گزر جا
ہیں بحرِ خودی میں ابھی پوشیدہ جزیرے
علّامہ اپنے مخاطب سے کہہ رہے ہیں کہ اگر ہمت ہے تو ظاہری عقل سے آشکار ہونے والے حقائق سے ماوراء ہو جاؤ اور اِس خوش فہمی سے باہر نکل آؤ کہ تمہاری ذات اب کامل ہو چکی ہے جسے مزید کسی علم و عمل کی ضرورت نہیں۔ یہ خیالِ خام ہے‘ کیونکہ تمہاری خودی ایک ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی مانند ہے جس میں اَن گنت جزیرے پوشیدہ ہیں۔ کسی ایک جزیرے پر پڑاؤ ڈالنے کے بجائے سفر کرتے رہو۔ اِس بحرِ خودی میں غوطہ زن ہوجاؤاور اپنا سراغ لگاؤ۔ ’’ساقی نامہ‘‘ میں علّامہ نے اس بات کو یوں بیان کیا کہ گویا دریا کوزے میں بند ہوگيا: ؎
خودی کیا ہے‘ رازِ درونِ حیات
خودی کیا ہے‘ بیداریٔ کائنات!
ایک اور جگہ واضح کیا کہ خودی کا چشمہ کہاں ہے:؎
خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے
فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے
فلسفہ ٔخودی میں اقبال کا پیغام دو ٹوک ہے کہ حق کی طرف بڑھنے کے سفر میںسب سے پہلا قدم اپنے آپ سے مانوس ہوجانا ہے۔ خدا تک رسائی کے لیے‘ سب سے پہلے خود تک پہنچنا ہوگا۔ خودی کا سرچشمہ قلب ِانسانی ہے جہاں سے اس سفر کی شروعات ہوتی ہے۔ یہیں سے مردِ مجاہد کے سفر کی ابتدا ہوتی ہے۔
•نظام ِتعلیم
ہر دور میں تعمیر کردار‘ اعلیٰ اخلاق و افکار اور تہذیبی شناخت میں تعلیم کو ایک اہم مقام حاصل رہا ہے۔اسی کے ذریعےمستقبل کے معمار اُٹھتے ہیں۔ طالب علم آئندہ کے اہداف متعین کرتے ہیں۔ اُن کی ذہن سازی ہوتی ہے اور سوچ کا دائرہ وسیع ہوتا ہے۔
علّامہ اقبال نے جہاں تمام اہم موضوعات پر قلم اٹھایا ہے‘ وہاں یہ کیونکر ممکن تھا کہ اِس اہم موضوع کو نظرانداز کرتے!ان کے اشعار سے واضح ہے کہ وہ اپنے وقت کے نظامِ تعلیم سے بہت مایوس تھے‘ جبکہ آج اکیسویں صدی میں یہ مرض پہلے سے زیادہ شدید ہو چکا ہے۔ علّامہ اقبال نے محسوس کیا کہ تعلیمی مکاتب ہمارے ذہنوں کو غلامی کی طرف لے جا رہے ہیں۔’’ ضربِ کلیم‘‘ کی ایک نظم ’’ہندی مکتب‘‘ میں اُنہوں نے اپنے وقت کے نظامِ تعلیم سے بے زاری کا اظہار انتہائی دل سوز انداز میں کیا ہے:؎
اقبال! یہاں نام نہ لے علم خودی کا
موزوں نہیں مکتب کے لیے ایسے مقالات
بہتر ہے کہ بیچارے ممولوں کی نظر سے
پوشیدہ رہیں باز کے احوال و مقامات
آزاد کی اِک آن ہے محکوم کا اِک سال
کس درجہ گراں سَیر ہیں محکوم کے اوقات
آزاد کا ہر لحظہ پیامِ ابدیت
محکوم کا ہر لحظہ نئی مرگِ مفاجات
آزاد کا اندیشہ حقیقت سے منور
محکوم کا اندیشہ گرفتارِ خرافات
علّامہ کی دُور رس نگاہ نے مستقبل کی کھڑکی میں جھانک کر دیکھ لیا کہ تعلیم جسے نظریات کی بلندی اور ذہنی آزادی کے لیے پیہم کوشاں رہنا چاہیے‘ وہ دراصل ذہنی محکومی سکھا رہی ہے۔ جہاں اسلام کے نظریاتی اصول کی شناخت کروانی چاہیے ‘ وہاں نظریاتی نسل کشی ہو رہی ہے۔ اللہ سے فریاد کرتے ہوئے اپنا حال دِل اقبال یوں بیان کرتے ہیں:؎
شکایت ہے مجھے یا رب! خداوندانِ مکتب سے
سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا
’’ضربِ کلیم‘‘ میں ’’نصیحت‘‘ کے عنوان سے شیطان کے حربے کو یوں بیان کرتے ہیں:
تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو
ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے‘ اسے پھیر!
تاثیر میں اکسیر سے بڑھ کر ہے یہ تیزاب
سونے کا ہمالہ ہو تو مٹّی کا ہے اِک ڈھیر
آج ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ واقعتاً ان کی پیشین ِگوئی کس قدر سچ ثابت ہوئی ہے۔ دُنیا نے دیکھا اقبال کا یہ دعویٰ سچا نکلا کہ ؎
سامنے رکھتا ہوں اُس دورِ نشاط افزا کو مَیں
دیکھتا ہوں دوش کے آئینے میں فردا کو مَیں!
اگر آج بھی ہم باریک بینی سے فکر ِاقبال کا مطالعہ کریں تو بلا شبہ اصلاحِ احوال کے ساتھ مستقبل کے نقصانات سے بھی بچ سکتے ہیں۔
•وطن پرستی اور قوم پرستی
اکیسویں صدی میں اُمت ِمسلمہ انتشار اور مغلوبیت کے جس نچلے درجے میں جا گری ہے اس کی بنیادی وجہ وطن پرستی ہے۔ وطن پرستی و قوم پرستی بظاہر تو بہت خوش کن اصطلاحات ہیں مگر درحقیقت یہ دل فریبی کے سوا کچھ بھی نہیں! اگرچہ اقبال بھی ابتداء ً وطن پرستی کی طرف مائل تھے اور اسی وطن پرستی کی دل فریب ادا میں گم ہوکر اُنہوں نے ایسے اشعار لکھے جن کی بدولت انہیں بہت مقبولیت حاصل ہوئی ۔ لیکن حصولِ تعلیم کی خاطر ولایت جانے کے بعد اُن کا نقطہ نظر یکسر بدل گیا۔ وہی اقبال جو کل وطن پرستی کا درس دیتا تھا‘ آج اس کو مذہب کا قاتل کہنے لگا۔ جس اقبال نے کل کہا تھا:؎
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی‘ یہ گلستاں ہمارا!
یونان و مصر و روما سب مٹ گئے جہاں سے
اب تک مگر ہے باقی نام و نشاں ہمارا!
آج وہی اقبال یہ کہنے لگا:؎
چین و عرب ہمارا‘ ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم‘ وطن ہے سارا جہاں ہمارا!
دیارِ مغرب میں رہ کر اُنہوں نے فرنگیوں کے نظریات کا مشاہدہ بہت قریب سے کیا اور یہ جانا کہ وطن پرستی کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں۔ انسانوں کی کھینچی گئی یہ سرحدیں اور منتخب کیے گئے الگ الگ پنجرے مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔’’ بانگِ درا‘‘ میں ’’وطنیت‘‘ کے عنوان تلے لکھے اشعار اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اقبال نے اِس پر کس قدر تنقید کی ہے:؎
اقوام میں مخلوقِ خدا بٹتی ہے اس سے
قومیت ِاسلام کے جڑ کٹتی ہے اس سے
وطنیت اُمّت کو بانٹ دیتی ہے۔ اتحاد کی جڑ کاٹ دیتی ہے۔ایک ملک کے ذخائر بس اُسی کے ہوکر رہ جاتے ہیں۔ مادی وسائل کیا‘احساسات و جذبات بھی اپنے دائرہ کار تک ہی محدودہو جاتے ہیں۔ ’’اُمّت ِواحد‘‘ جسے جسد ِواحد کی حیثیت حاصل ہے‘ بہت سی شاخوں میں بٹ جاتی ہے۔ایسے میں مسئلہ کشمیر پاک و ہند کا آپسی تنازعہ بن جاتا ہے اور فلسطین کا مسئلہ عرب تک محدود رہ جاتا ہے ۔
•پس چہ باید کرد؟
علّامہ اقبال تہذیب ِحاضر کے غافلوں کو زندگی کا پیغام دیتے ہیں۔ یہ پیغام اُس بانگِ درا کی مانند ہے جو سوئے ہوؤں کو بیدار کرنے آتی ہے۔ ظاہری زندگی و موت سے قطع نظر‘ یہ پیغام حقیقت ِ مرگ و حیات ہے۔ بقول اقبال ع ’’خدائے زندہ‘ زندوں کا خدا ہے‘‘جبکہ زندگی محض ہواؤں میں سانس لینے کا نام نہیں بلکہ پیکر ِخاکی میں جان پھونکنے کا نام ہے۔؎
ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرے!
یہ جان توحید پھونکتی ہے۔ توحید اللہ ربّ العزت کو سب سے برتر و اعلیٰ مان کر اپنا وجود اسے سپرد کرنےکا نام ہے۔ یہی اسلام کا نقطہ آغاز ہے۔ اسی سپردگی کے بعد حقیقی زندگی کی ابتدا ہوتی ہے۔ اقبال یہ پیغام فرد سے افراد تک اور افراد سے ملت تک پہنچاتے ہیں۔ یہ اقبال کا نمایاں انداز ہے کہ وہ انفرادی و اجتماعی دونوں سطحوں پر مرض کی نشاندہی کرتے ہیں۔ انفرادی طور پر وہ بندئہ مؤمن کو شاہین سے تشبیہ دیتے ہیں اور اس کے بگاڑ کی وجہ صحبت ِزاغ بتلاتے ہیں:؎
ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلندپروازی
خراب کر گئی شاہیں بچے کو صحبت زاغ
جگہ جگہ شاہین کو اپنی قوتِ پرواز کی یاددہانی کرواتے ہیں:؎
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے‘ بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں!
اقبال کہتے ہیں کہ فرد کے گناہوں پر اللہ اسے جلد نہیں پکڑتے بلکہ ڈھیل دیتے ہیں مگر جب ملت اپنے مقصد سے لگاتار روگردانی کرے اور امانت ِخلافت سے انحراف برتے‘تو وہ مجموعی طور پر ایک رسواکن مغلوبیت کا شکار بن جاتی ہے۔ ؎
فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملّت کے گناہوں کو معاف!
افراد و ملّت کی بقا کا واحد راستہ مقصد ِحقیقی کی جانب واپسی ہے۔ اس راستے کا نقشہ قرآن ہے۔ چنانچہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اقبال کا پیغام درحقیقت رجوع الی القرآن ہے۔ اقبال کے اشعار ایک طرح سے قرآن کی تفسیر ہیں۔دورِ حاضر میں ظلمت ِغفلت نے چہار جانب اندھیرا کررکھا ہے۔ ہم انفرادی و اجتماعی طور پر پسپا ہو چکے ہیں۔ایسے حالات میں فکر ِاقبال ایک بہت بڑا اثاثہ ہے۔ یہ ہمیں ماضی ‘ حال اور مستقل کی سیر کرواتا ہے اور ہم پر بہت سے پوشیدہ حقائق اور تلبیس ابلیس آشکار کرتا ہے۔ کس قدر سچ کہا تھا جنابِ اقبال نے:؎
اندھیری شب ہے‘ جدا اپنے قافلے سے ہے تُو
ترے لیے ہے مرا شعلہ نوا‘ قندیل!