(عرض احوال) ’’ میثاق‘‘:تنظیم اسلامی کی انقلابی دعوت کا امین - خورشید انجم

7 /


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
’’ میثاق‘‘:تنظیم ِاسلامی کی انقلابی دعوت کا امین

ماہنامہ ’’میثاق‘‘ کا اجرا ءجون ۱۹۵۹ء میں معروف عالم دین مولانا امین احسن اصلاحی مرحوم و مغفور کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ بعدازاں جولائی ۱۹۶۶ء میں اس کی اشاعت کا بیڑا بانیٔ تنظیم اسلامی محترم ڈاکٹر اسرار احمد ؒنے اٹھایا۔۱۹۷۵ء میں جب تنظیم اسلامی کا قیام عمل میں آیا تو میثاق اس انقلابی تحریک کا نقیب قرار پایا۔ اس کے بعد سے آج تک یہ باقاعدگی سے شائع ہو رہا ہے اور پاکستان و ہندوستان کے دینی و علمی حلقوں میں ایک معیاری دینی و تحریکی جریدہ کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ جون ۱۹۵۹ء کے پہلے شمارے میں ’’تذکرہ و تبصرہ‘‘کے عنوان سے جو تحریر شائع ہوئی تھی ‘ اس کے آغاز میں مولانا امین احسن اصلاحی مرحوم نے لکھا :
’’ اس رسالے کا نام’’ میثاق‘‘ محض اتفاق سے نہیں رکھ لیا گیا بلکہ یہ نام خوب سوچ سمجھ کر انتخاب کیا گیا ہے۔ یہ نام بہت بڑی حد تک اس مقصد کی تعبیر کرتا ہے جو اس جریدہ کو نکالنے کے پیش نظر ہے۔ قرآن حکیم نے اس قسم کے دو میثاقوں کا ذکر کیا ہے۔ ایک تو وہ میثاق ہے جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے بنی آدم کو اس دنیا میں بھیجنے سے پہلے ان کی عقل و فطرت سے لیا ہے۔ اس میثاق کا ذکر سورۃ الاعراف کی آیت ۱۷۲ میں ہے.....
یہ خدا کی ربوبیت اور اس کی توحید کا میثاق ہے جو ہر انسان کی فطرت سے لیا گیا ہے اور اس پر ہماری عقل اور فطرت دونوں گواہ ہیں۔ دوسرا میثاق وہ ہے جو مذکورہ میثاق کی بنیاد پر اور درحقیقت اسی کے تقاضوں اور مطالبات کوبروئے کار لانے کے لیے ہمارے رب نے اپنے انبیاء اور رسولوں کی وساطت سے ہم سے لیاہے۔ یہ میثاق حضرت آدم d سے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ تک تمام پیغمبروں اور رسولوں نے خدا کے نمائندے کی حیثیت سے اپنی اپنی امتوں سے لیا ہے.....قرآن مجید نے ان تمام میثاقوں کا حوالہ دیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا ہے کہ اب یہ میثاق اُمت محمد یہﷺ سے لیا جا رہا ہے۔ اب اس اُمّت کے لیے لازم ہےکہ اس میثاق پر خود بھی قائم رہیں اور دوسروں کو بھی اس میثاق میں شامل ہونے کی دعوت دیں اور جولوگ اس دعوت کو قبول کرلیں ‘ان کو اس پر قائم رکھنے کے لیے برابر اس کی شہادت دیتے رہیں۔ قرآن مجید اس حقیقت کی یاد دہانی سورۃ المائدہ میں ان الفاظ میں کراتا ہے:
{ وَاذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللہِ عَلَیْکُمْ وَمِیْثَاقَہُ الَّذِیْ وَاثَقَکُمْ بِہٖٓ ۙ اِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا ۡ وَاتَّقُوا اللّٰہَ ۭ اِنَّ اللہَ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ (۷)}
’’اور تم اس فضل کو یاد رکھو جو اللہ نے تم پر فرمایا اور اُس کے اس میثاق کو یاد رکھو جو اُس نے تم سے لیا‘جبکہ تم نے اقرار کیا کہ ہم نے سنا اور قبول کیا۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو‘ بے شک اللہ دلوں کے بھیدوں کو جاننے والا ہے۔‘‘
اورسورۃ الحدید میں فرمایا:
{وَقَدْ اَخَذَ مِیْثَاقَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۸)}
’’اور اللہ نے تم سے میثاق لیا ہے اگر تم مومن ہو۔‘‘
بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمد نے ۲۰۰۹ء میں ماہنامہ ’’میثاق‘‘ کی گولڈن جوبلی کے موقع پر اسی بات کی یاد دہانی ان الفاظ میں فرمائی:
’’خصوصی پیغام تو میرا وہی ہے جو مَیں نے بالکل اپنی جوانی میں سیکھا تھا اور جس پر الحمدللہ مَیں آج تک عمل پیرا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ہمارے دین کے ہم سے تین بنیادی تقاضے ہیں۔ سب سے پہلا تقاضا یہ ہے کہ اپنی انفرادی زندگی میں شریعت اسلامی کی پوری پابندی کریں اور بندگی ٔرب کا حق ادا کریں۔ اس کے بعد بحیثیت اُمّت ِ مسلمہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ دین کی دعوت و تبلیغ میں اپنا وقت‘ صلاحیت اور قوت صرف کریں۔ پھر اس کے بعد دین کو ایک نظام کی حیثیت سے بالفعل قائم کرنے کی جدّوجُہد میں مصروف ہو جائیں‘ تاکہ دنیا کے سامنے اس کی ایک مثال آئے کہ اسلام کیا تعلیمات دیتا ہے‘ جو آج کہیں نہیں ہے۔ تو اصل میں جب تک ہم اپنا مقصد ِزندگی اس کو نہیں بنائیں گے کہ ہم نے دین کو قائم کرنے کی جدّوجُہد کرنی ہے‘دین کے بنیادی تقاضے پورے نہیں ہوں گے‘ اور یہ ایک انقلابی جدّوجُہد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ پہلے ایک مضبوط اور منظم جماعت ان لوگوں سے وجود میں آئے جن کے دلوں میں یقین والا ایمان موجود ہو اور عمل میں شریعت موجود ہو۔ وہ لوگ پھر کسی سے بیعت کر کے ایک تنظیم کی شکل اختیار کریں .....‘‘
آج بحمداللہ‘ ماہنامہ میثاق اپنی مسلسل اشاعت کے۶۵ ویں سال میں قدم رکھ چکا ہے۔گزشتہ ۶۴سال کے صفحات شاہد ہیں کہ اس کے ذریعے مسلمانوں کو مختلف اسالیب میں میثاقِ سمع وطاعت کو پورا کرنے کی دعوت دی جاتی رہی ہے۔ یہ ایک مبارک مشن ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ زندگی کے آخری سانس تک ہم سب کو خلوص و اخلاص کے ساتھ یہ مشن جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین!
ماہنامہ میثاق کا یہ خاصہ رہا ہے کہ ’’عرضِ احوال‘‘ تحریر کرنے کی ذمہ داری عمومی طور پر تنظیم اسلامی کا مرکزی ناظم نشر و اشاعت ادا کرتا ہے۔ لہٰذا سابقہ امیر تنظیم اسلامی حافظ عاکف سعید صاحب اپنے ابتدائی دور میں میثاق کے معاون مدیر کے طور پر ذمہ داری ادا کرتے رہے۔بعد ازاں جب ۲۰۰۱ء میں تنظیم اسلامی کی امارت کا بارِگراں اُن کے کاندھوں پر آن پڑا تو۲۰۰۳ء میں انہوں نے بانیٔ تنظیم اسلامی سے مشاورت کے بعد ایوب بیگ مرزا صاحب کو مرکزی ناظم نشر واشاعت کی ذمہ داری تفویض کردی ۔ ایوب بیگ مرزا صاحب پر بانیٔ تنظیم اسلامیؒ کی تحریر وتقریر اور نظریات کا اثر بہت پرانا ہے۔ آپ ۱۹۶۶ء میں بانیٔ تنظیم اسلامیؒ کو سننے کے لیے آیا کرتے تھے۔ ۱۹۷۹ء میں تنظیم اسلامی میں باقاعدہ شمولیت اختیار کی۔ بچپن ہی سے تحریر کا شوق تھا۔ایوب بیگ مرزا صاحب نے تنظیم اسلامی حلقہ لاہور کی امارت کی ذمہ داری بھی ادا کی۔ آپ راوی ہیں کہ ۱۹۹۵ء میں جب آپ لاہور وسطی تنظیم کے امیر تھے تو ایک دن مزنگ آفس میں بانیٔ تنظیم اسلامیؒ نے پوچھا: ’’بیگ صاحب! سنا ہے آپ کچھ لکھ بھی لیتے ہیں؟آپ نے جواباً عرض کیا: ’’ڈاکٹر صاحب ! یہ ہوائی کسی دشمن نے اُڑائی ہوگی!‘‘ تدریجاً یہ مکالمہ حقیقت کا روپ دھار گیا۔ ایوب بیگ مرزا صاحب راوی ہیں کہ بانیٔ تنظیم اسلامیؒ کے ساتھ مذکورہ گفتگو کے دوران آپ نے اُن سے اپنے لیے خصوصی دعا کی درخواست کی کہ اللہ تعالیٰ یہ کام میرے لیے آسان کر دے۔ ایوب بیگ مرزا صاحب کے حق میں ان کے استاد و مربی کی دعا کی قبولیت کا آنکھوں دیکھا حال ناقابلِ بیان حد تک قابلِ رشک ہے۔
اپریل ۲۰۲۴ء میں موجودہ امیر تنظیم اسلامی شجاع الدین شیخ صاحب نے ایوب بیگ مرزا صاحب کی پیرانہ سالی اور بعض دوسرے عوارض کے باعث یہ ذمہ داری راقم کے سپرد کردی اور مرزا صاحب کو ملکی اور ملّی معاملات پر اپنا مشیرخصوصی مقرر کردیا۔ اب ماہنامہ میثاق ‘ ہفت روزہ ندائےخلافت اور مرکزی شعبہ نشر و اشاعت کے دیگر انتظامی معاملات کی ذمہ داری راقم کے کاندھوں پر آن پڑی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ دین کی سر بلندی کے لیے جدّوجُہد کرنے والوں کی مثال اولمپک مشعل برداروں کی سی ہے۔ اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو یہ ذمہ داری سونپتا ہے‘ وہ اسے ادا کرتے رہتے ہیں جب تک اللہ تعالیٰ چاہتا ہے۔ پھر وہ اپنے حصہ کا کام مکمل کر کے عین اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق نئے تازہ دم ساتھیوں کو یہ مشعل تھما دیتے ہیں۔
مناسب ہوگا کہ راقم لگےہاتھوں قارئین ِ کرام کو اپنا تعارف بھی کرا دے۔
ناچیز کا آبائی تعلق پشاور کی ہند کو بولنے والی برادری سے ہے ۔تقریباً اڑھائی سو سال سے ہمارا خاندان پشاور میں مقیم ہے۔ پشاو ر کے ایک مقامی عالم دین (سید محمد امیر شاہ قادری الگیلانیؒ المعروف مولوی جی ) جو جمعیت العلماء پاکستان کے مرکزی نائب امیر بھی تھے‘ نے اپنی کتاب ’’تذکرہ حفاظ ِپشاور‘‘میں اڑھائی سو سال قبل کے ہمارے بزرگوں کا ذکر کیا ہے۔ گھر کا ماحول عام گھرانوں کا ساروایتی مذہبی تھا‘ البتہ والد صاحب مولانا مودودی ؒسے متاثر تھےاور تفہیم القرآن کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔ والد صاحب سرکاری ملازمت سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے کرایک دوست کے کاروبار سے منسلک ہوگئے۔ غالباً۱۹۷۸ء میں کاروبار کے سلسلہ میں کچھ عرصہ کے لیے لاہور منتقل ہوئے۔ گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے کے لیے میں ان کے پاس آیا تو انہوں نے ڈاکٹر اسرار احمدm کا تعارف کراتے ہوئے درس سننے کے لیے چلنے کا کہا۔ ہم دونوں نے مسجد شہداء میں درس قرآن سنا۔ وہاں نماز جمعہ کا اعلان ہواتوہم مسجد دارُالسلام‘ باغ جناح جا پہنچے۔ یہ بانیٔ تنظیم اسلامیؒ سے راقم کا پہلا تعارف تھا۔ کالج لائف کا آغاز ہوا تو اسلامی جمعیت طلبہ سے تعارف ہوا اور اس کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ وہاں پر بانیٔ تنظیم اسلامیؒ کا اس زاویہ سے بھی تعارف ہواکہ وہ اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ رہ چکے تھے۔ بعد ازاں جب جب ۱۹۸۱ء میں بانیٔ تنظیم اسلامیؒ پشاور کے دوروزہ دورے پر تشریف لائے تو راقم نے بھی ان کے پروگرام میں شرکت کی اور مکتبہ سے کچھ کتب خریدیں۔تقریباً دو سال بعد اوائل جنوری ۱۹۸۳ء میں جب ڈاکٹر اسرار احمدؒ دوبارہ پشاور کے دورہ پر تشریف لائے تو راقم برادرم مجاہد نسیم کے ہمراہ بیعت کرنے کے لیے ان کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔بانیٔ تنظیم اسلامیؒ نے کچھ گفتگو کےبعد ہم دونوں سے فرداً فرداً بیعت لے لی۔پشاور میں ایف ایس سی اور گریجوایشن کرنے کے بعد اسلام آباد منتقل ہوا اور کچھ عرصہ انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی میں گزارنے کے بعد نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ماڈرن لینگویجز (اب یونیورسٹی) سے ایم اے (عربی) کیا۔ بعد ازاں پشاور یونیورسٹی سےایم اے (اسلامیات) بھی کرلیا۔
۱۹۹۰ء میں اسٹیبلشمنٹ انچارج کی حیثیت سے سعودی ریڈ کریسنٹ سوسائٹی برائے افغان مہاجر ین میںکام کیا اور ساتھ کچھ دوسری اضافی ذمہ داریاں بھی انجام دیتا رہا۔۲۰۱۰ء تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ اس دوران تنظیمی طور پر نقیب اسرہ اور مقامی تنظیم کے امیر کے طور پر ذمہ داریاں انجام دیں۔۲۰۱۰ء میں اس وقت کے ناظم اعلیٰ اظہر بختیار خلجی صاحب سے ملاقات کے بعد تنظیم کے ساتھ ہمہ وقتی کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ پہلے امیر حلقہ میجر فتح محمد صاحب کے ساتھ بحیثیت ناظم (نائب امیر) کام کیا اور پھر جنوری ۲۰۱۲ء میں امیر حلقہ کے طور پر تقرر کردیا گیا۔
۱۷ جولائی ۲۰۱۵ء کو مرکزی ناظم تربیت محترم انجینئر حافظ نوید احمد صاحب کا انتقال ہوا تو ماہ اگست میں سابقہ امیر تنظیم اسلامی محترم حافظ عاکف سعیدصاحب نے یہ ذمہ داری قبول کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اپنی نااہلی اور بے بضاعتی کا ذکر کیا لیکن ایک نہ چلی۔ چنانچہ جنوری۲۰۱۶ء میں لاہور منتقل ہو کر بطور مرکزی ناظم تعلیم و تربیت کام شروع کردیا۔ اب ۸ سال پرانے واقعہ کا اعادہ ہوا اور امیر تنظیم اسلامی شجاع الدین شیخ صاحب نے مرکزی شعبہ نشرو اشاعت کی نظامت سنبھالنے کا تقاضاکیا۔ یہاں بھی ایک نہ چل سکی اور ذمہ داری قبول کرتے ہی بنی۔
میں اپنی سابقہ زندگی میں نہ تو باقاعدہ قلم کا مزدور رہا ہوں ‘نہ ہی تحریری میدان میں کبھی مستقل طبع آزمائی کی ہے ۔ اس کے ساتھ اپنی بے بضاعتی کا بھی کما حقہ ادراک ہے۔ یہ بھی احساس ہے کہ اپنے پیش رو جیسی سیاسی بصیرت کا بھی حامل نہیں۔ البتہ امید افزا اور حوصلہ کن بات یہ ہے کہ ایوب بیگ مرزا صاحب کی راہنمائی اور عملی تعاون مجھے حاصل ہے ۔ان کی مشفقانہ سرپرستی میرے لیے سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔ اطمینان کا ایک اور اہم پہلو یہ بھی ہے کہ انتہائی مخلص‘ باصلاحیت‘ دینی سمجھ بوجھ اور تنظیمی تقاضوں کا شعور رکھنےوالے نیز حالات حاضرہ پر گہری نگاہ رکھنے والے ساتھیوں کی ایک مستعد جماعت کا تعاون بھی میسّر ہے۔صدق دل سے یہ دعا ہے کہ ’’رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهٖ ‘‘۔ قارئین سے بھی گزارش ہے کہ وہ دعا کریں کہ میں اس ذمہ داری کو احسن طریقے سے نبھا سکوں۔؎
میں ہوں صدف تو تیرے ہاتھ میرے گہر کی آبرو
میں ہوں خزف تو تُو مجھے گوہر شاہوار کر!