(تحریکِ جماعت اسلامی) اسلامی نظام بذریعہ انتخابات: مولانا مودودیؒ کےموقف میں تبدیلی - سعادت محمود

12 /

اسلامی نظام بذریعہ انتخابات
مولانا مودودیؒ کے موقف میں تبدیلی
ایک مطالعاتی تجزیہسعادت محمود

یہ مضمون ۲۰۱۳ء کے انتخابات کے حوالے سے لکھا گیا تھا‘اس لیے اُس وقت کےامیر جماعت کے اعترافِ شکست کا حوالہ دیا گیا ہے۔ حالیہ انتخابات ۲۰۲۴ء کے بعد موجودہ امیر صاحب نے نہ صرف شکست تسلیم کی‘ بلکہ شکست کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنی ذمہ داری سے استعفابھی دے دیا۔ حیرت ہے کہ اعلائے کلمۃ اللہ کی علم بردار اور اسلامی نظام قائم کرنے کی دعوے دار جماعت اپنی شکست تسلیم کرے۔ حضرت نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو سال کی دعوت کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور جو مقدمہ پیش کیا اس میں اپنی شکست کا اعتراف نہیں کیا بلکہ قوم کے انکار کا ذکر کیا۔ کتنے ہی انبیاءؑ کو اُن کی قوموں نے جھٹلادیا‘ لیکن وہ نبی ناکام نہیں ہوئے بلکہ وہ قومیں ناکام ہوئیں جنہوں نے ان کی دعوت کو ٹھکرایا۔


بر صغیر پا ک و ہند میں جماعت اسلامی کے احیاء کا کام اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے سیّد ابوالا علیٰ مودودیؒ سے لیا۔جماعت اسلامی کے قیام کے لیے گراؤنڈ ورک ۱۹۳۸ء اور ۱۹۳۹ء سے شروع کیا گیا تھا جب ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش‘‘ کے نام سے مضامین کا سلسلہ شروع کیا گیا اور اپریل ۱۹۴۱ء میں ’’ایک صالح جماعت کی ضرورت‘‘کے عنوان سے لوگوں کو ایک جماعت کے قیام کے لیے دعوت دی گئی۔ مولانا مودودی صاحب کی اس دعوت پر ۷۵ آدمی لاہور میں جمع ہوئے اور ’’جماعت اسلامی‘‘ کا باقاعدہ قیام عمل میں آیا۔
جماعت اسلامی کی حکمت عملی پر تحفظات اور اُن پر تشویش تو ایک عرصے سے ہے لیکن ۱۲مئی ۲۰۱۳ء کے انتخابات کے بعدجماعت اسلامی کے امیر کے پالیسی بیانات جن میں انتخابات میں شکست کی ذِمہ داری کو تسلیم کیا گیا ہے ‘ اس تحریر کا محرک ہیں(۱)۔ وہ جماعت جو انبیاء علیہ السلام کی وارث تھی اور جس کا نعرہ ہے کہ قرآن و سنّت کی دعوت لے کر اٹھو اور دنیا پر چھا جاؤ‘وہ آج اس مقام پر کیسے پہنچی۔ ہمارا ایمان ہے کہ انبیاءکبھی ناکام نہیں ہوتے بلکہ وہ قوم ناکام ہوتی ہے جو نبی کی دعوت قبول کرنے سے انکار کر دیتی ہے۔
قرآن و حدیث کی رُو سے حضرت نوح علیہ السلام ناکام نہیں ہوئے جن کی نو سو سال کی دعوت کے باوجود گنتی کے چند افراد ہی ان پر ایمان لائے ۔ نہ ہی حضرت یحییٰ علیہ السلام ناکام ہوئےجبکہ بادشاہ نے ایک رقّاصہ کی فرمائش پر اُن کا سر کاٹ کر اُس کی خدمت میں پیش کیا تھا۔ نہ ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام ناکام ہوئے جن کی قوم نے وقت کے فرمان روا کےاستفسار پر ان کے مقابلہ میں ایک ڈاکو کی رہائی کے بارے میں فیصلہ دیا‘ اور اپنے خیال میں آپؑ کوصلیب پر چڑھا دیا تھا۔
جی ہاں جس جماعت کے امیر مولانا مودودیؒ صاحب نے ۱۹۷۰ء کے انتخابات کے موقع پر کہا تھا کہ جماعت اسلامی نہیں ہاری قوم ہاری ہے‘آج اس کا امیر شکست کا اقرار کرتا ہے۔ جماعت اسلامی کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ اپنے نصب العین اور اس کے حصول کے طریقۂ کار سے انحراف تو تقسیم ہند کے فوراً بعد ہی شروع ہو گیا تھا جو بڑھتے بڑھتے آج اس مقام پر پہنچا ہے۔ یہ انحراف ایسا نہیں ہے کہ کوئی بعد میں آنے والوں نے کیا ہو بلکہ خود جماعت اسلامی کے داعی کی زندگی ہی میں شروع ہو گیا تھا۔جماعت اسلامی کےموقف میں وقتاً فوقتاً جو تبدیلی آئی ہے ‘ان سطور میں اس کا جائزہ لینے کی ایک ادنیٰ سی کوشش کی جارہی ہے ۔مقصود صرف تنقید نہیں بلکہ خواہش اصلاح کی ہے۔ اگرچہ یہ امر بہت تکلیف دہ ہے لیکن جب تک نکتہ نحراف تک نہیں پہنچا جائے گا اور اس چیز کا تعین نہ ہوگا کہ پٹڑ ی کہاں سے بدلنا شروع ہوئی ‘ گاڑی کو دوبارہ پٹڑی پر چڑھانا مشکل ہے۔ بقول شاعر ؎
اُسی مقام پہ واپس چلو تو بات بنے
کہ جس مقام پہ بھٹکا تھا کارواں اپنا
اس انحراف کی دوجہتیں ہیں۔ ایک نصب العین اور دوسرے اس کے حصول کا طریقہ کار(لائحہ عمل)۔
جماعت کا نصب العین دو اجزاء پر مشتمل ہے: عملاً اقامت ِدین جبکہ حقیقتاًرضائے الٰہی اور فلاحِ اُخروی کا حصول۔ یہاں بھی ایک باریک نکتہ ہے ۔اقامت دین کو نصب العین قرار دینا بھی درست نہیں ہے۔ اول تو خود نصب العین کی تشریح میں لکھا گیا ہے کہ:
’’ اگرچہ مؤ من کا اصل مقصد رضائے الٰہی کا حصول اور آخرت کی فلاح ہے‘ مگر اس مقصد کا حصول اس کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ دنیا میں خدا کے دین کو قائم کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس لیے مؤمن کا عملی نصب العین اقامت ِدین جبکہ حقیقی نصب العین وہ رضائے الٰہی ہے جو اقامت دین کی سعی کے نتیجے میں حاصل ہو گی۔ ‘‘
خود مولانا کے الفاظ میں :
’’کوئی کہتا ہے کہ علو اور تمکن فی الارض کی طرف آؤ‘ حالانکہ یہ مسلمان کا نصب العین نہیں ہے‘ بلکہ اپنے نصب العین (اعلائے کلمۃ اللہ) کے لیے اس کی بے غرضانہ جدو جہد کا طبعی نتیجہ ہے۔‘‘ (تحریک آزادئ ہند اور مسلمان : حصّہ اول ‘ص۱۰۳)
اگر اقامت ِدین کو مقصد قرار دیا جاتا ہے تو پھر شکست تسلیم کرنا بجا ہے۔ اگر نصب العین کے الفاظ میں تھوڑی سی ترمیم کر لی جائے تو اس الجھن سے نکلا جاسکتا ہے۔یعنی:’’اقامت دین کی سعی اور جدّوجُہد کے ذریعے رضائے الٰہی اور فلاحِ اُخروی کا حصول۔‘‘
پہلا انحراف جماعت اسلامی کے نصب العین میں ہوا‘ جس کا اللہ سے ڈرتے ہوئےاور شیطان کے شر سے پناہ مانگتے ہوئے نہایت دردمندی کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ فی الحال چند اشارے دیے جا رہے ہیں ۔ دستور میں درج نصب العین سے حقیقی نصب العین پس منظر میں چلا گیا اور اس کی جگہ عملی نصب العین نے لے لی ۔یہی بنیادی انحراف ہے‘باقی سب اسی بنیادی انحراف ہی کے نتائج ہیں۔ اس کے لیے چند حوالے دیے جا رہے ہیں۔
۱۹۵۱ء کے کل پاکستان اجتماع کے موقع پر مولانا امین احسن اصلاحی صاحب اپنی تقریر ’’ہم اس ملک میں کیا تغیرات چاہتے ہیں؟‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’ اب میں آپ کو یہ بتانے کی کوشش کروں گا کہ ہم اس ملک میں کس طرح کے تغیرات لانا چاہتے ہیں۔ اس کا اجمالی جواب تو میں آپ کو دے چکا ہوں کہ ہم اس ملک میں اسلام کو لانا چاہتے ہیں۔خالص اسلام کو‘ سو فی صدی اسلام کو‘ زندگی کے ہر گوشہ میں اسلام کو....... الغرض ہماری تمنّا اور کوشش یہ ہے کہ اس ملک کی زندگی کے ہر گوشے پر اللہ کا رنگ چڑھ جائے۔ کوئی کونہ اور گوشہ بھی صبغۃ اللہ کی تنویر سے محروم نہ رہے۔ جب تک ایک نقطہ کے برابر بھی کسی گوشہ میں ایسی جگہ باقی رہے گی جس پر اسلام کی چھاپ نہ ہو گی اس وقت تک ہم سمجھیں گے کہ ہمارا کام ابھی ختم نہیں ہوا اور ہم برابر اپنی کوشش جاری رکھیں گے‘ تا آنکہ اللہ تعالیٰ ہماری زندگی کے ہر گوشے پر اپنے دین کو قائم فرمائے۔‘‘
پوری تقریر پڑھ جائیے ‘کہیں آپ کو حقیقی نصب العین کا ذکر نہیں ملے گا کہ یہ سب ہم کیوں چاہتے ہیں! آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ اس تقریر کا موضوع نہیں تھا۔
اسی اجتماع میں مولانا صاحب ’’مسلمانوں کا ماضی ‘حال اور مستقبل‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’ یہ جائزہ میں نے کسی کو مطعون کرنے کے لیے نہیں بلکہ اس لیے لیا ہے کہ آپ موجودہ صورت حال اور اس کے تاریخی اسباب کی اچھی طرح تشخیص کرلیں اور اس لائحہ عمل کو ٹھیک ٹھیک جانچ سکیں جو ہم نے محض اللہ کی توفیق و تائید کے اعتماد پر ان حالات میں پاکستان کی اصلاح کے لیے اور اس کو بالآخر اسلام کی نشا ٔۃِثانیہ کا علم بردار بنانے کے لیے اختیار کیا ہے............ان سب شرطوں کے بعد یہ بھی ضروری ہے کہ اسلام کو نظامِ غالب بنانے کی تحریک اسی طرح ایک ہمہ گیر سیلاب کی مانند اٹھے جس طرح مغربی تہذیب یہاں سیلاب کی مانند آئی اور زندگی کے ہر شعبے پر چھا گئی ............
ہم زندگی کے کسی ایک جزو یا بعض اجزاء میں کچھ اسلامی رنگ پیدا کر دینے کے قائل نہیں بلکہ اس بات کے در پے ہیں کہ پورا اسلام پوری زندگی پر حکمران ہو ..........اسلام کے اس ہمہ گیر تسلّط ہی سے یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ پاکستان یکسو ہو کر ان روحانی‘ اخلاقی اور مادی فوائد سے پوری طرح متمتع ہو جو ربّ العالمین کی دی ہوئی ہدایت پر چلنے کا فطری نتیجہ ہیں۔ اور پھر اسی سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ یہ ملک تمام مسلم ممالک کے لیے دعوت اِلی الخیر کا اور تمام دنیا کے لیے ہدایت کا مرکز بن جائے۔ ‘‘
’’جماعت اسلامی کی دعوت‘‘کے نام سے موجود کتابچہ پورا پڑھ لیں۔
’’پہلا نکتہ: بندگانِ خدا کو با لعموم اور جو پہلے سے مسلمان ہیں ان کو بالخصوص اللہ کی بندگی کی دعوت‘ جس کا لب ِلباب: ’’ انسان خدا کو پورے معنی میں الٰہ اور ربّ‘ معبود اور حاکم‘ آقا اور مالک‘ رہنما اور قانون ساز‘ محاسب اور مجازی(جزا دینے والا) تسلیم کرے اور اپنی پوری زندگی کو‘ خواہ وہ شخصی ہو یا اجتماعی‘ اخلاقی ہو یا مذہبی‘ تمدنی و سیاسی اور معاشی ہو یا علمی و نظری اسی ایک خدا کی بندگی میں سپرد کر دے۔
دوسرا نکتہ: منافقت کو چھوڑنا: منافقانہ رویّہ سے ہماری مراد یہ ہے کہ آدمی جس دین کی پیروی کا دعویٰ کرے اس کے برخلاف نظامِ زندگی کو اپنے اوپر حاوی و مسلّط پا کر راضی اور مطمئن رہے اور اس کو بدل کر اپنے دین کو اس کی جگہ قائم کرنے کی کوئی سعی نہ کرے ..... مخلصانہ ایمان کا اولین تقاضا یہ ہے کہ جس طریق زندگی پر ایمان رکھتے ہوں اسی کو ہم اپنا قانونِ حیات دیکھنا چاہیں ....
تیسرا نکتہ: امامت میں تغیر: پس ہمارا مسلم ہونا خود اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم دنیا کے ائمہ ٔ ضلالت کی پیشوائی ختم کر دینے اور غلبۂ کفر و شرک کو مٹا کر دین حق کو اس کی جگہ قائم کرنے کی سعی کریں........ ہماری دعوت کی طرح ہمارا طریق کار بھی در اصل قرآن اور انبیاء علیہم السلام کے طریقے سے ماخوذ ہے...........اس میں ایک طرف خود کارکن کے اندر وہ گہری بصیرت‘ وہ سنجیدگی‘ وہ پختہ کاری اور وہ معاملہ فہمی پیدا ہوتی ہے جو اس تحریک کے زیادہ صبر آزما اور زیادہ محنت و حکمت چاہنے والے مراحل میں درکا رہونے والی ہے۔‘‘
اس میں بھی اصل نصب العین کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
’’جماعت اسلامی کا مقصد‘ تاریخ اور لائحہ عمل‘‘ کے دیباچہ میں مولانا مودودی صاحب لکھتے ہیں :
’’اس مرحلے میں عام لوگ اس جماعت سے روشناس ہو رہے ہیں اور یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ یہ جماعت کیا ہے‘ کس غرض کے لیے قائم ہوئی ہے‘ اس کا نظام کس قسم کا ہے‘ اب تک اس نے کیا کام کس طرح کیا ہے اور اب کیا کرنا چاہتی ہے۔‘‘
اس کے بعد کتاب کا آغاز ہوتا ہے۔مولانا صاحب لکھتے ہیں:
’’ جماعت اسلامی جس مقصد کے لیے قائم کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ انسانی زندگی کے پورے نظام کو اس کے تمام شعبوں (فکر و نظر‘ عقیدہ و خیال‘ مذہب و اخلاق‘ سیرت و کردار‘ تعلیم و تربیت‘ تہذیب و ثقافت‘ تمدن و معاشرت‘ معیشت و سیاست‘ قانون و عدالت‘ صلح و جنگ ‘ بین الاقوامی تعلقات) سمیت خدا کی بندگی اور انبیاء علیہم السلام کی ہدایت پر قائم کیا جائے‘‘۔ یہ مقصد اول روز سے ہمارے پیش نظر رہا ہے اور آج بھی یہی ایک مقصد ہے جس کے لیے ہم کام کر رہے ہیں۔ اس کے سوا کوئی دوسرا مقصد نہ ہمارے پیش نظر کبھی تھا‘ نہ آج ہے‘ نہ ان شاءاللہ کبھی ہوگا۔ آج تک جس کام سے بھی ہم نے دلچسپی لی ہے اسی مقصد کے لیے لی ہے اور اسی حد تک لی ہے جس حد تک ہماری دانست میں اس کا تعلق اس مقصد سے تھا۔‘‘
اس کے بعد پوری کتاب پڑھ جائیے‘ کہیں آپ کو حقیقی نصب العین کا ذکر نہیں ملے گا۔
اسی طرح ’’تحریک اسلامی کا آئندہ لائحۂ عمل‘‘ شروع سے آخر تک پڑھ لیں ۔ چھ گھنٹےکی اس پوری تقریر کا محور تبدیلیٔ قیادت اور اس کے لیے لا ئحۂ عمل پر مبنی ہے۔حقیقی نصب العین کا تذکرہ تک نہیں ہے۔اللہ کی نصرت‘ اس سے دعا‘ اس سے اجر کی توقع‘ اس کا ذکر ‘کسی چیز کا تذکرہ نہیں ہے‘ جبکہ اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنے نبی ﷺ کو بطور نمونہ پیش کیا ہے ‘وہاں فرمایا:
{لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَ اللہَ کَثِیْرًا(۲۱) } (الاحزاب)
’’ بے شک اللہ کے رسولؐ کی ذات میں بہترین نمونہ ہے (ان لوگوں کے لیے) جو اللہ سے اُمید رکھیں‘ آخرت کی امید رکھیں اور اللہ کا ذکر کثرت سے کریں۔‘‘
قرآن اور حدیث کی روشنی میں دیکھیں تو اللہ اور اس کے رسولﷺ کا سارا زور آخرت پر ہے۔ سورۃ الصف میں ارشاد فرمایا:
{یٰٓــاَیـُّـھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ھَلْ اَدُلُّــکُمْ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ(۱۰)} (الصف)
’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! کیا میں تمہیں ایسی تجارت نہ بتاؤں جو تمہیں عذابِ الیم سے نجات دلا دے۔‘‘
سورۃ التوبہ میں واضح کیا گیا:
{اِنَّ اللہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَہُمْ وَاَمْوَالَہُمْ بِاَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃَط}
(آیت۱۱۱)

’’ بے شک اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں۔‘‘
سورئہ آلِ عمران میں ترغیب دلائی گئی:
{وَسَارِعُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّ‘بِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُہَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ}(آیت۱۳۳)
’’ دوڑو اپنے رب کی مغفرت اور اس جنّت کی طرف جس کی وسعتیں آسمانوں اور زمین کی طرح ہیں۔‘‘
سورۃ الحدید میں فرمایا گیا:
{سَابِقُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَا کَعَرْضِ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ}(آیت۲۱)
’’ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اپنے رب کی مغفرت اور اس جنّت کی طرف جس کی وسعتیں آسمانوں اور زمین کی مانند ہیں۔‘‘
اللہ کے رسولﷺ فرماتے ہیں کہ میری اور تمہاری مثال ایسے ہے کہ تم ایک آگ سے بھرے ہوئے گڑھے کے کنارے کھڑے ہو اور اس میں گرنا چاہتے ہو اور میں تمہیں کمر سے پکڑ پکڑ کر کھینچ رہا ہوں۔
حضرت حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث جو اکثر نفاق کے ضمن میں بیان کی جاتی ہے اس میں حضرت حنظلہؓ کے الفاظ پر غور کریں کہ وہ کہتے ہیں کہ اے اللہ کے رسولﷺ جب آپ ہمیں جنت اور دوزخ کا ذکر کر کے نصیحت کر رہے ہوتے ہیں تو کیفیت یہ ہوتی ہے کہ جیسے ہم جنّت اور دوزخ کو سامنے دیکھ رہے ہیں۔ گویا کہ حضورﷺ کی محفل میں جنت اور دوزخ کا اتنا تذکرہ ہوتا تھا۔ اس کے مقابلہ میں یہاں صورت حال دیکھیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں شیطان کے شر سے محفوظ رکھے!
یہ تو صورتِ حال تھی حقیقی نصب العین کی۔حقیقی موضوع تو یہی ہے جس پر تفصیلی گفتگو ہونی چاہیےلیکن اس تحریر کو شروع کرنے کا محرک عملی نصب العین کے حصول کے لیے اختیار کیے جانے والے لائحہ عمل میں آنے والی تبدیلیوں کا جائزہ لینا تھا‘اس لیے فی ا لوقت اسی پر گفتگو کریں گے۔
موازنے کے لیے مولانا مودودی صاحب کی اپنی تحریروں سے اقتباسات دیے گئے ہیں۔ پہلے تین نکات پر مشتمل وہ موقف ہے جو ابتدا میں تھا اور صحیح موقف تھا۔ اس کے بعد چھ نکات پر مشتمل تبدیل شدہ موقف کے اقتباسات دیے گئے ہیں۔ پھر ان نکات کا دو پہلوؤں سے تجزیہ کیا گیا ہے۔اس کے بعد اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش ہے کہ جب مولانا صاحب نے اس بدلے ہوئے موقف کی توجیہہ کی ۔ آخر میں مولانا صاحب کے تین مختلف معاملات پر ایک دوسرے سے بالکل متضاد موقف پیش کیے گئے ‘جن کا تعلق اصلاً اپنے بنیادی موقف میں تبدیلی سے ہے۔
جیسا کہ عرض کیا گیا ہے ‘یہ انحراف مولانا مودودی ؒصاحب کی زندگی ہی میں شروع ہو گیا تھا۔ یہ بات ان کے عقیدت مندوں پر گراں گزرے گی لیکن میں اور آپ حقیقت کو تو بدل نہیں سکتے۔ مولانا صاحب کا مقام اپنی جگہ مسلّم ہے۔ وہ اپنی کاوشیں کر کے اللہ کے حضور پہنچ چکےاور اللہ کی ذات سے امید ہے کہ وہ انہیں اپنے مقرّب بندوں میں شامل کرے گا!
اندھی تقلید سے اجتناب ہمیں مولانا ہی نے سکھایا ہے۔ دوسرے یہ کہ مولانا صاحب بھی انسان تھے اور تدبیر کی غلطی انسانوں ہی سے ہوتی ہے۔
اس دنیا میں لاکھوں نہیں تو ہزاروں لوگ اس بات کی گواہی دینے کے لیے موجود ہیں کہ انہوں نے مولانا مودودیؒ کی تحریروں کےذریعے ہدایت پائی۔اللہ کے رسولﷺ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا تھا کہ اگر تمہارے ذریعے ایک آدمی بھی ہدایت پا جائے تو یہ بات تمہارے لیے سرخ اونٹوںسے بہتر ہے۔خود مَیں بھی اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ پہلی دفعہ ’’دینیات‘‘ پڑھنے کے بعد دل سے کلمہ شہادت نکلا تھا۔ ’’خطبات‘‘ نے عمل پر آمادہ کیا۔’’تفہیم القرآن‘‘ نے پوری دُنیا میں لوگوں کو متاثر کیا۔ مولانا صاحب کی کتابوں سے متاثر ہونے والوں کے واقعات بہت ہیں۔اس لیے اس تجزیے سے مولانا کی شخصیت پر کوئی حرف نہیں آتا۔
اس صورتحال پر آپ بھی غور کریں۔ میں نے تو غور کیا ہے اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اللہ کی مشیت یہی تھی۔حضرت یوسف علیہ السلام کے قِصّہ میں‘ جسے اللہ نے خود بہترین قِصّہ قرار دیا ہے‘قیدی کے خواب کی تعبیر میں حضرت یوسف علیہ السلام نے کہا تھا کہ تم رہا کر دیے جاؤ گےاور اپنے آقا کو شراب پلاؤ گے تو اپنے آقا کے سامنے میرا معاملہ بھی رکھنا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے خود ارشاد فرمایا کہ شیطان نے اسے بھلا دیا۔ روایات کے مطابق حضرت یوسف علیہ السلام اس کے بعد بارہ سال جیل میں رہے۔ اب اس کی مصلحت اللہ کے سوا کون جان سکتا ہے!
ابتدائی موقف
(ا) ’’جو لوگ اجتماعیت میںکچھ بھی نظر رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ خواہ حکومت کسی نوعیت کی ہو‘ مصنوعی طریقہ سے نہیں بنا کرتی۔ وہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ کہیں وہ بن کر تیار ہو اور پھر اُدھر سے سے لا کر اس کو کسی اور جگہ جما دیا جائے۔اس کی پیدائش تو ایک سوسائٹی کے اندر اخلاقی‘ نفسیاتی‘ تمدنی اور تاریخی اسباب کے تعامل سے طبعی طور پر ہوتی ہے .......اجتماعیات میں بھی یہ حقیقت ناقابل انکار ہے کہ ایک حکومت صرف ان حالات کے اقتضاء کا نتیجہ ہوتی ہے ........دراصل مَیں یہ ثابت کر رہا ہوں کہ جس نوعیت کا بھی نظام حکومت پیدا کرنا مقصود ہو اسی کے مزاج اور اسی کی فطرت کے مناسب اسباب فراہم کرنا اور اس کی طرف لے جانے والا طرز عمل اختیار کرنا بہرحال ناگزیر ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ویسی ہی تحریک اٹھے‘ اسی قسم کے انفرادی کیریکٹر تیار ہوں‘ اسی طرح کا اجتماعی اخلاق بنے‘ اسی طرز کی لیڈر شپ ہو اور اسی کیفیت کا اجتماعی عمل ہو جس کا اقتضا اس خاص نظام حکومت کی فطرت کرتی ہے جسے ہم بنانا چاہتے ہیں۔ یہ سارے اسباب و عوامل جب بہم ہوتے ہیں اور ایک طویل مدّت تک جدّوجُہد کرنے سے ان کے اندر اتنی طاقت پیدا ہو جاتی ہے کہ ان کی تیار کی ہوئی سوسائٹی میں کسی دوسری نوعیت کے نظامِ حکومت کا جینا دشوار ہو جاتا ہے تب ایک طبعی نتیجہ کے طور پر وہ خاص نظام حکومت ابھر کر آتا ہے جس کے لیے ان طاقتور اسباب نے جدّوجُہد کی ہو ....... جیسا کہ میں ابتدا میں عرض کر چکا ہوں‘ کسی سوسائٹی میں جس قسم کے فکری‘ اخلاقی‘ تمدنی اسباب و محرکات فراہم ہوتے ہیں‘ ان کے تعامل سے اسی قسم کی حکومت وجود میں آتی ہے ........
در حقیقت اسلامی حکومت کسی معجزے کی شکل میں صادر نہیں ہوتی۔ اس کے پیدا ہونے کے لیے ناگزیر ہے کہ ابتدا میں ایک ایسی تحریک اٹھے جس کی بنیاد میں وہ نظریۂ حیات‘ وہ مقصد زندگی‘ وہ معیارِ اخلاق‘ وہ سیرت و کردار ہو جو اسلام کے مزاج سے مناسبت رکھتا ہے ............اس دماغی پس منظر کے ساتھ یہ تحریک عملاً اس غلط نظام زندگی کے خلاف جدّوجُہد کرے جو گرد و پیش پھیلا ہوا ہے۔ اس جدو جہد میں اس کے علم بردار مصیبتیں اٹھا کر‘ سختیاں جھیل کر‘ قربانیاں دے کر‘ مار کھا کر اور جانیں دے کر اپنے خلوص اور اپنے ارادے کی مضبوطی کا ثبوت دیں۔ آزمائشوں کی بھٹی میں تپائے جائیں اور ایسا سونا بن کر نکلیں جس کو ہر پرکھنے والا جانچ کر بے کھوٹ کامل المعیار سونا ہی پائے ............اس طرح کی جدو جہد سے سوسائٹی کے وہ تمام عناصر جن کی فطرت میں کچھ بھی نیکی اور راستی موجود ہے‘ اس تحریک میں کھنچ کر چلے آئیں گے ............عوام کی ذہنیت میں ایک انقلاب رونما ہو گا‘ اجتماعی زندگی میں اس مخصوص نظام حکومت کی پیاس پیدا ہو جائے گی ...........آخر کار ایک لازمی اور طبعی نتیجہ کے طور پر وہی نظامِ حکومت قائم ہو جائے گا جس کے لیے اس طور پر زمین تیا ر کی گئی ہو۔ یہ ہے اس انقلاب کے ظہور اور اس حکومت کی پیدائش کا فطری طریقہ جس کو اسلامی انقلاب اور اسلامی حکومت کہا جاتا ہے۔
بعض لوگ یہ خیال ظاہر کرتے ہیں کہ ایک دفعہ غیر اسلامی طرز کا ہی سہی‘ مسلمانوں کا قومی اسٹیٹ قائم تو ہو جائے۔ پھر رفتہ رفتہ تعلیم و تربیت اور اخلاقی اصلاح کے ذریعے سے اس کو اسلامی ریاست (اسٹیٹ) میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ مگر مَیں نے تاریخ‘ سیاسیات اور اجتماعیات کا جو تھوڑا بہت مطالعہ کیا ہے اس کی بنا پر اس کو ناممکن سمجھتا ہوں‘ اور اگر یہ منصوبہ کامیاب ہو جائے تو مَیں اس کو ایک معجزہ سمجھوں گا۔ جیسا کہ مَیں پہلے عرض کر چکا ہوں‘ حکومت کا نظام اجتماعی زندگی میں بڑی گہری جڑیں رکھتا ہے۔ جب تک اجتماعی زندگی میں تغیر واقع نہ ہو‘ کسی مصنوعی تدبیر سے نظام حکومت میں کوئی مستقل تغیر پیدا نہیں کیا جا سکتا ........عمر بن عبدالعزیز ؒجیسا فرماںروا جس کی پشت پر تبع تابعین کی ایک بڑی جماعت بھی تھی‘ اس معاملے میں قطعی ناکام ہو چکا ہے کیوں کہ سوسائٹی بحیثیت مجموعی اس اصلاح کے لیے تیار نہیں تھی۔ محمد تغلق اور عالمگیر جیسے طاقتور بادشاہ اپنی شخصی دین داری کےباوجود نظام حکومت میں کوئی تغیر نہ کر سکے۔ مامون الرشید جیسا باجبروت حکمران نظام حکومت میں نہیں بلکہ صرف اس کی اوپری شکل میں خفیف سی تبدیلی پیدا کرنا چاہتا تھا‘ اور اس میں بھی ناکام ہوا۔یہ اس وقت کا حال ہے جب کہ ایک شخص کی طاقت بہت کچھ کر سکتی تھی ۔( یہاں ایک اور بات بھی ذہن میں رہے کہ اس وقت مسلمانوں کی مجموعی اخلاقی حالت بھی اتنی بگڑی ہوئی نہیں تھی جتنی اس وقت تھی جب کہ یہ سطور لکھی گئی تھیں) اب میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جو قومی اسٹیٹ جمہوری طرز پر قائم ہو گا وہ اس بنیادی اصلاح میں کس طرح مددگار ہو سکتا ہے! جمہوری حکومت میں اقتدا ر ان لوگوں کے ہاتھ میں آتا ہے جن کو ووٹروں کی پسندیدگی حاصل ہو۔ ووٹروں میں اگر اسلامی ذہنیت اور اسلامی فکر نہیں ہے‘ اگر وہ صحیح اسلامی سیرت و کردار کے عاشق نہیں ہیں‘ اگر وہ اس بے لاگ عدل اور ان بے لچک اصولوں کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں جن پر اسلامی حکومت چلائی جاتی ہے تو ان کے ووٹوں سے کبھی ’’مسلمان‘‘ آدمی منتخب ہو کر پارلیمنٹ یا اسمبلی میں نہیں جا سکتے۔ اس ذریعے سے تو اقتدار انہی لوگوں کو ملے گا جو مردم شماری کے رجسٹر میں چاہے مسلمان ہوں‘ مگر اپنے نظریات اور طریقہ کار کے اعتبار سے جن کو اسلام کی ہوا بھی نہ لگی ہو۔ اس قسم کے لوگوں کے ہاتھ میں اقتدار آنے کے معنی یہ ہیں کہ ہم اسی مقام پر کھڑے ہیں جس مقام پر ایک غیر مسلم حکومت میں تھے‘ بلکہ اس سے بھی بدتر مقام پر‘ کیونکہ وہ’’قومی حکومت‘‘ جس پر اسلام کا نمائشی لیبل لگا ہو گا‘ انقلاب کا راستہ روکنے میں اس سے بھی زیادہ جری اور بے باک ہو گی جتنی ایک غیر مسلم حکومت ہوتی ہے۔ غیرمسلم حکومت جن کاموں پر قید کی سزا دیتی ہے وہ’’مسلم قومی حکومت‘‘ ان کی سزا پھانسی اور جلاوطنی کی صورت میں دے گی‘اور پھر بھی اس حکومت کے لیڈر جیتے جی غازی اور مرنے پررحمۃ اللہ علیہ ہی رہیں گے۔
پس یہ سمجھنا غلط ہے کہ اس قسم کی ’’قومی حکومت‘‘ کسی معنی میں بھی اسلامی انقلاب لانے میں مدد گار ہو سکتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر ہم کو اس حکومت میں بھی اجتماعی زندگی کی بنیادیں بدلنے ہی کی کوشش کرنی پرے گی ‘ اور اگر ہمیں یہ کام حکومت کی امداد کے بغیر‘ بلکہ اس کی مزاحمت کے باوجود اپنی قربانیوں ہی سے کرنا ہو گا تو ہم آج ہی سے یہ راہ عمل کیوں نہ اختیار کریں؟ اس نام نہاد ’’مسلم حکومت‘‘ کے انتظار میں اپنا وقت یا اس کے قیام کی کوشش میں اپنی قوت ضائع کرنے کی حماقت آخر ہم کیوں کریں جس کے متعلق ہمیں یہ معلوم ہے کہ وہ ہمارے مقصد کے لیے نہ صرف یہ کہ غیر مفید ہو گی بلکہ کچھ زیادہ ہی سد ّ ِراہ ثابت ہو گی۔‘‘
[ستمبر۱۹۴۰ء۔اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے(تحریک آزادئ ہند اور مسلمان ‘ حصّہ دوم) صفحہ ۱۶۲‘۱۷۰‘۱۷۱‘۱۷۶]
(ب)’’ان کا یہ خیال بالکل غلط ہے کہ مسلم اکثریت کے صوبوں میں حاکمیت جمہور کے اصول پر خود مختار حکومت کا قیام آخر کار حاکمیت ربّ العالمین کے قیام میں مدد گار ہو سکتا ہے۔ جیسی مسلم اکثریت اس مجوزہ پاکستان میں ہے ویسی ہی بلکہ عددی حیثیت میں بہت زیادہ زبردست اکثریت افغانستان‘ ترکی اور مصر میں موجود ہے۔ وہاں اس (مسلم اکثریت) کو وہ ’’پاکستان‘‘ حاصل ہے جس کا یہاں مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ پھر کیا وہاں مسلمانوں کی خود مختار حکومت کسی بھی درجہ میں حکومت ِالٰہیہ کے قیام میں مدد گار ہے یا ہوتی ہوئی نظر آتی ہے؟ مددگار ہونا تو درکنار ‘ میں پوچھتا ہوں‘ کیا آپ وہاں حکومت ِالٰہی کی تبلیغ کر کے پھانسی یا جلا وطنی سے کم کوئی سزا پانے کی امید کر سکتے ہیں؟ اگر آپ وہاں کے حالات سے کچھ بھی واقف ہیں تو اس سوال کا جواب اثبات میں دینے کی جرأت نہ کر سکیں گے۔ جب صورت حال یہ ہے تو آپ کو غور کرنا چاہیے کہ آخر اسلامی انقلاب کے راستہ میں مسلمان قوموں کی ان آزاد حکومتوں کے سد ّ ِ راہ ہونے کا سبب کیا ہے!اس معاملہ کی جتنی تحقیق آپ کریں گے‘ جواب اس کے سوا کچھ نہ پائیں گے کہ در اصل اصطلاحاً و نسلاًمسلمان ہونا اور چیز ہے جبکہ نظریہ حیات و مقصد زندگی کا اسلامی ہونا بالکل ایک دوسری چیزہے ۔جو لوگ روح و اخلاق کے اعتبار سے مسلم نہ ہوں بلکہ محض اصطلاحی و نسلی حیثیت سے مسلمان ہوں ان کو اگر بیرونی اثر و اقتدار سے کامل آزادی بھی نصیب ہو جائے‘ اور اگر ان کے جمہور کو خود اپنی پسند کے مطابق نظام حکومت قائم کرنے کا پورا اختیار بھی حاصل ہو ‘ تب بھی حکومت ِالٰہی وجود میں نہیں آسکتی۔ وہ اپنے دنیوی مفاد کے پرستار ہوتے ہیں۔ نہ صر ف یہ کہ ان میں حق و صداقت کے لیے اپنے مفاد کو قربان کرنے کی طاقت نہیں ہوتی ‘ بلکہ اس کے برعکس جب کبھی ان کی اغراضِ دُنیوی سے حق اور صداقت کا تصادم ہوتا ہے‘ وہ حق کو چھوڑ کر ہمیشہ اس طرف جاتے ہیں جس طرف ان کی اغراض پوری ہوتی ہوں۔ جہاں ایسے لوگوں کی اکثریت ہو وہاں کبھی یہ اُمید نہیں کی جا سکتی کہ عام انتخابات میں ان کے ووٹوں سے وہ صالحین منتخب ہوں گے جو منہاجِ نبوت پر حکومت کرنے والے ہوں۔ جمہوری انتخاب کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے دودھ کو بلو کر مکھن نکالا جاتا ہے۔ اگر دودھ زہریلاہو تو اس سے جو مکھن نکلے گا‘ قدرتی بات ہے کہ وہ اس دودھ سے زیادہ زہریلا ہو گا۔ اسی طرح اگر سوسائٹی بگڑی ہوئی ہو تو اس کے ووٹوں سے وہی لوگ منتخب ہو کر برسر اقتدار آئیں گے جو اس سوسائٹی کی خواہشاتِ نفس سے سند ِقبولیت حاصل کر سکیں گے۔ پس جو لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ اگر مسلم اکثریت کے علاقے ہندو اکثریت کے تسلط سے آزاد ہو جائیں اور یہاں جمہوری نظام قائم ہو جائے تو اس طرح حکومت الٰہی قائم ہو جائے گی‘ ان کا گمان غلط ہے۔دراصل اس کے نتیجہ میں جو کچھ حاصل ہو گا وہ صرف مسلمانوں کی کافرانہ حکومت ہو گی ............
اس میں شک نہیں کہ عوام کی اخلاقی اور ذہنی تربیت کر کے ‘ ان کے نقطہ نظر کو تبدیل کر کے اور ان کی نفسیات میں انقلاب برپا کر کے ایک جمہوری نظام کو الٰہی حکومت میں تبدیل کیا جا سکتا ہے‘ لیکن سوال یہ ہے کہ اس اخلاقی و نفسیاتی انقلاب کو برپا کرنے میں کیا مسلمانوں کی کافرانہ حکومت کچھ بھی مددگار ہو گی؟ کیا وہ لوگ جو موجودہ بگڑی ہوئی سو سائٹی کے مادی مفاد سے اپیل کر کے اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے ان سے آپ یہ امید کر سکتے ہیں کہ وہ حکومت کا روپیہ‘ اس کے وسائل اور اس کے اختیارات کسی ایسی تحریک کی اعانت میں صرف کریں گے جس کا مقصد عوام کی ذہنیت تبدیل کرنا اور انہیں حکومت ِالٰہی کے لیے تیار کرنا ہو؟ اس کا جواب عقل اور تجربہ دونوں کی روشنی میں نفی کے سوا کچھ نہیں دیا جا سکتا۔ بلکہ سچ یہ ہے کہ یہ لوگ اس انقلاب میں مدد دینے کی بجائے الٹا اس کی مزاحمت کریں گے ............یہی نہیں ‘ اس سے زیادہ خوف ناک حقیقت یہ ہے کہ نام کے مسلمان ہونے کی وجہ سے یہ لوگ کفار کی بہ نسبت بہت زیادہ جسارت اور بے باکی کے ساتھ ایسی ہر کوشش کو کچلیں گے اور ان کے نام ان کے ظلم کی پردہ پوشی کے لیے کافی ہوں گے۔جب صورتِ معاملہ یہ ہے تو کیا وہ شخص نادان نہیں ہے جو اسلامی انقلاب کا نصب العین سامنے رکھ کر ایسی جمہوری حکومت کے قیام کی کوشش کرے جو ہر کافرانہ حکومت سے بڑھ چڑھ کر اس کے مقصد کی راہ میں حائل ہو گی؟‘‘
[جنوری‘۱۹۴۱ء ۔اسلام کی راہ راست اور اس سے انحراف کی راہیں(تحریک آزادئ ہند اور مسلمان: حصّہ دوم) صفحہ۱۴۱‘۱۴۲]
(ج) ’’وہ نظام اگر فی ا لواقع اسلامی ہوا جیسا کہ وعدہ کیا جا رہا ہے (............) تو ہم دل و جان سے اس کے حامی ہوں گے ‘ اور اگر وہ نظام غیر اسلامی ہوا تو ہم اسے تبدیل کر کے اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالنے کی جدو جہد اسی طرح کرتے رہیں گے جس طرح موجودہ نظام میں کر رہے ہیں۔‘‘
[جولائی ۱۹۴۷ء۔ تحریک آزادئ ہند اور مسلمان‘ حصّہ اول ‘صفحہ ۲۴ ۔بحوالہ رسائل و مسائل‘ حصّہ اول‘ صفحہ ۳۶۳]
دوسرا موقف
(الف)’’بلاشبہ ایسی حالت میں جب کہ غیر اسلامی اسٹیٹ ہمہ گیر ہو اس حالت کی نسبت جب کہ فاسد سماجی نظام بالکل ابتدائی نوعیت کا ہو ‘ بہت کچھ فرق واقع ہو جاتا ہے۔ اس کے لحاظ سے طریق کار میں بھی کم از کم صورت کے لحاظ سےتغیر کرنا ضروری ہے‘ لیکن اصولی حیثیت سے طریق کار میں کسی تغیر کی ضرورت نہیں ہے۔ اصولی طریق کار یہی ہے کہ پہلے ہم اپنی دعوت پیش کریں گے۔ پھر ان لوگوں کو جو ہماری دعوت پر لبیک کہیں ‘ منظّم کرتے چلے جائیں گے۔ پھر اگر رائے عامہ کی موافقت سے یا حالات کی تبدیلی سے کسی مرحلہ پر ایسے حالات پیدا ہو جائیں کہ موجودالوقت دستوری طریقوں ہی سے نظام حکومت کا ہمارے ہاتھ میں آ جانا ممکن ہواور ہمیں توقع ہو کہ ہم سوسائٹی کے اخلاقی‘ تمدنی اور سیاسی و معاشی نظام کو اپنے اصولوں پر ڈھال سکیں گے تو ہمیں اس موقع سے فائدہ اٹھانے میں کوئی تامّل نہ ہو گا۔‘‘ [ستمبر‘اکتوبر۱۹۴۵ء۔ اسلامی ریاست‘ صفحہ ۷۱۵]
(ب)’’حضرت یوسف علیہ السلام کو جو اختیارات پیش کیے گئے تھے وہ غیر مشروط اور غیر محدود تھے اور ان کو قبول کر لینے سے حضرت یوسفؑ کو یہ اقتدار حاصل ہو رہا تھا کہ ملک کے نظام کو اس ڈھنگ پر چلائیں جو دین حق کے مطابق ہو۔ یہ چیز اگر نبیﷺ کو پیش کی جاتی تو آپؐ بھی اسے قبول کرلیتےاور خوامخواہ لڑ کر وہ چیز حاصل کرنے پر اصرار نہ کرتے جو بغیر لڑے پیش کی جارہی ہو۔ اسی طرح کبھی ہم کو بھی اگر یہ توقع ہو جائے کہ ہم رائے عامہ کی تائید سے نظامِ حکومت پر اس طرح سے قابض ہو سکیں گے اوراس کو خالص اسلامی دستور پر چلا سکیں تو ہمیں بھی اسے قبول کر لینے میں کوئی تامل نہ ہو گا۔
الیکشن لڑنا اور اسمبلی میں جانا اگر اس غرض کے لیے ہو کہ ایک غیر اسلامی دستور کے تحت ایک لادینی ‘ جمہوری ریاست کے نظام کو چلایا جائے تو یہ ہمارے عقیدئہ توحید اور ہمارے دین کے خلاف ہے۔ لیکن اگر کسی وقت ہم ملک کی رائے عامہ کو اس حد تک اپنے عقیدہ و مسلک سے متفق پائیں کہ ہمیں توقع ہو کہ عظیم الشان اکثریت کی تائید سے ہم ملک کا دستور تبدیل کر سکیں گے ‘تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس طریقہ سے کام نہ لیں۔جو چیز لڑے بغیر سیدھے طریقے سے ھاصل ہو سکتی ہو اس کو خوامخواہ ٹیڑھی انگلیوں سے نکالنے کا ہم کو شریعت نے حکم نہیں دیا ہے۔ مگر اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ یہ طریق کار ہم صرف اس صورت میں اختیار کریں گے جب کہ:
اولًا: ملک میں ایسے حا لات پیدا ہو چکے ہوں کہ محض رائے عامہ کا کسی نظام کے لیے ہموار ہو جانا ہی عملاً اس نظام کے قائم ہونے کے لیے کافی ہو سکتا ہو۔
ثانیاً: ہم اپنی دعوت و تبلیغ سے باشندگانِ ملک کی ایک بڑی اکثریت کو اپنا ہم خیال بنا چکے ہوں‘ اور غیر اسلامی نظام کے بجائے اسلامی نظام قائم کرنے کے لیے ملک میں عام تقاضا پیدا ہو چکا ہو۔
ثالثاً:انتخابات غیر اسلامی دستور کے تحت نہ ہوں بلکہ بنائے انتخاب ہی یہ مسئلہ ہو کہ ملک کا آئندہ نظام کس دستور پر قائم کیا جائے۔ ‘‘
[ستمبر‘اکتوبر۱۹۴۵۔ اسلامی ریاست‘ صفحہ ۷۱۱]
(ج) ’’اب یہ بات تقریباً طے شدہ ہے کہ ملک تقسیم ہو جائے گا۔ ایک حصّہ مسلمان اکثریت کے سپرد کر دیا جائے گا اور دوسرا حصّہ غیر مسلم اکثریت کے زیر اثر ہو گا ۔ پہلے حصّہ میں ہم کوشش کریں گے کہ رائے عامّہ کو ہموار کر کے اس دستور و قانون پر ریاست کی بنیاد رکھیں جسے ہم خدائی دستور و قانون مانتے ہیں۔‘‘
[۱۹۴۷ء‘ تحریک آزادیٔ ہند اور مسلمان ‘حصّہ اول ‘صفحہ ۲۵ بحوالہ ’’جماعت اسلامی کی دعوت‘‘]
(د) ’’ریڈیو پاکستان سے ایک انٹرویو یا مباحثے میں سائل کا سوال او راس کا جواب
سائل: میری رائے میں ہر ملک کا سیاسی نظام اس کے باشندوں کے رسم و رواج ‘ اخلاق‘ عادات و خصائل اور اعتقادات و توہمات کا پَرتو ہوتا ہے۔ ریاستی نظام بجائے خود کسی فلسفے یا مذہب کا حامل نہیں ہو سکتا۔ اگر اسے ایسا بنانے کی کوشش کی جائے تو وہ ایک مصنوعی اورعارضی کوشش ہو گی ............اسی طرح اگر ہم اسلامی ریاست کی تعمیر چاہتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ پاکستان کے باشندوں میں صحیح اسلامی سپرٹ پیدا کریں اور انہیں دین کی اصلی اقدار سے روشناس کرائیں۔ جب یہ اقدار مضبوط ہو جائیں گی اور ہمارے قومی کیریکٹر میں اسلامی تصورات پوری طرح سرایت کر جائیں گے اس وقت ہمارا سیاسی نظام خود بخود اسلامی رنگ اختیار کر لے گا۔
جواب:آپ نے سچ فرمایا کہ ایک ملک کا سیاسی نظام اس کے باشندوں کی اخلاقی اور ذہنی حالت کا پَرتو ہوا کرتا ہے۔ اب اگر پاکستان کے باشندے اسلام کی طرف ایک پُر زور میلان رکھتے ہیں اور ان کے اندر اسلام کے راستے پر آگے بڑھنے کی خواہش موجود ہے تو کیوں نہ ان کی قومی ریاست ان کے اس میلان اور اس خواہش کا پَر تو ہو؟ آپ کا یہ ارشاد بھی بالکل درست ہے کہ اگر ہم پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اس کے باشندوں میں اسلامی شعور‘ اسلامی ذہنیت اور اسلامی اخلاق پید کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ مگر میں نہیں سمجھا کہ اس کوشش میں حصّہ لینے سے آپ ریاست کو کیوں مستثنیٰ رکھنا چاہتے ہیں............اب جو سیاسی انقلاب ۱۵ اگست کو رونما ہوا ہے اس کے بعد ہمارے سامنے یہ سوال پیدا ہو گیا ہے کہ :آیا اب ہماری قومی ریاست اسلامی زندگی کی تعمیر میں وہ حصّہ لےگی جو ایک معمار کا حصّہ ہوتا ہے؟ یا وہ طرزِ عمل اختیار کرے گی جو ایک بے نیاز غیر جانبدار کا ہوا کرتا ہے؟ یا اب بھی وہی پچھلی صورت حال برقرا ر رہے گی کہ ہمیں حکومت کی مدد کے بغیر ہی نہیں بلکہ اس کی مزاحمت کے باوجود اسلامی زندگی کی تعمیر کا کام کرنا ہوگا؟ اس وقت چونکہ پاکستان کا آئندہ نظام زیر تشکیل ہے ‘اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ ایسی ریاست بن جائے جو اسلامی زندگی کی معمار بن سکے۔ ہماری یہ خواہش اگر پوری ہو گئی تو ریاست کے وسیع ذرائع اور طاقتوں کو استعمال کر کے پاکستان کے باشندوں میں ذہنی اور اخلاقی انقلاب برپا کرنا آسان ہو جائے گا۔پھر جس نسبت سے ہمارا معاشرہ بدلتا جائے گا اسی نسبت سے ہماری ریاست بھی ایک مکمل اسلامی ریاست بنتی چلی جائے گی۔ ‘‘
[مئی ۱۹۴۸ء۔تحریک آزادئ ہند اور مسلمان ‘حصّہ دوم ‘صفحہ:۳۳۳‘۳۳۵]
(ھ) ’’واضح طور پر سمجھ لیجیے کہ یہاں اسلامی نظام کا قیام صرف دو طریقوں سے ممکن ہے۔
ایک یہ کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں زمام کار ہے وہ اسلام کے معاملے میں اتنے مخلص ہوں اور اپنے وعدوں کے بارے میں جو انہوں نے اپنی قوم سے کیے تھے اتنے صادق ہوں کہ اسلامی حکومت قائم کرنے کی جو صلاحیت ان کے اندر مفقود ہے اسے خود محسوس کر لیں اور ایمان داری کے ساتھ یہ مان لیں کہ پاکستان حاصل کرنے کے بعد ان کا کام ختم ہو گیا ہے اور یہ کہ اب یہاں اسلامی نظام کی تعمیر کرنا ان لوگوں کا کام ہے جو اس کے اہل ہوں۔ اس صورت میں معقول طریقہ کار یہ ہے کہ پہلے ہماری دستور ساز اسمبلی ان بنیادی امور کا اعلان کرے جو ایک غیر اسلامی نظام کو اسلامی نظام میں تبدیل کرنے کے لیے اصولاًضروری ہیں۔ پھر وہ اسلام کا علم رکھنے والے لوگوں کو دستور سازی کے کام میں شریک کرے اور ان کی مدد سے ایک مناسب ترین دستور بنائے۔پھر نئے انتخاب ہوں اور قوم کو موقع دیا جائے کہ وہ زمام کار سنبھالنے کے لیے ایسے لوگوں کو منتخب کرے جو اس کی نگاہ میں اسلامی نظام کی تعمیر کے لیے اہل ترین ہوں۔ اس طرح صحیح جمہوری طریق پر اختیارات اہل ہاتھوں میں بسہولت منتقل ہو جائیں گے اور وہ حکومت کی طاقت اور ذرائع سے کام لے کر پورے نظام زندگی کی تعمیر جدید اسلامی طرز پر کر سکیں گے۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ معاشرے کو جڑ سے ٹھیک کرنے کی کوشش کی جائے اور ایک عمومی تحریک ِاصلاح کے ذریعہ سے اس میں خالص اسلامی شعور و ارادہ کو بتدریج اس حد تک نشوو نما دی جائے کہ جب وہ اپنی پختگی کو پہنچے تو خود بخود اس سے ایک مکمل اسلامی نظام وجود میں آ جائے۔
ہم اس وقت پہلے طریقہ کوآزما رہے ہیں۔ اگر ہم اس میں کامیاب ہو گئے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ پاکستان کے قیام کے لیے ہماری قوم نے جو جدّوجُہد کی تھی وہ لاحاصل نہ تھی بلکہ اسی کی بدولت اسلامی نظام کے نصب العین تک پہنچنے کے لیے ایک سہل اور قریب ترین راستہ ہمارے ہاتھ آ گیا۔لیکن اگر خدا نخواستہ ہمیں اس میں ناکامی ہوئی اور اس ملک میں ایک غیراسلامی ریاست قائم کر دی گئی تو یہ مسلمانوں کی ان تمام محنتوں اور قربانیوں کا صریح ضیاع ہو گا جو قیامِ پاکستان کی راہ میں انہوں نے کیں۔ اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم پاکستان بننے کے بعد بھی اسی مقام پر ہیں جہاں پہلے تھے ۔
اس صورت میں ہم پھر دوسرے طریقہ پر کام شروع کر دیں گے جس طرح پاکستان بننے سے پہلے کر رہے تھے۔‘‘ [ستمبر۱۹۴۸ء ‘ اسلامی ریاست ‘ صفحہ:۷۱۷۔۷۱۸]
(و)قرار دادِ مقاصد (منظور ہو جانے ) کے بعد اپریل ۱۹۴۹ء میں جماعت نے یہ طے کر دیا تھا کہ اب قانون ساز اسمبلیوں کی رکنیت اور ان کے انتخابات میں حصّہ لینا جائز ہوگیا ہے..... چنانچہ پنجاب کے انتخابات عام کا اعلان ہو جانے کے بعد جماعت کی مجلس شوریٰ نے اپنے اجلاس منعقدہ۵ تا ۹ ستمبر میں ان انتخابات میں حصّہ لینے کا فیصلہ کیا اورپروگرام یہ طے کیا کہ اس بارے میں قدم اوّل کے طور پر عوام میں اس بات کا شعور پیدا کیا جائے کہ پاکستان کے استحکام اور بقا کے لیے ناگزیر ہے کہ یہاں اسلامی نظام قائم ہو۔ اسلامی نظام کے قیام کی اس کے سوا کوئی صورت نہیں ہے کہ نظامِ حکومت کی باگ ڈور ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہو جن کے اخلاق اور سیرتیں قابل اعتماد ہوں‘ جو اسلام کو جانتے ہوں‘ اس کو مانتے بھی ہوں اور اس کے مطابق پاکستان کی تعمیر کی قابلیت اور عزم بھی رکھتے ہوں۔
(ز) ’’لہٰذا اگر ہم فی الواقع اپنے ملک کے نظام زندگی کو فسق و ضلالت کی راہ سے ہٹا کر دین حق کی صراطِ مستقیم پر چلانا چاہتے ہیں تو ہمارے لیے ناگزیر ہے کہ بگاڑ کو مسند اقتدار سے ہٹانے اور بناؤ کو اس کی جگہ متمکن کرنے کی براہِ راست کوشش کریں۔ ظاہر ہے کہ اگر اہلِ خیر و اصلاح کے ہاتھ میں اقتدار ہو تو وہ تعلیم اور قانون اور نظم و نسق کی پالیسی کو تبدیل کر کے چند سال کے اندر وہ کچھ کر ڈالیں گے جو غیر سیاسی تدبیروں سے ایک صدی میں بھی نہیں ہو سکتا۔ یہ تبدیلی کس طرح ہو سکتی ہے؟ ایک جمہوری نظام میں اس کا راستہ صرف ایک ہے اور وہ ہے انتخابی جدّوجُہد۔ رائے عامہ کی تربیت کی جائے‘ عوام الناس کے معیارِ انتخاب کو بدلا جائے‘ انتخاب کے طریقوں کی اصلاح کی جائے اور پھر ایسے صالح لوگوں کو اقتدار کے مقام پر پہنچایا جائے جو ملک کے نظام کو خالص اسلام کی بنیادوں پر تعمیر کرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہوں اور قابلیت بھی۔‘‘
[۱۹۵۱ء۔ مسلمانوں کا ماضی ‘ حال اور مستقبل کے لیے لائحہ عمل‘روداد جماعت اسلامی‘ حصّہ ششم‘ص ۴۰۹] (جاری ہے)