(خصوصی مضمون) نبی اکرمﷺ کا حجۃ الوداع - ابوکلیم مقصود الحسن فیضی

7 /

نبی اکرمﷺ کا حجۃ الوداع
حدیث ِجابرؓ کی روشنی میں
ترجمہ و تفہیم :ابوکلیم مقصود الحسن فیضی


حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما (۱۶ ق ھ ۔ ۷۴ ھ ) انصاری خزرجی ہجرتِ مدینہ سے ۱۶سال قبل پیدا ہوئے۔ آپ ؓکے دادا عمرو بن حرام انصاری اپنے قبیلے کے سردار تھے۔ بیعت ِعقبہ ثانیہ کے وقت آپؓ اپنے والد حضرت عبد اللہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ مسلمان ہوئے۔ اس موقع پر آپ ؓ کے والد بنو حرام کے نقیب مقرر ہوئے۔ حضرت عبداللہ غزوۂ اُحد میں شہید ہوئے اور اُن کا مثلہ کیا گیا۔ اس پر حضور اقدس ﷺ نے حضرت جابرؓ سے فرمایا: ’’جابر! تمہارے والد سے اللہ تعالیٰ نے بالمشافہہ کلام کیا‘ جب کہ باقیوں سے پردے کے پیچھے سے کلام کرتا ہے۔‘‘ آپؓ کا گھر مسجد ِنبویؐ سے ایک میل کے فاصلے پر تھا۔ تمام نمازیں مسجد ِنبویؐ میں ادا کرتے ۔اپنے والد کی غزوۂ بدر اور غزوۂ اُحد میں شرکت کی وجہ سے خود ان غزوات میں شریک نہ ہو سکے تھے‘ لیکن اس کے بعد ۱۹ کے قریب تمام بڑے غزوات میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ رہے۔ بڑی عمر کی ایک بیوہ سے شادی کی‘ تاکہ آپؓ کی ۹ چھوٹی بہنوں کی تربیت و اُمورِ خانہ داری قائم رہ سکیں۔حضرت جابرؓ نے غزوۂ خندق کے موقع پر نبی اکرم ﷺ کی دعوت کی۔ آپؐ نے صحابہ کرامؓ کے سامنے اعلان کرا دیا کہ جابر کے ہاں تمام اہلِ خندق کی دعوت ہے۔ چنانچہ اس موقع پر رسول اکرمﷺ کی برکت سے چند افراد کا کھانا ۱۴۰۰ صحابہ کرامؓ نے کھایا۔ ایک موقع پر آپؐ نے ۲۵ بار حضرت جابرؓ کے لیے استغفار کی دعا کی۔ اللہ کے نبیﷺ کو اگر قرض کی ضرورت پڑتی تو حضرت جابرؓ سے رابطہ کر لیتے تھے۔ حضرت جابرؓ سے سینکڑوں احادیث مروی ہیں‘ جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’میری اُمت میں سے ایک جماعت ہمیشہ حق پر رہے گی‘یہاں تک کہ عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں۔‘‘ (صحیح مسلم) حضرت جابربن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے حضرت عبد اللہ بن انیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حدیث مبارک سیکھنے کے لیے شام اور حضرت مسلمہ بن مخلد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سننے کے لیے مصر کا طویل سفر کیا۔ علومِ نبوت کے شوق تعلیم و تعلّم اور عملی میدانوں میں مسلسل جدّوجُہد کی ۔صحبت ِنبویؐ کی فیض یابی کے ساتھ اجلہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ  علیہم اجمعین سے کسب ِفیض کیا اور مسجد ِ نبویؐ میں اپنے حلقۂ درس سے ہزاروں طالبینِ علوم کو سیراب کیا۔ آپؓ تفسیر‘ حدیث اور فقہِ دین میں کمال درجے کی مہارت رکھتے تھے۔ خلفائے راشدینؓ کے زمانے میں بھی مختلف سماجی ذمہ داریوں پر فائز رہ کر بھر پور کردار ادا کیا۔ تابعینؒ کے ہر طبقے نے آپؓ سے کسبِ فیض کیا ہے۔۷۴ہجری کے آخر میں آپؓ نے مدینہ طیبہ میں۹۴ سال کی عمر میں وفات پائی۔ نماز جنازہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صاحب زادے نے پڑھائی اور جنت البقیع میں مدفون ہوئے۔

محدث العصر ‘مجددِ ملت علامہ محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ کی ذات معروفِ خاص وعام ہے‘ خصوصاً علمِ حدیث سے متعلق ان کی گوناگوں خدمات ہیں۔ متونِ حدیث و طرقِ روایات میں علامہ مرحوم کو جو دسترس حاصل تھی‘ حال و ماضی قریب میں کسی اور عالم کے یہاں دیکھنے میں نہیں آئی۔ ’’ذٰلِکَ فَضْلُ اللهِ یُؤْتِيْهِ مَنْ یَّشَاءُ ۔ حجۃ الوداع کا واقعہ مختلف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے بیان کیا ہے لیکن حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی بیان کردہ حدیث میں جو تفصیلات ملتی ہیں وہ کسی اور صحابی کی روایات میں نہیں ۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مذکورہ حدیث صحیح مسلم اور سنن ابو دائود وغیرہ میں مروی ہے ۔ دیکھئے صحیح مسلم‘ کتاب الحج ‘باب حجۃ النبیﷺ حدیث:۱۲۱۸؛سنن ابو دائود‘ کتاب الحج ۔
علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح مسلم کی حدیث کو بنیاد بنا کر تقریباً دو درجن کتابوں سے اس حدیث میں وارد الفاظ کو جمع کرکے ایک سیاق میں پرو دیا ہے‘ جس کا ترجمہ پیش ہے۔ البتہ علامہ مرحوم کے بیان کردہ حوالوں کو عمداً حذف کردیا گیا ہے تاکہ عام قاری کو پڑھنے میں آسانی ہو۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس محنت سے قارئین کو نفع پہنچائے اور مؤلف و مترجم کو اپنے فضل سے وافر حصہ عطا فرمائے۔ آمین !
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان فرمایا کہ:
اللہ کے رسول ﷺ نو سال تک مدینہ منورہ میں قیام پذیر رہے اور حج نہیں کیا۔(۱) پھر دسویں سال لوگوں میں اعلان کروایا کہ اس سال اللہ کے رسول ﷺ حج کے لیے جانے والے ہیں۔چنانچہ بہت سے لوگ مدینہ منورہ پہنچ گئے۔ جو شخص بھی سواری پر یا پیدل چل کر مدینہ منورہ آسکتا تھا‘ وہ آگیا۔ لوگ مدینہ منورہ اس لیے پہنچ گئے کہ آپﷺ کے ساتھ حج کریں۔ ہر شخص یہ چاہتا تھا کہ وہ اللہ کے رسول ﷺ کی اقتدا کرے اور آپﷺ جیسا عمل کرے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے سفرِ حج پر[نکلنے سے قبل] ہمیں خطبہ دیا(۲) جس میں فرمایا:
’’ اہل مدینہ کے احرام باندھنے کی جگہ’’ذُوالحُلَیفَة‘‘(۳)ہے ‘ دوسرے راستے سے آنے والوں [یا اہل شام] کے لیے احرام باندھنے کی جگہ’’جُحفَة‘‘ (۴)ہے ‘ اہل عراق کے احرام باندھنے کی جگہ ‘‘ذاتُ عِرق‘‘(۵) ہے ‘ اہل نجد کے احرام باندھنے کی جگہ’’قرن‘‘(۶) ہے ‘اور اہل یمن کے احرام باندھنے کی جگہ’’یَلَملَم‘‘(۷) ہے۔ ‘‘
ذو القعدہ کے مکمل ہونے میں چار یا پانچ دن باقی تھے کہ اللہ کے رسول ﷺنے حج کے لیےکوچ شروع کیا(۸) ۔اپنے ساتھ’’ھَدی‘‘ کے جانور بھی لے کر چلے۔(۹) آپﷺ کے ساتھ ہم لوگ بھی نکلے‘ ہمارے ساتھ عورتیں اور بچے بھی تھے۔(۱۰)یہاں تک کہ ہم ذو الحلیفہ پہنچ گئے۔ وہیں پر حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا نےمحمد بن ابی بکررضی اللہ تعالیٰ عنہما کو جنم دیا۔چنانچہ حضرت اسماءرضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اللہ کے رسول ﷺ سے پوچھنے کے لیے [کسی کو ] بھیجا کہ اب میں کیسے کروں! آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:’’غسل کرلو‘ کسی کپڑے کا لنگوٹ بنالو اور احرام باندھ لو۔‘‘
آپﷺ نے مسجد میں نماز پڑھی اور ابھی تک آپ خاموش رہے [یعنی تلبیہ نہیں پڑھا]۔
اِحرام(۱۱)
پھر آپﷺ قصواء اونٹنی پر سوار ہوئے حتیٰ کہ جب اونٹنی اونچی جگہ پر پہنچی تو آپﷺ نے حج کا تلبیہ بلند آواز سے پڑھا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ آپ ﷺ اور آپؐ کے صحابہ نے صرف حج کا احرام باندھا۔(۱۲)
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ جہاں تک میری نظر پہنچ سکتی تھی‘مَیں نے دیکھا کہ آپﷺ کے سامنے سوار(۱۳) اور پیدل دکھائی دے رہے تھے۔ آپﷺ کے دائیں بھی لوگ ہی لوگ‘ آپﷺ کے بائیں بھی‘اور آپﷺ کےپیچھے بھی لوگ ہی لوگ تھے۔ رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان میں تھے۔ آپﷺ پر قرآن نازل ہورہا تھا اور آپﷺ ہی اس کی صحیح تفسیر جانتے تھے ۔ آپﷺ نےجو جو عمل کیا ‘ہم نے بھی اس کے مطابق عمل کیا۔(۱۴)
آپ ﷺ نے توحید پر مشتمل تلبیہ پڑھا: ’’لَبَّیکَ اللّٰھُمَّ لَبَّیک‘ لَبَّیکَ لَا شَرِیکَ لَکَ لَبَّیکَ‘ اِنَّ الحَمدَ وَالنِّعمَۃَ لَکَ وَالمُلکَ لاَ شَرِیکَ لَکَ‘‘ (حاضر ہوں اے اللہ! حاضر ہوں‘ مَیں حاضر ہوں‘ تیرا کوئی ساجھی نہیں‘ مَیں حاضر ہوں‘ بلاشبہ ہر قسم کی تعریف تیری ہی ہے‘ تمام نعمتیں تیری طرف سے ہیں اور ملک بھی تیرا ہی ہے‘ تیرا کوئی شریک نہیں۔)اور لوگ بھی یہی تلبیہ پڑھ رہے تھے جو آپ ﷺپڑھتے تھے ‘اور بعض لوگ اس تلبیہ پر کچھ اس طرح اضافہ کرتے تھے: ’’لَبَّیکَ ذَا المَعَارِج‘ لَبَّیکَ ذَا الفَوَاضِل‘‘ لیکن اللہ کے رسول ﷺ نے ان کے تلبیہ میں سے کسی چیز کا انکار نہیں کیا۔(۱۵) اللہ کے رسولﷺ اپنا ہی تلبیہ پڑھتے رہے۔
حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ ہم لوگ لَبَّیکَ اللّٰھُمَّ لَبَّیکَ‘ لَبَّیکَ بِالحَجّ‘‘پڑھتے ہوئے اپنی آوازیں خوب بلند کر رہے تھے۔ ہم نے صرف حج کا ارادہ کیا تھا‘ ہم حج اور عمرہ ایک ساتھ ادا کرنا نہ جانتے تھے اور نہ ہی دونوں کو ایک ساتھ ملانا جانتے تھے۔(۱۶) ایک دوسری روایت میں ہے کہ ہم(اللہ کے رسول ﷺ کے صحابہ)نے خالص حج کا احرام باندھا‘ اس کے ساتھ کسی اور چیز کا ارادہ نہ کیا تھا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا عمرہ کا احرام باندھ کر آرہی تھیں‘ یہاں تک کہ جب آپؓ مقام سرف(۱۷) میں پہنچیں تو ان کے ایام ماہواری شروع ہوگئے۔
مکہ مکرمہ میں داخلہ اور طواف
یہاں تک کہ ہم لوگ اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ بیت اللہ شریف تک پہنچ گئے۔ مکہ مکرمہ میں ہمارا داخلہ ۴ ذو الحجہ ۱۰ہجری کی صبح چاشت کے وقت ہوا۔
آپ ﷺ مسجد حرام کے دروازے تک پہنچے۔ اپنی سواری کو بٹھایا ‘پھر مسجد میں داخل ہوئے۔ آپﷺ نے حجر اسود کا استلام کیا۔(۱۸)پھر اپنے دائیں طرف سے آگے کی طرف چلے۔آپ ﷺ نےابتداکے تین چکروں میں رمل کیا(۱۹) یعنی ہلکا ہلکا دوڑ کر چلے‘ یہاں تک کہ حجر اسود تک واپس آگئے۔ چار چکروں میں آپؐ ہلکی (اور عام) چال چلتے رہے۔(۲۰)
پھر آپﷺ مقامِ ابراہیم کی طرف بڑھےاور [وہاں پہنچ کر] یہ آیت پڑھی: {وَاتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّىط} (البقرة:۱۲۵)’’اور مقام ابراہیم کو جائے نماز بنالو۔‘‘ لوگوں کو سنانے کی غرض سے آپﷺ نےیہ آیت پڑھتے ہوئے اپنی آواز بلند فرمائی۔
مقامِ ابراہیم کو آپﷺ نے اپنے اور خانہ کعبہ کے درمیان کیا اور وہاں دو رکعت نماز پڑھی۔ان دو رکعتوں میںآپ ﷺ نے{قُلْ ہُوَ اللہُ اَحَدٌ(۱)}اور{قُلْ یٰٓــاَیُّہَا الْکٰفِرُوْنَ(۱) } کی تلاوت کی۔ یعنی پہلی رکعت میں{قُلْ یٰٓــاَیُّہَا الْکٰفِرُوْنَ(۱)} اور دوسری رکعت میں{قُلْ ہُوَ اللہُ اَحَدٌ(۱)} پڑھی۔
پھر آپ ﷺ زمزم کے کنویں کے پاس تشریف لے گئے۔ اس سے پانی پیا اور اپنے سر پر بھی بہایا۔پھر حجر اسود کی طرف واپس لوٹے اور اس کا استلام کیا۔
اس کے بعد بابِ صفا(۲۱) سے صفا پہاڑی کی طرف روانہ ہوئے۔ جب صفا کے قریب پہنچے تو یہ آیت[آخر تک] تلاوت فرمائی:{اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَاۗئِرِاللہِ ۚ......}
(البقرة:۱۵۸)’’ صفا اور مروہ اللہ کے شعائر میں سے ہیں......‘‘[اور یہ بھی کہا کہ] ہم بھی اسی سے(صفا سے) شروع کرتے ہیں جس سے اللہ تعالیٰ نے شروع کیا ہے۔(۲۲) چنانچہ آپﷺ نے [اپنی سعی کی ابتدا] صفا سے کی۔ آپ ﷺ صفا پراتنا اوپر چڑھے کہ بیت اللہ شریف نظر آنے لگا۔
آپ ﷺنے قبلہ کی طرف رخ کیا‘ تین بار اللہ کی توحید اور اس کی بڑائی بیان فرمائی۔ اس کی حمد و ثنا کی اور فرمایا:’’لَا اِلٰہَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ، لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، أَنْجَزَ وَعْدَهُ وَنَصَرَ عَبْدَهُ وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ‘‘ (اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں‘ وہ اکیلا ہے‘ اس کا کوئی ساجھی نہیں۔ سلطنت اُسی کی ہے‘ تعریف اسی کے لیے ہے۔ وہی زندہ کرتا اور مارتا ہے‘ اور وہی ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ اللہ کے سوا کوئی عبادت کا حق دار نہیں۔ وہ اکیلا ہے‘ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اس نے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا‘ اپنے بندے کی مدد کی‘ اور اکیلے ہی تمام جتھوں(۲۳) کو پسپا کردیا۔)یہ ذکر آپﷺ نے تین بار کیا اور درمیان میں دعائیں کرتے رہے۔ (۲۴)
پھر آپﷺ صفا سے اُترے اور مروہ کی طرف پیدل چلے(۲۵) یہاں تک کہ جب آپﷺ نے بیچ وادی میں اپنے قدم رکھے تو دوڑے ۔ پھر جب دوسری طرف اونچائی پر چڑھنے لگے تو عام چال چلے‘حتیٰ کہ جب مروہ تک پہنچے تو اس پر اس قدر اوپر چڑھے کہ خانہ کعبہ دکھائی دینے لگا۔ آپﷺ نے مروہ پر بھی وہی عمل دُہرایا جو صفا پر کیا تھا۔ حتیٰ کہ جب آپﷺ ساتویں(۲۶) اور آخری چکر میں مروہ پر پہنچے تو فرمایا:
’’اے لوگو! جو بات مجھے بعد میں معلوم ہوئی اگر پہلے معلوم ہو جاتی تو میں اپنے ساتھ ’’ہدی‘‘(قربانی) کا جانور نہ لاتا اور اسے عمرہ میں تبدیل کردیتا۔ لہٰذا تم میں سے جس کے پاس’’ہدی‘‘ کا جانور نہیں ہے وہ حلال ہوجائے اور اسے عمرہ بنالے۔ ‘‘
ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:
’’اے لوگو! اپنے احرام کھول دو۔ بیت اللہ کے طواف اور صفا و مروہ کی سعی کے بعد اپنے بال کٹالو(۲۷) اور حلال ہی رہو‘ یہاں تک کہ جب یوم ترویہ(۲۸) آجائے تو حج کا احرام باندھو اور (حج کا )وہ احرام جومیقات سے باندھ کر آئے ہو اسے تمتع میں تبدیل کردو۔ ‘‘
سراقہ بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو مروہ کے دامن میں تھے‘کھڑے ہوئے اور کہا:’’ اے اللہ کے رسولﷺ! ہمارا یہ عمرہ اور تمتع صرف اس سال کے لیے ہے‘یا ہمیشہ ہمیش کے لیے ہے؟‘‘ آپ ﷺ نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرےہاتھ کی انگلیوں میں داخل کیں اور فرمایا کہ عمرہ حج کے اندر قیامت تک کے لیے داخل ہوگیا ہے ‘ ہمیشہ ہمیش کے لیے ‘ ہمیشہ ہمیش کے لیے۔ ایسا آپﷺ نے تین بار فرمایا۔
حضرت سراقہؓ نے مزید سوال کیا: ’’اے اللہ کے رسولﷺ! ہمارے لیے ہمارے دین کو اس طرح کھول کر بیان کردیں گویاہم آج ہی پیدا ہوئے ہیں۔ ہمیں یہ بتلائیں کہ آج کا عمل جو ہم کر رہے ہیں وہ کس قسم کا ہے؟ کیا اس عمل کی بنیاد یہ ہے کہ انہیں لکھ کر قلم خشک ہوگئے ہیں اور تقدیریں جاری ہیں‘ یا عمل کی بنیاد یہ ہے کہ ہم از سرِ نو یہ عمل کر رہے ہیں؟‘‘ آپ ﷺ نے جواب دیا: ’’نہیں! بلکہ اس بنیاد پر ہے جسے لکھ کر قلم خشک ہوگئے ہیں اور اسی بنیاد پر تقدیر جاری ہے۔ ‘‘
حضرت سراقہ نے سوال کیا :’’تو پھر عمل کس لیے کیا جائے؟‘‘ آپﷺ نے فرمایا: عمل کرو۔ہر شخص جس کام کے لیے پیدا کیا گیا ہے وہ کام اس کے لیے آسان کردیا جاتا ہے۔‘‘(۲۹)
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم حلال ہوجائیں اور ہدی پیش کریں [یعنی قربانی کریں]۔ ہم کئی آدمی ایک ہدی کے جانور میں شریک ہوتے تھے‘ یعنی سات آدمی ایک اونٹ میں۔ آپ ﷺنے مزید فرمایا کہ جس کے پاس ہدی کا جانور نہیں ہے وہ تین دن [ایام حج میں] روزہ رکھے اور گھر واپس جانے کے بعدباقی سات دن کا روزہ رکھے۔
آپ ﷺ سے ہم لوگوں نے سوال کیا :’’ ہم کیسے حلال ہوں؟‘‘ آپﷺ نے فرمایا: ’’مکمل حلال۔‘‘(۳۰)حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ یہ ہمارے اوپر بہت بھاری پڑا اور دلوں میں ہمیں بہت تکلیف ہوئی۔
بطحاء میں نزول
پھر ہم بطحاء ِ مکہ(۳۱)کی طرف گئے [وہیں قیام کیا۔ لوگ اپنی بیویوں سے ہم بستر بھی ہوئے ‘ جس کی وجہ سے بعض نے افسوس کرتے ہوئے] کہا کہ آج ہم اپنی بیویوں کے پاس تھے۔ (۳۲) ہم لوگ آپس میں بات کرنے لگے کہ ہم تو صرف حج کے ارادے سے نکلےتھے‘ اس کے علاوہ ہمارا کوئی اور ارادہ نہ تھا‘حتیٰ کہ جب ہمارے اور عرفہ کے درمیان صرف چار پانچ دن رہ گئے تو اللہ کے رسول ﷺ نے ہمیں اپنی بیویوں کے پاس جانے کا حکم دیا.....
بعض صحابہ کہنے لگے کہ ہم اسے کیسے عمرہ قرار دیں جبکہ ہم نے حج کا احرام باندھ رکھا ہے۔ یہ بات اللہ کے رسولﷺ تک پہنچ گئی۔ معلوم نہیں آپﷺ کے پاس اس بارے میں کوئی وحی آئی‘ یا لوگوں نے آپﷺ تک پہنچائی۔
احرام فسخ کرنے کے لیے آپؐ کا تاکیدی خطبہ
چنانچہ اللہ کے رسول ﷺ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی‘ پھر فرمایا:
’’اے لوگو! کیا تم ہمیں اللہ کے بارے میں بتلا رہے ہو‘ حالانکہ تم لوگ جانتے ہو کہ میں تم میں سب سےبڑا متقی‘ صادق اور نیک ہوں۔لہٰذا جو حکم میں دے رہا ہوں اسے بجا لاؤ‘کیونکہ اگر میرے ساتھ ہدی کا جانور نہ ہوتا تو جس طرح تم لوگ حلال ہورہے ہومَیں بھی حلال ہوجاتا‘لیکن حالت ِاحرام میں کوئی چیز میرے لیے اُس وقت تک حلال نہ ہوگی جب تک کہ ہدی کا جانور اپنی جگہ تک نہ پہنچ جائے۔(۳۳) اور جو بات مجھے بعد میں معلوم ہوئی اگر پہلے معلوم ہوجاتی تو میں اپنے ساتھ ہدی کا جانور نہ لاتا‘ اس لیے تم لوگ حلال ہوجاؤ [احرام کھول دو]۔ ‘‘
حضرت جابرؓ فرماتے ہیں :’’ ہم لوگوں نے آپﷺ کی بات سنی اور اطاعت کرلی۔ چنانچہ ہم عورتوں سے ہم بستر بھی ہوئے ‘ خوشبو بھی لگائی اور اپنے کپڑے بھی پہنے۔ ‘‘اللہ کے رسول ﷺ اور بجز ان صحابہ کے جن کے پاس ہدی کے جانور تھے‘ تمام لوگ قصر کرواکر(سر کے بال چھوٹے کرا کر) حلال ہوگئے ۔ اللہ کے رسول ﷺ اور حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ کسی اور صحابی کے پاس ہدی کے جانور نہیں تھے۔(۳۴)
حضرت علیؓ کا یمن سے آنا
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ صدقات کی وصولی سے واپسی میں یمن سے اللہ کے رسول ﷺ کے لیے قربانی کے جانور لے کر آئے۔دیکھا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حلال ہوچکی ہیں۔ بالوں میں کنگھی کی ہے‘ اور سرمہ وغیرہ لگاکر رنگین کپڑے بھی پہن لیے ہیں۔ چنانچہ حضرت علیؓ نے اس پر ناگواری کا اظہار کیا اور کہا:’’ تمہیں ایسا کرنے کو کس نے کہا؟‘‘ حضرت فاطمہؓ نے جواب دیا: ’’میرے ابا جان نے مجھے اس کا حکم دیا ہے۔ ‘‘
حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ عراق میں بیان کرتے تھے کہ فاطمہؓ نے اپنے عمل کے سلسلے میں اللہ کے رسولﷺ کی طرف سے جوکچھ بیان کیا ‘اس سے اختلاف کرتے ہوئے میں خدمت ِنبوی میں فتویٰ پوچھنے کے لیے حاضر ہوا۔ چنانچہ میں نے اللہ کے رسولﷺ سے عرض کیا :’’ جب میں نے فاطمہ کے عمل سے اختلاف کیا تو وہ کہنے لگی کہ میرے اباجان نے مجھے حلال ہونے کا حکم دیا ہے؟‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اس نے سچ کہا‘ سچ کہا‘ سچ کہا۔ ہم نے ہی اسے حلال ہونے کا حکم دیا ہے۔ ‘‘
اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت علیؓ سے پوچھا :’’ جب تم نے حج کی نیت کی تھی تو کیا کہا تھا؟ ‘‘انہوں نے جواب دیا :’’ میں نے کہا تھا کہ اے اللہ! میں وہی احرام باندھ رہا ہوں جو احرام اللہ کے رسول ﷺ نے باندھا ہے۔ ‘‘یہ سن کر اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’میرے ساتھ تو ہدی کا جانور ہے ‘اس لیے تم بھی حلال نہ ہو اور اپنے احرام پر باقی رہو۔ ‘‘
ہدی کے جو جانور حضرت علیؓ یمن سے لے کر آئے تھے اور جو جانور خود اللہ کے رسولﷺ مدینہ منورہ سے لےکر چلے تھے‘ سب مل کر سو اونٹ تھے۔ چنانچہ بجز اللہ کے رسول ﷺ اور جن کے پاس ہدی کے جانور تھے ‘تمام کے تمام(۳۵) لوگ قصر کرواکر حلال ہوگئے۔(۳۶)
آٹھ ذو الحجہ کو احرام باندھ کر منیٰ کی طرف روانگی
جب یومِ ترویہ(۸ ذو الحجہ) پہنچا تو مکہ مکرمہ کو پیچھے چھوڑ کر ہم منیٰ(۳۷) کی طرف روانہ ہوئے۔ چنانچہ لوگوں نے بطحاء ہی سے حج کا احرام باندھ لیا۔ پھر اللہ کے رسول ﷺ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس تشریف لے گئے تو انہیں روتے ہوئے پایا۔ آپﷺ نے سوال کیا: ’’تمہارا کیا معاملہ ہے؟‘‘ کہنے لگیں:’’ میرا معاملہ یہ ہے کہ میری ماہواری کے ایام ہیں۔ لوگ تو حلال ہوگئے ‘ میں ابھی تک حلال نہ ہوسکی اور نہ ہی ابھی تک بیت اللہ کا طواف کر پائی ہوں اور حال یہ ہے کہ لوگ اب حج کے لیے جارہے ہیں۔ ‘‘آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں پر لاگو کردیا ہے [اس لیے پریشان ہونے اور رونے کی ضرورت نہیں ہے]۔ تم غسل کرلو‘ حج کا احرام باندھ کر حج کرو۔ بلکہ ہر وہ کام کرو جو حاجی لوگ کرتے ہیں سوائے اس کے کہ نہ بیت اللہ کا طواف کرنا اور نہ ہی نماز پڑھنا۔‘‘(۳۸) چنانچہ حضرت عائشہؓ نے ایسا ہی کیا ‘یعنی بیت اللہ کے طواف کے علاوہ حج کے تمام ارکان ادا کیے۔
اللہ کے رسول ﷺ سوار(۳۹) ہوئے اور منیٰ میں ہمیں[۸ ذو الحجہ کی] ظہر‘ عصر‘ مغرب‘ عشاء پڑھائی اور[۹ ذو الحجہ کی] فجر کی نماز پڑھائی۔فجر کے بعد آپﷺ کچھ دیر ٹھہرے رہے ‘یہاں تک کہ سورج طلوع ہوگیا۔(۴۰) آپ ﷺ نے وادیٔ نمرہ(۴۱)میں اپنے لیے ایک خیمہ لگانے کا حکم دیا۔
عرفات کے لیے روانگی اور وادی نمرہ میں قیام
آپ ﷺ [سوار ہوکر منیٰ سے] روانہ ہوئے ۔(۴۲) قریش کو اس بارے میں کوئی شک نہیں تھا کہ آپﷺ مزدلفہ ہی میں مشعر الحرام کے پاس ٹھہریں گے اور وہی آپﷺ کی آخری منزل ہوگی‘ جیسا کہ قریش زمانۂ جاہلیت میں کیا کرتے تھے۔(۴۳) لیکن آپ ﷺ وہاں سے تجاوز کرکے عرفہ کے قریب پہنچ گئے۔ آپﷺ نے اپنے لیے نمرہ میں ایک خیمہ نصب کیا ہوا پایا جہاں آپﷺ ٹھہر گئے۔یہاں تک کہ جب سورج ڈھلنے لگا تو آپﷺ نے قصواء پر کجاوہ کسنے کا حکم دیا۔ پھر اس پر سوار ہوکر بطن وادی میں تشریف لائے۔(۴۴)
خطبہ ٔ عرفات
پھر آپ ﷺ نے لوگوں کو ایک خطبہ دیا اور [اس میں] فرمایا:
’’ تمہارے خون اور تمہارے مال ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں جس طرح تمہارا آج کا دن‘ یہ مہینہ اور یہ شہر حرام ہے۔ سن لو! جاہلیت کی ہر چیز آج میرے ان دونوں قدموں کے نیچے روند دی گئی ہے۔ عہد جاہلیت میں کیے گئے خون بھی ختم کردیے گئے ہیں‘ اور سب سے پہلا خون جسے میں ختم کر رہا ہوں وہ خود ہمارے خاندان کا خون ہے‘ یعنی ربیعہ بن حارث بن عبد المطلب کے بیٹے کا خون جو بنو سعد میں دودھ پی رہا تھا اورقبیلہ ہذیل کے لوگوں نے انہیں قتل کردیا تھا۔ اسی طرح زمانہ جاہلیت کا سود بھی ختم کیا جاتا ہے اور سب سے پہلے میں جس سود کو ختم کر رہا ہوں وہ ہمارے خاندان کا سود ہے‘ یعنی عباس بن عبد المطلب کا سود۔ وہ سارے کا سارا ختم ہے۔(۴۵) لوگو! عورتوں [بیویوں]کے بارے میں اللہ سے ڈرو ‘کیونکہ تم نے انہیں اللہ کی ذمہ داری پر حاصل کیا ہے(۴۶) اور اللہ تعالیٰ کے کلمہ(۴۷) کے ذریعہ ان کی شرم گاہ کو حلال کیا ہے۔ تمہارا ان کے اوپر یہ حق ہے کہ وہ تمہارے بستر پر کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جس کا آنا تمہیں ناگوار ہو۔(۴۸) پھر اگر وہ ایسا کریں تو تم انہیں مارو مگر مار سخت نہ ہو۔(۴۹) اور تم پران کا حق یہ ہے کہ بھلائی اور دستور کے مطابق تم انہیں کھلائو اور پہناؤ۔ اور میں تمہارے درمیان ایسی چیز چھوڑ رہا ہوں کہ اگر تم اسے مضبوطی سے تھامے رہے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے‘ اور وہ ہے اللہ کی کتاب۔(۵۰) لوگو! تم سے میرے بارے میں سوال کیا جائے گاتو تم لوگ کیا کہو گے؟ ‘‘تمام صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے [یک زبان ہوکر] جواب دیا: ’’ہم گواہی دیں گے کہ آپﷺ نے اپنے رب کا پیغام پہنچا دیا‘ اپنی ذمہ داری ادا کردی اور اُمت کی خیر خواہی کا حق ادا کردیا اور اپنا واجب پورا کردیا۔‘‘ یہ سن کر آپ ﷺ اپنی انگشت شہادت کو آسمان کی طرف اٹھاتے اور لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے : ’’اے اللہ گواہ رہ‘اے اللہ گواہ رہ!‘‘ ایسا آپﷺ نے تین بار فرمایا۔
دو نمازوں کو جمع کرنا اور میدانِعرفات میں وقوف
حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک اذان دی۔پھر اقامت کہی تو آپﷺ نے ظہر کی نماز پڑھائی۔ پھر دوبارہ اقامت کہی تو آپﷺ نے عصر کی نماز پڑھائی اور ان دونوں نمازوں کے درمیان کوئی نفل نماز نہیں پڑھی۔
پھر اللہ کے رسول ﷺ قصواء پر سوار ہوئے ‘یہاں تک کہ میدانِ عرفات میں قیام گاہ پر تشریف لائے۔اپنی اونٹنی قصواء کے پیٹ کو [جبل عرفات کے نیچے پھیلی ہوئی] چٹانوں(۵۱) کی طرف کیا‘ پیدل چلنے والوں کے راستے کو اپنے سامنے رکھا اور قبلہ رُخ ہوکر کھڑے ہوگئے۔(۵۲) [اس جگہ] آپﷺ مستقل ٹھہرے رہے یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا‘ اور سورج کی ٹکیا کے غائب ہونے کے بعدجو کچھ زردی تھی وہ بھی ختم ہوگئی۔(۵۳)
آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’میں یہاں ٹھہرا ہوں اورعرفات پورے کا پورا ٹھہرنے کی جگہ ہے۔ ‘‘پھر آپﷺ نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو اپنے پیچھے بٹھالیا۔ سکون اور اطمینان سے [ مزدلفہ کے لیے] روانہ ہوئے۔ آپ ﷺنے اپنی اونٹنی قصواء کی نکیل کو اس زورسے کھینچ رکھا تھا کہ اس کا سر آپﷺ کے پاؤں رکھنے کی جگہ تک پہنچ رہا تھا(۵۴) اور آپﷺ اپنے دائیں ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے فرما رہے تھے : [اس طرح کہ آپﷺ کے ہاتھ کی پشت آسمان کی طرف تھی]’’ اے لوگو! اطمینان و سکون کو لازم پکڑو۔ ‘‘ جب بھی آپﷺ کسی ریتیلے ٹیلے پر پہنچتے تو اونٹنی کی نکیل ڈھیلی کردیتے تاکہ وہ آسانی سے اس پر چڑھ جائے۔(۵۵)
مزدلفہ میں دونوں نمازیں جمع کرنا اور رات گزارنا
پھر آپﷺ مزدلفہ پہنچ گئے۔ یہاں آپ ﷺنے مغرب اور عشاء کی نمازیں ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ جمع کرکے پڑھیں۔(۵۶)دونوں نمازوں کے درمیان کوئی نفل نماز نہیں پڑھی۔پھر آپ ﷺ لیٹ گئے یہاں تک کہ فجر طلوع ہوگئی۔(۵۷) جب صبح نمایاں ہوگئی توآپﷺ نے اذان و اقامت کے ساتھ صبح کی نماز پڑھی۔
مشعر حرام پرقیام:پھر آپ ﷺقصواء پر سوار ہوئے اور مشعر حرام(۵۸) کے پاس آکر اس پر چڑھ گئے۔ وہاں قبلہ رُخ ہوکر دعا کی۔ حمد و ثنا‘ تکبیر و تہلیل اور تسبیح میں مشغول ہوگئے۔ خوب روشنی ہونے تک وہیں رُکے رہے‘اور فرمایا: ’’میں یہاں ٹھہرا ہوں البتہ مزدلفہ پورے کا پورا موقف [ٹھہرنے کی جگہ ] ہے۔ ‘‘
مزدلفہ سے روانگی
پھر مزدلفہ سے سورج نکلنے سے قبل ہی اطمینان سے روانہ ہوگئے۔(۵۹) حضرت فضل بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو اپنے پیچھے سوار کرلیا۔(۶۰) حضرت فضل بن عباس اچھے بالوں والے‘ گورے چٹے اور ایک خوب صورت جوان تھے۔جب آپ ﷺ مزدلفہ سے رخصت ہوئے تو پاس سے کچھ سوار عورتیں گزریں(۶۱) جن کی طرف حضرت فضل بن عباس دیکھنے لگے۔ آپ ﷺ نے اپنے دست مبارک کو فضل کے چہرے پر رکھ دیا تووہ اپنا چہرہ پھیر کر دوسری طرف دیکھنے لگے۔ آپ ﷺ نے بھی اپنا دست مبارک گھما کر دوسری طرف حضرت فضل کے چہرے پر رکھ دیا۔ پھر حضرت فضل اپنے چہرے کو دوسری طرف پھیر کر دیکھنے لگے۔
جب آپ وادی محسر(۶۲) میں پہنچے تو کچھ تیز چلے(۶۳) اور لوگوں کو ہدایت دی کہ اطمینان سے چلو۔
رمی جمرۂ کبریٰ
پھر آپ ﷺ درمیان والی راہ پر چلے ‘ یہاں تک کہ درخت کے پاس جمرۂ کبریٰ تک پہنچ گئے(۶۴) تو آپ ﷺنے اسے سات کنکریاں ماریں۔(۶۵)
ہر کنکری مارتے وقت ’’اللہ اکبر‘‘ کہتے۔ وہ کنکریا ںخذف [لوبیے کے دانے] کے برابر تھیں۔(۶۶)وادی میں کھڑے ہوکر سواری پر سے آپﷺ کنکریاں مارتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے: ’’لوگو! مجھ سے اپنے حج کا طریقہ سیکھ لو(۶۷) اس لیے کہ مجھے معلوم نہیں ہے‘ شاید اپنے اس حج کے بعد میں دوبارہ حج نہ کرسکوں۔‘‘(۶۸)
یوم النحرکے بعد باقی ایامِ تشریق (۶۹)میں آپ ﷺ نے سورج کے ڈھل جانے کے بعد کنکریاں ماریں۔
آپ ﷺ جمرۂ عقبہ کو رمی کر رہے تھے کہ سراقہ بن مالکؓ نے پوچھا: ’’اے اللہ کے رسول ﷺ! کیا یہ ہمارے لیے خاص ہے؟ ‘‘آپﷺ نے فرمایا: ’’نہیں ‘بلکہ اب ہمیشہ ہمیش کے لیے یہی طریقہ ہے۔‘‘(۷۰)
نحر اور حلق
اس کے بعد آپ ﷺ قربان گاہ تشریف لے گئے‘ جہاں اپنے ہاتھ سے ۶۳ اونٹوں کو ذبح کیا۔پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو [چھری] دے دی تاکہ وہ باقی۳۳ اونٹوں کو ذبح کریں۔ آپﷺ نے حضرت علیؓ کو اپنی ہدی[قربانی] میں شریک بنایا۔ آپﷺ نے ہر اونٹ سے ایک ایک ٹکڑا گوشت(۷۱) لینے کا حکم دیا ‘جسے ایک ہانڈی میں رکھ کر پکایا گیا۔ آپﷺ نے اس میں سے گوشت کھایا اور اس کا شوربہ پیا۔
ایک اور روایت کے مطابق آپ ﷺ نے اپنی ازواج مطہرات کی طرف سے گائے ذبح کی۔ ایک اور روایت میں ہے کہ ہم لوگوں نے‘یا اللہ کے رسول ﷺ نے ایک اونٹ سات آدمیوں کی طرف سے اور ایک گائے بھی سات آدمیوں کی طرف سے ’’ہدی‘‘ (قربانی) میں دی۔ اس بارے میں ایک روایت یہ بھی ہے جس میں حضرت جابررضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ایک اونٹ میں ہم سات آدمی شریک ہوئے تو ایک شخص نے نبی اکرمﷺ سے پوچھا: ’’آپؐ کی کیا رائے ہے کہ گائے میں بھی سات آدمی شریک ہوسکتے ہیں؟‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’گائے کا حکم بھی اونٹ جیسا ہے۔ ‘‘حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی ایک اور روایت میں ہے کہ ہدی کے جانوروں کا گوشت ہم تین دن سے زیادہ یعنی ایام منیٰ کے علاوہ نہیں کھاتے تھے‘ لیکن [اس موقع پر] اللہ کے رسول ﷺ نے ہمیں رخصت دی اور فرمایا: ’’کھاؤ اور توشہ بھی بنا لو۔‘‘ چنانچہ ہم نے کھایا بھی اور بطور توشہ ساتھ بھی لے لیا‘ یہاں تک کہ مدینہ منورہ پہنچنے تک اس کو استعمال کرتے رہے۔
’’کوئی حرج نہیں!‘‘
جس نے یوم النحر کے بعض اعمالِ حج کو بعض پر مقدم یامؤخر کردیا‘اس پر کوئی حرج [گناہ] نہیں۔ایک روایت میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے [ہدی کے جانور] ذبح کیے‘ پھر سر منڈوایا۔(۷۲)اور منیٰ میں لوگوں [کو مسائل بتانے] کے لیے بیٹھ گئے۔چنانچہ اس دن جس چیز سے متعلق بھی کوئی سوال کیا گیا کہ فلاں کام کو فلاں کام سے پہلے کرلیا ہے تو اس کے جواب میں آپؐ نے یہی فرمایا: ’’کوئی حرج نہیں ‘کوئی حرج نہیں!‘‘ (۷۳)
ایک شخص آیا اور اس نے عرض کیا کہ میں نے قربانی کرنے سے پہلے حلق کرالیا‘تو آپﷺ نے فرمایا: ’’کوئی حرج نہیں۔ ‘‘ایک اور شخص آیا اور کہنے لگا کہ میں نے کنکری مارنے سے قبل حلق کرالیا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:’’ کوئی حرج نہیں۔‘‘ ایک اور شخص حاضر ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ کنکری مارنے سے قبل ہم نے طواف [افاضہ] کرلیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کوئی حرج نہیں ۔ ‘‘ ایک اور عرض کرتا ہے کہ ہدی کا جانور ذبح کرنے سے قبل ہم نے طواف کرلیا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’اب ذبح کردو ‘کوئی حرج نہیں ۔ ‘‘ ایک اور شخص حاضر ہو کر عرض کرتا ہے کہ میں نے کنکریاں مارنے سے قبل جانور ذبح کردیا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’جاؤ کنکریاں مارو ‘کوئی حرج نہیں ۔ ‘‘
پھر نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ہم نے جانور یہاں ذبح کیا ہے اور پورےکا پورا منیٰ ذبح کرنے کی جگہ ہے۔اور مکہ کے تمام درّے اور تمام راستے ذبح کی جگہیں ہیں۔(۷۴) اس لیے اپنے اپنے جائے قیام پر ذبح کرو۔‘‘
یوم النحر کا خطبہ
یوم النحریعنی قربانی کے دن اللہ کے رسول ﷺ نے خطبہ دیا ‘جس میں آپﷺ نے [سوال کرتے ہوئے] فرمایا: ’’لوگو! سب سے زیادہ حرمت والا دن کون سا ہے؟‘‘ لوگوں نے جواب دیا: ہمارا یہی دن۔ آپ ﷺنے پھر سوال کیا: ’’سب سے زیادہ حرمت ولا مہینہ کون سا ہے؟ ‘‘لوگوں نے جواب دیا: ہمارا یہ مہینہ۔ آپ ﷺنے پھر سوال کیا: ’’سب سے زیادہ حرمت والا شہر کون سا ہے؟ ‘‘لوگوں نے جواب دیا: ہمارا یہ شہر۔ اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا: ’’دیکھو! تمہارے خون‘ تمہارے مال تم پراسی طرح حرام [محترم]ہیں جیسے اس دن کی حرمت ہے‘ تمہارے اس شہر کی حرمت ہے ‘ تمہارے اس مہینے کی حرمت ہے۔ سنو! کیا میں نے اللہ تعالیٰ کے احکام پہنچا نہیں دیے؟‘‘ لوگوں نے جواب دیا: جی ہاں ضرور پہنچادیے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’اے اللہ!تُو گواہ رہ! ‘‘
طوافِ افاضہ کے لیے روانگی
بعد ازاں‘ اللہ کے رسول ﷺ بیت اللہ شریف کی طرف روانہ ہوئے۔ چنانچہ [آپﷺ کے ساتھ] تمام لوگوں نے طواف کیا(۷۵)اور صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہ کی۔(۷۶)پھر مکہ ہی میں ظہر کی نماز پڑھی۔(۷۷)
پھر آپﷺ قبیلہ عبد المطلب کے پاس آئے۔ وہ زمزم کے کنویں پر لوگوں کو پانی پلارہے تھے۔(۷۸) آپ ﷺنے فرمایا: ’’اے عبد المطلب کی اولاد !پانی نکالو اور لوگوں کو پلاؤ۔ اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ تمہارے پانی پلانے پر لوگ تم پر غالب آنے کی کوشش کریں گے تو میں بھی تمہارے ساتھ پانی نکالنے میں شریک ہوجاتا۔‘‘(۷۹)
ان لوگوں نے اللہ کے رسول ﷺ کو ایک ڈول میں پانی دیا جس سے آپﷺ نے نوش فرمایا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے قصہ کا تتمہ
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راستے میں حائضہ ہوگئی تھیں۔ انہوں نے تمام اعمالِ حج کو تو ادا کیا‘ البتہ بیت اللہ کا طواف نہیں کیا تھا۔ یہاں تک کہ جب پاک ہوئیں تو کعبہ مشرفہ(۸۰) کا طواف کیا اور صفا و مروہ کی سعی کی۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا:’’اب تم اپنے حج اور عمرے دونوں سے فارغ ہوگئی۔‘‘[لیکن] حضرت عائشہؓ نے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسولﷺ! کیا لوگ حج و عمرہ دو کام کرکے واپس ہوں اور میں صرف حج کرکے واپس چلوں؟‘‘(۸۱) آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تمہیں اتنا ہی اجر ملے گا جتنا لوگوں کو ملا۔ ‘‘حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کیا: ’’میرے دل میں یہ کھٹک ہے کہ میں نے صرف حج کے لیے بیت اللہ کا طواف کیا ہے۔‘‘ اللہ کے رسول ﷺ بڑے آسان اور نرم دل شخص تھے۔ اسی لیے جب عائشہؓ کسی چیز کی خواہش ظاہر کرتیں تو ان کی بات مان لیتے۔(۸۲) [لہٰذا] آپﷺ نے حضرت عبد الرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے فرمایا: ’’ اسے لے کر جاؤ اور تنعیم سے عمرہ کرادو۔ ‘‘چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حج کے بعد عمرہ کیا اور پھر واپس آئیں۔ یہ واقعہ شب حصبہ کا ہے۔(۸۳)
اللہ کے رسول ﷺ نے حجۃ الوداع میں اپنی سواری پر طواف کیا۔(۸۴) حجر اسود کو آپﷺ اپنی چھڑی سے چھو رہے تھے۔ ایسا اس لیے کیا کہ لوگ آپﷺ کو دیکھ سکیں‘ آپﷺ ان سے بلند رہیں اور وہ آپﷺ سے سوال کرسکیں‘کیونکہ لوگوں نے بھیڑ لگا رکھی تھی ۔
ایک عورت نے اپنے بچے کو رسول اللہ ﷺ کے سامنے کرکے پوچھا: ’’کیا اس بچے کا بھی حج ہے؟‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ہاں! اور اس کا اجر تمہیں ملے گا۔‘‘(۸۵)
نبی کریم ﷺ کے طریقۂ حج سے متعلق حضرت جابرؓ کی بیان کردہ حدیث کی یہ آخری کڑی تھی جو میرے علم میں آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے اس کی توفیق بخشی اور اس سے اس کے مزید فضل کا سوال ہے۔
اعمالِ حج کا خلاصہہم نے مناسب سمجھا کہ خاتمہ پراس مضمون میں وارد حج کے اعمال کا ایک خلاصہ پیش کردیا جائے‘ خاص کر وہ اعمال جن کی معرفت اور ان کو سامنے رکھنا ہر حاجی کے لیے ضروری ہے۔ ایسا ہم نے اپنے بعض بھائیوں کی تجویز پر کیا ہے‘ اللہ تعالیٰ انہیں اچھا بدلہ دے۔ نیز فائدے کی تکمیل کے لیے بعض دیگر اعمالِ حج کا بھی اضافہ کرتا چلوں گا جن کی طرف حاشیہ میں اشارہ کیا گیا ہے‘ تاکہ یہ ایک جامع خلاصہ ثابت ہو۔ ان شاء اللہ تعالیٰ!
٭ تہبند اور چادر میں احرام باندھنا(۸۶)
٭ احرام کی نیت سے قبل ہی تہبند و چادر پہننا اور خوشبو لگانا
٭ میقات سے احرام باندھنا
٭ حج اور عمرے دونوں کا اکٹھا احرام باندھنا(۸۷)
٭ سواری پر حج کرنا
٭ عورتوں اور بچوں کے ساتھ حج کرنا
٭ نبی کریم ﷺ سے ثابت تلبیہ پڑھنا اور بلند آواز سے پڑھنا
٭ حج افراد اور حج قران کا احرام باندھنے والا اگر اپنے ساتھ ہدی کا جانور لے کر نہیں جارہا ہے تو اسے چاہیے اپنے احرام کو تمتع میں بدل دے۔
٭ طواف قدوم کے سات چکر لگانا
٭ ان ساتوں چکروں میں اضطباع کرنا
٭ اس طواف کے پہلےتین چکروں میں رمل کرنا
٭ حجر اسود پر ’’اللہ اکبر‘‘ کہنا
٭ ہر چکر میں حجر اسود کو بوسہ دینا(یا استلام کرنا)‘ اور رکن یمانی کو چھونا
٭ طواف کے چکروں سے فارغ ہونے کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا
٭ ان دونوں رکعتوں میں’’قُلْ یٰٓاَ یُّھَا الْکٰفِرُوْنَ‘‘اور’’قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَدٌ ‘‘ پڑھنا
٭ یہ دونوں رکعتیں مقامِ ابراہیم کے پیچھے ادا کرنا
٭ زمزم کا پانی پینا اور اس کا کچھ حصہ سر پر ڈالنا
٭ حجر اسود کا استلام کرنے کے لیے واپس آنا
٭ قبلہ رُخ ہوکر صفا پہاڑی پر کھڑے ہونا
٭ صفا پہاڑی پر اللہ کا ذکر کرنا‘اس کی توحید‘ اس کی بڑائی بیان کرنا‘ اس کی حمد بیان کرنا اور’’لاا لٰہ اِلا اللہ‘‘ پڑھنا‘ اور ایسا تین بار کرنا
٭ صفا اور مروہ کے درمیان سات چکر لگانا
٭ ہر چکر لگاتے وقت جب وادی کے درمیان میں ہو‘ تو ہلکی دوڑ لگانا
٭ کوہ مروہ پر ٹھہرنا
٭ جو ذکر صفا پر کیا تھا وہی یہاں مروہ پربھی کرنا
٭ اپنی سعی مروہ پر ختم کرنا
٭ حج تمتع کرنے والاہو یا وہ قران کرنے والاہو جس کے ساتھ ہدی کا جانور نہ ہو‘ اس کو اپنے بال کٹا کر حلال ہوجانا اور عام کپڑے وغیرہ پہن لینا ۔
٭ حج تمتع کرنے والے کا بال کٹوانا‘ نہ کہ منڈوانا
٭ یوم الترویہ [آٹھ ذو الحجہ] کو حج کا احرام باندھنا
٭ منیٰ جانا اور ۹ویں ذو الحجہ کی رات وہیں گزارنا
٭ ظہر کی نماز اور باقی پانچ نمازیں وہیں منیٰ میں ادا کرنا
٭ عرفہ کے دن طلوعِ شمس کے بعد منیٰ سےمیدانِ عرفات کی طرف روانہ ہونا
٭ عرفات کے قریب وادی نمرہ میں نزول کرنا
٭ عرفات میں ظہر و عصر کی نماز جمع تقدیم کے ساتھ پڑھنا
٭ میدانِ عرفات میں بغیر روزہ کے ٹھہرنا
٭ عرفہ میں خطبہ سننا
٭ میدانِ عرفات میں قبلہ رخ ہوکر ہاتھوں کو اُٹھاکر دعا کرنا
٭ میدانِ عرفات میں تلبیہ پڑھتے رہنا
٭ سورج ڈوبنے کے بعد میدانِ عرفات سے اطمینان کے ساتھ رخصت ہونا
٭ مزدلفہ میں مغرب و عشاء کی نماز جمع تاخیر سے پڑھنا
٭ اس میں ایک اذان اور دو اقامت پڑھنا
٭ دونوں نمازوں کے درمیان کی سنت کوچھوڑنا
٭ مزدلفہ میں رات سو کر گزارنا
٭ فجر طلوع ہوجائے تو فجر کی نماز پڑھنا
٭ مزدلفہ میں مشعر حرام کے پاس قبلہ رُخ ہوکر کھڑے ہونا۔ دعا کرتے ہوئے الحمد للہ ‘ اللہ اکبر اور لا الٰہ الا اللہ کا ورد کرتے رہنا‘ یہاں تک کہ خوب روشنی پھیل جائے ۔
٭ سورج طلوع ہونے سے قبل وہاں سے رخصت ہونا
٭ وادی محسر کے درمیان میں تھوڑا تیز رفتاری سے چلنا
٭ جس راستے سے عرفات گیا تھا وہ راستہ بدل کر جمرات کی طرف جانا
٭ یوم النحر[دس ذو الحجہ] کو چاشت کے وقت جمرۂ عقبہ کو بطن وادی سے سات کنکریاں مارنا
٭ انگلی کے پوروں میں رکھ کر ماری جانے والی کنکری مارنا‘ یا لوبیا کے دانے برابر کی کنکری مارنا
٭ اس دن کی کنکری زوال کے بعد بھی مارنا جائز ہے
٭ یہ کنکر وادی میں کھڑے ہوکر مارنا
٭ ہر کنکری کے ساتھ اللہ اکبر کہنا
٭ کنکری مارنے کے ساتھ ہی تلبیہ بند کردینا
٭ کنکری مارلینے کے بعد تحلل اول حاصل ہوگیا
٭ ایام تشریق میں زوال کے بعد کنکریاں مارنا
٭ حج قران اور تمتع کرنے والے کو ہدی کا جانور ذبح کرنا اور جس کے پاس جانور ذبح کرنے کی طاقت نہ ہو وہ تین دن کا روزہ حج کے دنوں میں رکھے اور سات روزے اپنے گھر واپس آکر رکھے۔
٭ اونٹ اور گائے کو سات آدمیوں کی طرف سے ذبح کرنا
٭ منیٰ اور مکہ میں ذبح کرنا
٭ ہدی کےجانور کا گوشت کھانا
٭ کنکری مارنے کے بعد خوشبو لگانا
٭ حلق کروانا
٭ حلق کرانے والے کی دائیں جانب سے شروع کرنا
٭ یوم النحر کا خطبہ
٭ بغیر رمل کیے طواف افاضہ کرنا
٭ حج تمتع کرنے والے کا طواف کے بعد سعی کرنا‘ بخلاف قارن کے [کہ وہ صرف طواف پر اکتفا کرے]۔
٭ یوم النحر کے کام ترتیب وار کرنا
٭ طواف افاضہ کے بعد مکمل طور پر حلال ہونا
٭ طواف سے فارغ ہوکر زمزم کا پانی پینا
٭ منیٰ واپس آنا اور ایام تشریق کے تینوں دنوں میں وہیں رات گزارنا
٭ ایام تشریق میں روزآنا اور زوال کے بعد کنکریاں مارنا
٭ بغیر رمل کے طواف وداع کرنا
حواشی
(۱) علماء کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ہجرتِ مدینہ کے بعد صرف ایک حج‘یعنی حجۃ الوداع دسویں ہجری میں کیا ہے۔ اس میں اختلاف ہے کہ حج کی فرضیت کب نازل ہوئی ‘البتہ حق و صواب کے زیادہ قریب یہ قول ہے کہ حج نویں یا دسویں ہجری میں فرض ہوا۔ سلف میں سے متعدد اہل علم کا یہی قول ہے۔ امام ابن القیمؒ نے ’’زاد المعاد‘‘ میں متعدد قوی دلائل سے اس پر استدلال کیا ہے۔ جو شخص تفصیل چاہے‘ اس کی طرف رجوع کر سکتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے رسول ﷺ نےفرضیت ِحج کے فوراً بعد بغیر کسی تاخیر کے حج کیا‘بخلاف دوسرے اقوال کے جن سے یہ لازم آتا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرضیت کے بعد حج کی ادائیگی میں تاخیر سے کام لیا۔ اسی لیے ان اقوال کے قائلین آپ ﷺ کی طرف سے عذر پیش کرنے پر مجبور ہوئے‘ جب کہ ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔
(۲) صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ یہ خطبہ آپﷺ نے مسجد نبوی میں دیا تھا۔ بظاہر یہ خطبہ مدینہ منورہ سے روانہ ہونےسے قبل دیا گیا تاکہ لوگوں کو حج کے مسائل کی تعلیم دی جا سکے۔
(۳) مدینہ منورہ سے چھ میل یا ۹ کلو میٹر کی دُوری پر جنوب کی جانب واقع ہے۔ آج کل’’ابیار علی‘‘ کے نام سے مشہور ہے اور مدینہ منورہ کی آبادی وہاں تک پہنچ گئی ہے‘ بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ گئی ہے۔ [مترجم]
(۴) آج کل یہ جگہ ویران ہے۔ مکہ مکرمہ سے اس کی دُوری تقریباً ۲۰۰کلو میٹر ہے۔ اب لوگ اس کے مغرب میں واقع رابغ نامی جگہ سےاحرام باندھتے ہیں۔ [مترجم]
(۵) مکہ مکرمہ سے شمال مشرق کی جانب’’وادی ضریبہ‘‘ میں ۹۴ کلومیٹر پر ایک مقام ‘ جو نجد و تہامہ کے درمیان واقع تھا۔ آج اسے ضریبہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ماضی قریب تک عراقی حجاج وہاں سے احرام باندھتے تھے‘ لیکن اب وہ عام راستے سے ہٹ کر ہے۔[مترجم]
(۶) شہر طائف سے شمال اور مکہ مکرمہ سے مشرقی جانب تقریباً ۸۰ کلومیٹر کی دُوری پر ایک وادی تھی۔ آج یہاں’’السیل الکبیر‘‘ کے نام سے ایک شہر آباد ہے۔ [مترجم]
(۷) مکہ مکرمہ سے جنوب میں ۱۰۰کلومیٹر کی دُوری پر ایک وادی کا نام ‘ جسے آج کل ‘‘السعدیة‘‘ کہا جاتا ہے۔[مترجم]
(۸) نکلنے سے پہلے اللہ کے رسول ﷺ اور آپﷺ کے صحابہ نے کنگھی کی‘ خوشبو لگائی اور [اپنےاحرام کی] چادر اور تہبند پہنا۔ زعفرانی رنگ کے علاوہ کسی بھی قسم کی چادر اور تہبند سے آپﷺ نے منع نہیں فرمایا‘ جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے۔اس حدیث میں یہ دلیل موجود ہے کہ میقات پہنچنے سے قبل احرام کا کپڑا پہننا جائز ہے ‘ برخلاف احرام کی نیت کے ۔ہمارے نزدیک راجح یہی ہے کہ میقات سے پہلے احرام کی نیت کرنا جائز نہیں ہے۔ البتہ جہاز وغیرہ پر سوار ہونے کی صورت میں اگر میقات سے تجاوز کرجانے کا اندیشہ ہو تو میقات سے پہلے احرام باندھا جاسکتا ہے ۔ واضح رہے کہ احرام یا کسی اور عبادت جیسے طہارت‘ نماز و روزہ وغیرہ میں زبان سے نیت کرنا شرعاً ثابت نہیں ہے۔ نیت کا مقام دل ہے جب کہ زبان سے نیت کرنا بدعت ہے۔ احرام کے وقت اللہ کے رسول ﷺ سے جو کچھ ثابت ہے وہ صرف یہ کہ آپ ﷺ نے’’لَبَّیکَ اللَّھُمَّ حَجَّۃً وَ عُمرَۃ‘‘ بلند آواز سے پڑھا تھا۔ اس لیے اسی پر اکتفا کیا جائے اور اس میں کسی بھی قسم کا اضافہ نہ کیا جائے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنے رسالہ’’النیة‘‘ میں اس کی وضاحت کی ہے۔ (مجموعۃ الرسائل: ص۲۴۴‘۲۴۵)
(۹) آپ ﷺ نے ہدی کے جانور ذو الحلیفہ سے لیےتھے‘ جیسا کہ صحیح البخاری و مسلم میں حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے۔
(۱۰) سنن ابن ماجہ میں یہاں اتنا اضافہ ہے کہ’’ہم لوگوں نے عورتوں کی طرف سے تلبیہ پڑھا اور بچوں کی طرف سے رمی کی‘‘ لیکن یہ الفاظ ثابت نہیں ہیں ۔اسی طرح اس سلسلے میں سنن الترمذی کی روایت بھی ضعیف ہے۔یہ بات ذہن میں رہے کہ امام ابن المنذر نے اہل علم کا اجماع نقل کیا ہے کہ جو بچہ کنکری نہ مارسکے اس کی طرف سے کنکری ماری جائے گی۔ حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہما ایسا کرتے تھے۔ یہی قول عطاء‘ زہری‘ مالک‘ شافعی اور اسحاق رحمہم اللہ جیسے ائمہ کا ہے۔ جہاں تک عورت کا تعلق ہے تو اس سے متعلق امام ترمذی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ عورتوں کی طرف سے کوئی دوسرا شخص تلبیہ نہ پڑھے گا‘ بلکہ وہ خود اپنا تلبیہ پڑھیں گی۔ یہ واضح رہے کہ تلبیہ پڑھتے وقت عورت کے لیے آواز بلند کرنا مکروہ ہے۔
(۱۱) صحیح بخاری میں ہے کہ آپ ﷺ کے احرام باندھنے سے قبل حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپﷺ کو خوشبو لگائی۔ یہ خوشبو احرام باندھنےکے تین دن بعد بھی آپﷺ کے بالوں کی مانگ میں محسوس ہو رہی تھی۔
(۱۲) اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے صرف حج کا احرام باندھا تھا ‘جبکہ صحیحین میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا تھا‘ اور یہی بات صحیح ہے۔ امام ابن القیم رحمہ اللہ نے ’’زاد المعاد‘‘ میں اس کی وضاحت کی ہے۔امام ابن القیم نے بیس صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے مروی حدیثیں نقل کی ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ قارن تھے[یعنی حج و عمرہ دونوں کا احرام ایک ساتھ باندھا تھا]۔ جو شخص مزید تحقیق چاہتا ہے وہ اس کتاب کی طرف رجوع کرے۔ البتہ امام ابن القیم رحمہ اللہ سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی یہ حدیث چھوٹ گئی ہے کہ انہوں نے پوچھا: ’’اے اللہ کے رسولﷺ! آپ لوگ حج وعمرہ دونوں کرکے جارہے ہیں اور میں صرف حج کرکے واپس جا رہی ہوں؟ یہ حدیث صحیح بخاری اور مسند احمد میں خود حضرت جابر ؓسے بھی مروی ہے جو اس بارے میں نص صریح ہے۔ [بحوالہ حاشیہ ۸۱]
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اللہ کے رسول ﷺ کے قارن ہونے کا علم تھا۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر انہوں نے یہ کیوں کہا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے صرف حج کا احرام باندھا تھا؟اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ابتدائے احرام میں تو صرف حج ہی کا احرام باندھا تھا ‘لیکن جب آپﷺ وادی عقیق میں اُترے تو آپﷺ کو قران کا حکم دیا گیا۔ جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ وادی عقیق میں تھے کہ ہم نے سنا آپﷺ فرما رہے تھے کہ میرے پاس رات کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک آنے والا آیا تھا اور کہتا تھاکہ اس مبارک وادی میں نماز پڑھو اور کہو’’عُمرَۃٌ فِی حَجَّۃٍ‘‘ یا ’’عُمرَۃٌ وَ حَجَّۃٌ ‘‘ یعنی حج میں عمرہ کو بھی داخل کرنے لگا ہوں‘ یا حج و عمرہ اکٹھا کر رہا ہوں۔ [صحیح البخاری وغیرہ]
(۱۳) امام نوویؒ کہتے ہیں کہ اس حدیث میں اس بات کا جواز ہےکہ سوار ہوکر اور پیدل دونوں طرح حج کیا جا سکتا ہے‘ اس پر علماء کا اجماع ہے۔ البتہ ان دونوں میں سے افضل طریقہ کون سا ہے‘ اس بارے میں اختلاف ہے ۔ جمہور علماء کا خیال ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کی اقتدا میں سواری پر حج کرنا افضل ہے‘ کیونکہ ایک تو سوار ہوکرحج کرنا آسان ہے‘اور دوسرے اس میں خرچ زیادہ ہے۔ امام دائود الظاہری کا قول ہے کہ پیدل حج کرنا افضل ہے کیونکہ اس میں زیادہ تھکاوٹ ہے‘ حالانکہ یہ غلط ہےکیونکہ تکلیف و پریشانی بذات خود مطلوب نہیں ہے۔ یہیں سے معلوم ہوا کہ بذریعہ جہاز حج کرنا جائز ہی نہیں بلکہ مستحب ہے ‘برخلاف اس شخص کے جو اس کے برعکس صحیح سمجھتا ہے۔ البتہ وہ حدیثیں جن میں پیدل حج کی فضیلت بیان ہوئی ہیں وہ سب کی سب ضعیف اور ناقابلِ حُجّت ہیں۔ (دیکھیے سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ رقم۴۹۶ ‘۴۹۷)شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ لوگوں کے حالات کے مختلف ہونے سے اس مسئلے کا حکم بھی بدلے گا۔بعض کے لیے پیدل حج کرنا افضل ہے اور بعض ایسے لوگ ہوں گے جن کے لیے سواری پر حج کرنا افضل ہے۔ اور یہی حق کے زیادہ قریب ہے۔
(۱۴) یہاں اس طرف ایک لطیف اشارہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ پر جو قرآن نازل ہوتا اس کی تفسیر بھی آپﷺ خودصحابہ کرامؓ سے بیان فرمادیتے تھے ۔ یہ صرف آپﷺ ہی کی ذات تھی جو قرآن کی صحیح تفسیر و تاویل سمجھتی تھی اور آپﷺ کے علاوہ کسی دوسرے حتیٰ کہ صحابہ کو بھی تفسیر و توضیح سے بے نیازی نہیں تھی ۔اسی لیے صحابہ کرام دوسری عبادات کی طرح حج میں بھی آپﷺ ہی کے نقش قدم پر چل رہے تھے۔آپﷺ جیسا عمل کرتے تھے‘ ویسے ہی صحابہ کرام کرتے رہے۔
(۱۵) یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کے تلبیہ پر اضافہ جائز ہے ‘کیونکہ آپ ﷺ نے صحابہ کرام کو منع نہیں فرمایا۔ البتہ اس کے بعد کی عبارت سے پتا چلتا ہے کہ آپ ﷺ کے تلبیہ پر اکتفا بہتر ہے‘ کیونکہ اسی کا التزام کیا گیا۔ امام مالک اور شافعی رحمہما اللہ کا یہی مسلک ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے کہ آپ ﷺ کا ایک تلبیہ یہ بھی تھا : لَبَٓیکَ اِلٰہَ الحَقِّ لَبَّیک۔ [سنن النسائی ۲۷۵۳ الحج‘احمد ۲ /۹۷۴ وغیرہ]۔ اصل میں تلبیہ اللہ تعالیٰ کی اس پکار کا جواب ہے جو اس نے اپنے خلیل حضرت ابراہیمؑ کی زبان پر لوگوں کو پکارا تھا۔ معنی یہ ہے کہ اے اللہ میں تیری پکار کا جواب دینے کے لیے حاضر ہوں‘ آپ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم ہے‘ بار بار آپ کی حکم بجا آوری کے لیے تیار ہوں اور اس پر ہمیشہ باقی رہوں گا۔ یہ معنی شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ نے ذکر کیا ہے۔
(۱۶) یہ بات ابتدائے احرام میں تھی قبل اس کے کہ اللہ کے رسول ﷺ انہیں حج کے مہینوں میں عمرہ کی اجازت کے بارے میں بتلائیں۔ اس بارے میں متعدد حدیثیں وارد ہیں۔ انہی میں سے ایک حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ حجۃ الوداع کے موقع پر ہم لوگ اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ نکلے‘ چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ جو حج و عمرہ کا احرام باندھنا چاہے ‘باندھ لے اور جو عمرہ کا احرام باندھنا چاہے‘ باندھ لے۔‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں ان لوگوں میں تھی جنہوں نے صرف عمرہ کا احرام باندھا تھا۔ [صحیح بخاری ومسلم۔ الفاظ مسلم کے ہیں]
(۱۷) مکہ مکرمہ سے شمال کی طرف تقریباً ۱۲کلومیٹر کی دُوری پر ایک وادی ہے۔ آج یہ سب علاقہ مکہ شہر میں داخل ہوگیا ہے۔
(۱۸) ’’استلام‘‘ کا معنی ہے ہاتھ سے چھونا۔ یہ ہر طواف میں سنت ہے۔ یہ امام نووی کا قول ہے۔ اسی طرح آپﷺ نے اس طواف میں‘جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی حدیث میں ہے‘ رکن یمانی کا بھی استلام کیا تھا۔ البتہ اس کا بوسہ نہیں لیا۔ بوسہ صرف حجر اسود کا لیا تھا۔ میں [البانی] کہتا ہوں کہ حجر اسود کے بارے میں سنت یہ ہے کہ اس کا بوسہ لیا جائے‘ اگر یہ میسر نہ ہو تو ہاتھ سے چھوکر اسے چوم لے اور اگر یہ بھی میسر نہ ہو تو کسی چھڑی وغیرہ سے چھوکر اسے چوم لے ‘ ورنہ اس کی طرف اشارہ کرلے۔ [حجر اسود کے ساتھ] خانہ کعبہ کے کسی اور گوشے کے لیے یہ چیزیں مشروع نہیں ہیں بجز رکن یمانی کے کہ اس کا صرف استلام مستحسن ہے۔ حجر اسود کے پاس پہنچنے پر ہر چکر میں تکبیر کہنا مسنون ہے‘ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے بیت اللہ شریف کا طواف اپنے اونٹ پر سوار ہوکر کیا۔ جب بھی آپﷺ حجر اسود کے پاس پہنچتے تو کسی چیز سے جو آپﷺ کے ہاتھ میں ہوتی‘ اس کی طرف اشارہ کرتے اور ’’اللہ اکبر‘‘ کہتے۔ [صحیح البخاری]البتہ ’’بسم اللّٰہ‘‘ کہنے کا ذکر مجھے کسی مرفوع حدیث میں نہیں ملا‘ صرف حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہما کے بارے میں بسند صحیح وارد ہے کہ جب وہ حجر اسود کا استلام کرتے تو ’’بسم اللّٰہ و اللّٰہ اکبر‘‘ کہتے۔ [السنن الکبریٰ للبیہقی۵/ ۷۹]
(۱۹) ’’رمل‘‘ کو عربی لغت میں ’خبب‘ بھی کہتے ہیں۔ علماء کہتے ہیں :رمل یہ ہے کہ قدم نزدیک نزدیک رکھتے ہوئے تیز چال چلنا۔
(ـ۲۰) اس طواف میں آپ ﷺ نے’’اضطباع‘‘ بھی کیا تھا‘ جیسا کہ اس حدیث کے علاوہ دوسری حدیثوں میں وارد ہے۔ ’’اضطباع‘‘ یہ ہے کہ اپنی چادر کو دائیں کندھے کے نیچے سے نکال کر بائیں کندھے پر ڈال لے‘ اس طرح کہ دایاں کندھا کھلا اور بایاں کندھا ڈھکا ہواہو۔ [قاموس] پھر جب طواف سے فارغ ہوجائے تو اپنی چادر کو برابر کرلے ‘یعنی اپنے دائیں کندھے کو بھی ڈھک لے۔
(۲۱) آج کل حرم میں توسیع کی وجہ سے نہ تو زمزم کے کنویں کانشان رہ گیا ہے اور نہ ہی وہاں کوئی دروازہ ہے۔
(۲۲) یعنی چونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں صفا کا ذکر پہلے رکھا ہے اس لیے ہم بھی اپنی سعی کی ابتدا اسی صفا سے کرتے ہیں۔
(۲۳)یعنی مخالفین کے جتھوں کو لوگوں کی لڑائی کے بغیر ہی ہرادیا۔’’احزاب‘‘ سے مراد کافروں کی وہ جماعتیں ہیں جو غزوئہ خندق کے موقع پر اللہ کے رسول ﷺ سے قتال کے لیے جمع ہوئی تھیں۔
(۲۴) گویا دعائیں دو بار ہوئیں اور یہ اذکار تین بار ہوئے۔یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ یہ کلمات ہر باردہرانے کے بعد دعا کی۔ کتاب الحج من المرعاۃ: ص۲۲۸ [اضافہ از مترجم]
(۲۵) یہ حدیث اس بارے میں بالکل صریح ہے کہ آپ ﷺ نے صفا ومروہ کے درمیان کی سعی پیدل کی تھی۔ البتہ حضرت جابرؓ کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپﷺ نے صفا و مروہ کے درمیان سعی اونٹ پر سوار ہوکر کی‘ چونکہ بھیڑ بہت تھی اور ہر شخص آپ ﷺسے سوال کرنا اور دیکھنا چاہتا تھا۔ [مسلم] نیز آگے یہ بیان آرہا ہے کہ طواف افاضہ کے بعد آپ ﷺ نے سعی نہیں کی تھی۔ ایک اور روایت میں ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر آپﷺ نے صرف ایک ہی سعی کی تھی ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صفا و مروہ کے درمیان کی وہ سعی جو آپ ﷺنے سوار ہوکر کی تھی وہ طواف قدوم کے بعد والی سعی تھی۔ پھر دونوں روایتوں میں جمع و تطبیق کی صورت اس طرح ہے کہ ابتدا میں تو آپﷺ نے سعی پیدل شروع کی‘ پھر جب بھیڑ زیادہ ہوگئی اور لوگوں نے گھیر لیا‘ تو سعی کاباقی ماندہ حصہ آپﷺ نے سوار ہوکر پورا کیا ۔ اس بات کی تائید صحیح مسلم میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں اس امر کی تصریح ہے کہ آپ ﷺ سعی میں اولاً پیدل چلے‘ لیکن پھرجب لوگوں نے گھیر لیا تو آپﷺ سوار ہوگئے۔
(۲۶)اس میں ان لوگوں کی تردید صریح ہے جو کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے سعی کے چودہ چکر لگائے‘ یعنی ان لوگوں نے جانے اور آنے کو ایک چکر شمار کیا ہے۔ امام ابن القیمؒ نے فرمایا کہ اللہ کے رسول ﷺ کی طرف اس عمل کی نسبت غلط ہے۔ نہ ہی کسی صحابی نے اسے نقل کیا ہے اور نہ ہی کسی مشہور امام نے یہ بات کہی ہے۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ آپﷺ نے اپنی سعی مروہ پر ختم کی تھی ‘ کیونکہ اگر آنا اور جانا ایک چکر شمار ہوتا تو آپ کی سعی کو صفا پر مکمل ہونا تھا۔
(۲۷)متمتع کے لیے سنت اور افضل یہی ہے کہ وہ بالوں کو کٹائے‘ حلق نہ کرائے۔ پھر یوم النحر کو جب حج کے کاموں سے فارغ ہوجائے تو حلق کرائے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ وغیرہ نے یہی وضاحت کی ہے۔ لہٰذا آپ ﷺ کا فرمان: ’اللھم ارحم المحلقین ثلاثا وللمقصرین مرۃ واحدۃ‘ [’’ اے اللہ! سرمنڈوانے والوں پر رحم فرما‘‘ (۳ بار فرمایا)’’ اور بال کٹانے والوں پر بھی رحم فرما‘‘ (ایک بار فرمایا)]۔ یہ حکم صرف عمرہ کرنے والے اور قارن کے لیے ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ متمتع کے لیے حلق افضل ہے جیسا کہ احناف کا مسلک ہے‘ صحیح نہیں ہے۔
[‘‘متمتع‘‘وہ حاجی ہے جو ایامِ حج میں میقات سے صرف عمرے کا احرام باندھتا ہے‘ مکہ مکرمہ پہنچ کر پہلے عمرہ کرتا ہے اور احرام کھول دیتا ہے‘ اور پھر ۸ذی الحجہ کو اپنے جائے قیام ہی سے حج کا احرام باندھ لیتا ہے۔’’قارن‘‘ اس حاجی کو کہتے ہیں جو میقات سے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھتا ہے اور مکہ مکرمہ پہنچ کر عمرہ کر لینے کے بعد اپنے احرام ہی پر باقی رہتا ہے‘ یہاں تک کہ یوم النحر اپنی قربانی کا جانور ذبح کرلینے کے بعد حلال ہوتا ہے۔ اضافہ از مترجم]
(۲۸) ذو الحجہ کی آٹھویں تاریخ کو’’ترویہ‘‘ کا دن کہتے ہیں۔’’ترویہ‘‘ کا معنی ہوتا ہے سیراب کرنا اور پلانا۔ چونکہ حاجی حضرات اس دن اونٹوں کو پانی پلاکر عرفات جایا کرتے تھے اس لیے اس کا نام ترویہ پڑگیا۔
(۲۹) ایک دوسری حدیث میں اتنا اضافہ ہے: ’’جو لوگ نیک بخت ہیں انہیں نیک بختی کے کاموں کی توفیق ملتی ہے اور جو بد بخت ہیں انہیں برے کاموں کی توفیق ملتی ہے۔‘‘ پھر آپﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی :{فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰی(۵) وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی(۶)}(الليل) ’’جس نے دیا (اللہ کی راہ میں) اور ڈرا (اپنے رب سے) اور نیک بات کی تصدیق کرتا رہا۔‘‘ آخر تک‘ یعنی آیت نمبر ۱۰ تک۔
(۳۰)یعنی محرم پر جو چیزیں حرام ہوتی ہیں وہ تمام چیزیں حلال ہوگئیں۔ حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے فرمایا: ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صحابہ جانتے تھے کہ حج میں دو تحلل ہیں یعنی حلال اول اور حلال ثانی۔ یہی وہ بات ہے جس کی وضاحت چاہی تو آپ ﷺ نے واضح کردیا کہ ہر طرح سے حلال ہوجائیں‘ کیونکہ عمرہ میں تو ایک ہی بار حلال ہونا ہے۔
(۳۱) مسجد حرام کے مشرقی جانب جحون اور مسجد حرام کے درمیان وادی نما ایک جگہ تھی جسے بطحاء کہا جاتا تھا ۔ چونکہ یہ وادی مکہ کا ایک حصہ تھی اور یہاں چھوٹی چھوٹی کنکریاں تھیں ‘اس لیے اس کا نام بطحاء مکہ پڑ گیا تھا۔ آج یہ جگہ برابر کردی گئی ہے۔ اب غزہ اور سوق اللیل جس علاقے کا نام ہے وہ تقریباً یہی علاقہ ہے۔
(۳۲) یہ بات صحابہؓ نے بطور تعجب و انکار کہی [کیونکہ اہل مدینہ کے نزدیک ایام حج میں عمرہ بہت بڑا گناہ سمجھا جاتا تھا]۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ بعض صحابہ آپ ﷺ کے حکم کی تعمیل میں حلال تو ہوگئے تھے لیکن ان کے دل میں تشویش باقی تھی اور بعض نے حلال ہونے میں آپ ﷺ کے دوسرے خطبے تک تاخیرکی جس کا ذکر آگے آرہا ہے۔ اس خطبےمیں آپﷺ نے احرام توڑدینے کا بالکل تاکیدی حکم فرمایا۔ پھر تو تمام صحابہ کرامؓ [بجز ان کے جن کے پاس قربانی کے جانور تھے] حلال ہوگئے۔
(۳۳)یعنی جب یوم النحر کو منیٰ میں انہیں ذبح کردوں گا تب۔
(۳۴)یہ بات حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے علم کی بنیاد پر کہی ہے۔ اس لیے اس میں اور حضرت عائشہرضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اس قول میں کوئی تعارض نہیں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ‘ ابوبکر‘ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور صاحبِ حیثیت لوگوں کے پاس قربانی کے جانور تھے۔ اسی طرح حضرت جابرؓ کا یہ قول حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بیان کے خلاف بھی نہیں ہے کہ حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بھی ہدی کا جانور تھا اور وہ بھی حلال نہیں ہوئے۔ [صحیح مسلم ۴ / ۵۵‘۳۰]کیونکہ جو جانتا ہے اس کا قول نہ جاننے والے کے خلاف حُجّت ہوتاہے۔ [دیکھیے فتح الباری ۳ /۴۷۳]
(۳۵)اس سے مراد اکثر اور عام لوگ ہیں ورنہ عائشہرضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی انہی لوگوں میں شامل تھیں جو حلال نہیں ہوئے تھے‘ جیسا کہ آگے آرہا ہے‘ حالانکہ ان کے ساتھ ہدی کا جانور بھی نہیں تھا‘ جیسا کہ صحیح مسلم وغیرہ میں خود حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ جن لوگوں کے ساتھ ہدی کے جانور نہیں تھےوہ حلال ہوگئے اور آپﷺ کی بیویوں کے ساتھ ہدی کے جانور نہیں تھے۔
(۳۶)یہ فقرہ اس سے قبل گزر چکا ہے۔ بعض کتابوں میں اسی طرح مکرر وارد ہے۔
(۳۷) امام نوویؒ لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں اس امر کا بیان ہے کہ سنت یہ ہے کہ کوئی بھی شخص یوم ترویہ سے پہلے منیٰ نہ جائے۔ امام مالک نے اسے مکروہ شمار کیا ہے۔ بعض سلف کا خیال ہے کہ پہلے جانے میں کوئی حرج نہیں ہے‘ البتہ ہمارا مذہب [شافعی] یہ ہے کہ یوم ترویہ سے پہلے منیٰ جانا خلاف ِسنت ہے۔
(۳۸) اس حدیث میں یہ دلیل ہے کہ حائضہ عورت قرآن مجید کی تلاوت کرسکتی ہے کیونکہ نبی اکرمﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو نماز اور طواف کے علاوہ تمام اعمالِ حج ادا کرنے کی اجازت دی ‘ اور بلاشبہ قرآن مجید کی تلاوت [بشرطیکہ بغیر مصحف میں دیکھے ہوئے] حج کے دوران بہترین کاموں میں ہے۔ اگر حالت ِحیض میں قرآن مجید کی تلاوت جائز نہ ہوتی تو جس طرح آپ ﷺنے طواف اور نماز سے منع فرمایا اسی طرح تلاوت سے بھی منع فرمادیتے۔ البتہ وہ حدیث جس کے الفاظ یہ ہیں کہ : ’’جُنبی اور حائض قرآن نہ پڑھیں‘‘ ضعیف ہے۔ اس کی تفصیل امام البانی ؒنے ارواء الغلیل ح:۱۹۱ کے تحت بیان کردی ہے۔
(۳۹) اس سے معلوم ہوا کہ ان جگہوں میں بھی سوار ہونا افضل ہے‘ جیسا کہ حج کے پورے راستے میں سوار ہونا افضل ہے۔
(۴۰) اس سے معلوم ہوا کہ منیٰ میں رات گزارنا سنت ہے ‘ سورج کے طلوع ہونے سے قبل وہاں سے رخصت نہیں ہونا چاہیے۔
(۴۱) نَمرہ اس پہاڑ کا نام ہے جو عرفات اور مزدلفہ کے درمیان میں واقع ہے۔ نہ ہی وہ عرفہ میں داخل ہے اور نہ ہی مزدلفہ میں۔ خانہ کعبہ سے اس کا فاصلہ تقریبا دس کلو میٹر ہے۔ یہ پہاڑ حدودِ حرم میں نہیں ہے‘ بلکہ مزدلفہ کی طرف ہے۔ اس کے فوراً بعد سے حرم کی حدود شروع ہوجاتی ہیں۔
نَمرہ ’’ن‘‘ پر زبر اور ’’م‘‘ پر زیر پڑھا جائے۔ ابن الاثیر کہتے ہیں کہ یہ وہ پہاڑ ہے جس پر حدودِ حرم کے پتھر نصب ہیں۔ یہ عرفات میں داخل نہیں ہے۔
(۴۲) اس راستے میں صحابہ کرامرضی اللہ تعالیٰ عنہم تلبیہ اور تکبیر میں مشغول تھے۔ کوئی تلبیہ پڑھ رہا تھا اور کوئی’’اللہ اکبر‘‘ کہنے میں مشغول تھا ‘جیسا کہ بخاری و مسلم میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔
(۴۳)مشعر الحرام مزدلفہ کے میدان میں ایک چھوٹا سا پہاڑ ہے۔ عہد جاہلیت میں قریش یہیں ٹھہرتے تھے اور عرب کے باقی تمام لوگ مزدلفہ سے آگے بڑھ کر عرفات میں ٹھہرتے تھے۔ اس لیے قریش کا خیال تھا کہ آپ ﷺ بھی ان کی[زمانہ جاہلیت والی] عادت کے مطابق مشعر الحرام ہی کے پاس ٹھہریں گے اور اس سے آگے نہ بڑھیں گے۔ لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ کا اپنے رسول کو حکم تھا:{ثُمَّ اَفِيْضُوْا مِنْ حَيْثُ اَفَاضَ النَّاسُ}(البقرة:۱۹۹)’’ پھر تم بھی وہیں سے واپس ہو جہاں سے لوگ واپس ہوتے ہیں‘‘ اس لیے آپﷺ بھی میدانِ عرفات تشریف لے گئے۔قریش مزدلفہ میں اس لیے ٹھہرتے تھے کہ ان کا کہنا تھا ہم لوگ حرم کے پڑوسی ہیں‘ اس لیے اس سے باہر نہیں جائیں گے۔ یہ باتیں امام نووی ؒنے کہی ہیں۔
(۴۴)اس سے مراد وادی عرنہ ہے جو وادی عرفات سے تھوڑا پہلے ہے اور مسجد عرفات اسی وادی میں واقع ہے ۔یہی وہ جگہ ہے جہاں اللہ کے رسول ﷺ نے حجۃ الوداع کا خطبہ دیا تھا۔ یہ وادی عرفات سے خارج ہے۔
(۴۵)یعنی جو سود اصل پونچی سے زائد تھا ‘جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ ج}(البقرة:۲۷۹)
(۴۶)اس حکم میں عورتوں کے حقوق کی رعایت پر تنبیہہ اور بھلائی و دستور کے مطابق ان کے ساتھ حسنِ معاشرت کی وصیت ہے۔ عورتوں کے حقوق کے بیان‘ ان کے ساتھ حسنِ سلوک کی وصیت اور ان کے حقوق میں کوتاہی پر تنبیہہ کے سلسلے میں بہت سی حدیثیں وارد ہیں جنہیں امام منذری کی الترغیب والترھیب۳ / ۷۱‘۷۳ اور امام نووی کی ’’ریاض الصالحین‘‘ میں دیکھا جاسکتا ہے۔
(۴۷)’’اللہ کے کلمہ‘‘ سے کیا مراد ہے؟ اس کی تفسیر میں امام نوویؒ نے شرح مسلم میں علماء کے چار اقوال نقل کیے ہیں اور فرمایا کہ سب سے صحیح یہ قول ہے کہ اس سے مراد فرمان الٰہی : {فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ} (النساء:۳)’’عورتوں میں سے جو بھی تمہیں اچھی لگیں ان سے نکاح کر لو‘‘ہے۔[(ii) اس سے مراد کلمہ توحید ہے‘ (iii) کلمہ نکاح ‘ یعنی ایجاب وقبول ہے‘(iv) اس سے مراد فرمان الٰہی’’ فَاِمْسَاكٌ  بِمَعْرُوفٍ اَوْ تَسْرِيحٌ  بِاِحْسَانٍ‘‘ (البقرۃ:۲۲۹)ہے۔ اضافہ از مترجم[
(۴۸)اس کا مختار معنی یہ ہے کہ کسی بھی ایسے شخص کو تمہارے گھروں میں داخل ہونے اور بیٹھنے کی اجازت نہ دیں جسے تم ناپسند کرتے ہو‘ خواہ وہ کوئی اجنبی مرد ہو‘ عورت ہو یا عورت کے محارم میں سے کوئی ہو۔ یہ ممانعت ہر ایک کو شامل ہے جیسا کہ امام نووی رحمہ اللہ نے بیان فرمایا ہے۔ پوری بحث شرح صحیح مسلم میں پڑھی جا سکتی ہے۔
(۴۹) اس سے مراد ایسی مار ہے جو نہ تو بہت سخت ہو اور نہ ہی زیادہ تکلیف دہ ہو [کیونکہ اس مار کا مقصد صرف ڈرانا اور تنبیہہ کرنا ہے]۔ میں [البانی] کہتا ہوں کہ یہ ہلکی مار عورتوں پر مردوں کی حاکمیت و قوامیت کا ایک حصہ ہے ‘جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: الرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ الی آخر الآیۃ [النساء:۳۴]۔ پوری آیت اس طرح ہے:
{اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ بِمَا فَضَّلَ اللہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ ط فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللہُ ط وَالّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَہُنَّ فَعِظُوْہُنَّ وَاہْجُرُوْہُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْہُنَّ ج فَاِنْ اَطَعْنَـکُمْ فَلَا تَـبْغُوْا عَلَـیْہِنَّ سَبِیْلًاط اِنَّ اللہَ کَانَ عَلِیًّا کَبِیْرًا (۳۴)} (النساء)
’’مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں۔ پس نیک فرماں بردار عورتیں خاوند کی عدم موجودگی میںبہ حفاظت الٰہی نگہداشت رکھنے والیاں ہیں۔ اور جن عورتوں کی نافرمانی اور بددماغی کا تمہیں خوف ہو انہیں نصیحت کرو اور انہیں الگ بستروں پر چھوڑ دو اور انہیں مار کی سزا دو۔ پھر اگر وه تابع داری کریں تو ان پر کوئی راستہ تلاش نہ کرو۔ بے شک اللہ تعالیٰ بڑی بلندی اور بڑائی والا ہے۔‘‘
(۵۰)میں کہتا ہوں: اللہ کے رسول ﷺ نےسچ فرمایا‘ کیونکہ کم لوگوں کے علاوہ بعدکے اکثر مسلمانوں نے جب کتاب الٰہی کو مضبوطی سے نہ تھاما اور نہ ہی اللہ کے رسول ﷺ کی سنت پر جمے رہے تو گمراہ بھی ہوئے اور ذلیل و خوار بھی۔ انہوں نے انسانوں کے افکارو نظریات اور ان کے مذہب کو ایسی بنیاد بنالیا کہ باہمی اختلاف کی صورت میں انہیں کی طرف رجوع کرتے ہیں‘ یعنی کتاب و سنت کی جو بات ان کے خیالات کے موافق رہی اسے قبول کرلیا اور جو مخالف رہی اسے رد کردیا ۔حتیٰ کہ کسی کہنے والے نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ہر ایسی آیت یا حدیث جو ہمارے مذہب کے خلاف ہے وہ منسوخ سمجھی جائے گی۔ اللہ کی رحمت ہو امام مالکؒ پر‘ انہوں نے کیا خوب کہا:’’ اس اُمّت کے آخری لوگوں کی اصلاح اسی چیز کے ذریعہ ہوسکتی ہے جس چیز کے ذریعہ اس اُمت کے اگلے لوگوں کی اصلاح ہوئی تھی۔‘‘ اس لیے مسلمانوں پر واجب ہے کہ کتاب الٰہی کو مضبوطی سے تھام لیں اور اپنے تمام معاملات میں اسی کو حکم و فیصل تسلیم کرلیں اور اس پر انسانوں کی آراءمیں سے کسی بھی رائے کو خواہ وہ مشرقی ہو یا مغربی‘ کتاب اللہ اور سنت رسولﷺ پر مقدم نہ کریں۔
(۵۱)اس سے مراد وہ چٹانیں ہیں جو جبل رحمت کے نیچے پڑی ہیں [آج شاید ان کا وجود نہیں ہے]۔ جبل رحمت وہ پہاڑ ہے جو میدان عرفات کے بیچ میں واقع ہے۔ امام نووی فرماتے ہیں کہ ٹھہرنے کی مستحب جگہ یہی ہے۔ البتہ عوام میں جو یہ مشہور ہے کہ پہاڑ پر چڑھنے کا اہتمام ہونا چاہیے اور ان کا یہ خیال کہ بغیر اس جگہ ٹھہرے عرفات میں ٹھہرنا صحیح نہ ہوگا‘یہ سب غلط ہے۔
(۵۲)ایک سے زائد حدیثوں میں آیا ہے کہ آپﷺ کھڑے ہوکر ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے رہے۔ میدانِ عرفات میں سنت یہ بھی ہے کہ تلبیہ پڑھتے رہا جائے۔چنانچہ سعید بن جبیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے ساتھ عرفہ کے میدان میں تھے۔ حضرت ابن عباسؓ نے مجھ سے سوال کیا کہ لوگ تلبیہ کیوں نہیں پڑھ رہے ! ہم نے جواب دیا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ڈر رہے ہیں۔ چنانچہ حضرت ابن عباسؓ اپنے خیمے سے نکلے اور پکارا:لبَّیک اللّٰھم لبیک۔ [مستدرک الحاکم ۱ / ۴۶۴‘۴۶۵۔ البیھقی ۵ / ۱۱۲ ] نیزمعجم طبرانی الاوسط میں حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ میدانِ عرفات میں کھڑے تھے‘ آپؐ نے تلبیہ پڑھا اور کہا: لَبَّیکَ اللّٰھُمَّ لَبَّیک۔اس کے ساتھ یہ بھی کہا: اِنَّمَا الخَیرُ خَیرُ الآخِرَۃ۔ (اصل بھلائی تو آخرت کی بھلائی ہے۔) [اس حدیث کی سند حسن ہے]
(۵۳)اس میدان میں آپ ﷺ نے روزہ نہیں رکھا ۔چنانچہ اپنی اونٹنی پر کھڑےتھے تو حضرت اُمّ الفضل رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے دودھ کا ایک پیالہ بھیجا جسے آپﷺ نے پی لیا‘ جیسا کہ بخاری و مسلم میں ہے۔
(۵۴)حدیث میں ’مَورِک رحلہ‘ کا لفظ ہے۔مورک پالان کے اس حصہ کو کہتے ہیں جو آگے کی طرف درمیان میں ہوتا ہے اور جب سوار پاؤں لٹکاتے لٹکاتے تھک جاتا ہے تو اٹھاکر اس پر رکھ لیتا ہے۔
(۵۵)آپ ﷺ اس حالت میں بھی برابر تلبیہ پڑھ رہے تھے‘ جیسا کہ بخاری ومسلم میں حضرت فضل بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی حدیث میں مذکور ہے۔
(۵۶)یہی صحیح ہے‘ اور بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ ایک ہی اقامت سے دونوں نمازیں پڑھی جائیں ‘ خلافِ سنت ہے اور اس بارے میں وارد حدیث بھی شاذ و ضعیف ہے۔ دیکھیے نصب الرایہ ۳/ ۶۹‘۷۰۔
(۵۷)امام ابن القیمؒ لکھتے ہیں کہ اس رات آپﷺ نے تہجد کی نماز نہیں پڑھی‘ اور یہی صحیح ہے۔
(۵۸) اس سے مراد قُزَح نامی پہاڑ ہے جو مزدلفہ میں واقع ہے۔
(۵۹) اس درمیان آپﷺ برابر تلبیہ پڑھتے رہے۔
(۶۰)اس جملے اور قبل ازیں بیان کردہ جملے کہ ’’آپﷺ نے حضرت اسامہ بن زیدؓ کو اپنے پیچھے بٹھا لیا‘‘ سے پتا چلتا ہے کہ اگر جانور طاقتو ر ہو تو اپنے پیچھے کسی اور کو بھی سوار کیا جاسکتا ہے۔اس سلسلے میں بہت سی احادیث ہیں‘ جیسا کہ امام نوویؒ وغیرہ نے اس کی وضاحت کی ہے۔
(۶۱)یہ واقعہ اس واقعہ کے علاوہ ہے جس کا ذکر حضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی حدیث میں ملتا ہے‘ کیونکہ وہ یوم النحر کو [قربان گاہ کے قریب] پیش آیا۔ جب کہ یہ واقعہ وادی محسر سے پہلے کا ہے ۔
(۶۲) مُحَسَّر ’’حسر‘‘ سے بنا ہے‘ جس کے معنی ہیں: تھک جانا اور عاجز ہونا۔ چونکہ اصحابِ فیل کے ہاتھی اس وادی میں روک دیے گئے تھے اسی لیے اسے وادی محسر کہتے ہیں۔ حافظ ابن القیم کہتے ہیں کہ وادی محسر منیٰ اور مزدلفہ کا برزخ ہے۔ نہ ہی وہ منیٰ کا حصہ ہے اور نہ ہی مزدلفہ کا۔ [علامہ البانی لکھتے ہیں کہ] صحیح مسلم اور سنن نسائی میں حضرت فضل بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ محسر ’منیٰ‘ کا حصہ ہے۔
(۶۳) دیگر احادیث میں بھی وارد ہے کہ آپﷺ یہاں تیزتیز چلے ہیں۔ امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ اس جگہ چلنے میں سنت طریقہ یہی ہے۔ امام ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ جس جگہ اللہ کے دشمنوں پر عذاب نازل ہوا ہو وہاں سے گزرتے وقت اللہ کے رسول ﷺ کا معمول یہی تھا۔ چنانچہ ایسا ہی آپ ﷺ نے دیارِ ثمود سے گزرتے وقت کیا تھا‘ غرض یہ کہ اپنے چہرے کو چھپا کرآپﷺ تیزی سے گزر گئے تھے۔
(۶۴) امام نوویؒ لکھتے ہیں کہ اس حدیث سے پتا چلا کہ عرفات سے واپسی پر یہی راستہ اختیار کرنا سنت ہے‘ اور یہ راستہ اس سے الگ ہے جس سے آپﷺ عرفات تشریف لے گئے تھے۔
(۶۵)اس وقت آپ نے تلبیہ پڑھنا بند کردیا ‘جیسا کہ فضل بن عباسؓ وغیرہ کی حدیث میں اس کا ذکرہے۔
(۶۶)امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ کنکریاں [لوبیا کے دانے کے برابر ہوتی ہیں اور مناسب یہی ہے کہ] نہ تو اس سے بڑی ہوں اور نہ ہی اس سے چھوٹی‘ لیکن اگر کنکری اس سے کچھ بڑی یا چھوٹی ہو تو بھی کافی ہوگی۔ علامہ ابن الاثیر الجزری ’النہایہ‘ میں لفظ’خذف‘‘ کی تفسیر اس طرح کرتے ہیں کہ کنکری شہادت کی دونوں انگلیوں کے درمیان رکھ کر پھینکنا ہے۔ علامہ البانی لکھتے ہیں : یہ کیفیت بعض حدیثوں میں بھی ایک سے زائد صحابہ سے مروی ہے‘ جیسے حضرت عبد الرحمٰن بن معاذ کی حدیث سنن ابی داود‘ سنن النسائی‘ مسند احمد اور سنن کبریٰ بیہقی میں‘ حرملہ بن عمرو کی روایت امالی المحاملی اور فوائد المخلص میں اور حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کی روایت طبقات ابن سعد اور صحیح مسلم میں ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس سے مراد خذف جیسی کنکری کی وضاحت ہے یا پھینکنے کی کیفیت کا بیان ہے؟حدیث کے الفاظ دونوں معنی دیتے ہیں لیکن پہلی بات ہی زیادہ قرین قیاس ہے۔ امام نووی اور امام ابن الہمام رحمہما اللہ نے اسی کو راجح قرار دیا ہے۔ مترجم کہتا ہے کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے یہاں پر چند ایسے مسائل کا ذکر کیا ہے جو اصل حدیث میں نہیں ہیں۔ تفصیل سے قطع نظر ‘ان مسائل کا ذکر اختصار کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
(i) یوم النحر کو سورج طلوع ہونے سے قبل کنکری مارنا جائز نہیں ہے‘ حتیٰ کہ کمزور مرد‘ عورتوں اور بچوں کے لیے بھی جائز نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے لیے آدھی رات کے بعد مزدلفہ سے رخصت ہونے کی اجازت ہے۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے اہل و عیال کو پہلے ہی [مزدلفہ سے منیٰ کی طرف] روانہ کردیا اور انہیں حکم دیا کہ طلوع شمس سے قبل کنکری نہ ماریں۔ امام ترمذی:۸۹۲‘ امام ابن حبان :۳۸۵۸ ‘ ۶/۷۰۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے حسن قرار دیا ہے [الفتح ۳/۴۲۲]۔
(ii) اس دن کنکری زوال کے بعدتک‘ بلکہ رات تک مارنے کی رخصت ہے۔ لہٰذا جس کے لیے صبح کے وقت کنکری مارنا دشوار ہو ‘ وہ اس رخصت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اس کی دلیل حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی یہ حدیث ہے کہ یوم النحر کو منیٰ میں اللہ کے رسول ﷺ سے جب کوئی [ایسا] سوال ہوتا [کہ یہ کام پہلے کردیا یا بعد میں کردیا] تو آپﷺ فرماتے: کوئی حرج نہیں ۔ چنانچہ ایک شخص نے سوال کیا کہ :میں نے قربانی سے قبل سر منڈوا لیا؟ آپﷺ نے فرمایا: قربانی کرو کوئی حرج نہیں ۔ سوال کیا کہ میں نے شام ہوجانے کے بعد کنکری ماری؟ آپﷺ نے فرمایا :جاؤ کوئی حرج نہیں۔ [صحیح البخاری: ۱۷۳۵ ، الحج]۔ امام شوکانی اور ان سے قبل امام ابن حزم رحمہما اللہ کا یہی مسلک ہے۔
(iii) جب محرم جمرۂ عقبہ سے فارغ ہوجائے تو اس کے لیے بیوی کے علاوہ ہر چیز حلال ہوجاتی ہے‘ اگرچہ اس نے حلق نہ کرایا ہو۔ اس کی دلیل حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حدیث ہے۔ وہ بیان فرماتی ہیں کہ میں نے حجۃ الوداع کے موقع پر اللہ کے رسول ﷺ کو احرام کے لیے اور احرام سے حلال ہونے کے لیے اپنے ہاتھ سے عمدہ قسم کی خوشبو لگائی‘ جب آپﷺ نے احرام باندھا تھا‘ اور یوم النحر کو طواف افاضہ سے قبل‘ جب جمرۂ عقبہ سے فارغ ہوئے۔ [مسند احمد ۶ /۲۴۵]۔حضرات عطاء‘ مالک‘ ابو ثور اور ابو یوسف رحمہم اللہ جیسے ائمہ کرام کا یہی مسلک ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ سے بھی ایک روایت اسی طرح مروی ہے۔ چنانچہ امام ابن قدامہ کہتے ہیں کہ ان شاء اللہ یہی مسلک صحیح ہے۔ [المغنی۳ / ۴۲۹ ]۔البتہ کنکری مارنے کے ساتھ حلق کی بھی شرط لگانا صحیح نہیں ہے‘جیسا بعض فقہی مذاہب اور حج سے متعلقہ متعدد کتابوں میں مذکور ہے۔ اس صحیح حدیث کے خلاف ہونے کےساتھ کوئی ایسی دلیل بھی نہیں ہے جو اس صحیح حدیث کے مقابل میں پیش کی جاسکے۔ البتہ وہ حدیث جس میں یہ مذکور ہے کہ جب تم کنکری مار لو‘ حلق کرالو اور قربانی کرلو [جیسا کہ ایک روایت میں اس کا اضافہ ہے] تو تمہارے لیے عورت کے علاوہ ہر چیز حلال ہوگئی۔ یہ حدیث ضعیف ہے اور اس کے متن میں اضطراب پایا جاتا ہے۔ جیسا کہ سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ میں اس کی وضاحت کردی گئی ہے۔ دیکھیے حدیث:۱۰۱۳۔
(iv)کنکری چننے کے لیے کوئی جگہ متعین نہیں ہے ‘بلکہ جہاں سے چاہے کنکری چن سکتا ہے جیسا کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے کسی جگہ کی تعیین نہیں فرمائی‘ اور نہ ہی کسی حدیث میں کسی جگہ کی تعیین وارد ہے۔ اس سلسلے میں جو حدیث سب سے واضح ہے وہ یہ کہ حضرت عبد اللہ بن عباس یا حضرت فضل بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ مزدلفہ کی صبح [ایک روایت میں ہے کہ عقبہ کی صبح] اللہ کے رسول ﷺ اپنی سواری پر تھے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ میرے لیے لوبیا کے دانے کے برابر کنکریاں چن لو۔ چنانچہ جب میں نے آپﷺ کے ہاتھ میں رکھیں تو فرمایا: مثل ھؤلاء ‘ ثلاث مرات‘ وایاکم والغلو فی الدین [ان جیسی کنکریاں مارو -یہ بات تین بار فرمائی- اور دین میں غلو سے بچو]۔ النسائی:۳۰۵۹‘ المناسک‘ ابن ماجہ: ۳۰۲۹‘ المناسک‘ المنتقی لابن الجارود: ۴۷۳‘ صحیح ابن حبان: ۱۰۱۱‘ سنن کبریٰ للبیہقی اور مسنداحمد ۱ /۳۴۷‘۲۱۵۔ الفاظ ابن الجارود کے ہیں۔واضح رہے کہ اس حدیث میں کہیں بھی اس کی صراحت نہیں کہ یہ کس جگہ کا واقعہ ہے‘ البتہ حدیث کے سیاق سے ظاہر ہوتا ہے یہ واقعہ جمرۂ عقبہ کے پاس کا ہے ۔اسی لیے امام ابن قدامہ رحمہ اللہ نے مغنی میں لکھا ہے کہ یہ واقعہ منیٰ میں پیش آیا [المغنی ۳/ ۴۲۵]۔ لہٰذا یہ معلوم ہونا چاہیے کہ حاجی لوگ جو اپنی کنکریاں مزدلفہ پہنچنے کے بعد چننا شروع کردیتے ہیں‘ توسنت کے خلاف ہونے کے ساتھ روزانہ کی کنکریاں ساتھ رکھنے میں تکلف سے بھی کام لینا ہے۔ نیز یہ بات بھی واضح رہے کہ جن کنکریوں کو رمی کے لیے استعمال کیا جا چکا ہے‘ انہیں اٹھاکر ان سے رمی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور نہ اس کی ممانعت میں شریعت میں کوئی دلیل موجودہے۔ امام شافعی اور امام ابن حزم رحمہما اللہ کا یہی مسلک ہے۔ پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ حضرت فضل بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی حدیث میں ہے کہ لوبیا کے دانے سے بڑی کنکری مارنا دین میں غلو ہے‘ تو ان جاہلوں کے بارے میں کیا کہاجائے جو جوتے وغیرہ پھینک کر مارتے ہیں۔
(۶۷) اس بیان کا مقصد یہ ہےکہ اے لوگو! اپنے اس حج میں جو کام ہم نے کیا ہے یہ حج کے کام اور اس کا طریقہ ہے‘اور یہی تمہارے لیے حج کا بھی طریقہ ہے ۔لہٰذا سیکھ لو‘ اسے قبول کرو‘ یاد رکھو‘ خود بھی کرو اور لوگوں کو بھی بتلاؤ۔ اعمالِ حج کے سلسلے میں یہ حدیث ایک عظیم بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے جس طرح کہ ’’صَلُّوا کَمَا رَأیتُمُونِی أُصَلِّی‘‘ نماز سے متعلق ایک عظیم بنیاد ہے۔ [نوویؒ]
(۶۸) اس بیان میں اس طرف اشارہ و اعلان تھا کہ رسول اللہﷺ کی وفات کا وقت قریب ہے۔ نیز لوگوں کو اس بات پر ابھارنا بھی مقصود تھا کہ لوگ آپ ﷺ کا طریقہ سیکھنے کا اہتمام کریں اور دینی معاملات اخذ کرنے کے لیے آپﷺ کے ساتھ رہنے کو غنیمت سمجھیں۔ اسی لیے اس حج کو حجۃ الوداع کہا جاتا ہے۔  [نوویؒ]
(۶۹) ایام تشریق یوم النحر کے بعد تین دن ہیں۔ اس حدیث کی بنیاد پر جمہور علماء کا یہی مسلک ہے کہ ان تین دنوں میں زوال کے بعد ہی کنکری مارنا جائز ہے۔ امام نووی لکھتے ہیں کہ ایام تشریق میں کنکری مارنے کے لیے ترتیب شرط ہے۔ یعنی پہلے جمرۂ اولی سے جو مسجد خیف کے پاس ہے شروع کرے ‘پھر درمیانی جمرہ کو‘ اس کے بعد جمرۂ عقبہ کو کنکری مارے۔ نیز مستحب طریقہ یہ ہے کہ پہلے جمرہ کو کنکری مار لینے کے بعد قبلہ رُخ ہوکر دیر تک اللہ کا ذکر اور دعا کرتا رہے۔ اسی طرح دوسرے کو بھی کنکری مار کر قبلہ رُخ ہوکر ٹھہرے [اور دعا و ذکر میں دیر تک مشغول رہے]۔ البتہ تیسرے کو کنکری مارنے کے بعد نہ ٹھہرے۔ یہ طریقہ صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی حدیث سے ثابت ہے۔ یہ عمل ایام تشریق کے تینوں دنوں میں سے ہر دن مستحب ہے۔ واللہ اعلم!
(۷۰)اس روایت کو جو حضرت عطاء نے حضرت جابرؓ سے روایت کیا ہے اسی طرح وارد ہے۔ دوسری روایت جو قبل ازیں گزر چکی ہے‘ اس میں ہے کہ حضرت سراقہؓ نے اللہ کے رسول ﷺ سے یہ سوال سعی سے فارغ ہونے کے بعد مروہ کے دامن میں کیا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت سراقہؓ نے یہ سوال شوق کے جذبے اور تاکید کے لیے دوبارہ کیا ہوگا۔ دیکھیے فتح الباری ۳/۴۸۰
(۷۱)امام نوویؒ لکھتے ہیں کہ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نفلی ہدی اور قربانی کا گوشت کھانا مستحب ہے۔[ علامہ البانی فرماتے ہیں کہ] میں کہتا ہوں کہ یہ معلوم ہے کہ نبی ﷺ قارن تھے اور حضرت علیؓ بھی قارن ہی تھےاور قارن پر ہدی واجب ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کے تمام ہدی نفل نہ تھے بلکہ اس میں واجب ہدی بھی تھی۔ حدیث میں یہ صراحت ہے کہ آپﷺ نے ہر اونٹ سے ایک ٹکڑا لیا تھا‘ اس لیے نفلی ہدی میں سے کھانے کو مستحب کہنا ظاہر کے خلاف ہے ۔ نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ روضۃ الندیۃ صفحہ۲۷۴ میں امام نووی رحمہ اللہ کا قول نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ بظاہر نفلی اور غیر نفلی میں کوئی فرق نہیں ہے‘کیونکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’فَکُلُوا مِنْھَا‘‘ یعنی اس میں سے کھاؤ۔
(۷۲)اس سے معلوم ہوا کہ سنت طریقہ یہ ہے کہ سر کو قربانی کے بعد منڈوائے‘ اور کنکری مار لینے کے بعد قربانی کرے ۔ سنت یہ ہے کہ بال کاٹنے والا جس کے بال کاٹ رہا ہے اس کے دائیں جانب سے کاٹنا شروع کرے‘ بر خلاف مذہب حنفی کے [ان کے نزدیک بال کاٹنے والا اپنے دائیں جانب سے شروع کرے گا]۔ اس کی دلیل حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ [مزدلفہ سے] منیٰ تشریف لائے‘ جمرۂ عقبہ پر پہنچ کر اسے کنکری ماری ‘پھر منیٰ میں اپنی جائے قیام پر تشریف لائے‘ ہدی کا جانور ذبح کیا ‘پھر نائی سے فرمایا: لو اور دائیں جانب اشارہ کیا‘ جب اس سے فارغ ہوگیا تو پھر بایاں جانب اس کے سامنے کردیا‘ پھر [وہ بال] لوگوں کو دینے لگے۔ [صحیح مسلم[ محقق ابن الہمام نے یہاں انصاف سے کام لیا۔ چنانچہ فتح القدیر میں اس حدیث کے نقل کرنے کے بعد فرمایا: اس حدیث سے یہ فائدہ حاصل ہوا کہ حلق کرانے میں سنت کا طریقہ یہ ہے کہ حلق کروانے والے کے سر کے دائیں جانب سے شروع کیا جائے‘ جب کہ یہ مصنف کے ذکر کیے گئے مذہب کے خلاف ہے‘ حالانکہ یہی صحیح ہے۔
(۷۳)اس کا معنی یہ ہے کہ جو کام باقی رہ گئے ہیں انہیں پورا کرو۔ جو کچھ تم نے کیا وہ پورا ہوگیا اور اس تقدیم و تاخیر میں تمہارے اوپر کوئی گناہ نہیں ہے۔
(۷۴)اس میں ہدی کے جانوروں کا مکہ مکرمہ کے اندر ذبح کرنے کا جواز ہے جس طرح کہ اس کا منیٰ میں ذبح کرنا جائز ہے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اپنی سنن۵ / ۲۳۹میں صحیح سند سے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا: اصل تو یہی ہے کہ ہدی کا جانور مکہ میں ذبح کیا جائے ‘لیکن خون کی گندگی سے بچنے کے لیے ایسا نہیں کیا گیا‘ اور منیٰ بھی مکہ کا ایک حصہ ہے۔ پہلی روایت میں حضرت عطاء روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ مکہ میں ہدی کا جانور ذبح کرتے تھے اور عبد اللہ بن عمر ؓمکہ نہیں بلکہ منیٰ میں ذبح کرتے تھے ۔علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : میں کہتا ہوں کہ اگر حاجی حضرات اس حکم کو جانتے اورمکہ ہی میں ذبح کرتے تو منیٰ میں ذبح شدہ جانوروں کے ڈھیر نہ لگ جاتے اور ماحول میں فساد کے ڈر سے اسے منیٰ میں دفن نہ کرنا پڑتا اور اس گوشت سے بہت سے لوگ مستفید ہوتے اور حاجیوں کی بہت بڑی تعداد جس چیز کی شکایت کرتی ہے وہ ختم ہوجاتی۔ ایسا صرف اکثر لوگوں کی شریعت سے نادانی‘ اور جن فضائل پر شریعت نے ابھارا ہے اس کے مطابق عمل نہ کرنے سے ہوتا ہے۔ اس لیے کہ مثال کے طور پر وہ لوگ کمزور اور دبلے پتلے جانور ذبح کرتے ہیں‘ انہیں پال کر موٹا نہیں کرتے ‘پھر ذبح کرکے بغیر چھیلے کاٹے ویسے ہی چھوڑ دیتے ہیں‘ تو جب فقیر و صاحب حاجت وہاں سے گزرتا ہے تو وہاں ایسا مال نہیں پاتا جو اسے لے جانے اور اس سے مستفید ہونے پرابھارے۔ میری رائے میں اگر لوگ درج ذیل چند گزارشات پرعمل کرلیں تو یہ شکایت دور ہوجائے:
i) بہت سے لوگوں کو مکہ ہی میں ذبح کرنا چاہیے۔
ii) یوم النحر ہی کوذبح کرنے کے لیے بھیڑ نہ لگائیں بلکہ ایام تشریق میں بھی ذبح کریں۔
iii) جانوروں کو موٹا کریں [یا تندرست جانور خریدیں]‘ اس کی کھال نکال دیں اور بوٹیاں بنائیں۔
iv)اس میں سے کھائیں اور ممکن ہو تو گوشت کو اپنے ساتھ بھی لائیں ‘جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا تھا۔
سب سے بہتر طریقہ نبی ﷺ کا طریقہ ہے اور اس اُمّت کے آخر کے لوگوں کی اصلاح بھی اسی چیز سے ہوسکتی ہے جس سے اس اُمّت کے پہلے لوگوں کی ہوئی تھی۔ نیز اس زمانے میں کچھ دوسرے ذرائع بھی میسر آگئے ہیں ‘اگر ذمہ دار حضرات ان میں سے بعض کو کام میں لاتے تو یہ مشکل سرے سے حل ہوجاتی۔ اس کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ عید کے چاروں دن بڑی بڑی گاڑیوں کا انتظام کیا جائے جس میں گوشت محفوظ کیے جاتے ہیں۔ منیٰ میں قربانی اور ہدی کے اُس گوشت کو جمع کرنے کے لیے جنہیں حاجی حضرات چھوڑدیتے ہیں‘ کچھ لوگوں کو تیار کیا جائے اور کچھ لوگوں کو گوشت کی کھال اتارنے اور کاٹنے کے لیے متعین کردیا جائے۔ پھر اس گوشت کو ان گاڑیوں میں رکھ کر عید کے چاروں دن مکہ مکرمہ کے ارد گرد دیہات میں چکر لگا کر فقراء و مساکین میں تقسیم کردیا جائے۔ اس طرح ہم اس مشکل کا حل نکال دیں ۔ تو کیا ہے کوئی قبول کرنے ولا؟مترجم کہتا ہےکہ علامہ مرحوم نے یہ بات آج سے تیس سال پہلے کہی تھی اور اب کئی سالوں سے سعودی حکومت نے اس مسئلہ کا بہتر حل نکالا ہے جو ہر شخص جانتا ہے۔
(۷۵)پھر ہر وہ چیز جو حالت احرام میں حرام تھی اب حلال ہوگئی ‘جیسا کہ اس کا ذکر صحیح بخاری و صحیح مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور عبد اللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہما کی حدیث میں ہے۔
(۷۶)حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایسے ہی عام بیان کیا ہے [کہ لوگوں نے طوافِ افاضہ کے ساتھ سعی نہیں کی] لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس کی تفصیل اس طرح بیان کی ہے کہ جو لوگ مکہ مکرمہ داخل ہونے کے بعد طواف و سعی کے بعد عمرہ کی نیت سے حلال ہوگئے تھے ان لوگوں نے منیٰ سے واپس آنے کے بعد [طواف افاضہ کے ساتھ] ایک دوسری سعی کی اور جن لوگوں نے حج و عمرہ کو ایک ساتھ جمع کرلیا تھا [یعنی قارن تھے] انہوں نے ایک ہی سعی پر اکتفا کیا۔ صحیح بخاری و مسلم میں یہ حدیث موجود ہے۔ مترجم کہتا ہے کہ اس کے بعد علامہ مرحوم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی مذکورہ حدیث کی صحت پر جن لوگوں نے اعتراض کیا ہے‘ کئی سطور میں ان کی تردید کی ہے۔ اہلِ علم حضرات اصل عربی کتاب کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔
(۷۷)حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان اسی طرح ہے‘ البتہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا بیان صحیح بخاری و مسلم میں یہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ظہر کی نماز منیٰ میں ادا فرمائی۔ علامہ البانی فرماتے ہیں کہ اس سلسلے میں علماء کے اقوال مختلف ہیں کہ کس صحابی کے بیان کو ترجیح حاصل ہے‘ یا دونوں کے بیان میں کس طرح تطبیق کی جائے! ان میں سےکسی پر بھی میرا دل مطمئن نہیں ہے۔ جو تفصیل چاہتا ہے وہ شرح مسلم للنووی‘ زاد المعاد اور نیل الاوطار کی طرف رجوع کرے۔
فائدہ: پھر آپ ﷺ منیٰ تشریف لائے‘ ایام تشریق میں وہیں قیام پزیر رہے اور روزانہ ترتیب وار تینوں جمرات کو کنکریاں مارتے رہے۔ امام نووی کے بیان میں یہ گزرچکا ہے۔
(۷۸)اس کا معنی یہ ہے کہ بنو عبد المطلب ڈول کے ذریعہ پانی نکال نکال کر حوض میں بھر رہے تھے اور لوگوں کو مفت پانی پلارہے تھے۔
(۷۹)اس کا معنی یہ ہے کہ اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ لوگ یہ سمجھیں گے کہ یہ بھی حج کے کاموں میں سے ایک کام ہے جس کی وجہ سے لوگ یہاں بھیڑ لگائیں گے‘تمہیں پریشان کریں گے اور زبردستی تمہیں یہاں سے ہٹادیں گے تو میں بھی تمہارے ساتھ اس پانی پلانے میں شریک ہوجاتا‘ کیونکہ اس کی بڑی فضیلت ہے۔ [نووی]
(۸۰)یعنی طواف افاضہ یا طواف صدر۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ۳/ ۴۸۰ لکھتے ہیں کہ : تمام روایات اس امر پر متفق ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے طواف افاضہ یوم النحر کو کیا تھا۔
(۸۱)ایک دوسری حدیث صحیح مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے ‘اس کے الفاظ یہ ہیں: کیا لوگ دو اجر لے کر لوٹیں اور میں ایک اجر لے کر واپس چلوں؟
(۸۲)اس کا معنی یہ ہے کہ جب وہ ایسی چیز کی خواہش ظاہر کرتیں جس میں دینی اعتبار سے کوئی کمی نہ ہوتی‘ جیسے ان کا عمرہ کی خواہش ظاہر کرنا تو آپ ﷺاسے مان لیتے تھے۔ اس حدیث میں بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کی دلیل ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۔ خاص کر وہ امور جو عبادات سے متعلق ہوں۔[نوویؒ]
(۸۳)شب حصبہ وہ رات ہے جو ایام تشریق کے بعد آتی ہے۔ اسے ایسا اس لیے کہا جاتا ہے کہ نبی کریم ﷺ وصحابہ کرامؓ جب منیٰ سے رخصت ہوئے تو محصب نامی مقام پر ٹھہرے اور وہیں رات گزاری [نووی] ۔محصب وہ وادی ہے جو مکہ اور منیٰ کے درمیان واقع ہے اور مقام ابطح تک پہنچاتی ہے [نہایہ]۔ علامہ البانیؒ لکھتے ہیں:نبی کریم ﷺ کے قصہ حج کے اس حسن سیاق کے باوجود جہاں تک مجھے معلوم ہو سکاہے ‘حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپﷺ کے طوافِ وداع کا ذکر نہیں کیا ہے۔ البتہ اس کا ذکر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے اسی قصہ کے آخر میں کیا ہے۔ چنانچہ وہ بیان کرتی ہیں کہ جب ہم لوگ اپنے عمرہ سے فارغ ہوکر رات میں آپﷺ کی جائے قیام پر آئے تو آپﷺ نے پوچھا: کیا تم فارغ ہوگئی؟ میں نے کہا: جی ہاں‘ تو آپ ﷺ نے صحابہ کرام میں کوچ کی منادی کرادی۔ چنانچہ آپ ﷺوہاں سے رخصت ہوکر خانہ کعبہ آئے اور نماز صبح کا وقت ہونے سے پہلے ہی طواف سے فارغ ہوکر مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوگئے۔صحیح بخاری وصحیح مسلم و سنن ابو داود۔ الفاظ صحیح مسلم کے ہیں۔
(۸۴)اس طواف اور طوافِ صدر میں اللہ کے رسول ﷺ نے رمل نہیں کیا‘ جیسا کہ صحیحین میں مروی حضرت ابن عمرؓکی حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس کی تعیین نہیں ہے کہ یہ کون سا طواف تھا۔ اس سے قبل یہ گزرچکا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے طوافِ قدوم پیدل کیا تھا‘ اس لیے حدیث میں تطبیق کی ضرورت کے پیش نظر اس حدیث کو یا تو طوافِ افاضہ پر محمول کیا جائے یا پھر طوافِ وداع پر۔ واللہ اعلم!یہ حدیث حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے بھی مروی ہے اور ان سے مروی حدیث کی بعض روایات میں یہ صراحت مذکور ہے کہ سوال کا یہ واقعہ مقام روحاء میں پیش آیاتھا‘ جب آپﷺ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کے لیے واپس ہورہے تھے۔ اس وجہ سے اس فقرے کو ہم نے یہاں [آخر میں] ذکر کیا ہے۔
(۸۵) یعنی اس سبب سے کہ تو اسے اٹھائے رہتی ہے‘ اسے ان امور سے بچا رہی ہے جن سے ایک محرم پرہیز کرتا ہے اور ہر وہ کام اس کی طرف سے کر رہی ہے جو ایک محرم کرتا ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث امام شافعی‘ امام مالک‘ امام احمد اور جمہور علماء کے لیے دلیل ہے کہ بچے کا حج منعقد اور صحیح ہوتا ہے‘اور اس پر اسے اجر بھی ملے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ اسلام کے واجب رکن حج کی جانب سے یہ کافی نہیں ہوتا ‘بلکہ یہ حج نفل شمار ہوگا۔ ہاں‘ ایک فرقہ اس بارے میں منفرد ہے جو کہتا ہے کہ یہی حج اس کے لیے کافی ہوگا۔ علماء نے اس قول کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ نیز امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ بچے کا حج صحیح نہ ہوگا۔ امام ابو حنیفہؒ کے ماننے والوں نے کہا کہ اس سے حج اس لیے کراتے تھے کہ اس کی تربیت ہوجائے اور بچہ اس کا عادی بن جائے تاکہ بعد میں صحیح طریقے سے حج کرسکے۔ امام نووی فرماتے ہیں یہ حدیث ان کی تردید کرتی ہے۔
(۸۶) شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ’’مناسک حج‘‘ میں لکھتے ہیں: باتفاق ائمہ سنت کا طریقہ یہ ہے کہ چادر و تہبند میں احرام باندھا جائے‘ خواہ وہ سلے ہوئے ہوں یا غیر سلے ہوئے۔ ہمارے دوست عبد الرحمٰن الافریقی ‘مدرس مسجد نبویﷺ اپنی کتاب ’’توضیح الحج والعمرہ،ص ۴۴‘‘ میں لکھتے ہیں :سلے ہوئے کا معنی یہ ہے کہ چادر و تہبند طول و عرض میں سلے ہوئے ہوں۔ اس بارے میں عمومی طورپر لوگ غلط فہمی میں مبتلا ہیں ۔وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہر وہ کپڑا جو سلا ہوا ہو اس کا پہننا منع ہے خواہ اس کی سلائی انسانی اعضاء کے مطابق ہو یا نہ ہو بلکہ مطلق سلا ہوا کپڑا منع ہے‘ حالانکہ یہ صحیح نہیں ہے۔ جو سلے ہوئے کپڑے حالت احرام میں منع ہیں اس سے مراد وہ کپڑے ہیں جو انسانی عضو کے مطابق سلائے گئے ہوں جیسے قمیص‘ بنیان‘ جبہ‘ صدری اور پائجامہ۔ اسی طرح وہ کپڑا جو اعضائے انسانی کو احاطہ کیے ہوئے ہو اس کا پہننا بھی محرم کے لیے جائز نہیں ہے خواہ بنائی میں ایسا ہو۔ البتہ چھوٹے ہونے یا تنگ ہونے کی وجہ سے چادر میں جوڑ لگا ہو یا پھٹنے کی وجہ سے اسے سلا لیا گیا ہو‘ ایسا کپڑا جائز ہے۔
(۸۷) شیخ الاسلام ’’مناسک‘‘ میں لکھتے ہیں کہ مستحب یہ ہے کہ فرض نماز یا اگر کسی نفل نماز کا وقت ہے تو اس کے بعد احرام باندھا جائے‘ اہل علم کا ایک قول یہ ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اگر فرض نماز پڑھ رہا ہے تو اس کے بعد احرام باندھے ورنہ احرام کے لیے کوئی خاص نماز نہیں ہے۔ یہی قول زیادہ صحیح ہے۔