(دعوتِ فکر) حیا‘ حیات اور بحر ِمُردار - ڈاکٹر ربیعہ ابرار

7 /

حیا‘ حیات اور بحرِ مُردارڈاکٹر ربیعہ ابرار

{قَالَ اِنِّیْ لِعَمَلِکُمْ مِّنَ الْقَالِیْنَ(۱۶۸) } (الشعراء)
’’اس (لوطؑ) نے کہا :بیشک مَیں تمہارے کام سے نفرت کرنے والوں میں سے ہوں۔‘‘
اللہ کے پیغمبر لوط علیہ السلام سدوم اور اس کےگردو نواح کی بستیوں کی طرف مبعوث کیے گئے تھے۔ قومِ لوط تاریخ کے ابواب میں عبرت کا ایک جدا گانہمقام رکھتی ہے۔ جس طرح اس قوم کے جرم کئی تھے اسی طرح اس پر عذاب بھی ایک سے زائد آئے۔ زلزلے‘ تیز آندھی جو نشان زدہ پتھروں کی بارش لے کر آئی تھی‘ آخر میں جبریل علیہ السلام نے پوری بستی کو بلندی پرلے جا کر اوندھا دے مارا جس سے وہ زمین میں کئی فٹ دھنس گئی اور اس پر سمندر کا پانی چھا گیا جسے آج ’’بحرمردار ‘‘یا ’’بحر المیت ‘‘کہا جاتا ہے۔ جو کبھی سرسبز و شاداب علاقے تھے‘ جب اپنے جرائم پر پکڑے گئے تو اس طرح کہ آج تک اس سمندر میں زندگی پنپ نہیں سکتی۔
قومِ لوط کا نمایاں ترین جرم ہم جنس پرستی تھا۔ فطرت کو الٹنے کی پاداش میں ہی ان پر زمین کو الٹا گیا تھا۔ وہ قوم نہ صرف اس قبیح فعل کی مرتکب تھی جس کے لیے ان کے پیغمبر نے سخت ترین نفرت اور بےزاری کا اظہار کیا تھا بلکہ وہ اس پر حددرجہ مطمئن اور خوش تھے اور اپنی مجلسوں میں اس قبیح فعل کا ارتکاب کیا کرتے تھے۔ آج اگر ہم اپنے دور کا جائزہ لیں تو اس قوم کی تاریخ کو دہرایا جارہا ہے ‘اور وہ بھی زیادہ شدید تر انداز میں۔ یہ گناہ جسے قرآن الفَاحِشۃ کہتا ہے ( لفظ فَاحِشَۃ زنا اور اپنے باپ کی بیویوں سے نکاح کے لیے آیا ہے) اسے نہ صرف بے ضرر اور فطری عمل بناکر پیش کیا جارہا ہے بلکہ مزین بھی کیا جارہا ہے۔ قوسِ قزح کے سات رنگوں والے جھنڈے سے اس کی نمائندگی کی جارہی ہے۔کہا جا رہا ہے کہ محبت تو محبت ہے ‘جو مردوزن کی تفریق سے بالا ہے۔ ہم جنس کی طرف رغبت بھی خدا ہی کی طرف سے ہے ۔ اپنی خواہش کی تکمیل ہر انسان کے بنیادی حقوق میں سے ہے ۔یہ شیطان کے چند وار ہیں جن کے ذریعے وہ اس برائی کو قابل قبول بنا رہا ہے۔
اس معاملے کی شدت کو سمجھنے کے لیے اگر ماضی قریب کی تاریخ کو دیکھا جائے تو اس رجحان کو لے کر آئے تغیر سے چند اہم چیزیں منکشف ہوتی ہیں۔ ایک دور تھا کہ ہم جنس پرستی غیرمسلموں میں بھی اخلاقی‘ قانونی‘ سیاسی‘ مذہبی ہر اعتبار سے جرم اور معیوب سمجھی جاتی تھی۔ ۱۹۵۲ء میں نفسیات کی معروف ترین کتاب Diagnostic & Statistical Manual پہلی بار شائع ہوئی تو اس میں ہم جنس پرستی کو نفسیاتی مرض قرار دیا گیا تھا۔ عقل و شعور رکھنے والا کوئی بھی شخص اس قابل نفرت فعل میں نہیں پڑنا چاہے گا اِلّا یہ کہ کسی کی خواہش اُس کی عقل پر غالب آجائے اور پھروہ رشد و فراست سے بالکل ہی محروم ہو۔ پیغمبر لوط علیہ السلام نے بھی اس مقصد کے لیے اپنے پاس آنے والے لوگوں سے یہی کہا تھا کہ :
{اَلَیْسَ مِنْکُمْ رَجُلٌ رَّشِیْدٌ(۷۸)} (ھود)
’’ کیا تم میں کوئی بھی سمجھ دار آدمی نہیں!‘‘
پچھلی صدی کے نصف اول تک امریکہ جیسے آزاد ملک میں بھی مردوں کا عورتوں جیسا حلیہ اختیار کرنا جرم سمجھا جاتا تھا اور ہم جنس پرستی قابل مذمت گردانی جاتی تھی۔ اس کے حامی البتہ چوری چھپے اپنے مقاصد پورے کر رہے تھے اور ساتھ ہی یہ تحریک بھی شروع ہو چکی تھی کہ نہ صرف اس کام کو نفسیاتی بیماری سمجھنا بند کیا جائے بلکہ اس کو جرم قرار دینا بھی درست نہیں ہے۔ اس سلسلے میں ان کی ایک بڑی فتح Stonewall Riots یا Stonewall Rebellion تصوّر کی جاتی ہے۔ جون ۱۹۶۹ء میں پولیس اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے ایک کلب میں چھاپہ مار کرمخالف جنس کا حلیہ اختیار کرنے والوں کو گرفتار کر رہی تھی کہ وہاں موجود لوگوں نے خوب دنگافساد کیا اور یہ سلسلہ تین روز تک چلا۔ اس واقعے کی یاد میں اس تحریک کے حامی ہر سال جون کے مہینے کو’’Pride Month ‘‘کے طور پر مناتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس مقام پرجہاں وہ کلب تھا ‘ایک یادگار تعمیر کی جارہی ہے جس کا افتتاح یکم جون ۲۰۲۴ء کوکیا جائے گا۔ اس کی تختی پر درج ہے:
"55th Anniversary of Stonewall Rebellion"

یعنی وہ معاملہ جو حضرت لوط علیہ السلام کے زمانے میں تھا کہ وہ لوگ یہ بُرا کام اپنی مجالس میں کرتے تھے توہے ہی ‘اور یہ بھی کہ اُن لوگوں کی طرح یہ بھی باغی لوگ (عَادُون) ہیں (الشعراء:۱۶۶) البتہ یہ لوگ آج قومِ لوط سے بھی اس اعتبار سے آگے بڑھ گئے ہیں کہ اپنے کاموں پر فخر کررہے ہیں اور یادگاریں تعمیر کر رہے ہیں۔
ماضی کی اس جھلک کو ذہن میں رکھتے ہوئے جائزہ لیا جائے کہ محض نصف صدی میں کیا کچھ بدل چکا ہے۔ پہلے مخالف صنف کی عادات و اطوار کو اپنانا نفسیاتی مسئلہ گردانا جاتا تھا‘ اب نہ صرف ایسا کرنے والوں کی عقل کو صحیح و سالم سمجھا جاتا ہے بلکہ ہم جنس پرستی‘ مرد کا خود کو عورت اور عورت کا خود کو مرد سمجھنا ‘ یا بیک وقت دونوں کی خصوصیات اپنے اندر پانا یہ سب نفسیات کے اعتبار سے ایک صحت مند رویہ سمجھا جاتا ہے ۔ مزید یہ کہ کنورژن تھراپی کی کوئی بھی قسم (یعنی کسی کو اس کی قدرتی جنس کی طرف راغب کرنا) قابلِ سزا جرم قرار پاتا ہے۔
۱۹۶۹ء کی ایک رات کو ہونے والے واقعے کے ضمن میں ۲۰۱۹ء میں نیو یارک شہر کے پولیس کمشنر نے اپنے ادارے کے رویے کی معافی مانگی ‘ حالانکہ تب پولیس اُس وقت کے قانون کے تحت مخنثوں کو گرفتار کر رہی تھی اور فسادات کے ذمہ دار پولیس کے خلاف بغاوت کرنے والے تھے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ اس تحریک کے حامی اس قدر طاقت ور ہو چکے ہیں کہ نہ صرف وہ قانون تبدیل کروا چکے ہیں بلکہ ماضی میں اپنی قانون شکنی پر اب معذرت بھی طلب کروا لیتے ہیں۔
قصہ مختصر‘ پچھلی نصف صدی میں عمل قوم لوط ایک قباحت اور غیر قانونی فعل کے بجائے جائز‘ پسندیدہ اور قابل قبول بن چکا ہے۔ آج + LGBTQلابی کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے غیرفطری کاموں کو طبعی اور معمول کی شے ثابت کر دیں‘ اس طرح کہ پھر ایسے کام نامناسب ہونے کا خیال بھی کسی کے ذہن سے نہ گزرے۔
اس تحریک کو جن قوتوں کی سر پرستی حاصل ہے وہ بے تحاشا دولت اور اثرورسوخ کے مالک ہیں۔ ان کے پنجے سیاسی نظام ‘ تعلیمی اداروں‘ شعبہ طب ‘ میڈیا‘ فیشن انڈسٹری ہر جگہ گڑے ہوئے ہیں۔ آج جہاں عوام الناس میں اس کی مقبولیت بڑھ رہی ہے وہیں نوجوان طبقے پراس کے اثرات تشویش ناک ہیں‘ اس لحاظ سے کہ ایک بڑھتی ہوئی تعداد کا رجحان اب اس فعل کی طرف ہے جو اب غلط نہیں سمجھا جا رہا۔ صرف نوجوان طبقہ ہی نہیں‘ ان اثرات سے معصوم بچے بھی محفوظ نہیں۔ اسکولوں میں باقاعدہ طور پر یہ تعلیم دی جا رہی ہے کہ کسی کا بظاہر مرد یا عورت ہونا معنی نہیں رکھتا بلکہ اہم یہ ہے کہ آپ خود کو کیا سمجھتے ہیں۔ مرد مرد سے محبت اور شادی کر سکتا ہے جبکہ عورت عورت سے۔ فیملی (خاندان) دوماؤں یا دو باپوں کی بھی ہو سکتی ہے‘ یعنی ایک ماں اور ایک باپ ہونا ضروری نہیں۔
+ LGBTQ کا فتنہ آج کے دور کا سب سے تیزی سے بڑھتا ہوا فتنہ قرار دیا جائے تو بےجا نہ ہوگا ۔ عمل قوم لوط تو اس کا محض ایک پرتو ہے۔ شیطان نے جہاں برائی کو مزین کرنے کے اپنے دعوے کو پورا کیا ہے وہیں وہ اپنے اس وعدے پر بھی پورا اتر رہا ہے کہ مخلوقِ خدا اس کے اکسانے پر ضرور خالق کی تخلیق میں تبدیلی کرے گی (النساء:۱۱۹ )۔ جہاں بھنویں بنوانے ‘ جسم میں نیل بھروانے (نقش ونگار) اور دانتوں کے بیچ فاصلہ کروانے جیسی معمولی تبدیلیاں لعنت کا سبب ٹھہریں وہیں آج جنس کی تبدیلی کے لیے لوگ لا متناہی تبدیلیاں اپنے وجود میںکیے چلے جارہے ہیں ‘جن میں ظاہری خدو خال ‘ ہارمونز کے نظام اور جسم کے قابل شرم حصوں کی تبدیلی شامل ہے۔ خالق سے دُور جارہی مخلوق خود خدا بننے پر تلی ہے ۔ایک مُردہ عورت سے دوسری زندہ عورت میں رحم مادر کی کامیاب پیوند کاری کی جاچکی ہے‘ اور اب کوشش یہی ہے کہ مرد سے بھی اولاد پیدا کروائی جائے تاکہ مرد عورت کا فرق ہی مٹ جائے ۔۴۲۴ ملین ڈالر ان مقاصد پر خرچ ہو رہے ہیں اور اس رقم کے مزید بڑھنے ہی کا امکان ہے۔
بحیثیت ایک اُمّت جو برپا ہی لوگوں کی بھلائی اور اصلاح کے لیے کی گئی ہے ‘ آج ہم حق پر انجانے میں سست ہوگئے ہیں ۔دوسری جانب باطل کے پیروکار اللہ کی نافرمانی کے کاموں کو نہایت مستعدی سے عام کر رہے ہیں‘ یہاں تک کہ اب مسلمان ممالک بھی ان کے شر سے محفوظ نہیں۔ اس کا اندازہ ۲۰۲۲ء میں قطر میں منعقدہ عالمی فٹ بال مقابلوں سے لگائیے جہاں +LGBTQ لابی بھی اپنی بھر پور نمائش اور نمائندگی چاہتی تھی اور جب انہیں اس سے روک دیا گیا تو انہوں نے اس کا خوب واویلا کیا۔ مگر یہ صرف ایک موقع تھا جہاں کسی اسلامی ملک نے اپنی اقدار کی شرم رکھتے ہوئے برائی کی اشاعت کو روکا تھا ‘وگرنہ فلموں ‘ ڈراموں‘ اشتہارات کے ذریعے سے مسلمانوں کی نسلوں تک کیا کچھ نہیں پہنچ رہا ہے ۔پھر انٹرنیٹ کے اس دور میں ایسا کیا ہے جو کسی سے مخفی رہ گیا‘ یہاں تک کہ ہمارے آپ کے موبائل سٹکرز میں بھی یہ پیغام موجود ہے‘ حمل زدہ آدمی‘ دو مردوں اور دو عورتوں کے درمیان محبت‘ دو مرد اور دو عورتیں بطور والدین اور مخنث کے ایموجی کی شکل میں۔
وطن عزیز پاکستان میں بھی ٹرانس جینڈر بل منظور کروانے کی بھر پور کوشش کی گئی۔ اسے انسان کے اس حق کا پاس دار قرار دیا گیا کہ اگر کوئی مرد خود کو عورت اور کوئی عورت خود کو مرد کہلوانا چاہے ‘ان کے جیسا حلیہ اختیار کرنا چاہے‘ ان کی مخصوص جگہوں مثلاً بيت الخلا یا قطاریں وغیرہ استعمال کرے تو انہیں قانون کی سرپرستی حاصل ہوگی۔ یعنی کوئی ایسا آدمی جو خود کو عورت کہہ دے اور خواتین کی کسی جگہ پر چلا آئے تو اس بل کے تحت وہ قانونی طور پر حق بجانب ہے۔
میڈیا اور لبرل طبقہ تو پہلے ہی گوروں کی تقلید میں ہر اُس شے کا حامی ہے جو ان کو جدید لگتی ہے۔۲۰۲۲ءہی میں ٹرانس جینڈر کے موضوع پر پاکستان سے ایک فلم ریلیز ہوئی تھی‘جسے دنیا میں کافی شہرت اور پزیرائی ملی۔ مسلمانوں میں اس برائی کو پھیلانے کے خواہش مندوں نے اس فلم کو عالمی سطح پر کئی اعزازات کے لیے چنا ‘اور ہونا بھی یہی تھا کہ مسلمانوں کی طرف سے آئے اس طرح کے کسی بھی مواد کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے ۔بات صرف فلموں اور ڈراموں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ شرپسند ہر ممکن طورپر مسلمانوں میں فحاشی پھیلانے کے خواہاں ہیں۔گزشتہ سال امریکی صدر نے پانچ لاکھ امریکی ڈالر پاکستانی اساتذہ کو دینے کی پیشکش کی تاکہ وہ اپنے ملک میں موجود ٹرانس جینڈر نوجوانوں کو مضبوط بنا سکیں۔ اس پروگرام کا مقصد پاکستانی اور پاکستان میں مقیم افغانی اساتذه کو تربیت دینا ہے تاکہ ۱۳ سے ۲۵ سالہ ٹرانس جینڈر نوجوانوں کو انگریزی سکھاکر ان کو بین الاقوامی ٹرانس جینڈر برادری سے جوڑا جائے اور ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو نکھارا جائے۔ اس پروگرام میں شمولیت کے خواہش مند افراد سے کہا گیا ہے کہ وہ درخواست میں یہ بھی لکھ بھیجیں کہ زیادہ سے زیادہ پاکستانی اور افغانی ٹرانس جینڈر نوجوانوں تک رسائی اور رابطہ کس طرح ممکن ہے۔باطل تحریک کے حامی پاکستان اور افغانستان کو خاص طور پر اپنا ہدف بنا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بنگلہ دیش میں بھی بچوں کی نصابی کتابوں میں اپنے پیغامات مخفی انداز میں شامل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
واضح رہے کہ لفظ ٹرانس جینڈر اس شخص کے لیے ہے جو پیدائشی طور پر مکمل مرد یا عورت ہو لیکن وہ مخالف جنس کے طور پر خود کو شاخت کرے۔ وہ لوگ جو پیدائشی طور پر کسی آزمائش کا شکار ہوتے ہیں ان کے لیے’’ انٹر سیکس‘‘ کا لفظ آتا ہے۔ اس کے لیے تو پسندیدہ ہے کہ وہ طبی علاج کے ذریعے اس درمیانی کیفیت سے اپنی غالب جنس کی طرف خود کو منتقل کریں۔ ایسے لوگوں کی طرف معاشرے کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ انہیں ایک باعزت زندگی گزارنے دیں ۔ البتہ انٹرسیکس لوگوں کی آڑ میں ٹرانس جینڈر افراد کا تحفظ اور فروغ ہرگز قابل قبول نہیں۔
الحمد لله‘ گزشتہ سال شرعی عدالت نے ۲۰۱۸ء کے ٹرانس جینڈر بل کو رد کیا ہے۔اس کے باوجود یہ سلسلہ تھما نہیں۔مرد آپس میں شادیاں بھی کر رہے ہیں اور چند ٹرانس جینڈر افراد سوشل میڈیا پر اپنے شوز چلا رہے ہیں جن میں کئی مرتبہ نامناسب مواد زیر گفتگو ہوتا ہے ۔ اسی پر اکتفا نہیں بلکہ اب تو پاکستان میں کئی معروف خواجہ سرا آگاہی کے نام پر اس چیز کی تعلیم عام کر رہے ہیں کہ اپنی پیدائشی جنس کے علاوہ جنس اختیار کرنا بھی جنسی صحت کے لیے اچھا ہے۔
بلاشبہLGBTQ عصر حاضر میں ایک عظیم فتنہ ہے۔ بحیثیت مسلمان ہم پر لازم ہے کہ اس کے سدباب کے لیے جدوجہد کریں۔ اس حوالے سے چند رہنما اصول مندرجہ ذیل ہیں:
٭ حیا
سد ذرائع میں پہلی اور بنیادی چیز برائی کی جڑ کو پکڑنا ہے۔الله تعالیٰ کی حدود کو توڑنے اور فطرت کو مسخ کرنے والے اس گناہ کے پیچھے اصل شے حیا کا ختم ہوجانا ہے۔یہ بات اہم ہے کہ حیا سبھی پیغمبروں کی تعلیم رہی ہے۔ مفہومِ فرمانِ رسول اکرم ﷺ ہے کہ ’’جب تم حیا نہ کرو تو پھر جو جی چاہے کرو ۔‘‘ (صحیح بخاری:۳۴۸۹) حیا ہمارے ایمان کی شاخ ہے اور در حقیقت یہی حیات (زندگی) ہے( حیا اور حیات کا مادہ ایک ہی ہے) ۔جہاں سے یہ ختم ہو جائے وہاں بحرمردار وجود میں آتے ہیں جن میں پھر کبھی زندگی کی کوئی رمق نہیں پائی جاتی۔
٭ علم دین
قرآن حکیم اور سُنّت ِرسولِ کریم ﷺ وہ دو چیزیں ہیں جن کو مضبوط تھامنے والا کبھی بھی گمراہ نہیں ہو سکتا۔ عصر حاضر میں جب دنیا کی اخلاقی اقدار ہر لحظہ بدل رہی ہیں اور تقریباً تمام مذاہب خود کو لوگوں کی خواہشات کے سانچے میں ڈھالتے‘ مسخ ہوتے چلے جارہے ہیں وہاں دین اسلام وہ مضبوط کڑا (العُروۃ الوُثقٰی) ہے جس کو تھامنا ہر سیل رواں سے بچانے کو کافی ہے۔ آج یہ ضرورت ہمیشہ سے زیادہ قوی ہے کہ ہم اپنی اولاد کو قرآن وسُنّت کی تعلیم دیں‘ تاکہ جب بھی وہ کسی نئے فتنے کے روبرو ہوں تو درست طریقے سے اس کا سامنا کر سکیں۔
٭ عبادات
علم اور عمل لازم و ملزوم ہیں۔ علم اگر تلوار ہے تو عبادت ڈھال ہے۔ نماز سے اگر بندگی کی تعلیم ملتی ہے تو یہ فحاشی سے مانع بھی ہے۔ ازروئے الفاظ قرآنی : {اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِط }(العنکبوت:۴۵) روزہ خواہشات کو توڑنے والا‘ نفس کو زیر کرنے والا ہے۔ الله کا ذکر اور اس کی یاد دل کی پاکیزگی کا ذریعہ ہے۔ در حقیقت یہ تقویٰ ہی ہے جو انسان کو ہر چیز سے کافی ہو جاتا ہے۔ شیطان کا تسلط اُسی شخص پر ہوتا ہے جو الله کی یاد سے غافل ہو۔ ازروئے الفاظِ قرآنی : 
{وَمَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَـیِّضْ لَـہٗ شَیْطٰنًا فَہُوَ لَہٗ قَرِیْنٌ(۳۶)}(الزخرف)
’’اور جو کوئی منہ پھیر لے رحمٰن کے ذکر سے‘ اُس پر ہم ایک شیطان مسلط کر دیتے ہیں ‘تو وہ اس کا ساتھی بنا رہتا ہے۔‘‘
٭ عقلی دلائل
اللہ کا حکم ہونا یقینی طور پر کسی کام کو کرنے یا نہ کرنے کی آخری حجت ہونا چاہیے۔ اگر ہمارے بچے کسی بھی معاملہ کے بارے میں عقلی دلائل کا تقاضا کریں تو بجائے اس کے کہ انہیں لعنت ملامت کر کے خود سے دور کردیں ‘تسلی بخش جواب دیں‘ ورنہ شیطان کے ساتھی انہیں اپنی چکنی چپڑی باتوں سے دین سے دور کردیں گے۔ اسلام عقل اور شعور کا دین ہے۔ جب یہ باطل سے ٹکراتا ہے تو اس کا مغز نکال کر رکھ دیتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم حق کو حق طریقے پیش کریں۔ پھر یہ تو الله عزوجل کا فیصلہ ہے کہ جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر نہیں ہو سکتے۔(سورۃ الزمر:۹) لہٰذا آگاہ رہیے اور آگاہی دیتے رہیں۔
مثال کے طور پر ہم جنس پرستوں کی ایک دلیل یہ ہے کہ محبت تو محبت ہے‘ کوئی شخص فطری طور پر اگر اپنے ہم جنس کی طرف راغب ہے تو یہ اختیاری نہیں ہے۔ بہت سے ساده دل لوگ جو اس فعل میں خود مبتلا نہ بھی ہوں تو وہ اس دلیل سے قائل ہو کر ان لوگوں سے ہمدردی رکھنے لگتے یا کم سے کم اسے برا جاننا بند کر دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ بات کوئی بھی ذی شعور انسان سمجھ سکتا ہے کہ جوڑا نر اور مادہ کا ہوتا ہے ۔یہی قانونِ فطرت ہے جبکہ افزائش نسل اور بقائے حیات بھی اسی طریقے پر ہے۔ رہی بات خواہشات اور رغبت کی تو ہم جنس سے ہو یا مخالف جنس سے ‘نکاح کے تعلق سے باہر ان پر قابو رکھنا ہی تو نفس کا جہاد ہے۔ شیطان جو انسان کے لہو کے ساتھ گردش کر رہا ہے‘ وہ اسے بیسیوں غیر فطری اور غیر انسانی کام سجھاتا ہے کہ انسان اپنے مقام و مرتبے سے گر جائے۔ یہ کام ہمارا ہے کہ ہم خواہشات کو اپنا اِلٰہ نہ بننے دیں۔
٭ شکر گزاری
ایک اور عملی حکمت جو ہمیں قرآن حکیم سے معلوم ہوتی ہے وہ ہے شکر گزاری۔سورۃ القمر کی آیت۳۵ میں لوط علیہ السلام اور ان کے اہل کے لیے آتا ہے کہ یہ نجات ہماری نعمت تھی جو شکر گزاروں کو ملا کرتی ہے۔ چنانچہ ہم شکر گزار ہوں جس حال پر بھی باری تعالیٰ نے ہمیں پیدا فرمایا ہے۔ مرد پیدا کیا گیا ہے تو اس پر مطمئن ہوں‘ عورت بنایا گیا ہے تو اس پر خوش رہیں۔ اللہ کے ہاں سب کی نیکی مقبول ہے خواہ مرد ہو یا عورت۔ (آل عمران:۱۹۵)
+LGBTQ کے عجیب فلسفوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ لوگوں کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی روح غلط جسم میں قید ہے۔ مثلاً کوئی مرد زنانہ شوق رکھتا ہے تو اس کا موقف یہ ہوتا ہے کہ میری روح عورت کی ہے اور غلط طور پر مرد کے جسم میں قید ہے۔ لہٰذا اب وہ خود پر طبی اور جراحی کارروائیاں کروا کے عورت بن جائے گا۔پھر یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ خود پر کوئی تبدیلی کروائے۔ کوئی بھلا چنگا ‘بیوی بچوں والا آدمی بھی اگر اچانک بیٹھے بیٹھے کہہ دے کہ میں عورت ہوں تو LGBTQلابی کے نزدیک اب باقی دنیاپر یہ لازم ٹھہرا کہ وہ اسے عورت ہی سمجھیں ۔ اور بات محض مرد عورت پر ختم نہیں ہو جاتی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ سو سے زائد اجناس ہیں اور ہر فرد وہی ہے جو وہ خود کو محسوس کرے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی اس دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو خود کوچاند سمجھتے ہیں (Abrogender)‘ بعض خود کو پیڑ کہتے ہیں‘ بہت سے خود کو otherkin کہتے ہیں۔ کچھ نے ہزاروں ڈالر خرچ کرکے کتوں کے جسم جیسے ملبوس بنوائے ہیں۔ وہ چاروں ہاتھ پاؤں پر چلتے ہیں‘ پیالے میں منہ ڈال کے کھانا کھاتے ہیں۔ کچھ خود کو بلی ‘کچھ خود کو کوّا سمجھتے ہیں ۔ گویا شیطان نے اپنا یہ دعویٰ سچ کر دکھایا کہ{وَلَا تَجِدُ اَکْثَرَہُمْ شٰکِرِیْنَ(۱۷)} (الاعراف)’’اور تو ان کی اکثریت کو شکر گزار نہ پائے گا۔‘‘اللہ کریم نے تو انسان کو اپنے ہاتھ سے تخلیق کا اعزاز بخشا‘ مسجودِ ملائک بنایا لیکن آج انسان ہے کہ اسفل سافلین ہوا جا رہا ہے۔ سچ فرمایا اللہ ربّ العزت نے کہ جو لوگ اُسے بھول جاتے ہیں تو وہ انہیں ان کا اپنا آپ فراموش کرا دیتا ہے۔‘‘ (الحشر:۱۹)
٭ مشابہت سے اجتناب
سد ذرائع کے سلسلے کی ایک نہایت اہم کڑی ’’کراس ڈریسنگ‘‘ یعنی مخالف جنس کی مشابہت سے بچنا ہے۔ آج میڈیا اور عالمی شہرت یافتہ برانڈز شدت سے اس کو فروغ دے رہے ہیں اور یہ رجحان تیزی سے رائج ہورہے ہیں۔ مرد عورتوں کے بھاری بھر کم لباس اور زیورات سے زیبائش اختیار کریں جبکہ عورتیں مردانہ لباس پہنیں اور بال بھی چھوٹے رکھیں۔ مرد اور عورت کی مساوات کے نام پر پھیلتی ہوئی بے راہ روی جہاں اس امر پر مصر تھی کہ عورتیں ہر وہ کام کر سکتی ہیں جو مرد کرتے ہیں‘ اب اس کی نئی اور بدتر شکل یہ سامنے آرہی ہے کہ جینڈر رولز پر اعتراض اٹھایا جارہا ہے۔ جیسے کہ گھر اور بچے عورت ہی کی ذمہ داری کیوں ہوں؟اب تو یہ بھی کہہ دیا گیا کہ درحقیقت جنس کوئی شے نہیں ‘یہ بس معاشرتی تفریق ہے۔ آپ چاہیں تو خود کو اس سے آزاد کر لیں‘یعنی خود کو جینڈر فلوئڈ قرار دے لیں۔ صبح کو مرد شام کو عورت بن جائیں ‘پھر اگلے دن مرد خود کو مرد کہیں‘ یا ایک وقت میں دونوں بن جائیں ‘یا دونوں میں سے کوئی بھی نہ ہوں۔ ایک عجیب الجھاؤ ہے جو ان کے نظریوں میں پایا جاتا ہے۔ سائنس کو مذہب ماننے والے لوگ نہ صرف اخلاقیات‘ مذہب اور عقل کے خلاف جارہے ہیں بلکہ سائنسی حقائق تک کو خلط ملط کرنے سے بھی گریزاں نہیں۔ وہ جو ایک آفاقی سچ ہے‘ پیدائش سے بھی پہلے اور موت کے کئی سالوں بعد بوسیدہ ہڈیوں سے جو جو چیز تشخیص کی جاسکتی ہے یعنی انسان کا مرد یا عورت ہونا ‘اسے جھٹلانا اور اس کے خلاف جانا صریح گمراہی ہے۔ وہ بات جس کی بنیاد پر لوگوں میں ابہام پیدا کیا جا رہاہے‘ اس کے متعلق اسلام اپنا واضح موقف رکھتا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
{وَمَاخَلَقَ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰٓی(۳)} (الیل)
’’اور قسم ہے اُس ذات کی جس نے نر اور مادہ کوپیدا کیا۔‘‘
بات بالکل واضح ہے کہ دنیا میں دو ہی جنس ہیں ‘مرد اور عورت ۔یہ پیغام اللہ تعالیٰ نے نہ صرف اپنی کتاب میں بیان فرمایا ہے بلکہ انسان کے اپنے نفس میں بھی رکھ دیا ہے۔ ظاہری خدوخال‘ قدو قامت‘ پسند نا پسند‘ نفسیات‘ ترجیحات‘ آواز‘ انداز‘ سوچ سے لے کر انسانی جسم کی خرد بینی اکائی یعنی اس کے خلیوں تک میں یہ تفریق موجود ہے۔ مرد اور عورت کےgenes تک مختلف ہیں۔ فرمانِ الٰہی ہے :{ وَلَـیْسَ الذَّکَرُ کَالْاُنْثٰی ج } (آلِ عمران:۳۶)’’ اور لڑکا لڑکی کی طرح نہیں ہوتا۔‘‘
در حقیقت جس طرح اسلام جان‘ مال اور عزّت کا تحفظ چاہتا ہے اسی طرح انسان کی شخصیت اور کردار کی مضبوطی کا بھی خواہاں ہے اور اس کے ذرائع بھی بتا دیتا ہے ۔ اس لیے مخالف جنس کی مشابہت اختیار کرنے والے پر لعنت کی گئی ہے۔ (ابن ماجہ:۱۹۰۳)
٭صحبت ِصالحین
وہ دوست جو دین پر قائم رکھنے میں معاون ہوں‘ ان کی اہمیت پر جتنا زور دیا جائے کم ہے۔ شیطان کا حملہ اس شخص پر شدید تر ہوتا ہے جو اکیلا ہو۔ صحبت کا اثر ہر شخص پر ہوتا ہے۔ نامور فنکار جن کے کروڑوں مداح ہوتے ہیں‘ اس وقت LGBTQ کے الجھاؤ کا شکار ہو گئے جب وہ اس تحریک کے ساتھیوں کی صحبت میں تھے۔
٭ذاتی محاسبہ
تزکیہ نفس ہر برائی سے بچنے کا ذریعہ ہے۔ ہم ذاتی طور پر اپنی حیا کا بھی خیال رکھیں اور بحیثیت قوم بھی اپنے رویوں کو جانچتے رہیں۔ آج پاکستانی میڈیا پر جہاں بےحیائی کی یلغار ہے وہیں + LGBTQکے حوالے سے بھی مواد دکھایا جانے لگا ہے۔تشویش ناک بات اس طرح کی چیزوں پر آنے والے ویوز ہیں۔ بے تحاشا لوگ بنا سوچے سمجھے دیکھتے اور محظوظ ہوتے ہیں جس سے بنانے والوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ دو سال پہلے + LGBTQ کے موضوع پر پاکستان میں فلم بنی جس میں کئی قابل اعتراض چیزیں تھیں۔ دینی غیرت رکھنے والے افراد نے جب احتجاج کیا تو کئی لوگ متجسس ہو کر اس فلم کو دیکھنے گئے ۔اس پر بعض کہنے والوں نے کہا کہ نہ مولوی حضرات اعتراض کرتے نہ فلم کی شہرت بڑھتی۔ کیا نہی عن المنکر کا حکم اللہ کا دیا ہوا نہیں؟ کیا اسلام کے نام پر حاصل کی گئی ریاست میں اس طرح کے کام ہونا اور بے روک ٹوک ہونا درست ہے؟ بحیثیت قوم ہمیں خود کو پرکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ کیا ہم اس قدر اخلاقی زوال کا شکار ہوگئے ہیں کہ کوئی ہمیں کیچڑ میں چلنے سے منع کرے تو ہم پھر بھی اس میں جاپڑیں گے‘ محض یہ دیکھنے کے لیے کہ گندگی کیسی ہوتی ہے۔ فتنوں کے بارے میں تعلیم نبوی یہ ہے کہ ان سے دور رہا جائے‘ کیونکہ ان میں جھانکنے والا بھی ان میں مبتلا ہو جائے گا۔
٭دعا
ایک آخری مگر قوی ترین ہتھیار دعا کا ہے ‘جو ڈھال بھی ہے اور تلوار بھی۔ آج کے ہم جنس پرست کبھی جانوروں سے اس فعل کے فطری ہونے کے شواہد لیتے ہیں‘ تو کبھی آثارِ قدیمہ سے اس فعل کے صدیوں پرانا ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ یہاں تک کہہ دیا گیا کہ ماضی قریب میں جو اسے برا سمجھا جاتا تھا تو وہ سیاسی وجوہات کی بنا پر تھا ورنہ اس میں کچھ غلط نہیں۔ یہاں سورۃ الاعراف کی آیت ۲۸ ذہن میں گونج جاتی ہے:
{وَاِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً قَالُــوْا وَجَدْنَا عَلَیْہَآ اٰبَـآئَ نَا وَاللہُ اَمَرَنَا بِہَاط}
’’ اور جب وہ کسی بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہیں تو کہتے ہیں :ہم نے اپنے باپ دادا کو اس پر پایاہے اور اللہ نے ہمیں اس کا حکم دیا ہے۔‘‘
عین اسی طریقے پر آج ہم جنس پرستی جیسے قبیح فعل کو غیر محسوس طریقے سے ایک عام اور معمول کی بات بنایا جارہا ہے۔ نہ صرف دنیا کے کئی چرچ بلکہ مغربی ممالک کی چند مساجد اس فعل پر سمجھوتا کرچکی ہیں۔ کئی ہم جنس پرست خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ خدانے انہیں ایسا ہی بنایا ہے۔ یعنی ان کے اندر یہ خواہش خدا نے پیدا کی ہے۔
ذہن میں رکھنے کی بات یہ ہے کہ صرف اس برائی سے بچنا ہی کافی نہیں بلکہ اسے قبیح جاننا بھی ضروری ہے ‘ورنہ حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی کا انجام ہمارے سامنے ہے۔ دعا ہے کہ اللہ کریم ہمیں اندھیروں سے روشنی کی طرف لے آئے‘ ہمیں ظاہری اور باطنی ہر طرح کی بے حیائی سے محفوظ فرمائے۔ آمین!