(بیان القرآن) سُورۃُ الاعلٰی+ سُورۃُ الغاشیۃ - ڈاکٹر اسرار احمد

7 /

سُوْرَۃُ الْاَعْلٰی
تمہیدی کلمات
سورۃ الاعلیٰ اور سورۃ الغاشیہ مل کر جوڑا بناتی ہیں۔ حضورﷺ جمعہ اور عیدین کی نمازوں کی پہلی رکعت میں اکثر سورۃالاعلیٰ اور دوسری رکعت میں سورۃ الغاشیہ کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ حضورﷺ کے اس انتخاب کی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ ان دونوں سورتوں میں تذکیر کا خصوصی حکم ہے (سورۃ الاعلیٰ ‘آیت ۹ اور سورۃ الغاشیہ‘ آیت۲۱) جبکہ ان دونوں نمازوں میں بھی تذکیر کا رنگ زیادہ نمایاں ہے۔ ظاہر ہے ان دونوں مواقع پر خطبات کا اہتمام خصوصی طور پر تذکیر کے لیے ہی کیا جاتا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم

سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلَی (۱) الَّذِیْ خَلَقَ فَسَوّٰی (۲) وَالَّذِیْ قَدَّرَ فَھَدٰی (۳) وَ الَّذِیْٓ اَخْرَجَ الْمَرْعٰی (۴) فَجَعَلَہٗ غُثَاۗءً اَحْوٰی (۵) سَنُقْرِئُکَ فَلَا تَنْسٰٓی (۶) اِلَّا مَاشَاۗءَ اللہُ ۭ اِنَّہٗ یَعْلَمُ الْجَھْرَ وَمَا یَخْفٰی(۷) وَنُیَسِّرُکَ لِلْیُسْرٰی(۸) فَذَکِّرْ اِنْ نَّفَعَتِ الذِّکْرٰی (۹) سَیَذَّکَّرُ مَنْ یَّخْشٰی (۱۰) وَیَتَجَنَّبُھَا الْاَشْقَی (۱۱) الَّذِیْ یَصْلَی النَّارَ الْکُبْرٰی (۱۲) ثُمَّ لَا یَمُوْتُ فِیْہَا وَلَا یَحْیٰی (۱۳) قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی (۱۴) وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی (۱۵) بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا (۱۶) وَالْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی (۱۷) اِنَّ ھٰذَا لَفِی الصُّحُفِ الْاُوْلٰی (۱۸)صُحُفِ اِبْرٰھِیْمَ وَمُوْسٰی (۱۹)

آیت ۱{سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلَی(۱)}’’پاکی بیان کرو اپنے ربّ کے نام کی جو بہت بلند و بالا ہے۔‘‘
یہ حکم یوں بھی ہو سکتا تھا کہ ’’اپنے ربّ کی پاکی بیان کرو‘‘ لیکن یہاں خصوصی طور پر اسم (نام) کا لفظ اس لیے آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہمارے تصوّر سے وراء الوراء ‘ثم وراء الوراء ہے۔ اُس کی ذات کے ساتھ ہمارا ذہنی و قلبی تعلق صرف اور صرف اُس کے ناموں کے حوالے سے ہے۔ اسی لیے ہمیں حکم دیا گیاہے :{وَلِلہِ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِہَاص} (الاعراف: ۱۸۰) ’’اور تمام اچھے نام اللہ ہی کے ہیں ‘ تو پکارو اُسے اُن (اچھے ناموں) سے‘‘۔چنانچہ ہم انسان اگر اللہ کا ذکر کرنا چاہیں یا اُس کی تسبیح و تحمید کرنا چاہیں تو ظاہر ہے اس کے اسماء کے حوالے سے ہی کرسکتے ہیں۔
آیت۲{الَّذِیْ خَلَقَ فَسَوّٰی(۲)}’’جس نے (ہر چیز کو) پیدا کیا‘ پھر تناسب قائم کیا۔‘‘
آیت۳{وَالَّذِیْ قَدَّرَ فَہَدٰی(۳)}’’ اور جس نے (ہر شے کا) اندازہ مقررکیا ‘ پھر اسے (فطری) ہدایت عطا فرمائی۔‘‘
ان چار الفاظ (خَلَقَ‘ فَسَوّٰی ‘ قَدَّرَ‘ فَھَدٰی) میں اللہ تعالیٰ کی صفات کا بیان بھی ہے اور تخلیقی عمل کے مختلف مراحل کا ذکر بھی۔ اللہ تعالیٰ کی صفت ِتخلیق کے حوالے سے تین اسمائے حسنیٰ (اَلْخَالِقُ‘ اَلْـبَارِیُٔ ‘ اَلْمُصَوِّرُ) کا ایک ساتھ ذکر قبل ازیں سورۃ الحشر کی آخری آیت میں بھی آچکا ہے۔ سورۃ الحشر کی اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی یہ تین صفات ایک خاص منطقی ترتیب سے بیان ہوئی ہیں۔ یہ ترتیب دراصل تخلیقی عمل کے مرحلہ وار ارتقاء کی نشاندہی کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سب سے پہلے کسی چیز کا نقشہ یا نمونہ بناتا ہے‘ اس لحاظ سے وہ اَلْخَالِقُ ہے۔ پھر وہ مطلوبہ چیز کو طے شدہ نمونے کے مطابق عدم سے عالم ِوجود میں ظاہر فرماتا ہے‘ اس اعتبار سے وہ اَلْـبَارِیُٔ ہے۔ تیسرے مرحلے میں وہ اس تخلیق کو ظاہری صورت یا شکل عطا فرماتا ہے ‘اس مفہوم میں وہ اَلْمُصَوِّرُ ہے۔
سورۃ الحشر کی مذکورہ آیت میں تخلیقی عمل کے جن تین مراحل کا ذکر ہوا ہے ان کا تعلق چیزوں کے ظاہری یا مادی وجود سے ہے‘ جبکہ زیر مطالعہ آیات میں مادّی وجود کی تخلیق کے ساتھ ساتھ چیزوں کے باطنی خصائص کی تخلیق کا ذکر بھی ہے۔ (خَلَقَ فَسَوّٰی کے الفاظ میں چیزوں کے مادّی وجود کی تخلیق کے مراحل کا بیان ہے‘ جبکہ قَدَّرَ فَھَدٰی کے الفاظ کسی تخلیق کے باطنی پہلوئوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔)
اب ہم ان الفاظ کے معانی و مفہوم کو انسانی ماحول کی مثالوں سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چنانچہ پہلے دو مراحل (تخلیق اور تسویہ) کو ایک عمارت کی مثال کے حوالے سے یوں سمجھئے کہ کسی عمارت کا ڈھانچہ کھڑا کر دینا اُس کی ’’تخلیق‘‘ ہے‘ جبکہ اُس کو سجانا‘ سنوارنا (finishing) وغیرہ اس کا ’’تسویہ ‘‘ہے ۔تخلیق کا تیسرا مرحلہ جس کا یہاں ذکر ہوا ہے وہ ’’قدر‘‘ ہے۔ قدر کے لغوی معنی اندازہ مقرر کرنے کے ہیں‘ جسے عرفِ عام میں ہمارے ہاں تقدیر کہا جاتا ہے ۔ اس مفہوم میں کسی تخلیق کے معیار‘ اس کی صلاحیت‘ استعداد اور حدود (limitations) سمیت جملہ خصوصیات کو اس کی قدر یا تقدیر کہا جائے گا۔ مثلاً انسان اشرف المخلوقات توہے لیکن وہ ہوا میںاُڑنے سے معذور ہے۔اس کے مقابلے میں ایک چھوٹی سی چڑیا آسانی سے ہوا میں اُڑتی پھرتی ہے۔ تو گویا ہوا میں اڑنے کی یہ صلاحیت رکھنا چڑیا کی تقدیر کا خاصّہ ہے اور اس اعتبار سے معذور ہونا انسان کی تقدیر کا حصّہ ہے۔ اس کے بعد تخلیق کے اگلے مرحلے کے طور پریہاں ’’ہدایت‘‘ کا ذکر آیاہے۔ اس سے مراد وہ فطری اور جبلی ہدایت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی ہر مخلوق کو پیدائشی طور پر عطا کر رکھی ہے۔ اسی ’’ہدایت‘‘ کی روشنی میں بکری کو معلوم ہوا ہے کہ اسے گھاس کھانا ہے اور شیر جانتا ہے کہ اس کی غذا گوشت ہے۔ غرض ہر جاندار اپنی زندگی اسی طریقے اور اسی لائحۂ عمل کے مطابق گزار رہا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے طے کردیا ہے۔
تخلیق کے ان چار مراحل کے حوالے سے اگر ہم انسانی زندگی کا جائزہ لیں تو پہلے دو مراحل یعنی تخلیق اور تسویہ کے اعتبار سے تو انسان میں اور اللہ تعالیٰ کی دوسری مخلوقات میں کوئی فرق نہیں۔ لیکن اگلے دو مراحل (تقدیراور ہدایت) کے حوالے سے انسان کا معاملہ دوسری مخلوقات سے الگ ہے۔ اس لحاظ سے ہر انسان کی قدر‘ صلاحیت اور استعداد اللہ تعالیٰ کے ہاں دو طرح سے طے پاتی ہے۔ اس کا ایک پہلو یا ایک حصّہ تو وہ ہے جو اسے پیدائشی طور پر جینز(genes)کی صورت میں عطا ہوا (given)ہے اور دوسرا پہلو یا دوسرا حصّہ اس کے ماحول کا ہے جس میں وہ آنکھ کھولتا اور پرورش پاتا ہے۔ ان دونوں پہلوئوں کے اچھے برے اور مثبت و منفی عوامل کے ملنے سے ہر انسان کی شخصیت کا ایک سانچہ تیار ہوتا ہے جسے سورئہ بنی اسرائیل کی آیت ۸۴ میں ’’شاکلہ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔(سورئہ بنی اسرائیل کی اس آیت کے تحت اس اصطلاح کی وضاحت کی جا چکی ہے۔) اسی سانچہ یاشاکلہ سے ہر انسان کی استعداد کی حدود متعین ہوتی ہیں۔ اور کوئی انسان انگریزی محاورہ "one cannot out grow ones skin" (کوئی انسان اپنی کھال سے باہر نہیں نکل سکتا) کے مصداق ان حدود سے تجاوز نہیں کر سکتا۔ ہر انسان نیکی کرے گا تو اپنی اسی استعداد کے مطابق کرے گا اور اگر برائی کمائے گا تو انہی حدود کے اندر رہ کر ایسا کرے گا۔ غرض ہر انسان کی عملی زندگی کی ساری محنت ‘کوشش اور بھاگ دوڑ اپنے شاکلہ کے مطابق ہی ہو گی اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی جانچ(evaluation)بھی اسی حوالے سے کی جائے گی ۔مثلاً ایک شخص کی صلاحیت پچاس درجے تک پہنچنے کی تھی‘ اگر وہ چالیس درجے تک پہنچ گیا تو ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ کامیاب قرار پائے۔ اس کے مقابلے میں ایک دوسرا شخص جو سو درجے تک جانے کی استعداد رکھتا تھا ‘وہ ممکن ہے پچاس درجے تک پہنچنے کے بعد بھی ناکام رہے۔ بہرحال اس حوالے سے اللہ تعالیٰ نے ایک اصول طے فرمادیا کہ {لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَاط}(البقرۃ:۲۸۶) ’’اللہ تعالیٰ نہیںذِمّہ دار ٹھہرائے گا کسی جان کو مگر اُس کی وسعت کے مطابق۔‘‘
اسی طرح انسان کی ’’ہدایت‘‘ کے بھی دو درجے ہیں۔ پہلا درجہ تو جبلی ہدایت کا ہے۔یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی ہر مخلوق کو جبلی ہدایت سے نواز رکھا ہے اسی طرح اُس نے ہر انسان کو بھی فطری اور جبلی طور پر ہدایت کا ایک حصّہ عطا فرمایا ہے۔ جبکہ انسان کی ہدایت کا دوسرا حصّہ وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اسے وحی کے ذریعے عطا فرمایا ہے۔ یعنی انسان کی فطرت میں پہلے سے ودیعت شدہ بنیادی ہدایت کی تکمیل کے لیے اللہ تعالیٰ نے دنیا میں پیغمبر بھی بھیجے اور کتابیں بھی نازل کیں۔
آیت۴{وَالَّذِیْٓ اَخْرَجَ الْمَرْعٰی(۴)} ’’اور جس نے (زمین سے) چارہ نکالا۔‘‘
آیت ۵{فَجَعَلَہٗ غُثَآئً اَحْوٰی(۵)} ’’پھر اس کو کر دیا سیاہ چُورا۔‘‘
یعنی اُسی کے طے کردہ نظام کے تحت گھاس اور نباتات وغیرہ زمین سے اُگتے ہیں اور پھر گل سڑ کر ختم ہوجاتے ہیں۔
آیت ۶{سَنُقْرِئُکَ فَلَا تَنْسٰٓی(۶)}’’(اے نبیﷺ!) ہم آپ کو پڑھا دیں گے ‘ پھر آپ بھولیں گے نہیں۔‘‘
یعنی قرآن مجید میں سے کوئی چیز آپ کو بھولے گی نہیں ۔ یہ وہی مضمون ہے جو سورۃ القیامہ کی ان آیات میں آیا ہے : {لَا تُحَرِّکْ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖ (۱۶) اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗ(۱۷) فَاِذَا قَرَاْنٰــہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ(۱۸)}’’آپؐ اس (قرآن) کے ساتھ اپنی زبان کو تیزی سے حرکت نہ دیں۔اسے جمع کرنا اور پڑھوا دینا ہمارے ذِمّہ ہے۔پھر جب ہم اسے پڑھوا دیں تو آپ اس کی قراء ت کی پیروی کیجیے۔‘‘
آیت ۷{اِلَّا مَا شَآئَ اللہُ ط} ’’سوائے اُس کے کہ جو اللہ چاہے۔‘‘
یہاں یہ کلمہ استثناء صرف اللہ تعالیٰ کی قدرت کے اظہار کے لیے آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے ‘ اُس کے حکم اور اِذن کے بغیر کوئی کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ اگر اللہ تعالیٰ کسی کے حافظہ سے کوئی چیز محو کرنا چاہے تو وہ لاکھ اسے یاد کرتا رہے ‘یاد نہیں رکھ سکے گا۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ قرآن مجید کی کوئی آیت حضورﷺ بھول بھی گئے تھے۔ اس لحاظ سے اس جملے کی مثال سورۃ الزخرف کی اس آیت جیسی ہے : {قُلْ اِنْ کَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَلَـدٌق فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِیْنَ(۸۱)} ’’(اے نبیﷺ!) آپ ان سے کہیے کہ اگر رحمٰن کا کوئی بیٹا ہوتا تو سب سے پہلا اُس کی عبادت کرنے والا مَیں ہوتا‘‘۔ظاہر ہے یہ کلام پرزور دینے کا ایک انداز ہے اور اس کا مقصد انتہائی پُرزور انداز میں یہ ثابت کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہرگز ہرگز کسی کو اپنا بیٹا نہیں بنایا۔
{اِنَّہٗ یَعْلَمُ الْجَہْرَ وَمَا یَخْفٰی(۷)} ’’یقیناً وہ جانتا ہے اونچی آواز میں کہی گئی بات کو بھی اور جو مخفی رکھی جائے اسے بھی۔‘‘
آیت ۸{وَنُیَسِّرُکَ لِلْیُسْرٰی(۸)} ’’اور ہم رفتہ رفتہ پہنچائیں گے آپؐ کو آسانی تک۔‘‘
تَیْسِیْر یُسرسے باب تفعیل ہے۔ اس باب میں تدریج کے معنی پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اے نبیﷺ! ہم مشکلات میں سے رفتہ رفتہ آپ کے لیے راستہ بناتے چلے جائیں گے اور اس آسان راستے پر آپؐ کوتدریجاً ایک بڑی آسانی کی طرف لے جائیں گے۔ اس سے مراد اس دنیا میں غلبہ ٔدین کی جدّوجُہد کی کامیابی اور آخرت میں جنّت اور اس کی آسائشیں ہیں۔ ہم چاہیں تو آنِ واحد میں آپؐ کے تمام دشمنوں کو آپؐ کے سامنے سرنگوں کردیں اور تمام جن و انس کو ایمان کی توفیق بخش دیں‘ لیکن ہماری حکمت اور مشیت میں اس معاملے کی ایک تدریج ہے۔ چنانچہ ہم آپؐ کی جدّوجُہد کو مرحلہ وار اور رفتہ رفتہ کامیابی سے ہمکنار کریں گے۔ اس فلسفے کی مزید وضاحت آگے چل کر سورۃ الشمس میں آئے گی۔
آیت ۹{فَذَکِّرْ اِنْ نَّفَعَتِ الذِّکْرٰی(۹)}’’تو آپ ؐیاد دہانی کراتے رہیے ‘اگر یاددہانی فائدہ دے۔‘‘
اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ آپ ﷺانذار و تذکیر کا فریضہ تبھی سرانجام دیں جب مخاطب کو اس سے کچھ فائدہ ہو رہا ہو یعنی وہ اس تذکیر کا اثر قبول کر رہا ہو۔ چنانچہ اگلی آیت میں اس حوالے سے وضاحت کر دی گئی ہے۔
آیت ۱۰{سَیَذَّکَّرُ مَنْ یَّخْشٰی(۱۰)} ’’وہ نصیحت حاصل کر لے گا جو ڈرتا ہے۔‘‘
اے نبیﷺ!آپ لوگوں کو تذکیر و نصیحت کرتے جایئے ‘جس کے دل میں اللہ کا خوف ہو گا وہ اس کا اثر ضرور قبول کرے گا اور اسے فائدہ بھی ہو گا۔ چنانچہ جب بھی آپ پر کوئی نئی وحی آئے تو آپ وہ نیا کلام پڑھ کر لوگوں کو ضرور سنائیں۔ آپؐ کے اہل ِایمان ساتھیوں کے علم اور ایمان میں اس سے ضرور اضافہ ہو گا۔
آیت۱ ۱{وَیَتَجَنَّـبُہَا الْاَشْقَی(۱۱)}’’البتہ جو شقی (بدبخت) ہے وہ اس سے پہلوتہی کرے گا۔‘‘
آیت ۱۲{الَّذِیْ یَصْلَی النَّارَ الْکُبْرٰی(۱۲)}’’جو (آخر کار) داخل ہو گا بڑی آگ میں۔‘‘
آیت ۱۳{ ثُمَّ لَا یَمُوْتُ فِیْہَا وَلَا یَحْیٰی(۱۳)} ’’پھر نہ اس میں وہ مرے گا نہ زندہ رہے گا۔‘‘
جہنّم کی یہی خصوصیت سورۃ المدثر میں بایں الفاظ بیان ہوئی ہے : {لَا تُبْقِیْ وَلَا تَذَرُ(۲۸)}’’ وہ انسان کو نہ تو باقی رہنے دے گی اور نہ ہی اسے چھوڑے گی۔‘‘
آیت ۱۴{قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی(۱۴)} ’’یقیناً وہ کامیاب ہو گیا جس نے خود کو پاک کر لیا۔‘‘
ان آیات میں بہت اہم اور بنیادی نوعیت کے مضامین بیان ہوئے ہیں۔ اگلی سورتوں میں مختلف مقامات پر ان مضامین کی مزید وضاحت آئے گی۔ تَزَکّٰیسے مراد یہاں روح کی پاکیزگی ہے۔بنیادی طور پر انسان کی روح بہت بلند اور اعلیٰ چیز ہے۔ سورۃ التین کی اس آیت میں دراصل انسان کی روح کی تخلیق ہی کا ذکر ہے: {لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ(۴)} کہ ہم نے انسان کو بہت عمدہ تخلیق پر بنایا ہے ۔لیکن جب اس روح کو جسد ِحیوانی میں قید کر کے دنیا میں بھیجا گیا تو وقتی طور پر روح اپنے اعلیٰ مقام سے گر کر پستی میں چلی گئی‘جس کا ذکر سورۃ التین کی اگلی آیت میں بایں الفاظ آیا ہے: {ثُمَّ رَدَدْنٰـہُ اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ(۵)} کہ پھر ہم نے ا س کو پست ترین حالت کی طرف لوٹا دیا۔ چنانچہ انسان کی دُنیوی زندگی کا اصل ہدف یہ ہونا چاہیے کہ وہ خود کو پستی سے نکال کر دوبارہ بلندی کی طرف لے جائے۔اگر تو اس نے یہ ہدف حاصل کر لیا تو وہ کامیاب ہے ورنہ ناکام۔ اس کامیابی کے لیے اسے ایک طرف جسد ِ حیوانی کے داعیات یعنی اپنی نفسانی خواہشات کو دبانا ہو گا اور دوسری طرف اپنی روح کو زیادہ سے زیادہ غذا فراہم کرنے کا سامان کرنا ہو گا۔ ظاہر ہے حیوانی داعیات کمزور ہوں گے تو تبھی روح کو تقویت ملےگی ۔ ماہ ِ رمضان کے چوبیس گھنٹے کے معمولات کے ذریعے سے اہل ِایمان کو دراصل اسی ’’دو طرفہ‘‘ پروگرام کی مشق کرائی جاتی ہے کہ دن کو روزہ رکھ کر حیوانی جسم اور اس کے داعیات کو کمزور کرو اور رات کو قیام اللیل کے دوران انوارِ قرآن کی بارش سے اپنی روح کو سیراب کرو‘ تاکہ تمہاری روح کو ترفع اور اللہ کا قرب حاصل ہو سکے۔ یہ ہے تَزَکّٰی کا اصل مفہوم اور اس کا بنیادی فلسفہ۔
آیت ۱۵{وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی(۱۵)} ’’اور اُس نے اپنے رب کا نام لیا اور نماز پڑھی۔‘‘
اس آیت کے الفاظ کی عملی تصویر جمعہ کا اجتماع ہے۔اجتماعِ جمعہ میں بھی پہلے خطبہ کی صورت میں اللہ ربّ العزت کا ذکر کیا جاتا ہے‘ پھر نماز پڑھی جاتی ہے۔ مسلم شریف کی ایک حدیث میں اجتماعِ جمعہ کے حوالے سے حضورﷺ کا یہ معمول نقل ہوا ہے:
کَانَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ خُطْبَتَانِ کَانَ یَجْلِسُ بَیْنَھُمَا‘ یَـقْرَأُ الْقُرْآنَ وَیُذَکِّرُ النَّاسَ(صحیح مسلم‘ کتاب الجمعۃ‘ باب ذکر الخطبتین قبل الصلاۃ وما فیھما من الجلسۃ۔ و سنن ابی داوٗد‘ کتاب الصلاۃ‘ باب الخطبۃ قائمًا‘ ح:۱۰۹۴۔ راوی : جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ)
’’اللہ کے رسولﷺ کے دو خطبے ہوتے تھے ‘ ان کے دوران آپؐ بیٹھا کرتے تھے۔ آپؐ قرآن حکیم پڑھ کر سناتے اور لوگوں کو نصیحت فرماتے۔‘‘
حضورﷺ کے دونوںخطبات بہت مختصر ہوتے تھے۔ اس لیے صاف ظاہر ہے کہ ان کے درمیان حضورﷺ تھکان کی وجہ سے تو نہیں بیٹھتے تھے۔میری رائے اس حوالے سے یہ ہے کہ یہ دو خطبات نمازِ ظہر کی دو رکعتوں کے قائم مقام ہیں۔ (نمازِ ظہر میں فرضوں کی چار رکعتیں ہیں جبکہ نماز جمعہ میں دو رکعتیں پڑھی جاتی ہیں) چنانچہ اس دوران حضورﷺ کا بیٹھنا دراصل اپنے خطاب کو باقاعدہ دو خطبوں کی شکل دینے کے لیے ہوتا تھا۔ ان خطبات میں‘جیسا کہ حدیث میں ذکر ہوا ہے ‘ حضورﷺ آیاتِ قرآنی کے ذریعے تذکیر فرماتے تھے۔ آپؐ کے تمام سامعین چونکہ قرآن کی زبان کو بخوبی سمجھتے تھے اس لیے ’’از دل خیزد بر دل ریزد‘‘ کے مصداق قرآن مجید کا مفہوم بغیر کسی وضاحت اور تشریح کے دلوں میں اترتا چلا جاتا تھا۔ہمارے ہاں چونکہ عام سامعین عربی خطبہ کو نہیں سمجھ سکتے اس لیے ان کی تذکیر کے لیے خطبہ سے پہلے ’’خطاب‘‘ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اجتماعِ جمعہ کے موقع پر ذکر و تذکیر کی اسلام میں کیا اہمیت ہے‘اس کا اندازہ درج ذیل حدیث سے ہوتا ہے ۔ اجتماعِ جمعہ میں بروقت حاضری کو یقینی بنانے کی ترغیب دیتے ہوئے حضورﷺ نے فرمایا:
((اِذَا کَانَ یَوْمُ الْجُمُعَۃِ کَانَ عَلٰی کُلِّ بَابٍ مِنْ اَبْوَابِ الْمَسْجِدِ الْمَلَائِکَۃُ ، یَکْتُبُوْنَ الْاَوَّلَ فَالْاَوَّلَ ، فَاِذَا جَلَسَ الْاِمَامُ طَوَوُا الصُّحُفَ، وَجَاؤُوا یَسْتَمِعُوْنَ الذِّکْرَ))(صحیح البخاری‘ کتاب بدء الخلق‘ باب ذکر الملائکۃ‘ ح:۳۲۱۱۔وصحیح مسلم‘کتاب الجمعۃ‘ باب فضل التھجیر یوم الجمعۃ‘ ح:۸۵)
’’جب جمعہ کا دن ہوتا ہے تو مسجد کے دروازوں میںسے ہر دروازے پر فرشتے کھڑے ہو جاتے ہیں‘وہ پہلے آنے والوں کو پہلے لکھتے ہیں۔ پھر جب امام (منبر پر) بیٹھ جاتا ہے تو فرشتے اپنے رجسٹر سمیٹ لیتے ہیں اور ذکر سننے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔‘‘
حضورﷺ کے دوسرے فرمان میں جمعہ کے لیے جلدی مسجد آنے والوں کے لیے درجہ بدرجہ فضیلت کی وضاحت بھی ملتی ہے:
((مَنِ اغْتَسَلَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ غُسْلَ الْجَنَابَۃِ ثُمَّ رَاحَ فَکَأَنَّمَا قَرَّبَ بَدَنَۃً ، وَمَنْ رَاحَ فِی السَّاعَۃِ الثَّانِیَۃِ فَکَاَنَّمَا قَرَّبَ بَقَرَۃً ، وَمَنْ رَاحَ فِی السَّاعَۃِ الثَّالِثَۃِ فَکَاَنَّمَا قَرَّبَ کَبْشًا أَقْرَنَ ، وَمَنْ رَاحَ فِی السَّاعَۃِ الرَّابِعَۃِ فَکَأَنَّمَا قَرَّبَ دُجَاجَۃً ، وَمَنْ رَاحَ فِی السَّاعَۃِ الْخَامِسَۃِ فَکَأَنَّمَا قَرَّبَ بَیْضَۃً ، فَإِذَا خَرَجَ الْاِمَامُ حَضَرَتِ الْمَلَائِکَۃُ یَسْتَمِعُوْنَ الذِّکْرَ))(صحیح مسلم‘ کتاب الجمعۃ‘ باب الطیب والسواک یوم الجمعۃ۔وسنن ابی داوٗد‘ کتاب الطہارۃ‘ باب فی الغسل یوم الجمعۃ)
’’جو آدمی جمعہ کے دن غسل ِجنابت (کی طرح اہتمام کے ساتھ غسل) کرے پھر وہ صبح صبح مسجد میں جائے تو وہ اس طرح ہے گویا اس نے ایک اونٹ قربان کیا ‘اور جوآدمی دوسری ساعت میں جائے تو گویا اس نے ایک گائے قربان کی ‘اور جو آدمی تیسری ساعت میں گیا تو گویا اس نے ایک سینگوں والا مینڈھا قربان کیا‘ اور جو چوتھی ساعت میں گیا تو گویا اس نے ایک مر غی قربان کی‘ اور جو پانچویں ساعت میں گیا تو گویا اُس نے ایک انڈا قربان کر کے اللہ کا قرب حاصل کیا۔ پھر جب امام (خطبہ کے لیے )نکلے تو فرشتے بھی (اندراج کا سلسلہ ختم کر کے ) ذکر سننے کے لیے حاضر ہو جاتے ہیں۔‘‘
اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے علماء نے لفظ ’’ساعت‘‘ کی مختلف تاویلیں کی ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی رائے اس ضمن میں یہ ہے(ذاتی طور پر مجھے اس رائے سے اختلاف ہے) کہ اس لفظ کا تعلق وقت کی ظاہری تقسیم سے نہیں بلکہ ان ’’ساعتوں‘‘ سے مخفی ساعتیں مراد ہیں۔ البتہ اس حدیث میں جس خطبہ کا ذکر ہوا ہے اس سے مراد مسنون خطبہ ہے۔ اس حکم کا اطلاق ہمارے ائمہ اور خطباء کی مقامی زبانوں میں کی جانے والی تقاریر پر نہیں ہوتا۔ خطبہ شروع ہونے کے بعد حاضری کا اندراج نہ ہونے کے حوالے سے شاہ ولی اللہ ؒ کی رائے یہ ہے کہ اس کے بعد آنے والے جمعہ کی فضیلت سے محروم رہیں گے‘ البتہ ان کے فرض کی ادائیگی ہو جائے گی‘ حتیٰ کہ اگر کوئی شخص خطبہ کے دوران بھی شامل ہو گا تو فرض کی ادائیگی کی حد تک اس کی حاضری بھی قبول سمجھی جائے گی۔
آیت ۱۶{بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا(۱۶)} ’’بلکہ تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو۔‘‘
دراصل انسان کی اُخروی کامیابی یا ناکامی کا تمام تر انحصار اس کی ترجیحات پر ہے۔اگر تو وہ اپنے معاملات کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے آخرت کی کامیابی کو مقدم رکھتا ہے اور دنیوی مفادات کے حوالے سے قناعت پسندی کی حکمت عملی پر کاربند رہتا ہے تو وہ کامیاب ہے اور اگر اس کا معاملہ اس کے برعکس ہے تو اس کا راستہ تباہی اور بربادی کا راستہ ہے۔ اس آیت میں اس حوالے سے ہم جیسے دنیادار مسلمانوں کے اصل مرض کی نشاندہی کر دی گئی ہے کہ ہم دنیوی زندگی کے مفادات کو آخرت کے معاملات پر ترجیح دیتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دنیا کا نفع اور نقصان ہمیں نقد نظر آتا ہے جبکہ آخرت کی راحت اور تکلیف ہمیں سامنے نظر نہیں آتی۔ اس لیے دنیا کا معمولی سا مفاد ہم آخرت کے بہت بڑے عذاب کے بدلے میں بھی حاصل کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ جیسے سورۃ النساء کی آیت ۱۰ میں اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا ہے کہ جو لوگ ظلم و زیادتی سے یتیموں کا مال ہڑپ کر جاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں آگ بھر رہے ہیں۔ لیکن آج دنیا میں جو کوئی ایسا مال کھاتا ہے اُسے ایسا کرتے ہوئے تو محسوس نہیں ہوتاکہ وہ آگ کے انگارے پیٹ میں بھر رہا ہے‘ اس لیے جب وہ ایسے مال کو اپنی پہنچ میں دیکھتا ہے تو اسے غصب کرنے سے باز نہیں رہتا۔ انسان کی اس طبعی اور جبلی کمزوری یا خامی کا ذکر سورۃ القیامہ میں بایں الفاظ آیا ہے : {کَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَۃَ(۲۰) وَتَذَرُوْنَ الْاٰخِرَۃَ(۲۱)} ’’ہرگز نہیں! اصل میں تم لوگ عاجلہ (جلد ملنے والی چیز) سے محبّت کرتے ہو۔اور تم آخرت کو چھوڑ دیتے ہو۔‘‘
آیت ۱۷{وَالْاٰخِرَۃُ خَیْـرٌ وَّاَبْقٰی(۱۷)}’’جبکہ آخرت بہتر بھی ہے اور باقی رہنے والی بھی۔‘‘
آیت ۱۸{اِنَّ ہٰذَا لَفِی الصُّحُفِ الْاُوْلٰی(۱۸)} ’’یقیناً یہی بات اگلے صحیفوں میں بھی (درج)ہے۔‘‘
یعنی تذکیر اور ہدایت کا اصل جوہر اور خلاصہ یہی ہے کہ انسان آخرت کو دنیا پر ترجیح دے‘ کیونکہ دنیا فانی اور وقتی ہے جبکہ آخرت اس سے کہیں بہتر اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ہدایت کے حوالے سے یہ بنیادی نکتہ پہلے آسمانی صحیفوں میں بھی مذکور تھا۔
آیت ۱۹{صُحُفِ اِبْرٰہِیْمَ وَمُوْسٰی(۱۹)}’’(یعنی) ابراہیم اور موسیٰ(علیہما السلام)کے صحیفوں میں۔‘‘
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے صحائف تو آج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں‘ البتہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صحائف کا آج بظاہر کہیں نشان نہیں ملتا۔اس حوالے سے میری رائے یہ ہے اور مَیں اپنی اس رائے کا اظہار قبل ازیں بھی متعدد بار کر چکا ہوں کہ ہندوئوں کے اُپنشد حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صحائف ہی کی بگڑی ہوئی شکلیں ہیں۔

سُوْرَۃُ الْغَاشِیَۃِ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ھَلْ اَتٰىکَ حَدِیْثُ الْغَاشِیَۃِ (۱) وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ خَاشِعَۃٌ (۲) عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ (۳) تَصْلٰی نَارًا حَامِیَۃً (۴) تُسْقٰی مِنْ عَیْنٍ اٰنِیَۃٍ (۵) لَیْسَ لَھُمْ طَعَامٌ اِلَّا مِنْ ضَرِیْعٍ (۶) لَّا یُسْمِنُ وَلَا یُغْنِیْ مِنْ جُوْعٍ (۷) وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاعِمَۃٌ (۸) لِّسَعْیِھَا رَاضِیَۃٌ (۹) فِیْ جَنَّۃٍ عَالِیَۃٍ (۱۰) لَّا تَسْمَعُ فِیْہَا لَاغِیَۃً (۱۱) فِیْھَا عَیْنٌ جَارِیَۃٌ (۱۲) فِیْھَا سُرُرٌ مَّرْفُوْعَۃٌ (۱۳) وَّاَکْوَابٌ مَّوْضُوْعَۃٌ (۱۴) وَّنَمَارِقُ مَصْفُوْفَۃٌ (۱۵) وَّزَرَابِیُّ مَبْثُوْثَۃٌ(۱۶) اَفَلَا یَنْظُرُوْنَ اِلَی الْاِبِلِ کَیْفَ خُلِقَتْ(۱۷) وَاِلَی السَّمَاۗءِ کَیْفَ رُفِعَتْ(۱۸) وَاِلَی الْجِبَالِ کَیْفَ نُصِبَتْ(۱۹) وَاِلَی الْاَرْضِ کَیْفَ سُطِحَتْ(۲۰) فَذَکِّرْ ڜ اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَکِّرٌ (۲۱) لَسْتَ عَلَیْھِمْ بِمُصَۜیْطِرٍ (۲۲) اِلَّا مَنْ تَوَلّٰی وَکَفَرَ (۲۳) فَیُعَذِّبُہُ اللہُ الْعَذَابَ الْاَکْبَرَ(۲۴) اِنَّ اِلَیْنَآ اِیَابَھُمْ (۲۵) ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا حِسَابَہُمْ(۲۶)

آیت ۱{ہَلْ اَتٰىکَ حَدِیْثُ الْغَاشِیَۃِ(۱)}’’کیا پہنچ چکی ہے آپؐ کے پاس اس ڈھانپ لینے والی (آفت) کی خبر؟‘‘
یعنی قیامت کی خبر‘ جو پوری کائنات کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔
آیت۲{وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ خَاشِعَۃٌ(۲)}’’بہت سے چہرے اُس دن ذلیل ہوں گے۔‘‘
یہ مضمون اس سے پہلے سورۃ القیامہ اور سورئہ عبس میں بھی آ چکا ہے۔ سورۃ القیامہ میں اس صورتِ حال کا نقشہ یوں دکھایا گیا ہے: {وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ(۲۲) اِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ (۲۳) وَوُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ  بَاسِرَۃٌ(۲۴) تَظُنُّ اَنْ یُّفْعَلَ بِہَا فَاقِرَۃٌ(۲۵)} ’’کچھ چہرے اُس دن تروتازہ ہوں گے‘ اپنے رب کی طرف دیکھتے ہوں گے اور کچھ چہرے اُس دن افسردہ ہوں گے۔ خیال کر رہے ہوں گے کہ ان کے ساتھ کمر توڑ سلوک ہونے والا ہے‘‘۔جبکہ سورئہ عبس میں یہی کیفیت ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے : {وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ مُّسْفِرَۃٌ (۳۸) ضَاحِکَۃٌ مُّسْتَبْشِرَۃٌ(۳۹) وَوُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ عَلَیْہَا غَبَرَۃٌ(۴۰) تَرْہَقُہَا قَتَرَۃٌ(۴۱)}’’اُس دن کچھ چہرے روشن ہوں گے۔مسکراتے ہوئے خوش و خرم۔اور کچھ چہرے اُس دن غبار آلود ہوں گے۔اُن پر سیاہی چھائی ہوئی ہو گی۔‘‘
آیت ۳{عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ (۳)} ’’مشقّت زدہ ‘ تھکے ماندے ۔‘‘
آیت۴{تَصْلٰی نَارًا حَامِیَۃً(۴)} ’’وہ داخل ہوں گے دہکتی ہوئی آگ میں۔‘‘
آیت ۵{تُسْقٰی مِنْ عَیْنٍ اٰنِیَۃٍ(۵)} ’’انہیں پلایا جائے گا پانی ایک کھولتے ہوئے چشمے سے۔‘‘
آیت ۶{لَیْسَ لَہُمْ طَعَامٌ اِلَّا مِنْ ضَرِیْعٍ(۶)} ’’نہیں ہوگا ان کے لیے کھانے کو کچھ بھی سوائے خاردارجھاڑیوں کے۔‘‘
آیت ۷{لَّایُسْمِنُ وَلَا یُغْنِیْ مِنْ جُوْعٍ(۷)} ’’جونہ تو موٹا کرے اور نہ ہی بھوک مٹائے۔‘‘
اسے کھانے سے نہ تو انہیں کوئی تقویت ملے گی اور نہ ہی بھوک کا احساس ختم ہو گا۔ کسی بھی غذا کے یہی دو فائدے ہوتے ہیں‘لیکن اہل ِجہنّم کو اس کھانے سے ان میں سے کوئی فائدہ بھی حاصل نہیں ہو گا۔ اب اگلی آیات میں نیک لوگوں کی کیفیت بیان کی جارہی ہے :
آیت ۸{ وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاعِمَۃٌ(۸)} ’’بہت سے چہرے اُس روز تروتازہ ہوں گے۔‘‘
ان کے چہرے ناز و نعمت میں پلے بڑھے لوگوں کے چہروں کی طرح بارونق ہوں گے۔
آیت ۹{ لِّسَعْیِہَا رَاضِیَۃٌ(۹)} ’’وہ اپنی کوشش (کے نتائج) پر راضی ہوں گے۔‘‘
وہ لوگ اپنی دُنیوی زندگیوں میں آخرت کو دنیا پر ترجیح دیتے رہے تھے اور آخرت کی کامیابی کے لیے مسلسل کوشاں بھی تھے۔ چنانچہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی کوششیں اور محنتیں قبول فرما ئے گا۔ جیسا کہ سورئہ بنی اسرائیل کی اس آیت میں فرمایا گیا ہے:{وَمَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَۃَ وَسَعٰی لَہَا سَعْیَہَا وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓئِکَ کَانَ سَعْیُہُمْ مَّشْکُوْرًا(۱۹)} ’’ اور جو کوئی آخرت کا طلب گار ہو‘ اور اس کے لیے اس کے شایانِ شان کوشش کرے اور وہ مؤمن بھی ہوتو یہی لوگ ہوں گے جن کی کوشش کی قدر افزائی کی جائے گی۔‘‘
آیت ۱۰{فِیْ جَنَّۃٍ عَالِیَۃٍ (۱۰)} ’’(وہ ہوں گے) عالی مقام جنت میں ۔‘‘
آیت۱ ۱{لَّا تَسْمَعُ فِیْہَا لَاغِیَۃً(۱۱)}’’وہ اس میں کوئی لغو بات نہیں سنیں گے۔‘‘
وہاں انہیں کوئی ایسی فضول یا غلط بات سنائی نہیں دے گی جس سے انہیں کوفت ہو۔
آیت ۱۲{فِیْہَا عَیْنٌ جَارِیَۃٌ(۱۲)}’’اس میں ایک چشمہ ہے بہتا ہوا۔‘‘
آیت ۱۳{فِیْہَا سُرُرٌ مَّرْفُوْعَۃٌ(۱۳)} ’’اس میں اونچے اونچے تخت ہیں۔‘‘
آیت ۱۴{وَّاَکْوَابٌ مَّوْضُوْعَۃٌ(۱۴)} ’’اور جام قرینے سے رکھے ہوئے۔‘‘
آیت ۱۵{وَّنَمَارِقُ مَصْفُوْفَۃٌ(۱۵)} ’’اور قالین بچھے ہوئے صف در صف۔‘‘
آیت ۱۶{وَّزَرَابِیُّ مَبْثُوْثَۃٌ(۱۶)} ’’اور مخمل کے نہالچے جگہ جگہ پھیلے ہوئے۔‘‘
اگلی چار آیات قرآن مجید کی ان آیات میں سے ہیں جو بقول علامہ اقبال شعوری مشاہدے پر زور دیتی ہیں کہ چیزوں کو دیکھو‘ ان پر غور کرو اور اپنی عقل اور منطق کے مطابق ان سے نتائج اخذ کرو۔ ظاہر ہے عقل‘ شعور اور حواس کی صلاحیتیں انسان کو اسی لیے دی گئی ہیں کہ اپنی زندگی میں وہ ان سے کام لے : {وَلَا تَقْفُ مَالَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ ط اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلًا(۳۶)} (بنی اسرائیل)’’اور مت پیچھے پڑو اُس چیز کے جس کے بارے میں تمہیں علم نہیں۔یقیناً سماعت‘بصارت اور عقل سبھی کے بارے میں بازپُرس کی جائے گی‘‘۔واضح رہے کہ علم کے میدان میں یہ سائنٹیفک رجحان قرآن مجید نے متعارف کرایا ہے۔ مطلب یہ کہ انسان ہر چیز کو پہلے عقل کی کسوٹی پر پرکھے اور پھر کوئی رائے قائم کرے۔ عقل سے ماوراء صرف الہامی علم ہے۔اس لیے وحی کی سند کے بغیر انسان کوئی ایسی بات تسلیم نہ کرے جس کے پیچھے کوئی عقلی یا نقلی دلیل نہ ہو۔قرآن مجید کا عطا کردہ یہی وہ اندازِ فکر ہے جس نے ہرقسم کی توہم پرستی کی جڑکاٹ کر رکھ دی ہے۔
آیت ۱۷{اَفَلَا یَنْظُرُوْنَ اِلَی الْاِبِلِ کَیْفَ خُلِقَتْ(۱۷)}’’تو کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں اونٹوں کو کہ انہیں کیسے بنایا گیا ہے!‘‘
کیا یہ لوگ اپنے ارد گرد پھیلی ہوئی اللہ کی نشانیوں پر غور نہیں کرتے؟ اور نہیں تو یہ اونٹ کی تخلیق کو ہی دیکھ لیتے کہ اس جانور کے جسم کی ریگستان کے ماحول کے ساتھ کس قدر ہم آہنگی ہے ۔ ریگستان کی گرمی میں یہ کئی کئی دن کھائے پئے بغیر چلتا رہتا ہے۔ اس کے پائوں ایسے بنائے گئے ہیں کہ ریت میں نہیں دھنستے۔
آیت ۱۸{وَاِلَی السَّمَآئِ کَیْفَ رُفِعَتْ(۱۸)}’’اور(کیا یہ دیکھتے نہیں) آسمان کو کہ کیسے بلند کیا گیا ہے!‘‘
یہ ماہرین ِفلکیات کے لیے صلائے عام ہے کہ وہ اس میدان میں تحقیق کر کے ستاروں اور کہکشائوں کی دنیا کے اسرار و رموز معلوم کریں۔
آیت ۱۹{وَاِلَی الْجِبَالِ کَیْفَ نُصِبَتْ(۱۹)} ’’اور (کیا یہ دیکھتے نہیں) پہاڑوں کو کہ کیسے گاڑ دیے گئے ہیں!‘‘
پہاڑوں کی بناوٹ اور کرئہ ارضی پر ان کے اثرات وغیرہ کے بارے میں تحقیق کرنا ماہرین ِارضیات کا کام ہے۔
آیت ۲۰{وَاِلَی الْاَرْضِ کَیْفَ سُطِحَتْ(۲۰)} ’’اور (کیا یہ دیکھتے نہیں) زمین کی طرف کہ کیسے بچھا دی گئی ہے!‘‘
ان آیات میں اللہ تعالیٰ کی آفاقی نشانیوں میں سے چند نشانیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔یہ مضمون قرآن میں بار بار آیا ہے لیکن ان آیات میں خصوصی طور پر قرآن مجید کے مخاطبین ِاوّلین سے خطاب ہے۔ نزولِ قرآن کے زمانے میں سرزمین ِحجاز کے باشندوں کا زیادہ تر وقت صحرائی مسافتوں میں گزرتا تھا ‘جیسا کہ سورئہ قریش کی آیت {رِحْلَۃَ الشِّتَائِ وَالصَّیْفِ} میں بھی ذکر ہوا ہے۔چنانچہ اپنے سفروں کے دوران جس ماحول سے ان لوگوں کا دن رات واسطہ رہتا تھا ان آیات میں اسی ماحول کی چار چیزوں کو گنوا کر انہیں غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے۔یعنی ایک وہ اونٹ جو ان کے صحرائی سفر کی واحد سواری تھی‘ اوپر آسمان ‘ نیچے زمین اور اطراف و جوانب میں پہاڑی سلسلے۔یہ تھا وہ ماحول جس میں عام طور پر ان لوگوں کے شب وروز گزرتے تھے۔
بہرحال قرآن مجید کی ایسی تمام آیات صاحب ِشعور انسانوں کو دعوتِ فکر دیتی ہیں کہ تم لوگ ان مظاہر ِ ِفطرت کو غور سے دیکھا کرو۔ ان میں سے ایک ایک چیز اللہ تعالیٰ کی نشانی اور اس کی صناعی و خلاقی کا نمونہ ہے:
{اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّــیْلِ وَالنَّہَارِ وَالْفُلْکِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللہُ مِنَ السَّمَآئِ مِنْ مَّآئٍ فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا وَبَثَّ فِیْہَا مِنْ کُلِّ دَآبَّۃٍص وَّتَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ(۱۶۴)}
’’یقیناً آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات اور دن کے اُلٹ پھیر میںاور اُن کشتیوں (اورجہازوں) میں جوسمندر میں (یا دریائوں میں) لوگوں کے لیے نفع بخش سامان لے کر چلتی ہیںاور اُس پانی میں کہ جو اللہ نے آسمان سے اتارا ہے پھر اس سے زندگی بخشی زمین کو اس کے مردہ ہو جانے کے بعد‘ اور ہر قسم کے حیوانات (اور چرند پرند) اس کے اندر پھیلادیے ‘اور ہوائوں کی گردش میںاور ان بادلوں میں جو معلق کردیے گئے ہیں آسمان اور زمین کے درمیان ‘یقیناً نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیں۔‘‘
اسی حقیقت کو شیخ سعدی ؒنے اپنے انداز میں اس طرح بیان کیا ہے :
برگِ درختانِ سبز در نظر ہوشیار
ہر ورقش دفترے است معرفت کردگار!
کہ ایک صاحب ِشعور انسان کے لیے سبز درختوں کا ایک ایک پتّاگویا معرفت ِخداوندی کادفتر ہے۔ شیخ سعدیؒ نے تو اپنے زمانے میں یہ بات اپنی خداداد بصیرت کی بنا پر کہی تھی لیکنآج سائنسی تحقیق سے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ سبز درختوں کا ایک ایک پتّا دراصل photosynthesis کی فیکٹری ہے۔ یہ فیکٹریاں سارا دن آکسیجن بنانے اور سورج کی روشنی کو جذب کرکے درختوں کی لکڑی کی طرف منتقل کرنے میں مصروف رہتی ہیں۔
ظاہر ہے یہ صفحات ایسی مثالوں کی تفصیل کے متحمل نہیں ہو سکتے ۔ اس حوالے سے انسان کے سمجھنے کی اصل بات یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی تخلیقات کو محض حیوانی آنکھ سے نہیں بلکہ عقل اور شعور کی نظر سے دیکھے۔ علّامہ اقبال نے اس حوالے سے ’’زبورِعجم‘‘ میں کیا پتے کی بات کہی ہے :
دم چیست؟ پیام است! شنیدی نہ شنیدی!
در خاکِ تو یک جلوئہ عام است‘ ندیدی!
دیدن دگر آموز‘ شنیدن دگر آموز!
کہ اے غافل انسان! تمہارا ہر سانس اللہ تعالیٰ کا پیغام ہے۔ کیا تم نے اس پیغام کو کبھی سنا ؟ نہیں سنا! اور تمہاری اس خاک (حیوانی جسم) کے اندر ایک جلوئہ ربانی (نورانی روح ) بھی پوشیدہ ہے‘ لیکن تم نے اس جلوے کو کبھی دیکھنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔ چنانچہ تمہیں چاہیے کہ تم اس کائنات کی چیزوں کو حیوانی آنکھوں سے دیکھنا اور حیوانی کانوں سے سننا چھوڑو اور انسانوں کا سا دیکھنا اور سننا سیکھو۔ تم اشرف المخلوقات ہو‘ تمہیں اللہ تعالیٰ نے عقل و شعور سمیت بہت سی اعلیٰ صلاحیتوں سے نواز رکھا ہے ‘ان صلاحیتوں کو استعمال میں لائو ۔مظاہر ِفطرت اور دوسری چیزوں کو دیکھو اور ان پر غور کرو: {خَلَقَ لَـکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًاق} (البقرۃ:۲۹) یہ زمین پر جو کچھ ہے سب اللہ نے تمہارے لیے پیدا کیا ہے۔ ان چیزوں پر تحقیق کرو‘ نئے نئے قوانین ِفطرت کو تلاش کرو‘ انہیں کام لائو۔ تمہیں زمین پر اللہ تعالیٰ کی خلافت عطا ہوئی ہے۔ اس حیثیت سے خود زمین ‘اس پر موجود تمام چیزیں ‘ یہ ہوائیں‘ یہ فضائیں‘ ستارے‘ سیارے‘ کہکشائیں سب تمہارے لیے مسخر ہیں۔ یاد رکھو! اگر تم عقل و شعور سے کام لوگے تو ان پر حکومت کرو گے ‘لیکن اگر تم توہمات میں پڑ جائو گے تو ان چیزوں کے غلام بن جائو گے۔
آیت ۲۱{فَذَکِّرْقف اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَکِّرٌ(۲۱)} ’’تو (اے نبیﷺ!) آپ یاد دہانی کراتے رہیے‘ آپ تو بس یاد دہانی کرانے والے ہیں۔‘‘
آیت۲۲{لَسْتَ عَلَیْہِمْ بِمُصَیْطِرٍ(۲۲)} ’’آپ ان پر کوئی داروغہ نہیں ہیں۔‘‘
آپﷺ کی ذِمّہ داری صرف تذکیر اور نصیحت تک ہے‘ کسی کو زبردستی راہِ ہدایت پر لانا آپؐ کا کام نہیں ہے۔
آیت۲۳{اِلَّا مَنْ تَوَلّٰی وَکَفَرَ(۲۳)} ’’مگر جس نے منہ موڑا اور کفر کیا۔‘‘
آیت ۲۴{فَیُعَذِّبُہُ اللہُ الْعَذَابَ الْاَکْبَرَ(۲۴)} ’’تو اُس کو اللہ عذاب دے گا سب سے بڑا عذاب۔‘‘
بلاشبہ اللہ کے رسولﷺ نے اللہ تعالیٰ کا کلام اور پیغام اپنی بے داغ اور مثالی سیرت کی گواہی کے ساتھ اُمّت تک اس انداز میں پہنچا دیا ہے کہ حق کو سمجھنے کے بارے میں کہیں کوئی ابہام نہیں رہا۔ اب اس کے بعد بھی جو شخص حق سے منہ موڑے گا تو وہ گویا حق کو حق سمجھتے ہوئے اسے ٹھکرائے گا اور اس سے یہی ثابت ہو گا کہ اس کے اندر بھلائی اور خیر کی کوئی رمق موجود ہی نہیں۔ چنانچہ ایسا ہر شخص اللہ تعالیٰ کی طرف سے شدید ترین عذاب کا مستحق ہے۔
آیت ۲۵{اِنَّ اِلَـیْنَـآ اِیَابَہُمْ (۲۵)} ’’(اے نبیﷺ!) ان سب کو ہماری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔‘‘
آیت۲۶{ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا حِسَابَہُمْ (۲۶)} ’’پھر ان کا حساب ہمارے ذِمّہ ہے۔‘‘
آپ ﷺتذکیر اور یاد دہانی کے حوالے سے اپنا فر ض ادا کرتے جایئے۔ ان کی جواب دہی اور حساب کا معاملہ آپ ہم پر چھوڑ دیں۔ یہ وہی انداز اور اسلوب ہے جو اس گروپ کی سورتوں میں قبل ازیں بھی کئی بار آ چکا ہے۔ اس دور میں نازل ہونے والی سورتوں میں مشرکین کو مہلت دینے کا ذکر بہت خصوصیت کے ساتھ آیا ہے۔ مثلاً سورۃ المزمل میں فرمایا گیا: {وَذَرْنِیْ وَالْمُکَذِّبِیْنَ اُولِی النَّعْمَۃِ وَمَہِّلْہُمْ قَلِیْلًا(۱۱)}’’آپؐ مجھے اور ان جھٹلانے والوں کو چھوڑ دیں‘ جو بڑی نعمتوں سے نوازے گئے ہیں اور ابھی آپؐ انہیں کچھ مہلت دیں‘‘۔اسی طرح سورۃ الطارق کی آخری آیت میں بھی یہ مضمون خصوصی اسلوب کے ساتھ آیا ہے۔ اس آیت میں اس مفہوم کے دو صیغے (مَھِّلْ ، اَمْھِلْ) باب تفعیل اور باب افعال سے آئے ہیں۔ یہاں فرمایا کہ ’’ان سب کو لوٹ کر ہماری ہی طرف آنا ہے۔ پھر ان کا حساب ہمارے ذِمّہ ہے!‘‘
اَللّٰھُمَّ حَاسِبْنَا حِسَابًا یَّسِیْرًا ۔آمین یاربّ العَالمین!