ُحبّ ِمسلمحافظ محمد اسد
استاذ قرآن اکیڈمی یٰسین آباد‘ کراچی
اللہ سبحانہ ‘وتعالیٰ نے جہاد اور مجاہدین کو عجیب شان بخشی ہے۔ اس وقت بظاہر دنیا پر کفر کا نظام قائم ہو چکا ہے اور مسلمان مغلوب ہیں ‘مگر اس کے باوجود جہاں بھی شرعی جہاد شروع ہوتاہے اور مجاہدین میدان میں اُترتے ہیں تو حالات کا رنگ ہی بدل جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت بارش کی طرح برستی ہے اور نا ممکن نظر آنے والے’’اہداف ‘‘ قدموں میں آ گرتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کمی اورکوتاہی ہماری طرف سے ہے ‘ور نہ اللہ سبحانہ وتعا لیٰ کے وعدے پکے اور سچے ہیں ۔یہ آج بھی اسی طرح پورے ہوتے ہیں جس طرح ’’بدر و احزاب ‘‘ میں پورے ہوئے تھے۔
اصل میں مسلمان کو صرف ’’وھن‘‘ کمزور کرتا ہے اور پوری طرح دبا دیتا ہے ‘کسی کافر میں یہ ہمت اور طاقت نہیں کہ وہ مسلمانوں کو کمزور کر سکے یا مکمل مٹا سکے۔ ’’وھن‘‘ کا مطلب خود آقا محمد مدنی ﷺنے ارشاد فرمادیا ہے: ((حُبُّ الدُّنْيَا وَكَرَاهِيَةُ الْمَوْتِ))’’دنیا کی محبت اور موت سے نفرت‘‘۔ یعنی جب مسلمان اس دھو کے بازاور فانی دنیا کی محبت میں غرق ہو جاتا ہے اور موت سے ڈرنے لگتا ہے تو وہ بے حد کمزور ہو جاتا ہے۔ دُنیا کی محبت اور موت سے نفرت یہ دو بیماریاں ہیں مگر یہ ہمیشہ اکٹھی آتی ہیں۔ اس لیے ان دونوں کا مشترکہ نام تجویز فرمادیا گیا اور وہ نام ہے’’ الوھن‘‘۔ اللّٰهُمَّ اِنَّا نَعُوذُ بِكَ مِنَ الْوھن (یا اللہ! ہم آپ کی حفاظت اور پناہ چاہتے ہیں وہن کےحملے سے)۔
دراصل وہن کی بیماری مسلمان کی فطرت سے مطابقت ہی نہیں رکھتی‘ اس لیے جو مسلمان بھی اس بیماری میں مبتلا ہو جائے وہ کسی کام کا نہیں رہتا‘دنیا کا نہ آخرت کا ۔ وہ ذلیل‘ کمزور اور بدنام ہو جاتا ہے۔ سمجھنے کی بات ہے کہ مسلمان نے جب کلمہ طیبہ پڑھ لیا ‘اللہ تعالیٰ کو اپنا معبود خالق ‘حاکم اور رازق مان لیا ‘حضور ِاقدس محمد رسول اللہﷺ کو اپنا آقا‘مرشد اور رہبر مان لیا ‘ آخرت پر سو فی صد یقین باندھ لیا ‘اللہ تعالیٰ کی کتابوں‘ نبیوں اور فرشتوں کو تسلیم کر لیا‘ تقدیر پر ایمان قبول کر لیا‘ تو اب’’حبّ ِدنیا ‘‘کی کیا گنجائش رہ گئی ؟ جہاں رہنا نہیں وہاں پر دل لگا نا عقل مندی کے خلاف ہے۔ جس جگہ کو آخر کار چھوڑ کر جانا ہے اُسے ہی آباد کرنے کے لیے اپنی ساری صلاحیتیں لگا دینا سمجھ داری نہیں۔جب خالق و مالک اللہ تعالیٰ ہے اور اس نے ہمارا رزق پہلے سے مقرر اور مقدر فرما دیا ہے تو پھر دنیا ہی زندگی کا مقصد بنا لینا کلمہ طیبہ کے بنیادی مفہوم کے بھی خلاف ہے۔ اللہ سبحانہ‘وتعالیٰ نے ہمیں دنیا میں بھیجا کہ ہماری فرماں برداری کا امتحان ہو تو پھر یہاں اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کا کیا مطلب؟ دنیا کے لائف سٹا ئل اور فیوچر کی فکر میں ڈوب جانے کا کیا مطلب؟ اپنی دنیا کو بچانے کے لیے دین کو قربان کرنے کا کیا مطلب؟یہاں تو ہم اللہ سبحانہ ‘وتعالیٰ کی فرماں برداری کے لیےبھیجے گئےہیں نہ کہ اپنی خواہشات پوری کرنےکے لیے ۔ اس فرما ںبرداری کا بدلہ آخرت میں یقینی ہے ‘وہاں فرماں برداروں کی ہر تمنا پوری ہو گی۔ جن مسلمانوں پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فضل ہوتا ہے وہ بخل اور ’’وھن‘‘سے محفوظ کر دیے جاتے ہیں۔ وہ شان سے جیتے اور شان سے مرتے ہیں ۔ جب وہ میدانِ جہاد میں اترتے ہیں تو’’کفر یہ نظام‘‘ ٹو ٹنےاور بکھرنے لگتا ہے ۔
غزہ کے مظلومین
اسرائیل کو یہ وہم ہو گیا تھا کہ وہ جو چاہے کر سکتا ہے۔چنا نچہ وہ بہت تیزی سے مسجد اقصیٰ گرانے اور اس کی جگہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرنے کے منصوبے پر کام کر رہا تھا بلکہ مسجد اقصیٰ کے اردگرد سرنگیں بھی کھودی جا چکی تھیں۔وہ اپنے ناپاک عزائم کی طرف بڑھ رہاتھا ‘مگر اللہ سبحانہ‘ وتعالیٰ کاحکم کچھ اور ہی تھا ۔ مجاہدین اسلام ایک نئی شان سے میدان میں آئے اور دنیا کو حیران کر دیا۔ سلام ہے حماس کے مجاہدین کوجنہوں نے ۷ اکتوبر برپا کیا اور حال کو ماضی سے جوڑ کر مستقبل کے ایک نئے نقشے میں رنگ بھرے۔اہل نظر کے نزدیک اتنی بڑی طاقت کے مقابلے میں مٹھی بھر مجاہدین کا حملہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہے ‘لیکن وقت یہ موقف غلط ثابت کر رہا ہے۔ تاریخ نے یہ منظر پہلے نہیں دیکھا کہ دنیا بھر میں غیر مسلم کمیونٹی نے بھی فلسطینیوں کے حق میں احتجاج کیا اور آزاد فلسطین کے نعرے بلند کیے۔ یہی نہیں بلکہ یہود (ملعونین ِجہان ) کابھیانک چہرہ بھی دنیا کے سامنے واضح ہو گیا کہ اصل دہشت گرد یہی ہیں۔ جس طرح وہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہسپتالوں اور اسکولوں پر بم گرا رہے ہیں‘ عورتوں اور معصوم بچوں کو شہید کر رہے ہیں ‘ اس سے تمام عالم میں اُن کے خلاف نفرت بڑھ رہی ہیں۔ سلام ہے اُن والدین پر جنہوں نے اپنے بچوں اور بچیوں کی شہادتوں پر صبر کر کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے دور کی یاد دلا دی۔اُن کے حوصلے اس قدر بلند ہیں کہ کہتے ہیں: ’’جب تک ایک فلسطینی بھی باقی رہے گا‘مسجد اقصیٰ پر یہود کا قبضہ نہیں ہوسکتا ۔‘‘ غزہ کےاُن مکینوں کا قرآن کریم کے ساتھ تعلق بھی سوئی ہوئی اُمت کے لیے مشعل راہ ہے کہ بارود کی بوچھاڑ میں جب اپنے پیاروں کے سر تن سے جدا ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں اور زخمی بچوں کو گود میں لیتے ہیں تب بھی زبان پر قرآن کریم کی تلاوت جاری رہتی ہے ۔
تصویر کادوسرا رُخ
اُمّت مسلمہ کے اہل اقتدار کا معاملہ یہ ہے کہ ۵۷اسلامی ممالک کے سربراہان خاموش تصویر بنے ہوئے ہیں۔ اپنے مسلمان بھائیوں کابہتا خون بڑے آرام سے دیکھ رہے ہیں۔ انہیں اپنے مفادات اتنے عزیز ہیں کہ آقا ؤں کے کہنے پر امدادی سامان کی ترسیل بھی روک دی ہے۔ بے حسی کی انتہا یہ ہے کہ جنگ شروع ہونے کے تقریباً۳۵ روز بعد انہیں ہوش آیا اور او آئی سی کا اجلاس سعودی عرب کے شہر ریاض میں بلایا گیا۔اجلاس کے اختتام پر اسلامی تعاون تنظیم کے رہنما اسرائیل کے خلاف کسی عملی اقدام پر متفق نہیں ہو سکے‘ اگرچہ مختلف نوعیت کی تجاویز پیش کی گئی تھیں۔ایک اُمید سی تھی کہ ایران اور ترکی کی موجودگی کے باعث شاید اسرائیل کے خلاف کچھ سخت فیصلے کیے جا سکیں‘ لیکن ایسا نہ ہو سکا۔دو کمزور ریاستوں لبنان اور الجزائرنے اسرائیل کو تیل کی فراہمی روک دینے کی تجویز پیش کی جس کی متحدہ عرب امارات اور بحرین نے مخالفت کی۔ اجلاس کے بعد حتمی بیان کی اشاعت میں کئی گھنٹوں کی تاخیر سےیہ بات واضح ہو گئی کہ اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس میں اسرائیل کے خلاف مشترکہ کارروائی کا کوئی معاہدہ نہیں ہو پایا۔
واحد اسلامی ایٹمی پاور کا رویّہ
پاکستان کی بات کریں تو ایک طرف عوام کی اکثریت کرکٹ کے نشے میں مست نظر آئی تودوسری طرف اہل اقتدار کے رویے نے واضح کر دیا کہ اسرائیل کو قبول نہ کرنے کے باوجود امریکہ بہادر کا دباؤقائم ہے۔افسوس کہ چند مذمتی بیانات ہی پر اکتفا کیا گیا۔اگر عوام کی بات کی جائے کہ جن میں کسی قدر غیرتِ ایمانی کا جذبہ موجزن ہے اور فطرتِ سلیمہ ابھی پوری طرح مسخ نہیں ہوئی‘انہوں نےنہ صرف امدادی کارروائیوں میں مالی تعاون کیا بلکہ یہودی مصنوعات کا بائیکا ٹ بھی کیا ۔ مساجد اور مدارس میں دعاؤں اور قنوتِ نازلہ کا اہتمام بھی کیاگیا ۔
آخری بات
ان دنوں قرآن کریم کی تلاوت اور آیات میں غور و فکر اس پاکیزہ اور پُر سکون ماحول کا احساس دلاتا ہے جس میں غزہ کے مجاہدین‘ بے باک سپاہی اور اللہ کے لیےصبر و استقامت اختیار کرنے والے رہتے ہیں۔ معرکہ حق و باطل جاری رہے گا۔ اللہ کی مددظاہر ہونے والی ہے اور یقین رکھیں کہ وہ کفار کو ایمان والوں پر غالب نہیں ہونے دے گا۔استقامت کا لفظ ہم بار ہا سنتے ‘ پڑھتے ہیں لیکن غور کرنا چاہیے کہ کیا ہمیں نیکیاں کرنے اور گناہوں سے بچنے پر استقامت حاصل ہے! وقتی طور پر نوافل‘ تلاوت‘ ذکر و درود اور درس و مطالعہ شروع تو کرتے ہیں‘لیکن چند ہی دنوں بعد جذبات ٹھنڈے اور اعمال غائب ہو جاتے ہیں۔ ماہِ رمضان میں یا کسی نیک اجتماع میں گناہوں کو چھوڑنے کا پختہ ارادہ کرتے ہیں اور چند دن اس پر عمل بھی کر لیتے ہیں لیکن پھر وہی گناہوں کا بازار گرم ہو جاتا ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں استقامت عطا فرمائیں۔ اس ضمن میں ایک دُعا جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں کو استقامت حاصل کرنے کے لیے ارشاد فرمائی‘ ملاحظہ ہو:
{رَبَّـنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ہَدَیْتَنَا وَہَبْ لَـنَا مِنْ لَّـدُنْکَ رَحْمَۃًج اِنَّکَ اَنْتَ الْوَہَّابُ(۸) رَبَّــنَـــآ اِنَّکَ جَامِـعُ النَّاسِ لِیَوْمٍ لَّا رَیْبَ فِیْہِ ط اِنَّ اللہَ لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ (۹)} (آل عمران)
’’پروردگار! ہمارے دلوں کو ہدایت عطا کرنے کے بعد (غلط راستے پر) نہ پھیر اور اپنے پاس سے ہم کو رحمت عطا فرما‘ بے شک دینے والا تُو ہی ہے۔ اے ہمارے پروردگار! تو ایک دن جس (کے آنے) میں کسی طرح کا شبہ ہی نہیں لوگوں کو (اعمال کی جزا و سزا کے لیے ) اکٹھا کرے گا ( تو اس دن ہم پر تیری مہربانی کی نظر رہے ) ‘ بے شک اللہ تعالیٰ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔‘‘
tanzeemdigitallibrary.com © 2024